Showing posts with label دوہے. Show all posts
Showing posts with label دوہے. Show all posts

Nov 15, 2008

جمیل الدین عالی کے چند دوہے

مرزا جمیل الدین احمد خان عالی کو ان کے ملی نغمے “جیوے جیوے پاکستان” اور روزنامہ جنگ کے کالموں نے ابدیت دے دی ہے لیکن اردو شاعری میں بھی انکی ایک مستقل حیثیت ہے اور کیوں نہ ہو کہ شاعری انکے خون میں رچی بسی ہے، دادا غالب کے دوست اور شاگرد، والد شاعر اور والدہ کا تعلق میر درد کے خاندان سے ہے۔ آپ صحیح معنوں میں ادبی نجیب الطرفین یا “ادیب الطرفین” ہیں!
دوہے اور عالی جی تو جیسے لازم و ملزوم ہو گئے ہیں۔ انکی کتاب “غزلیں، دوہے، گیت” سے چند دوہے۔
urdu poetry, urdu ghazal, ilm-e-arooz, taqtee, Jamil-ud-Din Aali, جمیل الدین عالی, Doha, دوہہ
Jamil-ud-Din Aali, جمیل الدین عالی
دوہے کبت کہہ کہہ کر عالی من کی آگ بجھائے
من کی آگ بجھی نہ کسی سے، اسے یہ کون بتائے
--------
لئے پھریں دُکھ اپنے اپنے، راجہ میر فقیر
کڑیاں لاکھ ہیں رنگ برنگی، ایک مگر زنجیر
--------
عمر گنوا کر پیت میں ہم کو اتنی ہوئی پہچان
چڑھی ندی اور اُتر گئی، پر گھر ہو گئے ویران
--------
نا مرے سر کوئی طُرہ کلغی، نا کیسے میں چھدام
ساتھ میں ہے اک ناری سانوری اور اللہ کا نام
--------
بیتے دنوں کی یاد ہے کیسی ناگن کی پھنکار
پہلا وار ہے زہر بھرا اور دُوجا امرت دھار
--------
تہ میں بھی ہے حال وہی جو تہ کے اوپر حال
مچھلی بچ کر جائے کہاں جب جَل ہی سارا جال
--------
عالی اب کے کٹھن پڑا دیوالی کا تیوہار
ہم تو گئے تھے چھیلا بن کر، بھیّا کہہ گئی نار
--------
حیدر آباد کا شہر تھا بھیّا، اِندَر کا دربار
ایک ایک گھر میں سو سو کمرے، ہر کمرے میں نار
--------
اُودا اُودا بادل، گہری کالی گھٹا بن جائے
اس کے دھرم میں فرق ہے، جو اس موسم کو ٹھکرائے
--------
کوئی کہے مجھے نانک پنتھی کوئی کبیر کا داس
یہ بھی ہے میرا مان بڑھانا، ہے کیا میرے پاس
--------
اردو والے، ہندی والے، دونوں ہنسی اڑائیں
ہم دل والے اپنی بھاشا کس کس کو سکھلائیں
--------
دھیرے دھیرے کمر کی سختی، کُرسی نے لی چاٹ
چپکے چپکے من کی شکتی، افسر نے دی کاٹ
--------
کیا جانے یہ پیٹ کی آگ بھی کیا کیا اور جلائے
عالی جیسے مہا کَوی بھی “بابو جی” کہلائے
مزید پڑھیے۔۔۔۔