Showing posts with label عرفی شیرازی. Show all posts
Showing posts with label عرفی شیرازی. Show all posts

May 12, 2008

بانگِ درا کا ایک کردار - عرفی شیرازی

یہ مضمون اپریل 2007ء میں لکھا تھا اور کسی بھی موضوع پر میرا پہلا مضمون ہے، سب سے پہلے "ون اردو" پر شائع ہوا اور اسکے بعد "اردو محفل" پر۔
—————
اقبال کے تبحرِ علم اور وسعت مطالعہ کا یہ عالم تھا کہ انکے کلام کے مطالعہ سے یوں لگتا ہے جیسے سارا عالم انکی نگاہ میں تھا۔ فارسی کلام تو خیر دور کی بات ہے، حالانکہ جس پہ علامہ کو فخر تھا، اور جسکے عشاق اب خال خال ہی نطر آتے ہیں، انکا اردو کلام بھی اور ابتدائی کلام بانگِ درا بھی تلمیحات سے بھر پور ہے۔ تلمیح کے لغوی معنی، اچٹتی ہوئی نگاہ ڈالنا کے ہیں، کلام یا نثر میں اسکا مطلب کسی تاریخی واقعہ یا بات کی طرف اشارہ کرنے کے ہوتے ہیں کہ وہ بات قارئین کے ذہن میں تازہ ہوجائے۔ کلامِ اقبال دیکھئے، علامہ پے در پے، قرانی آیات، احادیثِ نبوی، تاریخ اسلام، تاریخ عالم، فلاسفہ، شعرا، متکلمین اور دیگر شخصیات کی طرف اشارہ کرتے ہی چلے جاتے ہیں، اور اقبالیات میں تو تلمیحاتِ اقبال پر باقاعدہ کتب موجود ہیں۔ کلامِ اقبال اور پیامِ اقبال کو صحیح تر سمجھنے کیلیے ضروری ہے کہ قاری علامہ کے ساتھ ساتھ رہے وگرنہ وہی بات ہو جاتی ہے کہ ایک لحظہ غافل ہوئے اور منزل کوسوں دور جا پڑی۔

علامہ نے جہاں تلمیحات بھر پور استعمال کی ہیں وہیں انہوں نے مشہور شعرا کے کلام پر تضمینیں بھی کہیں ہیں۔ تضمین کا لغوی مطلب ملانا یا شامل کرنا ہے اور شاعری میں کسی مشہور کلام کو اپنی نظم میں داخل کرنا یا اس پر کچھ کہنا ہے۔ بانگِ درا میں جہاں اقبال نے دوسرے مشہور فارسی شعرا جیسے بیدل، صائب، ابو طالب کلیم وغیرہ کے فارسی کلام پر تضمینیں کہیں ہیں وہیں انہوں نے عرفی شیرازی کے ایک شعر پر بھی تضمین کہی ہے، اور انہی موصوف کا تعارف مقصود ہے۔

عرفی کا نام محمد جمال الدین تھا اور وہ 1556 میں شیراز میں پیدا ہوا، ابتدائی تعلیم وہیں حاصل کی اور پھر ہندوستان میں چلا آیا کہ یہاں دورِ اکبری تھا اور سارے ایران کے سخن ور اسی کے دربار سے منسلک تھے۔ عرفی نے ہندوستان میں خوب نام کمایا، یہاں اسکے اصل ممدوح عبدالرحیم خانخاناں اور شہزادہ سلیم تھے۔ صرف 36 سال کی عمر پا کر عین عالم شباب میں فوت ہوگیا۔ پہلے لاہور میں دفن ہوا لیکن بعد میں اسکی لاش کو نجفِ اشرف لے جا کر دفن کیا گیا۔

علامہ کی نظم کا پہلا شعر ہی دیکھئے

محل ایسا کیا تعمیر عرفی کے تخیل نے
تصدق جس پہ حیرت خانہء سینا و فارابی

فضائے عشق پر تحریر کی اس نے نوا ایسی
میسر جس سے ہے آنکھوں کو اب تک اشک عنابی

Persian poetry, Persian Poetry with Urdu translation, Farsi poetry, Farsi poetry with urdu translation, Allama Iqbal, علامہ اقبال, Urfi Shirazi, عرفی شیرازی
نظم عُرفی از علامہ محمد اقبال
ابنِ سینا اور فارابی، عالم اسلام کے بلا شک و شبہ دو بہت بڑے فلاسفر اور حکیم تھے اور بو علی سینا کے مدت تک جسکی کتب یورپ میں نصاب کا حصہ رہیں، انکی تمام ریاضتوں کو علامہ نے عرفی کے تخیل پر قربان کردیا۔ اور یہی عرفی کا عوجِ کمال ہے۔ عرفی کا شعرا میں اگر نام مہتاب کی طرح چمک رہا ہے تو اسی بلند تخیل، زورِ بیان، سوزِ عشق اور جدت طرازی کی وجہ سے۔

علامہ نے جب اس سے امت کا مسائل کا حل پوچھا تو دیکھیے کیا شعر جواب میں منتخب کیا ہے۔

نوا را تلخ تر می زن چو ذوقِ نغمہ کم یابی
حدی را تیز تر می خواں چو محمل را گراں بینی

ترجمہ- اگر ذوقِ نغمہ کم ہوگیا ہے تو اپنی نوا کر تلخ تر کر دے، اگر اونٹ پر بوجھ زیادہ ہو تو حدی خواں اپنی لے اور تیز کر دیتے ہیں۔

صدیوں کے تجربات سے یہ بات عیاں ہے کہ عرب جب بے آب و گیاہ ریگستانوں میں سفر کرتے ہیں اور اونٹوں پر بوجھ بھی ہوتا ہے تو وہ حدی خوانی کرتے ہیں جس سے نا صرف انکا خود اپنا سفر کٹ جاتا ہے بلکہ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ اس لے اور تان سے اونٹ بھی بوجھ کو بھول کر مزے سے سفر کاٹ لیتے ہین یہ عرفی کا کمال مشاہدہ تھا کہ اس نے اس حقیقت کو اپنے شعر میں بیان کر دیا اور علامہ نے اسے منتخب کیا۔

علامہ کے انتخاب میں کس کو کلام ہو سکتا ہے، اور یہ بات اگر مدِ نظر رکھیں کہ علامہ ادب برائے ادب کے قائل نہیں تھے، بلکہ ادب برائے زندگی انکا مقصدِ حیات تھا، وہ ایک پیغام اپنی قوم تک پہنچانا چاہتے تھے، اس موضوع کو کسی اور وقت کیلیے اٹھا رکھتا ہوں کہ علامہ نے کبھی بھی خود کو شاعر نہیں سمجھا بلکہ وہ اپنے آپ کو فلسفی یا شاعر فلسفی سمجھتے تھے، تو یہ بات واضح تر ہو جاتی ہے کہ علامہ رمز و کنایہ یا دقیق تشبیہات کے سہارے اپنی شاعری نہیں کر سکتے تھے۔

انکے کلام سے مترشح ہے کہ آپ نے اپنا پیغام واضح اور صاف صاف الفاظ میں بیان کیا ہے اور عرفی کے شعر کو اپنے حق میں لانے سے انکا مقصد بھی یہی تھا کہ جو معروضی حالات اس وقت کے تھے اور جو زمینی حقائق تھے،انکو پیشِ نظر رکھ کر انکی نوا تلخ تر ہی ہونی چاہیے تھی اور اس نا چیز کی رائے میں علامہ شعوری طور پر اس شعر کو اپنے کام اور کلام کے حق میں لائے ہیں۔

عرفی کا ایک عام معنی تو وہی ہے جو ہمارے ذہن میں عرف سے آتا ہے، لیکن مولانا شبلی نعمانی نے اس تخلص کی وجہء تسمیہ یہ بیان کی ہے کہ ایران میں مذہبی مسائل کی علاوہ جو دوسرے مسائل ہوتے ہیں ان کے تصفیے کیلئے جو قاضی کا عہدہ تھا اسکو وہ عرف کہتے تھے اور یہ عہدہ عرفی کے خاندان میں تھا، اسی لیے اس نے فخر کی وجہ سے یہ تخلص رکھا کہ اس زمانے میں عموما شعراء کرام بڑے گھرانوں سے نہیں ہوتے تھے۔

عرفی بہت خود دار آدمی تھا، اس مغلیہ زمانے میں جب شعرا جھوٹ کے پلندے قصیدوں میں انعام کے لالچ میں بیان کرتے تھے اور در در کی جبہ سرائی کرتے تھے، عرفی نے اپنی خودداری کو قائم رکھا اور یہی وجہ ہے کہ وہ بہت مغرور شاعر مشہور ہے۔ اسکا دوسرا بڑا وصف اسکا ہجو گوئی سے پرہیز ہے، فارسی شعرا ایک دوسرے کی ہجو گوئی میں اتنا گر گئے تھے کہ دامنِ شرافت تک کو چھوڑ دیا اور تقریبا ہر بڑے شاعر نے ہجو گوئی کی ہے اور بعضے تو فحشیات اور مغلضات تک آ پہنچے لیکن عرفی نے اپنا دامن اس برائی سے مکمل پاک رکھا۔ لوگوں نے اس کی ہجو گوئی کی، اسکو بہت برا بھلا کہا کہ یہ عام روش تھی کہ شعرا ایک دوسرے کی تضحیک کرکے بادشاہوں کی نظر میں اپنی وقعت بڑھاتے تھے لیکن عرفی انتہائی شریف آدمی تھا۔ ایک اور وصف اسکا، پاک دامنی تھا، اس لہو و لعب کے دور میں جب بادشاہوں سے لیکر ہر صاحبِ مال دادِ عیش دینے میں مصروف تھا، اسنے اپنا دامن ہر قسم کی آلائش سے پاک رکھا۔

عرفی نے شیراز میں کم سنی کے عالم میں ہی شاعری شروع کردی تھی اور وہاں خوب نام کمایا، اس زمانے میں یہ رواج تھا کہ مشاعروں میں کسی موضوع کے حق اور مخالفت میں نظم میں دلائل دیئے جاتے تھے، باوجود اس کے کہ عرفی کم سن تھا وہ دقیق موضوعات پر بڑے بڑے نامور شعراء کے سامنے ایک موضوع کے ہر دو پہلؤں پر دلائل دیتا اور دونوں طرف بازی لے جاتا، لیکن زندگی میں ان کامیابیوں کی اسے بڑی بھاری قیمت چکانا پڑی، کہ اس کے بہت سارے حاسدین پیدا ہوگئے تھے اور یہ کامیابیاں آخر اس کی جان لے کر ہی ٹلیں۔

ہندوستان میں بھی چونکہ اس نے بہت جلد اپنا نام پیدا کرلیا تھا اور خاص طور پر وہ شہزادہ سلیم، جو کہ بعد میں شہنشاہ جہانگیر کے لقب سے تختِ مغلیہ پر جلوہ افروز ہوا، کا منظوِ نظر بن گیا تھا، اسکے حاسدین نے اسے زہر دے کر ختم کر دیا۔ عرفی کو خود بھی اسکا احساس تھا اسلئے ایک جگہ کہتا ہے

از من بگیر عبرت و کسبِ ہنر مکن
با بختِ خود عداوتِ ہفت آسمان مخواہ

مجھے دیکھ کر عبرت حاصل کر اور ہنر پیدا کرنے کا خیال چھوڑ دے، تو کیوں چاہتا ہے کہ سات آسمانوں کی دشمنی مول لے لے۔

عرفی کی تصنیفات میں ایک کتاب موسوم بہ “نفسیہ” تھی جو کہ تصوف میں ہے لیکن ناپید ہے اور ذکر اسکا صرف تذکروں میں ہی رہ گیا ہے، اسکے علاوہ دو مثنویاں اور ایک کلیات موجود ہیں۔ کلیات میں 26 قصیدے، 270 غزلیں اور سات سو اشعار کے قطعات اور رباعیاں ہیں۔ اس زمانے کو شعری روایات کو مدِ نظر رکھتے ہوئے دیکھیں تو یہ تعداد دوسرے شعراء کے کلام کے مقابلے میں کچھ بھی نہیں ہے اور وجہ اسکی یہ ہے کہ اسکا تقریبا 6000 اشعار کا ایک دیوان ضائع ہو گیا تھا، جس کا اس کو بہت قلق تھا اور اسکے غم میں عرفی نے ایک انتہائی درد ناک غزل بھی کہی تھی، لیکن اس ماتم کے دوران انتہائی بلند ہمتی اور جوش کے عالم میں کہتا ہے

گفتہ گر شد ز کفم، شکر کہ نا گفتہ بجاست
از دو صد گنج یکے مشت گہر باختہ ام

اگر کہا ہوا ہاتھ سے چلا گیا ہے تو کیا فکر کہ نا کہا ہوا تو موجود ہے پھر کہہ لوں گا کہ میرے بیش بہا خزانے سے صرف ایک مٹھی بھر گوہر ہی گئے ہیں۔

اپنے زمانے کے شعری مذاق کے مطابق عرفی کا اصل میدانِ سخن قصیدہ ہی تھا لیکن ذاتی طور پر اپنے مزاج کے عین مطابق اسے غزل گوئی ہی پسند تھی اور اسکی غزلیں واقعی ہی لا جواب ہیں، ایک جگہ کہتا ہے

قصیدہ کارِ ہوس پیشگان بود عرفی
تو از قبیلہ عشقی، وظیفہ ات غزل است

عرفی تیرے سامنے قصیدہ ہوس کا کام ہی ہے، تیرا تعلق تو قبیلہء عشاق سے ہے اور تیرا وظیفہ تو غزل ہے۔

مولانا شبلی نعمانی نے عرفی کہ جو شعری خصوصیات بیان کی ہیں ان میں، زورِ کلام، الفاظ کی نئی نئی ترکیبیں اور استعارے، جدتِ تشبیہات، مسلسل مضامین، مضمون آفرینی، طرزِ ادا کی جدت، صدق دوستی، بلند ہمتی، اخلاق اور عشقیہ سوز و گداز شامل ہیں۔ اسکے علاوہ عرفی کی شاعری کا بہت بڑا مقام اسکی فلسفیانہ شاعری ہے، یہ کوئی نئی بات نہیں، خاص بات یہ ہے کہ اسنے اپنی فلسفیانہ شاعری میں بھی شاعرانہ طرزِ ادا کو ہاتھ سے نہیں جانے دیا کہ عموما شعراء کرام فلسفیانہ مضمون کو بیان کرتے ہوئے، تغزل کو قربان کر دیتے ہیں۔ ان سب خصوصیات کی امثال کو طوالت کے خوف سے محذوف کرتا ہوں۔

یہ بھی ایک عجیب اتفاق ہے کہ بذلہ سنجی، حاضر جوابی اور ظرافتِ طیع بھی تمام نابغہء روزگار لوگوں میں بدرجہ اتم پائی جاتی ہے، غالب اور اقبال ہمارے سامنے کی مثالیں ہیں، عرفی بھی اس سے مستسنٰی نہیں ہے، بلا کا ظریف تھا۔

اکبر کے نو رتننوں میں سے دو بھائیوں، ابو الفضل اور فیضی نے بہت نام کمایا انکے باپ کا نام مبارک تھا۔ ایک دن عرفی ابوالفضل کے گھر اسے ملنے گیا تو دیکھا کہ وہ قلم دانتوں میں دبائے سوچنے بیٹھا ہوا ہے، عرفی نے پوچھا، کیا سوچ رہے ہو۔ ابوالفضل نے کہا کی بھائی صاحب/فیضی نے قرآن مجید کی جو بغیر نقطوں کے تفسیر لکھی ہے اسکا دیباچہ اسی طرح یعنی بغیر نقطوں کے لکھ رہا ہوں۔ چاہتا ہوں کہ والد صاحب کا نام بھی اس میں آ جائے اور صنعت کا التزام بھی ہاتھ سے نہ جائے۔ لیکن کچھ سوجھ نہیں رہا۔ عرفی نے فورا کہا اس میں تردد کی کیا بات ہے۔ اپنے لہجے میں ممارک لکھ دو۔ اس وقت گنوار لوگ مبارک کو ممارک ہی کہتے تھے۔

ایک دفعہ فیضی بیمار تھا، عرفی عیادت کو گیا۔ فیضی کو کتوں کا بہت شوق تھا، عرفی نے دیکھا کہ فیضی کے ارد گرد پلے سونے کے پٹے ڈالے گھوم پھر رہے ہیں۔ عرفی نے کہا، مخدوم زادوں کا کیا نام ہے۔ فیضی نے کہا ان کا نام عرفی ہے یعنی کچھ خاص نہیں ہے۔ عرفی نے کہا ، “مبارک” ہو۔

متقدمینِ شعر فارسی اور شعراء اردو پر ، مرزا عبدالقادر کے بعد اگر کوئی شاعر سب سے زیادہ اثر پذیر ہوا ہے تو وہ شاید عرفی ہی ہے۔ تقریبا ہر بڑے شاعر نے عرفی سے فیض حاصل کیا ہے اور اقبال بھی اس سے مستسنیٰ نہیں ہیں۔ اقبال کی فارسی میں ایک پوری غزل عرفی کی زمین، یعنی اسی بحر و قافیہ ردیف میں موجود ہے لیکن اسے طوالت اور فارسی کے خوف سے چھوڑتا ہوں۔ غالب نے بھی عرفی سے بھر پور فیض حاصل کیا ہے ایک شعر اوپر عرفی کا گزر چکا ہے، غالب کے اس شعر میں اسکی بازگشت دیکھیں۔

ہم کہاں کے دانا تھے، کس ہنر میں یکتا تھے
بے سبب ہوا غالب دشمن آسماں اپنا

چند شعر اور عرفی اور غالب کے بیان کرتا ہوں تا کہ بات واضح ہو جائے

بہ کیشِ برہمناں آں کس از شہیدان است
کہ در عبادتِ بت روئے بر زمیں میرد

برہمنوں کے نزدیک شیہد وہ ہے، جو بت کے سامنے سجدے میں گرے ہوئے جان دے دے۔

اور غالب یوں رقم طراز ہیں

وفاداری بشرطِ استواری، اصل ایماں ہے
مرے بت خانے میں تو کعبے میں گاڑو برہمن کو

عرفی کہتا ہے

عشق اگر مرد است، مردے تابِ دیدار آورد
ورنہ چوں موسیٰ بسے آورد بسیار آورد

اگر عشق بلند ہمتی کا نام ہے تو وہ مرد آئے جسے تابِ دیدار ہو، ورنہ جسطرح موسیٰ آئے تھے تو اسطرح کے بہت آتے ہیں۔

اور غالب اس خیال کو یوں پیش کرتے ہیں

دھمکی میں مر گیا جو نہ بابِ نبرد تھا
عشق نبرد پیشہ، طلب گارِ مرد تھا

عرفی کچھ یوں اپنی سیہ بختی بیان کرتے ہیں

ز فروغِ آفتابم نہ بود خبرِ کہ بے تو
چو دو زلف تست یکساں، شب و روزم از سیاہی

مجھے سورج کی روشنی کی خبر ہی نہیں ہوتی کہ تیرے بغیر میرے دن اور رات تیری دو زلفوں کی طرح یکساں سیاہ ہیں۔

اور غالب اس مضمون کو اسطرح باندھتے ہیں

جسے نصیب ہو روزِ سیاہ میرا سا
وہ شخص دن نہ کہے رات کو تو کیونکر ہو

اور آخر میں عرفی کے کلام میں سے چند اشعار، نمونہء کلام کے طور پر

عرفی تو میندیش ز غوغائے رقیباں
آوازِ سگاں کم نہ کند رزقِ گدا را

عرفی تو رقیبوں کے شور و گل سے مت گھبرا کہ آوازِ سگاں سے بھی کبھی گدا کا رزق کم ہوا ہے۔

منم آں سیر ز جاں گشتہ کہ با تیغ و کفن
تا درِ خانہ جلاد غزل خواں رفتم

میں اس جان سے وہ تنگ آیا ہوں کہ تلوار اور کفن کے ساتھ، جلاد کے گھر کی طرف غزل خوانی کرتے ہوئے جا رہا ہوں۔

ہر کس نہ شناسندہء راز است وگرنہ
ایں ہا ہمہ راز است کہ معلومِ عوام است

ہر شخص کو راز پہچان لینے کا ملکہ حاصل نہیں ورنہ جو کچھ عوام جانتے ہیں وہ بھی در اصل سارے کا سارا راز ہی ہے۔

عشق می خوانم و می گریم زار
طفلِ نادانم و اول سبق است

عشق کا سبق لیتا ہوں اور زار زار رو رہا ہوں جیسے نادان بچے کا پہلا سبق ہوتا ہے۔

قبولِ خاطر معشوق شرط دیدار است
بحکمِ شوق تماشا مکن کہ بے ادبی است

دوست جس حد تک پسند کرے اسی حد تک نظارہ کرنا چاہیئے کہ اپنے شوق کے موافق دیکھنا بے ادبی ہے۔

اگرفتم آں کہ بہشتم دہند بے طاعت
قبول کردن و رفتن نہ شرط انصاف ست

میں نے مان لیا کہ مجھے بہشت بغیر عمل کے ہی مل جائے گی لیکن اسے قبول کرنا اور اس میں اسطرح جانا انصاف کے خلاف ہے۔

زبان بہ بند و نظر باز کن کہ منع کلیم
کنایب از ادب آموزی تقاضائیست

زبان بند کرو اور آنکھیں کھولو کہ موسیٰ کو جو منع کیا تھا تو یہ بتانا مقصود تھا کہ ادب ملحوظ رکھنا چاہیئے۔

بیا بہ ملکِ قناعت کہ دردِ سر نہ کشی
ز قصہ ہا کہ بہ ہمت فروشِ طے بستند

قناعت کی طرف آ کہ پھر تمہیں ان کہانیوں سے جو حاتم طائی سے منسوب ہیں کوئی مطلب نہیں رہے گا۔

----

مزید پڑھیے۔۔۔۔