Showing posts with label اصغر گونڈوی. Show all posts
Showing posts with label اصغر گونڈوی. Show all posts

Sep 19, 2017

کہتے ہیں اِک فریبِ مُسلسل ہے زندگی ۔ اصغر گونڈوی

 آلامِ روزگار کو آساں بنا دیا
جو غم ہوا اُسے غمِ جاناں بنا دیا

میں کامیابِ دید بھی، محرومِ دید بھی
جلووں کے اژدہام نے حیراں بنا دیا

یوں مسکرائے جان سی کلیوں میں پڑ گئی
یوں لب کشا ہوئے کہ گُلِستاں بنا دیا

کچھ شورشوں کی نذر ہوا خونِ عاشقاں
کچھ جم کے رہ گیا اسے حرماں بنا دیا

اے شیخ، وہ بسیط حقیقت ہے کفر کی
کچھ قیدِ رسم نے جسے ایماں بنا دیا

کچھ آگ دی ہوس میں تو تعمیر عشق کی
جب خاک کر دیا اسے عِرفاں بنا دیا

کیا کیا قُیود دہرمیں ہیں، اہلِ ہوش کے
ایسی فضائے صاف کو زنداں بنا دیا

اک برق تھی ضمیر میں فِطرت کے موجزن
آج اس کو حُسن و عشق کا ساماں بنا دیا

مجبوریِ حیات میں رازِ حیات ہے
زنداں کو میں نے روزنِ زنداں بنا دیا

وہ شورشیں، نظامِ جہاں جن کے دم سے ہے
جب مختصر کِیا انہیں انساں بنا دیا
Urdu Poetry, Classical Urdu Poetry, Urooz, Arooz, Taqtee, Urdu Meters
ہم اس نِگاہِ ناز کو سمجھے تھے نیشتر
تم نے تو مسکرا کے رگِ جاں بنا دیا

بلبل بہ آہ و نالہ و گُل مستِ رنگ و بُو
مجھ کو شہیدِ رسمِ گُلِستاں بنا دیا

کہتے ہیں اِک فریبِ مُسلسل ہے زندگی
اس کو بھی وقفِ حسرت و حرماں بنا دیا

عالَم سے بے خبربھی ہوں، عالَم میں بھی ہوں میں
ساقی نے اِس مقام کو آساں بنا دیا

اس حُسنِ کاروبار کو مستوں سے پوچھیئے
جس کو فریبِ ہوش نے عصیاں بنا دیا

اصغر گونڈوی
-------
قافیہ - آں یعنی الف نون غنہ ساکن اور الف سے پہلے زبر کی حرکت جیسے آساں میں ساں، جاناں میں ناں، گلستان میں تاں، حرماں میں ماں وغیرہ۔

ردیف - بنا دیا

بحر - بحر مضارع مثمن اخرب مکفوف محذوف

 افاعیل: مَفعُولُ فاعِلاتُ مَفاعِیلُ فاعِلُن
آخری رکن میں‌ فاعلن کی جگہ فاعلان بھی آسکتا ہے۔

علامتی نظام - 122 / 1212 / 1221 / 212
ہندسوں کو اردو کی طرز پر دائیں سے بائیں پڑھیے۔ یعنی 122 پہلے ہے اور اس میں بھی 22 پہلے ہے۔
(آخری رکن میں‌ 212 کی جگہ 1212 بھی آ سکتا ہے)

 تقطیع -

آلامِ روزگار کو آساں بنا دیا
جو غم ہوا اُسے غمِ جاناں بنا دیا

آلام - مفعول - 122
روزگار - فاعلات - 1212
کُ آسا بَ - مفاعیل - 1221
نا دیا - فاعلن - 212

جو غم ہُ - مفعول - 122
وا اُسے غَ - فاعلات - 1212
مِ جانا بَ - مفاعیل - 1221
نا دیا - فاعلن - 212
------
مزید پڑھیے۔۔۔۔

Nov 1, 2012

نہ یہ شیشہ، نہ یہ ساغر، نہ یہ پیمانہ بنے - اصغر گونڈوی

نہ یہ شیشہ، نہ یہ ساغر، نہ یہ پیمانہ بنے
جانِ میخانہ، تری نرگسِ مستانہ بنے

مرتے مرتے نہ کبھی عاقل و فرزانہ بنے
ہوش رکھتا ہو جو انسان تو دیوانہ بنے

پرتوِ رخ کے کرشمے تھے سرِ راہ گذار
ذرّے جو خاک سے اٹھّے، وہ صنم خانہ بنے

موجِ صہبا سے بھی بڑھ کر ہوں ہوا کے جھونکے
ابر یوں جھوم کے چھا جائے کہ میخانہ بنے

کارفرما ہے فقط حُسن کا نیرنگِ کمال
چاہے وہ شمع بنے چاہے وہ پروانہ بنے
urdu poetry, urdu shairy, urdu ghazal, ilm-e-arooz, ilm-e-Urooz, taqtee, behr, اردو شاعری، اردو غزل، تقطیع، بحرعلم عروض, Asghar Gondvi, اصغر گونڈوی
Asghar Gondvi, اصغر گونڈوی

چھوڑ کر یوں درِ محبوب چلا صحرا کو؟
ہوش میں آئے ذرا قیس نہ دیوانہ بنے

خاک پروانے کی برباد نہ کر بادِ صبا
عین ممکن ہے کہ کل تک مرا افسانہ بنے

جرعہٴ مے تری مستی کی ادا ہو جائے
موجِ صہبا تری ہر لغزشِ مستانہ بنے

اُس کو مطلوب ہیں کچھ قلب و جگر کے ٹکڑے
جیب و دامن نہ کوئی پھاڑ کے دیوانہ بنے

رند جو ظرف اٹھا لیں وہی ساغر بن جائے
جس جگہ بیٹھ کے پی لیں وہی میخانہ بنے

اصغر گونڈوی
-----

قافیہ - آنہ یعنی نہ اور اسے پہلے الف ساکن اور زبر کی آواز جیسے پیمانہ میں مانہ، مستانہ میں تانہ، فرزانہ میں زانہ، دیوانہ میں وانہ وغیرہ۔

ردیف - بنے

بحر - بحرِ رمل مثمن مخبون محذوف مقطوع

افاعیل - فاعِلاتُن فَعِلاتُن فَعِلاتُن فَعلُن
(پہلے رکن فاعلاتن کی جگہ مخبون رکن فعلاتن بھی آسکتا ہے، آخری رکن فعلن کی جگہ فعلان، فَعِلن اور فَعِلان بھی آسکتا ہے یوں آٹھ وزن اکھٹے ہو سکتے ہیں)

علامتی نظام - 2212 / 2211 / 2211 / 22
ہندسوں کو اردو کی طرز پر دائیں سے بائیں پڑھیے۔ یعنی 2212 پہلے ہے اور اس میں بھی 12 پہلے ہے۔
(پہلے 2212 کی جگہ 2211 اور آخری 22 کی جگہ 122، 211 اور 1211 بھی آ سکتا ہے)

تقطیع -

نہ یہ شیشہ، نہ یہ ساغر، نہ یہ پیمانہ بنے
جانِ میخانہ، تری نرگسِ مستانہ بنے

نہ یہ شیشہ - فَعِلاتن - 2211
نہ یہ ساغر - فَعِلاتن - 2211
نہ یہ پیما - فَعِلاتن - 2211
نہ بنے - فَعِلن - 211

جانِ میخا - فاعلاتن - 2212
نہ تری نر - فَعِلاتن - 2211
گَسِ مستا - فعلاتن - 2211
نہ بنے - فَعِلن - 211
-----

مزید پڑھیے۔۔۔۔

Jun 18, 2012

یہ عشق نے دیکھا ہے، یہ عقل سے پنہاں ہے - غزل اصغر گونڈوی

یہ عشق نے دیکھا ہے، یہ عقل سے پنہاں ہے
قطرہ میں سمندر ہے، ذرّہ میں بیاباں ہے

ہے عشق کہ محشر میں، یوں مست و خراماں ہے
دوزخ بگریباں ہے، فردوس بہ داماں ہے

ہے عشق کی شورش سے، رعنائی و زیبائی
جو خون اچھلتا ہے، وہ رنگِ گلستاں ہے

پھر گرمِ نوازش ہے، ضو مہرِ درخشاں کی
پھر قطرہٴ شبنم میں، ہنگامہٴ طوفاں ہے

اے پیکرِ محبوبی میں کس سے تجھے دیکھوں
جس نے تجھے دیکھا ہے، وہ دیدہٴ حیراں ہے

سو بار ترا دامن، ہاتھوں میں مرے آیا
جب آنکھ کھلی دیکھا، اپنا ہی گریباں ہے
Asghar Gondvi, اصغر گونڈوی, Urdu Poetry, Urdu Ghazal, Urdu Shairi, Ilm-e-Arooz, Ilm-e-Urooz, Taqtee, Classical Urdu Poetry, Behr, اردو شاعری، اردو غزل، کلاسیکی اردو شاعری، علم عروض، بحر، تقطیع
Asghar Gondvi, اصغر گونڈوی

اک شورشِ بے حاصل، اک آتشِ بے پروا
آفت کدہٴ دل میں، اب کفر نہ ایماں ہے

دھوکا ہے یہ نظروں کا، بازیچہ ہے لذّت کا
جو کنجِ قفس میں تھا، وہ اصلِ گلستاں ہے

اک غنچہٴ افسردہ، یہ دل کی حقیقت تھی
یہ موج زنی خوں کی، رنگینیِ پیکاں ہے

یہ حسن کی موجیں ہیں یا جوشِ تبسّم ہے
اس شوخ کے ہونٹوں پر، اک برق سی لرزاں ہے

اصغر سے ملے لیکن، اصغر کو نہیں دیکھا
اشعار میں سنتے ہیں، کچھ کچھ وہ نمایاں ہے

اصغر گونڈوی
------

بحر - بحر ہزج مثمن اخرب
(یہ ایک مقطع بحر ہے یعنی ہر مصرع دو مساوی ٹکڑوں میں تقسیم ہوتا ہے اور ہر ٹکڑا، ایک مصرع کے احکام میں آ سکتا ہے۔ )

افاعیل - مَفعُولُ مَفَاعِیلُن / مَفعُولُ مَفَاعِیلُن

اشاری نظام - 122 2221 / 122 2221
ہندسوں کو اردو رسم الخط کے مطابق یعنی دائیں سے بائیں پڑھیں یعنی  122 پہلے ہے اور اس میں بھی 2 پہلے ہے۔

تقطیع -

یہ عشق نے دیکھا ہے، یہ عقل سے پنہاں ہے
قطرہ میں سمندر ہے، ذرّہ میں بیاباں ہے

یہ عشق - مفعول - 122
نِ دیکا ہے - مفاعیلن - 2221
یہ عقل - مفعول - 122
سِ پنہا ہے - مفاعیلن - 2221

قطرہ مِ - مفعول - 122
سمندر ہے - مفاعیلن - 2221
ذر رہ مِ - مفعول - 122
بیابا ہے - مفاعیلن - 2221
------


مزید پڑھیے۔۔۔۔

Dec 28, 2011

کچھ اس انداز سے چھیڑا تھا میں نے نغمۂ رنگیں - اصغر گونڈوی

اصغر گونڈوی اردو شاعری کا ایک اہم نام ہیں لیکن جس قدر ان کا کلام اچھا ہے اس قدر وہ مقبول نہ ہو سکے۔ آپ ایک صوفیِ باصفا تھے اور کلام میں بھی تصوف کی چاشنی بدرجہ اتم موجود ہے۔ علامہ اقبال انکی شاعری کی بہت تعریف فرماتے تھے اور مولانا ابوالکلام آزاد نے کہا تھا کہ اگر اردو شاعری کو ایک اکائی فرض کیا جائے تو آدھی شاعری صرف اصغر گونڈوی کی ہے۔

اصغر گونڈوی کی ایک خوبصورت غزل

نہ ہوگا کاوشِ بے مدّعا کا رازداں برسوں
وہ زاہد، جو رہا سرگشتۂ سود و زیاں برسوں

ابھی مجھ سے سبق لے محفلِ رُوحانیاں برسوں
رہا ہوں میں شریکِ حلقہٴ پیرِ مُغاں برسوں
urdu poetry, urdu ghazal, ilm-e-arooz, taqtee, asghar gondvi
اصغر گونڈوی Asghar Gondvi
کچھ اس انداز سے چھیڑا تھا میں نے نغمۂ رنگیں
کہ فرطِ ذوق سے جھومی ہے شاخِ آشیاں برسوں

جبینِ شوق لائی ہے وہاں سے داغِ ناکامی
یہ کیا کرتی رہی کم بخت، ننگِ آستاں برسوں

وہی تھا حال میرا، جو بیاں میں آ نہ سکتا تھا
جسے کرتا رہا افشا، سکوتِ رازداں برسوں

نہ پوچھو، مجھ پہ کیا گزری ہے میری مشقِ حسرت سے
قفس کے سامنے رکھّا رہا ہے آشیاں برسوں

خروشِ آرزو ہو، نغمۂ خاموش الفت بن
یہ کیا اک شیوۂ فرسودۂ آہ و فغاں برسوں

نہ کی کچھ لذّتِ افتادگی میں اعتنا میں نے
مجھے دیکھا کِیا اُٹھ کر غبارِ کارواں برسوں

وہاں کیا ہے؟ نگاہِ ناز کی ہلکی سی جنبش ہے
مزے لے لے کے اب تڑپا کریں اربابِ جاں برسوں

محبّت ابتدا سے تھی مجھے گُلہائے رنگیں سے
رہا ہوں آشیاں میں لے کے برقِ آشیاں برسوں

میں وہ ہر گز نہیں جس کو قفس سے موت آتی ہو
میں وہ ہوں جس نے خود دیکھا نہ سوئے آشیاں برسوں

غزل میں دردِ رنگیں تُو نے اصغر بھر دیا ایسا
کہ اس میدان میں روتے رہیں گے نوحہ خواں برسوں

اصغر گونڈوی

--------

بحر - بحر ہزج مثمن سالم

افاعیل - مَفاعِیلُن مَفاعِیلُن مَفاعِیلُن مَفاعِیلُن

اشاری نظام - 2221 2221 2221 2221
(ہندسوں کو دائیں سے بائیں پڑھیے یعنی 1 پہلے اور 222 بعد میں)

تقطیع -

نہ ہوگا کاوشِ بے مدّعا کا رازداں برسوں
وہ زاہد، جو رہا سرگشتۂ سود و زیاں برسوں

نہ ہوگا کا - مفاعیلن - 2221
وَ شے بے مُد - مفاعیلن - 2221
دَ عا کا را - مفاعیلن - 2221
ز دا بر سو - مفاعیلن - 2221

وُ زاہد جو - مفاعیلن - 2221
رہا سر گش - مفاعیلن - 2221
تَ اے سُو دو - مفاعیلن - 2221
ز یا بر سو - مفاعیلن - 2221

-------
مزید پڑھیے۔۔۔۔