Showing posts with label میری شاعری. Show all posts
Showing posts with label میری شاعری. Show all posts

Sep 3, 2011

یہ بھی سُنو ۔۔۔۔۔۔

قلتِ سامعین و قارئین کا شور ہر طرف ہے، کسی سے بات کر کے دیکھ لیں، کسی عالم فاضل سے، کسی خطیب مقرر سے، کسی ادیب سے، کسی شاعر کی دکھتی رگ پر ہاتھ رکھ دیں، حتٰی کہ کسی بلاگر کا حالِ دل پوچھ لیں، یہی جواب ملے گا کہ جناب اب اچھے قاری یا سامع کہاں ملتے ہیں، یہ الگ بات ہے کہ قارئین اور سامعین کا جواب بھی کچھ ایسا ہی ہوتا ہے۔

دوسروں تک اپنی آواز پہنچانا اور کچھ نہ کچھ سنانا شاید بہت ضروری ہے، لیکن ضروری تو نہیں کہ ہر کسی کی اس نقار خانے میں سنی جائے مرزا غالب فرماتے ہیں۔

کب وہ سنتا ہے کہانی میری
اور پھر وہ بھی زبانی میری

ہاں مرزا کے 'روگ' کچھ ایسے ہی تھے لیکن یہ بھی چنداں ضروری نہیں کہ ہر کسی کا مرزا والا حشر ہی ہو، مولانا رومی علیہ الرحمہ ایسی آواز سنا گئے کہ صدیاں گزر گئیں لیکن آج تک ہر طرف صاف صاف اور واضح سنائی دیتی ہے، 'مثنوی' کا آغاز اسی سننے سنانے سے کیا ہے اور کیا خوب آغاز کیا ہے، فرماتے ہیں۔

بِشنو، از نَے چوں حکایت می کُنَد
وَز جدائی ہا شکایت می کُنَد
بانسری کی سنو، کیا حکایت بیان کرتی ہے، اور (ازلی) جدائیوں کی کیا شکایت کرتی ہے۔

اور داستان سنانے والا، اللہ کا ایک بندہ ایسا گزرا ہے کہ سلطانِ وقت نے اسے ایک ایک شعر کے بدلے ایک ایک اشرفی دینے کا وعدہ کیا اور اس نے چالیس ہزار ایسے اشعار سنائے کہ ابد تک اشرفیوں میں تلتے رہیں گے۔ لیکن وائے اس شاہ پر کہ اپنے وعدے سے مکر گیا اور سونے کی اشرفیوں کو چاندی کے سکوں سے بدل دیا، خود دار فردوسی نے سلطان محمود غزنوی کی اس وعدہ خلافی کو قبول کرنے سے انکار کر دیا، 'شاہنامہ' کو بغل میں دابا اور اسکے پایہ تخت سے بھاگ گیا۔ 'زود پشیماں' سلطان کو سالہا سال کے بعد احساس ہوا اور جب اس شاعرِ بے مثال کے شہر پہنچا تو اسکے گھر چالیس ہزار اشرفیاں لیکر حاضر ہوا لیکن درویش شاعر دنیا سے کوچ کر چکا تھا، خوددار باپ کی خوددار بیٹی نے سلطان سے اشرفیاں لینے سے بھی انکار کر دیا۔

سلطان کی یہ ناگفتنی کہانی بھی ہمیشہ سنائی جاتی رہے گی لیکن کہاں دنیا کا سلطان اور کہاں اقلیم سخن کا فرمارواں، فردوسی پورے جوش و جذبے سے فرماتے ہیں

ع- دگرہا شنیدستی ایں ھَم شَنَو
دیگر تو بہت کچھ سن چکے اب یہ بھی سنو۔

خیر کہاں یہ بزرگ 'بزورِ بازو' سنانے والے کہ اتنا زورآور قلم کسی کو ہی نصیب ہوا ہوگا اور کہاں ہم جیسے طفلانِ مکتب جو کسی کا یہ شعر گنگنا کر ہی دل خوش کر لیتے ہیں۔

وہی قصّے ہیں وہی بات پرانی اپنی
کون سنتا ہے بھلا آج کہانی اپنی

اب سننے سنانے کی بات 'پرانی کہانیوں' تک پہنچ ہی گئی ہے تو اس طفلِ مکتب کی ایک رباعی بھی سن لیں جو کچھ سال پرانی ہے اور میری پہلی رباعی ہے۔

بکھرے ہوئے پُھولوں کی کہانی سُن لے
ہے چار دنوں کی زندگانی سُن لے
پیری میں تو ہوتے ہیں سبھی وقفِ عشق
کرتا ہے خراب کیوں جوانی سُن لے

سنایا تو ظاہر ہے اپنے آپ کو ہی ہے، ہاں اگر کسی قاری کو لگے کہ ان کو سنا رہا ہوں تو انہیں مبارک باد کہ ابھی تک جوان ہیں یا کم از کم اپنے آپ کو جوان سمجھتے ہیں۔
مزید پڑھیے۔۔۔۔

Jun 5, 2010

چند تازہ رباعیاں، بلاگ کے حوالے سے

صریرِ خامۂ وارث کو اس "نقار خانے" میں دو سال ہو گئے، اسی حوالے سے کچھ رباعیاں کل شام سے ذہن میں گردش کر رہی تھیں سو "جیسی ہیں جہاں ہیں" کی بنیاد پر لکھ رہا ہوں۔ ان رباعیوں میں اگر آپ کو دل برداشتہ اور قلم برداشتہ نظر آؤں تو مجھے انسان سمجھ کر معاف فرما دیں کہ "پتھّر نہیں ہوں میں"، اور کیا لکھوں کہ باقی سب کچھ تو رباعیوں میں لکھ دیا ہے، لیکن یہ ضرور کہوں گا کہ بلاگ سے یاری جاری ہے۔

اک رسم تھی، سو ہے اب تلک وہ جاری
محنت جو لگی خوب تو چوٹیں کاری
جانے کیا سوچ کے بنایا تھا بلاگ
خود ہی میں لکھاری ہوں خود ہی قاری

سوچا ہے سیاست پہ لکھوں گا میں بھی
یعنی کہ غلاظت پہ لکھوں گا میں بھی
اپنی تو نظر آتی نہیں کوئی برائی
اوروں کی نجاست پہ لکھوں گا میں بھی

قاری بڑھ جائیں گے، لکھوں مذہب پر
الفاظ و افکار کے ماروں پتھّر
عالِم ہوں، فاضِل ہوں, پڑھا ہے کلمہ
بس میں ہوں مسلماں باقی سب کافر

یہ بھی ہے بلاگ پہ لکھوں میں گالی
پھر دیکھنا کیسے بجتی ہے تالی
جو عقلِ سلیم آئے سمجھانے کو
تو کہہ دوں، چل بھاگ، حرامی، سالی

محبوب کے انکار میں اقرار کو دیکھ
اپنوں پہ نظر رکھ، نہ تُو اغیار کو دیکھ
کیوں ہوتا ہے گرفتہ دل میرے اسد
چھوڑ اسکی برائیاں فقط "یار" کو دیکھ

والسلام


مزید پڑھیے۔۔۔۔

Aug 28, 2009

ایک تازہ غزل

ایک تازہ غزل دوستوں کے نام

تازہ ہوا کا جھونکا بنایا گیا مجھے
دنیائے بے نمو میں پھرایا گیا مجھے
میں آنکھ سے گرا تو زمیں کے صدف میں تھا
بہرِ جمالِ عرش اُٹھایا گیا مجھے
سازش میں کون کون تھا، مجھ کو نہیں ہے علم
مُصحَف میں اک ہی نام بتایا گیا مجھے
بخشی گئی بہشت مجھے کس حساب میں؟
دوزخ میں کس بنا پہ جلایا گیا مجھے؟
چیخا کبھی جو دہر کے ظلم و ستم پہ میں
قسمت کی لوری دے کے سُلایا گیا مجھے
بیدادِ دہر نے جو کیا سنگ دل ہمیں
تو کربلا دکھا کے رُلایا گیا مجھے
تسخیرِ کائنات کا تھا مرحلہ اسد
یوں ہی نہیں یہ علم سکھایا گیا مجھے

مزید پڑھیے۔۔۔۔

Jun 25, 2009

ایک نئی غزل

ایک تازہ غزل جس کا 'نزول' پرسوں ہوا سو لکھ رہا ہوں۔ عرض کیا ہے۔

نہ سرا ملا ہے کوئی، نہ سراغ زندگی کا
یہ ہے میری کوئی ہستی، کہ ہے داغ زندگی کا

یہی وصل کی حقیقت، یہی ہجر کی حقیقت
کوئی موت کی ہے پروا، نہ دماغ زندگی کا

یہ بھی خوب ہے تماشا، یہ بہار یہ خزاں کا
یہی موت کا ٹھکانہ، یہی باغ زندگی کا

یہ میں اُس کو پی رہا ہوں، کہ وہ مجھ کو پی رہا ہے
مرا ہم نفَس ازَل سے، ہے ایاغ زندگی کا

اسد اُس سے پھر تو کہنا، یہی بات اک پرانی
میں مسافرِ شبِ ہجر، تُو چراغ زندگی کا
مزید پڑھیے۔۔۔۔

May 13, 2009

ایک تازہ غزل

جُملہ کچھ 'بالغانہ' سا ہے لیکن لکھنے میں عار کچھ یوں نہیں کہ فرمودۂ قبلہ و کعبہ جنابِ حضرتِ علامہ اقبال علیہ الرحمہ ہے اور بلاگ کے قارئین میں کوئی "نابالغ" بھی نہیں۔ اپنی وفات سے کچھ ماہ قبل جب کہ آپ شدید بیمار تھے اور اپنی طویل بیماری سے انتہائی بیزار، سید نذیر نیازی، جن کے ذمّے علامہ کے اشعار کی ترتیب و تسوید تھی، کو فرماتے ہیں "آمدِ شعر کی مثال ایسی ہے جیسے تحریکِ جنسی کی، ہم اسے چاہیں بھی تو روک نہیں سکتے۔" آخر الذکر" تحریک کے متعلق ہمیں علامہ سے کتنا ہی اختلاف کیوں نہ ہو، اول الذکر سے مکمل اتفاق ہے۔
شاعر بیچاروں کی مجبوری یہ ہوتی ہے کہ اگر ان پر کچھ اشعار کا نزول ہو جائے تو اپنی اس خود کلامی کو "خود ساختہ" کلام کا نام دے کر سرِ بازار ضرور رکھ دیتے ہیں، سو اپنی ایک نئی غزل لکھ رہا ہوں۔ پانچ ہی شعر لکھ پایا، مزید لکھنے کا ارادہ تھا لیکن پھر اس غزل کیلیے تحریک ہی پیدا نہیں ہوئی، عرض کیا ہے۔

آرزوئے بہار لاحاصِل
عشقِ ناپائدار لاحاصِل

قیدِ فطرت میں تُو ہے پروانے
تیرا ہونا نثار لاحاصِل

ہے شفاعت اگر بُروں کے لیے
نیکیوں کا شمار لاحاصِل

دلِ دنیا ہے سنگِ مرمر کا
لاکھ کر لو پکار، لاحاصِل

شعر و گُل میں ڈھلے اسد لمحے
کب رہا انتظار لاحاصِل
مزید پڑھیے۔۔۔۔

Mar 31, 2009

اللہ کی مار

"یہ سب شاعروں پر اللہ کی مار کیوں پڑی ہوتی ہے؟ میری بیوی نے ایک دن کسی کتاب پر کسی شاعر کی تصویر دیکھتے ہوئے کہا۔"
میں نے بے چین ہوتے ہوئے کہا۔ "کیا مطلب"۔
"کچھ نہیں، بس ایسے ہی پوچھ رہی ہوں، جس شاعر کو دیکھو، عجیب حلیہ ہوتا ہے اور عجیب و غریب شکل، ایسے لگتا ہے ان پر اللہ کی مار پڑی ہوئی ہے۔"
خیر میں جواب تو کیا دیتا بس سگریٹ سلگا کر خون کے گھونٹ پی کر رہ گیا۔ ایسا ہی کچھ مکالمہ ایک دن میرے اور میرے بڑے بیٹے، سات سالہ حسن، کے درمیان ہوا۔ میں اسے غالب کے متعلق بتا رہا تھا اور سبق دینے کے بعد اس سے سوال و جواب کا سلسلہ شروع کیا۔
"ہاں اب بتاؤ، غالب کون تھے۔"
"غالب شاعر تھا۔"
"الو، شاعروں کی عزت کرتے ہیں، کہتے ہیں غالب شاعر تھے۔"
"جی اچھا"
"تو کون تھے غالب۔"
"وہ شاعر تھے"
"کس زبان کے شاعر تھے"
"اردو کے"
"اور"
"اور، ۔۔۔۔۔۔۔۔۔فارسی کے"
"شاباش، بہت اچھے"
اس مکالمے کے دوران وہ آہستہ آہستہ مجھ سے دور بھی ہو رہا تھا، کہ اچانک بولا۔
"غالب کے ہاتھ تھے۔"

میں نے چونک کر اسکی طرف دیکھا تو اسکے لبوں پر شرارتی مسکراہٹ کھیل رہی تھی، دراصل اس نے اپنی طرف سے غالب کی توہین کرنے کی کوشش کی تھی کہ میں اسے کہہ رہا تھا شاعروں کی عزت کرنی چاہیئے۔ جب سے ہماری بیوی نے ہمارے بلاگ پر "اُوئے غالب" والی تحریر دیکھی ہے، مسلسل اس کوشش میں ہے کہ بچوں سے شعر و شاعری کو دُور رکھا جائے اور ہر وقت شاعروں کی برائیاں کر کے بچوں کے ذہن میں جو پودا میں لگا رہا ہوں اس کو پنپنے سے پہلے ہی تلف کر دیا جائے۔

اس تحریر سے یہ دکھانا مقصود نہیں ہے کہ ہم "شاعر" ہیں اور ہمارے گھر میں ہماری عزت پھوٹی کوڑی کی بھی نہیں ہے بلکہ نثر کے اس ٹاٹ میں ایک اور ٹاٹ کا ہی پیوند لگانا چاہ رہا ہوں، بیوی بچے آج کل لاہور میں ہیں پورے ایک ہفتے کیلیے اور میں خالی الذہن، ظاہر ہے اس میں شاعری ہی آ سکتی ہے۔

کل رات ایک رباعی ہوئی سوچا بلاگ پر ہی لکھ دوں کہ "محفوظ" ہو جائے وگرنہ کاغذ قلم کا ہم سے کیا رشتہ، سو عرض کیا ہے۔

ہے تیر سے اُلفت نہ نشانے سے ہمیں
کھونے سے غرَض کوئی، نہ پانے سے ہمیں
سو بار کہے ہمیں سگِ لیلیٰ، خلق
کچھ بھی نہیں چاہیے زمانے سے ہمیں
مزید پڑھیے۔۔۔۔

Jan 16, 2009

میری ایک نئی غزل

اس غزل کا پہلا مصرعہ کم و بیش سات آٹھ ماہ تک میرے ذہن میں اٹکا رہا، لیکن ایک ماہ پہلے، جن دنوں کہ بلاگ سے فرصت تھی ایک رات یہ غزل مکمل ہو گئی سو یہاں لکھ رہا ہوں۔

چھیڑ دل کے تار پر، کوئی نغمہ کوئی دُھن
امن کی تُو بات کر، آشتی کے گا تُو گُن

ریشہ ریشہ تار تار، چاہے ہوں ہزار بار
سُن مرے دلِ فگار، وصل کے ہی خواب بُن

لوبھیوں کی بستی میں، مایا کے ترازو سے
فیصلہ کرے گا کون، کیا ہے پاپ کیا ہے پُن؟

سانس ہیں یہ چند پَل، آج ہیں نہیں ہیں کل
ہاں امَر وہ ہو گیا، زہر جام لے جو چُن

قریہ قریہ شہر شہر، موج موج لہر لہر
نام تیرا لے اسد، مہرباں کبھی تو سُن
مزید پڑھیے۔۔۔۔

Sep 17, 2008

میری ایک پرانی غزل

یہ غزل کوئی دو سال پرانی ہے اور اس زمانے کی ہے جب نیا نیا علم عروض سمجھ میں آیا تھا۔ آج کچھ پرانے کاغذات دیکھتے ہوئے سامنے آ گئی تو اسے بغیر نظرِ ثانی کے لکھ رہا ہوں۔

یہ چلَن دنیا میں کتنا عام ہے
ظلم کا تقدیر رکھّا نام ہے

پھول بکھرے ہوئے تُربت پر نئی
اِس کہانی کا یہی انجام ہے

میرے آبا نے کیا تھا جرم جو
اس کا بھی میرے ہی سر الزام ہے

دشت میں اک گھر بنا رہنے کی چاہ
گھر میں بیٹھے ہیں تبھی تو خام ہے

مسکراتے آ رہے ہیں آج وہ
کیا بھلا ہم مفلسوں سے کام ہے
مزید پڑھیے۔۔۔۔

Aug 1, 2008

میری ایک تازہ غزل

ایک تازہ غزل جو پچھلے دنوں کہی گئی

عجب کرشمہ بہار کا ہے
نظر نظر جلوہ یار کا ہے

ہم آئے ہیں کشتیاں جلا کر
ڈر اب کسے نین کٹار کا ہے

شجر کٹا تو جلا وہیں پر
یہ قصّہ اس خاکسار کا ہے

رہے گی نم آنکھ عمر بھر اب
معاملہ دل کی ہار کا ہے

تپش میں اپنی ہی جل رہا ہوں
عذاب دنیا میں نار کا ہے

اسد جو ایسے غزل سرا ہے
کرم فقط کردگار کا ہے
مزید پڑھیے۔۔۔۔

Jun 16, 2008

اردو محفل کو سلام

اردو محفل نہ صرف ایک خوبصورت فورم ہے بلکہ اردو کی ترقی و ترویج کیلیئے کوشاں اور مجھے فخر ہے کہ میں اردو محفل کا حصہ ہوں۔ انہی احساسات میں محو تھا کہ کل کچھ اشعار قلم بند ہو گئے جو کہ یہاں لکھتا ہوں

قطعہ
محفِلِ اردو تجھے میرا سلام
اے دِلِ اردو تجھے میرا سلام
اس جہانِ برق، دل و جاں سوز میں
تُو گِلِ اردو، تجھے میرا سلام

قطعہ
زینتِ اردو ہے تُو اور شان بھی
رونقِ اردو ہے تُو اور جان بھی
فرض کیجے نیٹ کو گر دنیا تو پھر
کعبۂ اردو ہے تُو، ایمان بھی

رباعی
کیا محفلِ اردو کی کروں میں توصیف
ثانی ہے کوئی جس کا نہ کوئی ہے حریف
دیکھے ہیں کثافت سے بھرے فورم، پر
اک نور کی محفل ہے، ہے اتنی یہ لطیف
مزید پڑھیے۔۔۔۔

Jun 12, 2008

میری ایک تازہ غزل

غم نہیں، دُکھ نہیں، ملال نہیں
لب پہ جو ایک بھی سوال نہیں

کیوں ملے مُجھ کو تیسرا درجہ
کیا مرے خوں کا رنگ لال نہیں؟

فکرِ سُود و زیاں سے ہے آزاد
کار و بارِ جنوں وبال نہیں

نظر آتا ہے ہر جمال میں وُہ
اس میں میرا تو کچھ کمال نہیں

مستِ جامِ نگاہِ یار ہوں میں
ہوش جانے کا احتمال نہیں

موت، ڈر، ہار، سب روا لیکن
عشق میں بھاگنا حلال نہیں

خونِ دل بھی جلے گا اس میں اسد
شاعری صرف قیل و قال نہیں
مزید پڑھیے۔۔۔۔

May 9, 2008

میری ایک غزل

اس جہاں میں ایسی کوئی بات ہو
جیت ہو اور نا کسی کی مات ہو

بس ہوس کے ہیں یہ سارے سلسلے
بابری مسجد ہو یا سُمنات ہو

دے بدل ہر زاویہ وہ دفعتاً
کُل نفی کے ساتھ جو اثبات ہو

زخم دل کے چین سے رہنے نہ دیں
روزِ روشن ہو کہ کالی رات ہو

اسطرح پینے کو مے کب ملتی ہے
ناب ہو، تُو ساتھ ہو، برسات ہو

دام دیکھے ہیں وہاں اکثر بچھے
جس جگہ پر دانے کی بہتات ہو

برملا گوئی کا حاصل ہے اسد
اپنوں کی نظروں میں بھی کم ذات ہو
مزید پڑھیے۔۔۔۔

میری ایک رباعی

شکوہ بھی لبوں پر نہیں آتا ہمدَم
آنکھیں بھی رہتی ہیں اکثر بے نَم
مردم کُش یوں ہوا زمانے کا چلن
اب دل بھی دھڑکتا ہے شاید کم کم
مزید پڑھیے۔۔۔۔

میری ایک رباعی

بکھرے ہوئے پھولوں کی کہانی سُن لے
ہے چار دنوں کی زندِگانی سُن لے
پیری میں تو ہوتے ہیں سبھی وقفِ عشق
کرتا ہے خراب کیوں جوانی، سُن لے
مزید پڑھیے۔۔۔۔

میری ایک غزل

دنیا میں تری درد کا درمان نہیں ہے
ہر سمت خدا ہیں، کوئی انسان نہیں ہے

طاقت کے نشے میں جو لہو سچ کا بہائے
ظالم ہے، لٹیرا ہے، وہ سلطان نہیں ہے

یہ بات غلَط ہے کہ میں باطل کو نہ جانوں
یہ سچ ہے مجھے اپنا ہی عرفان نہیں ہے

جو آگ سے تیری میں نہیں ڈرتا تو واعظ
حوروں کا بھی دل میں کوئی ارمان نہیں ہے

سوچا ہے اسد اب کسی سے میں نہ ملوں گا
کچھ دوست و عدو کی مجھے پہچان نہیں ہے
مزید پڑھیے۔۔۔۔

میری ایک غزل

نہ دل کو ہے نہ جاں کو ہی قرار اب
جنوں ہو کہ رہا اپنا شعار اب

نظر بدلی تو بدلے سارے منظر
ترا ہی جلوہ ہے اے میرے یار اب

کلی دل کی گئی مرجھا ترے بعد
بلا سے آئے گلشن میں بہار اب

پلائی ہے نظر سے مے جو تو نے
اترنے کا نہیں ساقی خمار اب

کٹی مستانہ کچھ ایسے شبِ ہجر
رہا مجھ کو نہ تیرا انتظار اب

اسد وہ جانتا ہے سب حقیقت
بنے پھرتے ہو جو پرہیزگار اب
مزید پڑھیے۔۔۔۔