Apr 30, 2012

عبور درد کا سیلِ چناب کس نے کیا - اختر ھوشیارپوری

عبور درد کا سیلِ چناب کس نے کیا
خود اپنی جاں کا یہاں احتساب کس نے کیا

زمانہ مجھ سے شناسا نہ میں زمانے سے
میں سوچتا ہوں مرا انتخاب کس نے کیا

جو میں نہیں ہوں تو میرے بدن میں لرزہ کیا
جو وہ نہیں تھا تو مجھ سے خطاب کس نے کیا

میں اس طرح سے کہاں نادم اپنے آپ سے تھا
حضورِ ذات مجھے آب آب کس نے کیا

بہار آتی تو پت جھڑ بھی دیکھ لیتا میں
ابھی سے خواب کو تعبیرِ خواب کس نے کیا

دیئے جلا کے مجھے راستے میں چھوڑ گیا
وہ کون شخص تھا، مجھ کو خراب کس نے کیا

سوال گونجتے رہتے ہیں حرفِ نو کی طرح
جو چپ ہے وہ تو مجھے لاجواب کس نے کیا

وہ ایک لفظ جو سنّاٹا بن کے گونجا تھا
اس ایک لفظ کو اختر کتاب کس نے کیا

اختر ھوشیارپوری
--------

بحر - بحرِ مجتث مثمن مخبون محذوف مقطوع

افاعیل: مَفاعِلُن فَعِلاتُن مَفاعِلُن فَعلُن
(آخری رکن فعلن کی جگہ فعلان، فَعِلُن اور فعِلان بھی آ سکتے ہیں)

اشاری نظام - 2121 2211 2121 22
ہندسوں کو اردو کی طرز پر یعنی دائیں سے بائیں پڑھیے یعنی 2121 پہلے ہے اور اس میں بھی 1 پہلے ہے۔
(آخری رکن میں 22 کی جگہ 122، 211 اور 1211 بھی آ سکتے ہیں)

پہلے شعر کی تقطیع -


عبور درد کا سیلِ چناب کس نے کیا
خود اپنی جاں کا یہاں احتساب کس نے کیا


عبور در - مفاعلن - 2121
د کَ سیلے - فعلاتن - 2211
چناب کس - مفاعلن - 2121
نِ کیا - فَعِلن - 211

خُ دپ نِ جا - مفاعلن - 2121
کَ یہا اح - فعلاتن - 2211
تساب کس - مفاعلن - 2121
نِ کیا - فَعِلن - 211
-------------
مزید پڑھیے۔۔۔۔

Apr 26, 2012

کب تلک یہ ستم اُٹھائیے گا - غزلِ میر

کب تلک یہ ستم اُٹھائیے گا
ایک دن یونہی جی سے جائیے گا

شکلِ تصویرِ بے خودی کب تک
کسو دن آپ میں بھی آئیے گا

سب سے مل جل کہ حادثے سے پھر
کہیں ڈھونڈھا بھی تو نہ پائیے گا

نہ ہوئے ہم اسیری میں تو نسیم
کوئی دن اور باؤ کھائیے گا

کہیے گا اس سے قصّہٴ مجنوں
یعنی پردے میں غم بتائیے گا
meer, taqi, meer taqi, meer, classical urdu poetry, urdu poetry, میر، تقی، میر تقی میر، کلاسیکی اردو شاعری، اردو شاعری, Mir Taqi Mir
میر تقی میر, Mir Taqi Mir
اس کے پاؤں کو جا لگی ہے حنا
خوب سے ہاتھ اسے لگائیے گا

اس کے پابوس کی توقّع پر
اپنے تئیں خاک میں ملائیے گا

شرکتِ شیخ و برہمن سے میر
کعبہ و دیر سے بھی جائیے گا

اپنی ڈیڑھ اینٹ کی جُدا مسجد
کسو ویرانے میں بنائیے گا
--------

بحر - بحر خفیف مسدس مخبون محذوف مقطوع

افاعیل - فاعِلاتُن مُفاعِلُن فَعلُن
(پہلے رکن فاعلاتن کی جگہ مخبون رکن فعلاتن بھی آسکتا ہے، آخری رکن فعلن کی جگہ فعلان، فَعِلن اور فَعِلان بھی آسکتا ہے یوں آٹھ وزن اکھٹے ہو سکتے ہیں)۔ تفصیل کیلیئے میرا مقالہ “ایک خوبصورت بحر - بحر خفیف” دیکھیئے)

اشاری نظام - 2212 2121 22
ہندسوں کو اردو رسم الخط کے مطابق پڑھیے یعنی دائیں سے بائیں یعنی 2212 پہلے پڑھیے۔ اور اس میں بھی 12 پہلے ہے۔
(پہلے 2212 کی جگہ 2211 اور آخری 22 کی جگہ 122، 211 اور 1211 بھی آ سکتا ہے)

تقطیع -


کب تلک یہ ستم اُٹھائیے گا
ایک دن یونہی جی سے جائیے گا


کب تلک یہ - فاعلاتن -2212
ستم اُ ٹا - مفاعلن - 2121
ء ی گا - فَعِلن - 211

ایک دن یو - فاعلاتن - 2212
ہِ جی سِ جا - مفاعلن - 2121
ء ی گا - فَعِلن - 211
-------

مزید پڑھیے۔۔۔۔

Apr 23, 2012

راگ درباری کانہڑہ - ایک تعارف

راگ درباری برصغیر کی موسیقی کے مقبول ترین راگوں میں سے ہے اور مقبولیت میں اس سے زیادہ شاید صرف راگ بھیرویں ہی ہے۔ سینکڑوں ہزاروں بندشیں، غزلیں اور گیت درباری میں بنے ہیں اور بنائے جا رہے ہیں، گانے اور پہچاننے میں بھی آسان ہے لیکن اسے اس کی نزاکتوں کے ساتھ گانا صرف اساتذہٴ فن ہی کا کام ہے۔

مانا جاتا ہے کہ اس راگ کو میاں تان سین نے دربارِ اکبری میں گانے کیلیے خاص طور پر اختراع کیا تھا اور اسی لیے اس راگ میں گھمبیرتا ہے اور اسے راگوں کی دنیا میں گھمبیر، بارعب، با وقار، سنجیدہ اور متین  راگ سمجھا جاتا ہے۔

 میں یہاں درباری کا مختصر تعارف لکھ رہا ہوں اور اس میں گائے ہوئے ایک دو خیال اور غزلیں وغیرہ بھی اس کے ساتھ شامل ہیں۔

 نوٹیشن کا طریقہ
 تیور سروں کو یہاں پورے نام سے ظاہر کیا جائے گا، مثال کے طور پر تیور گندھار کیلیے "گا" لکھا جائے گا جب کہ کومل سُروں کو پورے نام کی بجائے صرف پہلے حرف سے ظاہر کیا جائے گا یعنی کومل گندھار کو "گ" سے ظاہر کیا جائے گا۔  تار سپتک یعنی اوپر والی سپتک کے سر کے بعد ایک ڈیش - لگائی جائے یعنی تار سپتک کے سا کو، "سا-" کے ساتھ ظاہر کیا جائے گا اور مندر سپتک یعنی نچلی سپتک کے سر سے پہلے ڈیش لگائی جائے گی یعنی مندر سپتک کے سا کو "-سا" سے ظاہر کیا جائے گا۔ جب کہ کسی سُر کے ساتھ کوئی ڈیش نہ ہونے کا مطلب ہے کہ وہ مدھ سپتک یعنی درمیانی سپتک کا سر ہے اور بنیادی سپتک بھی یہی مدھ سپتک ہے۔

 راگ - درباری کانہڑہ
 یہ اس راگ کا مکمل نام ہے اور یہ کانہڑے کی ایک شکل ہے، عام طور پر (یا پیار سے) اسے صرف درباری ہی کہا جاتا ہے۔

 ٹھاٹھ - اساوری
 ایک خوبصورت ٹھاٹھ یعنی راگوں کا گروپ جس کا بنیادی راگ، راگ اساوری ہے ١ور اس راگ کے نام پر ہی اس ٹھاٹھ کا نام ہے۔ اس خاکسار کو ذاتی طور پر یہ ٹھاٹھ حد سے زیادہ پسند ہے کیونکہ میرے کچھ پسندیدہ ترین راگوں یعنی دربای، اساوری، جونپوری کا تعلق اسی ٹھاٹھ سے ہے۔

 اساوری ٹھاٹھ میں، رکھب یعنی رے تیور ہے جبکہ گندھار یعنی گا، مدھم یعنی ما، دھیوت یعنی دھا اور نکھاد یعنی نی، چاروں کومل سر ہیں۔  جبکہ کھرج سا اور پنچم پا ہوتے ہی اچل ہیں یعنی انکے کومل اور تیور سُر نہیں ہوتے۔ اگر شُدھ سُروں میں بات کریں تو اس ٹھاٹھ میں سا، رے، ما اور پا شدھ سر ہیں۔ اور یہی ترتیب درباری میں ہے۔

 جاتی یا ذات - سمپورن + کھاڈو (یا شاڈو)
 یعنی آروہی میں سات سر اور اوروہی میں چھ سر۔ اوروہی میں دھیوت ورجت ہے یعنی نہیں لگایا جاتا۔

 آروہی یا ترتیبِ صعودی
 یعنی نیچے سے اوپر جاتے ہوئے اس راگ کے سر یہ ہیں۔

 -ن سا رے گ رے سا، م پا د ن سا-

 (کچھ اساتذہ آخری ٹکڑے کو م پا د ن رے- سا- بھی کہتے ہیں)

 اوروہی یا ترتیبِ نزولی
 یعنی اوپر سے نیچے آتے ہوئے

 سا- د ن پا، م پا، گ م رے سا

 یہاں ایک بات کی وضاحت بہت ضروری ہے۔ جیسے کہ اس راگ کی جاتی میں لکھا گیا کہ اوروہی میں دھیوت ورجت ہے یعنی نہیں لگایا جاتا لیکن اوروہی لکھتے ہوئے آپ نے نوٹ کیا ہوگا کہ دھیوت یعنی د لکھا گیا ہے تو پھر یہ ورجت کیسے ہوا یا اوروہی کھاڈو کیسے ہوئی۔ اس بات کی وضاحت آج تک کسی کتاب یا ویب سائٹ پر میری نظر سے نہیں گزری سب یہی لکھ دیتے ہیں کہ دھیوت ورجت ہے۔ قصہ کچھ یوں ہے کہ اوروہی میں دھیوت تو لگ رہا ہے لیکن اپنی ترتیب میں نہیں یعنی سا- کے بعد نکھاد کی جگہ دھیوت آ گیا ہے اور دھیوت کے فوری بعد پنچم کی بجائے نکھاد ہے یوں " د ن" کا ٹکڑا اوروہی کا حصہ بننے کی بجائے آروہی کا حصہ بن گیا ہے اور یہی اس بات کا مطلب ہے کہ دھیوت اوروہی میں ورجت ہے۔ یعنی اوروہی میں کبھی بھی دھیوت کے بعد پنچم نہیں آے گا بلکہ دھیوت کے بعد ہمیشہ ہی نکھاد آئے گا اور نکھاد کے بعد پنچم اور یہی اس راگ کی نزاکت ہے جسے قائم رکھنا بہت ضروری ہے اس کی خلاف ورزی کرنے سے درباری، درباری نہیں رہے گا۔

سروں کی مزید تفہیم کیلیے ایک تصویر شامل کر رہا ہوں جس میں درباری کے سروں کی ہارمونیم پر نشاندہی کی گئی ہے۔


 پکڑ
 یعنی سروں کے وہ ٹکڑے جو کسی راگ میں بار بار لگائے جاتے ہیں اور راگ اس سے پہچانا جاتا ہے۔ درباری کی مختلف پکڑیں مشہور ہیں، کچھ مشہور اسطرح سے ہیں

 گ م رے سا
 -د -ن سا رے سا
 وغیرہ

 وادی سُر - رکھب
 یعنی کسی راگ کا سب سے اہم سُر، جس کو بار بار لگایا جاتا ہے یا اس پر رکا جاتا ہے یا اس پر زور دیا جاتا ہے-

 سَم وادی سُر - پنچم
 وادی سُر کے بعد دوسرا سب سے اہم سُر-

 وقت - رات کا دوسرا پہر یا آدھی رات
 یعنی وہ خاص وقت جس میں عموماً کوئی راگ گایا جاتا ہے اور اپنا سماں باندھ دیتا ہے۔

 درباری کی کچھ مزید خصوصیات
 - اس میں دو سُر یعنی کومل گندھار اور کومل دھیوت کا اندوہلن کیا جاتا ہے یعنی ان سُروں کو جھولایا جاتا ہے اور یہ اس راگ کا خاص انگ ہے جو اس کو دوسروں سے الگ کرتا ہے اور بہت لطف دیتا ہے۔
 - یہ پوروانگ کا راگ ہے یعنی عام طور پر نچلے سروں میں گایا جاتا ہے۔
 - یہ راگ بلمپت لے یعنی دھیمی لے (سلو ٹیمپو) میں زیادہ اچھا لگتا ہے۔ - اسکی آروہی میں کومل گندھار دُربل یعنی کمزور رہتا ہے یعنی اس سُر پر زیادہ زور نہیں دیا جاتا۔

------

سب سے پہلے عصرِ حاضر کے تان سین استاد بڑے غلام علی خان مرحوم ( قصور پٹیالہ گھرانہ) کی راگ درباری میں ایک انتہائی خوبصورت بندش  "انوکھا لاڈلا"۔



اور میرے ایک اور پسندیدہ گلوکار استاد فتح علی خان پٹیالہ گھرانہ کی ایک خوبصورت بندش راگ درباری میں



ایک خوبصورت ترانہ اسی راگ میں, استاد نزاکت علی اور استاد سلامت علی شام چوراسی گھرانہ


اور مہدی حسن کی ایک خوبصورت غزل کو بکو پھیل گئی۔۔۔۔۔۔۔۔



فلم بیجو باورا کے لیے گائی گئی اُستاد امیر خان کی راگ درباری میں خوبصورت سرگم


اسکے علاوہ کچھ اور خوبصورت غزلیں جو اسی راگ میں ہیں، انکے نام لکھ رہا ہوں

- ہنگامہ ہے کیوں برپا - غلام علی
- تسکیں کو ہم نہ روئیں - اقبال بانو
- آ میرے پیار کی خوشبو - استاد امانت علی

اس پوسٹ میں یو ٹیوب کی بہت زیادہ ویڈیوز نہیں لگا رہا کہ کچھ قارئین کو کوفت نہ ہو، اگر آپ اس راگ میں بنائی گائی میری پسند کی کچھ اور چیزیں سننا چاہتے ہیں تو یہ ربط دیکھیے، بصورتِ دیگر آپ کی اپنی پسند کیلیے یو ٹیوب تو ہے ہی۔

مزید پڑھیے۔۔۔۔

Apr 14, 2012

ہرچند کہ ساغر کی طرَح جوش میں رہیے - غزل شان الحق حقّی

ہرچند کہ ساغر کی طرَح جوش میں رہیے
ساقی سے ملے آنکھ تو پھر ہوش میں رہیے

کچھ اس کے تصوّر میں وہ راحت ہے کہ برسوں
بیٹھے یونہی اس وادیٔ گُل پوش میں رہیے

اک سادہ تبسّم میں وہ جادو ہے کہ پہروں
ڈوبے ہوئے اک نغمۂ خاموش میں رہیے

ہوتی ہے یہاں قدر کسے دیدہ وری کی
آنکھوں کی طرح اپنے ہی آغوش میں رہیے

ٹھہرائی ہے اب حالِ غمِ دل نے یہ صورت
مستی کی طرح دیدۂ مے نوش میں رہیے
shan, haqqi, shan-ul-haq-haqqi, poetry, urdu poetry, ghazal, شان، شان الحق حقی، اردو شاعری، اردو غزل، شاعری، غزل
ڈاکٹر شان الحق حقّی, Shan-ul-Haq Haqqi
ہمّت نے چلن اب یہ نکالا ہے کہ چبھ کر
کانٹے کی طرح پائے طلب کوش میں رہیے

آسودہ دلی راس نہیں عرضِ سُخن کو
ہے شرط کہ دریا کی طرح جوش میں رہیے

ہستی میں وہ حالت ہے دل و جاں کی کہ جیسے
جا کر کسی مینارۂ خاموش میں رہیے

کیوں دیکھیے خونابہ فشانی کو کسی کی
آرائشِ رخسار و لب و گوش میں رہیے

یا ربط خدایانِ جفا کیش سے رکھیے
یا حلقۂ یارانِ وفا کوش میں رہیے

حقّی وہی اب پھر غمِ ایّام کا دکھڑا
یہ محفلِ رنداں ہے ذرا ہوش میں رہیے

ڈاکٹر شان الحق حقّی
--------
بحر - بحرِ ہزج مثمن اخرب مکفوف محذوف

 افاعیل: مَفعُولُ مَفَاعیلُ مَفَاعیلُ فَعُولُن
(آخری رکن فعولن کی جگہ مسبغ رکن فعولان بھی آ سکتا ہے)

اشاری نظام - 122 1221 1221 221
(آخری رکن 221 کی جگہ 1221 بھی آ سکتا ہے)

 تقطیع -


ہرچند کہ ساغر کی طرَح جوش میں رہیے
ساقی سے ملے آنکھ تو پھر ہوش میں رہیے


ہر چند - مفعول - 122
کہ ساغر کِ - مفاعیل - 1221
طرَح جوش - مفاعیل - 1221
مِ رہیے - فعولن - 221

ساقی سِ - مفعول - 122
ملے آک - مفاعیل - 1221
تُ پر ہوش - مفاعیل - 1221
مِ رہیے - فعولن - 221
------
مزید پڑھیے۔۔۔۔

Apr 6, 2012

ہستی کا ہر نفَس ہے نیا دیکھ کر چلو - احسان دانش

ہستی کا ہر نفَس ہے نیا دیکھ کر چلو
 کس رُخ کی چل رہی ہے ہوا دیکھ کر چلو

 زندہ ہے دل تو اس میں محبت بھی چاہیے
 آنکھیں جو ہیں تو راہِ وفا دیکھ کر چلو

 آذر کدے کی آنچ سے شہ پا کے یک بیک
 صر صر بنی ہوئی ہے صبا دیکھ کر چلو

 امسال دیدنی ہے چمن میں جنوں کا رنگ
 گُل چاک کر رہے ہیں قبا دیکھ کر چلو

 گُلچیں کے سدّباب سے انکار ہے کسے
 لیکن اصولِ نشو و نما دیکھ کر چلو
Ehsan, Ahsan, Danish, Ehsan Danish, Ahsan Danish, urdu poetry, poetry, ghazal, احسان، دانش، احسان دانش، اردو شاعری، شاعری، غزل
احسان دانش, Ehsan Danish
 کچھ سرپھروں کو ذکرِ وفا بھی ہے ناگوار
 یہ انحطاطِ مہر و وفا دیکھ کر چلو

 ہاں انفرادیت بھی بُری چیز تو نہیں
 چلنا اگر ہے سب سے جدا دیکھ کر چلو

 آنکھیں کھلی ہوئی ہوں تو ہر شے ہے بے نقاب
 اے بندگانِ حرص و ہوا دیکھ کر چلو

 ذوقِ عبودیت ہو کہ گستاخیِ نگاہ
 تخمینۂ جزا و سزا دیکھ کر چلو

 ناموسِ زندگی بھی بڑی شے ہے دوستو
 دیکھو بلند و پست فضا دیکھ کر چلو

 یہ تو بجا کہ ذوقِ سفر ہے ثبوتِ زیست
 اس دشت میں سموم و صبا دیکھ کر چلو

 عرفان و آگہی بھی عبادت سہی مگر
 طرز و طریقِ اہلِ وفا دیکھ کر چلو

 اسبابِ ظاہری پہ بھی درکار ہے نظر
 باوصف اعتمادِ خدا دیکھ کر چلو

 ممکن ہے روحِ سرو و سمن سے ہو ساز باز
 کیا دے گئی گلوں کو صبا دیکھ کر چلو

 ہر کشمکش نہیں ہے امینِ سکونِ دل
 ہر موت میں نہیں ہے بقا دیکھ کر چلو

 ہر لحظہ ہے پیمبرِ اندیشہ و عمل
 کیا چاہتا ہے رنگِ فضا دیکھ کر چلو

 یہ بھی روش نہ ہو رہِ مقصود کے خلاف
 آئی ہے یہ کدھر سے صدا "دیکھ کر چلو"

ہمدرد بن کے دشمنِ دانش ہوئے ہیں لوگ
یہ بھی ہے دوستی کی ادا دیکھ کر چلو

 (احسان دانش)

------

 بحر - بحر مضارع مثمن اخرب مکفوف محذوف

افاعیل - مَفعُولُ فاعِلاتُ مَفاعِیلُ فاعِلُن
(آخری رکن میں‌ فاعلن کی جگہ فاعلان بھی آسکتا ہے)

اشاری نظام - 122 / 1212 / 1221 / 212
ہندسوں کو اردو کی طرز پر دائیں سے بائیں پڑھیے۔ یعنی 122 پہلے ہے اور اس میں بھی 22 پہلے ہے۔
(آخری رکن میں‌ 212 کی جگہ 1212 بھی آ سکتا ہے)

تقطیع--

ہستی کا ہر نفَس ہے نیا دیکھ کر چلو
 کس رُخ کی چل رہی ہے ہوا دیکھ کر چلو

ہستی کَ - مفعول - 122
ہر نفس ہِ - فاعلات - 1212
نیا دیک - مفاعیل - 1221
کر چلو - فاعلن - 212

کس رُخ کِ - مفعول - 122
چل رہی ہِ - فاعلات - 1212
ہوا دیک - مفاعیل - 1221
کر چلو - فاعلن - 212
------
مزید پڑھیے۔۔۔۔

Apr 2, 2012

رباعیاتِ سرمد شہید مع اردو ترجمہ -۳


(13)
سرمد اگرش وفاست خود می آید
گر آمدنش رواست خود می آید
بیہودہ چرا درپئے اُو می گردی
بنشیں، اگر اُو خداست خود می آید

سرمد اگر وہ با وفا ہے تو خود ہی آئے گا۔ اگر اس کا آنا روا اور ممکن ہے تو وہ خود ہی آئے گا۔ تُو کاہے اسکی تلاش میں مارا مارا پھرتا ہے، آرام سے بیٹھ رہ، اگر وہ خدا ہے تو خود ہی آئے گا۔


(14)
از جُرم فزوں یافتہ ام فضل ترا
ایں شد سببِ معصیتِ بیش مرا
ہر چند گنہ بیش، کرم بیش تر است
دیدم ہمہ جا و آزمودم ہمہ را

میرے گناہوں سے تیرا فضل بہت بڑھ کے ہے اور میرے گناہ اسی وجہ سے زیادہ ہیں۔ ہر چند کہ میرے گناہ بہت زیادہ ہیں لیکن تیرا کرم ان سے بہت ہی زیادہ ہے اور یہی بات میں نے ہر جگہ دیکھی ہے اور یہی بات ہر کسی کا تجربہ ہے۔

(15)
دیوانہٴ رنگینیِ یارِ دگرم
حیرت زدہٴ نقش و نگارِ دگرم
عالم ہمہ در فکر و خیالِ دگر است
من در غم و اندیشہٴ کارِ دگرم

میں کسی اور ہی محبوب کی رنگینی کا دیوانہ ہوں۔ میں کسی اور ہی کے نقش و نگار سے حیرت زدہ ہوں۔ ساری دنیا اوروں کے خیال میں محو ہے جبکہ میں اور ہی طرح کے غموں میں مگن ہوں۔

(16)
مشہور شدی بہ دلربائی ہمہ جا
بے مثل شدی در آشنائی ہمہ جا
من عاشقِ ایں طورِ تو ام، می بینم
خود را نہ نمائی و نمائی ہمہ جا

ہر جگہ تیری دلربائی کہ وجہ سے تیرے چرچے ہیں، اور آشنائی میں بھی تو بے مثل ہے۔ میں تیرے انہی طور طریقوں پر عاشق ہوں اور دیکھتا ہوں کہ تُو خود کو عیاں نہیں کرتا اور ہر جگہ عیاں بھی ہے۔
mazar, sarmad, shaheed, mazar sarmad shaheed, persian, persian poetry, farsi, farsi poetry, rubai, مزار، مزار سرمد شہید، سرمد، شہید، فارسی شاعری مع اردو ترجمہ، رباعی
مزار سرمد شہید mazar sarmad shaheed
(17)
اے جلوہ گرِ نہاں، عیاں شو بدر آ
در فکر بجستیم کہ ہستی تو کجا
خواہم کہ در آغوش وکنارت گیرم
تاچند تو در پردہ نمائی خود را

اے تو کہ جو پردوں کے پیچھے ہے، ظاہر ہو اور سامنے آ، میں اسی فکر میں سرگرداں رہتا ہوں کہ تیری ہستی کیا ہے۔  میری خواہش ہے کہ تیرا وصال ہو اور میں تجھے چھوؤں اور اپنی آغوش میں لوں، یہ پردوں کے پیچھے سے اپنے آپ کو نمایاں کرنا کب تک۔

(18)
ہرچند کہ صد دوست بہ من دشمن شُد
از دوستیِ یکے دلم ایمن شد
وحدت بگزیدم و ز کثرت رستم
آخر من ازو شدم و اُو از من شد

اگرچہ سینکڑوں دوست میرے دشمن بن گئے لیکن ایک کی دوستی نے  میری روح کو امن و قرار دے دیا (اور مجھے سب سے بے نیاز کر دیا)۔ میں نے ایک کو پکڑ لیا اور کثرت کو چھوڑ دیا اور آخرِ کار میں وہ بن گیا اور وہ میں بن گیا۔

(19)
دنیا نَشَود آخرِ دم بہ تو رفیق
در راہِ خدا کوش، رفیق است شفیق
خواہی کہ بسر منزلِ دلدار رسی
گفتم بہ تو اے دوست، ہمیں است طریق

دنیا تیرے آخری دموں تک تیری رفیق نہیں بنے گی لیکن خدا کی راہ میں لگا رہ کہ جو نہ صرف رفیق ہے بلکہ شفیق بھی ہے۔ اگر تو چاہتا کہ اپنے دلدار تک پہنچے تو پھر اے دوست تجھ سے یہی کہتا ہوں کہ طریقہ یہی ہے (جو میں نے تجھے بتایا)۔

(20)
ہر نیک و بدے کہ ہست در دستِ خداست
ایں معنیٴ پیدا و نہاں در ہمہ جاست
باور نہ کنی اگر دریں جا بنگر
ایں ضعفِ من و قوّتِ شیطاں ز کجاست

ہر نیکی اور بدی جو کچھ بھی ہے سب خدا کے ہاتھ میں ہے۔ اور یہ بات چاہے ظاہر ہو یا چھپی ہوئی ہر جگہ ہے، اگر تو اس بات کا یقین نہیں کرتا تو میری طرف دیکھ کہ یہ میرا ضعف اور شیطان کی قوت کہاں سے آئی ہے۔

حصہٴ اول
حصہٴ دوم
مزید پڑھیے۔۔۔۔