Oct 8, 2012

اے تیرِ غمت را دلِ عُشّاق نشانہ - غزل مولانا ہلالی استر آبادی مع اردو ترجمہ

اے تیرِ غمَت را دلِ عُشّاق نشانہ
خلقے بتو مشغول و تو غائب ز میانہ

اے کہ تیرے غم کے تیر کا نشانہ عشاق کا دل ہے، ساری خلقت تجھ میں مشغول ہے اور تو درمیان سے غائب ہے۔

مجنوں صِفَتَم در بدر و خانہ بخانہ
شاید کہ ببینم رُخِ لیلیٰ بہ بہانہ

میں، مجنوں کی طرح در بدر اور خانہ بخانہ (پھرتا ہوں) شاید کہ کسی بہانے ہی سے رخ لیلیٰ کا دیدار ہو جائے۔

گہ معتکفِ مسجد و گہ ساکنِ دیرَم
یعنی کہ ترا می طلبم خانہ بخانہ

کبھی میں مسجد میں حالتِ اعتکاف میں ہوں اور کبھی مندر کا ساکن ہوں، یعنی میں خانہ بخانہ تیرا ہی طالب ہوں (کہ مسجد و مندر میں تو ہی ہے)-

حاجی بہ رہِ کعبہ و من طالبِ دیدار
اُو خانہ ہمی جوید و من صاحبِ خانہ

حاجی کعبے کا مسافر ہے اور میں تیرے دیدار کا طالب ہوں، یعنی وہ تو گھر ڈھونڈتا ہے اور میں گھر والے کو۔

تقصیرِ ہلالی بہ اُمیدِ کرمِ تُست
یعنی کہ گنہ را بہ ازیں نیست بہانہ

ہلالی کی تقصیروں کو تیرے کرم کی ہی امید ہے یعنی کہ گناہوں کیلیے اس سے بہتر کوئی بہانہ نہیں ہے۔

مولانا ہلالی اَستر آبادی
----

قافیہ - آنہ یعنی الف نون اور ہائے ہوز ساکن اور الف سے پہلے زبر کی آواز۔ جیسے نشانہ میں شانہ، میانہ میں یانہ، بہانہ میں ہانہ اور خانہ۔ واضح رہے کہ الف سے پہلے ہمیشہ زبر کی آواز ہی ہوتی ہے۔

ردیف - اس غزل کی ردیف نہیں ہے یعنی یہ غزل غیر مُردّف ہے۔

بحر - بحرِ ہزج مثمن اخرب مکفوف محذوف

 افاعیل: مَفعُولُ مَفَاعیلُ مَفَاعیلُ فَعُولُن
آخری رکن فعولن کی جگہ مسبغ رکن فعولان بھی آ سکتا ہے۔ جیسے چوتھے شعر کے پہلے مصرعے میں "طالبِ دیدار" میں جز "بِ دیدار" فعولان کے وزن پرں تقطیع ہوگا۔ اسی طرح مقطع کے پہلے مصرعے میں بھی۔

علامتی نظام - 122 / 1221 / 1221 / 221
(آخری رکن 221 کی جگہ 1221 بھی آ سکتا ہے)
ہندسوں کو اردو رسم الخظ کے مطابق یعنی دائیں سے بائیں پڑھیے یعنی  122 پہلے ہے اور اس میں بھی 2 پہلے ہے۔

 تقطیع -

اے تیر غمَت را دلِ عُشّاق نشانہ
خلقے بتو مشغول و تو غائب ز میانہ

اے تیر - مفعول - 122
غمت را دِ - مفاعیل - 1221
لِ عشّاق - مفاعیل - 1221
نشانہ - فعولن - 221

خلقے بَ - مفعول - 122
تُ مشغول - مفاعیل - 1221
تُ غائب ز - مفاعیل - 1221
میانہ - فعولن - 221
----

مزید پڑھیے۔۔۔۔

Oct 2, 2012

ہر غنچہ لب سے عشق کا اظہار ہے غَلَط - مومن خان مومن

ہر غنچہ لب سے عشق کا اظہار ہے غَلَط
اس مبحثِ صحيح کی تکرار ہے غَلَط

کہنا پڑا درست کہ اتنا رہے لحاظ
ہر چند وصلِ غير کا انکار ہے غلط

کرتے ہيں مجھ سے دعویِ الفت، وہ کيا کريں
کيونکر کہيں مقولہٴ اغيار ہے غلط

يہ گرم جوشياں تری گو دل سے ہوں ولے
تاثیرِ نالہ ہائے شرر بار ہے غلط

کرتے ہو مجھ سے راز کی باتیں تم اس طرح
گويا کہ قولِ محرمِ اسرار ہے غلط
Momin Khan Momin, مومن خان مومن، Ilm-e-Arooz, Ilm-e-Urooz, Urdu Poetry, Urdu Shairy, Urdu Ghazl, Taqtee, Behr, علم عروض، تقطیع، اردو شاعری، اردو غزل
Momin Khan Momin, مومن خان مومن

اٹھ جا کہاں تلک کوئی باتيں اٹھائے گا
ناصح تو خود غلط تری گفتار ہے غلط

سچ تو يہ ہے کہ اس بُتِ کافر کے دور ميں
لاف و گزافِ مومنِ ديندار ہے غلط

----

قافیہ - آر یعنی الف اور رے ساکن اور ان سے پہلے زبر کی آواز جیسے اظہار میں ہار، تکرار میں رار، انکار میں کار، شرر بار میں بار وغیرہ۔

ردیف - ہے غلط

بحر - بحر مضارع مثمن اخرب مکفوف محذوف

 افاعیل: مَفعُولُ فاعِلاتُ مَفاعِیلُ فاعِلُن
آخری رکن میں‌ فاعلن کی جگہ فاعلان بھی آسکتا ہے، جیسے اس غزل کے دوسرے شعر کے پہلے مصرعے میں لفظ لحاظ آیا ہے اور الفاظ "رہے لحاظ" میں ٹکڑا "ہے لحاظ" فاعلان پر تقطیع ہوگا۔

علامتی نظام - 122 / 1212 / 1221 / 212
ہندسوں کو اردو کی طرز پر دائیں سے بائیں پڑھیے۔ یعنی 122 پہلے ہے اور اس میں بھی 22 پہلے ہے۔
(آخری رکن میں‌ 212 کی جگہ 1212 بھی آ سکتا ہے)

 تقطیع -

ہر غنچہ لب سے عشق کا اظہار ہے غلط
اس مبحثِ صحيح کی تکرار ہے غلط

ہر غنچَ - مفعول - 122
لب سِ عشق - فاعلات - 1212
کَ اظہار - مفاعیل - 1221
ہے غلط - فاعلن - 212

اس مبحَ - مفعول - 122
ثے صحیح - فاعلات - 1212
کِ تکرار - مفاعیل - 1221
ہے غلط - فاعلن - 212
----
مزید پڑھیے۔۔۔۔