Showing posts with label حیدر علی آتش. Show all posts
Showing posts with label حیدر علی آتش. Show all posts

Jan 12, 2013

کُوچہٴ دلبر میں مَیں، بُلبُل چمن میں مست ہے - غزلِ آتش

کُوچہٴ دلبر میں مَیں، بُلبُل چمن میں مست ہے
ہر کوئی یاں اپنے اپنے پیرہن میں مست ہے

نشّہٴ دولت سے منعم پیرہن میں مست ہے
مردِ مفلس حالتِ رنج و محن میں مست ہے

دورِ گردوں ہے خداوندا کہ یہ دورِ شراب
دیکھتا ہوں جس کو میں اس انجمن میں مست ہے

آج تک دیکھا نہیں یاں آنکھوں نے روئے خمار
کون مجھ سا گنبدِ چرخِ کہن میں مست ہے

گردشِ چشمِ غزالاں، گردشِ ساغر ہے یاں
خوش رہیں اہلِ وطن، دیوانہ بن میں مست ہے

Khwaja Haider Ali Aatish, خواجہ حیدر علی آتش، Urdu Poetry, Urdu Shairi, Urdu Ghazal, Ilm-e-Arooz, Ilm-e-Urooz, Taqtee, Behr, اردو شاعری، اردو غزل، علم عروض، تقطیع، بحر
Khwaja Haider Ali Aatish, خواجہ حیدر علی آتش

ہے جو حیرانِ صفائے رُخ حلب میں آئنہ
بوئے زلفِ یار سے آہو ختن میں مست ہے

غافل و ہشیار ہیں اُس چشمِ میگوں کے خراب
زندہ زیرِ پیرہن، مردہ کفن میں مست ہے

ایک ساغر دو جہاں کے غم کو کرتا ہے غلط
اے خوشا طالع جو شیخ و برہمن میں مست ہے

وحشتِ مجنوں و آتش میں ہے بس اتنا ہی فرق
کوئی بن میں مست ہے کوئی وطن میں مست ہے

خواجہ حیدر علی آتش
-------

قافیہ - مَن یعنی نون ساکن اور اس سے پہلے زبر کی آواز جیسے چمن میں من، پیرہن میں ہن محن میں حن، انجمن میں من، بن وغیرہ۔

ردیف - میں مست ہے۔

بحر - بحر رمل مثمن محذوف

 افاعیل: فاعلاتُن فاعلاتن فاعلاتن فاعلن
آخری رکن فاعلن میں مسبغ رکن فاعلان بھی آ سکتا ہے جیسے تیسرے شعر کے پہلے مصرعے کے الفاظ "دورِ شراب" میں ٹکڑے "رے شراب" کی تقطیع فاعلان ہوگی، وغیرہ۔

علامتی نظام - 2212 2212 2212 212
ہندسوں کو اردو طرز پر پڑھیے یعنی دائیں سے بائیں یعنی 2212 پہلے ہے اور اس میں بھی 2 پہلے اور 1 بعد میں ہے۔ آخری 212 کی جگہ 1212 بھی آ سکتا ہے۔

تقطیع -

کُوچہٴ دلبر میں مَیں، بُلبُل چمن میں مست ہے
ہر کوئی یاں اپنے اپنے پیرہن میں مست ہے

کُوچہ اے دل - فاعلاتن - 2212
بر مِ مےبُل - فاعلاتن - 2212
بُل چمن مے - فاعلاتن - 2212
مست ہے - فاعلن - 212

ہر کُ ئی یا - فاعلاتن - 2212
اپ نِ اپنے - فاعلاتن - 2212
پیرہن مے - فاعلاتن - 2212
مست ہے - فاعلن - 212
-----
مزید پڑھیے۔۔۔۔

Jun 15, 2010

خوشا وہ دل کہ ہو جس دل میں‌ آرزو تیری - آتش کی ایک غزل

خواجہ حیدر علی آتش کی ایک غزل

خوشا وہ دل کہ ہو جس دل میں‌ آرزو تیری
خوشا دماغ جسے تازہ رکھّے بُو تیری

پھرے ہیں مشرق و مغرب سے تا جنوب و شمال
تلاش کی ہے صنم ہم نے چار سُو تیری
urdu poetry, urdu ghazal, ilm-e-arooz, taqtee, Khwaja Haider Ali Aatish, خواجہ حیدر علی آتش, classical urdu poetry, کلاسیکی اردو شاعری
خواجہ حیدر علی آتش
Khwaja Haider Ali Aatish
شبِ فراق میں اک دم نہیں قرار آیا
خدا گواہ ہے، شاہد ہے آرزو تیری

دماغ اپنا بھی اے گُلبدن معطّر ہے
صبا ہی کے نہیں حصّے میں آئی بُو تیری

مری طرف سے صبا کہیو میرے یوسف سے
نکل چلی ہے بہت پیرہن سے بو تیری

شبِ فراق میں، اے روزِ وصل، تا دمِ صبح
چراغ ہاتھ میں ہے اور جستجو تیری

جو ابر گریہ کناں ہے تو برق خندہ زناں
کسی میں خُو ہے ہماری، کسی میں خُو تیری

کسی طرف سے تو نکلے گا آخر اے شہِ حُسن
فقیر دیکھتے ہیں راہ کو بہ کو تیری

زمانے میں کوئی تجھ سا نہیں ہے سیف زباں
رہے گی معرکے میں آتش آبرو تیری

------

بحر - بحرِ مجتث مثمن مخبون محذوف مقطوع
افاعیل: مَفاعِلُن فَعِلاتُن مَفاعِلُن فَعلُن
(آخری رکن فعلن کی جگہ فعلان، فَعِلُن اور فعِلان بھی آ سکتے ہیں)
اشاری نظام - 2121 2211 2121 22
ہندسوں کو اردو کی طرز پر یعنی دائیں سے بائیں پڑھیے یعنی 1 پہلے ہے۔
(آخری رکن میں 22 کی جگہ 122، 211 اور 1211 بھی آ سکتے ہیں)
پہلے شعر کی تقطیع -

خوشا وہ دل کہ ہو جس دل میں‌ آرزو تیری
خوشا دماغ جسے تازہ رکھّے بُو تیری

خُ شا وُ دل - مفاعلن - 2121
ک ہُ جس دل - فعلاتن - 2211
مِ آ ر زو - مفاعلن - 2121
تے ری - فعلن - 22
خُ شا د ما - مفاعلن - 2121
غ جِ سے تا - فعلاتن - 2211
زَ رک کِ بُو - مفاعلن - 2121
تے ری - فعلن - 22

مزید پڑھیے۔۔۔۔

Nov 17, 2008

خواجہ حیدر علی آتش کی ایک غزل

خواجہ حیدر علی آتش کا اردو کلاسیکی شاعری میں ایک اپنا مقام ہے۔ اور انکا شمار مستند اساتذہ میں ہوتا ہے۔ ساری زندگی بانکے پن سے گزاری کہ مشاعروں میں بھی تلوار لگا کر جاتے تھے۔ کیا خوبصورت شاعری ہے آتش کی، انکی ایک غزل جس کے کئی اشعار ضرب المثل بن چکے ہیں۔
دہَن پر ہیں ان کے گماں کیسے کیسے
کلام آتے ہیں درمیاں کیسے کیسے

زمینِ چَمَن گل کھلاتی ہے کیا کیا
بدلتا ہے رنگ آسماں کیسے کیسے
urdu poetry, urdu ghazal, ilm-e-arooz, taqtee, Khwaja Haider Ali Aatish, خواجہ حیدر علی آتش, classical urdu poetry, کلاسیکی اردو شاعری
Khwaja Haider Ali Aatish
 خواجہ حیدر علی آتش
نہ گورِ سکندر، نہ ہے قبرِ دارا
مٹے نامیوں کے نشاں کیسے کیسے

تمھارے شہیدوں میں داخل ہوئے ہیں
گل و لالہ و ارغواں کیسے کیسے

بہار آئی ہے، نشّہ میں جھومتے ہیں
مُریدانِ پیرِ مُغاں کیسے کیسے

تپِ ہجر کی کاہشوں نے کیے ہیں
جُدا پوست سے استخواں کیسے کیسے

نہ مڑ کر بھی بے درد قاتل نے دیکھا
تڑپتے رہے نیم جاں کیسے کیسے

دل و دیدہِ اہلِ عالم میں گھر ہے
تمہارے لئے ہیں مکاں کیسے کیسے

توجہ نے تیری ہمارے مسیحا
توانا کیے ناتواں کیسے کیسے

غم و غصہ و رنج و اندوہ و حرماں
ہمارے بھی ہیں مہرباں کیسے کیسے

تری کلکِ قدرت کے قربان آنکھیں
دکھائے ہیں خوش رو جواں کیسے کیسے

کرے جس قدر شکرِ نعمت، وہ کم ہے
مزے لوٹتی ہے، زباں کیسے کیسے
————
بحر - بحر متقارب مثمن سالم
افاعیل - فَعُولُن فَعُولُن فَعُولُن فَعُولُن
اشاری نظام - 221 221 221 221
تقطیع -
دہَن پر ہیں ان کے گماں کیسے کیسے
کلام آتے ہیں درمیاں کیسے کیسے
دہن پر - فعولن - 221
ہِ ان کے - فعولن - 221
گما کے - فعولن - 221
سِ کیسے - فعولن - 221
کلا ما - فعولن - 221 (الفِ وصل استعمال ہوا ہے)
تِ ہے در - فعولن - 221
میا کے - فعولن - 221
سِ کیسے - فعولن - 221
مزید پڑھیے۔۔۔۔