Showing posts with label صائب تبریزی. Show all posts
Showing posts with label صائب تبریزی. Show all posts

Dec 9, 2020

صائب تبریزی کے کچھ متفرق اشعار - 3

 گر ببینی ناکساں بالا نشیند صبر کن

روئے دریا کف نشیند، قعرِ دریا گوہر است

اگر تُو دیکھے کہ نااہل اور نالایق لوگ رتبے میں تجھ سے بلند ہیں تو صبر کر، کیونکہ سمندر کے اوپر جھاگ ہوتی ہے اور گوہر سمندر کی تہہ میں ہوتا ہے۔

----------

اظہارِ عجز پیشِ ستم پیشگاں خطاست

اشکِ کباب باعثِ طغیانِ آتش است

ستم پیشہ، ظالم لوگوں کے سامنے عاجزی کا اظہار کرنا غلطی ہے کیونکہ کباب سے گرنے والے قطرے آگ کو مزید بڑھکا دیتے ہیں۔

----------

می شوند از گردشِ چشمِ بُتاں زیر و زبر

عشقبازاں را غمے از گردشِ افلاک نیست

وہ تو چشمِ بتاں کی گردش سے ہی زیر و زبر ہو جاتے ہیں، عاشقوں کو گردشِ افلاک کا تو کوئی غم نہیں ہے۔

----------

چندیں ہزار شیشۂ دل را بہ سنگ زد

افسانہ ایست ایں کہ دلِ یار نازک است

اُس نے تو ہزاروں شیشے جیسے دل پتھر پر دے مارے اور توڑ دیے، یہ بات کہ محبوب کا دل بڑا نازک ہے، افسانہ ہی ہے۔

----------

یادگارِ جگرِ سوختۂ مجنوں است

لالۂ چند کہ از دامنِ صحرا برخاست

مجنوں کے سوختہ جگر کی یادگار ہیں، وہ چند لالے کے پھول جو صحرا کے دامن میں کھلتے ہیں۔

----------

ما ز غفلت رہزناں را کارواں پنداشتیم

موجِ ریگِ خشک را آبِ رواں پنداشتیم

ہم نے اپنی غفلت سے لٹیروں کو ہی کارواں سمجھ لیا اور خشک ریت کی موج (سُراب) کو ہی آبِ رواں سمجھ لیا۔

----------

صائب تبریزی، فارسی شاعری مع اردو ترجمہ، فارسی شاعری اردو ترجمے کے ساتھ، urdu translation, Saib Tabrizi

رنگِ شکستہ را بہ زباں احتیاج نیست

صائب عبث چہ دردِ خود اظہار می کُنی

اُڑے ہوئے رنگ کو زبان سے اظہار کی ضرورت نہیں ہے، صائب تُو کیوں عبث ہی اپنے درد کا اظہار کرتا ہے۔

----------

صائب از گردِ خجالت، شدہ در خاک نہاں

موجۂ رحمتِ دریائے عطائے تو کجاست

صائب شرمندگی کی گرد سے خاک میں جا چُھپا ہے، تیری عطا کے دریا کی موجِ رحمت کہاں ہے؟

----------

گُل چہ می دانَد کہ سیرِ نکہتِ اُو تا کجاست

عاشقاں را از سرانجامِ دلِ شیدا مپرس

پُھول کیا جانے کہ اُس کی خوشبو کہاں کہاں تک پہنچتی ہے، لہذا عاشقوں سے اُن کے دلِ شیدا کے سرانجام کے بارے میں کچھ مت پوچھ۔

----------

از عالمِ پُرشور مجو گوہرِ راحت

کایں بحر بجز موجِ خطر ہیچ ندارد

فتنہ و فساد و شورش و آشوب سے بھرے عالم میں راحت کے موتی مت تلاش کر کہ اِس دریا میں موجِ خطر کے سوا کچھ بھی نہیں۔

----------


مزید پڑھیے۔۔۔۔

Sep 3, 2013

صائب تبریزی کی ایک غزل مع اردو ترجمہ- آبِ خضر و مئے شبانہ یکیست

صائب تبریزی کی ایک خوبصورت غزل

آبِ خضر و مئے شبانہ یکیست
مستی و عمرِ جاودانہ یکیست

آبِ حیات اور رات کی شراب ایک ہی چیز ہیں، مستی اور عمرِ جاودانہ ایک ہی چیز ہیں۔

بر دلِ ماست چشم خوباں را
صد کماندار را نشانہ یکیست

ہمارے ہی دل پر خوباؤں کی نظر ہے، سینکڑوں کمانداروں کیلیے نشانہ ایک ہی ہے۔

پیشِ آں چشمہائے خواب آلود
نالہٴ عاشق و فسانہ یکیست

اُن خواب آلود آنکھوں کے سامنے، عاشق کا نالہ و فریاد اور افسانہ ایک ہی چیز ہیں۔

کثرتِ خلق، عین توحید است
خوشہ چندیں ہزار و دانہ یکیست

مخلوق کی کثرت عین توحید ہے کہ خوشے چاہے ہزاروں ہوں دانہ تو ایک ہی ہے۔
persian poetry with urdu translation, farsi poetry with urdu translation,Saib Tabrizi,   ، صائب تبریزی، فارسی شاعری مع اردو ترجمہ،
یادگار صائب تبریزی، ایران
پلہٴ دین و کفر چوں میزان
دو نماید، ولے زبانہ یکیست

دین اور کفر کے پلڑے ترازو کی طرح دو ہیں لیکن ان کی سوئی تو ایک ہی ہے۔

عاشقے را کہ غیرتے دارد
چینِ ابرو و تازیانہ یکیست

غیرت مند عاشق کیلیے، محبوب کی چینِ ابرو اور تازیانہ ایک ہی چیز ہیں۔

پیشِ مرغِ شکستہ پر صائب
قفس و باغ و آشیانہ یکیست

صائب، پر شکستہ پرندے کیلیے، قفس اور باغ اور آشیانہ ایک ہی چیز ہیں
----

قافیہ - آنہ یعنی نہ اور اُس سے پہلے الف کی آواز یا حرکت جیسے شبانہ میں بانہ، جاودانہ میں دانہ، نشانہ میں شانہ وغیرہ۔

ردیف -یکیست۔

 بحر - بحر خفیف مسدس مخبون محذوف مقطوع

افاعیل - فاعِلاتُن مُفاعِلُن فَعلُن
(پہلے رکن فاعلاتن کی جگہ مخبون رکن فعلاتن بھی آسکتا ہے، آخری رکن فعلن کی جگہ فعلان، فَعِلن اور فَعِلان بھی آسکتا ہے یوں آٹھ وزن اکھٹے ہو سکتے ہیں)۔ تفصیل کیلیئے میرا مقالہ “ایک خوبصورت بحر - بحر خفیف” دیکھیئے)

علامتی  نظام - 2212 / 2121 / 22
ہندسوں کو اردو رسم الخط کے مطابق پڑھیے یعنی دائیں سے بائیں یعنی 2212 پہلے پڑھیے۔ اور اس میں بھی 12 پہلے ہے۔
(پہلے 2212 کی جگہ 2211 اور آخری 22 کی جگہ 122، 211 اور 1211 بھی آ سکتا ہے)

تقطیع -
آبِ خضر و مئے شبانہ یکیست
مستی و عمرِ جاودانہ یکیست

آبِ خضرو - فاعلاتن - 2212
واضح رہے کہ خضر کا تلفظ حرفِ دوم کی حرکت اور سکون دونوں طرح مستعمل ہے۔
مئے شبا - مفاعلن - 2121
نَ یکیس - فَعِلان - 1211

مستِ یو عم - فاعلاتن - 2212
رِ جاودا - مفاعلن - 2121
نَ یکیس - فَعِلان - 1211
مزید پڑھیے۔۔۔۔

Oct 24, 2011

صائب تبریزی کے کچھ متفرق اشعار -۲

مشہور فارسی شاعر مرزا محمد علی صائب تبریزی کے کچھ مزید متفرق اشعار

یادِ رخسارِ ترا در دل نہاں داریم ما
در دلِ دوزخ، بہشتِ جاوداں داریم ما

تیرے رخسار کی یاد دل میں چھپائے ہوئے ہیں یعنی دوزخ جیسے دل میں ایک دائمی بہشت بسائے ہوئے ہیں۔
-----

روزگارِ زندگانی را بہ غفلت مگزراں
در بہاراں مست و در فصلِ خزاں دیوانہ شو

زندگی کے دن غفلت میں مت گزار، موسمِ بہار میں مست ہو جا اور خزاں میں دیوانہ۔
-----
Saib Tabrizi, Persian poetry, Persian Poetry with Urdu translation, Farsi poetry, Farsi poetry with urdu translation,
یادگار صائب تبریزی، ایران
مشکل است از کوئے اُو قطعِ نظر کردَن مرا
ورنہ آسان است از دنیا گزر کردن مرا

اُس کے کُوچے کی طرف سے میرا قطعِ نظر کرنا مشکل (نا ممکن) ہے، ورنہ دنیا سے گزر جانا تو میرے لیے بہت آسان ہے۔
-----

در چشمِ پاک بیں نبوَد رسمِ امتیاز
در آفتاب، سایۂ شاہ و گدا یکے است

نیک (منصف؟) نگاہیں ایک کو دوسرے سے فرق نہیں کرتیں (کہ) دھوپ میں بادشاہ اور فقیر کا سایہ ایک (جیسا ہی) ہوتا ہے۔

بے ساقی و شراب، غم از دل نمی روَد
ایں درد را طبیب یکے و دوا یکے است

ساقی اور شراب کے بغیر غم دل سے نہیں جاتا کہ اس درد (دردِ دل) کا طبیب بھی ایک ہی ہے اور دوا بھی ایک۔

صائب شکایت از ستمِ یار چوں کند؟
ھر جا کہ عشق ھست، جفا و وفا یکے است

صائب یار کے ستم کی شکایت کیوں کریں کہ جہاں جہاں بھی عشق ہوتا ہے وہاں جفا اور وفا ایک ہی (چیز) ہوتے ہیں۔
-----

ما را دماغِ جنگ و سرِ کارزار نیست
ورنہ دلِ دو نیم کم از ذوالفقار نیست

ہمیں جنگ کا دماغ نہیں ہے اور نہ ہی ہمارے سر میں لڑائی جھگڑے اور جنگ و جدل کا سودا سمایا ہے وگرنہ ہمارا دو ٹکڑے (ٹکڑے ٹکڑے) دل (اللہ کی مہربانی سے) ذوالفقار سے کم نہیں ہے (ذوالفقار: مہروں والی تلور، حضرت علی (ع) کی تلوار کا نام)۔
--------

ز ہر کلام، کلامِ عرب فصیح تر است
بجز کلامِ خموشی کہ افصح از عرب است

عرب کا کلام، ہر کلام سے فصیح تر (خوش بیاں، شیریں) ہے ماسوائے کلامِ خموشی (خاموشی) کے کہ وہ عرب کے کلام سے بھی فصیح ہے (خاموشی کی فضیلت بیان فرمائی ہے)۔
--------

انتظارِ قتل، نامردی است در آئینِ عشق
خونِ خود چوں کوهکن مردانہ می ‌ریزیم ما

عشق کے آئین میں قتل ہونے (موت) کا انتظار نامردی ہے، ہم اپنا خون فرہاد کی طرح خود ہی مردانہ وار بہا رہے ہیں۔
-----

دنیا بہ اہلِ خویش تَرحّم نَمِی کُنَد
آتش اماں نمی دہد، آتش پرست را

یہ دنیا اپنے (دنیا میں) رہنے والوں پر رحم نہیں کھاتی، (جیسے کہ) آگ، آتش پرستوں کو بھی امان نہیں دیتی (انہیں بھی جلا دیتی ہے)۔
-----

سیہ مستِ جنونم، وادی و منزِل نمی دانم
کنارِ دشت را، از دامنِ محمِل نمی دانم

میرا جنون ایسا سیہ مست ہے (اس نے مجھے وہ مدہوش کر رکھا ہے) کہ میں وادی اور منزل کچھ نہیں جانتا، میں دشت کے کنارے اور (محبوب کے) محمل کے دامن میں بھی کوئی فرق نہیں رکھتا، یعنی ان تمام منزلوں سے گذر چکا ہوں۔

من آں سیلِ سبک سیرَم کہ از ہر جا کہ برخیزم
بغیر از بحرِ بے پایاں دگر منزِل نمی دانم

میں ایسا بلاخیز طوفان ہوں کہ جہاں کہیں سے بھی اُٹھوں، بحرِ بے کنار کے علاوہ میری کوئی منزل نہیں ہوتی۔

اگر سحر ایں بُوَد صائب کہ از کلکِ تو می ریزد
تکلف بر طرف، من سحر را باطِل نمی دانم

صائب، اگر جادو یہ ہے جو تیرے قلم کی آواز (شاعری) میں ہے تو تکلف برطرف میں اس سحر کو باطل (کفر) نہیں سمجھتا۔
-----

نہ من از خود، نے کسے از حالِ من دارد خبر
دل مرا و من دلِ دیوانہ را گم کردہ ام

نہ مجھے اپنی اور نہ کسی کو میرے حال کی خبر ہے کہ میرے دل نے مجھے اور میں نے اپنے دیوانے دل کو گم کر دیا ہے۔
---------
مزید پڑھیے۔۔۔۔

Aug 23, 2011

صائب تبریزی کے کچھ متفرق اشعار - 1

مشہور فارسی شاعر مرزا محمد علی صائب تبریزی کے کچھ متفرق اشعار

گرفتم سہل سوزِ عشق را اوّل، ندانستم
کہ صد دریائے آتش از شرارے می شود پیدا

اول اول میں نے سوزِ عشق کو آسان سمجھا اور یہ نہ جانا کہ اسی ایک چنگاری سے آگ کے سو سو دریا جنم لیتے ہیں۔
---------

مرا ز روزِ قیامت غمے کہ ھست، اینست
کہ روئے مردُمِ عالم دوبارہ باید دید

(روزِ قیامت کا مجھے جو غم ہے وہ یہی ہے کہ دنیا کے لوگوں کا چہرہ دوبارہ دیکھنا پڑے گا)
---------
Persian poetry, Persian Poetry with Urdu translation, Farsi poetry, Farsi poetry with urdu translation, saib tabrizi, صائب تبریزی
مجسمہ صائب تبریزی
ہَماں بہتر کہ لیلٰی در بیاباں جلوہ گر باشَد
ندارَد تنگنائے شہر تابِ حسنِ صحرائی

یہی بہتر ہے کہ لیلٰی کسی بیاباں میں جلوہ گر ہو، کہ تنگنائے شہر (شہر کے تنگ کوچے / تنگ دل لوگ) حسنِ صحرائی کی تاب (قدر) نہیں رکھتے۔
---------

صائب دوچیز می شکند قدرِ شعر را
تحسینِ ناشناس و سکوتِ سخن شناس

اے صائب، دو چیزیں (کسی) شعر کی قدر و قیمت ختم کر دیتی ہیں، ایک (سخن) ناشناس کی پسندیدگی (شعر کی داد دینا) اور دوسری سخن شناس کا خاموش رہنا (شعر کی داد نہ دینا)۔
---------

خواھی بہ کعبہ رو کن و خواھی بہ سومنات
از اختلافِ راہ چہ غم، رھنما یکے است

چاہے کعبہ کی طرف جائیں یا سومنات کی طرف، اختلافِ راہ کا غم (نفرت؟) کیوں ہو کہ راہنما تو ایک ہی ہے۔

ایں ما و من نتیجۂ بیگانگی بود
صد دل بہ یکدگر چو شود آشنا، یکے است

یہ میرا و تیرا (من و تُو کا فرق) بیگانگی کا نتیجہ ہے۔ سو دل بھی جب ایک دوسرے کے آشنا ہو جاتے ہیں تو وہ ایک ہی ہوتے ہیں (ایک ہی بن جاتے ہیں)۔
---------

من آں وحشی غزَالَم دامنِ صحراے امکاں را
کہ می‌ لرزَم ز ہر جانب غبارے می ‌شوَد پیدا

میں وہ وحشی (رم خوردہ) ہرن ہوں کہ صحرائے امکان میں کسی بھی جانب غبار پیدا ہو (نظر آئے) تو لرز لرز جاتا ہوں۔
---------

خار در پیراهنِ فرزانہ می ‌ریزیم ما
گل بہ دامن بر سرِ دیوانہ می‌ ریزیم ما

ہم فرزانوں کے پیراہن پر کانٹے (اور خاک) ڈالتے ہیں، اور دامن میں جو گل ہیں وہ دیوانوں کے سر پر ڈالتے ہیں۔

در دلِ ما شکوه‌ٔ خونیں نمی ‌گردد گره
هر چہ در شیشہ است، در پیمانہ می‌ ریزیم ما

ہمارے دل میں کوئی خونی شکوہ گرہ نہیں ڈالتا (دل میں کینہ نہیں رکھتے) جو کچھ بھی ہمارے شیشے میں ہے وہ ہم پیمانے میں ڈال دیتے ہیں۔
---------

اگرچہ وعدۂ خوباں وفا نمی دانَد
خوش آں حیات کہ در انتظار می گذرَد

اگرچہ خوباں کا وعدہ، وفا ہونا نہیں جانتا (وفا نہیں ہوتا، لیکن) میں اس زندگی سے خوش ہوں کہ جو (تیرے) انتظار میں گزر رہی ہے۔
---------

ز چرخ شیشہ و از آفتاب ساغر کُن
بطاقِ نسیاں بگزار جام و مینا را

آسمان کو شیشہ (بوتل) اور سورج کو پیمانہ بنا، اور جام و مینا کو طاقِ نسیاں پر رکھ دے۔
---------

دوست دشمن می شود صائب بوقتِ بے کسی
خونِ زخمِ آہواں رہبر شود صیاد را

مشکل وقت میں دوست بھی دشمن ہو جاتے ہیں جیسے ہرن کے زخموں سے بہنے والا خون شکاری کی رہنمائی کرتا ہے
---------

گر چہ صائب دستِ ما خالیست از نقدِ جہاں
چو جرَس آوازۂ در کارواں داریم ما

صائب اگرچہ ہمارے ہاتھ دنیا کے مال و دولت سے خالی ہیں لیکن ہم کارواں میں وہی حیثیت رکھتے ہیں جو جرس کی آواز کی ہوتی ہے (کہ اسی آواز پر کارواں چلتے ہیں)۔
---------

مولانا شبلی نعمانی، 'شعر العجم' میں میرزا صائب تبریزی کے احوال میں، سرخوش کے تذکرہ 'کلمات الشعراء' کے حوالے سے لکھتے ہیں:

"ایک دفعہ [صائب تبریزی] راہ میں چلا جا رہا تھا، ایک کتے کو بیٹھا ہوا دیکھا، چونکہ کتا جب بیٹھتا ہے تو گردن اونچی کر کے بیٹھتا ہے، فوراً یہ مضمون خیال میں آیا

شوَد ز گوشہ نشینی فزوں رعونتِ نفس
سگِ نشستہ ز استادہ، سرفراز ترست"

گوشہ نشینی سے رعونتِ نفس اور بھی بڑھ گئی کہ بیٹھے ہوئے کتے کا سر کھڑے ہوئے کتے سے بھی بلند ہوتا ہے۔ 'سرفراز' کا لفظ عجب لطف دے رہا ہے شعر میں۔

---------
مزید پڑھیے۔۔۔۔

Jan 11, 2011

صائب تبریزی کی ایک غزل کے کچھ خوبصورت اشعار

موجِ شراب و موجۂ آبِ بقا یکیست
ھر چند پردہ ھاست مُخالف، نوا یکیست

موجِ شراب اور موجِ آب حیات اصل میں ایک ہی ہیں۔ ہر چند کہ (ساز کے) پردے مخلتف ہو سکتے ہیں لیکن (ان سے نکلنے والی) نوا ایک ہی ہے۔

خواھی بہ کعبہ رو کن و خواھی بہ سومنات
از اختلافِ راہ چہ غم، رھنما یکیست

چاہے کعبہ کی طرف جائیں یا سومنات کی طرف، اختلافِ راہ کا غم (نفرت؟) کیوں ہو کہ راہنما تو ایک ہی ہے۔
Persian poetry, Persian Poetry with Urdu translation, Farsi poetry, Farsi poetry with urdu translation, saib tabrizi, صائب تبریزی
یادگار صائب تبریزی
ایں ما و من نتیجۂ بیگانگی بُوَد
صد دِل بہ یکدگر چو شَوَد آشنا، یکیست

یہ میرا و تیرا (من و تُو کا فرق) بیگانگی کا نتیجہ ہے۔ سو دل بھی جب ایک دوسرے کے آشنا ہو جاتے ہیں تو وہ ایک ہی ہوتے ہیں (ایک ہی بن جاتے ہیں)۔

در چشمِ پاک بیں نَبُوَد رسمِ امتیاز
در آفتاب، سایۂ شاہ و گدا یکیست

نیک بیں (منصف؟) نگاہوں میں کوئی رسمِ امتیاز نہیں ہوتی (ایک کو دوسرے سے فرق نہیں کرتیں) کہ دھوپ میں بادشاہ اور فقیر کا سایہ ایک جیسا ہی ہوتا ہے۔

بے ساقی و شراب، غم از دل نمی رَوَد
ایں درد را طبیب یکے و دوا یکیست

ساقی اور شراب کے بغیر غم دل سے نہیں جاتا کہ اس درد (دردِ دل) کا طبیب بھی ایک ہی ہے اور دوا بھی ایک۔

صائب شکایت از سِتَمِ یار چوں کُنَد؟
ھر جا کہ عشق ھست، جفا و وفا یکیست

صائب یار کے ستم کی شکایت کیوں کریں کہ جہاں جہاں بھی عشق ہوتا ہے وہاں جفا اور وفا ایک ہی (چیز) ہوتے ہیں۔

——–
بحر - بحر مضارع مثمن اخرب مکفوف محذوف

افاعیل - مَفعُولُ فاعِلاتُ مَفاعِیلُ فاعِلُن

(آخری رکن میں‌ فاعلن کی جگہ فاعلان بھی آسکتا ہے)

اشاری نظام - 122 1212 1221 212

(آخری رکن میں‌ 212 کی جگہ 1212 بھی آ سکتا ہے)

تقطیع -
موجِ شراب و موجۂ آبِ بقا یکیست
ھر چند پردہ ھاست مخالف، نوا یکیست

موجے شَ - مفعول - 122
راب موجَ - فاعلات - 1212
ء آبے بَ - مفاعیل - 1221
قا یکیس - فاعلان - 1212
ہر چند - مفعول - 122
پردَ ھاس - فاعلات - 1212
مخالف نَ - مفاعیل - 1221
وا یکیس - فاعلان - 1212

----

مزید پڑھیے۔۔۔۔

Jul 23, 2008

صائب تبریزی کی ایک غزل کے اشعار - خار در پیراهنِ فرزانہ می ‌ریزیم ما

خار در پیراهنِ فرزانہ می ‌ریزیم ما
گل بہ دامن بر سرِ دیوانہ می‌ ریزیم ما
ہم فرزانوں کے پیراہن پر کانٹے (اور خاک) ڈالتے ہیں، اور دامن میں جو گل ہیں وہ دیوانوں کے سر پر ڈالتے ہیں

قطره، گوهر می ‌شود در دامنِ بحرِ کرم
آبروئے خویش در میخانہ می ‌ریزیم ما
قطرہ، بحرِ کرم کے دامن میں گوھر بن جاتا ہے (اسی لیئے) ہم اپنی آبرو مے خانے میں نثار کر رہے ہیں۔

در خطرگاهِ جہاں فکرِ اقامت می ‌کنیم
در گذارِ سیل، رنگِ خانہ می ‌ریزیم ما
اس خطروں والے جہان میں ہم رہنے کی فکر کرتے ہیں، سیلاب کے راستے میں رنگِ خانہ ڈالتے ہیں (گھر بناتے ہیں)

در دلِ ما شکوه‌ٔ خونیں نمی ‌گردد گره
هر چہ در شیشہ است، در پیمانہ می‌ ریزیم ما
ہمارے دل میں کوئی خونی شکوہ گرہ نہیں ڈالتا (دل میں کینہ نہیں رکھتے) جو کچھ بھی ہمارے شیشے میں ہے وہ ہم پیمانے میں ڈال دیتے ہیں۔
Persian poetry, Persian Poetry with Urdu translation, Farsi poetry, Farsi poetry with urdu translation, saib tabrizi, صائب تبریزی
صائب تبریزی - ایک خاکہ، saib tabrizi
انتظارِ قتل، نامردی است در آئینِ عشق
خونِ خود چوں کوهکن مردانہ می ‌ریزیم ما
عشق کے آئین میں قتل ہونے (موت) کا انتظار نامردی ہے، ہم اپنا خون فرہاد کی طرح خود ہی مردانہ وار بہا رہے ہیں۔
——–
بحر - بحر رمل مثمن محذوف
افاعیل - فاعِلاتُن فاعِلاتُن فاعِلاتُن فاعِلُن
(آخری رکن یعنی فاعلن کی جگہ فاعلان بھی آ سکتا ہے)
اشاری نظام - 2212 2212 2212 212
(آخری 212 کی جگہ 1212 بھی آ سکتا ہے)
تقطیع -
خار در پیراهنِ فرزانہ می ‌ریزیم ما
گل بہ دامن بر سرِ دیوانہ می‌ ریزیم ما
خار در پے - فاعلاتن - 2212
را ہَ نے فر - فاعلاتن - 2212
زانَ می رے - فاعلاتن - 2212
زیم ما - فاعلن - 212
گل بَ دامن - فاعلاتن - 2212
بر سَرے دی - فاعلاتن - 2212
وانَ می رے - فاعلاتن - 2212
زیم ما - فاعلن - 212
مزید پڑھیے۔۔۔۔