Showing posts with label حافظ شیرازی. Show all posts
Showing posts with label حافظ شیرازی. Show all posts

Jun 17, 2009

حافظ شیرازی کی ایک شاہکار غزل - در خراباتِ مُغاں نورِ خدا می بینَم

در خراباتِ مُغاں نورِ خدا می بینَم
ویں عجب بیں کہ چہ نُورے ز کجا می بینَم
مغاں کہ میکدے میں نورِ خدا دیکھتا ہوں، اس تعجب انگیز بات کو دیکھو (غور کرو) کہ کیا نور ہے اور میں کہاں دیکھتا ہوں۔

کیست دُردی کشِ ایں میکدہ یا رب، کہ دَرَش
قبلۂ حاجت و محرابِ دعا می بینَم
یا رب، اس میکدے کی تلچھٹ پینے والا یہ کون ہے کہ اس کا در مجھے قبلۂ حاجات اور دعا کی محراب نظر آتا ہے۔

جلوہ بر من مَفَروش اے مَلِکُ الحاج کہ تو
خانہ می بینی و من خانہ خدا می بینَم
اے حاجیوں کے سردار میرے سامنے خود نمائی نہ کر کہ تُو گھر کو دیکھتا ہے اور میں گھر کے مالک خدا کو دیکھتا ہوں۔

سوزِ دل، اشکِ رواں، آہِ سحر، نالۂ شب
ایں ہمہ از اثَرِ لطفِ شُما می بینَم
سوزِ دل، اشکِ رواں، آہِ سحر اور نالۂ شب، یہ سب آپ کی مہربانی کا اثر ہے۔
Persian poetry, Persian Poetry with Urdu translation, Farsi poetry, Farsi poetry with urdu translation, Mazar Hafiz Sheerazi, مزار حافظ شیرازی
مزار خواجہ حافظ شیرازی
Mazar Hafiz Sheerazi
خواہم از زلفِ بتاں نافہ کشائی کردَن
فکرِ دُورست، ہمانا کہ خطا می بینَم
چاہتا ہوں کہ زلفِ بتاں سے نافہ کشائی (خوشبو حاصل) کروں مگر یہ ایک دُور کی سوچ ہے، بیشک میں غلط ہی خیال کر رہا ہوں۔

ہر دم از روئے تو نقشے زَنَدَم راہِ خیال
با کہ گویم کہ دریں پردہ چہا می بینَم
ہر دم تیرے چہرے کا اک نیا نقشہ میرے خیال پر ڈاکہ ڈالتا ہے، میں کس سے کہوں کہ اس پردے میں کیا کیا دیکھتا ہوں۔

کس ندیدست ز مشکِ خُتَن و نافۂ چیں
آنچہ من ہر سحر از بادِ صبا می بینَم
کسی نے حاصل نہیں کیا مشکِ ختن اور نافۂ چین سے وہ کچھ (ایسی خوشبو) جو میں ہر صبح بادِ صبا سے حاصل کرتا ہوں۔

نیست در دائرہ یک نقطہ خلاف از کم و بیش
کہ من ایں مسئلہ بے چون و چرا می بینَم
اس دائرے (آسمان کی گردش) میں ایک نقطہ کی بھی کمی بیشی کا اختلاف نہیں ہے، اور میں اس مسئلے کو بے چون و چرا جانتا ہوں۔

منصبِ عاشقی و رندی و شاہد بازی
ہمہ از تربیتِ لطفِ شُما می بینَم
منصبِ عاشقی، رندی اور شاہدی بازی، یہ سب کچھ آپ کی تربیت کی مہربانی سے مجھے حاصل ہوا ہے۔

دوستاں، عیبِ نظر بازیِ حافظ مَکُنید
کہ من او را، ز مُحبّانِ خدا می بینَم
اے دوستو، حافظ کی نظر بازی پر عیب مت لگاؤ، کہ میں اُس کو (حافظ کو) خدا کے دوستوں میں سے دیکھتا ہوں۔
----------

بحر - بحرِ رمل مثمن مخبون محذوف مقطوع

افاعیل - فاعِلاتُن فَعِلاتُن فَعِلاتُن فَعلُن
(پہلے رکن یعنی فاعلاتن کی جگہ مخبون رکن فَعِلاتُن بھی آ سکتا ہے اور آخری رکن یعنی فعلن کی جگہ فعلان، فَعِلُن اور فَعِلان بھی آ سکتے ہیں گویا آٹھ اوزان اس بحر میں جمع ہو سکتے ہیں)

اشاری نظام - 2212 2211 2211 22
(پہلے 2212 کی جگہ 2211 اور آخری 22 کی جگہ 122، 211 اور 1211 بھی آ سکتے ہیں)

تقطیع -
در خراباتِ مغاں نورِ خدا می بینم
ویں عجب بیں کہ چہ نُورے ز کجا می بینم

در خَ را با - 2212 - فاعلاتن
تِ مُ غا نُو - 2211 - فعلاتن
رِ خُ دا می - 2211 - فعلاتن
بی نَم - 22 - فعلن

وی عَ جَب بی - 2212 - فاعلاتن
کہ چہ نورے - 2211 - فعلاتن
ز کُ جا می - 2211 - فعلاتن
بی نم - 22 - فعلن
مزید پڑھیے۔۔۔۔

Apr 12, 2009

حافظ شیرازی کی ایک غزل مع اردو ترجمہ - فکرِ ہر کس بقدرِ ہمّتِ اوست

حافظ شیرازی کی درج ذیل غزل انتہائی مشہور ہے اور اسکے کچھ اشعار فارسی تو کیا اردو میں بھی ضرب المثل کا مقام حاصل کر چکے ہیں۔ ساری غزل عشقِ حقیقی کی چاشنی سے لبریز ہے اور حافظ کے جداگانہ اسلوب کی آئینہ دار ہے۔

دل سرا پردۂ محبّتِ اُوست
دیدہ آئینہ دارِ طلعتِ اوست
ہمارا دل اسکی محبت کا خیمہ ہے اور آنکھ اسکے چہرے کی آئینہ دار یعنی اسی کو دیکھنے والی ہے۔

من کہ سر در نَیاورَم بہ دو کون
گردنَم زیرِ بارِ منّتِ اوست
میں جو کہ (اپنی بے نیازی کی وجہ سے) دونوں جہانوں کے سامنے سر نہیں جھکاتا لیکن میری گردن اس (حقیقی دوست) کے احسانوں کی زیرِ بار ہے۔

تو و طُوبیٰ و ما و قامتِ یار
فکرِ ہر کس بقدرِ ہمّتِ اوست
تُو ہے اور طُوبیٰ ہے (تجھے جنت کا خیال ہے)، میں ہوں اور دوست کا قد (مجھے اسکے دیدار کا خیال ہے)، ہر کسی کی فکر اسکی ہمت کے اندازے کے مطابق ہوتی ہے۔

دورِ مجنوں گذشت و نوبتِ ماست
ہر کسے پنج روزہ نوبتِ اوست
مجنوں کا دور گذر گیا اور اب ہمارا وقت ہے، ہر کسی کا پانچ (کچھ) دنوں کیلیے دور ہے۔
Persian poetry, Persian Poetry with Urdu translation, Farsi poetry, Farsi poetry with urdu translation, Mazar Hafiz Sheerazi, مزار حافظ شیرازی
Mazar Hafiz Sheerazi, مزار حافظ شیرازی
من کہ باشَم در آں حرَم کہ صبا
پردہ دارِ حریمِ حرمتِ اوست
میں کون ہوتا ہوں اس حرم میں جانے والا کہ صبا اسکی حرمت کے حریم کی پردہ دار ہے۔

مُلکتِ عاشقی و گنجِ طرب
ہر چہ دارَم یُمنِ ہمّتِ اوست
عاشقی کا ملک اور مستی کا خزانہ، جو کچھ بھی میرے پاس ہے اسکی توجہ کی برکت کی وجہ سے ہے۔

من و دل گر فنا شویم چہ باک
غرَض اندر میاں سلامتِ اوست
میں اور میرا دل اگرچہ فنا بھی ہو جائیں تو کیا پروا کہ درمیان میں مقصد تو اسکی سلامتی ہے (نہ کہ ہماری)۔

بے خیالَش مباد منظرِ چشم
زاں کہ ایں گوشہ خاص دولتِ اوست
اسکے خیال کے بغیر نگاہ کا منظر نہ ہو (نگاہ کچھ نہ دیکھے) کہ یہ گوشۂ خاص (بینائی) اسکی دولت ہے۔

گر من آلودہ دامنَم چہ عجب
ہمہ عالم گواہِ عصمتِ اوست
اگر میں آلودہ دامن ہوں تو کیا ہوا، کہ اسکی عصمت کا گواہ تو سارا عالم ہے۔

ہر گُلِ نو کہ شُد چمن آرائے
اثرِ رنگ و بُوئے صحبتِ اوست
ہر نیا پھول جو بھی چمن میں کھلتا ہے، اسکی صحبت کے رنگ و بُو کا اثر ہے۔

فقرِ ظاہر مَبیں کہ حافظ را
سینہ گنجینۂ محبّتِ اوست
حافظ کا ظاہری فقر (غربت) نہ دیکھ کہ اسکا سینہ اسکی (دوست کی) محبت کا خزانہ ہے۔
مزید پڑھیے۔۔۔۔

Nov 1, 2008

رباعیاتِ حافظ شیرازی مع اردو ترجمہ

حافظ شیرازی کا نام کسی تعارف کا محتاج نہیں، ایران اور برصغیر پاک و ہند کی شاعری پر جتنے اثرات حافظ نے چھوڑے ہیں شاید ہی کسی اور شاعر نے چھوڑے ہوں اور جتنے شاعر حافظ سے متاثر ہوئے ہیں شاید ہی کسی اور سے ہوئے ہوں۔ اور صدیاں گزرنے کے باوجود وہ آج بھی ایران میں مقبول ترین شاعر ہیں۔
یوں تو حافظ شیرازی اپنی غزلیات کے لیے زیادہ مشہور ہیں لیکن انکی رباعیات بھی پڑھنے سے تعلق رکھتی ہیں انہی میں سے چند رباعیاں:
(1)
ہر روز دِلَم بَزیرِ بارے دِگرست
دَر دیدۂ من ز ہجر خارے دگرست
مَن جہد ہَمی کُنَم، قضا می گویَد
بیروں ز کفایتِ تو کارے دِگرست
ہر روز میرا دل ایک نئے بوجھ کے تلے ہے، (ہر روز) میری آنکھ میں ہجر کا ایک نیا کانٹا ہے۔ میں جد و جہد کرتا ہوں اور تقدیر کہتی ہے، تیرے بس سے باہر ایک اور کام ہے۔
(2)
با مَردَمِ نیک بَد نَمی بایَد بُود
در بادیہ دیو و دَد نَمی بایَد بُود
مَفتُونِ معاشِ خود نَمی بایَد بُود
مغرور بَعقلِ خود نَمی بایَد بُود
نیک لوگوں کے ساتھ برا نہیں بننا چاہیئے، جنگل میں شیطان اور درندہ نہیں بننا چاہیئے، اپنی روزی کا دیوانہ نہیں بننا چاہیئے، (اور) اپنی عقل پر مغرور نہیں بننا چاہیئے۔
(3)
گُفتی کہ بہ مہ نَظَر کُن و انگار مَنَم
روئے تو ام آرزوست، مہ را چہ کُنَم
مہ چُوں تو کُجا بُود کہ اندر ماھے
یک شب چو رُخَت باشد و باقی چو تَنَم
تو نے کہا کہ چاند کو دیکھ لوں اور سمجھ لے کہ میں ہوں۔ (لیکن) مجھے تو تمھارے چہرے کی آرزو ہے میں چاند کو کیا کروں۔ چاند تجھ جیسا کہاں ہو سکتا ہے کہ وہ تو ایک مہینے میں، (صرف) ایک رات (چودھویں کی) تمھارے چہرے کی طرح ہوتا ہے اور باقی راتوں میرے جسم کی طرح (نحیف و نزار و لاغر)۔
(4)
اوّل بہ وفا جامِ وصالَم دَر داد
چُوں مست شُدَم دامِ جفا را سَر داد
با آبِ دو دیدہ و پُر از آتشِ دل
خاکِ رہِ اُو شُدَم بہ بادَم دَر داد
پہلے تو وفا سے مجھے وصال کا جام دیا، جب میں مست ہو گیا تو جفا کا جال ڈال دیا، Persian poetry, Persian Poetry with Urdu translation, Farsi poetry, Farsi poetry with urdu translation, Mazar Hafiz Sheerazi, مزار حافظ شیرازیدو روتی ہوئی آنکھوں اور آگ بھرے دل کے ساتھ، جب میں اس کی راہ کی خاک بنا تو مجھے ہوا میں اڑا دیا۔
مزید پڑھیے۔۔۔۔