Nov 29, 2011

نوائے سروش - مولانا شبلی نعمانی اور طبلچی

عبدالرزاق ملیح آبادی نے اپنی کتاب "ذکرِ آزاد"، جو مولانا ابوالکلام آزاد کے ساتھ گزرے ہوئے انکے اڑتیس برسوں کی یادداشتوں پر مشتمل ہے، میں مولانا شبلی نعمانی کا ایک دلچسپ واقعہ مولانا آزاد کی زبانی بیان کیا ہے، ملاحظہ کیجیے۔

"علامہ شبلی نعمانی

جیل میں ایک دن مولانا [ابوالکلام آزاد] نے مرحوم شبلی نعمانی کے متعلق ایک دلچسپ لطیفہ سنایا۔ کہنے لگے، مولانا شبلی نہایت زندہ دل صاحبِ ذوق آدمی تھے، حسن پرست بھی تھے اور موسیقی وغیرہ فنونِ لطیفہ سے گہری دلچسپی رکھتے تھے مگر مولوی تھے، عام رائے سے ڈرتے تھے اور بڑی احتیاط سے اپنا ذوق پورا کرتے تھے۔

ایک دفعہ موصوف دہلی میں حکیم اجمل خاں مرحوم کے ہاں ٹھہرے ہوئے تھے کہ خواجہ حسن نظامی ملنے آئے اور کہنے لگے، آج میرے ہاں قوالی ہے، دہلی کی ایک مشہور طوائف۔۔۔۔(میں نام بھول گیا ہوں) گائے گی۔ محفل بالکل خاص ہے،میرے اور آپ کے سوا وہاں کوئی نہ ہوگا۔

مولانا شبلی نے دعوت قبول کر لی، کشمیری شال اوڑھی، وضع بدلی، بند گاڑی میں بیٹھے اور خواجہ صاحب کے ہاں پہنچ گئے۔ واقعی کوئی تیسرا آدمی مدعو نہ تھا، قوالی شروع ہوئی اور مولانا نے اپنے آپ کو محتسبوں سے محفوظ پا کر ضرورت سے زیادہ آزادی سے کام لیا۔ دل کھول کر گانے کی اور گانے والی کی تعریف کی۔ طوائف سے ہنستے بھی رہے اور اسے چھیڑتے بھی رہے۔
Maulana Shibli Nomani, مولانا شبلی نعمانی
مولانا شبلی نعمانی
Maulana Shibli Nomani
طوائف کا طبلچی ایک لحیم شحیم سن رسیدہ آدمی تھا۔ سر پر پٹے تھے اور منہ پر چوکور بڑی سی داڑھی، پٹے اور داڑھی خضاب سے بھونرا ہو رہے تھے۔ محفل جب برخاست ہونے لگی تو طبلچی دونوں ہاتھ بڑھائے مولانا کی طرف لپکا اور بڑے جوش سے مولانا کے ہاتھ پکڑ لیے، چومے، آنکھوں سے لگائے اور جوش سے کہنے لگا، "کس منہ سے خدا کا شکر ادا کروں کہ عمر بھر کی آرزو آج پوری ہوئی، مولانا سبحان اللہ، ماشاءاللہ، آپ نے "الفاروق" لکھ کر وہ کام کیا ہے جو نہ کسی سے ہوا نہ ہو سکے گا۔ بخدا آپ نے قلم توڑ دیا ہے، بندے کی کتنی تمنا تھی کہ حضرت کی زیارت سے مشرف ہو، سو آج بائی جی اور خواجہ صاحب کی بدولت یہ سعادت اس گنہگار کو نصیب ہوگئی۔"

مولانا آزاد نے فرمایا، علامہ شبلی بڑے ذکی الحس تھے، اس غیر متوقع واقعہ نے انکی ساری خوشی کرکری کر دی۔ شرم سے عرق عرق ہو گئے، سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ کیا کریں؟ طبلچی کو کیا جواب دیں؟ کس طرح محفل سے غائب ہو جائیں؟ بے جان بت کی طرح بیٹھے رہ گئے۔ خواجہ صاحب نے موقع کی نزاکت محسوس کی اور طائفے کو رخصت کر دیا مگر علامہ کو سخت ذہنی صدمہ پہنچ چکا تھا، ہفتوں شگفتہ نہ ہو سکے۔

مولانا نے فرمایا، یہ واقعہ خود علامہ شبلی نے ان سے بیان کیا تھا۔ بیان کرتے وقت بھی متاثر تھے اور بار بار کہتے تھے، کاش "الفاروق" میرے قلم سے نہ نکلی ہوتی اور نکلی تھی تو اسے پڑھنے والا طبلچی اس قوالی سے پہلے ہی ناپید ہو چکا ہوتا، یہ نہیں تو مجھے موت آ گئی ہوتی کہ اس ذلت سے بچ جاتا۔"

(اقتباس از ذکرِ آزاد از عبدالرزاق ملیح آبادی)
----
مزید پڑھیے۔۔۔۔

Nov 25, 2011

تذکرۂ معاصرین از مالک رام

تذکرہ نویسی کی روایت اردو میں بہت پرانی ہے اور تذکرہ نگاروں کے ساتھ ساتھ کئی مشہور کلاسیکی شعراء نے بھی اپنے ہم عصر شعرا اور متقدمین کے تذکرے لکھے ہیں جیسے میر، مصحفی، شیفتہ وغیرہ۔ ان تذکروں میں شعراء کا کلام اور اس پر رائے کے ساتھ ساتھ شاعروں کے کسی قدر سوانح بھی آ گئے ہیں۔ اسی تذکرہ نویسی کی روایت میں ایک گراں قدر اور بیش بہا اضافہ مالک رام دہلوی کی "تذکرۂ معاصرین" ہے جسے اردو کے "زریں عہد" کا بہترین تذکرہ کہا جائے تو غلط نہ ہوگا۔

دراصل یہ کتاب ایک طرح سے کتاب وفیات ہے جس میں مالک رام نے 1967ء سے 1977ء تک وفات پا جانے والی دو سو سے زائد شخصیات کا ذکر کیا ہے جن میں شاعر بھی ہیں اور ادیب بھی، محققین بھی ہیں اور ناقدین بھی۔ یعنی یہ وہ شخصیات ہیں جن کا کسی نے کسی حیثیت سے اردو سے گہرا تعلق رہا ہے اور یہ مالک رام کے ہم عصر تھے جن کے ساتھ مالک رام کے ذاتی تعلقات بھی تھے۔

مالک رام جب بھی کسی موضوع پر قلم اٹھاتے تھے تو اس موضوع کا حق ادا کر دیتے تھے، وہ انکی تصنیفات ہوں جیسے "ذکرِ غالب" اور "تلامذۂ غالب" یا انکی مرتب کردہ کتب جیسے غالب ہی کی "سبدِ چین" اور "گُلِ رعنا" یا انکے مقدمات اور حواشی جیسے مولانا ابوالکلام آزاد کی "غبارِ خاطر" اور "تذکرہ" پر، ان سب سے ایک بات واضح ہوتی ہے کہ وہ تحقیق کے میدان کے مرد تھے اور جرمن حکماء کی طرح جب تک کسی موضوع کا کلی احاطہ نہیں کر لیتے تھے تب تک اس موضوع پر قلم نہیں اٹھاتے تھے۔

Malik Ram, مالک رام
مالک رام دہلوی Malik Ram
اردو شعراء و ادبا کے کلام و کام کی تو بہت اشاعت ہوئی ہے لیکن ان کے سوانح و حالات اگر کبھی کسی کو ڈھونڈنے پڑ جائیں تو دانتوں پسینہ آ جاتا ہے لیکن آفرین ہے مالک رام مرحوم پر کہ سینکڑوں کتب و رسائل و جرائد و اخبارات کا عرق ریزی سے مطالعہ کرنے کے بعد اور مرحومین کے عزیز و اقارب و احباب سے خط و کتابت کرنے کے بعد انکے مستند اور مفصل حالات کو جمع کر دیا ہے۔ جن شعراء کے دواوین شائع ہو چکے تھے ان کے کلام کا انتخاب ان سے اور جن کے مجموعے نہیں تھے ان کے کلام کا انتخاب رسائل و جرائد و اخبارات کھنگال کر انکے سوانح کے ساتھ شامل کر دیا ہے اور انکی تصنیفات کا ذکر بھی کر دیا ہے۔ اندازِ تحریر انتہائی دلچسپ ہے اور سوانح اور انتخاب کے دریا کو چند صفحات کے کوزے میں یوں بند کیا ہے کہ تمام تفصیلات بکمال و تمام آ گئی ہیں۔

یہ کتاب دلّی سے 1972ء سے 1982ء کے درمیان چار جلدوں میں شائع ہوئی تھی اور جیسا کہ اوپر ذکر ہوا کہ اس میں 1967ء سے 1977ء کے دوران وفات پانے والی شخصیات کا ذکر ہے جن کی ترتیب تاریخِ وفات کے لحاظ سے تھی لیکن اس کا پاکستانی ایڈیشن ترتیبِ نو کے ساتھ 2010ء میں شائع ہوا ہے اور چاروں جلدوں کو ایک ہی جلد میں یکجا کر دیا گیا ہے اور ترتیب الفبائی ہے جب کہ کتاب کے آخر میں تاریخِ وفات کے لحاظ سے ایک اشاریہ ضمیمے کے طور پر درج کر دیا گیا ہے۔ مالک رام ہر جلد کے شروع میں جو تعارف لکھتے تھے ان کو بھی اس کتاب کے شروع میں یکجا کر دیا گیا ہے جب کہ کتاب کے آخر میں دو مزید اشاریے شامل ہیں ایک اشخاص کا اور دوسرا کتب و رسائل کا۔ کتب میں اشاریے شامل کرنے کا مالک رام ضرور التزام کرتے تھے تا کہ بآسانی مطلوبہ معلومات حاصل ہوجائیں جبکہ دوسری طرف اردو کتب میں اس طرح کے اشاریے شامل کرنا ابھی بھی شاذ ہی ہے، کتاب کے شروع میں ڈاکٹر عارف نوشاہی کا ایک گراں قدر مقالہ "وفیات نویسی کی روایت-- عربی، فارسی، ترکی اور اردو میں" بھی شامل ہے۔
Malik Ram
تذکرہٴ معاصرین از مالک رام
اس کتاب کی ابتدا کا واقعہ بھی دلچسپ ہے، پہلی جلد کے تعارف میں مالک رام کے اپنے الفاظ یوں ہیں۔۔۔۔

"بعض احباب کے تعاون سے 1966ء کے اواخر میں دلّی میں "علمی مجلس" کا قیام عمل میں آیا۔ اس سے اصلی مقصد یہ تھا کہ ہم لوگ کبھی کبھی مل بیٹھیں، جہاں کسی علمی یا تحقیقی موضوع پر تبادلۂ خیالات کیا جا سکے۔ بعد کو فیصلہ ہوا کہ مجلس اپنا رسالہ بھی شائع کرے چنانچہ اس فیصلے کے مطابق تماہی [سہ ماہی] "تحریر" 1967ء میں جاری کیا گیا، اسکی ترتیب میرے سپرد ہوئی۔ ابھی ایک ہی شمارہ شائع ہوا تھا کہ لکھنؤ میں میرزا جعفر علی خاں اثر کا انتقال ہو گیا، میرے ان کے برسوں کے تعلق تھے۔ جی میں آئی کہ ان کے مختصر حالات "تحریر" میں شائع کر دوں، ابھی ارادہ ہی کر رہا تھا کہ رفیق مارہروی کے بھی انتقال کی خبر موصول ہوئی، یہ بھی میرے ملنے والے تھے، میں نے خیال کیا کہ اچھا ان کے بھی سہی۔ بدقسمتی سے وہ تماہی ختم ہوتے ہوتے چار پانچ صاحب داغِ مفارقت دے گئے اور میں نے 1967ء کی دوسری تماہی کے شمارے میں ان سب کے مختصر حالات شائع کر دیے، یوں گویا "تحریر" میں وفیات کے مستقل باب کا اضافہ ہو گیا۔ یہ فیصلہ کسی بڑی ہی بُری گھڑی میں ہوا تھا، وہ دن اور آج کا دن، اس کے بعد شاید ہی کوئی تماہی ایسی گزری ہو جس میں کسی نہ کسی مرحوم کے حالات مجھے نہ لکھنا پڑے ہوں۔ جب خیال کرتا ہوں کہ ان پانچ برس میں ستّر سے زیادہ اہلِ علم و قلم ہم سے جدا ہو گئے ہیں تو کلیجہ منہ کو آتا ہے۔"
کتاب میں مذکور کچھ شخصیات۔۔۔۔

ابراہیم جلیس، اثرلکھنوی، امتیاز علی تاج، باقی صدیقی، بہزاد لکھنوی، جان نثار اختر، جعفر طاہر، جوش ملسیانی، حبیب اشعر دہلوی، حفیظ ہوشیارپوری، دیوان سنگھ مفتون، ڈاکٹر ذاکر حسین، ذوالفقار بخاری، رشید احمد صدیقی، رئیس احمد جعفری، ساغر صدیقی، سید سجاد ظہیر، سید علی عباس حسینی، سید محمد جعفری، سید مسعود حسین رضوی ادیب، سید وقار عظیم، شاہ معین الدین احمد ندوی، شاہد احمد دہلوی، شکیل بدایونی، شورش کاشمیری، شوکت سبزواری، شیخ محمد اکرام، عابد علی عابد، عندلیب شادانی، فرقت کاکوری، کرشن چندر، مجید امجد، مختار صدیقی، مخدوم محی الدین، مصطفیٰ زیدی، ملا واحدی، ممتاز شیریں، مولانا عبدالماجد دریابادی، مولانا غلام رسول مہر، ن م راشد، ناصر کاظمی، یوسف ظفر وغیرہ۔

ناشر۔ الفتح پبلی کیشنز، راولپنڈی
صفحات - 1060
قیمت - 1500 روپے (میری نظر میں قیمت انتہائی زیادہ ہے لیکن 40 فیصد رعایت نے کچھ تلافی ضرور کی)۔
کتاب کی بارے میں مزید تفصیلات ناشر کی اس ویب سائٹ پر ملاحظہ کیجیے۔
مزید پڑھیے۔۔۔۔

Nov 21, 2011

متفرق فارسی اشعار - ۲

دل اسبابِ طرَب گم کردہ، در بندِ غمِ ناں شُد
زراعت گاہِ دہقاں می شَوَد چوں باغ ویراں شُد
(غالب دہلوی)

(میرے) دل نے خوشی و مسرت کے سامان گم کر دیئے (کھو دیئے) اور روٹی کے غم میں مبتلا ہو گیا، (جسطرح کہ) جب کوئی باغ ویران ہو جاتا ہے تو وہ کسان کی زراعت گاہ (کھیت) بن جاتا ہے۔
--------

در کوئے نیک نامی ما را گذر ندادَند
گر تو نمی پسندی تغییر کن قضا را
(حافظ شیرازی)
Persian poetry, Persian Poetry with Urdu translation, Farsi poetry, Farsi poetry with urdu translation,
نیک نامی کے کوچے سے ہمیں گزرنے نہ دیا گیا، اگر تمھیں یہ بات پسند نہیں ہے، یعنی ہمارا نیک نام نہ ہونا تو پھر تقدیر کو تبدیل کر دو۔ یہ شعر کچھ تغیر کے ساتھ بھی ملتا ہے جیسا کہ منسلک تصویر میں ہے۔
--------

بحرفِ ناملائم زحمتِ دل ہا مشو بیدل
کہ ہر جا جنسِ سنگی ہست، باشد دشمنِ مینا
(عبدالقادر بیدل)

بیدل، تلخ الفاظ (ناروا گفتگو) سے دلوں کو تکلیف مت دے، کہ جہاں کہیں بھی کوئی پتھر ہوتا ہے وہ شیشے کا دشمن ہی ہوتا ہے۔
--------

ہر دو عالم قیمتِ خود گفتہ ای
نرخ بالا کن کہ ارزانی ہنوز
(امیر خسرو)

تُو نے اپنی قیمت دونوں جہان بتائی ہے، نرخ زیادہ کرو کہ ابھی بھی یہ کم ہے۔
--------

غلامی
آدم از بے بصری بندگیٔ آدم کرد
گوہرے داشت ولے نذرِ قباد و جَم کرد

یعنی از خوئے غلامی ز سگاں خوار تر است
من ندیدم کہ سگے پیشِ سگے سر خم کرد
(اقبال، پیامِ مشرق)

آدمی اپنی بے بصری (اپنی حقیقت سے بے خبری) کی بنا پر آدمی کی غلامی کرتا ہے، وہ (آزادی و حریت) کا گوہر تو رکھتا ہے لیکن اسے قباد و جمشید (بادشاہوں) کی نذر کر دیتا ہے۔

یعنی اس غلامی کی عادت میں وہ کتوں سے بھی زیادہ خوار ہو جاتا ہے، (کیونکہ) میں نے نہیں دیکھا کہ (کبھی) کسی کتے نے دوسرے کتے کے سامنے سر خم کیا ہو۔
--------

غنی روزِ سیاہِ پیرِ کنعاں را تماشا کن
کہ نورِ دیدہ اش روشن کُنَد چشمِ زلیخا را
(غنی کاشمیری)

غنی، پیرِ کنعاں ( یعقوب ع) کے نصیبوں کی سیاہی تو ذرا دیکھ کہ انکی آنکھوں کے نور (یوسف ع) نے روشن کیا تو زلیخا کی آنکھوں کو۔
--------

مرا دو چشمِ تو انداخت در بلائے سیاه
وگرنہ من کہ و مستی و عاشقی ز کجا
(عبید زاکانی)

مجھے تو تیری دو آنکھوں نے سیاہ بلا میں مبتلا کر دیا ہے، وگرنہ میں کیا (کہاں) اور مستی اور عاشقی کہاں۔
--------

من عاشقم، گواہِ من ایں قلبِ چاک چاک
در دستِ من جز ایں سندِ پارہ پارہ نیست
(محمد رضا عشقی)

میں عاشق ہوں اور میرا گواہ یہ دلِ چاک چاک ہے، میرے ہاتھ میں (میرے پاس) اس پارہ پارہ سند کے سوا اور کچھ نہیں۔
--------

گرفتم آں کہ بہشتم دہند بے طاعت
قبول کردن و رفتن نہ شرط انصاف است
(عرفی شیرازی)

میں نے مان لیا کہ مجھے بہشت بغیر عمل کے ہی مل جائے گی لیکن اسے قبول کرنا اور اس میں داخل ہونا انصاف کے خلاف ہے۔
--------
مزید پڑھیے۔۔۔۔

Nov 17, 2011

مشک آں است کہ خود ببوید۔۔۔۔۔۔

پچھلے سال 2010ء کی طرح اس سال بھی پاکستان بلاگ ایوارڈز منعقد کیے جا رہے ہیں اور اس خاکسار نے بھی بہترین ادبی بلاگ کیلیے اپنا بلاگ خود ہی نامزد کر دیا ہے بالکل پچھلے سال کی طرح۔ ایوارڈ وغیرہ تو خیر جو کچھ بھی ہے بس اسطرح چند اور لوگوں تک شاید آواز پہنچ جاتی ہے۔

پچھلے سال بہترین ادبی بلاگ ایوارڈ بھی ایک طرفہ تماشا تھا، بڑے زور و شور سے نامزدگیاں کی گئیں لیکن اعلان کرتے ہوئے کیا ہوا۔۔۔۔۔۔۔چھوڑیے حضرت کچھ بھی نہیں ہوا یعنی کہ سرے سے اس شعبے یعنی ادبی شعبے میں ایوارڈ ہی نہیں دیا گیا شاید منتظمین اور منصفین نے یہی سمجھا کہ کوئی ایسا ادبی بلاگ نہیں ہے جس کو اس "اعلیٰ " ایوارڈ سے نوازا جائے۔

خیر اس خاکسار کو اپنے اس بلاگ کے "ادبی" ہونے کیلیے کسی سند کی ضرورت تو نہیں ہے کہ "مشک آں است کہ خود ببوید نہ کہ عطار بگوید" لیکن پھر بھی گرمیِ محفل اور رونقِ بازار کیلیے اپنا بلاگ نامزد کر دیا ہے۔

مزید پڑھیے۔۔۔۔

Nov 16, 2011

کون کسی کا یار ہے سائیں - راغب مراد آبادی

کون کسی کا یار ہے سائیں
یاری بھی بیوپار ہے سائیں

یہ بھی جھوٹا، وہ بھی جھوٹا
جھوٹا سب سنسار ہے سائیں
Raghib Muradabadi,urdu poetry, urdu ghazal,
راغب مرادآبادی
Raghib Muradabadi
ہم تو ہیں بس رمتے جوگی
آپ کا تو گھر بار ہے سائیں

کب سے اُس کو ڈھونڈ رہا ہوں
جس کو مجھ سے پیار ہے سائیں

کرودھ کپٹ ہے جس کے من میں
مفلس اور نادار ہے سائیں

ڈول رہی ہے پریم کی نیا
داتا کھیون ہار ہے سائیں

بات کبھی ہے پھول کی ڈالی
بات کبھی تلوار ہے سائیں

گاؤں کی عزت کا رکھوالا
گاؤں کا لمبردار ہے سائیں

راغب مراد آبادی
مزید پڑھیے۔۔۔۔

Nov 12, 2011

متفرق فارسی اشعار - ١

رفتم کہ خار از پا کشم، محمل نہاں شد از نظر
یک لحظہ غافل گشتم و صد سالہ راہم دور شد

(ملک قمی)

میں نے پاؤں سے کانٹا نکالنا چاہا (اور اتنے میں) محمل نظر سے پوشیدہ ہو گیا، میں ایک لمحہ غافل ہوا اور راہ سے سو سال دور ہو گیا۔
--------

تو غنی از ہر دو عالم من فقیر
روزِ محشر عذر ہائے من پذیر
ور حسابم را تو بینی ناگزیر
از نگاہِ مصطفیٰ پنہاں بگیر

(اقبال)
Persian poetry, Persian Poetry with Urdu translation, Farsi poetry, Farsi poetry with urdu translation,
اے میرے خدا، تُو دونوں جہانوں کو دینے والا اور بخشنے والا ہے جب کہ میں تیرا ایک فقیر ہوں لہذا روزِ محشر میرے عذر قبول فرما اور مجھے اپنی رحمت سے بخش دے، لیکن اس کے باوجود اگر تو سمجھے کہ میرے اعمال کا حساب کرنا ناگزیر ہے تو پھر مصطفیٰ (ص) کی نگاہ سے مجھے پوشیدہ رکھنا اور میرا حساب انکے سامنے نہ کرنا۔
--------

امیر خسرو کا ایک شعر، جسکا مصرعِ اولٰی انتہائی مشہور ہے

زبانِ یارِ من ترکی و من ترکی نمی دانم
چہ خوش بودے اگر بودے زبانش در دہانِ من

میرے یار کی زبان ترکی ہے اور میں ترکی نہیں جانتا، کیا ہی اچھا ہو اگر اسکی زبان میرے منہ میں ہو۔
--------

شورے شُد و از خوابِ عدم چشم کشودیم
دیدیم کہ باقیست شبِ فتنہ، غنودیم

(غزالی مشہدی)

ایک شور بپا ہوا اور ہم نے خوابِ عدم سے آنکھ کھولی، دیکھا کہ شبِ فتنہ ابھی باقی ہے تو ہم پھر سو گئے۔
--------

خلل پزیر بَوَد ہر بنا کہ می بینی
بجز بنائے محبّت کہ خالی از خلل است

(حافظ شیرازی)

خلل پزیر (بگاڑ والی) ہے ہر وہ بنیاد جو کہ تُو دیکھتا ہے، ما سوائے مَحبّت کی بنیاد کہ وہ (ہر قسم کے) خلل سے خالی ہے۔
--------

خوش بَوَد فارغ ز بندِ کفر و ایماں زیستن
حیف کافر مُردن و آوخ مسلماں زیستن

(غالب دہلوی)

کفر اور ایمان کی الجھنوں سے آزاد زندگی بہت خوش گزرتی ہے، افسوس کفر کی موت پر اور وائے مسلمان کی سی زندگی بسر کرنے پر۔
--------

رباعی
ہر چند کہ رنگ و روئے زیباست مرا
چوں لالہ رخ و چو سرو بالاست مرا
معلوم نہ شد کہ در طرب خانۂ خاک
نقّاشِ ازل بہر چہ آراست مرا

(عمر خیام نیشاپوری)

ہر چند کہ میرا رنگ اور روپ بہت خوبصورت ہے، میں لالہ کے پھول کی طرح ہوں اور سرو کی طرح بلند قامت ہوں۔ لیکن معلوم نہیں کہ اس مٹی کے گھر میں جس میں نوحے بپا ہیں، قدرت نے مجھے اس قدر کیوں سجایا ہے۔

(پہلے مصرعے میں لفظ 'روئے' کی جگہ 'بُوئے' بھی ملتا ہے)
--------

مَحبّت در دلِ غم دیدہ الفت بیشتر گیرَد
چراغے را کہ دودے ہست در سر زود در گیرَد

(نظیری نیشاپوری)

غم دیدہ دل میں محبت بہت اثر کرتی ہے، (جیسا کہ) جس چراغ میں دھواں ہو (یعنی وہ ابھی ابھی بجھا ہو) وہ بہت جلد آگ پکڑ لیتا ہے۔
--------

اگر عشقِ بُتاں کفر است بیدل
کسے جز کافر ایمانی ندارد

(عبدالقادر بیدل)

بیدل اگر عشقِ بتاں کفر ہے تو کافر کے سوا کوئی ایمان نہیں رکھتا۔
--------
مزید پڑھیے۔۔۔۔

Nov 4, 2011

پروفیسر اقبال عظیم کی ایک خوبصورت غزل

پروفیسر اقبال عظیم کی ایک خوبصورت اور مرصع غزل

وہ موجِ تبسّم شگفتہ شگفتہ، وہ بھولا سا چہرہ کتابی کتابی
وہ سُنبل سے گیسو سنہرے سنہرے، وہ مخمور آنکھیں گلابی گلابی

کفِ دست نازک حنائی حنائی، وہ لب ہائے شیریں شہابی شہابی
وہ باتوں میں جادو اداؤں میں ٹُونا، وہ دُزدیدہ نظریں عقابی عقابی
Iqbal Azeem, اقبال عظیم, urdu poetry, urdu ghazal,
Iqbal Azeem, اقبال عظیم
کبھی خوش مزاجی، کبھی بے نیازی، ابھی ہوشیاری، ابھی نیم خوابی
قدم بہکے بہکے نظر کھوئی کھوئی، وہ مخمور لہجہ شرابی شرابی

نہ حرفِ تکلّم، نہ سعیِ تخاطب، سرِ بزم لیکن بہم ہم کلامی
اِدھر چند آنسو سوالی سوالی، اُدھر کچھ تبسّم جوابی جوابی

وہ سیلابِ خوشبو گلستاں گلستاں، وہ سروِ خراماں بہاراں بہاراں
فروزاں فروزاں جبیں کہکشانی، درخشاں درخشاں نظر ماہتابی

نہ ہونٹوں پہ سرخی، نہ آنکھوں میں کاجل، نہ ہاتھوں میں کنگن، نہ پیروں میں پائل
مگر حُسنِ سادہ مثالی مثالی، جوابِ شمائل فقط لاجوابی

وہ شہرِ نگاراں کی گلیوں کے پھیرے، سرِ کوئے خوباں فقیروں کے ڈیرے
مگر حرفِ پُرسش نہ اِذنِ گزارش، کبھی نامرادی کبھی باریابی

یہ سب کچھ کبھی تھا، مگر اب نہیں ہے کہ آوارہ فرہاد گوشہ نشیں ہے
نہ تیشہ بدوشی، نہ خارہ شگافی، نہ آہیں نہ آنسو نہ خانہ خرابی

کہ نظروں میں اب کوئی شیریں نہیں ہے، جدھر دیکھیئے ایک مریم کھڑی ہے
نجابت سراپا، شرافت تبسّم، بہ عصمت مزاجی، بہ عفّت مآبی

جو گیسو سنہرے تھے اب نُقرئی ہیں، جن آنکھوں میں جادو تھا اب با وضو ہیں
یہ پاکیزہ چہرے یہ معصوم آنکھیں، نہ وہ بے حجابی نہ وہ بے نقابی

وہ عشقِ مجازی حقیقت میں ڈھل کر تقدّس کی راہوں پہ اب گامزن ہے
جو حُسنِ نگاراں فریبِ نظر تھا، فرشتوں کی صورت ہے گِردوں جنابی

وہ صورت پرستی سے اُکتا گیا ہے، خلوصِ نظر اور کچھ ڈھونڈتا ہے
نہ موجِ تبسّم، نہ دستِ حنائی، نہ مخمور آنکھیں گلابی گلابی

نہ دُزدیدہ نظریں عقابی عقابی، نہ مخمور لہجہ شرابی شرابی
نہ سُنبل سے گیسو سنہرے سنہرے، نہ لب ہائے شیریں شہابی شہابی

پروفیسر اقبال عظیم

غزل بشکریہ حجاب، اُردو محفل

------
مزید پڑھیے۔۔۔۔

Nov 1, 2011

کوہکن مجھ سے اگر وقت بدلنا چاہے - غزل ڈاکٹر خورشید رضوی

موجودہ عہد کے ایک انتہائی اہم اور صاحبِ اسلوب شاعر پروفیسر ڈاکٹر خورشید رضوی کی ایک خوبصورت غزل

نبضِ ایّام ترے کھوج میں چلنا چاہے
وقت خود شیشہٴ ساعت سے نکلنا چاہے

دستکیں دیتا ہے پیہم مری شریانوں میں
ایک چشمہ کہ جو پتھّر سے اُبلنا چاہے
Dr. Khursheed Rizvi, ڈاکٹر خورشید رضوی, urdu poetry, urdu ghazal, ilm-e-arooz, taqtee,
پروفیسر ڈاکٹر خورشید رضوی
Dr. Khursheed Rizvi
مجھ کو منظور ہے وہ سلسلہٴ سنگِ گراں
کوہکن مجھ سے اگر وقت بدلنا چاہے

تھم گیا آ کے دمِ بازپسیں، لب پہ وہ نام
دل یہ موتی نہ اگلنا نہ نگلنا چاہے

ہم تو اے دورِ زماں خاک کے ذرّے ٹھہرے
تُو تو پھولوں کو بھی قدموں میں مسلنا چاہے

کہہ رہی ہے یہ زمستاں کی شبِ چار دہم
کوئی پروانہ جو اس آگ میں جلنا چاہے

صبح دم جس نے اچھالا تھا فضا میں خورشید
دل سرِ شام اُسی بام پہ ڈھلنا چاہے

ڈاکٹر خورشید رضوی

--------

بحر - بحرِ رمل مثمن مخبون محذوف مقطوع

افاعیل - فاعِلاتُن فَعِلاتُن فَعِلاتُن فَعلُن
(پہلے رکن فاعلاتن کی جگہ مخبون رکن فعلاتن بھی آسکتا ہے، آخری رکن فعلن کی جگہ فعلان، فَعِلن اور فَعِلان بھی آسکتا ہے یوں آٹھ وزن اکھٹے ہو سکتے ہیں)

اشاری نظام - 2212 2211 2211 22
ہندسوں کو اردو کی طرز پر دائیں سے بائیں پڑھیے۔ یعنی 2212 پہلے ہے اور اس میں بھی 12 پہلے ہے۔
(پہلے 2212 کی جگہ 2211 اور آخری 22 کی جگہ 122، 211 اور 1211 بھی آ سکتا ہے)

تقطیع -

نبضِ ایّام ترے کھوج میں چلنا چاہے
وقت خود شیشہٴ ساعت سے نکلنا چاہے

نبض ای یا - فاعلاتن - 2212
م ترے کو - فعلاتن - 2211
ج مِ چلنا - فعلاتن - 2211
چاہے - فعلن - 22

وقت خُد شی - فاعلاتن - 2212
شَ ء ساعت - فعلاتن - 2211
سِ نکلنا - فعلاتن - 2211
چاہے - فعلن - 22

-------
مزید پڑھیے۔۔۔۔