Showing posts with label مرزا رفیع سودا. Show all posts
Showing posts with label مرزا رفیع سودا. Show all posts

Apr 2, 2015

سودا کی اپنی ہی غزل پر تضمین

مرزا رفیع سودا کی یہ غزل بہت مشہور ہے اور یقیناً سودا کو بھی بہت پسند ہوگی اسی لیے اِس پر مخمس کی شکل میں تضمین بھی کہی ہے۔ ملاحظہ کیجیے۔

کرے جو ظلم و ستم کرنے دو، ہوا سو ہوا
جفا و ظلم ستی مت ڈرو، ہوا سو ہوا
یہ میرے غم کی نہ شہرت کرو، ہوا سو ہوا
"جو گزری مجھ پہ مت اُس سے کہو، ہوا سو ہوا
بلاکشانِ محبت پہ جو، ہوا سو ہوا"

اگرچہ روزِ ازل سے تھی میری یہ تقدیر
کہ دامِ عشق میں اپنے کرے مجھے تو اسیر
کرے جو ذبح تو مجھ کو پچھاڑ جوں نخچیر
"مبادا ہو کوئی ظالم ترا گریباں گیر
مرے لہو کو تو دامن سے دھو، ہوا سو ہوا"

وہ کون دن تھا کہ ہم بھی ہوئے تھے یار ترے
کسی طرح سے ترا دل بھی اس جفا سے پھرے
اگر کہے تو یہ آ کر ترے قدم پہ گرے
"خدا کے واسطے آ، درگزر گنہ سے مرے
نہ ہوگا پھر کبھو اے تُند خو، ہوا سو ہوا"

مرزا، رفیع، سودا، مرزا رفیع سودا، اردو شاعری، کلاسیکی اردو شاعری، mirza, rafi, sauda, mirza rafi sauda, classical urdy poetry, urdu poetry

کیے ہیں جن نے دوانے کئی مَلَک یارو
دکھا کے چہرے کی اپنے ٹک اک جھلک یارو
ہوا ہے میرا بھی قاتل وہ یک بیک یارو
"پہنچ چکا ہے سرِ زخم دل تلک یارو
کوئی سیو، کوئی مرہم کرو، ہوا سو ہوا"

دیا ہے آپ سے تم نے جو دل کو اپنے کبھو
تو چاہیے کہ رہو ہاتھ اُس سے بھی تم دھو
عبث ہے یہ کہ جو باتیں کرو ہو تم رو رو
"یہ کون حال ہے احوالِ دل پہ اے آنکھو
نہ پھوٹ پھوٹ کے اتنا بہو، ہوا سو ہوا"

دلوں کے قتل کے تئیں الامان ہے سودا
جنوں کی فوج کا یارو نشان ہے سودا
کِیا جب اُن نے قلندر، ندان ہے سودا
"دیا اُسے دل و دیں اب یہ جان ہے سودا
پھر آگے دیکھیے جو ہو سو ہو، ہوا سو ہوا"

(کلیاتِ سودا، جلد اول)
مزید پڑھیے۔۔۔۔

May 2, 2012

آدم کا جسم جب کہ عناصر سے مل بنا - غزلِ سودا

مرزا محمد رفیع سودا کی ایک خوبصورت غزل

آدم کا جسم جب کہ عناصر سے مِل بنا
کچھ آگ بچ رہی تھی سو عاشق کا دِل بنا

سرگرمِ نالہ ان دنوں میں بھی ہوں عندلیب
مت آشیاں چمن میں مرے متّصِل بنا

جب تیشہ کوہ کن نے لیا ہاتھ تب یہ عشق
بولا کہ اپنی چھاتی پہ دھرنے کو سِل بنا
مرزا، رفیع، سودا، مرزا رفیع سودا، اردو شاعری، کلاسیکی اردو شاعری، mirza, rafi, sauda, mirza rafi sauda, classical urdy poetry, urdu poetry
 مرزا محمد رفیع سودا, Mirza Rafi Sauda
جس تیرگی سے روز ہے عشّاق کا سیاہ
شاید اسی سے چہرہٴ خوباں پہ تِل بنا

لب زندگی میں کب ملے اُس لب سے اے کلال
ساغر ہماری خاک کو مت کرکے گِل بنا

اپنا ہنر دکھاویں گے ہم تجھ کو شیشہ گر
 ٹوٹا ہوا کسی کا اگر ہم سے دِل بنا

سُن سُن کے عرضِ حال مرا یار نے کہا
سودا نہ باتیں بیٹھ کے یاں متّصِل بنا

مرزا محمد رفیع سودا

------

 بحر - بحر مضارع مثمن اخرب مکفوف محذوف

افاعیل - مَفعُولُ فاعِلاتُ مَفاعِیلُ فاعِلُن
(آخری رکن میں‌ فاعلن کی جگہ فاعلان بھی آسکتا ہے)

اشاری نظام - 122 / 1212 / 1221 / 212
ہندسوں کو اردو کی طرز پر دائیں سے بائیں پڑھیے۔ یعنی 122 پہلے ہے اور اس میں بھی 22 پہلے ہے۔
(آخری رکن میں‌ 212 کی جگہ 1212 بھی آ سکتا ہے)

تقطیع--


آدم کا جسم جب کہ عناصر سے مل بنا
کچھ آگ بچ رہی تھی سو عاشق کا دل بنا


آدم کَ - مفعول - 122
جسم جب کِ -فاعلات - 1212
عناصر سِ - مفاعیل - 1221
مل بنا - فاعلن - 212

کچ آگ - مفعول - 122
بچ رہی تِ - فاعلات - 1212
سُ عاشق کَ - مفاعیل - 1221
دل بنا - فاعلن - 212
--------
مزید پڑھیے۔۔۔۔

Mar 25, 2009

مرزا رفیع سودا کی ایک غزل - گل پھینکے ہیں اوروں کی طرف بلکہ ثمر بھی

Mirza Rafi Sauda, مرزا رفیع سودا, urdu poetry, urdu ghazal, ilm-e-arooz, taqtee
Mirza Rafi Sauda, مرزا رفیع سودا
مرزا رفیع سودا کا شمار ان خوش قسمت شعراء میں ہوتا ہے جنہیں میر تقی میر شاعر بلکہ "مکمل شاعر" سمجھتے تھے۔ اردو شاعری کی بنیادوں کو مضبوط تر بنانے میں سودا کا نام لازوال مقام حاصل کر چکا ہے اور جب تک اردو اور اردو شاعری رہے گی انکا نام بھی رہے گا۔
سودا کی ایک غزل جو مجھے بہت زیادہ پسند ہے۔
گل پھینکے ہیں اوروں کی طرف بلکہ ثمر بھی
اے خانہ بر اندازِ چمن، کچھ تو اِدھر بھی

کیا ضد ہے مرے ساتھ، خدا جانئے ورنہ
کافی ہے تسلّی کو مرے ایک نظر بھی

اے ابر، قسم ہے تجھے رونے کی ہمارے
تجھ چشم سے ٹپکا ہے کبھو لختِ جگر بھی

اے نالہ، صد افسوس جواں مرنے پہ تیرے
پایا نہ تنک دیکھنے تَیں رُوئے اثر بھی

کس ہستیٔ موہوم پہ نازاں ہے تو اے یار
کچھ اپنے شب و روز کی ہے تجھ کو خبر بھی

تنہا ترے ماتم میں نہیں شام سیہ پوش
رہتا ہے سدا چاک، گریبانِ سحر بھی

سودا، تری فریاد سے آنکھوں میں کٹی رات
آئی ہے سحر ہونے کو ٹک تو کہیں مر بھی
--------
بحر - بحرِ ہزج مثمن اخرب مکفوف محذوف
افاعیل: مَفعُولُ مَفَاعیلُ مَفَاعیلُ فَعُولُن
(آخری رکن فعولن کی جگہ فعولان یا مفاعیل بھی آ سکتا ہے)
اشاری نظام - 122 1221 1221 221
(آخری رکن 221 کی جگہ 1221 بھی آ سکتا ہے)
تقطیع -
گل پھینکے ہیں اوروں کی طرف بلکہ ثمر بھی
اے خانہ بر اندازِ چمن، کچھ تو اِدھر بھی
گل پے کِ - مفعول - 122
ہِ اورو کِ - مفاعیل - 1221
طرف بلکہ - مفاعیل - 1221
ثمر بی - فعولن - 221
اے خانہ - مفعول - 122
بَ رَندازِ - مفاعیل - 1221 (الفِ وصل ساقط ہوا ہے)۔
چمن کچ تُ - مفاعیل - 1221
اِدَر بی - فعولن - 221

مزید پڑھیے۔۔۔۔

Aug 27, 2008

غزلِ سودا - گدا، دستِ اہلِ کرَم دیکھتے ہیں

اساتذہ کی زمین میں غزلیں کہنا عام بات ہے، غالب نے جہاں فارسی شاعری میں فارسی شاعری کے اساتذہ کی زمینیں استعمال کی ہیں، ایک غزل سودا کی زمین میں بھی کہی ہے۔ غالب کی غزل “جہاں تیرا نقشِ قدم دیکھتے ہیں” ایک شاہکار ہے تو سودا کی غزل بھی بہت خوبصورت ہے:

گدا، دستِ اہلِ کرَم دیکھتے ہیں
ہم اپنا ہی دم اور قدم دیکھتے ہیں

نہ دیکھا جو کچھ جام میں جَم نے اپنے
سو اک قطرۂ مے میں ہم دیکھتے ہیں

یہ رنجش میں ہم کو ہے بے اختیاری
تجھے تیری کھا کر قسم دیکھتے ہیں
مرزا رفیع سودا, Mirza Rafi Sauda, urdu poetry, urdu ghazal, ilm-e-arooz, taqtee
مرزا رفیع سودا, Mirza Rafi Sauda
غَرَض کفر سے کچھ، نہ دیں سے ہے مطلب
تماشائے دیر و حرم دیکھتے ہیں

حبابِ لبِ‌ جُو ہیں‌ اے باغباں ہم
چمن کو ترے کوئی دم دیکھتے ہیں

نوشتے کو میرے مٹاتے ہیں‌ رو رو
ملائک جو لوح و قلم دیکھتے ہیں

خدا دشمنوں کو نہ وہ کچھ دکھاوے
جو کچھ دوست اپنے سے ہم دیکھتے ہیں

مٹا جائے ہے حرف حرف آنسوؤں سے
جو نامہ اسے کر رقم دیکھتے ہیں

اکڑ سے نہیں‌ کام سنبل کے ہم کو
کسی زلف کا پیچ و خم دیکھتے ہیں

ستم سے کیا تو نے ہم کو یہ خوگر
کرم سے ترے ہم ستم دیکھتے ہیں

مگر تجھ سے رنجیدہ خاطر ہے سودا
اسے تیرے کوچے میں کم دیکھتے ہیں
(مرزا رفیع سودا)
————
بحر - بحر متقارب مثمن سالم
افاعیل - فَعُولُن فَعُولُن فَعُولُن فَعُولُن
اشاری نظام - 221 221 221 221
تقطیع -
گدا، دستِ اہلِ کرَم دیکھتے ہیں
ہم اپنا ہی دم اور قدم دیکھتے ہیں
گدا دس - فعولن - 221
تِ اہلے - فعولن - 221
کرم دے - فعولن - 221
ک تے ہے - فعولن - 221
ہ مَپنا - فعولن - 221 (الف وصل استعمال ہوا ہے)
ہِ دم ار - فعولن - 221
قدم دے - فعولن - 221
ک تے ہے - فعولن - 221
مزید پڑھیے۔۔۔۔