Showing posts with label مسعود قریشی. Show all posts
Showing posts with label مسعود قریشی. Show all posts

Apr 28, 2011

غزلِ خسرو - عاشق شدم و محرمِ ایں کار ندارم

شعرِ خسرو
عاشق شدم و محرمِ ایں کار ندارم
فریاد کہ غم دارم و غم خوار ندارم


ترجمہ
میں عاشق تو ہو گیا ہوں مگر اس کام کا میرے پاس کوئی محرم راز نہیں ہے، فریاد ہے کہ مجھے غم تو ہے لیکن کوئی غم خوار نہیں ہے۔

منظوم ترجمہ مسعود قریشی
عاشق ہوں، کوئی محرمِ اسرار نہیں ہے
فریاد کہ غم ہے، کوئی غم خوار نہیں ہے


شعرِ خسرو
آں عیش، کہ یاری دہدم صبر، ندیدم
واں بخت، کہ پرسش کندم یار ندارم


ترجمہ
میں پاس نہیں ہے وہ عیش کہ یار مجھے صبر دے، میرے پاس نہیں ہے وہ قسمت کہ یار خود میرا حال پوچھے۔

قریشی
وہ عیش کے دے صبر مجھے یار، نہ پایا
وہ بخت کہ پوچھے مجھے خود یار، نہیں ہے
Persian poetry, Persian Poetry with Urdu translation, Farsi poetry, Farsi poetry with urdu translation, Amir Khusro, امیر خسرو
امیر خسرو - ایک خاکہ
Amir Khusro
شعرِ خسرو
بسیار شدم عاشقِ دیوانہ ازیں پیش
آں صبر کہ ہر بار بُد ایں بار ندارم


ترجمہ
اس سے پہلے بھی میں بہت دفعہ عاشق و دیوانہ ہوا، لیکن وہ صبر جو ہر بار حاصل تھا، اب کے نہیں ہے۔

قریشی
سو بار ہوا عاشق و دیوانہ، پہ اب کے
وہ صبر جو حاصل تھا ہر اک بار، نہیں ہے


شعرِ خسرو
دل پُر ز غم و غصۂ ہجرست ولیکن
از تنگ دلی طاقتِ گفتار ندارم


ترجمہ
دل ہجر کے غم و غصے سے پر تو ہے لیکن تنگدلی کی وجہ سے مجھے طاقتِ گفتار نہیں ہے۔

قریشی
دل، ہجر پہ معمور تو ہے غصہ و غم سے
دل تنگ ہوں، اب طاقتِ گفتار نہیں ہے


شعرِ خسرو
خوں شد دلِ خسرو ز نگہداشتنِ راز
چوں ہیچ کسے محرمِ اسرار ندارم


ترجمہ
راز کی حفاظت کر کر کے خسرو کا دل خون ہوگیا ہے لیکن افسوس کہ کوئی بھی محرمِ اسرار نہیں ہے۔

قریشی
یہ راز چھپانے میں ہوا خوں دلِ خسرو
افسوس کوئی محرمِ اسرار نہیں ہے

---
مزید پڑھیے۔۔۔۔

Sep 12, 2010

امیر خسرو کی ایک غزل - از من آں کامیاب را چہ غمست - مع تراجم

امیر خسرو کی اس غزل کا شمار غزلِ مسلسل میں ہوتا ہے، اور ایک ہی خیال کو مختلف حقیقتوں سے واضح کیا ہے اور کیا خوب تشبیہات و استعارات اس غزل میں بیان کئے ہیں۔

شعرِ خسرو
از من آں کامیاب را چہ غمست
زیں شبِ ماہتاب را چہ غمست


ترجمہ
اس کامیاب (محبوب) کو مجھ سے کیا غم ہے، ماہتاب کو رات کا غم کب ہوتا ہے۔

منظوم ترجمہ مسعود قریشی
میرا اس کامیاب کو غم کیا
رات کا ماہتاب کو غم کیا
Amir Khusro, امیر خسرو, Persian poetry, Persian Poetry with Urdu translation, Farsi poetry, Farsi poetry with urdu translation,
Amir Khusro, امیر خسرو
شعرِ خسرو
ذرّہ ہا گر شوند زیر و زبر
چشمۂ آفتاب را چہ غمست


ترجمہ
اگر تمام ذرے زیر و زبر بھی ہو جائیں تو سورج کے چشمے کو انکے زیر و زبر ہونے کا کیا غم ہے۔

قریشی
ذرّے زیر و زبر جو ہوں تو ہوں
چشمۂ آفتاب کو غم کیا

شعرِ خسرو
گر بسوزد ہزار پروانہ
مشعلِ خانہ تاب را چہ غمست


ترجمہ
اگر ہزار پروانے بھی جل مریں تو گھر کو روشن کرنے والی مشعل کو اسکا کیا غم ہے۔

قریشی
جل مریں گو ہزار پروانے
مشعلِ خانہ تاب کو غم کیا

شعرِ خسرو
خرمنِ من کہ گشت خاکستر
آتشِ پُر عذاب را چہ غمست


ترجمہ
میری جان کی کھیتی جل کر راکھ ہوگئی مگر عذاب سے پُر آگ کو اس کا کیا غم ہے۔

قریشی
خرمنِ جاں جو جل کے راکھ ہوا
آتشِ پر عذاب کو غم کیا

شعرِ خسرو
گر مرا نیست خوابے اندر چشم
چشمِ آں نیم خواب را چہ غمست


ترجمہ
اگر میری آنکھوں میں نیند نہیں رہی تو اسکا اس نیم خواب آنکھوں (والے) کو کیا غم ہے۔

قریشی
رتجگے ہیں اگر نصیب مرا
دیدۂ نیم خواب کو غم کیا

شعرِ خسرو
خسرو ار جاں دہد تو دیر بہ ذی
ماہی ار میرد آب را چہ غمست


ترجمہ
خسرو تو جان دیتا ہے لیکن تو دیر تک زندہ رہ کہ مچھلی کے مرنے کا پانی کو کیا غم۔

قریشی
جان خسرو نے دی، تُو جُگ جُگ جی
مرگِ ماہی پہ آب کو غم کیا

----------
بحر - بحر خفیف مسدس مخبون محذوف مقطوع
(مسعود قریشی کا منظوم ترجمہ بھی اسی بحر میں ہے)

افاعیل - فاعِلاتُن مفاعِلُن فعلُن
(اس بحر میں آٹھ وزن جمع ہو سکتے ہیں، تفصیل کیلیئے میرا مقالہ “ایک خوبصورت بحر - بحر خفیف” دیکھیئے)

اشاری نظام - 2212 2121 22
(ہندسوں کا اردو کی طرز پر یعنی دائیں سے بائیں پڑھیں یعنی پہلے 2 پھر 1 پھر 2)

تقطیع

از من آں کامیاب را چہ غمست
زیں شبِ ماہتاب را چہ غمست

از مَ نا کا - 2212- فاعلاتن (من اور آں میں الف کا وصال ہوا)۔
م یا ب را - 2121 - مفاعلن
چ غَ مست - 1211 - فَعِلان (فعلن کی جگہ فَعِلان اس بحر میں جائز ہے)۔

زی شَ بے ما - 2212 - فاعلاتن
ہ تا ب را - 2121 - مفاعلن
چ غَ مست - 1211 - فعلان
مزید پڑھیے۔۔۔۔

Dec 1, 2009

امیر خسرو علیہ الرحمہ کی ایک غزل مع تراجم - نیست در شہر گرفتار تر از من دِگَرے

شعرِ خسرو
نیست در شہر گرفتار تر از من دِگَرے
نبُد از تیرِ غم افگار تر از من دِگَرے

ترجمہ
پورے شہر میں کوئی اور شخص (تیری محبت میں) مجھ جیسا گرفتار نہیں ہے، غموں کے تیر سے کوئی اور مجھ جیسا زخمی نہیں ہے۔

منظوم ترجمہ مسعود قریشی
شہر میں کوئی گرفتار نہیں ہے مجھ سا
تیر سے غم کے دل افگار نہیں ہے مجھ سا

شعرِ خسرو
بر سرِ کُوئے تو، دانم، کہ سگاں بسیار اند
لیک بنمائی وفادار تر از من دِگَرے

ترجمہ
میں جانتا ہوں کہ تیرے کوچے میں بہت سے سگ ہیں لیکن ان میں کوئی بھی مجھ سا وفادار نہیں ہے۔
Amir Khusro, امیر خسرو, Persian poetry, Persian Poetry with Urdu translation, Farsi poetry, Farsi poetry with urdu translation,
Amir Khusro, امیر خسرو
قریشی
یوں تو کوچے میں ترے سگ ہیں بہت سے لیکن
ایک بھی ان میں وفادار نہیں ہے مجھ سا

شعرِ خسرو
کارواں رفت و مرا بارِ بلائے در دل
چوں رَوَم، نیست گرانبار تر از من دِگَرے

ترجمہ
کارواں چلا گیا اور میرے دل میں جدائی کا بوجھ ڈال گیا، کسطرح چلوں کہ کوئی اور مجھ سا گراں بار نہیں ہے۔

قریشی
سب گئے، رہ گیا میں بارِ بلا دل میں لئے
ان میں کوئی بھی گرانبار نہیں ہے مجھ سا

شعرِ خسرو
ساقیا بر گزر از من کہ بخوابِ اجَلَم
باز جُو اکنوں تو ہشیار تر از من دِگَرے

ترجمہ
اے ساقی تو جانتا ہے کہ میں خوابِ اجل (مرنے کے قریب) ہوں لیکن مجھ سے گزر کے اس کے باوجود میکدے میں مجھ سے ہوشیار کوئی اور نہیں ہے۔

قریشی
ساقیا خوابِ اجل میں ہوں پہ تو جانتا ہے
میکدے میں کوئی ہشیار نہیں ہے مجھ سا

شعرِ خسرو
خسروَم، بہرِ بُتاں کُوئے بکو سرگرداں
در جہاں بود نہ بیکار تر از من دِگَرے

ترجمہ
میں خسرو، کوبکو بتوں کی تلاش میں سرگرداں ہوں، اس جہاں میں مجھ سا بیکار کوئی نہیں ہے۔

قریشی
کُو بہ کُو بہرِ بُتاں خسرو ہوا سرگرداں
کوئی اس دنیا میں بیکار نہیں ہے مجھ سا

----------

بحر - بحرِ رمل مثمن مخبون محذوف مقطوع
افاعیل - فاعِلاتُن فَعِلاتُن فَعِلاتُن فَعلُن
(پہلے رکن فاعلاتن کی جگہ مخبون رکن فعلاتن بھی آسکتا ہے، آخری رکن فعلن کی جگہ فعلان، فَعِلن اور فَعِلان بھی آسکتا ہے یوں آٹھ وزن اکھٹے ہو سکتے ہیں)
اشاری نظام - 2212 2211 2211 22
ہندسوں کو اردو کی طرز پر دائیں سے بائیں پڑھیے۔
(پہلے 2212 کی جگہ 2211 اور آخری 22 کی جگہ 122، 211 اور 1211 بھی آ سکتا ہے)
۔تقطیع -
نیست در شہر گرفتار تر از من دِگَرے
نبُد از تیرِ غم افگار تر از من دِگَرے

نیس در شہ - فاعلاتن - 2212 (نیست میں چونکہ اوپر تلے تین ساکن ہیں، ی، سین اور ت، اور تقطیع کا اصول ہے کہ جہاں اس طرح اوپر تلے تین ساکن ہوں اس میں آخری ساکن محسوب نہیں ہوتا یعنی اسکا کوئی وزن شمار نہیں کیا جاتا سو اسے چھوڑ دیتے ہیں، یعنی نیست کی ت کو چھوڑ دیا، اس طرح کے دیگر الفاظ میں دوست، گوشت، پوست، چیست، کیست وغیرہ شامل ہیں)۔
ر گرفتا - فعلاتن - 2211
ر تَ رز من - فعلاتن - 2211 (یہاں تر اور از کے درمیان میں الفِ وصال ساقط ہوا ہے، الفِ واصل اسے کہتے ہیں کہ پچھلا حرف ساکن ہو اور حرفِ علت نہ ہو یعنی الف، واؤ یا ی نہ ہو تو اسکے فوری بعد والے الف کو ختم کر کے یعنی وصل کروا کے پچھلے حرف کو اگلے حرف کے ساتھ ملا دیتے ہیں جیسے تر اور از میں، الف کے وصال کی سبھی شرطیں پوری ہوتی ہیں سو اس کو ساقط کر کے لفظ تر از سے تَ رز بنا لیا اور یوں وزن پورا ہوا)۔
دِ گِ رے - فَعِلُن - 211 (فاعلن کی جگہ فعِلن نوٹ کریں)۔
نَ بُ دز تی - فعلاتن - 2211 (الفِ واصل اور مخبون رکن دونوں نوٹ کریں)۔
رِ غَ مَفگا - فعلاتن - 2211 (الفِ واصل نوٹ کریں)۔
ر تَ رز من - فعلاتن - 2211 (الفِ واصل نوٹ کریں)۔
دِ گَ رے - فَعِلن - 211
مزید پڑھیے۔۔۔۔

Feb 26, 2009

غزلِ امیر خُسرو مع ترجمہ - دِلَم در عاشقی آوارہ شُد، آوارہ تر بادا

امیر خسرو کی ایک اور خوبصورت غزل جو مجھے بہت پسند ہے۔
دِلَم در عاشقی آوارہ شُد، آوارہ تر بادا
تَنَم از بیدِلی بیچارہ شد، بیچارہ تر بادا
ترجمہ
میرا دل عاشقی میں آوارہ ہو گیا ہے، اور زیادہ آوارہ ہو جائے۔ میرا جسم بے دلی سے بیچارہ ہو گیا ہے، اور زیادہ بیچارہ ہوجائے۔
منظوم ترجمہ مسعود قریشی
مرا دل عشق میں آوارہ ہے، آوارہ تر ہوجائے
مرا تن غم سے بے چارہ ہوا، بے چارہ تر ہوجائے
گر اے زاہد دعائے خیر می گوئی مرا ایں گو
کہ آں آوارۂ کوئے بُتاں، آوارہ تر بادا
ترجمہ
اگر اے زاہد تو میرے لیے دعائے خیر کرتا ہے تو میرے لیے یہ کہہ کہ کوئے بتاں کا آوارہ، اور زیادہ آوارہ ہو جائے۔
قریشی
اگر مجھ کو دعائے خیر دینی ہے تو کہہ زاہد
کہ وہ آوارۂ کوئے بتاں آوارہ تر ہو جائے
دِلِ من پارہ گشت از غم نہ زاں گونہ کہ بہ گردَد
اگر جاناں بدیں شاد است، یا رب پارہ تر بادا
ترجمہ
میرا دل غم سے ٹکرے ٹکرے ہوگیا ہے اور اسطرح بھی نہیں کہ وہ ٹھیک ہوجائے، اگر جاناں اسی طرح خوش ہے تو یا رب میرا دل اور پارہ پارہ ہوجائے۔
قریشی
مرا دل پارہ پارہ ہے، نہیں امّید بہتر ہو
اگر جاناں اسی میں شاد ہے تو پارہ تر ہو جائے
Amir Khusro, امیر خسرو, Persian poetry, Persian Poetry with Urdu translation, Farsi poetry, Farsi poetry with urdu translation,
Mazar Amir Khusro, مزار امیر خسرو
ہمہ گویند کز خونخواریَش خلقے بجاں آمد
من ایں گویَم کہ بہرِ جانِ من خونخوارہ تر بادا
ترجمہ
سبھی کہتے ہین کہ اسکی خونخواری سے خلق کی جان تنگ ہوگئی ہے، میں یہ کہتا ہوں کہ میری جان کیلیے وہ اور زیادہ خونخوار ہو جائے
قریشی
سبھی کہتے ہیں خونخواری سے اُسکی خلق عاجز ہے
میں کہتا ہوں وہ میری جان پر خونخوارہ تر ہو جائے
چو با تر دامنی خُو کرد خُسرو با دوچشمِ تر
بہ آبِ چشمِ مژگاں دامِنَش ہموارہ تر بادا
ترجمہ
اے خسرو، اگر تیری دو بھیگی ہوئی آنکھوں نے تر دامنی کو اپنی عادت بنا لیا ہے تو تیرا دامن آنکھوں کے آنسوؤں سے اور زیادہ بھیگ جائے۔
قریشی
دو چشمِ تر سے خسرو کو ہوئی تر دامنی کی خُو
برستی آنکھ سے دامن مگر ہموارہ تر ہو جائے
----------
بحر - بحر ہزج مثمن سالم
افاعیل - مَفاعِیلُن مَفاعِیلُن مَفاعِیلُن مَفاعِیلُن
اشاری نظام - 2221 2221 2221 2221
تقطیع -
دلم در عاشقی آوارہ شُد، آوارہ تر بادا
تَنم از بیدِلی بیچارہ شد، بیچارہ تر بادا
دِلَم در عا - مفاعیلن - 2221
ش قی آوا - مفاعیلن - 2221
رَ شُد آوا - مفاعیلن - 2221
رَ تر بادا - مفاعیلن - 2221
تَنم از بی - مفاعیلن - 2221
دِلی بیچا - مفاعیلن - 2221
رَ شد، بیچا - مفاعیلن - 2221
رَ تر بادا - مفاعیلن - 2221
مزید پڑھیے۔۔۔۔

Nov 24, 2008

امیر خسرو کی ایک غزل مع تراجم - جاں ز تَن بُردی و دَر جانی ہنوز

امیر خسرو کی ایک خوبصورت فارسی غزل مع تراجم۔
شعرِ خسرو
جاں ز تَن بُردی و دَر جانی ہنوز
درد ہا دادی و درمانی ہنوز
تُو میرے جسم سے دل کو نکال کر لے گیا لیکن اسکے اندر جان ابھی باقی ہے، تو نے بہت درد دیئے لیکن انکا علاج ابھی باقی ہے۔
منظوم ترجمہ مسعود قریشی
تن سے جاں لے کر بھی تُو جاں ہے ابھی
درد دے کر بھی تو درماں ہے ابھی
شعرِ خسرو
آشکارا سینہ ام بشگافتی
ہم چُناں در سینہ پنہانی ہنوز
تو نے میرے سینے کو پھاڑ دیا ہے لیکن ابھی تک تُو اسی طرح میرے سینے میں پوشیدہ ہے۔
مسعود قریشی
سینہ میرا آشکارا کر کے چاک
میرے سینے میں تو پنہاں ہے ابھی
شعرِ خسرو
مُلکِ دل کردی خراب از تیغِ ناز
داندریں ویرانہ سلطانی ہنوز
اپنی تیغِ ناز سے تُو نے میرے دل کے ملک کو ویران کر دیا لیکن اس ویرانے میں ابھی تک تیری ہی حکمرانی ہے۔
مسعود قریشی
ملکِ دل ویراں ہے تیغِ ناز سے
تو ہی ویرانے میں سلطاں ہے ابھی
شعرِ خسرو
ہر دو عالم قیمتِ خود گفتہ ای
نرخ بالا کُن کہ ارزانی ہنوز
تو نے اپنی قیمت دونوں جہان بتائی ہے، اپنا نرخ بڑھا کہ یہ ابھی تک ارزاں ہے۔
مسعود قریشی
اپنی قیمت دو جہاں تُو نے کہی
نرخ اونچا کر، تُو ارزاں ہے ابھی
شعرِ خسرو
جور کردی سالہا چوں کافراں
بہرِ رحمت نامسلمانی ہنوز
کافروں کی طرح تو نے سال ہا سال ظلم و ستم کئے لیکن رحمت کیلیئے ابھی تک نا مسلمانی موجود ہے۔
شعرِ خسرو
جاں ز بندِ کالبد آزاد گشت
دل بہ گیسوئے تو زندانی ہنوز
جان جسم کی قید سے آزاد ہو گئی ہے لیکن دل ابھی تک تیری زلفوں کی قید میں ہے۔
مسعود قریشی
جاں ہوئی آزاد تن کی قید سے
دل کو تیری زلف زنداں ہے ابھی
شعرِ خسرو
Amir Khusro, امیر خسرو, Persian poetry, Persian Poetry with Urdu translation, Farsi poetry, Farsi poetry with urdu translation,
Amir Khusro, امیر خسرو
پیری و شاہد پرستی نا خوش است
خسروا تا کے پریشانی ہنوز
وقتِ پیری شاہد پرستی اچھی بات نہیں، خسرو تو کب تک اس پریشانی سے دوچار رہے گا کہ جو ابھی تک ہے۔
مسعود قریشی
پیر ہو کر بھی وہ ہے شاہد پرست
اس لئے خسرو پریشاں ہے ابھی
————
بحر - بحر رمل مسدس محذوف
افاعیل - فاعِلاتُن فاعِلاتُن فاعِلُن
(آخری رکن میں فاعلن کی جگہ فاعلان بھی آ سکتا ہے)
اشاری نظام - 2212 2212 212
(آخری رکن میں 212 کی جگہ 1212 بھی آ سکتا ہے)
تقطیع -
جاں ز تن بُردی و در جانی ہنوز
درد ہا دادی و درمانی ہنوز
جا ز تن بر - فاعلاتن - 2212
دی و در جا - فاعلاتن - 2212
نی ہنوز - فاعلان - 1212
درد ہا دا - فاعلاتن - 2212
دی و در ما - فاعلاتن - 2212
نی ہنوز - فاعلان - 1212
مزید پڑھیے۔۔۔۔

Oct 23, 2008

غزلِ خسرو مع تراجم - کافَرِ عِشقَم، مُسلمانی مرا درکار نیست

شعرِ خسرو
کافَرِ عِشقَم، مُسلمانی مرا درکار نیست
ہر رگِ من تار گشتہ، حاجتِ زنّار نیست
ترجمہ
میں عشق کا کافر ہوں، مجھے مسلمانی درکار نہیں، میری ہر رگ تار تار ہوچکی ہے، مجھے زُنار کی حاجت نہیں۔
منظوم ترجمہ مسعود قریشی
کافرِ عشق ہوں، ایماں مجھے درکار نہیں
تار، ہر رگ ہے، مجھے حاجتِ زنار نہیں
شعرِ خسرو
از سَرِ بالینِ مَن بَرخیز اے ناداں طبیب
دردمندِ عشق را دارُو بَجُز دیدار نیست
ترجمہ
اے نادان طبیب میرے سرہانے سے اٹھ جا، عشق کے بیمار کو تو صرف دیدار ہی دوا ہے۔
قریشی
میرے بالیں سے اٹھو اے مرے نادان طبیب
لا دوا عشق کا ہے درد، جو دیدار نہیں
Amir Khusro, امیر خسرو, Persian poetry, Persian Poetry with Urdu translation, Farsi poetry, Farsi poetry with urdu translation,
Amir Khusro, امیر خسرو
شعرِ خسرو
شاد باش اے دل کہ فَردَا برسَرِ بازارِ عشق
مُژدۂ قتل است گرچہ وعدۂ دیدار نیست
ترجمہ
اے دل تو خوش ہوجا کہ کل عشق کے بازار میں، قتل کی خوش خبری ہے اگرچہ دیدار کا وعدہ نہیں ہے۔
قریشی
اے دلِ زار ہو خوش، عشق کے بازار میں کَل
مژدۂ قتل ہے گو وعدۂ دیدار نہیں
شعرِ خسرو
ناخُدا در کشتیٔ ما گر نَباشد گو مَباش
ما خُدا داریم، ما را ناخُدا درکار نیست
ترجمہ
اگر ہماری کشتی میں ناخدا نہیں ہے تو کوئی ڈر نہیں کہ ہم خدا رکھتے ہیں اور ہمیں ناخدا درکار نہیں۔
قریشی
ناخدا گر نہیں کشتی میں نہ ہو، ڈر کیا ہے
ہم کہ رکھتے ہیں خدا، وہ ہمیں درکار نہیں
شعرِ خسرو
خلق می گویَد کہ خُسرو بُت پرستی می کُنَد
آرے آرے می کُنَم، با خلق ما را کار نیست
ترجمہ
خلق کہتی ہے کہ خسرو بت پرستی کرتا ہے، ہاں ہاں، میں کرتا ہوں مجھے خلق سے کوئی کام نہیں ہے۔
قریشی
بُت پرستی کا ہے خسرو پہ جو الزام تو ہو
ہاں صنم پوجتا ہوں، خلق سے کچھ کار نہیں
———–
بحر - بحر رمل مثمن محذوف
(مسعود قریشی کا منظوم ترجمہ بحر رمل مثمن مخبون محذوف مقطوع میں ہے۔)
افاعیل - فاعِلاتُن فاعِلاتُن فاعِلاتُن فاعِلُن
(آخری رکن فاعلن میں فاعِلان بھی آ سکتا ہے)
اشاری نظام - 2212 2212 2212 212
(آخری رکن 212 میں 1212 بھی آ سکتا ہے)
تقطیع -
کافَرِ عِشقَم، مُسلمانی مرا درکار نیست
ہر رگِ من تار گشتہ، حاجتِ زنّار نیست
کافرے عش - فاعلاتن - 2212
قم مسلما - فاعلاتن - 2212
نی مرا در - فاعلاتن - 2212
کار نیس - فاعلان - 1212
ہر رگے من - فاعلاتن - 2212
تار گشتہ - فاعلاتن - 2212
حاجتے زُن - فاعلاتن - 2212
نار نیس - فاعلان - 1212
مزید پڑھیے۔۔۔۔

Jul 3, 2008

امیر خسرو کی غزل - خَبَرَم رسید اِمشب کہ نگار خواہی آمد

امیر خسرو کی خوبصورت ترین غزلوں میں سے ایک غزل پیش کر رہا ہوں، یوں تو خسرو کا سارا کلام ہی تصوف کی چاشنی سے مملو ہے کہ آپ خود ایک صاحبِ حال صوفی تھے، لیکن کچھ غزلیں تو کمال کی ہیں اور یہ غزل بھی انہی میں سے ایک ہے۔
اس غزل کے اشعار مختلف نسخوں میں مختلف ملتے ہیں، میں نے لوک ورثہ اشاعت گھر کے شائع کردہ انتخاب کو ترجیح دی ہے۔ اس غزل کو استاد نصرت فتح علی خان نے بہت دلکش انداز میں گایا ہے۔
شعرِ خسرو
خَبَرَم رسید اِمشب کہ نگار خواہی آمد
سَرِ من فدائے راہے کہ سوار خواہی آمد
ترجمہ
مجھے خبر ملی ہے کہ اے میرے محبوب تو آج رات آئے گا، میرا سر اس راہ پر قربان جس راہ پر تو سوار ہو کر آئے گا۔
منظوم ترجمہ مسعود قریشی
ملا ہے رات یہ مژدہ کہ یار آئے گا
فدا ہُوں راہ پہ جس سے سوار آئے گا
شعرِ خسرو
ہمہ آہوانِ صحرا سرِ خود نہادہ بر کف
بہ امید آنکہ روزے بشکار خواہی آمد
ترجمہ
جنگل کے تمام ہرنوں نے اپنے سر اتار کر اپنے ہاتھوں میں رکھ لیے ہیں اس امید پر کہ کسی روز تو شکار کیلیے آئے گا۔
قریشی
غزالِ دشت، ہتھیلی پہ سر لئے ہوں گے
اس آس پر کہ تو بہرِ شکار آئے گا
Persian poetry, Persian Poetry with Urdu translation, Farsi poetry, Farsi poetry with urdu translation, Mazar Amir Khusro, مزار امیر خسرو
مزار امیر خسو, Mazar Amir Khusro
شعرِ خسرو
کَشَشے کہ عشق دارَد نہ گُزاردَت بدینساں
بجنازہ گر نیائی بہ مزار خواہی آمد
ترجمہ
عشق میں جو کشش ہے وہ تجھے اسطرح زندگی بسر کرنے نہیں دے گی، تو اگر میرے جنازے پر نہیں آیا تو مزار پر ضرور آئے گا۔
قریشی
کشش جو عشق میں ہے، بے اثر نہیں ہوگی
جنازہ پر نہ سہی، بر مزار آئے گا
شعرِ خسرو
بہ لبَم رسیدہ جانَم تو بیا کہ زندہ مانَم
پس ازاں کہ من نَمانَم بہ چہ کار خواہی آمد
ترجمہ
میری جان ہونٹوں پر آ گئی ہے، تُو آجا کہ میں زندہ رہوں۔ اسکے بعد جبکہ میں زندہ نہ رہوں گا تو پھر تو کس کام کیلیے آئے گا۔
قریشی
لبوں پہ جان ہے، تُو آئے تو رہوں زندہ
رہا نہ میں، تو مجھے کیا کہ یار آئے گا
شعرِ خسرو
بیک آمدن ربودی دل و دین و جانِ خسرو
چہ شَوَد اگر بدینساں دو سہ بار خواہی آمد
ترجمہ
تیرے ایک بار آنے نے خسرو کے دل و دین و جان سب چھین لیے ہیں، کیا ہوگا اگر تو اسی طرح دو تین بار آئے گا۔
قریشی
فدا کئے دل و دیں اک جھلک پر خسرو نے
کرے گا کیا جو تُو دو تین بار آئے گا
——–
بحر - بحر رمل مثمن مشکول
(مسعود قریشی کا منظوم ترجمہ بحر مجتث میں‌ ہے)
افاعیل - فَعِلاتُ فاعِلاتُن فَعِلاتُ فاعِلاتُن
اشاری نظام - 1211 2212 1211 2212
تقطیع -
خبرم رسید امشب کہ نگار خواہی آمد
سرِ من فدائے راہے کہ سوار خواہی آمد
خَ بَ رم رَ - فعلات - 1211
سید امشب - فاعلاتن - 2212
کِ نِ گا ر - فعلات - 1211
خا ہِ آمد - فاعلاتن - 2212
سَ رِ من فِ - فعلات - 1211
دا ء راہے - فاعلاتن - 2212
کِ سَوار - فعلات - 1211
خا ہِ آمد - فاعلاتن - 2212
مزید پڑھیے۔۔۔۔

May 26, 2008

امیر خسرو کی ایک غزل - ابر می بارَد و من می شَوَم از یار جدا

شعرِ خسرو
ابر می بارَد و من می شَوَم از یار جدا
چوں کنَم دل بہ چنیں روز ز دلدار جدا
ترجمہ
برسات کا موسم ہے اور میں اپنے دوست سے جدا ہو رہا ہوں، ایسے (شاندار) دن میں، میں کسطرح اپنے دل کو دلدار سے جدا کروں۔
منظوم ترجمہ مسعود قریشی
ابر روتا ہے، ہُوا مجھ سے مرا یار جدا
دل سے ایسے میں کروں کیسے مَیں دلدار جدا
شعرِ خسرو
ابر باران و من و یار ستادہ بوداع
من جدا گریہ کناں، ابر جدا، یار جدا
ترجمہ
برسات جاری ہے، میں اور میرا یار جدا ہونے کو کھڑے ہیں، میں علیحدہ گریہ و فریاد کر رہا ہوں، باراں علیحدہ برس رہی ہے، اور یار علیحدہ رو رہا ہے۔
قریشی
ابر برسے ہے، جدائی کی گھڑی ہے سر پر
میں جدا روتا ہوں اور ابر جدا، یار جدا
Persian poetry, Persian Poetry with Urdu translation, Farsi poetry, Farsi poetry with urdu translation, Mazar Amir Khusro, مزار امیر خسرو
مزار خسرو رح، دہلی انڈیا, Mazar Amir Khusro
شعرِ خسرو
سبزہ نوخیز و ہوا خرم و بستان سرسبز
بلبلِ روئے سیہ ماندہ ز گلزار جدا
ترجمہ
تازہ تازہ اگا ہوا سبزہ اور دل خوش کرنے والی ہوا اور سرسبز باغ ہے، اور ایسے میں سیاہ چہرے والی بد قسمت بلبل گلزار سے جدا ہونے کو ہے
قریشی
سبزہ نوخیز، ہوا شاد، گلستاں سرسبز
کیا قیامت ہے کہ بلبل سے ہے گلزار جدا
شعرِ خسرو
اے مرا در تہ ہر موی بہ زلفت بندے
چہ کنی بند ز بندم ہمہ یکبار جدا
ترجمہ
اے میرے محبوب تو نے مجھکو اپنی زلف کے ہر بال کی تہ کے نیچے باندھ لیا ہے، تو کیا باندھے گا جب تو مجھے یکبار ہی اس بند سے جدا کردے گا۔
شعرِ خسرو
دیدہ از بہر تو خونبار شد، اے مردم چشم
مردمی کن، مشو از دیدہء خونبار جدا
ترجمہ
اے آنکھ، میری آنکھ کی پتلی تیرے لیے پہلے ہی خونبار ہو گئی ہے، مہربانی کر اب تو ان خون بہانے والی آنکھوں سے جدا نہ ہونا۔
شعرِ خسرو
نعمتِ دیدہ نخواہم کہ بماند پس ازیں
ماندہ چون دیدہ ازان نعمتِ دیدار جدا
ترجمہ
میں نہیں چاہتا کہ اس کے بعد میری آنکھوں کی نعمت دیدار کی نعمت سے جدا رہے۔
قریشی
نعمتِ چشم ہے میرے لئے سامانِ عذاب
گر مری آنکھ سے ہو نعمتِ دیدار جدا
شعرِ خسرو
حسنِ تو دیر نپاید چو ز خسرو رفتی
گل بسے دیر نماند چو شد از خار جدا
ترجمہ
اے محبوب تیرا حسن زیادہ دیر تک قائم نہیں رہے گا، جب تو خسرو کے پاس سے چلا گیا کہ جب کوئی پھول کانٹے سے دور ہو جاتا ہے تو وہ زیادہ دیر تک نہیں رہتا۔
قریشی
ہو کے خسرو سے جدا، حسن رہے گا نہ ترا
کب بقا پھول کو ہے، اس سے ہو جب خار جدا
——–
بحر - بحرِ رمل مثمن مخبون محذوف مقطوع
افاعیل - فاعِلاتُن فَعِلاتُن فَعِلاتُن فَعلُن
(پہلے رکن فاعلاتن کی جگہ فعلاتن بھی آسکتا ہے، آخری رکن فعلن کی جگہ فعلان، فَعِلن اور فَعِلان بھی آسکتا ہے یوں آٹھ وزن اکھٹے ہو سکتے ہیں)
اشاری نظام - 2212 2211 2211 22
(پہلے 2212 کی 2211 اور آخری 22 کی جگہ 122، 211 اور 1211 بھی آ سکتا ہے)۔
تقطیع -
ابر می بارَد و من می شَوَم از یار جدا
چوں کنَم دل بہ چنیں روز ز دلدار جدا
ابر می با - فاعلاتن - 2212
رَ دَ من می - فعلاتن - 2211
شَ وَ مز یا - فعلاتن - 2211 (الف وصل استعمال ہوا ہے)
ر جدا - فَعِلن - 211
چو کنم دل - فاعلاتن - 2212
بَ چنی رو - فعلاتن - 2211
ز ز دلدا - فعلاتن - 2211
ر جدا - فَعِلن - 211
مزید پڑھیے۔۔۔۔

May 12, 2008

امیر خسرو کی مشہور و معروف نعت - نمی دانَم چہ منزل بُود

درج ذیل نعت امیر خسرو کی مشہور و معروف نعت ہے لیکن ادبی محققین کے مطابق یہ انکے کسی بھی دیوان میں نہیں ملتی لیکن صدیوں سے معروف انہی کے نام سے ہے۔
شعرِ خسرو
نمی دانَم چہ منزل بُود، شب جائے کہ من بُودَم
بہ ہر سُو رقصِ بسمل بُود، شب جائے کہ من بودم
اردو ترجمہ
مجھے نہیں معلوم کہ وہ کون سی جگہ تھی جہاں کل رات میں تھا، ہر طرف وہاں رقصِ بسمل ہو رہا تھا کہ جہاں میں کل رات کو تھا۔
منطوم ترجمہ مسعود قریشی
نہیں معلوم تھی کیسی وہ منزل، شب جہاں میں تھا
ہر اک جانب بپا تھا رقصِ بسمل، شب جہاں میں تھا
Persian poetry, Persian Poetry with Urdu translation, Farsi poetry, Farsi poetry with urdu translation, Mazar Amir Khusro, مزار امیر خسرو
مزار امیر خسرو علیہ الرحمہ، دہلی ہندوستان, Mazar Amir Khusro
شعرِ خسرو
پری پیکر نگارے، سرو قدے، لالہ رخسارے
سراپا آفتِ دل بُود، شب جائے کہ من بودم
ترجمہ
پری کے جسم جیسا ایک محبوب تھا، اس کا قد سرو کی طرح تھا اور رخسار لالے کی طرح، وہ سراپا آفتِ دل تھا کل رات کہ جہاں میں تھا۔
قریشی
پری پیکر صنم تھا سرو قد، رخسار لالہ گُوں
سراپا وہ صنم تھا آفتِ دل، شب جہاں میں تھا
شعرِ خسرو
رقیباں گوش بر آواز، اُو دَر ناز، من ترساں
سخن گفتَن چہ مشکل بود، شب جائے کہ من بودم
ترجمہ
رقیب آواز پر کان دھرے ہوئے تھے، وہ ناز میں تھا اور میں خوف زدہ تھا۔ وہاں بات کرنا کس قدر مشکل تھا کل رات کہ جہاں میں تھا۔
قریشی
عدو تھے گوش بر آواز، وہ نازاں تھا، میں ترساں
سخن کرنا وہاں تھا سخت مشکل، شب جہاں میں تھا
شعرِ خسرو
خدا خود میرِ مجلس بُود اندر لا مکاں خسرو
محمد شمعِ محفل بود، شب جائے کہ من بودم
ترجمہ
اے خسرو، لا مکاں میں خدا خود میرِ مجلس تھا اور حضرت محمد اس محفل کی شمع تھے، کل رات کہ جہاں میں تھا۔
قریشی
خدا تھا میرِ مجلس لا مکاں کی بزم میں خسرو
محمد تھے وہاں پر شمعِ محفل، شب جہاں میں تھا
——–
بحر - بحر ہزج مثمن سالم
افاعیل - مَفاعِیلُن مَفاعِیلُن مَفاعِیلُن مَفاعِیلُن
اشاری نظام - 2221 2221 2221 2221
تقطیع -
نمی دانم چہ منزل بود، شب جائے کہ من بودم
بہ ہر سُو رقصِ بسمل بود، شب جائے کہ من بودم
نمی دانم - مفاعیلن - 2221
چ منزل بو - مفاعیلن - 2221
د شب جائے - مفاعیلن - 2221
کِ من بودم - مفاعیلن - 2221
بَ ہر سو رق - مفاعیلن - 2221
ص بسمل بو - مفاعیلن - 2221
د شب جائے - مفاعیلن - 2221
کِ من بودم - مفاعیلن - 2221
مزید پڑھیے۔۔۔۔