Showing posts with label اردو نظم. Show all posts
Showing posts with label اردو نظم. Show all posts

Nov 23, 2012

یہ بالیقیں حُسین ہے، نبی کا نُورِ عین ہے - حفیظ جالندھری

لباس ہے پھٹا ہوا، غُبار میں اٹا ہوا
تمام جسمِ نازنیں، چھدا ہوا کٹا ہوا
یہ کون ذی وقار ہے، بلا کا شہ سوار ہے
کہ ہے ہزاروں قاتلوں کے سامنے ڈٹا ہوا
یہ بالیقیں حُسین ہے، نبی کا نُورِ عین ہے

یہ کون حق پرست ہے، مئے رضائے مست ہے
کہ جس کے سامنے کوئی بلند ہے نہ پست ہے
اُدھر ہزار گھات ہے، مگر عجیب بات ہے
کہ ایک سے ہزار کا بھی حوصلہ شکست ہے
یہ بالیقیں حُسین ہے، نبی کا نُورِ عین ہے

یہ جسکی ایک ضرب سے، کمالِ فنّ ِ حرب سے
کئی شقی گرئے ہوئے تڑپ رہے ہیں کرب سے
غضب ہے تیغِ دوسرا کہ ایک ایک وار پر
اُٹھی صدائے الاماں زبانِ شرق وغرب سے
یہ بالیقیں حُسین ہے، نبی کا نُورِ عین ہے

عبا بھی تار تار ہے، تو جسم بھی فگار ہے
زمین بھی تپی ہوئی  فلک بھی شعلہ بار ہے
مگر یہ مردِ تیغ زن، یہ صف شکن فلک فگن
کمالِ صبر و تن دہی سے محوِ کارزار ہے
یہ بالیقیں حُسین ہے، نبی کا نُورِ عین ہے
Ilm-e-Arooz, Ilm-e-Urooz, Taqtee, Behr, Urdu Poetry, Urdu Shairi, اردو شاعری، علم عروض، تقطیع، بحر، بحر ہزج, سلام, Salam; hafeez jalandhari، حفیظ جالندھری
Hafeez Jalandhari، حفیظ جالندھری

دلاوری میں فرد ہے، بڑا ہی شیر مرد ہے
کہ جس کے دبدبے سے رنگ دشمنوں کا زرد ہے
حبیبِ مُصطفیٰ ہے یہ، مجاہدِ خدا ہے یہ
جبھی تو اس کے سامنے، یہ فوج گرد گرد ہے
یہ بالیقیں حُسین ہے، نبی کا نُورِ عین ہے

اُدھر سپاہِ شام ہے، ہزار انتظام ہے
اُدھر ہیں دشمنانِ دیں، اِدھر فقط اِمام ہے
مگر عجیب شان ہے غضب کی آن بان ہے
کہ جس طرف اُٹھی ہے تیغ بس خدا کا نام ہے
یہ بالیقیں حُسین ہے، نبی کا نُورِ عین ہے

حفیظ جالندھری
-----

بحر - بحرِ ہزج مثمن مقبوض

افاعیل - مفاعلن مفاعلن مفاعلن مفاعلن

علامتی نظام - 2121 / 2121 / 2121 /2121
ہندسوں کو اردو کی طرز پر دائیں سے بائیں پڑھیے۔ یعنی 2121 میں 1 پہلے ہے

تقطیع -

لباس ہے پھٹا ہوا، غبار میں اٹا ہوا
تمام جسمِ نازنیں، چھدا ہوا کٹا ہوا

لباس ہے - مفاعلن - 2121
پٹا ہوا - مفاعلن - 2121
غبار مے - مفاعلن - 2121
اٹا ہوا - مفاعلن - 2121

تمام جس - مفاعلن - 2121
مِ نازنی - مفاعلن - 2121
چھدا ہوا - مفاعلن - 2121
کٹا ہوا - مفاعلن - 2121

یہ بالیقیں حُسین ہے، نبی کا نورِ عین ہے

یِ بل یقی - مفاعلن - 2121
حُسین ہے - مفاعلن - 2121
نبی کَ نُو - مفاعلن - 2121
رِ عین ہے - مفاعلن - 2121
-----


مزید پڑھیے۔۔۔۔

May 29, 2012

نظم - توسیعِ شہر از مجید امجد

مجید امجد کی ایک انتہائی خوبصورت نظم

توسیع ِ شہر

بیس برس سے کھڑے تھے جو اس گاتی نہر کے دوار
جھومتے کھیتوں کی سرحد پر بانکے پہرے دار
گھنے، سہانے، چھاؤں چھڑکتے، بور لدے چھتنار
بیس ہزار میں بک گئے سارے ہرے بھرے اشجار

جن کی سانس کا ہر جھونکا تھا ایک عجیب طلسم
قاتل تیشے چیر گئے ان ساونتوں کے جسم
Majeed Amjad, مجید امجد, Urdu Poetry, Urdu Sahiary, Ilm-e-Arooz, Ilm-e-Urooz, Taqtee, Nazm, Urdu Nazm, اردو شاعری، اردو نظم، علم عروض، تقطیع
Majeed Amjad, مجید امجد
گری دھڑام سے گھائل پیڑوں کی نیلی دیوار
کٹتے ہیکل، جھڑتے پنجر، چھٹتے برگ و بار
سہمی دھوپ کے زرد کفن میں لاشوں کے انبار

آج کھڑا میں سوچتا ہوں اس گاتی نہر کے دوار
اس مقتل میں صرف اک میری سوچ لہکتی ڈال
مجھ پر بھی اب کاری ضرب اک، اے آدم کی آل

مجید امجد


مزید پڑھیے۔۔۔۔

Sep 22, 2011

ثلاثی - حمایت علی شاعر

ثلاثی - حمایت علی شاعر

نیچے دیے گئے پہلے تین ثلاثی (شاعر، انتباہ اور ارتقا) "فنون" لاہور، اشاعت خاص نمبر 2، جولائی 1963ء میں حمایت علی شاعر صاحب کے اس نوٹ کے ساتھ شائع ہوئے تھے۔

"تین مصرعوں کی نظموں کے لیے میں نے ایک نیا نام "تثلیث"(مثلث کی رعایت سے) تجویز کیا تھا لیکن مدیرانِ "فنون" [احمد ندیم قاسمی اور حبیب اشعر دہلوی] کے مشوروں کی روشنی میں اس کا نام "ثلاثی" منتخب کیا ہے۔ شاعر"۔
urdu poetry, urdu ghazal, ilm-e-arooz, taqtee, Himayat Ali Shair, حمایت علی شاعر, salasi, ثلاثی
حمایت علی شاعر - موجدِ  ثلاثی
Himayat Ali Shair
اس تحریر سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ حمایت علی شاعر صنفِ ثلاثی کے موجد ہیں۔ دراصل صنفِ ثلاثی بہت حد تک اردو ہائیکو سے مماثلت رکھتی ہے لیکن ہائیکو میں کچھ بندشیں یا پابندیاں ہیں کہ وہ ہمیشہ ایک ہی وزن یا بحر میں کہے جاتے ہیں لیکن ثلاثی کسی بھی بحر میں کہے جا سکتے ہیں۔

سب سے پہلے حمایت علی شاعر کے وہ تین ثلاثی جو "فنون" میں شائع ہوئے تھے۔

شاعر
ہر موجِ بحر میں کئی طوفاں ہیں مشتعل
پھر بھی رواں ہوں ساحلِ بے نام کی طرف
لفظوں کی کشتیوں میں سجائے متاعِ دل

انتباہ
کہہ دو یہ ہوا سے کہ وہ یہ بات نہ بھُولے
جم جائیں تو بن جاتے ہیں اک کوہِ گراں بھی
ویرانوں میں اُڑتے ہوئے خاموش بگُولے

ارتقا
یہ اوج، بے فراز ہے آوارہ بادلو
کونپل نے سر اُٹھا کے بڑے فخر سے کہا
پاؤں زمیں میں گاڑ کے سُوئے فلک چلو

حمایت علی شاعر صاحب کے کچھ مزید ثلاثی

یقین
دشوار تو ضرور ہے، یہ سہل تو نہیں
ہم پر بھی کھل ہی جائیں گے اسرارِ شہرِ علم
ہم ابنِ جہل ہی سہی، بو جہل تو نہیں

ابن الوقت
سورج تھا سر بلند تو محوِ نیاز تھے
سورج ڈھلا تو دل کی سیاہی تو دیدنی
کوتاہ قامتوں کے بھی سائے دراز تھے

کرسی
جنگل کا خوں خوار درندہ کل تھا مرا ہمسایہ
اپنی جان بچانے میں جنگل سے شہر میں آیا
شہر میں بھی ہے میرے خون کا پیاسا اک چوپایہ

الہام
کوئی تازہ شعر اے ربّ ِ جلیل
ذہن کے غارِ حرا میں کب سے ہے
فکر محوِ انتظارِ جبرئیل

نمائش
قرآں، خدا، رسول ہے سب کی زبان پر
ہر لفظ آج یوں ہے معانی سے بے نیاز
لکھی ہو جیسے نام کی تختی مکان پر

----
مزید پڑھیے۔۔۔۔

Sep 8, 2011

نظم - میرے گھر میں روشن رکھنا - امجد اسلام امجد

میرے گھر میں روشن رکھنا

چینی کی گُڑیا سی جب وہ
چھوٹے چھوٹے قدم اٹھاتی
میری جانب آتی ہے تو
اُس کے لبوں پر ایک ستارہ کِھلتا ہے
"پاپا"
urdu poetry, urdu ghazal, ilm-e-arooz, taqtee, Amjad Islam Amjad, امجد اسلام امجد
امجد اسلام امجد
Amjad Islam Amjad
اللہ۔ اس آواز میں کتنی راحت ہے
ننھے ننھے ہاتھ بڑھا کر جب وہ مجھ سے چُھوتی ہے تو
یوں لگتا ہے
جیسے میری رُوح کی ساری سچّائی
اس کے لمس میں جاگ اٹھتی ہے
اے مالک، اے ارض و سما کو چُٹکی میں بھر لینے والے
تیرے سب معمور خزانے
میری ایک طلب
میرا سب کچھ مجھ سے لے لے
لیکن جب تک
اس آکاش پہ تارے جلتے بُجھتے ہیں
میرے گھر میں روشن رکھنا
یہ معصوم ہنسی

اے دنیا کے رب
کوئی نہیں ہے اس لمحے تیرے میرے پاس
سچ سچ مجھ سے کہہ
تیرے ان معمور خزانوں کی بے انت گرہ میں
بچے کی معصوم ہنسی سے زیادہ پیاری شے
کیا کوئی ہے؟

(امجد اسلام امجد)
مزید پڑھیے۔۔۔۔

Aug 20, 2011

ابر اُٹھا وہ ناگہاں - جوش ملیح آبادی کی ایک شاہکار نظم

شاعرِ انقلاب جوش ملیح آبادی کی ایک انتہائی خوبصورت نظم، موسم کی مناسبت سے۔

ابر اُٹھا وہ ناگہاں
نغمہ زناں، ترانہ خواں
تُند عناں، رواں دواں
رقص کناں و پر فشاں
ساقیٔ بادہ فام ہاں

ابر اٹھا وہ ناگہاں
مُژدہ ہو خیلِ مے کشاں
ابر اٹھا وہ ناگہاں

سرخ و سیاہ روز و شب
غرقِ تلاطمِ عَنَب
ارض و سما بہ صد طرَب
سینہ بہ سینہ، لب بہ لب
چشم بہ چشم، جاں بہ جاں

ابر اٹھا وہ ناگہاں
مژدہ ہو خیلِ مے کشاں
ابر اٹھا وہ ناگہاں
urdu poetry, urdu ghazal, ilm-e-arooz, taqtee,josh malihabadi, جوش ملیح آبادی
josh malihabadi, جوش ملیح آبادی

ہمہمہ، ہاؤ ہو، ہُمَک
دھوم، دھمک، دہل، دمَک
جھوم، جھڑی، جھلک، جھمَک
گونج، گرج، گھمر، گمَک
کوہ و کمر کشاں کشاں

ابر اٹھا وہ ناگہاں
مژدہ ہو خیلِ مے کشاں
ابر اٹھا وہ ناگہاں

گنگ و جمن میں کھلبلی
دشت و جبَل پہ تیرگی
طاق و رواق اگرَئی
پست و بلند سرمئی
ارض و سما دُھواں دُھواں

ابر اٹھا وہ ناگہاں
مژدہ ہو خیلِ مے کشاں
ابر اٹھا وہ ناگہاں

ابرِ سیہ جھکا، رکا
عمرِ رواں رسَن بہ پا
ظلمت و نور ہم رِدا
نصب ہے خیمہ وقت کا
شام و سحر کے درمیاں

ابر اٹھا وہ ناگہاں
مژدہ ہو خیلِ مے کشاں
ابر اٹھا وہ ناگہاں

چرخِ ترانہ بار پر
چادرِ زرنگار پر
جادۂ لالہ کار پر
مینہ کے ہر ایک تار پر
دُھنکی ہوئی دھنک دواں

ابر اٹھا وہ ناگہاں
مژدہ ہو خیلِ مے کشاں
ابر اٹھا وہ ناگہاں

غرقِ نشاط، بحر و بر
آبِ غنا کمر کمر
تھاپ کی گونج الحذر
جھوم گئے شجر و حَجَر
کُوک اٹھیں جوانیاں

ابر اٹھا وہ ناگہاں
مژدہ ہو خیلِ مے کشاں
ابر اٹھا وہ ناگہاں

کھول رہی ہے بال، نَے
گھول رہی ہے سُر میں لَے
تول رہی ہے رُخ کو مَے
ڈول رہا ہے فرِّ کَے
بول رہی ہیں انکھڑیاں

ابر اٹھا وہ ناگہاں
مژدہ ہو خیلِ مے کشاں
ابر اٹھا وہ ناگہاں

سانولیاں مہک گئیں
نشہ چڑھا، دہک گئیں
مست ہوئیں، بہک گئیں
چوڑیاں سب کھنک گئیں
تن میں کڑک اٹھی کماں

ابر اٹھا وہ ناگہاں
مژدہ ہو خیلِ مے کشاں
ابر اٹھا وہ ناگہاں

رقص کے پھر علَم گڑے
لَے نے ہوا پہ نگ جڑے
بجنے لگے کڑے چھڑے
کیف میں پاؤں یوں پڑے
فرش ہوا رواں دواں

ابر اٹھا وہ ناگہاں
مژدہ ہو خیلِ مے کشاں
ابر اٹھا وہ ناگہاں

گائے نرَت میں ولولے
بھاؤ میں بول جاگ اٹھے
تال کے بال کُھل گئے
ہاتھ اٹھے جُڑے جُڑے
قوسِ قزح کا سائباں

ابر اٹھا وہ ناگہاں
مژدہ ہو خیلِ مے کشاں
ابر اٹھا وہ ناگہاں

جھول رہے ہیں سیم تن
جُھوم رہا ہے بانکپن
زیر و زبر ہے پھول بن
چیخ رہے ہیں یوں بدن
گونج رہی ہیں چولیاں

ابر اٹھا وہ ناگہاں
مژدہ ہو خیلِ مے کشاں
ابر اٹھا وہ ناگہاں

با ہمہ شوخی و فسوں
زیرِ نوائے ارغنُوں
شرم کی جھلکیاں ہیں یوں
جیسے کھڑی ہیں سرنگوں
بیاہیوں میں کنواریاں

ابر اٹھا وہ ناگہاں
مژدہ ہو خیلِ مے کشاں
ابر اٹھا وہ ناگہاں

اُف یہ رقیق اوڑھنی
بوندیوں کی بنی ہوئی
مے میں سموئی سر خوشی
نَے میں ڈھلی شگفتگی
لے میں پروئی بوندیاں

ابر اٹھا وہ ناگہاں
مژدہ ہو خیلِ مے کشاں
ابر اٹھا وہ ناگہاں

سُوئے زمیں گھٹا چلی
چھائی گھٹا، فضا چلی
گائی فضا، ہوا چلی
آئی ہوا، نوا چلی
زیرِ نوا چھنن چھناں

ابر اٹھا وہ ناگہاں
مژدہ ہو خیلِ مے کشاں
ابر اٹھا وہ ناگہاں

آبِ رواں شَرَر شَرَر
اولتیاں جَھرَر جَھرَر
برقِ تپاں کَرَر کَرَر
جام و سبو جَگر جَگر
چرخِ کہن گھنن گھناں

ابر اٹھا وہ ناگہاں
مژدہ ہو خیلِ مے کشاں
ابر اٹھا وہ ناگہاں

کاگ اُڑے، جلا اگر
پردہ ہلا، اٹھی نظر
آئی وہ دخترِ قمر
شیشے جھکے، بجا گجَر
قُلقلِ مے نے دی اذاں

ابر اٹھا وہ ناگہاں
مژدہ ہو خیلِ مے کشاں
ابر اٹھا وہ ناگہاں

اُف یہ غزالہ خُو سفر
اُف یہ خروشِ بال و پر
بہرِ خدا، ٹھہر، ٹھہر
فرشِ زمیں کدھر؟ کدھر؟
چرخِ بریں، کہاں کہاں؟

ابر اٹھا وہ ناگہاں
مژدہ ہو خیلِ مے کشاں
ابر اٹھا وہ ناگہاں

"فنون، جولائی 1963ء"

------
مزید پڑھیے۔۔۔۔

May 4, 2011

اختر شیرانی کی ایک شاہکار نظم - اے عشق کہیں لے چل

عین عالمِ شباب میں وفات پا جانے والے محمد داؤد خان اختر شیرانی، 1905ء تا 1948ء، دنیائے اردو میں “شاعرِ رومان” کے لقب سے جانے جاتے ہیں۔ آپ کا تعلق ایک ادبی اور علمی خانوادے سے تھا کہ آپ کے والد حافظ محمود شیرانی نہ صرف فارسی کے استاد تھے بلکہ ایک بلند پایہ محقق اور تاریخ دان بھی تھے، انکا شاہکار، اردو کی ابتدا کے متعلق انکی لازوال کتاب “پنجاب میں اردو” ہے۔

اختر شیرانی نے اُس دور میں اپنی رومانوی شاعری بالخصوص رومانوی نظموں
urdu poetry, urdu ghazal, ilm-e-arooz, taqtee, Akhtar Sheerani, اختر شیرانی
Akhtar Sheerani, اختر شیرانی
کا لوہا منوایا جب ایک طرف غزل کے اساتذہ کا طوطی بولتا تھا تو دوسری طرف ترقی پسند بزرجمہر ادبی افق پر چھائے ہوئے تھے، لیکن اختر شیرانی مرحوم نے ایک نئی صدا بلند کی اور دیکھتے ہی دیکھتے وہ آواز چار دانگ عالم پھیل گئی اور دیکھتے ہی دیکھتے وہ آواز گم بھی ہو گئی۔

اختر شیرانی کی نظم “اے عشق کہیں لے چل” کا شمار اردو کلاسکس میں ہوتا ہے اور مجھے بھی یہ نظم بہت پسند ہے۔ یہ نظم معنوی خوبیوں سے تو مالا مال ہے ہی لیکن اس میں نغمگی، بے ساختگی اور روانی بھی دیدنی ہے۔ اختر شیرانی کا مکمل کلام اس ربط پر پڑھا جا سکتا ہے۔

اے عشق کہیں لے چل

اے عشق کہیں لے چل، اس پاپ کی بستی سے
نفرت گہِ عالم سے، لعنت گہِ ہستی سے
ان نفس پرستوں سے، اِس نفس پرستی سے
دُور اور کہیں لے چل
اے عشق کہیں لے چل

ہم پریم پُجاری ہیں، تُو پریم کنہیّا ہے
تُو پریم کنہیّا ہے، یہ پریم کی نیّا ہے
یہ پریم کی نیّا ہے، تُو اِس کا کھویّا ہے
کچھ فکر نہیں لے چل
اے عشق کہیں لے چل

بے رحم زمانے کو، اب چھوڑ رہے ہیں ہم
بے درد عزیزوں سے، منہ موڑ رہے ہیں ہم
جو آس کہ تھی وہ بھی، اب توڑ رہے ہیں ہم
بس تاب نہیں لے چل
اے عشق کہیں لے چل

یہ جبر کدہ آزاد افکار کا دشمن ہے
ارمانوں کا قاتل ہے، امّیدوں کا رہزن ہے
جذبات کا مقتل ہے، جذبات کا مدفن ہے
چل یاں سے کہیں لے چل
اے عشق کہیں لے چل

آپس میں چھل اور دھوکے، سنسار کی ریتیں ہیں
اس پاپ کی نگری میں، اجڑی ہوئی پریتیں ہیں
یاں نیائے کی ہاریں ہیں، انیائے کی جیتیں ہیں
سکھ چین نہیں لے چل
اے عشق کہیں لے چل

اک مذبحِ جذبات و افکار ہے یہ دنیا
اک مسکنِ اشرار و آزار ہے یہ دنیا
اک مقتلِ احرار و ابرار ہے یہ دنیا
دور اس سے کہیں لے چل
اے عشق کہیں لے چل

یہ درد بھری دنیا، بستی ہے گناہوں کی
دل چاک اُمیدوں کی، سفّاک نگاہوں کی
ظلموں کی جفاؤں کی، آہوں کی کراہوں کی
ہیں غم سے حزیں لے چل
اے عشق کہیں لے چل

آنکھوں میں سمائی ہے، اک خواب نما دنیا
تاروں کی طرح روشن، مہتاب نما دنیا
جنّت کی طرح رنگیں، شاداب نما دنیا
للہ وہیں لے چل
اے عشق کہیں لے چل

وہ تیر ہو ساگر کی، رُت چھائی ہو پھاگن کی
پھولوں سے مہکتی ہوِ پُروائی گھنے بَن کی
یا آٹھ پہر جس میں، جھڑ بدلی ہو ساون کی
جی بس میں نہیں لے چل
اے عشق کہیں لے چل

قدرت ہو حمایت پر، ہمدرد ہو قسمت بھی
سلمٰی بھی ہو پہلو میں، سلمٰی کی محبّت بھی
ہر شے سے فراغت ہو، اور تیری عنایت بھی
اے طفلِ حسیں لے چل
اے عشق کہیں لے چل

اے عشق ہمیں لے چل، اک نور کی وادی میں
اک خواب کی دنیا میں، اک طُور کی وادی میں
حوروں کے خیالاتِ مسرور کی وادی میں
تا خلدِ بریں لے چل
اے عشق کہیں لے چل

سنسار کے اس پار اک اس طرح کی بستی ہو
جو صدیوں سے انساں کی صورت کو ترستی ہو
اور جس کے نظاروں پر تنہائی برستی ہو
یوں ہو تو وہیں لے چل
اے عشق کہیں لے چل

مغرب کی ہواؤں سے، آواز سی آتی ہے
اور ہم کو سمندر کے، اُس پار بلاتی ہے
شاید کوئی تنہائی کا دیس بتاتی ہے
چل اس کے قریں لے چل
اے عشق کہیں لے چل

اک ایسی فضا جس تک، غم کی نہ رسائی ہو
دنیا کی ہوا جس میں، صدیوں سے نہ آئی ہو
اے عشق جہاں تُو ہو، اور تیری خدائی ہو
اے عشق وہیں لے چل
اے عشق کہیں لے چل

اک ایسی جگہ جس میں، انسان نہ بستے ہوں
یہ مکر و جفا پیشہ، حیوان نہ بستے ہوں
انساں کی قبا میں یہ شیطان نہ بستے ہوں
تو خوف نہیں لے چل
اے عشق کہیں لے چل

برسات کی متوالی، گھنگھور گھٹاؤں میں
کہسار کے دامن کی، مستانہ ہواؤں میں
یا چاندنی راتوں کی شفّاف فضاؤں میں
اے زہرہ جبیں لے چل
اے عشق کہیں لے چل

ان چاند ستاروں کے، بکھرے ہوئے شہروں میں
ان نور کی کرنوں کی ٹھہری ہوئی نہروں میں
ٹھہری ہوئی نہروں میں، سوئی ہوئی لہروں میں
اے خضرِ حسیں لے چل
اے عشق کہیں لے چل

اک ایسی بہشت آگیں وادی میں پہنچ جائیں
جس میں کبھی دنیا کے، غم دل کو نہ تڑپائیں
اور جس کی بہاروں میں جینے کے مزے آئیں
لے چل تُو وہیں لے چل
اے عشق کہیں لے چل

————
بحر - بحر ہزج مثمن اخرب
یہ ایک مقطع بحر ہے یعنی ہر مصرع دو مساوی ٹکڑوں میں تقسیم ہوتا ہے اور ہر ٹکڑا، ایک مصرع کے احکام میں آ سکتا ہے۔
افاعیل - مَفعُولُ مَفَاعِیلُن مَفعُولُ مَفَاعِیلُن
اشاری نظام - 122 2221 122 2221
تقطیع -
اے عشق کہیں لے چل، اس پاپ کی بستی سے
نفرت گہِ عالم سے، لعنت گہِ ہستی سے
اے عشق - مفعول - 122
کہیں لے چل - مفاعیلن - 2221
اس پاپ - مفعول - 122
کِ بستی سے - مفاعیلن - 2221

نفرت گَ - مفعول - 122
ہِ عالم سے - مفاعیلن - 2221
لعنت گَ - مفعول - 122
ہِ ہستی سے - مفاعیلن - 2221

----

مزید پڑھیے۔۔۔۔

Jun 9, 2010

شورشِ زنجیر بسم اللہ - فیض

فیض احمد فیض کی ایک نظم جو مجھے بہت پسند ہے۔

شورشِ زنجیر بسم اللہ

ہوئی پھر امتحانِ عشق کی تدبیر بسم اللہ
ہر اک جانب مچا کہرامِ دار و گیر بسم اللہ
گلی کوچوں میں بکھری شورشِ زنجیر بسم اللہ

درِ زنداں پہ بُلوائے گئے پھر سے جنوں والے
دریدہ دامنوں والے، پریشاں گیسوؤں والے
جہاں میں دردِ دل کی پھر ہوئی توقیر بسم اللہ
ہوئی پھر امتحانِ عشق کی تدبیر بسم اللہ
Faiz Ahmed Faiz, فیض احمد فیض, urdu poetry, urdu ghazal, ilm-e-arooz, taqtee
Faiz Ahmed Faiz, فیض احمد فیض

گِنو سب داغ دل کے، حسرتیں شوقیں نگاہوں کی
سرِ دربار پُرسش ہو رہی ہے پھر گناہوں کی
کرو یارو شمارِ نالۂ شبگیر بسم اللہ

ستم کی داستاں، کشتہ دلوں کا ماجرا کہیے
جو زیرِ لب نہ کہتے تھے وہ سب کچھ برملا کہیے
مُصر ہے محتسب رازِ شہیدانِ وفا کہیے
لگی ہے حرفِ نا گفتہ پر اب تعزیر بسم اللہ

سرِ مقتل چلو بے زحمتِ تقصیر بسم اللہ
ہوئی پھر امتحانِ عشق کی تدبیر بسم اللہ

لاہور جیل
جنوری 1959ء
------

بحر - بحر ہزج مثمن سالم
افاعیل - مَفاعِیلُن مَفاعِیلُن مَفاعِیلُن مَفاعِیلُن
اشاری نظام - 2221 2221 2221 2221
(ہندسوں کو اردو طریقے سے پڑھیں یعنی دائیں سے بائیں یعنی 1 پہلے ہے)
تقطیع -
ہوئی پھر امتحانِ عشق کی تدبیر بسم اللہ
ہر اک جانب مچا کہرام دار و گیر بسم اللہ
گلی کوچوں میں بکھری شورشِ زنجیر بسم اللہ

ہُ ئی پر ام - مفاعیلن - 2221
تِ حا نے عش - مفاعیلن - 2221
ق کی تد بی - مفاعیلن - 2221
ر بس مِل لا - مفاعیلن - 2221
ہَ رِک جا نب - مفاعیلن - 2221 (الف کا وصال نوٹ کریں)۔
مچا کہرا - مفاعیلن - 2221
مِ دا رو گی - مفاعیلن - 2221
ر بس مِل لا - مفاعیلن - 2221
گلی کو چو - مفاعیلن - 2221
مِ بکری شو - مفاعیلن - 2221
ر شے زن جی - مفاعیلن - 2221
ر بس مِل لا - مفاعیلن - 2221

لفظ 'اللہ' کے وزن کے بارے میں ایک وضاحت یہ کہ اسکا صحیح وزن تو ال لا ہ یعنی مفعول یا 2 2 1 ہے اور کچھ ماہرینِ عروض اس لفظ کی آخری 'ہ' کو گرانا جائز نہیں سمجھتے لیکن شعرا عموماً اسکی پروا نہیں کرتے اور بلا تکلف اس کو 'ال لا' یعنی فعلن 2 2 باندھتے ہیں۔ لیکن اس نظم میں ایسا کوئی مسئلہ نہیں ہے گو میں نے تقطیع میں ہ کو حذف کر دیا ہے لیکن اگر ہ کو نہ بھی گرایا جائے تو آخری رکن مفاعیلن کی جگہ مفاعیلان بنے گا جو کے اسے بحر میں جائز ہے۔

مزید پڑھیے۔۔۔۔

Mar 28, 2009

مجھے تم سب سے نفرت ہے۔۔۔۔۔

اجی صاحب گھبرائیے مت، یہ میں اپنا حالِ دل نہیں کہہ رہا اور نہ ہی کبھی اتنے واشگاف الفاظ میں، دوسروں کو تو کیا اپنی انتہائی ذاتی بیوی کو بھی نہیں کہہ سکتا، یہ ایک نظم کا عنوان ہے۔ میں نظم کے میدان کا آدمی نہیں ہوں، بلکہ غزل و رباعی کا قتیل ہوں یا زیادہ سے زیادہ مثنویوں کا اور آزاد نظم کم کم ہی پڑھتا ہوں سوائے ن م راشد کے، کہ راشد کی نظم میں بھی چاشنی ہے۔

فاتح الدین بشیر صاحب، ہمارے دوست ہیں، ان سے تعارف کوئی دو سال پہلے 'اردو محفل' پر ہوا تھا اور یہ تعلق دوستی میں بدل گیا، انتہائی اچھے شاعر ہیں اور اتنے ہی بذلہ سنج، یہ نظم انہی کی ہے۔ آپ پچھلے سال ستمبر میں سیالکوٹ تشریف لائے تو اس خاکسار کو بھی شرفِ ملاقات بخشا، پروگرام تو ہمارا لمبا ہی تھا لیکن شومئی قسمت سے ان سے فقط ایک آدھ گھنٹے تک ہی بات چیت ہو سکی کہ ایک ناگہانی اطلاع کی بنا پر انہیں اسلام آباد واپس جانا پڑا، آج کل کراچی میں مقیم ہیں اور گاہے گاہے ان سے فون پر بات ہوتی رہتی ہے۔ اس ملاقات کا ذکر یوں آ گیا کہ انہوں نے اس نظم کے پسِ منظر پر کافی روشنی ڈالی تھی اور یہ بھی بتایا تھا کہ کن حالات میں اور کس کی شان میں کہی گئی تھی جو افسوس کہ انکی اجازت کے بغیر میں یہاں نہیں لکھ سکتا۔

یہاں میں فلسفۂ محبت و نفرت پر بحث نہیں کرنا چاہتا کہ انسانی زندگی کے یہ دونوں رخ، ایک ہی سکے کے دو رخ ہیں اور اس لحاظ سے ایک جیسے اور ایک جتنے ہی ہیں لیکن اس نظم میں بیان کی گئی ازلی و ابدی و آفاقی سچائیوں اور گہرائیوں کے ساتھ انسانی جذبوں کا گہرا امتزاج ہے، کئی دنوں سے یہ نظم ذہن میں گونج رہی تھی سوچا اپنے قارئین کی نذر کرتا چلوں۔

مجھے تم سب سے نفرت ہے از فاتح الدین بشیر

ارے او قاتلو
تم پر خدا کا رحم
جو تم نے
جہانِ دل کے سب کوچے، محلّے
سب گلی چوبارے تک ویران کر ڈالے
گلسّتانِ تبسّم روند ڈالے
شہرِ جاں کی سب فصیلیں ڈھا کے
قبرستان کر ڈالیں
تم اپنی ذات میں خود ہی خداوندان و پیغمبر
تمہاری گفتنی و کردنی جو سب
بزعمِ خود تھی یزدانی
جنہیں میں خضر سمجھا تھا
وہی شدّاد نکلے ہیں
میں جن کی ذات کا حصّہ
وہی بد ذات نکلے ہیں
تمھاری فتح میں تسلیم کر لوں گا
اگر تم
یہ شکستِ دل، شکستِ عشق میں تبدیل کر پاؤ
مگر اب تک ضمیرِ قلب کے سینے پہ گویا ایستادہ ہے
علَم اک قرمزی جو اک علامت ہے
محبّت جاودانی کے جلال و فتحمندی کی
وہیں
اک اور بھی
اتنا ہی اونچا اور قد آور علَم بھی ایستادہ ہے
مگر اس سرخ جھنڈے سے سیہ رنگت جھلکتی ہے
مگر بس فرق اتنا ہے
کہ اس کے روئیں روئیں سے فقط نفرت چھلکتی ہے
وہی نفرت علامت ہے
مرے تم سے تعلّق کی
تمہارے میرے رشتے کی
مگر دکھ کیا؟
ابھی الفاظ باقی ہیں
قلم کا ساتھ باقی ہے
مگر جب تک مرے سینے میں اک بھی سانس باقی ہے
مجھے تم سب سے نفرت ہے
مجھے تم سب سے نفرت ہے

مزید پڑھیے۔۔۔۔

Jan 29, 2009

ابھی تو میں جوان ہوں - حفیظ جالندھری

ابو الاثر حفیظ جالندھری نے اپنی شاعری کے بارے میں کہا تھا اور کیا خوب کہا تھا۔

تشکیل و تکمیلِ فن میں جو بھی حفیظ کا حصّہ ہے
Hafeez Jalandhari, حفیظ جالندھری, urdu poetry, urdu ghazal, ilm-e-arooz, taqtee
Hafeez Jalandhari, حفیظ جالندھری
نصف صدی کا قصّہ ہے، دو چار برس کی بات نہیں
پاکستان میں عام طور پر حفیظ جالندھری، ترانۂ پاکستان کے خالق ہونے کے حوالے سے جانے جاتے ہیں اور اردو شاعری کی دنیا میں اپنی مثنوی “شاہنامہ اسلام” کے حوالے سے، لیکن ان کی کچھ غزلیں اور نظمیں بھی ایسی ہیں جو اردو ادب میں زندہ جاوید ہو چکی ہیں اور انہی میں سے ایک “ابھی تو میں جوان ہوں” ہے۔
ابھی تو میں جوان ہوں

ہوا بھی خوش گوار ہے
گلوں پہ بھی نکھار ہے
ترنّمِ ہزار ہے
بہارِ پُر بہار ہے
کہاں چلا ہے ساقیا
اِدھر تو لوٹ، اِدھر تو آ
یہ مجھ کو دیکھتا ہے کیا
اٹھا سبُو، سبُو اٹھا
سبُو اٹھا، پیالہ بھر
پیالہ بھر کے دے اِدھر
چمن کی سمت کر نظر
سماں تو دیکھ بے خبر
وہ کالی کالی بدلیاں
افق پہ ہو گئیں عیاں
وہ اک ہجومِ مے کشاں
ہے سوئے مے کدہ رواں
یہ کیا گماں ہے بد گماں
سمجھ نہ مجھ کو ناتواں

خیالِ زہد ابھی کہاں
ابھی تو میں جوان ہوں

عبادتوں کا ذکر ہے
نجات کی بھی فکر ہے
جنون ہے ثواب کا
خیال ہے عذاب کا
مگر سنو تو شیخ جی
عجیب شے ہیں آپ بھی
بھلا شباب و عاشقی
الگ ہوئے بھی ہیں کبھی
حسین جلوہ ریز ہوں
ادائیں فتنہ خیز ہوں
ہوائیں عطر بیز ہوں
تو شوق کیوں نہ تیز ہوں
نگار ہائے فتنہ گر
کوئی اِدھر کوئی اُدھر
ابھارتے ہوں عیش پر
تو کیا کرے کوئی بشر
چلو جی قصّہ مختصر
تمھارا نقطۂ نظر

درست ہے تو ہو مگر
ابھی تو میں جوان ہوں

نہ غم کشود و بست کا
بلند کا نہ پست کا
نہ بود کا نہ ہست کا
نہ وعدۂ الست کا
امید اور یاس گم
حواس گم، قیاس گم
نظر کے آس پاس گم
ہمہ بجز گلاس گم
نہ مے میں کچھ کمی رہے
قدح سے ہمدمی رہے
نشست یہ جمی رہے
یہی ہما ہمی رہے
وہ راگ چھیڑ مطربا
طرَب فزا، الَم رُبا
اثر صدائے ساز کا
جگر میں آگ دے لگا
ہر ایک لب پہ ہو صدا
نہ ہاتھ روک ساقیا

پلائے جا پلائے جا
ابھی تو میں جوان ہوں

یہ گشت کوہسار کی
یہ سیر جوئبار کی
یہ بلبلوں کے چہچہے
یہ گل رخوں کے قہقہے
کسی سے میل ہو گیا
تو رنج و فکر کھو گیا
کبھی جو بخت سو گیا
یہ ہنس گیا وہ رو گیا
یہ عشق کی کہانیاں
یہ رس بھری جوانیاں
اِدھر سے مہربانیاں
اُدھر سے لن ترانیاں
یہ آسمان یہ زمیں
نظارہ ہائے دل نشیں
انھیں حیات آفریں
بھلا میں چھوڑ دوں یہیں
ہے موت اس قدر قریں
مجھے نہ آئے گا یقیں

نہیں نہیں ابھی نہیں
ابھی تو میں جوان ہوں
——–
بحر - بحر ہزج مربع مقبوض
(مربع یعنی ایک شعر میں چار رکن یا ایک مصرع میں دو رکن)

افاعیل - مَفاعِلُن مَفاعِلُن
(آخری رکن میں مسبغ شکل یعنی مفاعلن کی جگہ مفاعلان بھی آ سکتا ہے)

اشاری نظام - 2121 2121
(آخری 2121 کی جگہ 12121 بھی آ سکتا ہے)

تقطیع -
ہوا بھی خوش گوار ہے
گلوں پہ بھی نکھار ہے
ترنّمِ ہزار ہے
بہارِ پر بہار ہے

ہوا بھی خُش - مفاعلن - 2121
گوار ہے - مفاعلن - 2121
گلو پِ بی - مفاعلن - 2121
نکار ہے - مفاعلن - 2121
تَرَن نُ مے - مفاعلن - 2121
ہزار ہے - مفاعلن - 2121
بہار پر - مفاعلن - 2121
بہار ہے - مفاعلن - 2121



اور یہ نظم ملکہ پکھراج اور طاہرہ سیّد کی آواز میں





مزید پڑھیے۔۔۔۔

Nov 13, 2008

خوشی محمد ناظر کی شاہکار نظم - جوگی (مکمل)

چوھدری خوشی محمد ناظر کی نظم “جوگی” کا شمار اردو کلاسکس میں ہوتا ہے۔ اور مجھے یہ سعادت حاصل ہو رہی ہے کہ اس طویل نظم، جو دو حصوں “نغمۂ حقیقت” اور “ترانۂ وحدت” پر مشتمل ہے، کو پہلی بار مکمل طور پر پیش کر رہا ہوں۔ یہ نظم خوشی محمد ناظر کے دیوان “نغمۂ فردوس” سے لی ہے۔
Khushi Muhammad Nazir, خوشی محمد ناظر, urdu poetry, urdu ghazal, ilm-e-arooz, taqtee
Khushi Muhammad Nazir, خوشی محمد ناظر, 
جوگی

نغمۂ حقیقت
کل صبح کے مطلعِ تاباں سے جب عالم بقعۂ نور ہوا
سب چاند ستارے ماند ہوئے، خورشید کا نور ظہور ہوا
مستانہ ہوائے گلشن تھی، جانانہ ادائے گلبن تھی
ہر وادی وادیٔ ایمن تھی، ہر کوہ پہ جلوۂ طور ہوا
جب بادِ صبا مضراب بنی، ہر شاخِ نہال رباب بنی
شمشاد و چنار ستار ہوئے، ہر سرو و سمن طنبور ہوا
سب طائر مل کر گانے لگے، مستانہ وہ تانیں اُڑانے لگے
اشجار بھی وجد میں آنے لگے، گلزار بھی بزمِ سرُور ہوا
سبزے نے بساط بچھائی تھی اور بزمِ نشاط سجائی تھی
بن میں، گلشن میں، آنگن میں، فرشِ سنجاب و سمور ہوا

تھا دل کش منظرِ باغِ جہاں اور چال صبا کی مستانہ
اس حال میں ایک پہاڑی پر جا نکلا ناظر دیوانہ

چیلوں نے جھنڈے گاڑے تھے، پربت پر چھاؤنی چھائی تھی
تھے خیمے ڈیرے بادل کے، کُہرے نے قنات لگائی تھی
یاں برف کے تودے گلتے تھے، چاندی کے فوارے چلتے تھے
چشمے سیماب اگلتے تھے، نالوں نے دھوم مچائی تھی
اک مست قلندر جوگی نے پربت پر ڈیرا ڈالا تھا
تھی راکھ جٹا میں جوگی کی اور انگ بھبوت رمائی تھی
تھا راکھ کا جوگی کا بستر اور راکھ کا پیراہن تن پر
تھی ایک لنگوٹی زیبِ کمر جو گھٹنوں تک لٹکائی تھی
سب خلقِ خدا سے بیگانہ، وہ مست قلندر دیوانہ
بیٹھا تھا جوگی مستانہ، آنکھوں میں مستی چھائی تھی

جوگی سے آنکھیں چار ہوئیں اور جھک کر ہم نے سلام کیا
تیکھے چتون سے جوگی نے تب ناظر سے یہ کلام کیا

کیوں بابا ناحق جوگی کو تم کس لیے آ کے ستاتے ہو؟
ہیں پنکھ پکھیرو بن باسی، تم جال میں ان کو پھنساتے ہو؟
کوئی جگھڑا دال چپاتی کا، کوئی دعویٰ گھوڑے ہاتھی کا
کوئی شکوہ سنگی ساتھی کا، تم ہم کو سنانے آتے ہو؟
ہم حرص ہوا کو چھوڑ چکے، اِس نگری سے منہ موڑ چکے
ہم جو زنجیریں توڑ چکے، تم لا کے وہی پہناتے ہو؟
تم پُوجا کرتے ہو دھن کی، ہم سیوا کرتے ہیں ساجن کی
ہم جوت لگاتے ہیں من کی، تم اُس کو آ کے بجھاتے ہو؟
سنسار سے یاں مُکھ پھیرا ہے، من میں ساجن کا ڈیرا ہے
یاں آنکھ لڑی ہے پیتم سے، تم کس سے آنکھ ملاتے ہو؟

یوں ڈانٹ ڈپٹ کر جوگی نے جب ہم سے یہ ارشاد کیا
سر اُس کے جھکا کر چرنوں پر، جوگی کو ہم نے جواب دیا

ہیں ہم پردیسی سیلانی، یوں آنکھ نہ ہم سے چُرا جوگی
ہم آئے ہیں تیرے درشن کو، چِتون پر میل نہ لا جوگی
آبادی سے منہ پھیرا کیوں؟ جنگل میں کِیا ہے ڈیرا کیوں؟
ہر محفل میں، ہر منزل میں، ہر دل میں ہے نورِ خدا جوگی
کیا مسجد میں، کیا مندر میں، سب جلوہ ہے “وجہُ اللہ” کا
پربت میں، نگر میں، ساگر میں، ہر اُترا ہے ہر جا جوگی
جی شہر میں خوب بہلتا ہے، واں حسن پہ عشق مچلتا ہے
واں پریم کا ساگر چلتا ہے، چل دل کی پیاس بجھا جوگی
واں دل کا غنچہ کِھلتا ہے، گلیوں میں موہن ملتا ہے
چل شہر میں سنکھ بجا جوگی، بازار میں دھونی رما جوگی

پھر جوگی جی بیدار ہوئے، اس چھیڑ نے اتنا کام کیا
پھر عشق کے اِس متوالے نے یہ وحدت کا اِک جام دیا

اِن چکنی چپڑی باتوں سے مت جوگی کو پھسلا بابا
جو آگ بجھائی جتنوں سے پھر اس پہ نہ تیل گرا بابا
ہے شہروں میں غل شور بہت اور کام کرودھ کا زور بہت
بستے ہیں نگر میں چور بہت، سادھوں کی ہے بن میں جا بابا
ہے شہر میں شورشِ نفسانی، جنگل میں ہے جلوہ روحانی
ہے نگری ڈگری کثرت کی، بن وحدت کا دریا بابا
ہم جنگل کے پھل کھاتے ہیں، چشموں سے پیاس بجھاتے ہیں
راجہ کے نہ دوارے جاتے ہیں، پرجا کی نہیں پروا بابا
سر پر آکاش کا منڈل ہے، دھرتی پہ سہانی مخمل ہے
دن کو سورج کی محفل ہے، شب کو تاروں کی سبھا بابا
جب جھوم کے یاں گھن آتے ہیں، مستی کا رنگ جماتے ہیں
چشمے طنبور بجاتے ہیں، گاتی ہے ملار ہوا بابا
جب پنچھی مل کر گاتے ہیں، پیتم کی سندیس سناتے ہیں
سب بن کے برچھ جھک جاتے ہیں، تھم جاتے ہیں دریا بابا
ہے حرص و ہوا کا دھیان تمھیں اور یاد نہیں بھگوان تمھیں
سِل، پتھر، اینٹ، مکان تمھیں دیتے ہیں یہ راہ بھلا بابا
پرماتما کی وہ چاہ نہیں اور روح کو دل میں راہ نہیں
ہر بات میں اپنے مطلب کے تم گھڑ لیتے ہو خدا بابا
تن من کو دھن میں لگاتے ہو، ہرنام کو دل سے بھلاتے ہو
ماٹی میں لعل گنواتے ہو، تم بندۂ حرص و ہوا بابا
دھن دولت آنی جانی ہے، یہ دنیا رام کہانی ہے
یہ عالَم، عالَمِ فانی ہے، باقی ہے ذاتِ خدا بابا

ترانۂ وحدت
جب سے مستانے جوگی کا مشہورِ جہاں افسانہ ہوا
اُس روز سے بندۂ ناظر بھی پھر بزم میں نغمہ سرا نہ ہوا
کبھی منصب و جاہ کی چاٹ رہی، کبھی پیٹ کی پوجا پاٹ رہی
لیکن یہ دل کا کنول نہ کِھلا اور غنچۂ خاطر وا نہ ہوا
کہیں لاگ رہی، کہیں پیت رہی، کبھی ہار رہی، کبھی جیت رہی
اِس کلجگ کی یہی ریت رہی، کوئی بند سے غم کے رہا نہ ہوا
یوں تیس برس جب تیر ہوئے، ہم کارِ جہاں سے سیر ہوئے
تھا عہدِ شباب سرابِ نظر، وہ چشمۂ آبِ بقا نہ ہوا
پھر شہر سے جی اکتانے لگا، پھر شوق مہار اٹھانے لگا
پھر جوگی جی کے درشن کو ناظر اک روز روانہ ہوا

کچھ روز میں ناظر جا پہنچا پھر ہوش رُبا نظّاروں میں
پنجاب کے گرد غباروں سے کشمیر کے باغ بہاروں میں
پھر بن باسی بیراگی کا ہر سمت سراغ لگانے لگا
بنہال کے بھیانک غاروں میں، پنجال کی کالی دھاروں میں
اپنا تو زمانہ بیت گیا، سرکاروں میں درباروں میں
پر جوگی میرا شیر رہا پربت کی سونی غاروں میں
وہ دن کو ٹہلتا پھرتا تھا ان قدرت کے گلزاروں میں
اور رات کو محوِ تماشہ تھا انبر کے چمکتے تاروں میں
برفاب کا تھا اک تال یہاں یا چاندی کا تھا تھال یہاں
الماس جڑا تھا زمُرّد میں، یہ تال نہ تھا کہساروں میں
تالاب کے ایک کنارے پر یہ بن کا راجہ بیٹھا تھا
تھی فوج کھڑی دیوداروں کی، ہر سمت بلند حصاروں میں
یاں سبزہ و گل کا نظارہ تھا اور منظر پیارا پیارا تھا
پھولوں کا تخت اتارا تھا، پریوں نے ان کہساروں میں
یاں بادِ سحر جب آتی تھی، بھیروں کا ٹھاٹھ جماتی تھی
تالاب رباب بجاتا تھا، لہروں کے تڑپتے تاروں میں
کیا مستِ الست نوائیں تھیں ان قدرت کے مِزماروں میں
ملہار کا روپ تھا چشموں میں، سارنگ کا رنگ فواروں میں
جب جوگی جوشِ وحدت میں ہرنام کی ضرب لگاتا تھا
اک گونج سی چکّر کھاتی تھی، کہساروں کی دیواروں میں

اس عشق و ہوا کی مستی سے جب جوگی کچھ ہشیار ہوا
اس خاک نشیں کی خدمت میں یوں ناظر عرض گزار ہوا

کل رشکِ چمن تھی خاکِ وطن، ہے آج وہ دشتِ بلا جوگی
وہ رشتۂ اُلفت ٹوٹ گیا، کوئی تسمہ لگا نہ رہا جوگی
برباد بہت سے گھرانے ہوئے، آباد ہیں بندی خانے ہوئے
شہروں میں ہے شور بپا جوگی، گاؤں میں ہے آہ و بکا جوگی
وہ جوشِ جنوں کے زور ہوئے، انسان بھی ڈنگر ڈھور ہوئے
بچوں کا ہے قتل روا جوگی، بوڑھوں کا ہے خون ہَبا جوگی
یہ مسجد میں اور مندر میں، ہر روز تنازع کیسا ہے؟
پرمیشر ہے جو ہندو کا، مسلم کا وہی ہے خدا جوگی
کاشی کا وہ چاہنے والا ہے، یہ مکّے کا متوالا ہے
چھاتی سے تو بھارت ماتا کی دونوں نے ہے دودھ پیا جوگی
ہے دیس میں ایسی پھوٹ پڑی، اک قہر کی بجلی ٹوٹ پڑی
روٹھے متروں کو منا جوگی، بچھڑے بِیروں کو ملا جوگی
کوئی گرتا ہے، کوئی چلتا ہے، گرتوں کو کوئی کچلتا ہے
سب کو اک چال چلا جوگی، اور ایک ڈگر پر لا جوگی
وہ میکدہ ہی باقی نہ رہا، وہ خم نہ رہا، ساقی نہ رہا
پھر عشق کا جام پلا جوگی، یہ لاگ کی آگ بجھا جوگی
پربت کے نہ سوکھے روکھوں کو یہ پریم کے گیت سنا جوگی
یہ مست ترانہ وحدت کا چل دیس کی دھن میں گا جوگی
بھگتوں کے قدم جب آتے ہیں، کلجُگ کے کلیش مٹاتے ہیں
تھم جاتا ہے سیلِ بلا جوگی، رک جاتا ہے تیرِ قضا جوگی

ناظر نے جو یہ افسانۂ غم رُودادِ وطن کا یاد کیا
جوگی نے ٹھنڈی سانس بھری اور ناظر سے ارشاد کیا

بابا ہم جوگی بن باسی، جنگل کے رہنے والے ہیں
اس بن میں ڈیرے ڈالے ہیں، جب تک یہ بن ہریالے ہیں
اس کام کرودھ کے دھارے سے ہم ناؤ بچا کر چلتے ہیں
جاتے یاں منہ میں مگر مچھ کے، دریا کے نہانے والے ہیں
ہے دیس میں شور پکار بہت اور جھوٹ کا ہے پرچار بہت
واں راہ دکھانے والے بھی بے راہ چلانے والے ہیں
کچھ لالچ لوبھ کے بندے ہیں، کچھ مکر فریب کے پھندے ہیں
مورکھ کو پھنسانے والے ہیں، یہ سب مکڑی کے جالے ہیں
جو دیس میں آگ لگاتے ہیں، پھر اُس پر تیل گراتے ہیں
یہ سب دوزخ کا ایندھن ہیں اور نرگ کے سب یہ نوالے ہیں
بھارت کے پیارے پُوتوں کا جو خون بہانے والے ہیں
کل چھاؤں میں جس کی بیٹھیں گے، وہی پیڑ گرانے والے ہیں
جو خون خرابا کرتے ہیں، آپس میں کٹ کٹ مرتے ہیں
یہ بیر بہادر بھارت کو، غیروں سے چھڑانے والے ہیں؟
جو دھرم کی جڑ کو کھودیں گے، بھارت کی ناؤ ڈبو دیں گے
یہ دیس کو ڈسنے والے ہیں، جو سانپ بغل میں پالے ہیں
جو جیو کی رکھشا کرتے ہیں اور خوفِ خدا سے ڈرتے ہیں
بھگوان کو بھانے والے ہیں، ایشور کو رجھانے والے ہیں
دنیا کا ہے سُرجن ہار وہی، معبود وہی، مختار وہی
یہ کعبہ، کلیسا، بت خانہ، سب ڈول اسی نے ڈالے ہیں
وہ سب کا پالن ہارا ہے، یہ کنبہ اسی کا سارا ہے
یہ پیلے ہیں یا کالے ہیں، سب پیار سے اس نے پالے ہیں
کوئی ہندی ہو کہ حجازی ہو، کوئی ترکی ہو یا تازی ہو
جب نیر پیا اک ماتا کا، سب ایک گھرانے والے ہیں
سب ایک ہی گت پر ناچیں گے، سب ایک ہی راگ الاپں گے
کل شام کھنّیا پھر بن میں مرلی کو بجانے والے ہیں
آکاش کے نیلے گنبد سے یہ گونج سنائی دیتی ہے
اپنوں کے مٹانے والوں کو کل غیر مٹانے والے ہیں
یہ پریم سندیسہ جوگی کا پہنچا دو ان مہاپرشوں کو
سودے میں جو بھارت ماتا کے تن من کے لگانے والے ہیں
پرماتما کے وہ پیارے ہیں اور دیس کے چاند ستارے ہیں
اندھیر نگر میں وحدت کی جو جوت جگانے والے ہیں
ناظر یہیں تم بھی آ بیٹھو اور بن میں دھونی رما بیٹھو
شہروں میں گُرو پھر چیلوں کو کوئی ناچ نچانے والے ہیں

مزید پڑھیے۔۔۔۔