Showing posts with label جگر مرادآبادی. Show all posts
Showing posts with label جگر مرادآبادی. Show all posts

Dec 29, 2012

جو دلوں کو فتح کر لے، وہی فاتحِ زمانہ - جگر مرادآبادی

یہ فلک یہ ماہ و انجم، یہ زمین یہ زمانہ
ترے حُسن کی حکایت، مرے عشق کا فسانہ

یہ ہے عشق کی کرامت، یہ کمالِ شاعرانہ
ابھی مُنہ سے بات نکلی، ابھی ہو گئی فسانہ

یہ علیل سی فضائیں، یہ مریض سا زمانہ
تری پاک تر جوانی، ترا حُسنِ معجزانہ

یہ مرا پیام کہنا تُو صبا مؤدّبانہ
کہ گزر گیا ہے پیارے، تجھے دیکھے اِک زمانہ

مجھے چاکِ جیب و دامن سے نہیں مناسبت کچھ
یہ جُنوں ہی کو مبارک، رہ و رسمِ عامیانہ

تجھے حادثاتِ پیہم سے بھی کیا ملے گا ناداں؟
ترا دل اگر ہو زندہ، تو نفَس بھی تازیانہ

تری اِک نمود سے ہے، ترے اِک حجاب تک ہے
مری فکرِ عرش پیما، مرا نازِ شاعرانہ

وہ ادائے دلبری ہو کہ نوائے عاشقانہ
جو دلوں کو فتح کر لے، وہی فاتحِ زمانہ
Jigar Muradabadi, جگر مُرادآبادی، Urdu Poetry, Urdu Shairi, Urdu Ghazal, Ilm-e-Arooz, Ilm-e-Urooz, Taqtee, Behr, اردو شاعری، اردو غزل، علم عروض، تقطیع، بحر
Jigar Muradabadi, جگر مُرادآبادی

یہ ترا جمالِ کامل، یہ شباب کا زمانہ
دلِ دشمناں سلامت، دلِ دوستاں نشانہ

کبھی حُسن کی طبیعت نہ بدل سکا زمانہ
وہی نازِ بے نیازی، وہی شانِ خسروانہ

مجھے عشق کی صداقت پہ بھی شک سا ہو چلا ہے
مرے دل سے کہہ گئی کیا، وہ نگاہِ ناقدانہ

تجھے اے جگر ہوا کیا کہ بہت دنوں سے پیارے
نہ بیانِ عشق و مستی، نہ حدیثِ دلبرانہ
-----

قافیہ - آنہ یعنی ا ن ہ اور اس سے پہلے زبر کی آواز جیسے زمانہ میں مانہ، فسانہ میں سانہ، معجزانہ میں زانہ، عامیانہ میں یانہ وغیرہ۔

ردیف - اس غزل کی کوئی ردیف نہیں یعنی یہ غزل غیر مردف ہے۔

بحر - بحر رمل مثمن مشکول

 افاعیل: فَعِلاتُ فاعلاتُن / فَعِلاتُ فاعلاتُن
یہ ایک مقطع بحر ہے یعنی ہر مصرع دو مساوی ٹکڑوں میں تقسیم ہوتا ہے اور ہر ٹکڑا بھی ایک مصرعے کے حکم میں آ سکتا ہے یعنی اس میں عملِ تسبیغ کیا جا سکتا ہے یعنی ہر فاعلاتن کو فاعلاتان بنایا جا سکتا ہے۔

علامتی نظام -  1211 2212 / 1211 2212
ہندسوں کو اردو طرز پر پڑھیے یعنی دائیں سے بائیں یعنی 1211 کا ٹکڑا پہلا ہے اور اس میں بھی 11 پہلے ہے۔ ہر 2212 کو 12212 بنایا جا سکتا ہے۔

تقطیع -

یہ فلک یہ ماہ و انجم، یہ زمین یہ زمانہ
ترے حُسن کی حکایت، مرے عشق کا فسانہ

ی فلک ی - فعلات - 1211
ماہ انجم - فاعلاتن - 2212
ی زمین - فعلات - 1211
یہ زمانہ - فاعلاتن - 2212

ترِ حُسن - فعلات - 1211
کی حکایت - فاعلاتن - 2212
مرِ عشق - فعلات - 1211
کا فسانہ - فاعلاتن - 2212
----

مزید پڑھیے۔۔۔۔

Mar 13, 2010

جگر مرادآبادی کی ایک فارسی غزل مع ترجمہ - کعبہ در پائے یار دیدم دوش

جگر مُرادآبادی کا شمار غزل کے آئمہ میں سے ہوتا ہے، فقر و فاقہ و مستی میں زندگی بسر کی اور یہی کچھ شاعری میں بھی ہے۔ کسی زمانے میں ان کا ہندوستان میں طوطی بولتا تھا اور ہر طرف جگر کی غزل کی دھوم تھی۔ انکے کلیات میں انکا کچھ فارسی کلام بھی موجود ہے۔ انکے مجموعے "شعلۂ طور" سے ایک فارسی غزل کے کچھ اشعار ترجمے کے ساتھ "تبرک" کے طور پر لکھ رہا ہوں۔

کعبہ در پائے یار دیدم دوش
ایں چہ گفتی جگر، خموش خموش
میں نے کل رات کعبہ یار کے پاؤں میں دیکھا، اے جگر یہ تو نے کیا کہہ دیا (راز کی بات برسرِ عام کہہ دی)، خاموش ہوجا، خاموش۔


حسن پنہاں و جلوہ ہاست بجوش
اصل خاموش و فرع ہا بخروش
حُسنِ ازلی تو نظر سے پنہاں ہے مگر (کائنات میں) اسکے جلوے جوش مار رہے ہیں، اصل تو خاموش ہے لیکن اسکی شاخوں (فروع) نے شور مچایا ہوا ہے۔

اے اسیرِ تعیّناتِ جہاں
تو چہ دانی کہ چیست مستی و ہوش
اے کائنات کی تعیّنات (مقرر اور مسلط کی ہوئی چیزوں) کے اسیر، تُو کیا جانے کہ مستی کیا ہے اور ہوش کیا ہے۔
Jigar Muradabadi, جگر مُرادآبادی, Persian poetry, Persian Poetry with Urdu translation, Farsi poetry, Farsi poetry with urdu translation,
Jigar Muradabadi, جگر مُرادآبادی
بادہ پیش آر تا کنم آغاز
داستاں ہائے عشقِ آفت کوش
جام سامنے لا کہ میں آغاز کروں اس عشق کی داستانوں کا جو کہ ہمیشہ آفتوں کی تلاش میں رہتا ہے۔

بے خبر رو کہ ہوش در مستیست
ہوشیار آ کہ بے خودیست بہ ہوش
بے خبر چلا چل کہ ہوش تو مستی ہی میں ہے، ہوشیار بن کر آ جا کہ ہوشیاری میں بھی بے خودی سی ہے۔
گفتہ بودم فسانہ از مستی
تو شنیدی چرا ز عالمِ ہوش
میں تو اپنا افسانۂ ذوق و شوق مستی میں کہہ رہا ہوں، تو کیوں اسے عالمِ ہوش میں سن رہا ہے، اس کو سمجھنے کیلیے ضروری ہے کہ سننے والا بھی عالمِ مستی میں ہو۔

قاضیا یک نظر بسوئے جگر
آں کہ یک خادم است و حلقہ بگوش
جنابِ قاضی، ایک نظر جگر کی طرف بھی کہ وہ آپ کا ایک خادم اور حلقہ بگوش ہے۔ قاضی سے مراد جگر کے مرشد  قاضی سید عبدالغنی شاہ صاحب ہیں جیسا کہ جگر نے اپنی کتاب میں خود لکھا ہے۔
مزید پڑھیے۔۔۔۔