Showing posts with label علم عروض. Show all posts
Showing posts with label علم عروض. Show all posts

Feb 21, 2011

رباعی کے حوالے سے کچھ استفسارات اور میرے جوابات

رباعی کے اوزان کے حوالے سے اس خاکسار نے ایک مضمون لکھا تھا "رباعی کے اوزان پر ایک بحث"، اسی مضمون کے حوالے سے فیس بُک پر ایک دوست نے کچھ استفسارات کیے تھے، وہ اور ان کا جواب لکھ رہا ہوں۔

استفسار: یہ جو ہم بچپن سے سنتے آئے ہیں کہ "لا حول ولا قوۃ الا باللہ " رباعی کا وزن ہے ۔۔ تو کیا یہ چوبیس اوزان میں سے ایک ہے ؟ اور وہ وزن کیا ہے ؟

جواب: دراصل قرآن مجید کی چند ایک آیات  اور کچھ احادیث ایسی ہیں جو اتفاقاً کسی نہ کسی وزن پر موزوں ہو جاتی ہیں۔  انہی میں سے حدیث کا یہ کلمہ بھی ہے کہ رباعی کے ایک وزن پر آ جاتا ہے۔

اسکی تقطیع کچھ یوں ہے

لا حول و لا قوّۃ الا باللہ

لا حولَ - مفعول
و لا قو وَ - مفاعیل
تَ اِل لا بل - مفاعیلن
لا ہ - فاع

یعنی اسکا وزن 'مفعول مفاعیل مفاعیلن فاع' ہے۔

بعض لوگ ضرورت شعری کے تحت اللہ کی ہ گرا دیتے ہیں اس صورت میں آخری رکن فاع کی جگہ فع آ جائے گا اور یوں بھی رباعی کا وزن ہی رہے گا لیکن یہاں ایسی کوئی ضرورت نہیں ہے سو بہتر ہے کہ اللہ کا مکمل وزن لیا جائے۔

یہ رباعی کا ایک انتہائی مستعمل وزن ہے، اور اساتذہ عموماً رباعی کے سلسلے میں سب سے پہلے یہی وزن یاد کروایا کرتے تھے۔

مولانا الطاف حسین حالی کی ایک رباعی جس میں انہوں نے یہ وزن باندھا ہے

کیا پاس تھا قولِ حق کا، اللہ اللہ
تنہا تھے، پہ اعدا سے یہ فرماتے تھے شاہ
میں اور اطاعتِ یزیدِ گمراہ
لا حَولَ و لا قُوّۃَ الّا باللہ

استفسار: غالب کی مشہور رباعی جس پر ماہرین عروض نے اعتراض کیا ہے

دل رک رک کر بند ہوگیا ہے غالب

اور کہا جاتا ہے کہ اس میں ایک " رک " کا لفظ زیادہ ہے ۔۔ اس بارے میں وارث صاحب کی رائے کیا ہے

جواب: غالب کی مذکورہ رباعی کی بھی دلچسپ صورتحال ہے۔

دُکھ جی کے پسند ہو گیا ہے غالب
دل رک رک کر بند ہو گیا ہے غالب
واللہ کہ شب کو نیند آتی ہی نہیں
سونا سوگند ہو گیا ہے غالب

کہا جاتا ہے کہ رباعی کے اوزان پر گرفت بہت مشکل ہے اور بڑے بڑے شاعر بھی اسکے اوزان کے بارے میں خطا کر جاتے ہیں جیسے کہ غالب سا شاعر بھی کہ اوپر والی رباعی میں دوسرا مصرع رباعی کے وزن سے خارج ہے۔

غالب کے مذکورہ مصرعے پر سب سے پہلے یہ اعتراض علامہ نظم طباطبائی نے اپنی شرح دیوانِ غالب میں کیا تھا اور اسکے بعد سے 'سخن فہموں' اور 'غالب کے طرف داروں' میں اس پر خوب خوب بحث ہوئی ہے۔

میرے لیے حیرت اور مزے کی بات یہ ہے کہ مولانا غلام رسول مہر نے اپنے مرتب کردہ دیوانِ غالب اور اپنی شہرہ آفاق شرح 'نوائے سروش' دونوں میں یہ رباعی لکھتے ہوئے ایک 'رُک' دوسرے مصرعے سے نکال دیا ہے گویا اپنی طرف سے تصحیح کر دی ہے اور اسکی متنازعہ حیثیت پر بالکل بھی بحث نہیں کی ہے حالانکہ مستند یہی ہے کہ غالب نے ' رک رک کر' ہی کہا ہے۔

یہ بات بھی بالکل ٹھیک ہے کہ اگر مذکورہ مصرعے میں سے ایک 'رک' نکال دیا جائے تو مصرعہ وزن میں آ جاتا ہے۔ لیکن اس پر دو اعتراض ہیں ایک تو یہ کہ اگر مصرعہ اس طرح کر دیا جائے

دل رُک کر بند ہو گیا ہے غالب

تو وزن میں ضرور آئے گا لیکن اس مصرعے کی ساری دلکشی ختم ہو جائے گی بلکہ 'فضول سا' مصرعہ ہو جائے گا۔ دوسرا یہ کہ غالب سے قادر الکلام شاعر کو کیا علم نہیں تھا کہ مصرع بے وزن ہو رہا ہے اور رباعی کے اوزان میں نہیں آ رہا؟

مولانا نجم الدین غنی رامپوری نے علمِ عروض پر اپنی شہرہ آفاق کتاب 'بحر الفصاحت' میں بھی یہ اعتراض غالب کے مصرعے پر کیا ہے اور اسکا جواب اس کتاب کے مرتب سید قدرت نقوی نے دیا ہے۔ انہوں نے اس پر ایک علیحدہ سے مضمون بھی لکھا ہے جو کہ افسوس میری نظر سے نہیں گزرا۔

قدرت نقوی صاحب کے بقول لفظ 'بند' گو فارسی کا لفظ ہے اور وتد ہے یعنی اسکا وزن 'فاع' ہے لیکن ان کا کہنا ہے کہ غالب نے اس لفظ کا ہندی استعمال کیا ہے اور 'بند' کی نون کو نون فارسی کی بجائے مخلوط نون سمجھا ہے، اور جیسا کہ اہلِ علم جانتے ہیں کہ نون مخلوط کا کوئی وزن نہیں ہوتا جیسا کہ لفظ 'آنکھ' میں اس نون کا کوئی وزن نہیں ہے سو نقوی صاحب کے بقول غالب نے اس کو سبب باندھا ہے یعنی 'بند' کا وزن 'بد' یا 'فع' لیا ہے۔

اگر نقوی صاحب کے مفروضے کو مان لیا جائے تو پھر غالب کا مصرع وزن میں آ جاتا ہے یعنی

دل رک رک کر بند ہو گیا ہے غالب

دل رک رک - مفعولن
کر بد ہُ - مفعول
گیا ہے غا - مفاعیلن
لب - فع

یعنی اسطرح یہ مصرع 'مفعولن مفعول مفاعیلن فع' کے وزن پر آ کر موزوں ہو جاتا ہے۔

اس خاکسار کی بھی رائے میں یہ غالب کی عروضی غلطی نہیں ہے، یہ ماننا بہت مشکل ہے کہ غالب کو رباعی کے اوزان کا علم نہ ہو، بلکہ یہ غالب کی اجتہادی غلطی ہے کہ انہوں نے مصرعے کی دلکشی برقرار رکھنے کیلیے 'بند' کا غلط وزن لے لیا ہے، کیونکہ بہرحال بند میں نون مخلوط نہیں ہے بلکہ یہ لفظ فارسی کا ہے اور اس میں نون فارسی ہے جیسے 'رنگ' جنگ وغیرہ میں۔

استفسار: اقبال کی دو بیتیاں جنہیں عرف عام میں رباعی بھی کہا جاتا ہے اور غالبا" اقبال نے انہیں خود بھی رباعی کہا ہے ۔ اور وہ رباعی کے اوزان میں نہیں آتے ۔کیا ان سے قطعات کو رباعی کہنے کا جواز نکلتا ہے؟ مثلاً "تراشیدم، پرستیدم، شکستم" والا قطعہ۔

جواب: یہ بات تو طے ہے کہ رباعی اور قطعے میں بنیادی فرق وزن کا ہی ہے، باقی فرق ضمنی سے ہیں۔ جو دو شعر رباعی کے مذکورہ چوبیس اوزان میں ہیں وہ رباعی ہے وگرنہ قطعہ۔

اگر اس فرق کو روا نہ رکھیں تو پھر رباعی بہ حیثیت صنف کے ختم ہی جائے گی لہذا اس خاکسار کی ذاتی رائے میں اقبال نے اپنی دو بیتوں یا قطعات کو جو اپنی کتابوں میں رباعی لکھا ہے تو اس سے قطعے کو رباعی کہنے کا جواز نہیں نکلتا۔

لیکن اس بات سے ایک بڑا اہم سوال یہ اٹھ کھڑا ہوتا ہے کہ پھر اقبال نے ان دو بیتوں یا قطعات کو رباعی کیوں کہا اور ان کی زندگی میں ہی جو اردو اور فارسی کتب طبع ہوئیں ان کو رباعی ہی لکھا ہے گویا یہ انکی اجازت سے لکھا گیا ہے حالانکہ وہ رباعی کے اوزان میں نہیں ہے۔ تو پھر کیا وجہ تھی؟ یہ تو ممکن نہیں ہے کہ وہ رباعی کے اوزان کو نہ جانتے ہوں۔

خاکسار کے محدود علم میں ایسی کوئی کتاب یا مضمون نہیں گزرا جس میں اقبال سے اس بابت میں استفسار کیا گیا ہو کہ انہوں نے ایسا کیوں کیا؟ اگر علامہ کا جواب مل جاتا تو بات صاف ہو جاتی ہے لیکن اس کی غیر موجودگی ظاہر ہے ہم صرف قیاس ہی کر سکتے ہیں کہ علامہ نے ایسا کیوں کیا۔

میرے نزدیک، رباعی کا چونکہ لغوی مطلب چار مصرعے والی ہے تو ہو سکتا ہے کہ اقبال نے اس وجہ سے ان قطعات کو رباعی لکھ دیا ہو۔

ایک وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ فارسی کے ایک قدیم اور مشہور شاعر ہیں بابا طاہر عریاں، انہوں نے صرف رباعیات ہی کہی ہیں اور انکے کلام کو 'دو بیتی' بھی کہا جاتا ہے اور رباعی بھی حالانکہ وہ رباعی کے مروجہ اوزان میں نہیں ہیں۔ ہو سکتا ہے کہ اقبال نے انکے تتبع میں ایسا کیا ہو۔ واللہ اعلم بالصواب

لیکن ایک بات تو طے ہے کہ فارسی کے قدیم شعرا سے لیکر ہمارے عہد کے شعرا تک، جتنے بھی مشہور رباعی گو شعرا ہیں انہوں نے جب بھی رباعی کہی رباعی کے اوزان میں ہی کہی سو رباعی اور قطعہ میں فرق ضروری ہے۔

--------

مزید پڑھیے۔۔۔۔

Feb 3, 2011

رباعی کے اوزان پر ایک بحث

رباعی بھی خاصے کی چیز ہے، قدما اس کے چوبیس وزن بنا گئے سو عام شعرا کو اس سے متنفر کرنے کیلیے یہی کافی ہے کہ رباعی کے چوبیس وزن ہیں، حالانکہ اگر تھوڑا سا تدبر و تفکر کیا جائے اور ان اوزان کو ایک خاص منطقی ترتیب اور انداز سے سمجھا جائے تو ان اوزان کو یاد رکھنا اور ان پر عبور حاصل کرنا کچھ مشکل نہیں ہے، اور یہ مضمون بنیادی طور پر اسی موضوع پر ہے جس میں رباعی کے اوزان کو ایک خاص ترتیب سے سمجھنے کی کوشش کی گئی ہے۔

ایک عرض یہ کرتا چلوں کہ ضروری نہیں کہ ایک رباعی میں مخلتف اوزان ہی اکھٹے کیے جائیں، اگر ایک ہی وزن میں چاروں مصرعے ہوں تو پھر بھی رباعی ہے اور اگر ایک ہی وزن میں بیسیوں رباعیاں ہوں تو پھر بھی رباعیاں ہی ہیں لیکن اس میں مختلف اوزان کو اکھٹا کرنے کا فائدہ یہ ہے کہ شاعر اپنے مافی الضمیر کو بہتر سے بہتر انداز میں اور مختلف الفاظ کے چناؤ کے ساتھ بیان کر سکتا ہے اور پھر بنیادی طور ان اوزان میں فرق بھی بہت تھوڑا ہے، جس سے آہنگ پر فرق نہیں پڑتا، مثال کے طور پر، چوبیس میں سے بارہ اوزان تو صرف فع کو فاع اور فعِل کو فعول سے بدلنے سے حاصل ہو جاتے ہیں، تفصیل انشاءاللہ نیچے آئے گی۔

رباعی کی بحر، افاعیل اور انکی ترتیب

رباعی کی بحر، بحرِ ہزج ہے جسکا بنیادی رکن 'مفاعیلن' ہے اور اسی مفاعیلن کے مختلف وزن ہی، جو مختلف زحافات کے استعمال سے حاصل ہوتے ہیں، اس میں استعمال ہوتے ہیں۔

رباعی میں دس افاعیل آتے ہیں، جو کہ مفاعیلن ہی سے حاصل ہوتے ہیں، زحافات کے نام اور ان کے استعمال کا طریقہ لکھ کر اس مضمون کو بالکل ہی ناقابلِ برداشت نہیں بنانا چاہتا، صرف افاعیل لکھ رہا ہوں۔

1- مفاعیلن
2- مفاعیل
3- مفعولن
4- مفاعلن
5- مفعول
6- فاعلن
7- فعول
8- فَعِل
9- فاع
10- فع

اس میں نوٹ کرنے کی خاص بات یہ ہے کہ 'فعولن' اس فہرست میں نہیں ہے، یعنی فعولن جو کہ مفاعیلن سے حاصل ہونے والا ایک انتہائی مستعمل رکن ہے وہ رباعی میں نہیں آتا، اگر آئے گا تو رباعی کا وزن خراب ہو جائے گا۔

کسی بھی مثمن بحر کی طرح، رباعی کی بحر کے بھی چار رکن ہیں یعنی

صدر (یا ابتدا)، حشو، حشو، عرض (یا ضرب)

اور نوٹ کرنے کی بات یہ ہے کہ اوپر والے دس افاعیل میں سے جو بھی چار بحر میں استعمال ہونگے انکی اس بحر کی ترتیب میں اپنی اپنی جگہ مخصوص ہے، جیسے

- صدر یعنی پہلے رکن میں ہمیشہ مفعول آئے گا یا مفعولن، کوئی اور رکن نہیں آ سکتا۔

- ضرب یعنی چوتھے رکن میں ہمیشہ فع، فاع، فعِل اور فعول میں سے کوئی ایک آئے گا، اور کوئی رکن نہیں آ سکتا۔

- مفاعلن اور فاعلن ہمیشہ پہلے حشو یعنی دوسرے رکن میں ہی آئیں گے، اور کسی بھی جگہ نہیں آ سکتے۔

- مفاعیلن اور مفاعیل دونوں حشو میں یعنی دوسرے اور تیسرے رکن میں آسکتے ہیں، کسی اور جگہ نہیں آتے۔

- مفاعیلن اور مفاعیل کے علاوہ، مفعولن، مفعول بھی دونوں حشو میں آ سکتے ہیں۔

اسکے علاوہ، رباعی کے مختلف افاعیل کی ترتیب یاد رکھنے میں قدما کا جو کلیہ سب سے اہم ہے وہ کچھ یوں ہے جو کہ مرزا یاس یگانہ نے اپنی کتاب "چراغِ سخن" میں لکھا ہے۔

سبب پئے سبب و وتد پئے وتد

یوں سمجھیے کہ یہی رباعی کے اوزان کی کلید ہے یعنی ایک سبب کے بعد ہمیشہ سبب آئے گا اور ایک وتد کے بعد ہمیشہ وتد آئے گا، مثال کے طور پر، ایک شاعر ایک رباعی شروع کرتا ہے اور جیسا کہ ہم جانتے ہیں کہ رباعی یا تو مفعول سے شروع ہوگی یا مفععولن سے۔

فرض کریں، رباعی مفعول سے شروع ہوتی ہے، یعنی پہلا رکن مفعول ہو گیا، اب دوسرے رکن میں جو تمام افاعیل آ سکتے ہیں وہ یہ ہیں

مفاعیلن
مفاعیل
مفاعلن
مفعولن
مفعول
فاعلن

اب اس بنیادی کلیے کو ذہن میں رکھیے کہ سبب کے بعد سبب اور وتد کے بعد وتد، پہلا رکن مفعول ہے جو کہ وتد پر ختم ہو رہا ہے سو اگلا رکن لازمی وتد سے شروع ہوگا، اوپر والی فہرست میں جو افاعیل وتد سے شروع ہو رہے ہیں وہ یہ ہیں

مفاعیلن
مفاعیل
مفاعلن

یعنی مفعول کے بعد اب صرف ان تین میں سے کوئی رکن آئے گا، فرض کریں مفاعیل آیا اور ہمارے پاس دو رکن ہو گئے یعنی

مفعول مفاعیل

اب مفاعیل بھی وتد پر ختم ہو رہا ہے سو اگلا رکن بھی لازمی وتد سے شروع ہوگا، یہ پھر تین ہیں، مفاعیلن، مفاعیل، مفاعلن لیکن ہم جانتے ہیں کہ مفاعلن تیسرے رکن میں نہیں آ سکتا سو مفاعیلن اور مفاعیل میں سے کوئی آئے گا، فرض کریں مفاعیلن لیا تو اب تین رکن ہو گئے

مفعول مفاعیل مفاعیلن

اب رہ گیا چوتھا رکن، جس میں فع، فاع، فعِل اور فعول ہی آ سکتے ہیں، کلیہ ذہن میں رکھیے، مفاعیلن سبب پر ختم ہو رہا ہے سو اگلا رکن سبب سے شروع ہوگا، وہ فع ہے سو رباعی کا وزن مل گیا

مفعول مفاعیل مفاعیلن فع

اب کسی بھی بحر کی طرح، آخری رکن میں عملِ تسبیغ کی یہاں بھی اجازت ہے سو فع کو فاع کریں اور دوسرا وزن بھی مل گیا

مفعول مفاعیل مفاعیلن فاع

اوپر والے کلیات کو استعمال کرتے ہوئے ہم نے رباعی کے دو وزن حاصل کر لیے، اب انہی کی مدد سے ہم رباعی کے سارے وزن یعنی چوبیس حاصل کریں گے۔

اساتذہ نے رباعی کو دو شجروں میں تقسیم کیا ہے، جو رباعی مفعول سے شروع ہوتی ہے، اسکے بارہ اوزان کو شجرۂ اخرب کہتے ہیں اور جو رباعی مفعولن سے شروع ہوتی ہے اسکے بارہ اوزان کو شجرۂ اخرم کہتے ہیں، اور یہ دونوں نام بھی زحافات کے نام پر ہیں۔ یہاں ایک وضاحت یہ کہ بعض قدیم اساتذہ نے اخرب اور اخرم اوزان کو ایک ہی رباعی میں باندھنے سے منع کیا ہے، لیکن اس بات کو کوئی بھی رباعی گو شاعر نہیں مانتا اور بلاتکلف اخرب اور اخرم کے اوزان ایک ہی رباعی میں جمع کرتے ہیں۔

شجرۂ اخرب اور اسکے بارہ اوزان

ان اوزان کو شجرہ کہا جاتا ہے لیکن اس خاکسار کے محدود مطالعے میں عروض کی کوئی ایسی کتاب نہیں ہے جس میں اس کو ایک شجرہ کی طرح واضح کیا گیا ہو، خاکسار یہ کوشش کر رہا ہے، ممکن ہے کسی کتاب میں اسے اس صورت میں لکھا گیا ہو، شجرے کی تصویر دیکھیے، تصویر کو بڑا دیکھنے کیلیے اس پر کلک کیجیے۔

urdu poetry, urdu ghazal, ilm-e-arooz, taqtee, رباعی اوزان شجرہ اخرب, Rubai

اب اس شجرہ کو اوپر والے اصولوں کی روشنی میں کھول کر بیان کرتا ہوں۔

جیسا کہ ہم جانتے ہیں کہ اس شجرہ میں پہلے رکن میں ہمیشہ مفعول آتا ہے جو وتد پہ ختم ہوتا ہے سو اگلا رکن مفاعیلن، مفاعیل اور مفاعلن ہونگے جو کہ وتد سے شروع ہوتے ہیں، سب سے پہلے مفاعیلن کو لیتے ہیں سو

مفعول مفاعیلن

یہ سبب پر ختم ہوا سو اگلا رکن لازمی سبب سے شروع ہوگا جو کہ تین ہیں یعنی مفعولن، مفعول اور فاعلن لیکن ہم جانتے ہیں کہ تیسرے رکن میں فاعلن نہیں آ سکتا سو صرف دو رہ گئے، مفعولن اور مفعول اور ان دو افاعیل سے یہ اوزان حاصل ہوئے

مفعول مفاعیلن مفعولن
مفعول مفاعیلن مفعول

اب مفعولن سبب پر ختم ہوا سو اگلا رکن فع ہوگا جو کہ سبب ہے سو پہلا مکمل وزن مل گیا

مفعول مفاعیلن مفعولن فع (وزن نمبر 1)

فع کو فاع سے بدلیں دوسرا وزن حاصل ہو گیا

مفعول مفاعیلن مفعولن فاع (وزن نمبر 2)

اب تیسرے رکن میں مفعول کو لیں تو یہ وتد پر ختم ہوا سو چوتھا رکن وتد سے شروع ہوگا جو فعِل ہے سو

مفعول مفاعیلن مفعول فعِل (وزن نمبر 3)

فعِل کو فعول سے بدل لیں، ایک اور وزن مل گیا

مفعول مفاعیلن مفعول فعول (وزن نمبر 4)

اب پھر دوسرے رکن پر چلتے ہیں اور اگلے چار وزن حاصل کرتے ہیں، مفعول کے بعد مفاعیل لائے یعنی

مفعول مفاعیل

مفاعیل وتد پر ختم ہوا سو اگلا رکن وتد سے شروع ہوگا، مفاعلن یہاں نہیں آ سکتا سو مفاعیلن یا مفاعیل ہونگے یعنی

مفعول مفاعیل مفاعیلن
مفعول مفاعیل مفاعیل

مفاعیلن سبب پر ختم ہوا سو فع آئے گا یعنی

مفعول مفاعیل مفاعیلن فع (وزن نمبر 5)

مفعول مفاعیل مفاعیلن فاع (وزن نمبر 6)


تیسرے رکن میں مفاعیل لائیے جو وتد پر ختم ہوا سو اگلا رکن فعِل ہوا

مفعول مفاعیل مفاعیل فعِل (وزن نمبر 7)

مفعول مفاعیل مفاعیل فعول (وزن نمبر 8)


آٹھ وزن مل گئے، اگلے چار دوسرے رکن میں مفاعلن لانے سے ملیں گے یعنی

مفعول مفاعلن

یہ بھی وتد پر ختم ہوا سو اگلا رکن وتد سے شروع ہوگا جو کہ دو ہیں، مفاعیلن اور مفاعیل کیونکہ مفاعلن تیسرے رکن میں نہیں آ سکتا

مفعول مفاعلن مفاعیلن
مفعول مفاعلن مفاعیل

مفاعیلن کے ساتھ فع آئے گا سو

مفعول مفاعلن مفاعیلن فع (وزن نمبر 9)

مفعول مفاعلن مفاعیلن فاع (وزن نمبر 10)

مفاعیل کے ساتھ فعِل آئے گا سو

مفعول مفاعلن مفاعیل فعِل (وزن نمبر 11)

مفعول مفاعلن مفاعیل فعول (وزن نمبر 12)

گویا ایک خاص ترتیب سے چلتے ہوئے ہمیں رباعی کے بارہ وزن مل گئے، اگلے بارہ وزن شجرہ اخرم کے ہیں اور اسی طرح حاصل ہونگے۔


شجرۂ اخرم اور اسکے بارہ اوزان

پہلے اس شجرہ کی تصویر دیکھ لیں، بڑا دیکھنے کیلیے اس پر کلک کیجیے۔

urdu poetry, urdu ghazal, ilm-e-arooz, taqtee, رباعی اوزان شجرہ اخرم, Rubai

جیسا کہ ہمیں علم ہے کہ یہ شجرہ ہمیشہ مفعولن سے شروع ہوتا ہے جو کہ سبب پر ختم ہوتا ہے سو دوسرا رکن سبب ہی سے شروع ہوگا، جو کہ تین ہیں، مفعولن، مفعول اور فاعلن۔ مفعولن سے شروع کرتے ہیں

مفعولن مفعولن

یہ بھی سبب پر ختم ہوا سو تیسرا رکن بھی سبب سے شروع ہوگا، وہ دو ہیں، مفعولن اور مفعول کیونکہ فاعلن یہاں نہیں آ سکتا سو

مفعولن مفعولن مفعولن
مفعولن مفعولن مفعول

مفعولن سبب پر ختم ہوا سو لازمی طور پر اگلا رکن سبب سے شروع ہوگا جو فع ہے سو

مفعولن مفعولن مفعولن فع (وزن نمبر 1)

اور فع کو فاع سے بدلیں تو

مفعولن مفعولن مفعولن فاع (وزن نمبر 2)

تیسرے رکن میں مفعول لائیں جو وتد پر ختم ہوا سو چوتھا رکن لازمی فعِل ہوگا سو

مفعولن مفعولن مفعول فعِل (وزن نمبر 3)

اور فعِل کو فعول سے بدلیں تو

مفعولن مفعولن مفعول فعول (وزن نمبر 4)

اب واپس دوسرے رکن پر چلتے ہیں اور مفعولن کے بعد مفعول لاتے ہیں یعنی

مفعولن مفعول

اب مفعول وتد پر ختم ہوا، تیسرا رکن لازمی وتد سے شروع ہوگا، یہ تین ہیں، مفاعیلن مفاعیل اور مفاعلن لیکن ہم جانتے ہیں کہ مفاعلن کبھی بھی تیسرے رکن میں نہیں آئے گا سو دو رہ گئے، مفاعیلن اور مفاعیل یعنی

مفعولن مفعول مفاعیلن
مفعولن مفعول مفاعیل

مفاعیلن کے بعد فع آیا تو

مفعولن مفعول مفاعیلن فع (وزن نمبر 5)

اور

مفعولن مفعول مفاعیلن فاع (وزن نمبر 6)

اب تیسرے رکن میں مفاعیل لائیں تو یہ وتد پر ختم ہوا سو اسکے بعد فعِل آیا یعنی

مفعولن مفعول مفاعیل فعِل (وزن نمبر 7)

اور مفعولن مفعول مفاعیل فعول (وزن نمبر 8)

اب واپس دوسرے رکن کی طرف چلتے ہیں وہاں ہم فاعلن کو چھوڑ آئے تھے، اس کو لائیں گے تو مزید چار وزن مل جائیں گے۔

مفعولن فاعلن

فاعلن وتد پر ختم ہوا سو اگلا رکن مفاعیلن، مفاعیل یا مفاعلن ہوگا، مفاعلن باہر ہوگیا تو مفاعیلن اور مفاعیل رہ گئے

مفعولن فاعلن مفاعیلن
مفعولن فاعلن مفاعیل

مفاعیلن کے بعد فع آیا تو

مفعولن فاعلن مفاعیلن فع (وزن نمبر 9)

اور

مفعولن فاعلن مفاعیلن فاع (وزن نمبر 10)

تیسرے رکن میں مفاعیل لائے تو اسکے بعد فعِل آیا سو

مفعولن فاعلن مفاعیل فعِل (وزن نمبر 11)

اور مفعولن فاعلن مفاعیل فعول (وزن نمبر 12)

اور یوں ہمیں 'سبب پئے سبب و وتد پئے وتد" کے اصول اور افاعیل و ارکان کی خاص ترتیب پر چلتے ہوئے دونوں شجروں کے بارہ بارہ اوزان یعنی کل چوبیس وزن مل گئے۔

یہ وہ طریقہ جس کو سمجھتے ہوئے اس خاکسار نے رباعی کے اوزان کو سمجھا، اسکے علاوہ بھی کئی ایک طریقے ہیں لیکن میں نے اس میں کوشش کی ہے کہ اوزان کو ایک خاص منطقی ترتیب سے لاؤں، امید ہے قارئین کیلیے یہ طریقہ رباعی کے اوزان سمجھنے کیلیے کارآمد اور فائدہ مند ہوگا۔

مزید پڑھیے۔۔۔۔

Dec 3, 2010

ایک خوبصورت بحر - بحرِ خفیف

یہ مضمون نومبر 2007ء میں لکھا تھا اور "اردو محفل" پر شائع کیا۔
------------------------
حصۂ اول ۔ بحرِ خفیف مسدس مخبون محذوف مقطوع - تعارف اور اوزان
بڑی بحر ایک دریا کی مانند ہوتی ہے۔ طغیانی میں ہو تو ہر چیز خس و خاشاک کی طرح بہا لے جائے۔ موج میں ہو تو لہریں گنتے جاؤ اور ختم نہ ہوں اور اگر کہیں روانی میں کمی آ جائے تو جگہ جگہ جوہڑ بن جاتے ہیں، 'بڈھے' روای کی طرح۔ اس کے مقابلے میں چھوٹی بحر ایک گنگناتی، لہراتی، بل کھاتی، مچلتی ندی کی طرح ہے۔ اور جیسے کسی دیو ہیکل پہاڑ کی اوٹ سے جھرنا ایک دم آنکھوں کے سامنے خوشنما منظر لیے آجاتا ہے اسی طرح چھوٹی بحروں میں کہی ہوئی بات دھم سے آنکھوں کو چکا چوند کردیتی ہے اور دماغ بغیر سوچ و بچار میں پڑے فوراً روشن ہو جاتا ہے۔

چھوٹی بحروں میں شاعری کرنا ہر شاعر کا مشغلہ رہا ہے۔ اساتذہ سے لیکر موجودہ عصر تک ہر شاعر نے ان بحروں میں طبع آزمائی کی ہے، اور اصنافِ سخن میں سے غزل کو اس میں خاص امتیاز حاصل ہے۔ تھوڑے اور گنے چنے الفاظ میں غزل کی رنگینیٔ بیاں کو نبھاتے ہوئے دو مصرعوں میں بات مکمل کر دینا بلکہ سامع تک پوری بلاغت سے پہنچا دینا واقعتاً ایک معانی رکھتا ہے۔ لیکن یہ ایک حقیقت ہے کہ چھوٹی بحروں میں کہی ہوئی اچھی غزلیں اردو ادب میں سدا بہار کا مقام رکھتی ہیں اور ان غزلوں کے اشعار اور مصرعے ضرب المثل کا مقام حاصل کرچکے ہیں۔

انہی چھوٹی بحروں میں ایک بحر، بحرِ خفیف ہے۔ بحرِ خفیف ایک مسدس (تین ارکان والی) بحر ہے اور تقریباً تمام مسدس بحریں چھوٹی ہیں کہ ان میں مثمن (چار ارکان والی) بحروں کے مقابلے میں ایک رکن کم ہوتا ہے اور پھر زحافات کا استعمال انہیں مزید مختصر کیے ہی چلا جاتا ہے۔ بحرِ خفیف کی ایک مزاحف شکل ،بحرِ خفیف مسدس مخبون محذوف مقطوع' کا تعارف اور اس مخصوس بحر میں کہی ہوئی مشہور غزلیات کی ایک فہرست اس مضمون کا مقصود ہے۔

وجۂ تسمیہ
بحرِ خفیف کی وجۂ تسمیہ صاحبِ بحر الفصاحت، مولوی نجم الدین غنی رامپوری نے یہ بیان کی ہے۔
"خفیف کے معنی ہلکے ہیں۔ چونکہ اس بحر کے سب ارکان ہلکے ہیں بسب اس کے کہ دو سبب وتد مجموع کو گھیرے ہوئے ہیں، اس لئے اس بحر کا نام خفیف رکھا ہے۔ اس بحر کو متاخرین شعرائے ریختہ نے سوائے مسدس مزاحف کے اور کسی طرح استعمال نہیں کیا۔"

آخری جملے سے یہ بھی معلومات ملتی ہیں کہ اب سالم حالت میں، مثمن و مسدس و مربع، یہ بحر استعمال نہیں ہوتی اور مزاحف بھی صرف مسدس (یعنی جس بحر کے ایک مصرعے میں تین رکن ہوں) استعمال ہوتی ہے۔

اوزان
بحرِ خفیف سالم الاصل کے اوزان یہ ہیں۔

مثمن۔ فاعِلاتُن مُستَفعِلُن فاعِلاتُن مُستَفعِلُن
مسدس۔ فاعِلاتُن مُستَفعِلُن فاعِلاتُن


لیکن جیسا کہ اوپر بیان کیا گیا ہے کہ یہ مضمون بحر خفیف کی ایک مسدس مزاحف شکل 'بحر خفیف مسدس مخبون مخذوف مقطوع' کے متعلق ہے اور اسی بحر کے اوزان سے یہاں بحث کی جائے گی۔
بحر خفیف مسدس مخبون مخذوف مقطوع کا وزن 'فاعِلاتُن مَفاعِلُن فَعلُن' ہے (فعلن میں ع کے سکون کے ساتھ)۔ اس بحر کا یہ وزن بحر خفیف مسدس سالم الاصل پر زحافات کے استعمال سے حاصل ہوتا ہے، یہ زحافات بحر کے نام میں ہی شامل ہیں یعنی زحافات خبن، حذف اور قطع۔
اس بحر کے وزن میں میں کچھ رعائیتیں اور اجازتیں دی گئی ہیں جس سے اس بحر کا حسن بہت بڑھ جاتا ہے اور ایک ہی بحر میں رہتے ہوئے اپنی مرضی کے اور فصیح سے فصیح تر الفاظ استعمال کیے جا سکتے ہیں۔ یہ اجازتیں کچھ اسطرح سے ہیں۔

1- اس بحر یعنی خفیف مسدس مخبون محذوف مقطوع کو بحر خفیف مسدس کی ہی ایک اور مزاحف صورت 'خفیف مسدس مخبون محذوف' کے ساتھ جمع کیا جا سکتا ہے۔ اس بحر کا وزن 'فاعِلاتُن مُفاعِلُن فَعِلُن' ہے (فعِلن میں ع کے کسرے یا زیر کے ساتھ)۔

2- ان دونوں مسدس بحروں یعنی مخبون محذوف مقطوع اور مخبون محذوف کے صدر و ابتدا (یعنی بالترتیب ہر شعر کے پہلے مصرعے کے پہلے رکن اور دوسرے مصرعے کے پہلے رکن) اور عروض و ضروب (یعنی بالترتیب ہر شعر کے پہلے مصرعے کے آخری رکن اور دوسرے مصرعے کے آخری رکن) میں ان اوزان کو جمع کرنے کی اجازت ہے۔

اول۔ صدو ابتدا میں جو اس بحر میں 'فاعلاتن' ہے کو اس رکن کی مخبون شکل یعنی 'فَعِلاتُن' کے ساتھ بدل سکتے ہیں۔ اور ایک شعر میں دونوں اوزان لا سکتے ہیں۔

دوم۔ عروض و ضروب میں جو اس بحر میں فَعلُن (عین کے سکون کے ساتھ) ہے کو فَعِلُن (عین کے کسرہ کے ساتھ) اور ان دونوں کی ہی مسبغ اشکال یعنی فَعلان (عین کے سکون کے ساتھ) اور فَعِلان (عین کے کسرہ کے ساتھ) کے ساتھ بدل سکتے ہیں۔

3- حشو (یعنی صدر و ابتدا اور عروض و ضروب کے درمیان آنے والے تمام اراکین) جو اس بحر میں صرف 'مفاعِلن' ہے کو کسی اور رکن کے ساتھ تبدیل نہیں کر سکتے وگرنہ بحر بدل جائے گی۔
اوپر دئے گئے اصولوں کی مدد سے اگر اس بحر میں جمع کئے جانے والے اوازن کی ایک فہرست بنائی جائے تو اس بحر میں تکنیکی طور پر آٹھ اوزان کو ایک ہی غزل میں یا ان میں سے کسی دو کو ایک ہی شعر میں جمع کیا جا سکتا ہے۔ یہ فہرست کچھ اسطرح سے ہے۔

1- فاعِلاتُن مُفاعِلُن فَعلُن (فعلن میں عین کے سکون کے ساتھ)
2- فَعِلاتُن مُفاعِلُن فَعلُن
3- فاعِلاتن مفاعِلن فعلان (فعلان میں عین کے سکون کے ساتھ)
4- فَعِلاتن مفاعِلن فعلان
5- فاعِلاتن مفاعِلن فَعِلُن (فعِلن میں عین کے کسرہ کے ساتھ)
6- فَعِلاتن مفاعلن فَعِلُن
7- فاعِلاتن مفاعلن فعِلان (فعِلان میں عین کے کسرہ کے ساتھ)
8- فَعِلاتن مفاعِلن فعِلان

یہاں پر ایک بات کی وضاحت کرتا چلوں کہ کلاسیکی عروض میں اوپر دیئے گئے آٹھوں اوزان کی بحروں کے علیحدہ علیحدہ نام تھے لیکن ان سب کو ایک ہی غزل میں جمع کرنے کی اجازت تھی لیکن جدید فارسی اور اردو عروض میں ان آٹھ اوزان کو تو علیحدہ مانا جاتا ہے اور جمع بھی کر سکتے ہیں لیکن آٹھ بحروں کی بجائے انھیں دو بحریں ہی تصور کیا جاتا ہے کہ عملی لحاظ سے یہ بات بالکل صحیح ہے۔

مختلف اوزان کو جمع کرنے کی امثال

اب ہم اوپر دیئے گئے اوزان کو ایک ہی غزل میں جمع کرنے کی دو مثالیں دیکھتے ہیں۔ یوں تو بے شمار غزلیں ہیں جن میں مندرجہ بالا اوزان کو جمع کیا گیا ہے لیکن میں نے اس کیلیے ایک غالب کی اور ایک فیض کی غزل منتخب کی ہے اور دیکھتے ہیں کہ ان دو عظیم شعرا نے کس مہارت کے ساتھ مختلف اوزان کو ایک ہی غزل میں جمع کیا ہے۔

غالب کی غزل کے اشعار

نے گُلِ نغمہ ہوں نہ پردۂ ساز
میں ہوں اپنی شکست کی آواز

مصرع اول عروضی متن و وزن
نے گُ لے نغ (فاعلاتن) مَ ہو نَ پر (مفاعِلن) دَ ء ساز (فعِلان) یہ فاعلاتن مفاعلن فعِلان اوپر دی گئی فہرست میں وزن نمبر 7 ہے۔

مصرع ثانی عروضی متن و وزن
مے ہُ اپنی (فاعلاتن) شکست کی (مفاعلن) آواز (فعلان)۔ فاعلاتن مفاعلن فعلان۔ وزن نمبر 3۔

تُو اور آرائشِ خمِ کاکُل
میں اور اندیشہ ہائے دور و دراز

مصرع اول عروضی متن و وزن
تُو اَ را را (فاعلاتن) ء شے خَ مے (مفاعلن) کاکل (فعلن)۔ فاعلاتن مفاعلن فعلن، وزن نمبر 1۔

مصرع ثانی عروضی متن و وزن
مے اَ رن دے (فاعلاتن) شَ ہاے دُو (مفاعلن) ر دراز (فعِلان) وزن نمبر 7۔

لافِ تمکیں فریب سادہ دلی
ہم ہیں اور راز ہائے سینہ گداز

مصرع اول عروضی متن و وزن
لاف تمکیں (فاعلاتن) فریب سا (مفاعلن) دَ دلی (فعِلن)۔ فاعلاتن مفاعلن فعِلن۔ وزن نمبر 5۔

مصرع ثانی۔ وزن نمبر 7 میں ہے۔

نہیں دل میں مرے وہ قطرۂ خوں
جس سے مژگاں ہوئی نہ ہو گل باز

مصرع اول عروضی متن و وزن
نَ ہِ دل میں (فعلاتن) مرے وُ قَط (مفاعلن) رَ ء خو (فعِلن)۔ فعلاتن مفاعلن فعِلن۔ وزن نمبر 6۔
مصرع ثانی وزن نمبر 3 میں ہے۔

یوں اس غزل میں غالب نے پانچ اوزان جمع کئے ہیں جو کہ اوپر والی فہرست کے مطابق اوزان نمبر 1، 3، 5، 6 اور 7 بنتے ہیں۔

فیض کی غزل کے اشعار

اب فیض احمد احمد فیض کی ایک غزل کے اشعار دیکھتے ہیں۔

آئے کچھ ابر کچھ شراب آئے
اس کے بعد آئے جو عذاب آئے

مصرع اول عروضی متن و وزن
آے کچ اب (فاعلاتن) ر کچ شرا (مفاعلن) بائے (فعلن)۔ فاعلاتن مفاعلن فعلن۔ وزن نمبر 1۔
مصرع ثانی عروضی متن و وزن

اس کِ بع دا (فاعلاتن) ء جو عذا (مفاعلن) بائے (فعلن)۔ فاعلاتن مفاعلن فعلن۔ وزن نمبر 1۔

عمر کے ہر وَرق پہ دل کو نظر
تیری مہر و وفا کے باب آئے

مصرع اول عروضی متن و وزن
عمر کے ہر (فاعلاتن) ورق پہ دل (مفاعلن) کُ نظر (فعِلن)۔ فاعلاتن مفاعلن فعِلن۔ وزن نمبر 5۔

مصرع ثانی، وزن نمبر 1 میں ہے۔

کر رہا تھا غمِ جہاں کا حساب
آج تم یاد بے حساب آئے

مصرع اول عروضی متن و وزن
کر رہا تھا (فاعلاتن) غَ مے جہا (مفاعلن) کَ حساب (فعِلان)۔ فاعلاتن مفاعلن فعِلان۔ وزن نمبر 7۔

مصرع ثانی، وزن نمبر 1 میں ہے۔

نہ گئی تیرے غم کی سرداری
دل میں یوں روز انقلاب آئے

مصرع اول عروضی متن و وزن
نَ گئی تے (فعلاتن) رِ غم کِ سر (مفاعلن) داری (فعلن)۔ فعلاتن مفاعلن فعلن۔ وزن نمبر 2۔

مصرع ثانی، وزن نمبر 1 میں ہے۔

جل اٹھے بزمِ غیر کے در و بام
جب بھی ہم خانماں خراب آئے

مصرع اول عروضی متن و وزن
جل اٹھے بز (فاعلاتن) مِ غیر کے (مفاعلن) در بام (فعلان)۔ فاعلاتن مفاعلن فعلان۔ وزن نمبر 3۔

مصرع ثانی، وزن نمبر 1 میں ہے۔

اس غزل میں فیض نے مجموعی طور پر پانچ اوزان جمع کئے ہیں جو اوپر والی اوزان کی فہرست کے مطابق وزن نمبر 1، 2، 3، 5 اور 7 ہیں۔

آٹھوں اوزان کی امثال (اوزان کے نمبر اوپر والی فہرست کے مطابق ہیں)

شعر فیض
آئے کچھ ابر کچھ شراب آئے
اس کے بعد آئے جو عذاب آئے

دونوں مصرعے 'فاعلاتن مفاعلن فعلن' میں ہیں (وزن نمبر 1)

شعرِ فیض
نہ گئی تیرے غم کی سرداری
دل میں یوں روز انقلاب آئے

اس شعر کا پہلا مصرع 'فعِلاتن مفاعلن فعلن' میں ہے (وزن نمبر 2)۔ دوسرا مصرع وزن نمبر 1 میں ہے۔

شعرِ فیض
جل اٹھے بزمِ غیر کے در و بام
جب بھی ہم خانماں خراب آئے

پہلا مصرع 'فاعلاتن مفاعلن فعلان' میں ہے (وزن نمبر 3)، دوسرا مصرع وزن نمبر 1 میں ہے۔

شعر مصحفی
نہ تو مے لعلِ یار کے مانند
نہ گل اس کے عذار کے مانند

دونوں مصرعے 'فعلاتن مفاعلن فعلان' میں ہیں (وزن نمبر 4)۔

شعرِ فیض
عمر کے ہر وَرَق پہ دل کو نظر
تیری مہر و وفا کے باب آئے

پہلا مصرع 'فاعلاتن مفاعلن فعِلن' میں ہے (وزن نمبر 5)۔

شعرِ غالب
نہیں دل میں مرے وہ قطرۂ خوں
جس سے مژگاں ہوئی نہ ہو گل باز

پہلا مصرع 'فعلاتن مفاعلن فعِلن' میں ہے (وزن نمبر 6)۔ دوسرا مصرع وزن نمبر 3 میں ہے۔

شعرِ فیض
کر رہا تھا غمِ جہاں کا حساب
آج تم یاد بے حساب آئے

پہلا مصرع 'فاعلاتن مفاعلن فعِلان' وزن نمبر 7 میں ہے۔

شعرِ داغ
غم اٹھانے کے ہیں ہزار طریق
کہ زمانے کے ہیں ہزار طریق

دوسرا مصرع 'فعلاتن مفاعلن فعِلان' میں ہے (وزن نمبر 8)۔ پہلا مصرع وزن نمبر 7 میں ہے۔

مشابہت

بحروں میں مشابہت کے حوالے سے محمد حسین آزاد کا آبِ حیات میں تحریر کردہ ایک واقعہ یاد آگیا جو انہوں انشاءاللہ خان انشا کے تذکرے میں بیان کیا ہے۔

"۔۔۔۔۔۔۔۔۔ان میں مرزا عظیم بیگ تھے کہ سودا کے دعوٰی شاگردی اور پرانی مشق کے گھمنڈ نے انکا دماغ بہت بلند کر دیا تھا۔ وہ فقط شد بود کا علم رکھتے تھے مگر اپنے تئیں ہندوستان کا صائب کہتے تھے اور خصوصاً ان معرکوں میں سب سے بڑھ کر قدم مارتے تھے۔ چنانچہ وہ ایک دن میر ماشاءاللہ خاں کے پاس آئے اور غزل سنائی کہ بحر رجز میں تھی مگر ناواقفیت سے کچھ شعر رمل میں جا پڑے تھے۔ سید انشاءاللہ بھی موجود تھے، تاڑ گئے۔ حد سے زیادہ تعریف کی اور اصرار سے کہا کہ مرزا صاحب اسے آپ مشاعرے میں ضرور پڑھیں۔ مدعی کمال کہ مغز سخن سے بے خبر تھا اس نے مشاعرہ عام میں غزل پڑھ دی۔ سید انشاءاللہ نے وہیں تقطیع کی فرمائش کی۔ اس وقت اس غریب پر جو گزری سو گزری مگر سید انشاءاللہ نے اس کے ساتھ سب کو لے ڈالا اور کوئی دم نہ مار سکا۔ بلکہ ایک مخمس بھی پڑھا، جس کا مطلع یہ ہے۔

گر تو مشاعرے میں صبا آج کل چلے
کہیو عظیم سے کہ ذرا وہ سنبھل چلے
اتنا بھی حد سے اپنی نہ باہر نکل چلے
پڑھنے کو شب جو یار غزل در غزل چلے
بحر رجز میں ڈال کے بحر رمل چلے"

اس واقعے کا ذکر مولوی نجم الدین غنی نے عیوبِ عروض کے تحت کیا ہے اور شعراء کرام کو متنبہ کیا ہے جو بحریں آپس میں متشابہ ہیں ان کو استعمال کرتے ہوئے احتیاط برتیں۔

اور یہ بات ہماری مذکورہ بحر کیلیے بھی حرف بحرف صحیح ہے کہ اس بحر کی مشابہت یوں تو کئی بحروں کے ساتھ ہے لیکن بحر 'رمل مسدس مخبون محذوف مقطوع' کے ساتھ تو حد سے زیادہ متشابہ ہے۔ اس دوسری بحر کا وزن 'فاعلاتن فعِلاتن فعلن' ہے اور اسکے صدر و ابتدا اور عروض و ضروب میں بھی وہی اور اتنے ہی اوزان آ سکتے ہیں جو کہ بحرِ خفیف کے ہیں یعنی اس میں بھی مجموعی طور پر آٹھ اوزان جمع ہو سکتے ہیں لیکن خفیف اور رمل مقطوع میں فرق یہ ہے کہ خفیف کا حشو 'مفاعلن' جب کہ رمل کا حشو 'فعِلاتن' ہے۔ اگر آپ اوپر دیئے گئے آٹھ اوزان کی فہرست دیکھیں تو نوٹ کریں گے کہ ان آٹھ اوزان میں صدر و ابتدا اور عروض و ضروب تو تبدیل ہو رہے ہیں لیکن حشو تبدیل نہیں ہو رہا بعینہ اسی طرح 'رمل' میں حشو 'فعِلاتن' تبدیل نہیں ہوتا اور صدر و ابتدا اور عروض و ضروب وہی ہیں جو 'خفیف' کے ہیں۔

یہ ایک انتہائی لطیف اور کم فرق ہے، یہ ایسے ہی جیسے آپ کہیں 'دعا یہ ہے' تو یہ بر وزن 'مفاعلن' ہے لیکن اگر کہیں 'یہ دعا ہے' تو یہ 'فعِلاتن' کے وزن پر ہے اور صرف ایک حرف کی جگہ تبدیل کرنے سے بحر بدل جائے گی۔

حصۂ دوم - بحرِ خفیف مسدس مخبون محذوف مقطوع میں کہی گئی کچھ مشہور غزلیات

اس مضمون کا عنوان "ایک خوبصورت بحر" میرے ذہن میں اس بحر میں کہی گئی مشہور غزلیات کو دیکھ کر آیا تھا۔ اور دوسری بات یہ تھی کہ اس بحر میں کہی گئی غزلیات ہمارے گلوکاروں میں بھی مقبول رہی ہیں اور بعضوں نے تو بہت اچھے انداز میں انہیں گایا ہے۔ انہی غزلیات میں سے کچھ غزلیات نیچے دی جا رہی ہیں۔ فہرست بالکل اور مکمل تاریخی ترتیب سے نہیں ہے لیکن بہرحال زمانے کا میں نے خیال رکھا ہے۔ ایک التزام میں نے یہ کیا ہے کہ ہر غزل کا مطلع دیا ہے اور اسکے ساتھ کچھ مشہور یا اپنی پسند کے اشعار بھی دے دیئے ہیں۔

ولی دکنی
دل ہوا ہے مرا خرابِ سخن
دیکھ کر حسن بے حجابِ سخن

راہِ مضمونِ تازہ بند نہیں
تا قیامت کھلا ہے بابِ سخن

اے ولی دردِ سر کبھو نہ رہے
جب ملے صندل و گلابِ سخن

ولہ
خوب رو خوب کام کرتے ہیں
یک نگہ میں غلام کرتے ہیں

دل لجاتے ہیں اے ولی میرا
سرو قد جب خرام کرتے ہیں

ولہ
عارفاں پر ہمیشہ روشن ہے
کہ فنِ عاشقی عجب فن ہے

مجکوں روشن دلاں نے دی ہے خبر
کہ سخن کا چراغ روشن ہے

ولہ
عشق بے تاب جاں گدازی ہے
حسن مشتاقِ دل نوازی ہے

اے ولی عیشِ ظاہری کا سبب
جلوۂ شاہدِ مجازی ہے

میر تقی میر
یہ بحر میر کی مرغوب ترین بحروں میں سے لگتی ہے کہ میر کے اس بحر میں سو کے قریب غزلیات صرف دیوانِ اول ہی میں ہیں۔

ہستی اپنی حباب کی سی ہے
یہ نمائش سراب کی سی ہے

نازکی اس کے لب کی کیا کہیئے
پنکھڑی اک گلاب کی سی ہے

میر ان نیم باز آنکھوں میں
ساری مستی شراب کی سی ہے

ولہ
دیکھ تو دل کہ جاں سے اٹھتا ہے
یہ دھواں سا کہاں سے اٹھتا ہے

گور کس دل جلے کی ہے یہ فلک
شعلہ اک صبح یاں سے اٹھتا ہے

عشق اک میر بھاری پتھّر ہے
کب یہ تجھ ناتواں سے اٹھتا ہے

ولہ
قصد اگر امتحان ہے پیارے
اب تلک نیم جان ہے پیارے

گفتگو ریختے میں ہم سے نہ کر
یہ ہماری زبان ہے پیارے

میر عمداً بھی کوئی مرتا ہے
جان ہے تو جہان ہے پیارے

ولہ
بار ہا گور دل جھکا لایا
اب کی شرطِ وفا بجا لایا

ابتدا ہی میں مر گئے سب یار
عشق کی کون انتہا لایا

اب تو جاتے ہیں بتکدے سے میر
پھر ملیں گے اگر خدا لایا

ولہ
اشک آنکھوں میں کب نہیں آتا
لہو آتا ہے جب نہیں آتا

ہوش جاتا نہیں رہا لیکن
جب وہ آتا ہے تب نہیں آتا

عشق کو حوصلہ ہے شرط ورنہ
بات کا کسو ڈھب نہیں آتا

دور بیٹھا غبارِ میر اس سے
عشق بن یہ ادب نہیں آتا

ولہ
ہے غزل میر یہ شفائی کی
ہم نے بھی طبع آزمائی کی

وصل کے دن کی آرزو ہی رہی
شب نہ آخر ہوئی جدائی کی

زور و زر کچھ نہ تھا تو بارے میر
کس بھروسے پہ آشنائی کی

ولہ
ہم ہوئے تم ہوئے کہ میر ہوئے
اس کی زلفوں کے سب اسیر ہوئے

نہیں آتے کسو کی آنکھوں میں
ہو کے عاشق بہت حقیر ہوئے

ولہ
عمر بھر ہم رہے شرابی سے
دلِ پر خوں کی اک گلابی سے

کام تھے عشق میں بہت پر میر
ہم ہی فارغ ہوئے شتابی سے

ولہ
گل و بلبل بہار میں دیکھا
ایک تجھ کو ہزار میں دیکھا

جن بلاؤں کو میر سنتے تھے
ان کو اس روزگار میں دیکھا

ولہ
تا بہ مقدور انتظار کیا
دل نے پھر زور بے قرار کیا

یہ توہّم کا کارخانہ ہے
یاں وہی ہے جو اعتبار کیا

سخت کافر تھا جن نے پہلے میر
مذہبِ عشق اختیار کیا

ولہ
گل کو محبوب میں قیاس کیا
فرق نکلا بہت جو باس کیا

صبح تک شمع سر کو دھنتی رہی
کیا پتنگے نے التماس کیا
ولہ
خوب رو سب کی جان ہوتے ہیں
آرزوئے جہان ہوتے ہیں
کیا رہا ہے مشاعرے میں اب
لوگ کچھ جمع آن ہوتے ہیں
میر و مرزا رفیع و خواجہ میر
کتنے اک یہ جوان ہوتے ہیں
ولہ
ہو گئی شہر شہر رسوائی
اے مری موت تو بھلی آئی
میر جب سے گیا ہے دل تب سے
میں تو کچھ ہو گیا ہوں سودائی
ولہ
رنج کھینچے تھے داغ کھائے تھے
دل نے صدمے بڑے اٹھائے تھے
پاسِ ناموسِ عشق تھا ورنہ
کتنے آنسو پلک تک آئے تھے
میر صاحب رولا گئے سب کو
کل وے تشریف یاں بھی لائے تھے
ولہ
کیا حقیقت کہوں کہ کیا ہے عشق
حق شناسوں کا ہاں خدا ہے عشق
کوہ کن کیا پہاڑ کاٹے گا
پردے میں زور آزما ہے عشق
کون مقصد کو عشق بنِ پہنچا
آرزو عشق، مدّعا ہے عشق
خواجہ میر درد
جگ میں آ کر اِدھر اُدھر دیکھا
تُو ہی آیا نظر، جدھر دیکھا
اُن لبوں نے نہ کی مسیحائی
ہم نے سَو سَو طرح سے مر دیکھا
زور عاشق مزاج ہے کوئی
درد کو قصّہ مختصر دیکھا
ولہ
جگ میں کوئی نہ ٹک ہنسا ہوگا
کہ نہ ہنستے میں رو دیا ہوگا
ان نے قصداً بھی میرے نالے کو
نہ سنا ہوگا، گر سنا ہوگا
دل زمانے کے ہاتھ سے سالم
کوئی ہوگا جو رہ گیا ہوگا
دل بھی اے درد قطرۂ خوں تھا
آنسوؤں میں کہیں گرا ہوگا
ولہ
ہے غلط گر گُمان میں کچھ ہے
تجھ سوا بھی جہان میں کچھ ہے
دل بھی تیرے ہی ڈھنگ سیکھا ہے
آن میں کچھ ہے، آن میں کچھ ہے
اِن دنوں کچھ عجب حال ہے مرا
دیکھتا کچھ ہوں، دھیان میں کچھ ہے
انشاءاللہ خاں انشا
ضعف آتا ہے، دل کو تھام تو لو
بولیو مت، مگر سلام تو لو
انھیں باتوں پہ لوٹتا ہوں میں
گالی پھر دے کے میرا نام تو لو
یک نگہ پر بِکے ہے انشا آج
مفت میں مول اک غلام تو لو
حیدر علی آتش
غیرتِ مہر، رشک ماہ ہو تم
خوبصورت ہو، بادشاہ ہو تم
کیوں کر آنکھیں نہ ہم کو دکھلاؤ
کیسے خوش چشم، خوش نگاہ ہو تم
غلام ہمدانی مصحفی
خواب تھا یا خیال تھا کیا تھا
ہجر تھا یا وصال تھا کیا تھا
جس کو ہم روزِ ہجر سمجھے تھے
ماہ تھا یا وہ سال تھا کیا تھا
مصحفی شب جو چپ تُو بیٹھا تھا
کیا تجھے کچھ ملال تھا کیا تھا
ولہ
یوں تو دنیا میں کیا نہیں ملتا
پر دلِ با صفا نہیں ملتا
بت پرستی سے باز آ اے دل
بت کے پوجے سے خدا نہیں ملتا
ہو کے روکھا وہ یوں لگا کہنے
کیا کرے گا بے، جا نہیں ملتا
ولہ
نہ تو مے لعلِ یار کے مانند
نہ گل اس کے عذار کے مانند
پھر گئیں ہم سے یار کی آنکھیں
گردشِ روزگار کے مانند
تربتِ مصحفی کو دیکھا کل
ڈھیر تھا اک مزار کے مانند
میرزا غالب
غالب کی ایک خوبی یہ بھی ہے کہ ان کے انتہائی مختصر سے دیوان میں جتنی مشہور غزلیں ہیں شاید ہی کسی اور شاعر کی ہوں۔ اور یہی معاملہ اس بحر کے ساتھ ہے کہ کل ملا کر کوئی دس کے لگ بھگ غزلیں اس بحر میں ہیں اور ایک سے بڑھ کر ایک، اور ہر غزل کا تقریباً ہر شعر ہی لا جواب ہے۔ غزلوں کے علاوہ کچھ قطعات اور مثنوی 'در صفتِ انبہ' بھی اسی بحر میں ہے۔
درد منّت کشِ دوا نہ ہوا
میں نہ اچّھا ہوا، بُرا نہ ہوا
جمع کرتے ہو کیوں رقیبوں کو
اک تماشا ہوا، گِلا نہ ہوا
جان دی، دی ہوئی اُسی کی تھی
حق تو یوں ہے کہ حق ادا نہ ہوا
کچھ تو پڑھیے کہ لوگ کہتے ہیں
آج غالب غزل سرا نہ ہوا
ولہ
وہ فراق اور وہ وصال کہاں
وہ شب و روز و ماہ و سال کہاں
تھی وہ اک شخص کے تصور سے
اب وہ رعنائیِ خیال کہاں
فکرِ دنیا میں سر کھپاتا ہوں
میں کہاں اور یہ وبال کہاں
ولہ
کوئی امّید بر نہیں آتی
کوئی صورت نظر نہیں آتی
موت کا ایک دن معیّن ہے
نیند کیوں رات بھر نہیں آتی
جانتا ہوں ثوابِ طاعت و زہد
پر طبیعت ادھر نہیں آتی
کعبے کس منہ سے جاؤ گے غالب
شرم تم کو مگر نہیں آتی
ولہ
دلِ ناداں تجھے ہوا کیا ہے
آخر اس درد کی دوا کیا ہے
جب کہ تجھ بن نہیں کوئی موجود
پھر یہ ہنگامہ اے خدا کیا ہے
ہم کو ان سے وفا کی ہے امّید
جو نہیں جانتے وفا کیا ہے
جان تم پر نثار کرتا ہوں
میں نہیں جانتا دعا کیا ہے
ولہ
پھر کچھ اک دل کو بے قراری ہے
سینہ جویائے زخمِ کاری ہے
پھر اُسی بے وفا پہ مرتے ہیں
پھر وہی زندگی ہماری ہے
بے خودی بے سبب نہیں غالب
کچھ تو ہے جس کی پردہ داری ہے
ولہ
میں انھیں چھیڑوں اور کچھ نہ کہیں
چل نکلتے جو مے پیے ہوتے
قہر ہو یا بلا ہو، جو کچھ ہو
کاشکے تم مرے لیے ہوتے
میری قسمت میں غم گر اتنا تھا
دل بھی، یا رب کئی دیے ہوتے
ولہ
پھر اس انداز سے بہار آئی
کہ ہوئے مہر و مہ تماشائی
ہے ہوا میں شراب کی تاثیر
بادہ نوشی ہے، باد پیمائی
ولہ
نے گلِ نغمہ ہوں نہ پردۂ ساز
میں ہوں اپنی شکست کی آواز
تُو اور آرائشِ خمِ کاکل
میں اور اندیشہ ہائے دور و دراز
مجھ کو پوچھا تو کچھ غضب نہ ہوا
میں غریب اور تُو غریب نواز
ولہ
ابنِ مریم ہوا کرے کوئی
میرے دکھ کی دوا کرے کوئی
بک رہا ہوں جنوں میں کیا کیا کچھ
کچھ نہ سمجھے خدا کرے کوئی
جب توقّع ہی اٹھ گئی غالب
کیوں کسی کا گِلا کرے کوئی
ولہ
درد ہو دل میں تو دوا کیجے
دل ہی جب درد ہو تو کیا کیجے
ان بتوں کو خدا سے کیا مطلب
توبہ توبہ، خدا خدا کیجے
رنج اٹھانے سے بھی خوشی ہوگی
پہلے دل درد آشنا کیجے
موت آتی نہیں کہیں غالب
کب تک افسوس زیست کا کیجے
مومن خاں مومن
اثر اس کو ذرا نہیں ہوتا
رنج، راحت فزا نہیں ہوتا
اس نے کیا جانے، کیا کیا لے کر
دل کسی کام کا نہیں ہوتا
تم مرے پاس ہوتے ہو گویا
جب کوئی دوسرا نہیں ہوتا
کیوں سنے عرضِ مضطر اے مومن
صنم آخر خدا نہیں ہوتا
ولہ
قہر ہے، موت ہے، قضا ہے عشق
سچ تو یہ ہے بری بلا ہے عشق
دیکھئے کس جگہ ڈبو دے گا
میری کشتی کا نا خدا ہے عشق
آپ مجھ سے نباہیں گے، سچ ہے
با وفا حسن، بے وفا ہے عشق
قیس و فرہاد و وامق و مومن
مر گئے سب ہی، کیا وبا ہے عشق
ولہ
مجھ کو تیرے عتاب نے مارا
یا مرے اضطراب نے مارا
مومن از بس ہیں بے شمار گناہ
غمِ روزِ حساب نے مارا
ولہ
امتحاں کے لئے جفا کب تک
التفاتِ ستم نما کب تک
مر چلے اب تو اس صنم سے ملیں
مومن اندیشۂ خدا کب تک
ولہ
عشق نے یہ کیا خراب ہمیں
کہ ہے اپنے سے اجتناب ہمیں
اے تپِ ہجر دیکھ مومن ہیں
ہے حرام آگ کا عذاب ہمیں
ابراہیم ذوق
وقتِ پیری شباب کی باتیں
ایسی ہیں جیسی خواب کی باتیں
پھر مجھے لے چلا ادھر دیکھو
دلِ خانہ خراب کی باتیں
تجھ کو رسوا کرئینگی خوب اے دل
تیری یہ اضطراب کی باتیں
ولہ
خوب روکا شکایتوں سے مجھے
تُو نے مارا عنایتوں سے مجھے
واجب القتل اس نے ٹھرایا
آیتوں سے روایتوں سے مجھے
ولہ
آنکھ اس پر جفا سے لڑتی ہے
جان کُشتی قضا سے لڑتی ہے
شعلہ بھڑکے گا کیا بھلا سرِ بزم
شمع تجھ بن ہوا سے لڑتی ہے
ذوق دنیا ہے مکر کا میداں
نگہ اس کی دغا سے لڑتی ہے
بہادر شاہ ظفر
ہم نے دنیا میں آ کے کیا دیکھا
دیکھا جو کچھ سو خواب سا دیکھا
ہے تو انسان خاک کا پُتلا
لیک پانی کا بلبلا دیکھا
نہ ہوئے تیری خاکِ پا، ہم نے
خاک میں آپ کو ملا دیکھا
ولہ
میں ہوں عاصی کہ پُر خطا کچھ ہوں
تیرا بندہ ہوں، اے خدا کچھ ہوں
سمجھے وہ اپنا خاکسار مجھے
خاکِ رہ ہوں کہ خاکِ پا کچھ ہوں
داغ دہلوی
ساز یہ کینہ ساز کیا جانیں
ناز والے نیاز کیا جانیں
جو رہِ عشق میں قدم رکھیں
وہ نشیب و فراز کیا جانیں
جو گزرتے ہیں داغ پر صدمے
آپ بندہ نواز کیا جانیں
ولہ
نا روا کہئے، نا سزا کہئے
کہئے کہئے مجھے بُرا کہئے
آپ کا خیر خواہ میرے سوا
ہے کوئی دوسرا کہئے
ہوش جاتے رہے رقیبوں کے
داغ کو اور بے وفا کہئے
ولہ
جالِ زُلفِ سیاہ نے مارا
تیرِ کافر نگاہ نے مارا
کھا گیا مغز ناصحِ ناداں
مجھکو اس خیر خواہ نے مارا
دیکھا اے داغ اہلِ دنیا کو
ہوسِ عزّ و جاہ نے مارا
ولہ
سبق ایسا پڑھا دیا تُو نے
دل سے سب کچھ بھلا دیا تُو نے
نارِ نمرود کو کیا گُل زار
دوست کو یوں بچا دیا تُو نے
داغ کو کون دینے والا تھا
جو دیا، اے خدا دیا تُو نے
ولہ
بات میری کبھی سُنی ہی نہیں
جانتے وہ بُری بھلی ہی نہیں
لطفِ مے تجھ سے کیا کہوں زاہد
ہائے کم بخت تُو نے پی ہی نہیں
داغ کیوں تم کو بے وفا کہتا
وہ شکایت کا آدمی ہی نہیں
ولہ
غم اٹھانے کے ہیں ہزار طریق
کہ زمانے کے ہیں ہزار طریق
داغ اب فاقہ مست بن بیٹھے
مانگ کھانے کے ہیں ہزار طریق
مولانا حالی
دھوم تھی اپنی پارسائی کی
کی بھی اور کس سے آشنائی کی
منہ کہاں تک چھپاؤ گے ہم سے
تم کو عادت ہے خود نمائی کی
دل بھی پہلو میں ہو تو یاں کس سے
رکھئے امّید دل ربائی کی
زندہ پھرنے کی ہے ہوس حالی
انتہا ہے یہ بے حیائی کی
ولہ
حق وفا کے جو ہم جتانے لگے
آپ کچھ کہہ کے مسکرانے لگے
سخت مشکل ہے شیوۂ تسلیم
ہم بھی آخر کو جی چرانے لگے
جی میں ہے، لُوں رضائے پیرِ مغاں
قافلے پھر حرم کو جانے لگے
اکبر الہ آبادی
سانس لیتے ہوئے بھی ڈرتا ہوں
یہ نہ سمجھیں کہ آہ کرتا ہوں
شیخ صاحب خدا سے ڈرتے ہیں
میں تو انگریزوں ہی سے ڈرتا ہوں
یہ بڑا عیب مجھ میں ہے اکبر
دل میں جو آئے کہہ گزرتا ہوں
ولہ
اس میں عکس آپ کا اتاریں گے
دل کو اپنے یونہی سنواریں گے
پند اکبر کو دیں گے کیا ناصح
گل کو کیا باغباں سنواریں گے
حسرت موہانی
خوبرویوں سے یاریاں نہ گئیں
دل کی بے اختیاریاں نہ گئیں
دن کی صحرا نوردیاں نہ چھٹیں
شب کی اختر شماریاں نہ گئیں
طرزِ مومن میں مر جا حسرت
تیری رنگیں نگاریاں نہ گئیں
ولہ
نہ کیا بارِ غم کسی نے قبول
غیرِ انساں کہ تھا ظُلُوم و جہُول
بھیجئے تحفۂ درود و سلام
بجنابِ رسول و آلِ رسول
خاصہ بر روح پُر فتوح حسین
نورِ چشمِ علی و جانِ بتول
نوجوانانِ خلد کے سردار
گُلبنِ دوحۂ رسول کے پھول
ولہ
حور و غلماں پہ کیوں فدا ہوتے
اہلِ ظاہر جو پارسا ہوتے
کس قدر سہل ہے حصولِ بقا
دیر لگنی نہیں فنا ہوتے
ولہ
لطف کی اُن سے التجا نہ کریں
ہم نے ایسا کبھی کیا نہ کریں
مل رہے گا جو اُن سے ملنا ہے
لب کو شرمندۂ دعا نہ کریں
جگر مراد آبادی
آدمی آدمی سے ملتا ہے
دل مگر کم کسی سے ملتا ہے
بھول جاتا ہوں میں ستم اس کے
وہ کچھ اس سادگی سے ملتا ہے
سلسلہ فتنۂ قیامت کا
تیری خوش قامتی سے ملتا ہے
ولہ
عاشقی امتیاز کیا جانے
فرقِ ناز و نیاز کیا جانے
سینۂ نے پہ جو گزرتی ہے
وہ لبِ نے نواز کیا جانے
راہرو راہِ بے خودی ہے جگر
وہ نشیب و فراز کیا جانے
ولہ
عشق کو بے نقاب ہونا تھا
آپ اپنا جواب ہونا تھا
تیری آنکھوں کا کچھ قصور نہیں
ہاں مجھی کو خراب ہونا تھا
ہو چکا روزِ اوّلیں ہی جگر
جس کو جتنا خراب ہونا تھا
ولہ
پھر وہ ہم سے خفا ہے کیا کہیئے
زندگی بے حیا ہے کیا کہیئے
چاندنی ہے، ہوا ہے کیا کہیئے
مفلسی کیا بلا ہے کیا کہیئے
ولہ
زندگی ہے مگر پرائی ہے
مرگِ غیرت تری دہائی ہے
اس نے اپنا بنا کے چھوڑ دیا
کیا اسیری ہے، کیا رہائی ہے
فانی بدایونی
ضبط اپنا شعار تھا نہ رہا
دل پہ کچھ اختیار تھا نہ رہا
موت کا انتظار باقی ہے
آپ کا انتظار تھا نہ رہا
مہرباں یہ مزارِ فانی ہے
آپ کا جاں نثار تھا نہ رہا
ولہ
نظر آج ان سے رہ گئی مل کے
آخری کچھ پیام تھے دل کے
خاک ہے تو اُسی گلی کی خاک
اللہ اللہ یہ حوصلے دل کے
مرگِ فانی میں اب تُو دیر نہ کر
سہل فرمانے والے مشکل کے
ولہ
آپ سے شرحِ آرزو تو کریں
آپ تکلیفِ گفتگو تو کریں
وہ اُدھر، رخ اِدھر ہے میّت کا
لوگ فانی کو قبلہ رُو تو کریں
یگانہ چنگیزی
کس کی آواز کان میں آئی
دور کی بات دھیان میں آئی
علم کیا، علم کی حقیقت کیا
جیسی جس کے گمان میں آئی
بات ادھوری مگر اثر دونا
اچھی لکنت زبان میں آئی
میں پیمبر نہیں یگانہ سہی
کیا کمی اس سے شان میں آئی
ولہ
لذّتِ زندگی مبارک باد
کل کی کیا فکر ہر چہ بادا باد
دل سلامت ہے دردِ دل نہ سہی
درد جاتا رہا کہ درد کی یاد
صلح کر لو یگانہ غالب سے
وہ بھی استاد، تم بھی اک استاد
حفیظ جالندھری
دل ابھی تک جوان ہے پیارے
کس مصیبت میں جان ہے پیارے
میں تجھے بے وفا نہیں کہتا
دشمنوں کا بیان ہے پیارے
تیرے کوچے میں ہے سکوں ورنہ
ہر زمیں آسمان ہے پیارے
ولہ
کہہ گئے الفراق یارانے
رہ گئے نا تمام افسانے
ماتمِ اہلِ ظرف کے دن ہیں
اِحتراماً بند ہیں مے خانے
ہم نے روکا حفیظ کو ورنہ
اور بھی کچھ لگے تھے فرمانے
نوح ناروی
آپ جن کے قریب ہوتے ہیں
وہ بڑے خوش نصیب ہوتے ہیں
ظلم سہہ کر جو اُف نہیں کرتے
ان کے دل بھی عجیب ہوتے ہیں
نوح کی قدر کوئی کیا جانے
کہیں ایسے ادیب ہوتے ہیں
ولہ
آپ ہیں، ہم ہیں، مے ہے، ساقی ہے
یہ بھی ایک امرِ اتّفاقی ہے
بے پئے نام تک نہیں لیتا
مجھ کو یہ احترامِ ساقی ہے
اثر لکھنوی
جب نظر سوئے ذات جاتی ہے
تا محیطِ صفات جاتی ہے
ہستی ہوتی ہے اتنی ہی مبہم
جتنی بھی دور بات جاتی ہے
جس کو آنا ہے وہ نہیں آتا
رات آتی ہے رات جاتی ہے
زندگی کا اثر الم کیسا
شے تھی اک بے ثبات جاتی ہے
خمار بارہ بنکوی
ہنسنے والے اب ایک کام کریں
جشنِ گریہ کا اہتمام کریں
ہم بھی کر لیں جو روشنی گھر میں
پھر اندھیرے کہاں قیام کریں
اک گذارش ہے حضرتِ ناصح
آپ اب اور کوئی کام کریں
ہاتھ ہٹتا نہیں ہے دل سے خمار
ہم انھیں کس طرح سے سلام کریں
چراغ حسن حسرت
دل بلا سے نثار ہو جائے
آپ کو اعتبار ہو جائے
قہر تو بار بار ہوتا ہے
لطف بھی ایک بار ہو جائے
یا خزاں جائے اور بہار آئے
یا خزاں ہی بہار ہو جائے
دل پہ مانا کہ اختیار نہیں
اور اگر اختیار ہو جائے؟
جوش ملیح آبادی
ہٹ گئے دل سے تیرگی کے حجاب
آفریں اے نگاہِ عالم تاب
آڑے آیا نہ کوئی مشکل میں
مشورے دے کے ہٹ گئے احباب
جوش کھلتی تھی جن سے دل کی کلی
کیسے وہ لوگ ہو گئے نایاب
ولہ
جب گجر کی صدا جگاتی تھی
ہائے کچھ اور نیند آتی تھی
ہائے وہ زندگی نہیں ملتی
جب ہمیں روز موت آتی تھی
یاد سا ہے کہ اس خرابے میں
کبھی بَرکھا رُت بھی آتی تھی
جوش اب وہ قدم ہیں خاک آلود
جن پہ اکثر وہ سر جھکاتی تھی
فیض احمد فیض
آئے کچھ ابر، کچھ شراب آئے
اس کے بعد آئے جو عذاب آئے
بامِ مینا سے ماہتاب اترے
دستِ ساقی میں آفتاب آئے
کر رہا تھا غمِ جہاں کا حساب
آج تم یاد بے حساب آئے
فیض تھی راہ سر بسر منزل
ہم جہاں پہنچے کامیاب آئے
ولہ
شیخ صاحب سے رسم و راہ نہ کی
شکر ہے زندگی تباہ نہ کی
تجھ کو دیکھا تو سیر چشم ہوئے
تجھ کو چاہا تو اور چاہ نہ کی
تیرے دستِ ستم کا عجز نہیں
دل ہی کافر تھا جس نے آہ نہ کی
ولہ
عشق منّتِ کشِ قرار نہیں
حسن مجبورِ انتظار نہیں
اپنی تکمیل کر رہا ہوں میں
ورنہ تجھ سے تو مجھ کو پیار نہیں
فیض زندہ رہیں وہ ہیں تو سہی
کیا ہوا گر وفا شعار نہیں
ولہ
ہر حقیقت مجاز ہو جائے
کافروں کی نماز ہو جائے
عشق دل میں رہے تو رُسوا ہو
لب پہ آئے تو راز ہو جائے
عمر بے سُود کٹ رہی ہے فیض
کاش افشائے راز ہو جائے
ولہ
ہم نے سب شعر میں سنوارے تھے
ہم سے جتنے سخن تمھارے تھے
رنگ و خوشبو کے، حسن و خوبی کے
تم سے تھے جتنے استعارے تھے
عمر جاوید کی دعا کرتے
فیض اتنے وہ کب ہمارے تھے
ولہ
رازِ الفت چُھپا کے دیکھ لیا
دل بہت کچھ جلا کے دیکھ لیا
اور کیا دیکھنے کو باقی ہے
آپ سے دل لگا کے دیکھ لیا
فیض تکمیلِ غم بھی ہو نہ سکی
عشق کو آزما کے دیکھ لیا
ولہ
پھر حریفِ بہار ہو بیٹھے
جانے کس کس کو آج رو بیٹھے
تھی مگر اتنی رائگاں بھی نہ تھی
آج کچھ زندگی سے کھو بیٹھے
فیض ہوتا رہے جو ہونا ہے
شعر لکھتے رہا کرو بیٹھے
ناصر کاظمی
نیّتِ شوق بھر نہ جائے کہیں
تُو بھی دل سے اتر نہ جائے کہیں
آج دیکھا ہے تجھ کو دیر کے بعد
آج کا دن گزر نہ جائے کہیں
نہ ملا کر اداس لوگوں سے
حسن تیرا بکھر نہ جائے کہیں
آرزو ہے کہ تُو یہاں آئے
اور پھر عمر بھر نہ جائے کہیں
آؤ کچھ دیر رو ہی لیں ناصر
پھر یہ دریا اتر نہ جائے کہیں
ولہ
دل میں اک لہر سی اٹھی ہے ابھی
کوئی تازہ ہوا چلی ہے ابھی
شور برپا ہے خانۂ دل میں
کوئی دیوار سی گری ہے ابھی
بھری دنیا میں جی نہیں لگتا
جانے کس چیز کی کمی ہے ابھی
تم تو یارو ابھی سے اٹھ بیٹھے
شہر میں رات جاگتی ہے ابھی
وقت اچھا بھی آئے گا ناصر
غم نہ کر زندگی پڑی ہے ابھی
ساغر صدیقی
وہ بلائیں تو کیا تماشا ہو
ہم نہ جائیں تو کیا تماشا ہو
یہ کناروں سے کھیلنے والے
ڈوب جائیں تو کیا تماشا ہو
تیری صورت جو اتّفاق سے ہم
بھول جائیں تو کیا تماشا ہو
وقت کی چند ساعتیں ساغر
لوٹ آئیں تو کیا تماشا ہو
ولہ
چاندنی کو رسول کہتا ہوں
بات کو با اصول کہتا ہوں
جگمگاتے ہوئے ستاروں کو
تیرے پاؤں کی دھول کہتا ہوں
اتّفاقاً تمھارے ملنے کو
زندگی کا حصول کہتا ہوں
جب میّسر ہوں ساغر و مینا
برق پاروں کو پھول کہتا ہوں
ولہ
مُدّعا کچھ نہیں فقیروں کا
درد ہے لا دوا فقیروں کا
منزلوں کی خبر خدا جانے
عشق ہے راہنما فقیروں کا
میکدے کی حدود میں ہونگے
کیا بتائیں پتا فقیروں کا
ولہ
غم کے مجرم، خوشی کے مجرم ہیں
لوگ اب زندگی کے مجرم ہیں
دشمنی آپ کی عنایت ہے
ہم فقط دوستی کے مجرم ہیں
ہم فقیروں کی صورتوں پہ نہ جا
خدمتِ آدمی کے مجرم ہیں
احمد فراز
زندگی سے یہی گِلہ ہے مجھے
تُو بڑی دیر سے ملا ہے مجھے
تو محبّت سے کوئی چال تو چل
ہار جانے کا حوصلہ ہے مجھے
ہمسفر چاہیئے ہجوم نہیں
اک مسافر بھی قافلہ ہے مجھے
کوہکن ہو کہ قیس ہو کہ فراز
سب میں اِک شخص ہی ملا ہے مجھے
ولہ
جن کے دم سے تھیں بستیاں آباد
آج وہ لوگ ہیں کہاں آباد
ہم نے دیکھی ہے گوشۂ دل میں
ایک دنیائے بے کراں آباد
کتنے تارے فراز ٹوٹ چکے
ہے ابھی تک یہ خاکداں آباد
ولہ
جب ملاقات بے ارادہ تھی
اس میں آسودگی زیادہ تھی
نہ توقّع نہ انتظار نہ رنج
صبحِ ہجراں نہ شامِ وعدہ تھی
وہ بھی کیا دن تھے جب فراز اس سے
عشق کم عاشقی زیادہ تھی
ولہ
جان سے عشق اور جہاں سے گریز
دوستوں نے کیا کہاں سے گریز
میں وہاں ہوں جہاں جہاں تم ہو
تم کرو گے کہاں کہاں سے گریز
جنگ ہاری نہ تھی ابھی کہ فراز
کر گئے دوست درمیاں سے گریز
سیف الدین سیف
راہ آسان ہوگئی ہوگی
جان پہچان ہوگئی ہوگی
پھر پلٹ کر نگہ نہیں آئی
تجھ پہ قربان ہوگئی ہوگی
دل کی تسکین پوچھتے ہیں آپ
ہاں مری جان ہوگئی ہوگی
مرنے والوں پہ سیف حیرت کیوں
موت آسان ہوگئی ہوگی
ولہ
پھول اس خاکداں کے ہم بھی ہیں
مدّعی دو جہاں کے ہم بھی ہیں
کہہ رہا ہے سُکوتِ لالہ و گُل
زخم خوردہ زباں کے ہم بھی ہیں
ساتھ مثلِ غبار ہو لیں گے
منتظر کارواں کے ہم بھی ہیں
ولہ
روز غم آشکار ہوتے ہیں
کیا یہی رازدار ہوتے ہیں
کیا قیامت ہے ہجر کے دن بھی
زندگی میں شمار ہوتے ہیں
سیف اُمّید کے سہارے بھی
کتنے بے اعتبار ہوتے ہیں
منیر نیازی
خلشِ ہجرِ دائمی نہ گئی
تیرے رُخ سے یہ بے رُخی نہ گئی
پوچھتے ہیں کہ کیا ہُوا دل کو
حسن والوں کی سادگی نہ گئی
اور سب کی حکائتیں کہہ دیں
بات اپنی کبھی کہی نہ گئی
ہم بھی گھر سے منیر تب نکلے
بات اپنوں کی جب سہی نہ گئی
ولہ
اور ہیں کتنی منزلیں باقی
جان کتنی ہے جسم میں باقی
زندہ لوگوں کی بود و باش میں ہیں
مُردہ لوگوں کی عادتیں باقی
وہ تو آ کے منیر جا بھی چکا
اک مہک سی ہے باغ میں باقی
احمد ندیم قاسمی
اشک تھا، چشمِ تر کے کام آیا
میں بشر تھا، بشر کے کام آیا
سیم و زر آدمی کے چاکر تھے
آدمی سیم و زر کے کام آیا
فقر و فاقہ میں مر گیا شاعر
شعر، اہلِ نظر کے کام آیا
ولہ
دل نے صدمے بہت اٹھائے ہیں
آپ لیکن ابھی پرائے ہیں
آپ کیوں سامنے نہیں آتے
آپ کیوں روح میں سمائے ہیں
مختصر یہ ہے داستانِ حیات
پھول ڈھونڈے ہیں خار پائے ہیں
کہکشاں ہے غبارِ راہ ندیم
کس نے یہ راستے سُجھائے ہیں
ولہ
اس سے پہلے کہ حشر آنے لگے
کاش انسان مسکرانے لگے
ظلم صدیوں کے رنگ لانے لگے
وہ جو جلتے رہے، جلانے لگے
چاند پر جب سے لوگ جانے لگے
صرف پتھّر زمیں پہ لانے لگے
احسان دانش
اب کہو کارواں کدھر کو چلے
راستے کھو گئے چراغ جلے
عشق غم کو عبور کر نہ سکا
راستے کارواں کے ساتھ چلے
ہم پہ گزری ہیں ہجر کی راتیں
ہم جہنّم میں تھے مگر نہ جلے
ولہ
جو ترے آستاں سے لوٹ آئے
جنّتِ دو جہاں سے لوٹ آئے
بندگی کے مقام سے آگاہ
سرحدِ لامکاں سے لوٹ آئے
اب تو کعبے میں روشنی کر دو
اب تو کُوئے بتاں سے لوٹ آئے
ولہ
جب جوانی کی دھوپ ڈھلتی ہے
خود سری سر جھکا کے چلتی ہے
تجربہ ہے کہ دشمنی اکثر
دوستی کے لہو سے پلتی ہے
دورِ حاضر کی دوستی احسان
کس قدر جلد رُخ بدلتی ہے
راغب مراد آبادی
بزمِ ہستی میں روشنی کیسی
بجھ گیا دل تو زندگی کیسی
زندگی نام ہے محبّت کا
یہ نہیں ہے تو زندگی کیسی
آج میرے سیاہ خانے میں
اللہ اللہ روشنی کیسی
عبدالحمید عدم
بے سبب کیوں گناہ ہوتا ہے
فکرِ فردا گناہ ہوتا ہے
مجھ کو تنہا نہ چھوڑ کر جاؤ
یہ خلا بے پناہ ہوتا ہے
تجھ کو کیا دوسروں کے عیبوں سے
کیوں عبث روسیاہ ہوتا ہے
اُس گھڑی اُس سے مانگ لو سب کچھ
جب عدم بادشاہ ہوتا ہے
ولہ
عہدِ مستی ہے لوگ کہتے ہیں
مے پرستی ہے لوگ کہتے ہیں
غمِ ہستی خریدنے والو
موت سستی ہے لوگ کہتے ہیں
شاید اک بار اُجڑ کے پھر نہ بسے
دل کی بستی ہے لوگ کہتے ہیں
ولہ
جام کھنکے تو بات پیدا ہو
فرقِ موت و حیات پیدا ہو
پہلی دنیا خراب ہے یا رب
دوسری کائنات پیدا ہو
اور ابلیس اک مسلّط کر
تا کہ امن و ثبات پیدا ہو
بشیر بدر
پھول سا کچھ کلام اور سہی
اک غزل اس کے نام اور سہی
کرسیوں کو سنائیے غزلیں
قتل کی ایک شام اور سہی
ولہ
اس کی چاہت کی چاندنی ہوگی
خوب صورت سی زندگی ہوگی
نیند ترسے گی میری آنکھوں کو
جب بھی خوابوں سے دوستی ہوگی
ہم بہت دور تھے مگر تم نے
دل کی آواز تو سنی ہوگی
واصف علی واصف
سوز و ساز و سخن علی مولا
سایۂ ذوالمنن علی مولا
ردّ ِ رنج و محن علی مولا
زینتِ انجمن علی مولا
میرے من کی لگن علی مولا
رازِ خیبر شکن علی مولا
ولہ
رازِ دل آشکار آنکھوں میں
حشر کا انتظار آنکھوں میں
وہ بھی ہوگا کسی کا نورِ نظر
جو کھٹکتا ہے خار آنکھوں میں
رات کیسے بسر ہوئی واصف
دن کو کیوں ہے خمار آنکھوں میں
ولہ
دوستو، دوستی کا نام نہ لو
ہو چکی، دل لگی کا نام نہ لو
مار ڈالے گی شاعری واصف
بھول کر شاعری کا نام نہ لو
ولہ
کب اڑا لے گئی ہوا مت پوچھ
چار تنکوں کا ماجرا مت پوچھ
تُو نے جو کچھ کہا، تجھے معلوم
میں نے دنیا سے کیا سُنا، مت پوچھ
بے گناہی بھی جرم ہے واصف
اور اس جرم کی سزا مت پوچھ
پروین شاکر
زندگی سے نظر ملاؤ کبھی
ہار کے بعد مسکراؤ کبھی
ترکِ الفت کے بعد امیدِ وفا
ریت پر چل سکی ہے ناؤ کبھی
اندھے ذہنوں سے سوچنے والو
حرف میں روشنی ملاؤ کبھی
اپنے اسپین کی خبر رکھنا
کشتیاں تم اگر جلاؤ کبھی
ولہ
نیند تو خواب ہو گئی شاید
جنسِ نایاب ہو گئی شاید
ہجر کے پانیوں میں عشق کی ناؤ
کہیں غرقاب ہو گئی شاید
چند لوگوں کی دسترس میں ہے
زیست کم خواب ہو گئی شاید
حبیب جالب
شعر ہوتا ہے اب مہینوں میں
زندگی ڈھل گئی مشینوں میں
پیار کی روشنی نہیں ملتی
ان مکانوں میں، ان مکینوں میں
دیکھ کر دوستی کا ہاتھ بڑھاؤ
سانپ ہوتے ہیں آستینوں میں
وہ محبّت نہیں رہی جالب
ہم صفیروں میں، ہم نشینوں میں
عبدالعزیز خالد
خانہ برباد و گل بداماں ہے
عشق بارِ نشاطِ حرماں ہے
چور، منہ زور، بور، رشوت خور
دل برَہمن ہے، لب مسلماں ہے
انقلابات ہیں زمانے کے
خالدِ نظم گو، غزل خواں ہے
ولہ
شرم گرچہ ہے مانعِ گفتار
رنگِ چہرہ ہے کاشفِ اسرار
دل کا گھونگھٹ اٹھے تو جب جانیں
اے تہجّد گذار و شب بیدار
کب وہ دن آئے گا کہ جب ہوگا
کسی آزاد مرد کا دیدار
رئیس امروہوی
میں جو تنہا رہِ طلب میں چلا
ایک سایہ مرے عقب میں چلا
صبح کے قافلوں سے نبھ نہ سکی
میں اکیلا سوادِ شب میں چلا
میں کبھی حیرتِ طلب میں رکا
اور کبھی شدّتِ غضب میں چلا
ولہ
گرد میں اَٹ رہے ہیں احساسات
دھیمے دھیمے برس رہی ہے رات
صبح جاگا تو یاد بھی نہ رہا
رات تھی چاندنی کہ چاندنی رات
کیا یہی ہے رئیس امروہی؟
اُڑ کے آئے ہیں دُور سے ذرّات
جون ایلیا
عمر گزرے گی امتحان میں کیا
داغ ہی دیں گے مجھ کو دان میں کیا
میری ہر بات بے اثر ہی رہی
نقص ہے کچھ مرے بیان میں کیا
مجھ کو تو کوئی ٹوکتا بھی نہیں
یہی ہوتا ہے خاندان میں کیا
یہ مجھے چین کیوں نہیں پڑتا
ایک ہی شخص تھا جہان میں کیا
ولہ
ایک ہی مژدہ صبح لاتی ہے
صحن میں دھوپ پھیل جاتی ہے
کیا ستم ہے کہ اب تری صورت
غور کرنے پہ یاد آتی ہے
سوچتا ہوں کہ اس کی یاد آخر
اب کسے رات بھر جگاتی ہے
کون اس گھر کی دیکھ بھال کرے
روز اک چیز ٹوٹ جاتی ہے
صہبا اختر
فردِ عصیاں کو وہ سیاہی دے
جس کی وہ زلف بھی گواہی دے
دل کے اجڑے نگر کو کر آباد
اس ڈگر کو بھی کوئی راہی دے
مجھ کو نانِ جویں بنامِ علی
میرے دشمن کو مرغ و ماہی دے
مجرمِ عشق ہوں، مجھے صہبا
جو سزا دے وہ بے گناہی دے
---------
کتابیات
حصۂ اول
1-بحر الفصاحت، مولوی نجم الغنی رامپوری، حصہ دوم علمِ عروض۔ مرتب سید قدرت نقوی۔ مجلسِ ترقی ادب، لاہور۔ 2001

2 - A practical handbook of Urdu Meter, F.W. Pritchett and Kh.A. Khaliq (online version).

حصۂ دوم
1- نقوش غزل نمبر۔ ادارۂ فروغِ اردو، لاہور۔ اکتوبر 1985
2- نقوش میر تقی میر نمبر۔ ادارۂ فروغِ اردو، لاہور۔ اکتوبر 1980
3-بیسویں صدی کی اردو شاعری۔ مرتب اوصاف احمد۔ بُک ہوم، لاہور۔ ستمبر 2003
4- البم، مرتب آغا ذوالفقار خان۔ الحمد پبلی کیشنز، لاہور۔ اکتوبر 1992
5-جب میرا انتخاب نکلے، مرتب محمد آصف بھلی۔ عمر پبلشرز، سیالکوٹ۔ ستمبر 1995
6- غزل در غزل، مرتب یوسف مثالی۔ جہانگیر بُک ڈپو، لاہور۔ 1990
7- احمد فراز سے وصی شاہ تک، مرتب حسن عباسی۔ نستعلیق مطبوعات، لاہور۔ جنوری 2005
8- ساحر لدھیانوی سے بشیر بدر تک، مرتب سید امتیاز احمد۔ نستعلیق مطبوعات، جنوری 2005
9- نسخہ ہائے وفا، فیض احمد فیض۔ مکتبہ کارواں، لاہور۔
10- کلیاتِ احمد فراز، ماورا پبلشرز، لاہور
11- کلیات منیر نیازی، ماورا پبلشرز، لاہور
12- ندیم کی غزلیں، احمد ندیم قاسمی۔ سنگِ میل، لاہور۔ 1991
13- کلیات ساغر صدیقی، مشتاق بُک کارنر، لاہور
14- خم کاکل، سیف الدین سیف۔ الحمد پبلی کیشنز، لاہور، اپریل 1992
15- خوشبو، پروین شاکر۔ مراد پبلی کیشنز، اسلام آباد
16- شب چراغ، واصف علی واصف۔ کاشف پبلی کیشنز، لاہور۔ اکتوبر 1994
17- رسوائی نقاب، عبدالحمید عدم۔ آئینۂ ادب، لاہور
18- دواوین شعرائے کرام (ولی دکنی، میر تقی میر، میر درد، آتش، مصحفی، غالب، مومن، ذوق، بہادر شاہ ظفر، داغ، حسرت موہانی، اکبر الہ آبادی، جگر مراد آبادی، ساحر لدھیانوی)


مزید پڑھیے۔۔۔۔

Jun 12, 2009

بحرِ مُتَقارِب - ایک تعارف

اردو محفل پر ایک سوال پوچھا گیا تھا کہ علامہ اقبال کے درج ذیل خوبصورت شعر کی بحر کیا ہے اور اسکی تقطیع کیسے ہوگی، اسکے جواب میں خاکسار نے بحرِ مُتقَارِب کا مختصر تعارف لکھا تھا، اس کو قطع و برید اور ترمیم کے ساتھ یہاں لکھ رہا ہوں۔

ستاروں سے آگے جہاں اور بھی ہیں
ابھی عشق کے امتحاں اور بھی ہیں

یہ شعر بحر مُتَقارِب مثمن سالم میں ہے۔ مثمن کا مطلب آٹھ یعنی اس بحر کے ایک شعر میں آٹھ رکن اور ایک مصرعے میں چار۔ سالم کا مطلب ہے کہ اس بحر میں جو رکن ہے وہ مکمل ہے اور کہیں بھی اس میں تبدیلی نہیں کی گئی۔ اسے متقارب کیوں کہتے ہیں اسکی تفصیل چھوڑتا ہوں۔
یہ بحر ایک مفرد بحر ہے، مفرد کا مطلب ہے کہ اس بحر میں اصل میں ایک ہی رکن ہے اور اسکی بار بار تکرار ہے، یہ مثمن ہے تو مطلب ہوا کہ اس بحر کے ایک شعر میں ایک ہی رکن کی آٹھ بار تکرار ہے۔ مفرد کے مقابلے میں مرکب بحریں ہوتی ہیں جن میں ایک سے زائد ارکان ہوتے ہیں۔

اس بحر کا رکن ہے 'فَعُولُن' یعنی فَ عُو لُن یعنی 1 2 2 ہے اور اس بحر میں اسی ایک رکن کی بار بار تکرار ہونی ہے۔ اسکے مقابلے میں آپ بحرِ متدارک دیکھ چکے ہیں کہ اسکا رکن 'فاعلن' ہے، کیا آپ فعولن اور فاعلن میں کوئی مماثلت دیکھ سکتے ہیں۔

فعولن یا 1 2 2

اب اگر پہلے ہجائے کوتاہ کو اٹھا کر پہلے ہجائے بلند کے بعد رکھ دیں یعنی 2 1 2 تو یہ وزن فاعلن ہے، متقارب اور متدارک میں بس اتنا ہی فرق ہے، ان دونوں میں یہ مماثلت اس وجہ سے ہے کہ دونوں بحریں ایک ہی دائرے سے نکلی ہیں، تفصیل کسی اچھے وقت کیلیے اٹھا رکھتا ہوں۔

بحرِ متقارب کا وزن ہے

فعولن فعولن فعولن فعولن

(یہ بات نوٹ کریں کہ جب بحر کا نام لکھتے ہیں تو ایک مکمل شعر میں جتنے رکن ہوتے ہیں انکی تعداد بتائی جاتی ہے لیکن جب وزن لکھتے ہیں تو صرف ایک مصرعے کا لکھتے ہیں، یہ مثمن بحر ہے یعنی آٹھ رکن ایک شعر میں ہیں لیکن جب وزن لکھا تو صرف ایک مصرعے کا کیونکہ دوسرا مصرع ہو بہو پہلے کا عکس ہوتا ہے۔)

اب اس شعر کی تقطیع دیکھتے ہیں

سِ تا رو - 1 2 2 - فعولن (یاد رکھنے کی ایک بات کہ نون غنہ کا وزن نہیں ہوتا سو اسے تقطیع میں بھی شمار نہیں کرتے، اس لیئے ستاروں کا نون غنہ تقطیع میں نہیں آرہا اور نہ ہی اسکا کوئی وزن ہے)

سِ آ گے - فعولن 1 2 2 (یاد رکھنے کی دوسری بات، حرف علت الف، واؤ یا یے کو ضرورت شعری کے وقت وزن پورا کرنے کیلیئے لفظ سے گرا کر اور اسے اضافت یعنی زیر، زبر، پیش سے بدل کر اسکا وزن ختم کر سکتے ہیں کیونکہ اضافتوں کا بھی کوئی وزن نہیں ہوتا۔ وجہ یہ ہے کہ بولنے میں کوئی فرق نہیں پڑتا اور فائدہ یہ کہ وزن پورا ہو جاتا ہے، یہاں 'سے' کو 'سِ' یعنی س کے نیچے زیر لگا کر سمجھا جائے گا تا کہ وزن پورا ہو اور اسی کو اخفا کہتے ہیں جسے اس بلاگ کے قاری بخوبی جانتے ہیں۔

جَ ہا او - فعولن 1 2 2 (جہاں کا نون غنہ پھر محسوب نہیں ہو رہا کہ اس کا کوئی وزن نہیں)۔)

ر بی ہے - فعولن 1 2 2 (یاد رکھنے کی اگلی بات کہ دو چشمی ھ کا بھی شعر میں کوئی وزن نہیں ہوتا اس لیئے بھی کو بی سمجھتے ہیں)

اَ بی عش - 1 2 2 - فعولن
ق کے ام - 1 2 2 - فعولن
ت حا او - 1 2 2 - فعولن
ر بی ہے - 1 2 2 - فعولن

بلاگ کے قارئین کیلیے ایک اور شعر کی تقطیع

تہی زندگی سے نہیں یہ فضائیں
یہاں سینکڑوں کارواں اور بھی ہیں

ت ہی زن - 1 2 2 - فعولن
د گی سے - 1 2 2 - فعولن
ن ہی یہ - 1 2 2 - فعولن
ف ضا ئے - 1 2 2 - فعولن
ی ہا سے - 1 2 2 - فعولن
ک ڑو کا - 1 2 2 - فعولن (سینکڑوں میں جو نون ہے اس کو مخلوط نون کہا جاتا ہے یعنی وہ نون جو ہندی الفاظ میں آتا ہے اور اسکا وزن نہیں ہوتا)۔
ر وا او - 1 2 2 - فعولن
ر بی ہے - 1 2 2 - فعولن

متقارب بہت خوبصورت بحر ہے اور اردو شاعری میں کافی استعمال ہوتی ہے، اسی بحر میں علامہ کی ایک اور خوبصورت غزل ہے۔

ترے عشق کی انتہا چاہتا ہوں
مری سادگی دیکھ کیا چاہتا ہوں

اور ایک اور خوبصورت غزل

نہ آتے، ہمیں اس میں تکرار کیا تھی
مگر وعدہ کرتے ہوئے عار کیا تھی

اور غالب کی انتہائی خوبصورت غزل

جہاں تیرا نقشِ قدم دیکھتے ہیں
خیاباں خیاباں ارَم دیکھتے ہیں

بنا کر فقیروں کا ہم بھیس غالب
تماشۂ اہلِ کرم دیکھتے ہیں

اور مرزا رفیع سودا کی یہ خوبصورت غزل دراصل سودا کی اسی زمین میں غالب نے اوپر والی غزل کہی ہے۔

غرَض کفر سے کچھ نہ دیں سے ہے مطلب
تماشائے دیر و حرَم دیکھتے ہیں

اور خواجہ حیدر علی آتش کی یہ خوبصورت غزل

زمینِ چمن گُل کھلاتی ہے کیا کیا
بدلتا ہے رنگ آسماں کیسے کیسے

نہ گورِ سکندر، نہ ہے قبرِ دارا
مٹے نامیوں کے نشاں کیسے کیسے

اور اب اگر اس بحر میں کہے ہوئے مزید کلام کی تلاش ہے تو خواجہ الطاف حسین حالی کی 'مدّ و جزرِ اسلام' المعروف بہ 'مسدسِ حالی' کے سینکڑوں اشعار دیکھ لیں۔

وہ نبیوں میں رحمت لقب پانے والا
مرادیں غریبوں کی بر لانے والا

مصیبت میں غیروں کے کام آنے والا
وہ اپنے پرائے کا غم کھانے والا

فقیروں کا ملجا، ضعیفوں کا ماویٰ
یتمیوں کا والی، غلاموں کا مولیٰ

کسی وضاحت کی صورت میں ضرور لکھیئے گا۔

----

مزید پڑھیے۔۔۔۔

May 31, 2009

ایک نعت کے کچھ اشعار اور انکی تقطیع

محمد افضل صاحب (میرا پاکستان) نے خاکسار کی ایک پوسٹ پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا تھا کہ امام احمد رضا بریلوی علیہ الرحمہ کی مشہور و معروف نعت کے کچھ اشعار کی تقطیع لکھوں، سو لکھ رہا ہوں۔ پہلے اس وجہ سے نہیں لکھی تھی کہ اس وقت میں چاہ رہا تھا کہ پہلے علمِ عروض پر کچھ ضروری باتیں لکھ دوں تا کہ تقطیع کو پڑھتے ہوئے اس بلاگ کے قارئین اسے سمجھ بھی سکیں۔ اور اب جب کہ علمِ عروض اور تقطیع پر کچھ بنیادی باتیں لکھ چکا ہوں سو امید کرتا ہوں کہ وہ قارئین جو ان تحاریر کو 'فالو' کر رہے ہیں ان کو اس تقطیع کے سمجھنے میں کچھ آسانی ضرور ہوگی۔
تقطیع لکھنے سے پہلے کچھ بات اس بحر کی جس میں یہ خوبصورت سلام ہے۔ اس بحر کا نام 'بحرِ مُتَدارِک' ہے اور یہ ایک مفرد بحر ہے۔ مفرد بحریں وہ ہوتی ہیں جن کے وزن میں ایک ہی رکن کی تکرار ہوتی ہیں جب کہ مرکب بحروں کے وزن میں مختلف ارکان ہوتے ہیں۔ بحروں کے ارکان پر تفصیلی بحث ایک علیحدہ پوسٹ کی مقتضی ہے سو بعد میں، فی الحال اتنا کہ جیسے اس سے پہلے ہم دیکھ چکے ہیں کہ بحرِ ہزج میں 'مفاعیلن' چار بار آتا ہے یعنی مفاعیلن رکن ہے بحرِ ہزج کا اور بحرِ ہزج بھی ایک مفرد بحر ہے۔
اسی طرح ہماری آج کی مذکورہ بحر، بحرِ متدارک کا رکن 'فاعِلُن' ہے اور ایک مصرعے میں چار بار آتا ہے۔ فاعلن کو ذرا غور سے دیکھتے ہیں یعنی فا عِ لُن یعنی ایک ہجائے بلند، ایک ہجائے کوتاہ اور ایک ہجائے بلند یعنی 2 1 2 فاعلن کی علامتیں ہیں اور اس بحر کے ایک مصرعے کا وزن ہوگا۔

فاعِلُن فاعِلُن فاعِلُن فاعِلُن
212 212 212 212

اس بحر بلکہ عموماً ہر بحر کے آخری رکن میں تھوڑی سی تبدیلی کی اجازت ماہرین نے دے رکھی ہے اور وہ یہ کہ بحر کے آخری رکن یعنی یہاں پر آخری فاعلن یا آخری 212 کے آخر میں ایک ہجائے کوتاہ کی اضافے کی اجازت ہے یعنی آخری رکن 212 ہے تو اس پر ایک ہجائے کوتاہ بڑھایا تو یہ 1212 ہو گیا اور رکن فاعِلان ہو گیا یعنی فا2، ع1، لا2، ن1 یوں ایک شعر کے دونوں مصرعوں میں یہ وزن اگر اکھٹے جمع کر دیئے جائیں تو جائز ہے۔
فاعِلُن فاعِلُن فاعِلُن فاعِلُن
212 212 212 212
اور
فاعِلُن فاعِلُن فاعِلُن فاعِلان
212 212 212 1212
اس عمل یعنی آخری رکن پر ایک ہجائے کوتاہ کے بڑھانے کے عمل کو 'تسبیغ' کہا جاتا ہے اور ابھی اس نعت بلکہ عربی، فارسی، اردو شاعری میں ہر جگہ آپ دیکھیں گے کہ عملِ تسبیغ ایک ایسا عمل یا رعایت ہے جس کے بغیر کسی شاعر کی شاعری مکمل نہیں ہوتی۔ منطق اس رعایت کی یہ ہے کہ ماہرین کے مطابق اس عمل سے وزن پر کوئی فرق نہیں پڑھتا لیکن شاعروں کو بہت فائدہ ہو جاتا ہے کہ اپنی مرضی کا لفظ آسانی سے لا سکتے ہیں، پھر واضح کر دوں کہ تسبیغ کا عمل کسی بھی بحر کے صرف اور صرف آخری رکن میں جائز ہے اور شروع یا درمیانی اراکین پر یہ جائز نہیں ہے فقط ایک استثنا کے ساتھ کہ 'مقطع' بحروں کے درمیان بھی اسکی اجازت ہوتی ہے لیکن ان بحروں پر تفصیلی بحث پھر کسی وقت انشاءاللہ۔
اب ہم تقطیع دیکھتے ہیں۔
مُصطفیٰ جانِ رحمت پہ لاکھوں سلام
شمعِ بزمِ ہدایت پہ لاکھوں سلام
مُص طَ فا - 212 - فاعلن
جا نِ رح - 212- فاعلن
مَت پہ لا - 212 - فاعلن
کو سَ لا م - 1212 - فاعلان (عملِ تسبیغ نوٹ کریں، اور یہ بھی کہ لاکھوں کے کھوں کو عروضی متن میں صرف 'کو' لکھا ہے وجہ یہ کہ نون غنہ اور دو چشمی ھ، دونوں کا عروض میں کوئی وزن نہیں ہوتا اور یہ ایک اصول ہے۔)
شَم عِ بز - 212 - فاعلن
مے ہِ دا - 212 - فاعلن (اشباع کا عمل نوٹ کریں یعنی شاعر نے بزمِ کی میم کے نیچے جو اضافت زیر ہے اس کو کھینچ کر 'مے' یعنی ہجائے بلند بنایا ہے کیونکہ بحر کے مطابق یہاں ہجائے بلند یا 2 کی ضرورت تھی)۔
یَت پہ لا - 212 - فاعلن
کو سَ لا م - 1212 - فاعلان (وہی وضاحت ہے جو اوپر گزری)۔
شہر یارِ ارَم، تاجدارِ حرَم
نو بہارِ شفاعت پہ لاکھوں سلام
شہ ر یا - 212 - فاعلن (شہر کا صحیح تلفظ ہ ساکن کے ساتھ ہے، اکثر لوگ اس کا غلط تلفظ شہَر کرتے ہیں)۔
رے اِ رَم - 212 - فاعلن (اشباع نوٹ کریں)۔
تا ج دا - 212 - فاعلن
رے حَ رَم - 212 - فاعلن (رے میں پھر اشباع نوٹ کریں)۔
نو بَ ہا - 212 - فاعلن
رے شِ فا - 212 - فاعلن (رے میں عملِ اشباع)۔
عت پہ لا - 212 - فاعلن
کو سَ لا م - 1212 - فاعلان (وہی وضاحت ہے جو اوپر گزری)۔
جس کے سجدے کو محرابِ کعبہ جھکی
ان بھؤں کی لطافت پہ لاکھوں سلام
جس کِ سج - 212 - فاعلن (اخفا کا عمل نوٹ کریں یعنی کے کی ی شاعر نے گرا دی ہے کہ یہاں پر بحر کے مطابق اسے ہجائے کوتاہ کی ضرورت تھی)۔
دے کُ مح - 212 - فاعلن (اخفا کا عمل نوٹ کریں)۔
را بِ کع - 212 - فاعلن
بہ جُ کی - 212 - فاعلن
ان بَ ؤ - 212 - فاعلن (دو چشمی ھ کا کوئی وزن نہیں اور ؤ کو ہجائے بلند یا ہجائے کوتاہ سمجھنا شاعر کی صوابدید ہے یہاں شاعر نے اسے ہجائے بلند باندھا ہے کہ بحر کا یہی تقاضہ تھا)۔
کی لِ طا - 212 - فاعلن
فَت پہ لا - 212 - فاعلن
کو سَ لا م - 1212 - فاعلان
وہ دہن جس کی ہر بات وحیِ خدا
چشمۂ علم و حکمت پہ لاکھوں سلام
وہ دَ ہن - 212 - فاعلن
جس کِ ہر - 212 - فاعلن (کی میں اخفا کا عمل)۔
با ت وح - 212 - فاعلن
یے خُ دا - 212 - فاعلن (عمل اشباع)۔
چش مَ اے - 212 - فاعلن (ہمزۂ اضافت کو اے تلفظ کر کے ایک ہجائے بلند بنایا ہے کہ بحر میں اسی کی ضرورت تھی)۔
عل م حک - 212 - فاعلن (علم و حکمت کی جو اضافت واؤ ہے شاعر نے اسکا کوئی وزن نہیں لیا اور یہ شاعر کی صوابدید ہے)۔
مَت پہ لا - 212 - فاعلن
کو سَ لا م - 1212 - فاعلان
وہ زباں جس کو سب کُن کی کنجی کہیں
اس کی نافذ حکومت پہ لاکھوں سلام
وہ ز با - 212 - فاعلن (نوٹ کریں کہ زبان کی جگہ شاعر نے زباں یعنی نون غنہ استعمال کیا ہے وجہ یہ کہ نون غنہ کا کوئی وزن نہیں ہوتا اگر یہاں زبان نون معلنہ کے ساتھ ہوتا تو وزن بگڑ جاتا)۔
جس کُ سب - 212 - فاعلن (کو میں عملِ اخفا)۔
کُن کِ کُن - 212 - فاعلن (کی میں عملِ اخفا)۔
جی کَ ہے - 212 - فاعلن
اُس کِ نا - 212 - فاعلن (کی میں عملِ اخفا)۔
فذ حَ کو - 212 - فاعلن
مَت پہ لا - 212 - فاعلن
کو سَ لا م - 1212 - فاعلان
کُل جہاں ملک اور جو کی روٹی غذا
اس شکم کی قناعت پہ لاکھوں سلام
کُل جَ ہا - 212 - فاعلن (کیا آپ بتا سکتے ہیں کہ شاعر نے جہان کی جگہ جہاں کیوں استعمال کیا ہے)۔
مل ک ار - 212 - فاعلن (اور کو ایک ہجائے بلند کے برابر یعنی ار یا 2 بنا لینا شاعر کی صوابدید ہے)۔
جو کِ رو - 212 - فاعلن (کیا آپ بتا سکتے ہیں کہ کس لفظ پر اخفا استعمال ہوا ہے اور کیوں)۔
ٹی غَ ذا - 212 - فاعلن
اس شِ کم - 212 - فاعلن
کی قَ نا - 212 - فاعلن
عَت پہ لا - 212 - فاعلن
کو سَ لا م - 1212 - فاعلان
سیّدہ ، زاہرہ ، طیّبہ ، طاہرہ
جانِ احمد کی راحت پہ لاکھوں سلام
سی یَ دہ - 212 - فاعلن (تشدید والا حرف دو بار بولا جاتا ہے سو تقطیع میں جس حرف پر تشدید ہوتی ہے اس کو دو بار لکھا جاتا ہے یعنی اسکا وزن ہوتا ہے جیسے یہاں ی پر تشدید ہے اور اسی سے وزن پورا ہوا ہے)۔
زا ہ را - 212 - فاعلن
طی یَ بہ - 212 - فاعلن (تشدید پھر نوٹ کریں)۔
طا ہ رہ - 212 - فاعلن
جا نِ اح - 212 - فاعلن
مد کِ را - 212 - فاعلن (اخفا)۔
حَت پہ لا - 212 - فاعلن
کو سَ لا م - 1212 - فاعلان

اس خوبصورت نعت کے کچھ اشعار کی تقطیع کے دوران ہم نے کئی چیزیں دیکھیں، سب سے پہلے تو یہی کہ بحر مُتَدارِک ایک مفرد بحر ہے جس میں رکن فاعِلُن کی تکرار ہے، پھر یہ کہ عملِ تسبیغ شاعری کا ایک لازمی جز ہے اور اخفا اور اشباع کا بھی اعادہ ہوا کہ ان کے بغیر بھی شاعری مکمل نہیں ہوتی۔
کسی وضاحت کی صورت میں ضرور لکھیئے گا۔

مزید پڑھیے۔۔۔۔

May 26, 2009

علم عروض اور تلفُّظ

تلفظ کی غلطی کوئی بھی کرے، اچھی نہیں لگتی لیکن عموماً اُدَبا و شعراء سے لوگ توقع رکھتے ہیں کہ یہ غلطیاں نہیں کریں گے اور کسی حد تک یہ بات ٹھیک ہے، کیونکہ کوئی بھی زبان ادیبوں اور شاعروں کے ہاتھوں ہی پروان چڑھتی ہے اور وہ ہی اسکے نگبہان بھی ہوتے ہیں۔ ادیبوں یا نثر نگاروں کو شاعروں کے مقابلے میں ایک چھُوٹ یہ ہوتی ہے کہ انکی تحریر کی جانچ ہمیشہ موضوعی یعنی subjective ہوتی ہے لیکن شعراء کے کلام یا منظومے کی ایک جانچ معروضی objective طور پر یعنی دو جمع دو چار کے کُلیے پر ہوتی ہے جسے تقطیع کہا جاتا ہے اور عام ماہرینِ فن کو فوری علم ہوجاتا ہے کہ شاعر نے کسی لفظ کو ادا کرنے میں کہاں غلطی کی ہے جب کہ دوسری طرف کوئی نثر نگار صرف اسی وقت پکڑا جا تا ہے جب وہ اپنی زبان کھولتا ہے۔
تَلَفُّظ کی غلطیاں عموماً دو طرح کی ہوتی ہیں، ایک وہ جن میں کسی حرکت کو غلط ادا کیا جائے جیسے بادَل کہ دال پر زبر ہے، اس کو بادِل دال کی زیر کے ساتھ بول دیا جائے اور دوسری وہ جن میں کسی ساکن حرف کی جگہ متحرک حرف بولا جائے جیسے صبر کہ اس میں بے ساکن ہے کو صبَر بولا جائے یا متحرک کی جگہ ساکن حرف ادا کیا جائے، جیسے غلَط کہ اس میں لام پر زبر ہے کو غلط لام ساکن کے ساتھ بولا جائے۔

اب ہم دیکھتے ہیں کہ ان دونوں طرح کی غلطیوں سے کسی منظومے یا شاعر کے کلام پر کیا فرق پڑ سکتا ہے۔

اول حرکت کا بدل دینا، شاعر کو کسی لفظ کے صحیح تلفظ کا علم ہو یا نہ، یہ غلطی اس وقت تک اسکے سر نہیں جاتی جب تک وہ خود کسی مشاعرے یا ویسے پڑھنے میں غلط تلفظ نہ ادا کرے۔ ہم دیکھ چکے ہیں کہ وزن دراصل ہجوں کی ترتیب کا نام ہے یعنی ہجائے بلند کی جگہ ہجائے بلند اور ہجائے کوتاہ کے مقابل ہجائے کوتاہ، یعنی کسی لفظ کی غلط حرکت ادا کرنے سے اسکے وزن پر فرق نہیں پڑتا۔ مثال کے طور پر لفظ بادل کو ہی دیکھتے ہیں، اسکا صحیح تلفظ بادَل اور وزن 2 2 ہے لیکن اگر کسی شاعر کو اسکے صحیح تلفظ کا علم نہیں ہے اور اس نے اپنی طرف سے اسے 'بادِل' باندھ دیا ہے تو وزن پر پھر بھی کوئی فرق نہیں پڑا کہ یہ بھی 22 ہے۔

لیکن فرض کریں کہ ایک شاعر ایک غزل کہتا ہے جسکے قوافی، محفِل، قاتِل، دِل وغیرہ ہیں، اس میں اگر وہ 'بادِل' غلط تلفظ کے ساتھ قافیہ باندھ دیتا ہے تو پھر اس کیلیے کوئی رعایت نہیں ہے یا بادل، آنچل، جنگل کے ساتھ محفِل کو محفَل سمجھ کر قافیہ باندھ دیتا ہے تو پھر یہ بھی ایک فاش غلطی ہے اور کوئی بھی قاری کسی شاعر سے اس چیز کی توقع نہیں رکھتا۔

دوسری طرف اگر ساکن اور متحرک کی جگہ بدل دی جائے تو زمین و آسمان زیر و زبر ہو جاتے ہیں، مثلاً صبر، ب ساکن کے ساتھ کا وزن صب،ر یعنی 2 1 ہے لیکن اسے صَ بَر باندھنے سے اسکا وزن 1 2 ہو جائے گا یعنی ہجوں کی ترتیب بدل جائے گی سو وزن نہیں رہے گا اور شاعر چاہے زبان کھولے یا نہ کھولے بہرطور 'پکڑا' جائے گا۔ اسی طرح اگر 'غَلَط' یعنی غَ لَط کو غل،ط باندھا جائے گا تو وزن پھر بدل جائے گا اور شعر پھر بے وزن ہو جائے گا۔

ان غلطیوں سے کیسے بچا جا سکتا ہے، بہت آسان ہے، اوّل تو آپ کے پاس ایک اچھی اردو لغت ہونی چاہیئے جس میں تلفظ واضح کیا گیا ہو، دوسرا یہ کہ جس لفظ کے تلفظ کے بارے میں ذرا بھی شک ہو اس کو اس وقت تک شاعری میں استعمال نہ کریں جب تک اس کی کوئی سند نہ حاصل کر لیں یعنی جب تک اسے معیاری لغت میں نہ دیکھ لیں یا کسی استاد شاعر کے کلام میں تقطیع کر کے اس کا صحیح وزن نہ معلوم ہو جائے۔ ویسے عرض کرتا چلوں کہ تقطیع کا ایک ضمنی فائدہ یہ بھی ہے کہ اس سے الفاظ کے صحیح تلفظ کا علم ہو جاتا ہے کم از کم ساکن اور متحرک حروف کی حد تک۔ رومن حروف میں اردو لکھنے سے مجھے چڑ ہے بلکہ نفرت ہے لیکن اسکا ایک فائدہ ایسا ہے کہ عرصے سے میں اسکا قتیل ہوں اور مستند رومن اردو لکھی ہوئی اگر کہیں مل جائے تو کوشش ضرور کرتا ہوں پڑھنے کی کہ اس سے تلفظ بالکل واضح اور صاف ہو جاتا ہے اس پر طرہ یہ ہے کہ اگر کسی کو دو چار پیرے اگر رومن اردو میں لکھنے پڑ جائیں تو 'لگ پتا جاتا ہے' کیونکہ اس میں غلطی فوری پکڑی جاتی ہے، مثلا ایک فورم کی ڈومین میں نے alqalm لکھی دیکھی ہے جو کہ سراسر غلط ہے یہ ان کی کوئی 'مجبوری' بھی ہو سکتی ہے لیکن بہرحال اس پائے کے فورم پر ایسی غلطی نہیں ہونی چاہیئے۔

ایک عام بات جو میرے مشاہدے میں آئی ہے کہ پاکستانی احباب بالعموم اور پنجابی احباب بالخصوص ان مختصر الفاظ کے تلفظ میں غلطی کرتے ہیں جن میں دوسرا حرف ساکن ہے۔

جیسے یہ الفاظ، برف، گرم، نرم، شرم، جُرم، سرد، فرد، مرد، صبر، قبر، جبر، حشر، لطف، حمل، وزن، علم (جاننا)، عقل، عرش، فرش، سبز، سرخ، زرد وغیرہ وغیرہ

کہ ان سب میں دوسرا حرف ساکن ہے لیکن عموماً ہمیں اپنے ارد گرد (اور میڈیا پر بھی) انکا غلط تلفظ دوسرے حرف پر زبر کے ساتھ سننے کو ملتا ہے جو کہ طبعِ لطیف پر بہت گراں گزرتا ہے اور شعر میں اس قسم کی غلطی ہونا تو ناقابلِ معافی ہے، اساتذہ ایسے موقعے اصلاح دیتے ہیں کہ برخوردار پہلے کچھ اور مطالعہ کر لو اور بزرگوں کی صحبتوں سے فیضیاب ہو لو تو پھر شاعری کرنا، لیکن یہ بات فقط کہنے کی حد تک ہے، تھوڑے سے تردد اور تھوڑی سی 'کامن سینس' سے ہر مشکل کا حل مل جاتا ہے۔
----

مزید پڑھیے۔۔۔۔

May 23, 2009

علمِ عروض، ہجے بنانا یا وزن پورا کرنا

کافی غیر شاعرانہ سا عنوان اور کام ہے 'ہجے بنانا یا وزن پورا کرنا'، لیکن یقین مانیے دنیا میں کسی شاعر کا کام اسکے بغیر نہیں چلتا، ہر شاعر اپنی مرضی کے ہجے بناتا ہے اور ان سے وزن پورا کرتا ہے۔ جیسا کہ ہم دیکھ چکے کہ ہجے دو طرح کے ہوتے ہیں دو حرفی یا ہجائے بلند اور یک حرفی یا ہجائے کوتاہ (ان کو بار بار میں اس لیے لکھتا ہوں کہ یہی کلید ہے علمِ عروض کی اور انہی کی ترتیب ہی وزن ہے اور انہی کے پیٹرن بحریں)، سو ان دو طرح کے ہجوں کے علاوہ بھی کوئی ہجا ہو سکتا ہے، ہوتا نہیں ہے لیکن سمجھا جا سکتا ہے۔ اور یہ شاعروں کی سب بڑی صوابدید ہے کہ وہ متعین اور مخصوص الفاظ کو چند اصولوں کے تحت چاہے تو ہجائے کوتاہ سمجھے یا ہجائے بلند، کسی کو اس پر اعتراض نہیں ہوگا۔

یہ عمل دو طرح کا ہوتا ہے، ایک یہ کہ آپ کسی ہجائے بلند میں سے کوئی لفظ گرا کر اسے ہجائے کوتاہ بنا لیں اور دوسرا یہ کہ آپ کسی ہجائے کوتاہ پر کوئی حرف بڑھا کر اسے ہجائے بلند بنا لیں۔

دراصل، علمِ عروض میں صوتیات کا بھی بہت عمل دخل ہے، ایک مثال دیکھتے ہیں، لفظ میرَا یعنی مے را یعنی 22، اب اگر اس لفظ کا آخری حرف یعنی الف گرا دیا جائے تو باقی کیا رہے گا، میرَ، اس کو آپ تلفظ ویسے ہی کریں گے جیسے میرا ہے لیکن نوٹ کریں کہ اسکے ہجے کم ہو گئے ہیں پہلے اگر یہ 22 یا دو ہجائے بلند تھا تو اب یہ 2 1 یا ایک ہجائے بلند اور ایک ہجائے کوتاہ ہو گیا ہے، اور اسی کا نام اخفا ہے اور عرفِ عام میں اسے 'گرانا' کہا جاتا ہے۔

اب ایک اور مثال دیکھتے ہیں، مثلاً لفظ 'گُلِ سرخ' اس میں گُلِ کے ہجے یا وزن گُ لِ یا 11 ہے لیکن اس کا تلفظ کیا ہوتا ہے گُ لے یعنی 1 2 اور اب وزن بدل گیا ہے گو تلفظ ہر دو صورتوں میں ایک ہی ہے۔ اس میں شاعر نے یہ کیا کہ لام کی اضافت کو جو کہ اصل میں ایک ے کی آواز نکال رہی ہے کو کھینچ لیا یا بڑھا لیا اور اسے اشباع کہا جاتا ہے۔

اخفا اور اشباع، یہ دونوں ایسے عمل ہیں جن سے دراصل تلفظ پر تو فرق نہیں پڑتا لیکن وزن پر فرق ضرور پڑتا ہے اور اس بات کو شاعر کی صوابدید پر چھوڑا جاتا ہے کہ وہ مخصوص قوانین کے تحت مخصوص الفاظ پر اخفا اور اشباع کا عمل کر سکتا ہے اور بحر کے مطابق جہاں اسے ہجائے بلند یا ہجائے کوتاہ کی ضرورت ہو ان کو مطلوبہ ہجا بنا لے۔ یہ ایک ایسی رعایت ہے کہ شاعر حضرات اس کا خوب فائدہ اٹھاتے ہیں، ناقدین چپ رہتے ہیں کہ تلفظ تو بدلا نہیں اور 'عروضیوں' پر فرض ہوجاتا ہے کہ شاعر کی عظمت کو سلام کریں۔

ان مخصوص قوانین کا قصہ طول طلب ہے مختصراً یہ کہ حروفِ علت یعنی الف، واؤ اور یا کو لفظ کے آخر سے گرایا جا سکتا ہے اور اسکے ساتھ ساتھ ہائے غیر ملفوظی یعنی وہ ہ جو بولنے میں نہیں آتی جیسے بچہ یا رفتہ یا کشتہ وغیرہ اس کو بھی بلا تکلف گرایا جا سکتا ہے۔ اشباع عموماً تمام اضافتوں میں جائز ہے، تفصیل نیچے آتی ہے۔

ایک بات یہ کہ ہر وہ ہجا جسے کوتاہ یا بلند سمجھا جا سکتا ہے اس کو x سے ظاہر کیا جا رہا ہے، اسے میں نے Prof. Frances W Pritchett کی علمِ عروض پر خوبصورت کتاب A Practical Handbook of Urdu Meter میں دیکھا تھا اور یہ طریقہ انتہائی کارگر اور مفید ہے یعنی x کو آپ 1 یا 2 سے بدل سکتے ہیں۔ اب کچھ وہ الفاظ جن کو گرایا جا سکتا ہے۔

میرا - 2 x

اور بالکل اسی طرح میری، میرے، تیرا، تیری، تیرے۔

مرا - x 1

بالکل اسی طرح مری، مرے، ترا، تری، ترے کا وزن ہے۔

کا، کی، کے سب کا وزن x ہے۔

سے، ہے، ہیں، جو، کو، دو سب کا وزن x ہے۔

کوئی اور ہوئی - xx یعنی چاہے تو دنوں ہجوں کو بلند 22 سمجھیں یا دونوں کو کوتاہ 11 یہ پہلے کو بلند اور دوسرے کو کوتاہ یعنی 2 1 یا پہلے کو کوتاہ اور دوسرے کو بلند یعنی 1 2 سمجھیں۔

ہوا - 1 x

کیسے اور جیسے - 2 x

اور - چاہے تو اسے او،ر یا 2 1 سمجھیں یا فقط 2۔

دروازہ یعنی x22

زندہ - x2

وغیرہ وغیرہ

دراصل ان الفاظ کو سمجھنے میں صرف شروع میں مشکل پیش آتی ہے، جب مشق ہو جاتی ہے تو خود بخود علم ہو جاتا ہے کہ کون سے لفظ کو گرانا ہے اور کس کو نہیں۔

اور کچھ ذکر اشباع یا کسی ہجے کو کھینچ کر اسکا وزن تبدیل کرنے کا۔

سب سے پہلے تو اضافت زیر، ایک مثال اوپر گزری، ایک اور دیکھیئے، شبِ تنہائی اسکا اگر وزن کریں تو

شَ ا، بِ 1، تن2، ہا2، ئی2 یعنی 22211 لیکن اضافت زیر پر اشباع کے عمل سے بِ کو بے سمجھ کر ہجائے کوتاہ کو ہجائے بلند بنا لیا یعنی

شبِ تنہائی x1۔ 222

گویا x کی جگہ شاعر اپنے مطلب کا ہجا لا سکتا ہے۔

اضافت واؤ، جیسے گل و بلبل میں۔ یہ بھی ایک خصوصی اضافت ہے شاعر کی مرضی ہے کہ اس واؤ کا کوئی وزن سرے سے سمجھے ہی نہ یا پچھلے ہجے سے ملا کر ایک بلند ہجا حاصل کر لے یا واؤ کو پیش سے بدل کر پچھلے ہجے کو ہجائے کوتاہ بنا لے یعنی

گل و بلبل

یا

گل بل بل

222

گُ لُ بل بل

2211
یا

گُ لو بلبل

2221

ہمزۂ اضافت کا اصول یہ ہے کہ اسکا وزن تو ضرور ہے لیکن شاعر کی مرضی ہے کہ کوتاہ سمجھے یا بلند۔

فی الحال اس موضوع کو یہاں چھوڑ رہا ہوں کہ گرمی کچھ کام نہیں کرنے دے رہی، ہاں ایک عملی مثال اسی اپنی پہلے سبق کی بحر بلکہ غالب کی اسی غزل سے۔

نکلنا خلد سے آدم کا سنتے آئے ہیں لیکن
بہت بے آبرو ہو کر ترے کوچے سے ہم نکلے

کیا آپ بتا سکتے ہیں کہ غالب نے کہاں کہاں الفاظ گرائے ہیں، چلیں اس شعر کو میں 'حل' کر دیتا ہوں لیکن براہِ مہربانی اس غزل کے دیگر اشعار پر خود مشق ضرور کریں۔

نِ کَل نا خل - 2221 - مفاعیلن
د سے آ دم - 2221 - مفاعیلن
کَ سن تے آ - 2221 - مفاعیلن - کا کا الف غائب
ء ہے لے کِن - 2221 - مفاعیلن - ئے کی ی گم، ہیں کے نون غنہ کا کوئی وزن نہیں۔

ب ہت بے آ - 2221 - مفاعیلن
ب رُو ہو کر - 2221 - مفاعیلن
تِ رے کو چے - 2221 - مفاعیلن، تیرے کو ترے لکھنا غالب کی مجبوری تھی نا کہ کوئی شاعرانہ اپچ۔
سِ ہم نکلے - 2221 - مفاعیلن، سے کی یے کہاں ہے ڈھونڈیے۔


مزید پڑھیے۔۔۔۔

May 8, 2009

علمِ عروض - کچھ اصول اور شاعرانہ صوابدید

اس موضوع پر یہ دوسری تحریر ہے، آپ نے اگر پہلی تحریر نہیں پڑھی تو آپ سے استدعا ہے کہ اس تحریر کو بہتر سمجھنے کیلیے پہلی تحریر پر بھی ایک نظر ڈال لیں

ہجّے دو طرح کے ہوتے ہیں، ہجائے بلند یا دوحرفی ہجا اور ہجائے کوتاہ یا یک حرفی ہجا اور ان کو بالترتیب 2 اور 1 سے ظاہر کیا جا سکتا ہے لیکن کچھ 'خصوصی ہجے' بھی ہوتے ہیں جن کو شاعر کی صوابدید پر چھوڑا جاتا ہے کہ وہ اسے ہجائے بلند سمجھے یا ہجائے کوتاہ۔ کیوں؟ اس کیلیے ہمیں کچھ وزن اور بحروں وغیرہ پر تھوڑا سا مزید کام کرنا پڑے گا۔ اور کچھ تقطیع یا علمِ عروض کے اصول ہیں جن کو بدلا نہیں جا سکتا، اسکی مثالیں بھی آگے آ رہی ہیں۔

پچھلی تحریر میں ہم نے دیکھا تھا کہ 'سبق پہلا' جسے ہجوں میں 2221 میں ظاہر کیا جا سکتا ہے دراصل علمِ عروض میں ایک وزن ہے جسے 'مفاعیلن' کہا جاتا ہے۔ اسی مفاعیلن کو اگر ایک مصرعے میں ہم چار بار دہرائیں تو اس سے ایک بڑی خوبصورت بحر بنتی ہے جسے 'بحر ہزج' کہا جاتا ہے۔ اب یہاں ایک بار بار پھر میں اصطلاحات اور انکے مطلب وغیرہ کو کسی 'اچھے' وقت کیلیے چھوڑتا ہوں، فی الحال اہم بات یہ ہے کہ مفاعیلن کو ایک مصرعے میں چار بار دہرانے سے ایک بحر کا وزن حاصل ہوتا ہے، تھوڑا سا غور کرنے کی ضرورت ہے۔

مفاعیلن مفاعیلن مفاعیلن مفاعیلن
یا علامتوں میں
2221 2221 2221 2221

یا اگر یہ بھی مشکل ہے تو وہی ہمارا پرانا سبق یعنی
سبق پہلا، سبق پہلا، سبق پہلا، سبق پہلا
واہ واہ واہ، میاں وارث کیا خوب مصرعہ لکھا ہے اس پر گرہ تو لگاؤ ذرا۔
گرہ، حضرت وہ کیا ہوتی ہے۔
اسی وزن میں ایک اور مصرعہ تو کہو بھئی۔
لو جی یہ کیا مشکل ہے، ابھی لو
ملا ہم کو، ملا ہم کو، ملا ہم کو، ملا ہم کو
واہ واہ، کیا خوبصورت شعر ہے

سبق پہلا، سبق پہلا، سبق پہلا، سبق پہلا
ملا ہم کو، ملا ہم کو، ملا ہم کو، ملا ہم کو

محترم قارئین، آپ نے دیکھا کہ کیسے کچھ الفاظ مل کر ایک شعر بن گئے اور بالکل وزن میں، اوپر دیئے گئے خود ساختہ شعر کو اگر آپ ہجوں میں توڑیں تو نوٹ کریں گے کہ ہجائے کوتاہ اور بلند دونوں ایک ہی ترتیب سے ایک دوسرے کے مقابل آ رہے ہیں اور ہم نے دیکھا تھا کہ یہی وزن ہے۔ اب اس فضول شعر پر لعنت ڈالتے ہیں اور قبلہ و کعبہ مرشدی، خلد آشیانی، میرزا اسد اللہ خان نوشہ کا ایک شعر دیکھتے ہیں۔

ہزاروں خواہشیں ایسی کہ ہر خواہش پہ دم نکلے
بہت نکلے مرے ارمان لیکن پھر بھی کم نکلے

میرا خیال ہے کہ آپ بہت کچھ سمجھ رہے ہونگے، جی ذرا اس کو ہجوں میں توڑنے کی کوشش تو کریں۔ مشکل ہے، چلیں جی میرے ساتھ ہی سہی۔

ہزاروں یعنی ہَ زا روں
اب اس کو اگر علامتوں مین لکھیں تو ہَ 1، زا 2، رو 2

لیکن بھائی نون غنہ کدھر گیا تو یاد رکھنے کا ایک اصول، نون غنہ کا تقطیع یا شعر میں کوئی وزن نہیں ہوتا۔ کیوں اس کو گولی ماریئے کہ میں کہیں اور نکل جاؤنگا پھر کبھی سہی۔ اسکے مقابل نون معلنہ یعنی جسکا اعلان کیا جاتا ہے جیسے 'جہان' میں، تو اسکا وزن ہوتا ہے لیکن غنہ جیسے 'جہاں' میں اسکا وزن نہیں ہوتا۔

خواہشیں - یعنی خوا ہِ شیں
لیکن کیا خواہش میں واؤ بولی جاتی ہے، نہیں تو پھر صرف یہ نمائشی ہے اور تقطیع یا شعر میں وہ واؤ جو بولنے میں نہیں آتی اور جسے واؤ معدولہ کہا جاتا ہے، کوئی وزن نہیں رکھتی۔ اور یہ بھی ایک اصول ہے یعنی
خواہشیں یعنی خا ہِ شے یعنی 2 1 2
شعر میں اگلا لفظ 'ایسی' یعنی اے سی یعنی 22۔
اگلا لفظ 'کہ'، کہ کا مسئلہ تھوڑا ٹیرھا ہے، روایتی ماہرین کہتے ہیں کہ 'کہ' کو ہجائے کوتاہ یعنی 1 سمجھنا ایک اصول ہے جسے بدلا نہیں جا سکتا لیکن کچھ 'نرم دل، مہربان اور جدید' ماہرینِ فن کہتے ہیں کہ اس کو اصول نہیں شاعر کی صوابدید پر چھوڑنا چاہیئے کہ چاہے اسے ہجائے کوتاہ سمجھے یا ہجائے بلند کہ 'کہ' بھی دو حرفوں سے مل کر بن رہا ہے یعنی ک اور ہ۔ خاکسار کا شمار موخر الذکر میں ہوتا ہے، ماہرین میں نہیں بلکہ 'کہ' کو شاعر کی صوابدید پر چھوڑنے کیلیے۔ لیکن یہ فقط کسی 'نئے شاعر' کیلیے ہے، اپنی شاعری میں میری کوشش یہی ہوتی ہے کہ کسی اصول کو چاہے وہ کتنا فرسودہ ہی کیوں نہ ہو، توڑا نہ جائے۔ سو کہ برابر ہے 1 کے۔
شعر میں اگلا لفظ 'ہر، - واہ جی واہ آپ تو بہت جلد سمجھ گئے کہ یہ 2 ہے جبکہ کسی بھی 'ہر' کو سمجھنا اتنا آسان نہیں ہے جتنا آپ سمجھ رہے ہیں۔
اگلا لفظ - خواہش یعنی خا ہش یعنی 2 2
اگلا لفظ 'پہ' ۔ ایک اور اصول، پہ ہجائے کوتاہ یا 1 ہے بظاہر یہ دوحرفوں ہی سے مل کر بنا ہے۔
اگلا لفظ 'دم' جی 2 ہے۔
اور نکلے جی یہ نک اور لے یعنی 2 2 ہے۔
پھر دیکھیئے

ہزارو - 221
خاہشے - 212
ایسی - 22
کہ - 1
ہر - 2
خاہش - 22
پہ -1
دم - 2
نکلے - 22

اب مصرعے کو پھرلکھتے ہیں اور اسکے نیچے ہر لفظ کی علامت یعنی

ہزاروں/ خواہشیں/ ایسی/ کہ/ ہر/ خواہش/ پہ/ دم/ نکلے
22/2/1/22/2/1/22/212/221
کیا آپ اس ترتیب میں کسی پیٹرن کو دیکھ سکتے ہیں، چلیں دیکھتے ہیں
2221/2221/2221/2221
یہ پیٹرن کچھ جانا پہچانا سا نہیں لگ رہا؟
2221/2221/2221/2221
سبق پہلا/ سبق پہلا/سبق پہلا/ سبق پہلا
ملا ہم کو/ملا ہم کو/ملا ہم کو/ملا ہم کو
مفاعیلن/مفاعیلن/مفاعیلن/مفاعیلن
ہزاروں خوا/ہشیں ایسی/کہ ہر خواہش/پہ دم نکلے
2221/2221/2221/2221
تھوڑا سا مشکل مرحلہ ہے لیکن انتہائی اہم، وزن یہ نہیں ہے کہ ہر لفظ کے مقابل اس جیسا دوسرا لفظ آئے بلکہ وزن یہ ہے کہ ہر ہجائے بلند کے مقابل ہجائے بلند اور ہر ہجائے کوتاہ کے مقابل ہجائے کوتاہ آئے۔ پھر دیکھیں
ہزاروں خوا، مفاعیلن کے مقابل آ رہا ہے، یعنی شعر میں ایک لفظ مکمل یعنی ہزاروں اور ایک ٹوٹا ہوا لفظ 'خوا'، بحر کے وزن مفاعیلن کے برابر آ رہا ہے، یعنی ضروری نہیں کے بحر کے وزن کے مقابل شعر کا مکمل لفظ آئے بلکہ ضروری یہ ہے کہ وزن میں ہجائے کوتاہ کے مقابل ہجائے کوتاہ اور ہجائے بلند کے مقابل ہجائے بلند آئے اور وہ بالکل آ رہا ہے یعنی
مفاعیلن
یا
م فا عی لن
یا
2 2 2 1
یا
ہَ زا رو خا
اسی طرح اگلا رکن
مفاعیلن
یا
2 2 2 1
ہِ شے اے سی
اور اگلا رکن
مفاعیلن
2221
کہ ہر خا ہش
اور
مفاعیلن
2221
پ دم نک لے
پھر دیکھیئے

ہزاروں خواہشیں ایسی کہ ہر خواہش پہ دم نکلے
ہزارو خا/ہ شے اے سی/کہ ہر خا ہش/پہ دم نک لے
مفاعیلن/مفاعیلن/مفاعیلن/مفاعیلن
2221/2221/2221/2221

تو گویا 'ہزاروں خواہشیں ایسی کہ ہر خواہش پہ دم نکلے' میں آپ نے ایک پیٹرن ڈھونڈ لیا، اور دراصل پیٹرن کا نام ہی بحر ہوتا ہے۔
اب اگلا مصرع، مختصراً
بُ ہَت نکلے - مفاعیلن - 2221
مرے ارما - مفاعیلن - 2221
یاد رکھنے کہ ایک بات اگر 'میرے' لکھا جاتا یعنی 'یا' کے ساتھ تو یہ مے رے یعنی 22 ہوتا لیکن پیٹرن کے مطابق یہاں پر شاعر کو 21 چاہیئے تھا یعنی پہلے ہجائے کوتاہ اور پھر ہجائے بلند سو اس نے 'مرے' یعنی 'یا' کے بغیر لکھ کر اس کو 21 بنا لیا اور یہ بھی ایک شاعرانہ صوابدید ہے کہ میرے، مرے، تیرے، ترے، میرا، مرا، تیرا، ترا وغیرہ الفاظ کو شاعر اپنی ضرورت کے مطابق لا سکتا ہے اور میری کم عقلی یہ کہ میں ہمیشہ یہی سمجھتا رہا کہ شاعر 'میرے' کو ' مرے' شاعرانہ 'ٹچ' کیلیے لکھتے ہیں وہ تو بعد میں سمجھ آیا، جیسے آج آپ کو، کہ یہ تو ان بیچاروں کی ایک بہت بڑی مجبوری ہوتی ہے۔

ن لے کن پر - مفاعیلن - 2221
ایک اصول یہ کہ دو چشمی ھ کا کوئی وزن نہیں ہوتا سو 'پھر' ایسے ہی ہے جیسے 'پر' یعنی فقط ایک ہجائے بلند یا 2۔
بِ کم نکلے - مفاعیلن - 2221
بھئی یہ 'بھی' کی دو چشمی ھ تو مانا کہ گنی نہیں جائے گی لیکن اسکی 'ی' کون کھا گیا۔ سو عرض ہے کہ یہ بھی ایک شاعرانہ صوابدید ہے کہ وہ کچھ الفاظ کے آخر میں جو حرفِ علت یعنی الف، واؤ اور ی ہوتا ہے اس کو گرا سکتا ہے اپنی ضرورت پوری کرنے کیلیے، یہ چونکہ ایک طول طلب قصہ ہے سو کسی اگلی پوسٹ میں انشاءاللہ۔ فقط یہ یاد رکھیں کہ شاعر نے یہاں ہجائے کوتاہ پورا کرنے کیلیے ایک ہجائے بلند کے آخری حرف کو گرا کر اسے ہجائے کوتاہ بنا لیا ہے۔
پھر دیکھیں
بہت نکلے مرے ارمان لیکن پھر بھی کم نکلے
بہت نک لے/مرے ارما/ن لے کن پر/بِ کم نک لے
مفاعیلن/مفاعیلن/مفاعیلن/مفاعیلن
2221/2221/2221/2221


اب اگر آپ دونوں مصرعوں کو بیک وقت دیکھیں

ہزاروں خواہشیں ایسی کہ ہر خواہش پہ دم نکلے

بہت نکلے مرے ارمان لیکن پھر بھی کم نکلے

لیکن بس بھئی اب اسی شعر کی خود تقطیع کرنے کی کوشش کریں اور مزید مشق کیلیے اسی غزل کے باقی اشعار کی بھی۔ جن احباب کو غالب پسند نہیں ہے وہ اس کیلیے اقبال کی طرف رجوع کر سکتے ہیں۔ بانگِ درا کی مشہور و معروف نظم 'طلوعِ اسلام' اسی بحر میں ہے، اور اسکا یہ شعر تو ہر کسی کو یاد ہی ہوگا۔

سبق پھر پڑھ صداقت کا، عدالت کا، شجاعت کا

لیا جائے گا تجھ سے کام دنیا کی امامت کا

اور جن احباب کو غالب اور اقبال دونوں سے کوئی شغف نہیں ہے وہ محمد رفیع کے اس سدا بہار اداس گانے کی ذرا تقطیع کرنے کی کوشش کریں۔

بھری دنیا میں آخر دل کو سمجھانے کہاں جائیں

محبّت ہو گئی جن کو وہ دیوانے کہاں جائیں

اور جو احباب بحر ہزج کی کچھ مزید غزلیات اور انکی تقطیع دیکھنا چاہیں وہ موضوعات اور ٹیگز کے تحت 'بحر ہزج مثمن سالم' کا ٹیگ دیکھیں کہ ہماری مذکورہ بحر کا مکمل نام یہی ہے۔

اور ایک بات جو انتہائی اہم ہے کہ اس علم میں 'مشق' کی بہت ضرورت ہے بالکل اسی طرح جس طرح ریاضی کے سوال حل کیئے جاتے ہیں، قلم و قرطاس سے ہمارا رشتہ تو ٹوٹ چکا اور ماؤس اور کی بورڈ سے نیا رشتہ استوار ہوا لیکن یقین مانیئے جو لطف کاغذ اور قلم میں ہے وہ اس برقی بلخ اور بخارے میں نہیں۔


مزید پڑھیے۔۔۔۔

May 7, 2009

علمِ عروض اور ہجّے

پچھلے دنوں اپنے بیٹے کو اردو الفاظ کے ہجّے یاد کرنے کی مشقت کرتے ہوئے دیکھ کر اپنے بھولے بسرے تیس سالہ پرانے دن یاد آ گئے جب میں اسی کی عمر کا تھا اور اسی طرح اردو ہجّوں کے ساتھ پنجابی میں 'کُشتی' کیا کرتا تھا، الف زیر سین اِس، لام زبر الف لا، میم ما 'قُف' اسلام، مجھے آج تک علم نہیں ہو سکا کہ یہ جو ہر لفظ کے آخر میں ہمارے اساتذہ 'قُف' لگا دیتے تھے وہ کیا بلا ہے شاید 'موقوف' ہو۔


جملۂ معترضہ کا تحریر میں آ جانا کوئی بری بات نہیں ہے لیکن نہ جانے میری تحاریر میں یہ آغاز میں کیوں در آتا ہے کہ اصل بات کی طرف قاری کا دھیان ہی نہیں جاتا، جیسا کہ پچھلے دنوں ایک رباعی بلاگ پر لکھنی تھی لیکن خواہ مخواہ اسکے آغاز میں ایک پیوند لگا دیا، بلاگ تو بلاگ اردو محفل پر بھی چند ایک احباب کے سوا سبھی نے رباعی کی بجائے پیوند پر بات کی۔ ڈر رہا ہوں اس بات سے کہ لکھنا کچھ عروض پر چاہ رہا ہوں اور بات پھر اپنی ایک یاداشت سے شروع کر دی ہے کہیں رباعی والا حشر ہی نہ ہو۔ اس ڈر کی کئی ایک وجوہات ہیں، علمِ عروض دراصل ایک 'ہوا' ہے جس سے عام قاری تو بدکتا ہی ہے اچھے خاصے شاعر بھی بدکتے ہیں، نہ جانے کیوں۔


دراصل شعر کہنے کا عمل تین حصوں پر مشتمل ہے، شعر کہنا، شعر بنانا اور شعر توڑنا اور انکی ترتیب اس ترتیب سے بالکل الٹ ہے جس ترتیب سے میں نے انہیں لکھا ہے، اور وجہ یہ کہ ہر شاعر فوری طور پر شعر کہنے پر پہنچتا ہے اور بے وزن شعر کہہ کر خواہ مخواہ تنقید کا سامنا کرتا ہے، حالانکہ یہ سارا عمل، ایک شاعر کیلیے، شعر توڑنے سے شروع ہوتا ہے، جب کسی کو شعر توڑنا آ جاتا ہے تو ایک درمیانی عرصہ آتا ہے جس میں وہ شعر 'بناتا' ہے اور اسی کو مشقِ سخن کہا جاتا ہے اور جب کسی شاعر کو شعر کہنے میں درک حاصل ہو جاتا ہے تو پھر وہ جو شاعری کرتا ہے اسی کو صحیح معنوں میں 'شاعری' کہا جاتا ہے پھر اسکے ذہن میں شعر کا وزن نہیں ہوتا بلکہ خیال آفرینی ہوتی ہے۔


اب شعر توڑنا جسے علمِ عروض کی اصطلاح میں تقطیع کرنا کہا جاتا ہے، اور تقطیع کا مطلب بذاتِ خود قطع کرنا، پارہ پارہ کرنا، ٹکڑے کرنا ہے، وہی عروض کی کلید ہے، کنجی ہے، اگر کسی کو شعر توڑنا یا تقطیع کرنا آ گیا تو یوں سمجھیں کہ اسے شعر بنانا بھی آ گیا اور بنانے کے بعد یقیناً اگلا مرحلہ شعر کہنا بہت دور نہیں ہے۔


لیکن تقطیع پر لکھنے سے پہلے مجھے بہتر معلوم ہو رہا ہے کہ علمِ عروض پر بھی کچھ عرض کر دوں کہ عروض ہے کیا اور یہ کیوں ضروری ہے۔ شاعری کی ابتدا بہت پرانی ہے شاید اتنی ہی پرانی جتنی بولنے کی یا تحریر کی لیکن علم عروض کی تاریخ پہلی صدی ہجری یعنی کوئی تیرہ چودہ سو سال سے ہے، یہاں یہ وضاحت بھی ضروری ہے کہ علمِ عروض سے میری مراد، اس تمام تحریر اور آئندہ تحاریر میں، انشاء اللہ بشرطِ زندگی و فرصت و صحت، عربی و فارسی و اردو علمِ عروض ہے۔ دنیا کی ہر زبان میں شاعری کو 'جانچنے' کا اپنا ایک طریقہ ہے لیکن عربی، فارسی، اردو، سنسکرت، ہندی، پنجابی، سندھی اور برصغیر کی دیگر زبانوں میں عروض کا 'ہجّائی نظام' ہے یعنی یہ ہجّوں پر مشتمل ہے۔ عروض کی تاریخ سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ شاعری علمِ عروض کو سامنے رکھ کر نہیں کی جاتی بلکہ علمِ عروض سے صرف شاعری کو جانچا جاتا ہے، ناپا جاتا ہے اور اس علم کی ایجاد سے پہلے جو شاعری تھی اس کو سامنے رکھ کر ہی اس علم کے اصول و ضوابط مقرر کیے گئے تھے، اور اب ان اصولوں پر عمل کرنا گویا شاعروں پر فرض سا ہو گیا ہے۔

دنیا کی کسی بھی زبان کا کوئی بھی لفظ، ہجّوں یا جسے انگریزی میں 'سیلیبلز' کہا جاتا ہے، سے مل کر بنتا ہے اور یہی علمِ عروض کی کلید ہے، لفظ حرفوں سے بنتا ہے اور الفاظ کی ایک خاص ترتیب سے بحر بن جاتی ہے اور غزل یا نظم کے ہر شعر میں اس ترتیب کو برقرار رکھنا، بس اتنا سا کام ہے جس سے کوئی بھی کلام موزوں یعنی با وزن یا شاعری کہلواتا ہے۔ اب اس ساری بات میں 'ہجّے' کو مرکزی اہمیت حاصل ہے، ہجّے کو آپ یوں سمجھیں جیسے یہ ایٹم ہے اور اسی بنیاد پر ساری شاعری کی عمارت کھڑی ہے۔

ایک وضاحت یہاں ضروری ہے، انیسویں صدی تک عربی، فارسی اور اردو نظامِ عروض متحرک اور ساکن کے گورکھ دھندے پر مشتمل تھا جس میں بے شمار خامیاں تھیں، ان خامیوں کا علمِ عروض کے سب ماہرین کو علم تھا لیکن بجائے انکے دور کرنے کے انہوں نے اس علم کو مزید مشکل اور چیستان بنا دیا۔ تفصیلات کا میں یہاں متحمل نہیں ہو سکتا اور اسٹیفن ہاگنگ کو اس کے پبلشر کی طرف سے کی جانی والی نصیحت یاد ہے کہ 'اے بریف ہسٹری آف ٹائم" میں جتنی بھی مساوات لکھو گے ان میں سے ہر مساوات کتاب کی فروخت کو آدھی کر دے گی سو یہاں روایتی علمِ عروض کے نقائص کی بحث کو چھوڑتا ہوں، لیکن ہمیشہ کی طرح یورپی مستشرقین نے ان نقائص کو نہیں چھوڑا بلکہ علمِ عروض پر تحقیق کر کے ہجّائی یا اشاری نظام متعارف کیا جس سے اس علم کے سارے نقائص دور ہو گئے، ایرانی علماء و فضلاء نے بھی اس پر لبیک کہا بالخصوص ڈاکٹر پرویز ناتل خانلزی نے اپنی کتاب "فارسی عروض کی تنقیدی تحقیق اور اوزانِ غزل کے ارتقاء کا جائزہ" (اردو مترجم بذلِ حق محمود) میں اس پر سیر حاصل بحث کی ہے اور خوشی کی بات ہے کہ اب اردو ماہرینِ عروض بھی اس طرف توجہ کر رہے ہیں اور اپنی کتب میں روایتی نظام کے ساتھ ساتھ ہجائی یا اشاری نظام کو بھی جگہ دیتے ہیں۔ مستشرقین نے علمِ عروض کو، جو سراسر ریاضی کے اصولوں پر مشتمل ہے لیکن اس کو ریاضی کی علامات میں ظاہر نہیں کیا جاتا تھا، ریاضی کی عام علامتوں میں بھی ظاہر کیا اور یہ انکا ایک ایسا احسانِ عظیم ہے کہ جو تا قیامت ہم پر رہے گا کہ اس خاکسار کو اس علم کی کنہ یا کلید انہی علامتوں کی مدد سے سمجھ میں آئی تھی۔


اس طویل تمہید کے بعد، ہجّوں پر کچھ عرض کرتا ہوں، جیسا کہ اوپر لکھا، ہر لفظ ہجّوں میں توڑا جا سکتا ہے جیسے لفظ 'اسلام'، اس لفظ میں تین ہجّے ہیں، الف زیر سین اس، لام زبر الف لا اور میم ساکن یعنی اس، لا اور م، اسی طرح لفظ 'مسلمان'، اس میں چار ہجّے ہیں، یعنی میم پیش مو سین زبر لام سل، میم الف ما اور نون ساکن یعنی مُ سل ما ن، ان دو مثالوں سے ہمارے سامنے دو طرح کے ہجّے سامنے آ رہے ہیں، اور ہر لفظ انہی دو طرح کے ہجّوں پر مشتمل ہوتا ہے، ایک ہجا وہ ہے جو دو حرفوں پر مشتمل ہوتا ہے اور دوسرا ہجا وہ ہے جو صرف اور صرف ایک حرف پر مشتمل ہے، جیسے اسلام کے اس اور لا میں دو دو حرف ہیں اور اسی طرح مسلمان کے سل اور ما میں یعنی یہ دو حرفی ہجّا ہے جب کہ اسلام کا آخری میم یک حرفی ہجا ہے اسی طرح مسلمان کا مُ اور نون یک حرفی ہجے ہیں۔


یعنی ہر لفظ میں دو طرح کے ہجے ہوتے ہیں، دو حرفی اور یک حرفی، یقین مانیں کہ اگر کسی قاری کو کسی لفظ میں ہجوں کی پہچان ہو گئی اور یہ علم ہو گیا کہ کون سا ہجا یک حرفی ہے اور کون سا دو حرفی تو یوں سمجھیں کہ علم عروض کا جن آپ کے قبضے میں آ گیا۔ کچھ اور مثالیں دیکھتے ہیں۔


لفظ 'شاعر' - یعنی شا اور عر یعنی یہ لفظ دو ہجوں پر مشتمل ہے اور دونوں دو حرفی ہیں۔

لفظ 'شاعری' یعنی شا عِ ری یعنی یہ لفظ تین ہجوں پر مشتمل ہے جس میں شا اور ری دو حرفی ہجے ہیں اور عِ یک حرفی ہجا ہے۔

اب ہم ان مثالوں سے اصول اور انکی تعریف مرتب کرتے ہیں۔


دو حرفی ہجّا یا ہجّائے بلند - کسی بھی لفظ میں یہ ایک ایسا ہجّا ہوتا ہے جو دو حرفوں پر مشتمل ہوتا ہے اور یہ دونوں حرف آپس میں کسی حرکت (زیر زبر یا پیش) کے ذریعے ایک دوسرے سے ملے ہوتے ہیں، جیسے دل، کل، غم، دن، شب، جُو، چُن وغیرہ وغیرہ یا لفظ اسلام میں اس اور لا، لفظ مسلمان میں سل اور ما، لفظ وارث میں وا اور رث وغیرہ وغیرہ۔ دوحرفی ہجے کو اصطلاح میں 'ہجّائے بلند' کہا جاتا ہے اور اشاری نظام میں اسے کسی بھی علامت سے ظاہر کیا جا سکتا ہے لیکن ہم اسے علامت '2' سے ظاہر کرتے ہیں۔


یک حرفی ہجّا یا ہجّائے کوتاہ - کسی بھی لفظ میں اکیلا حرف چاہے وہ ساکن ہو یا متحرک جیسے لفظ اسلام میں ساکن میم یا لفظ مسلمان میں پہلی متحرک میم اور آخری ساکن نون، یا لفظ 'صریر' میں صاد متحرک اور آخری رے ساکن۔ یک حرفی ہجّے کو اصطلاح میں ہجّائے کوتاہ کہا جاتا ہے اور علامت میں اسے '1' سے ظاہر کیا جاتا ہے۔


اب اس تعریف کے بعد چند لفظوں کو پھر دیکھتے ہیں اور یہ واضح کروں کہ ہندسوں کو اردو طرزِ تحریر یعنی دائیں سے بائیں پڑھنا ہے۔

اسلام یعنی اس لا م اب اگر اس لفظ کو علامتوں میں ظاہر کریں تو یہ 2 2 1 ہوگا۔
اسی طرح 'مسلمان' یعنی م سل ما ن اور علامتوں میں یہ 1 2 2 1 ہے۔
اسی طرح وارث یعنی وا اور رث یعنی 2 2۔

یعنی اگر میں یہ کہوں "پہلا سبق" تو کیا اسے جملے کو علامتوں میں ظاہر کیا جا سکتا ہے، کیوں نہیں یعنی پہلا یعنی پہلا میں دو ہجائے بلند ہیں تو اس کو 22 سے ظاہر کریں اور سبق میں ایک ہجائے کوتاہ اور ایک ہجائے بلند ہے تو اسے 1 2 سے ظاہر کریں گویا
پہلا سبق یعنی 22 21۔
اور اگر یہ کہوں 'سبق پہلا' تو اب اس کی ترتیب ہوگی 21 22۔
اور اگر اب یہ کہوں 'ملا ہم کو' تو اسکی ترتیب کیا ہوگی، مشق کریں، چلیں میں لکھ دیتا ہوں
مِ لا ہم کو یعنی 1 2 2 2۔
اب غور کریں
سبق پہلا
ملا ہم کو
کیا یہ شعر ہے؟ کیوں نہیں، یا شعر ہو نہ ہو وزن میں ضرور ہے کیسے؟ پھر دیکھیں
سبق پہلا
ملا ہم کو
اشاری نظام میں لکھیں
2221
2221

جی ہاں، آپ نے صحیح پہچانا دونوں مصرعوں یا جملوں میں ہجائے کوتاہ اور ہجائے بلند ایک ہی ترتیب سے آ رہے ہیں اور یہی شعر کا وزن ہے کہ اس کے دونوں مصرعوں میں ہجائے بلند کے اور ہجائے کوتاہ کی ترتیب ایک جیسی ہے۔ یعنی اب ہم وزن کی تعریف کچھ اسطرح سے کر سکتے ہیں کہ ایک شعر کے دونوں مصرعوں میں اگر ہجائے بلند اور ہجائے کوتاہ کی ترتیب ایک جیسی ہو یعنی ہجائے بلند کے مقابل ہجائے بلند اور ہجائے کوتاہ کے مقابل ہجائے کوتاہ تو اس کو شعر کا وزن کہیں گے۔

پھر دیکھیں

سبق پہلا
ملا ہم کو
کہا ہم نے
نوازش ہے
مشق کے طور پر ان کو علامتوں میں لکھنے کی کوشش کریں، آخری بات یہ کہ یہ وزن یعنی 'سبق پہلا' یا 2221 دراصل مفاعیلن ہے جو کہ عروض کی خاص اصطلاح ہے اور اسی کے الٹ پھیر سے کئی اوزان بنتے ہیں۔ ہم نے اسے 'سبق پہلا' کہا، انشاء اللہ خان انشاء لکھنؤ کی روایت کے عین مطابق اسے 'پری خانم' سے ظاہر کرتے تھے۔ دیکھیئے، مَفَاعیلُن یعنی مَ فا عی لُن یعنی 1 2 2 2 یعنی اگر صرف مفاعیلن کے وزن پر کچھ کلام کہا جائے اور ہر مصرعے میں یہی وزن ہو تو آپ کے 'شاہکار' کو کوئی 'عروضیا' یہ نہیں کہہ سکتا ہے کہ بے وزن ہے۔


یہاں پر اس تحریر کو چھوڑتا ہوں اس امید پر کہ انشاءاللہ گاہے گاہے اس پر لکھتا رہونگا۔ مجھے افضل صاحب کی فرمائش یاد ہے جس میں نے انہوں نے کہا تھا کہ 'مصطفیٰ جانِ رحمت پہ لاکھوں سلام' کی کچھ تقطیع لکھوں لیکن اس تحریر سے پہلے یہ تقطیع ان کیلیے بے معنی ہوتی، انشاءاللہ آئندہ اس نعت کی تقطیع لکھنے کی کوشش کرونگا۔

مزید پڑھیے۔۔۔۔