امام الہند مولانا ابوالکلام محی الدین احمد آزاد کا عہد ہندوستان کی سیاسی تاریخ کا نازک ترین عہد تھا اور اسی عہد کی "نازک مزاجیوں" کی وجہ سے مولانا کی مذہبی و علمی و ادبی حیثیت پس پردہ چلی گئی حالانکہ مولانا کو سولہ سترہ برس کی عمر ہی میں مولانا کہا جانا شروع ہو گیا تھا۔ خیر یہ مولانا کی سیاست پر بحث کرنے کا محل نہیں ہے کہ مقصود نظر مولانا کے چند اشعار پیش کرنا ہیں۔
مولانا لڑکپن میں اشعار کہا کرتے تھے اور آزاد تخلص کرتے تھے، شاید بعد میں اشعار کہنا ترک فرما دیے تھے یا انکی مصروفیات اس قدر بڑھ گئی تھیں کہ شاعری کیلیے وقت نہیں ملا لیکن تخلص انکے نام کا جزوِ لاینفک ضرور بن گیا۔ مولانا کی خودنوشت سوانح "آزاد کی کہانی، آزاد کی زبانی" میں انکے چند اشعار شامل ہیں وہی لکھ رہا ہوں، اگر دوستوں کے علم میں مولانا آزاد کے مزید اشعار ہو تو لکھ کر شکریہ کا موقع دیں۔
سب سے پہلے مولانا کی ایک رباعی جو مذکورہ کتاب کے مرتب مولانا عبدالرزاق ملیح آبادی نے دیباچے میں لکھی ہے اور کیا خوبصورت رباعی ہے۔
تھا جوش و خروش اتّفاقی ساقی
اب زندہ دِلی کہاں ہے باقی ساقی
میخانے نے رنگ و روپ بدلا ایسا
میکش میکش رہا، نہ ساقی ساقی
اور ایک غزل کے تین اشعار جو اسی کتاب کے متن میں مولانا نے خود تحریر فرمائے ہیں۔
نشتر بہ دل ہے آہ کسی سخت جان کی
نکلی صدا تو فصد کھلے گی زبان کی
گنبد ہے گرد بار تو ہے شامیانہ گرد
شرمندہ مری قبر نہیں سائبان کی
آزاد بے خودی کے نشیب و فراز دیکھ
پوچھی زمین کی تو کہی آسمان کی
ایک مزید شعر اسی کتاب میں سے
سب لوگ جدھر ہیں وہ ادھر دیکھ رہے ہیں
ہم دیکھنے والوں کی نظر دیکھ رہے ہیں
اور اب مولانا کی ایّامِ جوانی کی ایک تصویر۔ یہ تصویر انکی کتاب "تذکرہ " کی اشاعتِ اوّل 1919ء میں شامل ہوئی تھی، مولانا اس تصویر کی اشاعت کیلیے راضی نہیں تھے لیکن کتاب کے مرتب فضل الدین احمد مرزا نے مولانا کی اجازت کے بغیر اس تصویر کو مندرجہ ذیل نوٹ کے ساتھ شائع کر دیا تھا۔
"بہرحال مولانا کے اس حکم کی میں تعمیل نہ کر سکا اور کتاب کے ساتھ اُن کا سب سے آخری فوٹو شائع کر رہا ہوں، یہ فوٹو رانچی میں لیا گیا ہے اور مولانا کی بریّت کے لیے اتنا کہہ دینا کافی ہوگا کہ کم سے کم اس کے کھنچوانے میں خود مولانا کے ارادے کو کچھ دخل نہ تھا، وہ بالکل مجبور تھے۔"
اس داخلی شہادت سے اس تصویر میں مولانا کی عمر کا بھی تعین ہو جاتا ہے۔ مولانا 1916ء میں رانچی گئے تھے اور یہ کتاب 1919ء میں شائع ہوئی جبکہ مولانا وہیں تھے سو اس تصویر میں مولانا کی عمر لگ بھگ اٹھائیس سے تیس سال ہے۔
تصویر ملاحظہ کیجیے۔ مولانا آزاد کی کتب اس ویب سائٹ پر پڑھی جا سکتی ہیں۔ اور اسی ویب سائت سے یہ تصویر حاصل کی ہے۔
![]() |
مولانا آزاد ایّامِ جوانی میں Maulana Abul Kalam Azad |
![]() |
مولانا ابوالکلام آزاد - تصویر شائع شدہ "تذکرہ" اشاعتِ اوّل 1919ء Maulana Abul Kalam Azad |
![]() |
سرورق "تذکرہ" اشاعتِ اوّل - 1919ء |
محترمی و ممدوحی جناب وارث بھائی
ReplyDeleteبعد تسلیم و تکریم آپکی اجازت سے مولانا کا ایک اور شعر پیش خدمت کرنا چاہتا ہوں۔ اسکا سراغ مجھے یوٹیوب کی اس ویڈیو سے ملا جسے مولانا کا مسلمانان ہند کے نام آخری خطاب کے طور پر پیش کیا جاتا ہے۔ تاہم مزید تصدیق نہ ہونے کی وجہ کر یک گونہ امکان غلطی کا بھی ملحوظ خیال رہے۔ ہمارے عہد کے راویان با اخلاص کی بے احتیاط قصہ سازیوں کا حال محتاج بیان نہیں۔ بایں ہمہ شعر اس طرح ہے
کوئی نالاں، کوئی گریاں، کوئی بسمل ہوگیا
اس کے اٹھتے ہی دگرگوں رنگ محفل ہوگیا
نیاز آگیں
شکیب
بہت شکریہ جنابِ شکیب اس نوازش کیلیے۔ اور بلاگ پر خوش آمدید، امید ہے تشریف لاتے رہیں گے۔
Deleteوالسلام مع الاکرام
ایک مزید شعر جو آپ نے مولانا کی کتاب سے لکھا، مولانا سے منسوب ہو رہا ہے لیکن وہ حضرت داغ دہلوی کی غزل کا مطلع ہے۔
ReplyDeleteسب لوگ جدھر وہ ہیں ادھر دیکھ رہے ہیں
ہم دیکھنے والوں کی نظر دیکھ رہے ہیں
اسی کا مقطع ہے۔
میں داغ ہوں مرتا ہوں ادھر دیکھیئے مجھ کو
منہ پھیر کے یہ آپ کدھر دیکھ رہے ہیں
میرا مقصود مولانا کی عالمانہ و شاعرانہ قابلیت پر سوال ہر گز نہیں۔
نہایت دلچسپ پوسٹ کی آپ نے، اس کا شکریہ۔
جی اس شعر کے متعلق پہلے بھی ایک دوست کی وساطت سے میرے علم میں آیا تھا کہ یہ شعر مولانا کا نہیں ہے، نہ جانے کیسے یہ شعر عبدالرزاق ملیح آبادی کی مرتبہ کتاب آزاد کی کہانی آزاد کی زبانی میں درج ہو گیا ہے۔
Deleteوالسلام
مولانا کے شاعرانہ مقام پہ ایک مقالہ حال میں دیکھا جس میں کچھ مزید اشعار درج ہیں۔ امید ہے کہ آپ پسند فرمائیں گے۔
ReplyDeletehttp://drsyedvasiullabakhtiary.blogspot.de/2013/04/maulanaazad-as-poet-of-urdu.html
مزید برآں، بہت دن ہوئے آپکے صریر خامہ نے فضائے منتظر میں ارتعاش نہیں پیدا کیا۔ دعا گو ہوں کہ خدائے واحد آپ پر باران فیض و کرم فرمائے۔ کہ نہیں سکتا کس طرح آپ کے تراجم فارسیات ناچیز کے شرار شوق کو مہمیز بخشتے رہے ہیں۔
نیاز آگیں
شکیب
نوازش آپ کی شکیب صاحب، بہت شکریہ آپ کا۔ ان کلماتِ خیر کیلیے سراپا ممنون ہوں۔
ReplyDeleteوالسلام مع الاکرام
Maulana Abul Kalam Aazad is a Great poet, Author, Philosopher, Politician and leader
ReplyDeleteدرست فرمایا آپ نے
Deleteمولانا آزاد ایک اچھے شاعر تو ہوسکتے ہیں لیکن سیاستدان نہیں
ReplyDeleteمولانا کے شعر کے پیچھے دلچسپ قصہ ہے،
Deleteچونکہ مولانا سولہ اٹھارہ سال کی عمر میں ہی کہنہ مشق شعراء کی طرح پختہ کلام کہنے لگے تھے، لہذا کچھ لوگ ان کی قابلیت کے جہاں معترف تھے تو بعض حسد بھی رتے تھے، ایک دن آپ پیدل کہیں جا رہے تھے، تو ایک عمر رسیدہ شاعر نے راستہ میں روک کر کہا کہ بیٹا آج ایک طرحی مشاعرہ ہے اور مجھے مدعو کیا گیا ہے، میری طبیعت بھی ناساز ہے اور وقت بھی بس اسی شام کا ہے، تم ایک غزل ابھی لکھ دو میں اصلاح کر کے پڑھ دوں گا. مولانا پورا ماجرا سمجھ چکے تھے، آپ نے کاغذ قلم مانگا اور مصرعہ طرح پوچھا جو یہ تھا:
پوچھی زمین کی تو کہی آسمان کی ہے.
مولانا وہیں کھڑے کھڑے دس اشعار اس مصرعہ پر لکھ کر شاعر کو تھما دئے اور کھڑے رہے. شاعر جو اپنے بعض ساتھیوں کے ساتھ بیٹھے تھے، انھوں بار بار ان اشعار کو پرھا اور کوئی غلطی تلاش کرتے رہے کہ اس کو بنیاد بنا کر مولانا کی پکڑ کریں. مگر لا حاصل! پھر اچانک انھیں خیال آیا اور کہا کہ بیٹا غزل میں شعر کی تعداد طاق عدد میں ہوتی ہے جبکہ تم نے دس شعر لکھے ہیں.
مولانا کیلئے آسان تھا، کہہ سکتے تھے کہ ایک شعر حذف کریں، لیکن انھوں نے قصدا دس لکھے تھے کہ شاعر مقطع اپنے تخلص کے ساتھ جوڑ لے، یہ آپ کا بے رف تھا. بہرھال آپ نے دوبارہ وہ کاغذ لیا اور مقطع اپنے تخلص کے ساتھ شال کر دیا:
آزاد بے خودی کے نشیب و فراز دیکھ
پوچھی زمین کی تو کہی آسمان کی!