ایں جلوتِ جانانہ، آں خلوتِ جانانہ
عاشق کعبہ اور بت خانہ میں کوئی فرق روا نہیں رکھتا، اس کیلیئے یہ (بت خانہ) اگر محبوب کی جلوت ہے تو وہ (کعبہ) محبوب کی خلوت ہے۔
شادم کہ مزارِ من در کوئے حرم بستند
راہے ز مژہ کاوم از کعبہ بہ بتخانہ
میں خوش ہوں کہ میرا مزار کعبہ کے کوچے میں ہے، میں اپنی پلکوں سے کعبہ سے بت خانہ تک کا راستہ بنا رہا ہوں۔
از بزمِ جہاں خوشتر، از حور و جناں خوشتر
یک ہمدمِ فرزانہ، وزبادہ دو پیمانہ
دنیا کی محفل سے بہتر ہے، حوروں اور جنت سے بہتر ہے ایک عقل مند دوست اور دو پیمانوں میں بادہ۔
![]() |
علامہ محمد اقبال Allama Iqbal |
در بزمِ تو می خیزَد، افسانہ ز افسانہ
ہر شخص اپنی نگاہ رکھتا ہے، ہر کوئی اپنی (ہی) بات رکھتا ہے، تیری بزم میں (جب تیرا ذکر چلتا ہے) تو بات سے بات نکلتی ہی چلی جاتی ہے اور ہر کسی کی پاس کہنے کیلیے اپنی ہی کہانی ہوتی ہے۔
ایں کیست کہ بر دلہا آوردہ شبیخونے؟
صد شہرِ تمنّا را یغما زدہ تُرکانہ
یہ کون ہے کہ جس نے دلوں پر شب خون مارا ہے اور تمناؤں کے سینکڑوں شہروں کو ترکوں کی طرح حملہ کر کے لوٹ لیا ہے۔
در دشتِ جنونِ من جبریل زبوں صیدے
یزداں بہ کمند آور اے ہمّتِ مردانہ
میرے جنون کے بیابان میں جبریل تو ایک ادنٰی شکار ہے، اے ہمتِ مردانہ خدا پر کمند ڈال۔
اقبال بہ منبر زد رازے کہ نہ باید گفت
نا پختہ بروں آمد از خلوتِ میخانہ
اقبال نے منبر پر (سرِ عام) وہ راز کہہ دیا ہے جو کہ نہیں کہنا چاہیئے تھا، وہ (شاید) میخانہ کی خلوت سے خام نکلا ہے۔
(پیامِ مشرق)
------
بحر - بحر ہزج مثمن اخرب
یہ ایک مقطع بحر ہے یعنی ہر مصرع دو مساوی ٹکڑوں میں تقسیم ہوتا ہے اور ہر ٹکڑا، ایک مصرع کے احکام میں آ سکتا ہے۔
افاعیل - مَفعُولُ مَفَاعِیلُن / مَفعُولُ مَفَاعِیلُناشاری نظام - 122 2221 / 122 2221
تقطیع -
فَرقے نہ نہد عاشق در کعبہ و بتخانہ
ایں جلوتِ جانانہ، آں خلوتِ جانانہ
فرقے نَ - مفعول - 122
نہَد عاشق - مفاعیلن - 2221
در کعبَ - مفعول - 122
و بتخانہ - مفاعیلن - 2221
ای جلوَ - مفعول - 122
تِ جانانہ - مفاعیلن - 2221
آ خلوَ - مفعول - 122
تِ جانانہ - مفاعیلن - 2221
مزید پڑھیے۔۔۔۔