Showing posts with label پیامِ مشرق. Show all posts
Showing posts with label پیامِ مشرق. Show all posts

Mar 3, 2010

فَرقے نہ نہد عاشق در کعبہ و بتخانہ - علامہ اقبال کی ایک خوبصورت غزل

فَرقے نہ نہد عاشق در کعبہ و بتخانہ
ایں جلوتِ جانانہ، آں خلوتِ جانانہ
عاشق کعبہ اور بت خانہ میں کوئی فرق روا نہیں رکھتا، اس کیلیئے یہ (بت خانہ) اگر محبوب کی جلوت ہے تو وہ (کعبہ) محبوب کی خلوت ہے۔

شادم کہ مزارِ من در کوئے حرم بستند
راہے ز مژہ کاوم از کعبہ بہ بتخانہ
میں خوش ہوں کہ میرا مزار کعبہ کے کوچے میں ہے، میں اپنی پلکوں سے کعبہ سے بت خانہ تک کا راستہ بنا رہا ہوں۔

از بزمِ جہاں خوشتر، از حور و جناں خوشتر
یک ہمدمِ فرزانہ، وزبادہ دو پیمانہ
دنیا کی محفل سے بہتر ہے، حوروں اور جنت سے بہتر ہے ایک عقل مند دوست اور دو پیمانوں میں بادہ۔
Persian poetry, Persian Poetry with Urdu translation, Farsi poetry, Farsi poetry with urdu translation, Allama Iqbal, علامہ اقبال
علامہ محمد اقبال
Allama Iqbal
ہر کس نگہے دارَد، ہر کس سُخَنے دارَد
در بزمِ تو می خیزَد، افسانہ ز افسانہ
ہر شخص اپنی نگاہ رکھتا ہے، ہر کوئی اپنی (ہی) بات رکھتا ہے، تیری بزم میں (جب تیرا ذکر چلتا ہے) تو بات سے بات نکلتی ہی چلی جاتی ہے اور ہر کسی کی پاس کہنے کیلیے اپنی ہی کہانی ہوتی ہے۔

ایں کیست کہ بر دلہا آوردہ شبیخونے؟
صد شہرِ تمنّا را یغما زدہ تُرکانہ
یہ کون ہے کہ جس نے دلوں پر شب خون مارا ہے اور تمناؤں کے سینکڑوں شہروں کو ترکوں کی طرح حملہ کر کے لوٹ لیا ہے۔

در دشتِ جنونِ من جبریل زبوں صیدے
یزداں بہ کمند آور اے ہمّتِ مردانہ
میرے جنون کے بیابان میں جبریل تو ایک ادنٰی شکار ہے، اے ہمتِ مردانہ خدا پر کمند ڈال۔

اقبال بہ منبر زد رازے کہ نہ باید گفت
نا پختہ بروں آمد از خلوتِ میخانہ
اقبال نے منبر پر (سرِ عام) وہ راز کہہ دیا ہے جو کہ نہیں کہنا چاہیئے تھا، وہ (شاید) میخانہ کی خلوت سے خام نکلا ہے۔

(پیامِ مشرق)

------
بحر - بحر ہزج مثمن اخرب
یہ ایک مقطع بحر ہے یعنی ہر مصرع دو مساوی ٹکڑوں میں تقسیم ہوتا ہے اور ہر ٹکڑا، ایک مصرع کے احکام میں آ سکتا ہے۔
افاعیل - مَفعُولُ مَفَاعِیلُن / مَفعُولُ مَفَاعِیلُناشاری نظام - 122 2221 / 122 2221
تقطیع -
فَرقے نہ نہد عاشق در کعبہ و بتخانہ
ایں جلوتِ جانانہ، آں خلوتِ جانانہ
فرقے نَ - مفعول - 122
نہَد عاشق - مفاعیلن - 2221
در کعبَ - مفعول - 122
و بتخانہ - مفاعیلن - 2221
ای جلوَ - مفعول - 122
تِ جانانہ - مفاعیلن - 2221
آ خلوَ - مفعول - 122
تِ جانانہ - مفاعیلن - 2221
مزید پڑھیے۔۔۔۔

Mar 15, 2009

علامہ اقبال کا آئن سٹائن کو خراجِ تحسین

Einstein, آئن سٹائن, Persian poetry, Persian Poetry with Urdu translation, Farsi poetry, Farsi poetry with urdu translation, Allama Iqbal, علامہ اقبال
Einstein, آئن سٹائن
آئن سٹائن کے نام سے کون ناواقف ہے، لیکن کم از کم میں کلیاتِ اقبال فارسی ہاتھ لگنے تک اس بات سے ناواقف تھا کہ علامہ نے آئن سٹائن پر بھی کوئی کلام لکھا ہے۔ علامہ اقبال نے اپنے اردو اور فارسی کلام میں مشاہیرِ عالم پر کافی کلام نظم بند کیا ہے، اور انکے افکار و نظریات کو زیرِ بحث لائے ہیں۔ پیامِ مشرق میں علامہ کی نظم "حکیم آئن سٹائن" دیکھ کر مجھے بہت خوشی ہوئی تھی کہ آئن سٹائن کا قتیل میں بھی مدتوں سے ہوں۔ اس نظم میں علامہ نے آئن سٹائن کے روشنی (نور) کے متعلق نظریے پر زیادہ تر بات کی ہے، دونوں حواشی بھی علامہ کے اپنے لکھے ہوئے ہیں۔

حکیم آئن سٹائن (1)۔


جلوۂ می خواست مانندِ کلیمِ ناصبُور
تا ضمیرِ مستنیرِ اُو کشود اسرارِ نُور
وہ (آئن سٹائن) بے صبر کلیم (حضرت مُوسیٰ) کی مانند جلوہ چاہتا تھا یعنی حقیقت کو دیکھنے کیلیے بے قرار تھا، تاآنکہ نور سے استفادہ کیے ہوئے اسکے ضمیر (حقیقت کو دیکھے ہوئے ضمیر) نے نور کے اسرار و رموز سب پر کھول دیئے۔


از فرازِ آسماں تا چشمِ آدم یک نفَس
زود پروازے کہ پروازَش نیایَد در شعُور
آسمانوں کی بلندی سے لیکر آدمی کی آنکھ تک (کا فاصلہ روشنی صرف) ایک لمحے میں طے کرتی ہے، اور وہ اتنی تیزی سے پرواز کرنے والی (تیز رفتار) ہے کہ اسکی پرواز شعور کہ اندر ہی نہیں آتی۔


خلوَتِ اُو در زغالِ تیرہ فام اندر مغاک
جلوَتَش سوزَد درختے را چو خس بالائے طُور
اسکی خلوت میں یہ تاثیر ہے کہ وہ گڑھوں اور کانوں کے اندر سیاہ فام کوئلہ پیدا کر دیتی ہے، اور اسکا جلوہ کسی درخت کو کوہِ طور کی بلندی پر خس و خاشاک کی طرح جلا دیتا ہے۔ روشنی کی رفتار نظم کرنے کے بعد علامہ اسی روشنی یا نور کو اپنے مطلب کے طور پر بیان کر رہے ہیں کہ انکی نور سے کیا مراد ہے۔


بے تغیّر در طلسمِ چون و چند و بیش و کم
برتر از پست و بلند و دیر و زُود و نزد و دُور
یہ (نور) کیا اور کیسے اور زیادہ اور کم کے طلسم میں (زمان و مکاں میں جاری و ساری) ہونے کے باوجود بے تغیر ہے، یہ پست اور بلند، دیر اور جلدی اور نزدیک اور دور سے برتر ہے۔


در نہادَش تار و شید و سوز و ساز و مرگ و زیست
اہرَمَن از سوزِ اُو وَز سازِ اُو جبریل و حُور
یہ (نور) اپنے اندر، تاریکی اور روشنی، سوز اور ساز اور زندگی اور موت رکھتا ہے، شیطان اسکے سوز سے اور جبریل اور حوریں اسکے ساز سے وجود میں آئے، یعنی سب کچھ اسی سے ہے۔


من چہ گویَم از مقامِ آں حکیمِ نکتہ سنج
کردہ زردشتے ز نسلِ مُوسیٰ و ہاروں ظہُور (2)۔
میں اس رمز آشنا حکیم کی کیا تعریف بیان کروں، بس یہ کہ وہ ایک ایسا زردشت ہے جس نے موسیٰ اور ہارون کی نسل میں ظہور کیا ہے۔ آئن سٹائن کو علامہ کا یہ ایک زبردست خراجِ تحسین ہے کہ قادر الکلام شاعر و فلسفی و عالم ایک دوسرے عالم کے بارے میں فرما رہا ہے کہ میں اس کی اور اسکی عظمت کی تعریف کرنے سے قاصر ہوں اور دوسرے مصرعے میں اپنی شاعری اور اوجِ خیال کا ایک منہ بولتا اور اچھوتا ثبوت بھی پیش کر دیا ہے، آئن سٹائن یہودی تھا لیکن علامہ فرماتے ہیں کہ وہ ایک ایسا یہودی ہے جو کہ نور کے متعلق اپنے نظریات کی وجہ سے زردشت ہے، جس نے نور کے متعلق ہزاروں سال پہلے اپنے نقطۂ نظر بیان کیا تھا۔



یہ بات بھی سوچنے کے لائق ہے کہ مصرعے میں تو علامہ نے آئن سٹائن کو یہ لکھا کہ وہ موسیٰ اور ہارون کی نسل میں سے ہے لیکن حواشی میں پھر بھی نہیں لکھا کہ وہ یہودی تھا بلکہ لکھا کہ وہ بنی اسرائیل میں سے ہے، مطلب ایک ہی ہے لیکن کیا علامہ نے جان بوجھ کر 'یہودی' کا لفظ استعمال نہیں کیا؟ اللہ ہی بہتر جانتا ہے اقبال کے شارحین تو آئن سٹائن کو بھی نہیں بخشتے۔

----------
حواشی از علامہ اقبال
(1)۔ آئن سٹائن: جرمنی کا مشہور ماہرِ ریاضیات و طبیعات جس نے نظریۂ اضافیت کا حیرت انگیز انکشاف کیا ہے۔
(2)۔ حکیم آئن سٹائن بنی اسرائیل سے ہے۔
مزید پڑھیے۔۔۔۔

Nov 26, 2008

علامہ اقبال کی ایک فارسی غزل مع اردو ترجمہ - می تَراشَد فکرِ ما ہر دم خداوندے دِگر

پیامِ مشرق علامہ اقبال کی خوبصورت ترین کتب میں سے ہے، اسی لا جواب کتاب سے ایک لا جواب غزل جو مجھے بہت پسند ہے۔ یہ غزل نہ صرف علامہ کی خیال آفرینی کی بہترین مثال ہے بلکہ تغزل سے بھی بھر پور ہے جو کہ علامہ کا ‘ٹریڈ مارک’ تو نہیں ہے لیکن پیامِ مشرق کی کافی غزلیں اس رنگ میں ہیں۔

می تَراشَد فکرِ ما ہر دم خداوندے دِگر
رَست از یک بند تا افتاد دَر بندے دگر
ہماری فکر ہر دم ایک نیا خدا تراشتی ہے، جب وہ ایک قید سے نکلتی ہے تو کسی اور قید میں گرفتار ہوجاتی ہے۔

برسَرِ بام آ، نقاب از چہرہ بیباکانہ کش
نیست در کوئے تو چُوں من آرزو مندے دِگر
بام پر آ اور بے باک ہو کر اپنے چہرے سے نقاب اتار دے کہ تیرے کوچے میں مجھ جیسا تیرا کوئی اور آرزو مند نہیں ہے۔

بسکہ غیرت می بَرَم از دیدۂ بیناے خویش
از نگہ بافَم بہ رخسارِ تو رُوبندے دِگر
تیرا نظارہ کرنے والی اپنی ہی آنکھ سے مجھے غیرت آرہی ہے۔ اسلیے میں نظروں سے تیرے رخسار پر ایک اور نقاب بن رہا ہوں۔

یک نگہ، یک خندۂ دُزدیدہ، یک تابندہ اشک
بہرِ پیمانِ محبت نیست سوگندے دِگر
ایک نگاہ، ایک زیرِ لب تبسم، ایک چمکتا ہوا آنسو، محبت کے پیمان کیلیے اس کے علاوہ اور کوئی قسم نہیں ہے۔

Persian poetry, Persian Poetry with Urdu translation, Farsi poetry, Farsi poetry with urdu translation, Allama Iqbal, علامہ اقبال
Allama Iqbal, علامہ اقبال
عشق را نازم کہ از بیتابیِ روزِ فراق
جانِ ما را بست با دردِ تو پیوندے دِگر
اپنے عشق پر نازاں ہوں کہ اس نے فراق کے دن کی بیتابی سے میری جان کا تیرے غم کے ساتھ ایک اور پیوند لگا دیا ہے۔

تا شَوی بیباک تر در نالہ اے مرغِ بہار
آتشے گیر از حَریمِ سینہ ام چندے دِگر
اے بہار کے پرندے تا کہ تو اپنے نالے میں زیادہ بیباک ہوجائے، میرے سینے سے کچھ اور آگ لے لے۔

چنگِ تیموری شکست، آہنگِ تیموری بجاست
سُر بروں می آرد از سازِ سمرقندے دِگر
تیمور کا رباب تو ٹوٹ گیا مگر اس سے نکلنے والی آواز اب تک باقی ہے۔ وہی نغمہ اب ایک اور سمرقند کے ساز سے باہر آرہا ہے۔ (علامہ کا یہ شعر انقلابِ رُوس اور کمیونزم کے پس منظر میں ہے)۔

رہ مَدہ در کعبہ اے پیرِ حرم اقبال را
ہر زماں در آستیں دارَد خداوندے دِگر
اے حرم کے پیر، اقبال کو کعبہ میں جانے کیلیے راہ نہ دے، کہ وہ ہر زمانے میں اپنی آستیں میں ایک نیا خدا رکھتا ہے۔
————

بحر - بحر رمل مثمن محذوف
افاعیل - فاعِلاتُن فاعِلاتُن فاعِلاتُن فاعِلُن(آخری رکن فاعلن میں فاعِلان بھی آ سکتا ہے)

اشاری نظام - 2212 2212 2212 212
(آخری 212 کی جگہ 1212 بھی آ سکتا ہے)

تقطیع -
می تَراشَد فکرِ ما ہر دم خداوندے دِگر
رَست از یک بند تا افتاد دَر بندے دگر

می تراشد - فاعلاتن - 2212
فکرِ ما ہر - فاعلاتن -2212
دم خداون - فاعلاتن - 2212
دے دگر - فاعلن - 212

رست از یک - فاعلاتن - 2212
بند تا اف - فاعلاتن - 2212
تاد در بن - فاعلاتن - 2212
دے دگر - فاعلن - 212
مزید پڑھیے۔۔۔۔

Oct 11, 2008

علامہ اقبال کی ایک فارسی نظم - تنہائی

“پیامِ مشرق” سے علامہ اقبال کی یہ نظم مجھے بہت پسند ہے، علامہ نے انسان کی (ابھی تک کی) ازلی تنہائی کو اپنے مخصوص دل نشیں انداز میں بیان کیا ہے۔

تنہائیبہ بحر رَفتَم و گُفتَم بہ موجِ بیتابے
ہمیشہ در طَلَب استی چہ مشکلے داری؟
ہزار لُولُوے لالاست در گریبانَت
درونِ سینہ چو من گوھرِ دِلے داری؟
تَپید و از لَبِ ساحِل رَمید و ہیچ نَگُفت
(میں سمندر پر گیا اور بیتاب، بل کھاتی ہوئی لہر سے پوچھا، تُو ہمیشہ کسی طلب میں رہتی ہے تجھے کیا مشکل درپیش ہے؟ تیرے گریبان میں ہزاروں چمکدار اور قیمتی موتی ہیں لیکن کیا تو اپنے سینے میں میرے دل جیسا گوھر بھی رکھتی ہے؟ وہ تڑپی اور ساحل کے کنارے سے دور چلی گئی اور کچھ نہ کہا)۔
Persian poetry, Persian Poetry with Urdu translation, Farsi poetry, Farsi poetry with urdu translation, Allama Iqbal, علامہ اقبال
علامہ اقبال, Allama Muhammad Iqbal
بہ کوہ رَفتَم و پُرسیدَم ایں چہ بیدردیست؟
رَسَد بگوشِ تو آہ و فغانِ غم زدئی؟
اگر بہ سنگِ تو لعلے ز قطرۂ خون است
یکے در آ بَسُخن با مَنِ ستم زدئی
بخود خَزید و نَفَس در کَشید و ہیچ نَگُفت
(میں پہاڑ پر گیا اور اس سے پوچھا، یہ کیا بیدردی ہے، (تیری اتنی اونچائی ہے کہ) کیا کبھی تیرے کان تک کسی غم زدہ کی آہ و فخان بھی پہنچی ہے؟ اگر تیرے بے شمار قیمتی پتھروں میں میرے دل جیسا کوئی لعل ہے تو پھر ایک بار مجھ ستم زدہ سے کوئی بات کر۔ وہ اپنے آپ میں چھپا، سانس کھینچی اور کچھ نہ کہا)۔

رَہِ دَراز بَریدَم ز ماہ پُرسیدَم
سَفَر نصیب، نصیبِ تو منزلیست کہ نیست
جہاں ز پرتوِ سیماے تو سَمَن زارے
فروغِ داغِ تو از جلوۂ دلیست کہ نیست
سوئے ستارہ رقیبانہ دید و ہیچ نَگُفت
(میں نے لمبا سفر کیا اور چاند سے پوچھا، تیرے نصیب میں سفر ہی سفر ہے لیکن کوئی منزل بھی ہے کہ نہیں۔ جہان تیری چاندنی سے سمن زار بنا ہوا ہے لیکن تیرے اندر جو داغ ہے اسکی چمک دمک کسی دل کی وجہ سے ہے یا نہیں ہے؟ اس نے ستارے کی طرف رقیبانہ نظروں سے دیکھا اور کچھ نہ کہا)۔

شُدَم بَحَضرَتِ یزداں گُذَشتَم از مہ و مہر
کہ در جہانِ تو یک ذرّہ آشنایَم نیست
جہاں تہی ز دِل و مُشتِ خاکِ من ہمہ دل
چَمَن خوش است ولے درخورِ نوایَم نیست
تَبَسّمے بَلَبِ اُو رَسید و ہیچ نَگُفت
(میں چاند اور سورج سے گزر کر خدا کے حضور پہنچا اور کہا کہ تیرے جہان میں ایک بھی ذرہ میرا آشنا نہیں ہے۔ تیرا جہان دل سے خالی ہے اور میں (مشتِ خاک) تمام کا تمام دل ہوں۔ تیرا دنیا کا چمن تو اچھا ہے لیکن میری نوا کے لائق نہیں کہ میرا کوئی ہمزباں نہیں۔ اسکے لبوں پر ایک مسکراہٹ پھیلی اور اس نے کچھ نہ کہا)۔
———–

بحر - بحرِ مجتث مثمن مخبون محذوف مقطوع
افاعیل: مَفاعِلُن فَعِلاتُن مَفاعِلُن فَعلُن
(آخری رکن فعلن میں فعلان، فَعِلُن اور فعِلان بھی آ سکتے ہیں)
اشاری نظام - 2121 2211 2121 22
(آخری رکن میں 22 کی جگہ 122، 211 اور 1211 بھی آ سکتے ہیں)
تقطیع -
بہ بحر رَفتَم و گُفتَم بہ موجِ بیتابے
ہمیشہ در طلب استی چہ مشکلے داری؟
بَ بحر رف - مفاعلن - 2121
تَ مُ گُفتم - فعلاتن - 2211
بَ موجِ بے - مفاعلن - 2121
تابے - فعلن - 22
ہمیشَ در - مفاعلن - 2121
طَلَ بستی - فعلاتن - 2211
چ مشکلے - مفاعلن - 2121
داری - فعلن - 22
مزید پڑھیے۔۔۔۔

Jun 27, 2008

محاورہ مابین خدا و انسان - اقبال

علامہ اقبال کی پیامِ مشرق سے ایک خوبصورت نظم پیشِ خدمت ہے جو مجھے بہت زیادہ پسند ہے۔ اقبال کی فکر اس میں عروج پر ہے اور جہاں خدا کی زبانی انسان کی ‘ہوس’ کو ظاہر کیا ہے وہیں تصویر کا دوسرا رخ بھی دکھایا ہے اور انسان کی محنت اور عظمت بھی بیان کی ہے۔ اقبال کا ‘انسان’ اور ‘انسانیت’ پر ایمان اور اور انسان کا کائنات سے رشتہ بھی اس نظم سے واضح ہوتا ہے۔

محاورہ مابین خدا و انسان
(خدا اور انسان کے درمیان مکالمہ)

خدا
جہاں را ز یک آب و گِل آفریدم
تو ایران و تاتار و زنگ آفریدی
(میں نے یہ جہان ایک ہی پانی اور مٹی سے پیدا کیا تھا، تو نے اس میں ایران و توران و حبش بنا لیے۔)

من از خاک پولادِ ناب آفریدم
تو شمشیر و تیر و تفنگ آفریدی
(میں نے خاک سے خالص فولاد پیدا کیا تھا، تو نے اس سے شمشیر و تیر و توپ بنا لیے۔)

تبر آفریدی نہالِ چمن را
قفس ساختی طائرِ نغمہ زن را
(تو نے اس سے چمن کے درخت کاٹنے کیلیے کلہاڑا بنا لیا، نغمہ گاتے ہوئے پرندوں کیلیے قفس بنا لیا۔)
Persian poetry, Persian Poetry with Urdu translation, Farsi poetry, Farsi poetry with urdu translation, Allama Iqbal, علامہ اقبال
علامہ محمد اقبال, Allama Iqbal
انسان
تو شب آفریدی، چراغ آفریدم

سفال آفریدی، ایاغ آفریدم
(تو نے رات بنائی میں نے چراغ بنا لیا۔ تو نے مٹی بنائی میں نے اس سے پیالہ بنا لیا۔)

بیابان و کہسار و راغ آفریدی
خیابان و گلزار و باغ آفریدم
(تو نے بیابان، پہاڑ اور میدان بنائے۔ میں نے اس میں خیابان، گلزار اور باغ بنا لیے۔)

من آنم کہ از سنگ آئینہ سازم
من آنم کہ از زہر نوشینہ سازم
(میں وہ ہوں کہ پتھر سے آئینہ/شیشہ بناتا ہوں، میں وہ ہوں کہ زہر سے شربت/تریاق بناتا ہوں۔)
——–
بحر - بحر متقارب مثمن سالم
افاعیل - فَعُولُن فَعُولُن فَعُولُن فَعُولُن
اشاری نظام - 221 221 221 221
تقطیع -
جہاں را ز یک آب و گِل آفریدم
تو ایران و تاتار و زنگ آفریدی
جہا را - فعولن - 221
ز یک آ - فعولن - 221
ب گل آ - فعولن - 221
ف ریدم - فعولن - 221
تُ ایرا - فعولن - 221
ن تاتا - فعولن - 221
ر زنگا - فعولن - 221 (الف وصل کا استعمال ہوا ہے)
فریدی - فعولن - 221
مزید پڑھیے۔۔۔۔

Jun 11, 2008

اقبال کی ایک فارسی غزل - صد نالۂ شب گیرے، صد صبحِ بلا خیزے

پیامِ مشرق سے علامہ اقبال کی ایک خوبصورت غزل پیشِ ہے، جو مجھے بہت زیادہ پسند ہے۔

صد نالۂ شب گیرے، صد صبحِ بلا خیزے
صد آہِ شرر ریزے، یک شعرِ دل آویزے
رات بھر کے سینکڑوں نالے، سینکڑوں آفت لانے والی صبحیں، سینکڑوں شعلے پھینکنے والی آہیں ایک طرف اور ایک دل کو لبھانے والا شعر ایک طرف۔

در عشق و ہوسناکی دانی کہ تفاوَت چیست؟
آں تیشۂ فرہادے، ایں حیلۂ پرویزے
عشق اور ہوس کے درمیان جانتا ہے کہ کیا فرق ہے؟ عشق فرہاد کا تیشہ ہے اور ہوس پرویز کا مکر و فریب۔
Persian poetry, Persian Poetry with Urdu translation, Farsi poetry, Farsi poetry with urdu translation, Allama Iqbal, علامہ اقبال
علامہ محمد اقبال, Allama Iqbal
با پردگیاں بر گو کایں مشتِ غبارِ من
گردیست نظر بازے، خاکیست بلا خیزے
فرشتوں سے کہہ دو کہ میری یہ مشتِ غبار، ایک گرد ہے لیکن نظر رکھنے والی، ایک خاک ہے لیکن طوفان اٹھانے والی۔

ہوشم برد اے مطرب، مستم کنَد اے ساقی
گلبانگِ دل آویزے از مرغِ سحر خیزے
اے مطرب میرے ہوش اڑا دیتی ہے، اے ساقی مجھے مست کردیتی ہے، سحر کے وقت پرندے کی دل کو لبھانے والی آواز۔

از خاکِ سمرقندے ترسَم کہ دگر خیزَد
آشوبِ ہلاکوے، ہنگامۂ چنگیزے
میں ڈرتا ہوں کہ پھر اٹھے گا سمرقند کی خاک سے، ہلاکو خان کا فتنہ اور چنگیز خان کا ہنگامہ۔

مطرب غزلے بیتے از مرشدِ روم آور
تا غوطہ زنَد جانَم در آتشِ تبریزے
اے مطرب مرشدِ روم کی کوئی غزل، کوئی شعر لا، تاکہ میری جان شمس تبریز کی آگ میں غوطہ زن ہو۔
——–
بحر - بحر ہزج مثمن اخرب
یہ ایک مقطع بحر ہے یعنی ہر مصرع دو مساوی ٹکڑوں میں تقسیم ہوتا ہے اور ہر ٹکڑا، ایک مصرع کے احکام میں آ سکتا ہے۔
افاعیل - مَفعُولُ مَفَاعِیلُن مَفعُولُ مَفَاعِیلُن


اشاری نظام - 122 2221 122 2221

تقطیع -
صد نالۂ شب گیرے، صد صبحِ بلا خیزے
صد آہِ شرر ریزے، یک شعرِ دل آویزے

صد نالَ - مفعول - 122
ء شب گیرے - مفاعیلن - 2221
صد صبحِ - مفعول - 122
بلا خیزے - مفاعیلن - 2221
صد آہِ - مفعول - 122
شرر ریزے - مفاعیلن - 2221
یک شعرِ - مفعول - 122
د لا ویزے - مفاعیلن - 2221 (الفِ وصل استعمال ہوا ہے)
مزید پڑھیے۔۔۔۔

May 13, 2008

اقبال کی ایک فارسی غزل - فریبِ کشمَکَشِ عقل دیدنی دارَد

فریبِ کشمَکَشِ عقل دیدنی دارَد
کہ میرِ قافلہ و ذوقِ رہزنی دارد
عقل کی کشمکش کا فریب دیکھنے کی چیز ہے کہ یہ قافلہ کی امیر ہے لیکن رہزنی کا ذوق رکھتی ہے، یعنی راہنمائی کا دعوٰی کرتی ہے اور غلط راستہ پر ڈالتی ہے۔

نشانِ راہ ز عقلِ ہزار حیلہ مپرس
بیا کہ عشق کمالے ز یک فنی دارد
راستے کا نشان ہزار حیلے بنانے والی عقل سے مت پوچھ۔ آ اور عشق سے پوچھ کہ یہ ایک فن کا کمال رکھتا ہے، یعنی منزل کا نشان اور راستہ عشق ہی بتا سکتا ہے۔
Persian poetry, Persian Poetry with Urdu translation, Farsi poetry, Farsi poetry with urdu translation, Allama Iqbal, علامہ اقبال
علامہ اقبال, Allama Muhammad Iqbal
فرنگ گرچہ سخن با ستارہ میگویَد
حذر کہ شیوۂ اُو رنگِ جوزنی دارَد
فرنگ اگرچہ ستاروں سے گفتگو رکھتا ہے لیکن اس سے بچو کہ اسکا طریقہ جاودگری کا رنگ رکھتا ہے۔

ز مرگ و زیست چہ پرسی دریں رباطِ کہن
کہ زیست کاہشِ جاں، مرگ جانکنی دارَد
موت اور حیات کے بارے میں کیا پوچھتے ہو کہ اس پرانی سرائے یعنی دنیا میں زندگی، جان کے آہستہ آہستہ گھلنے کا اور موت جسم سے جان کو نکالنے کا نام ہے۔

سرِ مزارِ شہیداں یکے عناں درکش
کہ بے زبانیِ ما حرفِ گفتنی دارد
ہم شہیدوں کے مزار کے پاس ذرا باگ روک کہ ہماری بے زبانی بھی گفتگو کا حرف رکھتی ہے۔

دگر بدشتِ عرب خیمہ زن کہ بزمِ عجم
مٔے گذشتہ و جامِ شکستنی دارد
ایک دفعہ پھر عرب کے صحرا میں خیمہ لگا کہ عجم کی بزم وہ شراب ہے جو فرسودہ ہوچکی اور اسکے جام توڑنے کے قابل ہیں۔

نہ شیخِ شہر، نہ شاعر، نہ خرقہ پوش اقبال
فقیر راہ نشین است و دل غنی دارد
اقبال نہ شیخِ شہر ہے، نہ شاعر اور نہ ہی خرقہ پوش صوفی وہ تو راستے میں بیٹھنے والا فقیر ہے لیکن دل غنی رکھتا ہے۔
(پیامِ مشرق)
——–

بحر - بحرِ مجتث مثمن مخبون محذوف مقطوع

افاعیل: مَفاعِلُن فَعِلاتُن مَفاعِلُن فَعلُن
(آخری رکن فعلن میں فعلان، فَعِلُن اور فعِلان بھی آ سکتے ہیں)

اشاری نظام - 2121 2211 2121 22
(آخری رکن میں 22 کی جگہ 122، 211 اور 1211 بھی آ سکتے ہیں)

تقطیع -
فریبِ کشمکشِ عقل دیدنی دارد
کہ میرِ قافلہ و ذوقِ رہزنی دارد

فَریب کش - مفاعلن - 2121
مَ کَ شے عق - فعلاتن - 2211
ل دیدنی - مفاعلن - 2121
دارَد - فعلن - 22

کِ میر قا - مفاعلن - 2121
ف لَ او ذو - فعلاتن - 2211
قِ رہ زَ نی - مفاعلن - 2121
دارَد - فعلن - 22
مزید پڑھیے۔۔۔۔