Showing posts with label الطاف حسین حالی. Show all posts
Showing posts with label الطاف حسین حالی. Show all posts

Mar 22, 2013

باپ کا ہے جبھی پسر وارِث - خواجہ الطاف حُسین حالی

باپ کا  ہے جبھی پسر وارِث
ہو ہنر کا بھی اُس کے گر وارِث

گھر ہنر ور کا ناخلف نے لیا
تیرا ہے کون اے ہنر وارث

فاتحہ ہو کہاں سے میّت کی
لے گئے ڈھو کے سیم و زر وارث

ہوں اگر ذوقِ کسب سے آگاہ
کریں میراث سے حذر وارث

خاک و کرمانِ گور و خویش و تبار
ایک میّت اور اس قدَر وارث

واعظو دین کا خدا حافظ
انبیا کے ہو تم اگر وارث

قوم بے پر ہے، دین بے کس ہے
گئے اسلام کے کدھر وارث
Altaf، Hussain، Hali, Altaf Hussain Hali, urdu poetry, poetry, classical urdu poetry, ghazal, خواجہ، الطاف، حسین، حالی، خواجہ الطاف حسین حالی، اردو شاعری، کلاسیکی اردو شاعری، شاعری، غزل, Ilm-e-Arooz, Ilm-e-Urooz, Behr, Taqtee, علم عروض، تقطیع، بھر
Altaf Hussain Hali, خواجہ الطاف حسین حالی
تصویر بشکریہ کرناٹک اردو اکاڈمی، بنگلور

ہم پہ بیٹھے ہیں ہاتھ دھوئے حریف
جیسے مردہ کے مال پر وارث

ترکہ چھوڑا ہے کچھ اگر حالی
کیوں ہیں میّت پہ نوحہ گر وارث

خواجہ الطاف حسین حالی
-----


قافیہ - اَر یعنی رے ساکن اور اُس سے پہلے زبر کی حرکت جیسے پسر میں سَر، گر، ہنر میں نَر، زر، اگر میں گر، وغیرہ۔

ردیف -وارث۔

 بحر - بحر خفیف مسدس مخبون محذوف مقطوع

افاعیل - فاعِلاتُن مُفاعِلُن فَعلُن
(پہلے رکن فاعلاتن کی جگہ مخبون رکن فعلاتن بھی آسکتا ہے، آخری رکن فعلن کی جگہ فعلان، فَعِلن اور فَعِلان بھی آسکتا ہے یوں آٹھ وزن اکھٹے ہو سکتے ہیں)۔ تفصیل کیلیئے میرا مقالہ “ایک خوبصورت بحر - بحر خفیف” دیکھیئے)

علامتی  نظام - 2212 / 2121 / 22
ہندسوں کو اردو رسم الخط کے مطابق پڑھیے یعنی دائیں سے بائیں یعنی 2212 پہلے پڑھیے۔ اور اس میں بھی 12 پہلے ہے۔
(پہلے 2212 کی جگہ 2211 اور آخری 22 کی جگہ 122، 211 اور 1211 بھی آ سکتا ہے)

تقطیع -

باپ کا ہے جبھی پسر وارث
ہو ہنر کا بھی اُس کے گر وارث

باپ کا ہے - فاعلاتن - 2212
جَبی پسر - مفاعلن - 2121
وارث - فعلن - 22

ہو ہنر کا - فاعلاتن - 2212
بِ اُس کِ گر - مفاعلن - 2121
وارث - فعلن - 22
-----


مزید پڑھیے۔۔۔۔

Feb 18, 2012

صورت اور آپ سے بے عیب بشر کی صورت - خواجہ الطاف حسین حالی

خواجہ الطاف حسین حالی کی ایک معروف غزل

اس کے جاتے ہی یہ کیا ہو گئی گھر کی صورت
نہ وہ دیوار کی صورت ہے نہ در کی صورت

کس سے پیمانِ وفا باندھ رہی ہے بلبل
کل نہ پہچان سکے گی، گلِ تر کی صورت
Altaf، Hussain، Hali, Altaf Hussain Hali, urdu poetry, poetry, classical urdu poetry, ghazal, خواجہ، الطاف، حسین، حالی، خواجہ الطاف حسین حالی، اردو شاعری، کلاسیکی اردو شاعری، شاعری، غزل
خواجہ الطاف حسین حالی
Altaf Hussain Hali
اپنی جیبوں سے رہیں سارے نمازی ہشیار
اک بزرگ آتے ہیں مسجد میں خضر کی صورت

دیکھئے شیخ، مصوّر سے کِچھے یا نہ کِچھے
صورت اور آپ سے بے عیب بشر کی صورت

واعظو، آتشِ دوزخ سے جہاں کو تم نے
یہ ڈرایا ہے کہ خود بن گئے ڈر کی صورت

شوق میں اس کے مزا، درد میں اس کے لذّت
ناصحو، اس سے نہیں کوئی مفر کی صورت

رہنماؤں کے ہوئے جاتے ہیں اوسان خطا
راہ میں کچھ نظر آتی ہے خطر کی صورت

(مولانا الطاف حسین حالی)
------

بحر - بحرِ رمل مثمن مخبون محذوف مقطوع

افاعیل - فاعِلاتُن فَعِلاتُن فَعِلاتُن فَعلُن
(پہلے رکن فاعلاتن کی جگہ مخبون رکن فعلاتن بھی آسکتا ہے، آخری رکن فعلن کی جگہ فعلان، فَعِلن اور فَعِلان بھی آسکتا ہے یوں آٹھ وزن اکھٹے ہو سکتے ہیں)

اشاری نظام - 2212 / 2211 / 2211 / 22
ہندسوں کو اردو کی طرز پر دائیں سے بائیں پڑھیے۔ یعنی 2212 پہلے ہے اور اس میں بھی 12 پہلے ہے۔
(پہلے 2212 کی جگہ 2211 اور آخری 22 کی جگہ 122، 211 اور 1211 بھی آ سکتا ہے)

تقطیع -

اس کے جاتے ہی یہ کیا ہو گئی گھر کی صورت
نہ وہ دیوار کی صورت ہے نہ در کی صورت

اس کِ جاتے - فاعلاتن - 2212
ہِ یِ کا ہو - فعلاتن - 2211
گ ء گر کی - فعلاتن - 2211
صورت - فعلن - 22

نَ وُ دیوا - فعلاتن - 2211
ر کِ صورت - فعلاتن - 2211
ہِ نَ در کی - فعلاتن - 2211
صورت - فعلن - 22
----
مزید پڑھیے۔۔۔۔

Dec 10, 2011

ہے جستجو کہ خوب سے ہے خوب تر کہاں - غزلِ حالی

ہے جستجو کہ خوب سے ہے خوب تر کہاں
اب ٹھیرتی ہے دیکھئے جا کر نظر کہاں

ہیں دورِ جامِ اوّلِ شب میں خودی سے دُور
ہوتی ہے آج دیکھئے ہم کو سحر کہاں

یارب، اس اختلاط کا انجام ہو بخیر
تھا اس کو ہم سے ربط مگر اس قدر کہاں

کون و مکاں سے ہے دلِ وحشی کنارہ گیر
اس خانماں خراب نے ڈھونڈا ہے گھر کہاں
Altaf، Hussain، Hali, Altaf Hussain Hali, urdu poetry, poetry, classical urdu poetry, ghazal, خواجہ، الطاف، حسین، حالی، خواجہ الطاف حسین حالی، اردو شاعری، کلاسیکی اردو شاعری، شاعری، غزل, Ilm-e-Arooz, Taqtee
خواجہ الطاف حسین حالی
Altaf Hussain Hali
اِک عمر چاہیے کہ گوارا ہو نیشِ عشق
رکھّی ہے آج لذّتِ زخمِ جگر کہاں

بس ہو چکا بیاں کَسَل و رنج و راہ کا
خط کا مرے جواب ہے اے نامہ بر کہاں

ہم جس پہ مر رہے ہیں وہ ہے بات ہی کچھ اور
عالم میں تجھ سے لاکھ سہی، تُو مگر کہاں

ہوتی نہیں قبول دعا ترکِ عشق کی
دل چاہتا نہ ہو تو زباں میں اثر کہاں

حالی نشاطِ نغمہ و مے ڈھونڈتے ہو اب
آئے ہو وقتِ صبح، رہے رات بھر کہاں

(خواجہ الطاف حسین حالی)
------

بحر - بحر مضارع مثمن اخرب مکفوف محذوف

افاعیل - مَفعُولُ فاعِلاتُ مَفاعِیلُ فاعِلُن
(آخری رکن میں‌ فاعلن کی جگہ فاعلان بھی آسکتا ہے)

اشاری نظام - 122 1212 1221 212
ہندسے دائیں سے بائیں، اردو کی طرح پڑھیے۔
(آخری رکن میں‌ 212 کی جگہ 1212 بھی آ سکتا ہے)

تقطیع--

ہے جستجو کہ خوب سے ہے خوب تر کہاں
اب ٹھیرتی ہے دیکھئے جا کر نظر کہاں

ہے جُستَ - مفعول - 122
جُو کِ خوب - فاعلات - 1212
سِ ہے خوب - مفاعیل - 1221
تر کہا - فاعلن - 212

اب ٹھیر - مفعول - 122
تی ہِ دے کِ - فاعلات - 1212
یِ جا کر نَ - مفاعیل - 1221
ظر کہا - فاعلن - 212

----
مزید پڑھیے۔۔۔۔

May 17, 2010

ال نامہ از مولانا الطاف حسین حالی

مولانا الطاف حسین حالی نے 1906ء میں ایک 'ال نامہ' لکھ کر اپنے ایک دوست کو بھیجا تھا، وہ لکھ رہا ہوں مشکل فارسی جملوں کا یہ خاکسار اردو ترجمہ بھی لکھ رہا ہے، مولانا کے قلم کی کاٹ دیکھنے کے لائق ہے۔

المذہب - اعلانِ جنگ

الدّین - تقلیدِ آباء و اجداد

العلم - قسمے از جہلِ مرکب (جہل مرکب کی ایک قسم)۔

الامتحان - آزمائشِ لیاقتِ ممتحنان (امتحان لینے والوں کی لیاقت کی آزمائش)۔

الیونیورسٹی - کارخانۂ کلرک سازی

الکمیشن - وجہ موجہ برائے فیصلۂ یک طرفہ (یک طرفہ فیصلہ کرنے کا سب سے بہتر طریقہ)۔

الانجمن ہائے اسلامیہ - سبزۂ برشگال (برسات کا سبزہ یعنی فصلی بٹیرے)۔

الرئیس - آنکہ از ریاست بے خبر باشد (وہ جو کہ اپنی ریاست سے بے خبر ہو)۔

الامیر - آنکہ تہی دست و قرضدار باشد (وہ جو کہ کنگال اور قرضدار ہو)۔

المولوی - آنکہ جمیع مسلماناں را از دائرۂ اسلام خارج می کند (وہ جو کہ تمام مسلمانوں کو دائرۂ اسلام سے خارج کر دیتا ہے)۔

الواعظ - آنکہ در تفریق بین المسلمین خطا نہ کند (وہ کہ جو مسلمانوں کے درمیان تفریق و نفاق پھیلانے سے نہ چُوکے)۔
مزید پڑھیے۔۔۔۔

Mar 19, 2009

خواجہ الطاف حسین حالی کی چند رباعیات

Altaf، Hussain، Hali, Altaf Hussain Hali, urdu poetry, poetry, classical urdu poetry, ghazal, خواجہ، الطاف، حسین، حالی، خواجہ الطاف حسین حالی، اردو شاعری، کلاسیکی اردو شاعری، شاعری، غزل، رباعی، Rubai
Altaf Hussain Hali, خواجہ الطاف حسین حالی
سر سید احمد مرحوم کے رفقاء میں جن احباب نے خاص مقام حاصل کیا اور ان کے پیغام کو ہندوستان کے کونے کونے میں پھیلایا، ان میں مولانا خواجہ الطاف حسین حالی پانی پتی کا نام تاریخ میں سنہرے حروف سے لکھا جا چکا ہے۔ مولانا حالی نے 'ادبی محاذ' سنبھالا تھا اور اس زمانے کی مقبول لیکن لغویات سے پُر شاعری کے خلاف جہاد بالقلم کیا۔ مولانا کی طویل نظم "مد و جزرِ اسلام" جو کہ "مسدسِ حالی" کے نام سے مشہور ہے کہ بارے میں سر سید احمد خان فرماتے تھے کہ جب خدا مجھ سے پوچھے گا کہ دنیا سے کیا لایا تو کہوں گا کہ حالی سے مسدس لکھوا کر لایا ہوں۔

مولانا نے جہاں نظم میں اپنے قلم کے جوہر دکھلائے وہیں وہ میدانِ نثر کے بھی شاہسوار تھے اور ایسی سلیس اور رواں اردو لکھی کہ اہلِ زبان بھی عش عش کر اٹھے۔ انکی مشہور تصنیفات، جوکہ اردو ادب میں زندہ و جاوید ہو چکی ہیں، میں "مقدمۂ شعر و شاعری" جو کہ دراصل ان کے شعری دیوان کا مقدمہ تھا لیکن یہ اتنا مقبول ہوا اور اس نے پرانی اور پامال شعری روش کو بدلنے میں وہ کام کیا کہ ایک علیحدہ تصنیف کے طور مشہور ہوا، "یادگارِ غالب" جو کہ غالب کی سوانح عمری اور "حیاتِ جاوید" جو کہ سر سید احمد خان کی سوانح عمری ہے۔ یہ کتب نہ صرف پڑھی جاتی رہی ہیں بلکہ رہتی دنیا تک پڑھی جاتی رہیں گی کہ اپنے اپنے موضوع پر سند اور اتھارٹی کی حیثیت رکھتی ہیں۔

مولانا کے دیوان، جو رنگِ سخنِ قدیم و جدید سے معمور ہے، میں قطعات، غزلیات اور پابند نظموں کے ساتھ پند و نصائح و حقیقت و معرفت و مذہب و فلسفہ و کشاکشِ زیست سے لبریز رباعیات بھی موجود ہیں جن میں سے چند درج کرتا ہوں۔ سب سے پہلے مولانا کی مشہور و معروف رباعی جس سے انہوں نے مسدس کا آغاز کیا ہے۔

تنزّلِ اہلِ اسلام
پستی کا کوئی حد سے گزرنا دیکھے
اسلام کا گِر کر نہ ابھرنا دیکھے
مانے نہ کبھی کہ مد ہے ہر جزر کے بعد
دریا کا ہمارے جو اترنا دیکھے

صلحِ کُل
ہندو سے لڑیں نہ گبر سے بیر کریں
شر سے بچیں اور شر کے عوض خیر کریں
جو کہتے ہیں یہ کہ، ہے جہنّم دنیا
وہ آئیں اور اس بہشت کی سیر کریں

کم ہمتی
جبریہ و قدریہ کی بحث و تکرار
دیکھا تو نہ تھا کچھ اس کا مذہب پہ مدار
جو کم ہمت تھے ہو گئے وہ مجبور
جو باہمت تھے بن گئے وہ مختار

عشق
ہے عشق طبیب دل کے بیماروں کا
یا گھر ہے وہ خود ہزار آزاروں کا
ہم کچھ نہیں جانتے پہ اتنی ہے خبر
اک مشغلہ دلچسپ ہے بیکاروں کا

ترکِ شعر عاشقانہ
بُلبُل کی چمَن میں ہم زبانی چھوڑی
بزم شعرا میں شعر خوانی چھوڑی
جب سے دلِ زندہ تُو نے ہم کو چھوڑا
ہم نے بھی تری رام کہانی چھوڑی

مکر دریا
حالی راہِ راست جو کہ چلتے ہیں سدا
خطرہ انہیں گرگ کا نہ ڈر شیروں کا
لیکن اُن بھیڑیوں سے واجب ہے حذر
بھیڑوں کے لباس میں ہیں جو جلوہ نما

نیکی اور بدی پاس پاس ہیں
جو لوگ ہیں نیکیوں میں مشہور بہت
ہوں نیکیوں پر اپنے نہ مغرور بہت
نیکی ہی خود اک بدی ہے گر ہو نہ خلوص
نیکی سے بدی نہیں ہے کچھ دُور بہت

آزادگانِ راست باز کی تکفیر
یاروں میں نہ پایا جب کوئی عیب و گناہ
کافر کہا واعظ نے انہیں اور گمراہ
جھوٹے کو نہیں ملتی شہادت جس وقت
لاتا ہے خدا کو اپنے دعوے پہ گواہ

توحید
ہندو نے صنم میں جلوہ پایا تیرا
آتش پہ مغاں نے راگ گایا تیرا
دہری نے کیا دہر سے تعبیر تجھے
انکار کسی سے بن نہ آیا تیرا

دوستوں سے بیجا توقع
تازیست وہ محوِ نقشِ موہوم رہے
جو طالبِ دوستانِ معصوم رہے
اصحاب سے بات بات پر جو بگڑے
صحبت کی وہ برکتوں سے محروم رہے

عیش اور عشرت
عشرت کا ثمر تلخ سوا ہوتا ہے
ہر قہقہہ پیغامِ بُکا ہوتا ہے
جس قوم کو عیش دوست پاتا ہوں
کہتا ہوں کہ اب دیکھیے کیا ہوتا ہے

نیکوں کی جانچ
نیکوں کو نہ ٹھہرائیو بد اے فرزند
اک آدھ ادا ان کی اگر ہو نہ پسند
کچھ نقص انار کی لطافت میں نہیں
ہوں اس میں اگر گلے سڑے دانے چند

گدائی کی ترغیب
اک مردِ توانا کو جو سائل پایا
کی میں نے ملامت اور بہت شرمایا
بولا کہ ہے اس کا ان کی گردن پہ وبال
دے دے کے جنہوں نے مانگنا سکھلایا

رباعیاتِ قدیم
ہو عیب کی خُو کہ ہو ہنر کی عادت
مشکل سے بدلتی ہے بشر کی عادت
چھٹتے ہی چھٹے گا اس گلی میں جانا
عادت اور وہ بھی عمر بھر کی عادت
--------
مرنے پہ مرے وہ روز و شب روئیں گے
جب یاد کریں گے مجھے تب روئیں گے
الفت پہ، وفا پہ، جاں نثاری پہ مری
آگے نہیں روئے تھے تو اب روئیں گے
--------
کیا پاس تھا قولِ حق کا، اللہ اللہ
تنہا تھے، پہ اعدا سے یہ فرماتے تھے شاہ
میں اور اطاعتِ یزیدِ گمراہ
لا حَولَ و لا قُوّۃَ الّا باللہ

مزید پڑھیے۔۔۔۔