Showing posts with label میری یادیں. Show all posts
Showing posts with label میری یادیں. Show all posts

Oct 14, 2010

اندھے

پنجابی کا ایک بڑا پیارا محاورہ ہے، "لیروں لیر کرنا"، پنجابی دوست اس محاورے کی روح تک پہنچ گئے ہوں گے، اردو میں اس کا قریب ترین مترادف شاید دھجیاں اڑانا ہوگا لیکن جو "لیروں لیر" کرنے میں مولوی مدن کی سی بات ہے وہ دھجیاں اڑانے میں کہاں۔ نہ جانے کیوں جب بھی "لیروں لیر" میرے ذہن میں آتا ہے تو ساتھ ہی "لیگوں لیگ" بھی آ جاتا ہے۔ اردو کے حروفِ تہجی گنتے جایئے ختم ہو جائیں گے لیکن مسلم لیگ کے ساتھ جڑے ہوئے حروف ختم نہیں ہونگے۔ لیگ کی تقسیم تو تقسیم سے پہلے ہی شروع ہو گئی تھی، جناح لیگ اور شفیع لیگ تاریخ پر نظر رکھنے والے احباب سے پوشیدہ نہیں ہونگی لیکن وہ دونوں واقعی لیڈر تھے اور پھر ان کے درمیان "بائنڈنگ فورس" کے طور پر علامہ بھی حیات تھے سو اتحاد ہو گیا، لیکن تقسیم کے بعد الامان و الحفیظ، لیگ نے باندیوں والا روپ دھار لیا اور اسکا حشر بھی ویسا ہی ہوا۔

اس معروضے سے یہ نہ سمجھا جائے کہ خاکسار پیپلز پارٹی کا حامی ہے، حامی ہونا تو دور کی بات مجھے تو اس پارٹی کے نام کا مطلب ہی ایک زمانے کے بعد سمجھ میں آیا، یادش بخیر، بچپن کے دن تھے، بھٹو مرحوم کو پھانسی دی گئی تو والدہ نے رو رو کر بُرا حال کر لیا، ماموں مرحوم انکے غم میں برابر کے شریک تھے لیکن اللہ جنت نصیب کرنے والدِ مرحوم، کہ "جماعتیے" تھے، برابر اپنے موقف پر اڑے رہے کہ جو بھی ہوا صحیح ہوا۔ نتیجتہً گھر کی فضا مکدر رہنے لگی لیکن پھر ایک جادو گر نے ایسا جادو کیا اور "اِس لام اُس لام" کا ایسا جنتر منتر کیا کہ والدہ اور ماموں بھی پکے لام لیگیے ہو گئے، لیکن گھر میں "پپل پارٹی پپل پارٹی" کی تکرار برابر ہوتی رہتی تھی اور یہ خاکسار انہی الفاظ کی جھنکار و تکرار میں پروان چڑھا۔

پپل پارٹی سے ہمیشہ میرے ذہن میں پپل (پیپل) کا درخت آتا تھا جو گھر کے باہر سڑک کے کنارے موجود تھا اور سارا دن اسکی چھاؤں میں کھیلتے گذر جاتا تھا۔ وہ بھی کیا دن تھے، گاؤں میں گھر کے اندر درخت ہوتے تھے اور محلوں میں گھر کے باہر، کہیں پیپل، کہیں ٹاہلی، کہیں کیکر اور کہیں "دریک" (نہ جانے اس کو اردو میں کیا کہتے ہیں)، اب تو مدت ہو گئی "دریک" کا درخت دیکھے ہوئے گو ٹاہلی اور کیکر پھر کہیں نظر آ جاتے ہیں۔ دریک پر جب اسکے "درکونے" لگتے تھے تو ان سے جیبیں بھر لی جاتی تھیں اور ہر آتے جاتے لڑکے کے سر میں چھپ کر "درکونا" مارنے کا لطف لیا جاتا تھا۔ درکونے، غلیلے کے طور پر بھی کام آتے تھے اور چھوٹی موٹی چڑیا اس سے مر بھی جاتی تھی، ہزاروں بار غلیل چلائی ہوگی لیکن مجھ سے تو آج تک ایک چڑیا بھی زخمی نہ ہوئی کہ ہمیشہ نشانہ خطا ہی ہوا بلکہ الٹا غلیل کا گوپیا اور اسکی ربر میرے دوسرے ہاتھ پر زور سے لگتی تھی اور میں "سی سی" کر اٹھتا تھا۔ لیکن آفرین ہے ان بندوقوں والوں پر، دہائیوں سے بندوقیں چلا رہے ہیں، شکار پر شکار کرتے چلے جا رہے ہیں، کبھی کوئی نشانہ خطا نہیں ہوا اور کبھی "بیک فائر" بھی نہیں ہوا۔

اسی پیپل کی چھاؤں میں اکثر بنٹے کھیلا کرتا تھا، دو یا چار حریف جب آمنے سامنے بیٹھ کر بنٹے کھیلتے تھے تو اکثر ایک یا دو یا عموماً چاروں ہی ایک نعرہ لگاتے تھے" یا بے ایمانی تیرا ہی آسرا"، یہ اس بات کی علامت ہوتا تھا کہ اس جنگ میں سب جائز ہے، کھیلتے سب تھے لیکن ہاتھ ایک مار جاتا تھا۔ ہڑبونگ اس وقت مچتی تھی جب کہیں سے اچانک بوڑھا ماما محمد حسین چھاپا مارتا تھا اور لڑکوں سے سارے بنٹے چھین کر قریب بہنے والی بڑی سی بدرو میں پھینک دیتا تھا۔

اپنے "اِس لامی جمہور (یا) پاکستان" کا بھی اس وقت کچھ یہی حال ہے، چاروں طرف سے "یا بے ایمانی تیرا ہی آسرا، یا بے ایمانی تیرا ہی آسرا" کے نعرے بلند ہو رہے ہیں اور ادھر ماما محمد حسین کہیں تاک میں لگا ہوا ہے، کچھ سمجھ نہیں آ رہا کہ کیا ہو رہا ہے اور کیا ہونا ہے، بہتر ہے اندھے ہی ہو جائیں۔ کہتے ہیں، ایک دفعہ میانوالی کے کسی دُور افتادہ گاؤں کے دو مُلّے کسی کام سے کراچی گئے اور وہاں ہاکس بے چلے گئے، کچھ دیر تو وہ دونوں مبہوت کھڑے وہاں کے "نظارے" دیکھتے رہے، پھر ایک دوسرے سے کہنے لگا، "اُوئے مام دینا میں تے انّاں ہو گیاں تُوں اکھاں بند کر لے"۔

----------
مزید پڑھیے۔۔۔۔

Jun 4, 2009

مہربان

اس 'دشتِ بلاگران' میں ہمیں بھی ایک سال ہو گیا ہے، مئی 2008ء میں یہ بلاگ بنایا تھا اور اب الحمدللہ ایک سال مکمل ہوا۔ کیا کھویا کیا پایا کا سوال میرے لیے اہم نہیں ہوتا کہ سفر کرنا ہی اصل شرط ہے لیکن نشیب و فراز تو انسانی زندگی کا حصہ ہیں سو اس بلاگ کے ساتھ بھی شامل رہے۔ بلاگ کی دنیا میں وارد ہونے سے پہلے تقریباً ایک سال میں 'اردو محفل' پر گزار چکا تھا یعنی اردو محفل کا رکن بنے ہوئے دو سال ہو گئے ہیں کہ وہاں مئی 2007ء میں شمولیت حاصل کی تھی اور یوں وہاں دو سال مکمل ہوئے، الحمدللہ۔
اوّل اوّل تو بلاگ کی مجھے سمجھ ہی نہیں آتی تھی کہ یہ کیا 'بلا' ہوتے ہیں، جب سمجھ آ گئی تو کچھ عرصہ خاموش قاری بنا رہا اور پھر حق الیقین کا علم حاصل کرنے کیلیے 'راوی' میں کود پڑا اور اس میں سب سے مشکل مرحلہ پچھلے سال دسمبر میں آیا جب اردو ٹیک پر ہمارا بلاگ ڈبکیاں لگانے لگا اور میں نے 'تیراکی' سے توبہ کر لی لیکن بہت شکریہ برادرم نبیل حسن نقوی کا جنہوں نے میری ہمت بندھائی اور بار بار اس فیصلے کو تبدیل کرنے کا مشورہ دیا اور بہت شکریہ زیک کا کہ انکی محنت کی وجہ سے مجھے اور اردو ٹیک پر موجود تقریباً تمام بلاگرز کو 'ڈیٹا' واپس مل گیا۔ پھر برادرم نبیل نے بلاگ سپاٹ کیلیے سانچوں یا تھیمز کا اردو ترجمہ کیا اور آج آپ بلاگ سپاٹ پر دیکھ سکتے ہیں کہ کافی اردو بلاگرز انہوں سانچوں کو استعمال کر رہے ہیں۔ اور یوں اس سال فروری میں اس بلاگ کی ہجرت اردو ٹیک سے بلاگ سپاٹ پر ہو گئی۔ برادرم نبیل نے بلاگ سپاٹ پر ایک اور بہت بڑے مسئلے کو حل کر دیا، بلاگ سپاٹ پر اردو ایڈیٹر نہیں تھا اس لیے ان قارئین کو جو تبصرہ کرنا چاہتے تھے کسی نہ کسی اردو 'کی بورڈ' کی ضرورت پڑتی تھی لیکن آج آپ یہ بھی دیکھ سکتے ہیں کہ بلاگ سپاٹ پر ہمارے بلاگ سمیت دیگر کئی اردو بلاگز پر اردو ایڈیٹر موجود ہے اور قارئین بغیر کسی دشواری کے اردو میں تبصرہ لکھ سکتے ہیں۔
اس کے ساتھ ساتھ، یہاں پر یہ بھی 'اعتراف' کرنا چاہوں گا کہ بلاگ کی دنیا میں وارد ہونے کے بعد بہت اچھے احباب اور دوستوں سے واسطہ پڑا۔ گو ہمارے بلاگ پر تشریف لانے والے زائرین کی تعداد اس ایک سال میں 10 فی یومیہ کے حساب سے تقریباً چار ہزار ہے اور ظاہر ہے اس میں بھی بہت سے اتفاقیہ یا بھولے بھٹکے تشریف لانے والے ہیں اور مستقل قارئین کی تعداد دونوں ہاتھوں کی پوروں پر بآسانی گنی جا سکتی ہے لیکن پھر بھی میرے لیے مسرت کی بات ہے کہ کم از کم کوئی تو ہے جو جنگل میں اس مور کے ناچ کو دیکھ رہا ہے اور میں اس موقعہ پر ان سب دوستوں اور قارئین کا شکریہ ادا کرنا بھی اپنا فرض سمجھتا ہوں کہ انکی اس بلاگ پر آمد اور مفید تبصروں سے مجھے بہت کچھ سیکھنے اور اس بلاگ کو بہتر بنانے میں بہت مدد ملتی ہے۔
اپنے بلاگ کے متعلق زائرین اور قارئین کے رائے جاننا بھی ہر بلاگر کی ایک خواہش ہوتی ہے سو اس کو جاننے کیلیے اپنے بلاگ پر ایک رائے شماری لگا رکھی ہے کہ "آپ کو میرا بلاگ کیسا لگا؟"۔ اب تک اس میں 54 ووٹ ڈالے گئے جن میں تین تو میرے اپنے تھے، دو اس وقت ڈالے جب اس رائے شماری کو اردو ٹیک والے بلاگ پر لگایا تھا اور ایک اس وقت جب بلاگ کو یہاں پر منتقل کیا یہ دیکھنے کیلیے کہ یہ پول صحیح کام کر رہا ہے یا نہیں، اپنے ووٹس اگر نکال دوں تو نتیجہ کچھ یوں ہے۔
لاجواب - 35
اچھا - 14
بس ٹھیک ہے - 1
بُرا - 0
انتہائی بُرا - 1
کل ووٹس - 51
گویا تقریباً 97 فیصد رائے دینے والوں نے اس بلاگ کو پسند کیا جس کیلیے میں ان کا شکر گزار ہوں، یہ احباب کون تھے مجھے کچھ علم نہیں کیونکہ پول فری سروس کا ہے اور اس میں آئی پی ایڈریس وغیرہ جاننے کی سہولت نہیں ہے لیکن بہرحال سب کی نوزاش ہے۔لیکن مجھے تلاش اس 'مہربان' کی ہے جسں نے اپنا ووٹ "انتہائی بُرا" کو دیا، کاش وہ کچھ بتا جاتے لیکن خیر وہ خوش رہیں، انکا اسی بات کیلیے شکریہ کہ وہ "دانا دشمن" والی بات کر گئے اور اس بلاگ کو مزید بہتر بنانے کی ہماری خواہش کو شدید تر کر گئے اور خواجہ حیدر علی آتش کا یہ شعر انہی مہربان کے نام
غم و غصّہ و رنج و اندوہ و حرماں
ہمارے بھی ہیں مہرباں کیسے کیسے
مزید پڑھیے۔۔۔۔

Apr 30, 2009

چاندنی راتیں

ملکۂ ترنم نورجہاں جب اپنی دلکش اور پُر سوز آواز میں گاتی ہیں۔ 'تیرے لیے میری طرح جاگے رے، چاندنی رات' تو دل پر تو قیامت سی گزر جاتی ہے لیکن دماغ بھی نہ جانے کیوں ماننے لگ جاتا ہے کہ چاندنی رات کے ساتھ ساتھ ملکۂ ترنم بھی ہمارے لیے جاگ رہی ہیں، سحر شاید اس قسم کی صورتحال کو کہا جاتا ہے۔
چاند اور چاندنی رات، کون دیوانہ ہے جو انکے سحر میں کبھی گم نہ ہوا ہو، یادش بخیر بچپن کے دنوں کی وہ سہانی یادیں ذہن میں تازہ ہیں جب رات کو چھت پر سونے سے پہلے، چارپائی پر لیٹ کر چاند اور بادلوں کی آنکھ مچولی دیکھا کرتا تھا اور پندرہ سال پہلے لاہور میں بتائے ہوئے وہ دن بھی یاد ہیں جب سارا دن سورج آتش برساتا تھا اور چوتھی منزل پر ہمارے پرائیوٹ ہوسٹل کا کمرہ ایک 'مِنی' جہنم کا نقشہ پیش کیا کرتا تھا۔ ہم اور ہمارے دوست، کمرے سے اٹھ کر مین مارکیٹ گلبرگ کے 'راؤنڈ اباؤٹ' کی گھاس پر آ کر لیٹ رہتے تھے اور کبھی بادلوں سے بنی تصاویر میں عکسِ یار ڈھونڈتے تھے اور کبھی چاند کی طرف ٹکٹکی لگائے، دنیا و مافیہا سے بے خبر، اُس سے راز و نیاز میں غلطاں و پیچاں۔ تعلیم مکمل کر کے واپس سیالکوٹ پہنچا اور سنگ و خشت میں ایسا قید ہوا کہ کبھی چاند، اچانک، چلتے چلتے سرِ راہ نظر آ گیا ہو تو علیحدہ بات وگرنہ اُس وقت سے میں اسکے دائمی ہجر میں ہوں۔
زندگی کی ہر کروٹ، حشر ساماں ہوتی ہے اور ہر انگڑائی قیامت خیز اور اب زندگی کی ایک اور کروٹ مجھ سے بہت کچھ اگر لے گئی ہے تو بہت کچھ دے بھی گئی ہے۔ ہفتہ ہونے کو آیا کہ مجھ سے وہ میرا وہ کمرہ چُھوٹ گیا ہے جس میں "بلا شرکتِ غیرے" میں نے اپنی زندگی کے سینتیس سال بتا دیئے، اس کمرے کے ساتھ اتنی یادیں وابستہ ہیں کہ سوچنے لگوں تو بیکار ہو جاؤں اور وہ گھر چھوٹ گیا جس میں پیدا ہوا، پلا بڑھا اور جوان ہوا۔ ہمارا وہ چھوٹا سا آبائی گھر جس کی تین منزلہ عمارت میں، میں ایک طرح سے تہہ خانے میں رہ رہا تھا اب اس سے ہجرت کر کے ساتھ والے گھر میں اٹھ آیا ہوں جس میں کبھی میرے نانا جان مرحوم رہا کرتے تھے اور انکے وہاں سے چلے جانے کے بعد میرے والد صاحب مرحوم نے وہ مکان ان سے خرید لیا تھا۔ ہجرت تو یہ چند ہی قدم کی ہے لیکن فاصلہ شاید اس میں اتنا طے ہو گیا جتنا کبھی انسان نے زمین سے چاند کی جانب طے کیا تھا۔ ایک تین منزلہ عمارت کے سب سے نچلے حصے سے نکل کر ایک دوسری تین منزلہ عمارت کے سب سے اوپر والے حصے میں منتقل ہو گیا ہوں اور سالہا سال بلکہ مدت مدید کے بعد اپنے بچپن کے آشنا 'دُبِ اکبر' کو دیکھا تو ایک عجب ہی جہان میں تھا، لیکن چاند کو نہ دیکھ کر افسوس سا ہوا لیکن کب تلک، اماوس کی راتیں گزر گئیں اور آج کل جمادی الاوّل کا نیا چاند اپنی بہار دکھا رہا ہے، چند دن بعد یہ جب مستعار کی روشنی سے بھر پور چمک اٹھے گا تو منظر دیدنی ہوگا۔
چاندنی راتوں کے کیف و سرور سے بات چلی تو چاند کی مستعار کی روشنی تک پہنچ گئی، سوچ رہا تھا کہ اپنی اس ہجرت پر کچھ شعر وعر کہونگا لیکن چھت پر لیٹ کر آسمان کو تکتے رہنے سے کچھ فرصت نہیں۔ چاند پر بہت سی شاعری ہو چکی لیکن نہ جانے کیوں مجھے 'پروانے' پر کہا ہوا ابوالفیض فیضی کا یہ شعر برابر یاد آ رہا ہے۔
تو اے پروانہ ایں گرمی ز شمعِ محفِلے داری
چو من در آتشِ خود سوز گر سوزِ دلِے داری

اے پروانے تو نے یہ تب و تاب محفل کی شمع سے (مستعار) لی ہے (اور اسی کی آگ میں جل رہا ہے)، میری طرح اپنی ہی آگ میں جل کر دیکھ اگر کچھ سوزِ دل رکھتا ہے تو۔
مزید پڑھیے۔۔۔۔

Apr 17, 2009

فیضان

لاہور میں، میں قریب قریب اڑھائی سال رہا لیکن بالکل اسی طرح جسطرح گوہر صدف میں رہتا ہے، میری دوڑ اپنے ہاسٹل سے کالج تک اور زیادہ سے زیادہ پرانی انارکلی تک ہی ہوتی تھی، جہاں میں مہینے میں دو تین بار لازمی طور پر کتابیں خریدنے جایا کرتا تھا۔ میرے کالج اور ہوسٹل کے ساتھی باقاعدہ پروگرام بنا کر لاہور کے تاریخی مقامات بھی دیکھنے جایا کرتے تھے اور فلمیں بھی لیکن مجھ پر ہمیشہ سنگ و خشت میں مقید رہنا ہی شاید نازل ہوا ہے اور اس پر دوستوں کے طنز کا بھی بارہا نشانہ بنا۔ لیکن ایک موقع ایسا آیا کہ میں بھی کشاں کشاں چلنے کو تیار ہو گیا، ہمارے ایک دوست نے بتایا کہ انکے کالج میں ایک مشاعرہ ہو رہا ہے سو چلو اور میں تیار ہو گیا، میرے اسطرح فوری تیار ہونے پر سبھی دوست حیران بھی ہوئے کہ میں حجام کے پاس جانے سے پہلے بھی کئی کئی دن 'تیاری' کرتا اور سوچتا رہتا ہوں۔

وہ مشاعرہ واقعی یادگار تھا اور میرے لیے تو خاص طور پر یادگار کہ میری زندگی کا یہ پہلا اور آخری مشاعرہ ہے جس میں میں نے شرکت کی اور سنا۔ اس مشاعرے میں کئی نامور، سنجیدہ اور مزاحیہ شاعر موجود تھے جن میں منیر نیازی، امجد اسلام امجد، ضیاءالحق قاسمی، پروفیسر عنایت علی خان، خالد مسعود خان وغیرہ شامل تھے۔ پنڈال میں پہنچے تو وہاں تل دھرنے کی بھی جگہ نہیں تھی اور مجھے بہت پیچھے نشست ملی، اپنے پسندیدہ شاعروں کے اتنے قریب آ کر اتنا دُور رہنا میرے لیے ناممکن تھا سو کرسی سے اٹھا اور اسٹیج کے پاس جا کر کھڑا ہو گیا اور تین چار گھنٹے تک سارا مشاعرہ کھڑے ہو کر سنا۔ داد تو میں بڑھ چڑھ کر دے ہی رہا تھا اسکے بعد فرمائشیں بھی شروع کر دیں، منیر نیازی مرحوم ان دنوں کافی ضعیف ہو چکے تھے لیکن ہم کافی دیر تک ان سے ان کا کلام سنتے رہے، اور میں نے ان سے انکی مشہور پنجابی نظم 'کج شہر دے لوگ وی ظالم سن' بھی سننے کا شرف حاصل کیا۔ میری فرمائشیں حد سے زیادہ بڑھ گئیں تو خالد مسعود بول ہی اٹھے کہ 'بندہ تو ایک ہے اور فرمائشیں پورے پنڈال کی طرف سے کر رہا ہے۔"۔

مشاعرہ ختم ہوا تو شعراء کرام سے ہاتھ ملانے کی سعادت بھی حاصل ہوئی، منیر نیازی سے کجھ باتیں بھی ہوئیں، ان کے ارد گرد کافی طالب علم کھڑے تھے، مجھے دیکھ کر مسکرائے اور کہنے لگے" ذرا بچوں کو تنقید پڑا رہا ہوں"، دراصل وہ گلہ کر رہے تھے کہ ان کو اردو شاعری میں وہ مقام نہیں ملا جس کے وہ حقدار تھے اور ان سے کمتر شعراء اپنی "پی آر" اور تعلقات کی وجہ سے زیادہ شہرت حاصل کر گئے۔ پروفیسر عنایت علی خان سے ملا تو کہنے لگے، 'یار آپ تو بہت اچھے سامع ہیں، سارا مشاعرہ کھڑے ہو کر سنا۔"
اس وقت میرے پاس آٹو گراف لینے کیلیے کوئی چیز موجود نہ تھی، ایک دوست کے ہاتھ میں ڈائری دیکھی تو اسی پر شعرائے کرام سے آٹو گراف حاصل کرنے کی سعادت حاصل ہوئی، لیکن افسوس وہ سنگ دل دوست اپنی ڈائری کسی طور مجھے دینے پر رضامند نہ ہوا اور یوں وہ متاع چھن گئی، لیکن ایک یادگار اور لازوال خزانہ اس مشاعرے کے حوالے سے جو میرے پاس ہے وہ کوئی نہیں چھین سکتا، امجد اسلام امجد اسٹیج سے نیچے اترے تو ان کے جوتے اسٹیج کے نیچے کہیں دُور پہنچ چکے تھے، اس خاکسار نے نہ صرف انکے جوتے نکالے بلکہ ان کو 'سیدھا بھی کیا' بلکہ میں کہہ سکتا ہوں کہ اس مشاعرے کو سننے کیلیے میرا غیر ارادی طور پر تیار ہو جانا صرف اور صرف اساتذہ کی جوتیاں سیدھی کرنے کیلیے ہی تھا۔ بقولِ شاعر
ایں سعادت بزورِ بازو نیست
تا نہ بخشَد خدائے بخشندہ

(یہ سعادت اپنے زورِ بازو سے حاصل نہیں ہوتی، تا وقتیکہ بخشنے والا خدا نہ بخشے)۔
مزید پڑھیے۔۔۔۔

Mar 5, 2009

بے خَبری

آج دفتر کے ایک ساتھی سے کھانے کے دوران، پانچ چھ ماہ کی واقفیت کے بعد، پہلی دفعہ ایک ذاتی سا مکالمہ ہوا جو کچھ انہوں نے اسطرح سے شروع کیا۔
"آپ نے رات وہ تجزیہ سنا تھا؟"انہوں نے ایک پروگرام کا نام لیتے ہوئے کہا۔
"جی نہیں"
"آپ اُن صاحب کے پروگرام تو دیکھتے ہونگے" انہوں نے اس تجزیہ نگار کا نام لیتے ہوئے کہا۔
"جی نہیں"
"آپ خبریں تو دیکھتے ہیں ناں"
"جی نہیں"
"تو پھر ٹی وی پر کیا دیکھتے ہیں۔"
"کچھ بھی نہیں، میں ٹی وی نہیں دیکھتا۔"
"واقعی!!!۔۔۔۔۔اچھا تو پھر فلمیں دیکھتے ہونگے۔"
"اب وہ بھی نہیں دیکھتا۔"
"وہ فلم دیکھی ہے آپ نے" انہوں نے کسی فلم کا نام لیتے ہوئے کہا۔
"جی نہیں"
"تو پھر گھر جا کر آپ کیا کرتے ہیں"
اسکے بعد اس مکالمے کے طول و عرض میں تو ضرور وسعت پیدا ہوئی لیکن مجھے کچھ مزید "الٹے سیدھے" سوالوں کا جواب دینا پڑا، جیسے وصی شاہ یا نسیم حجازی یا عشق کے عین، شین یا الف، ب، جیم، دال وغیرہ وغیرہ کے متعلق لیکن یہ واقعہ میرے بلاگز کی فہرست میں اضافہ ضرور کر گیا۔

اسے میری بے خبری کہیئے، یا غفلت یا جہالت یا بے حسی یا کچھ اور لیکن یہ حقیقت ہے کہ حالاتِ حاضرہ نام کی چیز کی طرف سے میرے دل میں ایک بیزاری سی پیدا ہو گئی ہے، وجہ تو ماہرینِ نفسیات ہی بتا سکتے ہیں اور شکر کے میرے بلاگ کا قاری فرائڈ نہ ہوا ورنہ کچھ نادر قسم کی وجہ دریافت ہوتی لیکن میں اس بیزاری پر بہت خوش ہوں کہ زندگی میں چین اور سکون ہے، کم از کم حالاتِ حاضرہ کی طرف سے، اور فی زمانہ اس طرف سے سکون کا مطلب ہے کہ آپ کی بے شمار پریشانیاں ختم ہو گئیں جن پر بحث بحث کر کروڑوں انسان بے حال ہوئے جا رہے ہیں۔

زمانے کی رفتار عجب ہے، ایک شور شرابہ ختم نہیں ہوتا کہ دوسرا تیار، مرزا عبدالقادر بیدل نے شاید اسی لیے کہا تھا۔

بستہ ام چشمِ امید از الفتِ اہلِ جہاں
کردہ ام پیدا چو گوھر، در دلِ دریا کراں
ترجمہ، میں نے دنیا والوں کی محبت کی طرف سے اپنی چشمِ امید بند کر لی ہے اور گوھر کی طرح سمندر کے دل (صدف) میں اپنا ایک (الگ تھلگ) گوشہ بنا لیا ہے۔

یہ شعر مجھے برابر دن رات یاد آتا ہے یا اگر اسے خودنمائی نہ سمجھا جائے تو عرض کروں کہ اپنی یہ رباعی بھی اکثر یاد آتی ہے جو کم و بیش ایک سال پہلے کہی تھی۔

شکوہ بھی لبوں پر نہیں آتا ہمدم
آنکھیں بھی رہتی ہیں اکثر بے نم
مردم کُش یوں ہوا زمانے کا چلن
اب دل بھی دھڑکتا ہے شاید کم کم
مزید پڑھیے۔۔۔۔

Feb 18, 2009

کرکٹ: جنون سے سکون تک

کرکٹ سے میری شناسائی پرانی ہے، اتنی ہی پرانی جتنی میری ہوش۔ بچپن ہی سے کرکٹ میرے خون میں رچی بسی تھی بلکہ خون سے باہر بھی ٹپکتی تھی، کبھی ناک پر کرکٹ بال لگنے سے نکسیر پھوٹی تو کبھی ہونٹ کٹے اور منہ خون سے بھر گیا لیکن یہ جنون ختم نہ ہوا۔ میں اپنے محلے کی دو ٹیموں میں کھیلا کرتا تھا وجہ اسکی یہ تھی کہ ہر لڑکا ہی آل راؤنڈر ہوتا تھا سو جس کو بلے بازی میں باری ملتی تھی اس کو گیند بازی نہیں ملتی تھی اور جس کو گیند بازی ملتی تھی اس کی بیٹنگ میں باری نہیں آتی تھی سو اس کا حل میں نے یہ سوچا تھا کہ دو ٹیموں میں کھیلا کرتا تھا ایک میں بحیثیت اوپننگ بلے باز کے اور دوسری میں بحیثیت اٹیک باؤلر کے، گو اس طرح مجھے دگنا چندہ دینا پڑتا تھا لیکن راہِ عشق میں دام و درم کو کون دیکھنا ہے۔ چند کاغذوں کو سی کر میں نے اپنی ایک پرائیوٹ ریکارڈ بُک بھی بنا رکھی تھی جس میں اپنے میچوں کے اعداد و شمار لکھا کرتا تھا۔

کھیلنے کا جنون تو تھا ہی دیکھنے کا بھی تھا، پانچ پانچ دن سارے ٹیسٹ میچ دیکھنا اور پھر ان پر تبصرے کرنا، اور تو اور جناح اسٹیڈیم سیالکوٹ میں پاکستان اور ویسٹ انڈیز کی ٹیموں کے درمیان میچ دیکھنے کیلیے پولیس کے ڈنڈے بھی کھائے اور آنسو گیس بھی سہی لیکن یہ جنون کسی طور کم نہیں ہوا۔

لیکن نہ جانے کیا ہوا ہے پچھلے دو سالوں میں کہ زندگی کم از کم کرکٹ کی طرف سے پر سکون ہو گئی ہے، کھیلنا اور دیکھنا تو درکنار میں اب کسی سے اس موضوع پر بات بھی نہیں کرتا اور اگر کوئی کرنے کی کوشش بھی کرے تو اسے کوئی شعر سنا کر چپ کرا دیتا ہوں۔ میری زندگی کے چالیس سال پورے ہونے میں تو ابھی تین چار سال باقی ہیں لیکن شاید عقل آ گئی ہے اگر کرکٹ سے صریحاً قطع تعلقی کوئی عقل کا کام ہے تو، ہاں اگر کوئی اس سے یہ نتیجہ نکالتا ہے کہ میں کرکٹ کے شائقین کو بیوقوف کہہ رہا ہوں تو دروغ بر گردنِ راوی!
مزید پڑھیے۔۔۔۔

Jan 23, 2009

ڈائری سے بلاگ تک

یادش بخیر، شاید میٹرک میں تھا کہ والد صاحب مرحوم نے تحفے میں‌ ملی ہوئی ایک ڈائری مجھے عنایت کردی۔ چند دن تک تو ڈائری یونہی پڑی رہی، پھر‌ سوچا کے اس میں کچھ لکھا جائے، سو سب سے پہلے 'خود ساختہ' محبت کی روداد لکھنے کی سوجھی!

لکھنے کا سوچا تو خیال آیا کہ اگر کسی نے پڑھ لی تو قیامت آ جائے گی، عمران سیریز پڑھنے کا اثر تو تھا ہی ذہن پر، سو فیصلہ کیا کہ اسے کسی کوڈ میں لکھا جائے اور وہ یہ کے ہر لفظ کو الٹا لکھ دو، ابھی شاید ایک جملہ ہی لکھا ہوگا کہ غبارے میں سے ہوا نکل گئی کہ یہ تو بہت آسان ہے، اسے مشکل بناؤ۔ جمع، نفی، ضرب اور تقسیم کو نمبر لگائے اور پھر ان کو حروفِ تہجی پر تقسیم کر کے علامتیں بنا لیں اور ان علامتوں‌ میں لکھنا شروع کیا۔ روداد اسطرح خاک لکھتا ایک ایک جملہ لکھنے کیلیے گھنٹوں‌ لگ جاتے تھے سو تائب ہو گیا۔

خیر، کالج پہنچا اور کچھ شعور آیا تو ایک دوسری ڈائری خریدی، اور اس میں اپنی بے وزن اور بے تکی شاعری لکھنی شروع کی، لیکن اس میں کافی مکالمے بھی لکھے تھے۔

یہ مکالمے چار اشخاص کے درمیان تھے، ایک وہ جو اپنا نصاب دل لگا کر پڑھتا تھا، دوسرا وہ جو اردو شعر و ادب و مطالعہ سے جنون کی حد تک محبت کرتا تھا اور چاہتا تھا کہ ہر وقت غیر نصابی کتب ہی پڑھی جائیں، تیسرا وہ جو یار باش تھا اور رات دیر گئے تک سیالکوٹ کینٹ کے ہوٹلوں میں دوستوں ‌کے ساتھ بیٹھ کر چائے اور سگریٹ پیتا تھا۔ تینوں کے شوق الگ تھے سو ایک دوسرے سے نالاں تھے، اور چوتھا انکا اجتماعی ضمیر تھا جو تھا تو مردہ لیکن ہمیشہ کفن پھاڑ کر بولتا تھا۔

یہ ڈائری کئی سال میرے پاس رہی لیکن لاہور میں ہاسٹل میں‌ کہیں‌ گم ہو گئی اور میرا ڈائری لکھنا بھی ہمیشہ کیلیے موقوف ہو گیا اور پھر کوئی بارہ برس کے بعد، جو کہ بہت سے بزرگوں کے نزدیک ایک منزل ہوتی ہے، میرے ہاتھ یہ بلاگ لگا اور اب مجھے ایسے ہی لگتا ہے کہ اپنی ڈائری ہی لکھ رہا ہوں اور شاید ہے بھی ایسا ہی، ہاں‌ فرق ہے تو اتنا کہ ڈائری کبھی چھپ چھپ کر تنہائیوں میں لکھا کرتا تھا اور بلاگ بقولِ شاعر:

ہم نے تو دل جلا کے سرِ عام رکھ دیا


مزید پڑھیے۔۔۔۔

Dec 1, 2008

سرخ گائے، ہمنوا اور گمنام

میں کچھ زیادہ لائق طالب علم تو نہیں تھا لیکن بہرحال اتنا نالائق بھی نہیں تھا کہ بالکل بدھو ہی کہلواتا لیکن بچپن کی کچھ نالائقیاں ایسی ہیں کہ مجھے اکثر یاد آتی ہیں، کبھی ان پر غصہ آتا تھا اور اب ہنسی آتی ہے۔
میں شاید چھٹی جماعت میں تھا اور تازہ تازہ انگریزی کا منہ دیکھا تھا اور میرے والد صاحب مرحوم میری انگریزی پر بہت توجہ دیتے تھے، ان دنوں ٹی وی پر کسی دودھ کا اشتہار چلتا تھا جس میں وہ کہتے تھے “ریڈ کاؤ مِلک”۔ ایک دن ٹی وی پر وہ اشتہار چلا تو والد صاحب نے پوچھا۔
“وارث، ریڈ کاؤ مِلک کا کیا مطلب ہے۔”
“جی”
“ہاں کیا مطلب ہے۔”
“وہ، جی، وہ گائے، گائے۔۔۔۔۔۔۔۔”
“کیا گائے گائے، بھئی مطلب بتاؤ، اچھا چلو ایک ایک لفظ کا مطلب بتاؤ، ریڈ کا کیا مطلب ہے”
“سرخ”
“اور کاؤ کا”
“گائے”
“اور ملک کا”
“دودھ”
“تو ریڈ کاؤ ملک کا کیا مطلب ہوا؟”
“جی، وہ، ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔گائے۔۔۔۔۔۔۔۔۔”
“ہاں ہاں”
“جی، گائے کا سرخ دودھ”
والد صاحب نے یہ سنا تو بے اختیار ہنسنا شروع کر دیا اور کہا بیوقوف کبھی دودھ بھی سرخ ہوتا ہے، اسکا مطلب ہے سرخ گائے کا دودھ۔
ٹی وی کے حوالے سے ہی ایک دوسرا واقعہ جس پر میں گھر میں سب لوگوں کی بے رحمانہ ہنسی کا نشانہ بنا تھا، وہ بھی کم و بیش اسی زمانے کا ہے۔ اردو پڑھنے کا شوق مجھے بہت تھا اور اپنی جماعت سے بڑی جماعتوں کی اردو کی کتابیں پڑھا کرتا تھا اور گھر میں اپنی اردو دانی کی دھاک بٹھا رکھی تھی۔
ان دنوں قوالی میں صابری برادران کا طوطی بولتا تھا لیکن نصرت فتح علی خان نے بھی اپنی لا جواب قوالیوں سے لوگوں کو اپنا گرویدہ بنانا شروع کر دیا تھا۔ ہمارا سارا گھر بشمول والد صاحب اور والدہ صاحبہ کے قوالیاں بڑے شوق سے سنا کرتا تھا۔ پی ٹی وی پر شاید ہر جمعرات کی رات کو ایک محفل سماع دکھائی جاتی تھی اور اسکے اشتہار وہ کافی دن پہلے ہی چلانے شروع کر دیتے تھے۔ ایک دن جب ہم سب گھر والے بیٹھے ٹی وی دیکھ رہے تھے تو نصرت فتح علی خان کی قوالی کا ایک اشتہار چلا، نصرت فتح علی خان قوال اور ہمنوا۔
والدہ بولیں، اب یہ لوگ نصرت کی قوالیاں زیادہ لگاتے ہیں۔ والد صاحب نے تائید کی اور کہا، ہاں پہلے تو صرف صابری برادران یا عزیز میاں قوال کی قوالیاں ہوتی تھیں لیکن اب اسکی بھی کافی قوالیاں ہوتی ہیں۔ میں جو پاس بیٹھا سن رہا تھا، شو مئی قسمت سے بولا، لیکن ابو یہ جو ہر قوالی میں ہمنوا ہوتا ہے سب سے زیادہ قوالیاں تو اسی کی ہوتی ہیں۔
میری بات سننی تھی کہ سب بے اختیار قہقہے مار کر ہنسنے لگے اور لگے میری اردو دانی کا مذاق اڑانے، والد صاحب نے کہا، الو ہمنوا کوئی قوال نہیں ہے بلکہ اسکے ساتھ جو قوالی کرنے والے ہوتے ہیں ان کو ہمنوا کہتے ہیں۔
مجھے “اقوالِ زریں” پڑھنے کا بھی بہت شوق رہا ہے اور لطف اس وقت آتا تھا جب صاحبِ قول کا نام بھی ساتھ لکھا ہوتا تھا لیکن اکثر اقوال ایسے ہوتے تھے جن کے نیچے گمنام لکھا ہوتا تھا، خیر اردو کے گمنام کا تو کوئی مضائقہ نہیں تھا لیکن مصیبت اس وقت پڑی جب انگریزی اقوال کے ساتھ “اینانیمس” لکھا ہوتا تھا۔ میری عادت یہ بھی ہوتی تھی کہ جب کسی مشاہیر کا قول پسند آتا تھا تو پھر اس کے متعلق معلومات بھی ڈھونڈ ڈھونڈ کر پڑتا تھا، اب جب کافی جگہ اقوال کے نیچے مجھے “اینانیمس” لکھا نظر آیا تو میں نے سوچا یہ کوئی بہت بڑا بندہ ہوگا تبھی تو اتنے پتے کی باتیں کرتا ہے اور جب کالج کی لائبریری اور ادھر ادھر کافی جگہ ڈھونڈ کر تھک گیا تو بلآخر ایک لغت نے میری مدد کی اور علم ہوا کہ یہ کوئی حضرت نہیں بلکہ “گمنام” کی انگلش ہے۔ اس دفعہ کسی نے ہنسی تو نہیں اڑائی لیکن اپنے آپ سے بہت شرمندہ ہوا کہ اتنا بڑا ہو کر بھی ایک لفظ کا مطلب نہ جان سکا۔
خیر اپنی جہالت کا ماتم میں کر چکا لیکن “گمنام” میرے ذہن سے نہیں نکلتا اور اب جب کبھی کوئی شعر بغیر شاعر کے نام کے لکھا دیکھتا ہوں تو بہت افسوس ہوتا ہے بلکہ شعر پڑھنے کو ہی دل نہیں کرتا، شاید کوئی خفت کہیں چُھپی ہوئی ہے۔
مزید پڑھیے۔۔۔۔

Nov 28, 2008

اُو اے غالب

پچھلے کچھ دنوں سے میرے گھر کا ماحول کافی خراب ہے کہ ہماری بیگم صاحبہ ہم سے بہت نالاں ہیں، وجہ اسکی کوئی خاص تو نہیں لیکن اگر کسی کو شعر و ادب سے للہی بغض ہو تو کیا کیا جا سکتا ہے۔ جی ہاں ہماری بیگم صاحبہ کو نفرت ہے شعر و ادب و کتب سے۔
اس سے یہی برداشت نہیں ہو رہا تھا کہ میں گھر میں اپنا زیادہ تر وقت کتابوں میں یا کمپیوٹر کے سامنے گزارتا ہوں تو یہ کیسے ہضم ہو کہ میں بچوں کو بھی شعر یاد کروانے شروع کر دوں۔
کچھ دن پہلے میں گھر میں بیٹھا ہوا تھا کہ غالب کا شعر یاد آ گیا۔
دلِ ناداں تجھے ہوا کیا ہے
آخر اس درد کی دوا کیا ہے
نہ جانے جی میں کیا آیا کہ میں نے اپنے دونوں بیٹوں، سات سالہ حسن اور پانچ سالہ احسن سے کہا کہ جو کوئی بھی یہ شعر یاد کرے گا اسے انعام ملے گا۔ اب انعام کے لالچ میں دونوں نے شعر یاد کرنا شروع کر دیا بلکہ کر بھی لیا گو کچھ گڑ بڑ ضرور کر جاتے ہیں، حسن ‘ناداں’ کو مسلسل ‘نادان’ پڑھ رہا ہے اور احسن ‘آخر’ کو پہلے مصرعے میں ادا کرتا ہے۔ لیکن میری خوشی کا کوئی ٹھکانہ نہیں ہے کہ میں نے غالب کے بیج اپنے گھر میں بونے شروع کر دیے ہیں، اور بیگم صاحبہ کا جل جل کے برا حال ہو رہا ہے۔
اس پر مستزاد یہ کہ میری دو سالہ بیٹی فاطمہ کو غالب کی تصویر کی پہچان ہو گئی ہے، وہ جب بھی دیوانِ غالب پر غالب کی تصویر یا کمپیوٹر پر میرے بلاگ پر لگی ہوئی تصویر دیکھتی ہے تو زور زور سے چلانا شروع کر دیتی ہے “اُو اے غالب، اُو اے غالب۔” میں بتا نہیں سکتا کہ اس وقت مجھے کتنی خوشی ہوتی ہے۔ مرزا غالبیاد تو میں نے اسے ‘اقبال’ کا نام بھی کروا دیا ہے لیکن ابھی تک اقبال کی اسے پہچان نہیں ہو سکی اور ہار بار بتانا پڑتا ہے کہ یہ اقبال ہے۔
اور فاطمہ کیلیئے غالب کی یہ تصویر اس پوسٹ میں لگا رہا ہوں کہ ‘اُو اے غالب، اُو اے
غالب” کی صدائیں میرے کانوں مین رس گھولتی رہیں اور بیگم صاحبہ کے سینے پر مونگ دلتی رہیں۔
مزید پڑھیے۔۔۔۔

Nov 2, 2008

آٹھ سال بعد

“سَر، وہ دراصل میری فیملی میں ایک شادی ہے۔۔۔۔۔۔۔۔تو میں وہ مَنڈے کو چُھٹی پر ہوں۔۔۔۔۔۔”
“ہیں، اوہ ٹھیک ہے۔”
“تھینک یو، سر”
“ہاں وہ اپنے کام ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔”
“جی سر، ضرور”
اسطرح اور اس سے ملتے جلتے نہ جانے کتنے مکالمے ہونگے جو میرے اور میرے باس یا میرے اور میرے کسی ماتحت کے درمیان پچھلے بارہ سالوں میں ہوئے ہیں۔
دوسری طرف حقیقت یہ ہے کہ کامل آٹھ سال بعد، پچھلے اتوار کو میں نے کسی شادی کی تقریب میں شرکت کی ہے اور وہ بھی باامر مجبوری، کیا کرتا کہ گھر میں شادی تھی۔ مجھ سے چھوٹے بھائی کی شادی نومبر 2000 میں ہوئی تھی اور اب اس سے چھوٹے کی۔
تقریبات میں شرکت کرنے سے اور گھر سے باہر نکلنے میں میری جان جاتی ہے، جنازے وغیرہ تو پھر چند ایک پڑھ لیے ہیں لیکن شادی کی تقریبات کے بارے میں میں یہی سوچتا ہوں کہ وہاں میرے نہ ہونے سے بھی کوئی فرق نہیں پڑنے والا۔ میرے والد صاحب مرحوم میری اس عادت سے بہت نالاں تھے اور اب زوجہ محترمہ لیکن کچھ عادات بڑی مشکل سے تبدیل ہوتی ہیں سو آپ کے ارد گرد رہنے والوں کو ان سے سمجھوتہ کرنا ہی پڑتا ہے۔
خیر، بات چھٹی سے ذہن میں آئی تھی کہ اس دفع جب حقیقتاً دفتر سے چھٹی لینی پڑی تو عجیب سا احساس ہوا۔ سرکاری دفاتر کے متعلق تو میرا علم بس شنیدہ ہے لیکن پرائیوٹ نوکری میں “چھٹی مافیا” کے متعلق میرا علم حق الیقین کے درجے پر ہے۔ زندگی کے اس رخ میں مشقت زیادہ ہے اور چھٹی کرنا ایک نازیبا اور غیر پیشہ وارانہ حرکت تصور ہوتی ہے اور اسی وجہ سے پرائیوٹ نوکری میں آرام سے چھٹی حاصل کر لینا ایک “آرٹ” تصور ہوتا ہے اور ہزاروں لطائف بھی لوگوں کو یاد ہونگے۔
بڑی اور ملٹی نیشنل کمپنیوں کو چھوڑیئے، چھوٹی اور درمیانی درجے کی پاکستانی اور پھر ہمارے شہر سیالکوٹ کی تمام کمپنیوں میں اپنے ملازمین کو انکی سالانہ چھٹیاں دینا یا چھٹی نہ کرنے پر ان کو ان چھٹیوں کے پیسے دینا خال خال نظر آتا ہے جسکا لازمی نتیجہ یہی ہے کہ بہانے بازی سے چھٹیاں حاصل کی جاتی ہیں۔
بہرحال، شادی کی گہما گہمی نے چند دن تک کافی تنگ کیے رکھا، نہ وہ تنہائی میسر تھی اور نہ وہ کنارِ کتب، دعا تو یہی کر رہا ہوں کہ مزید آٹھ سال بغیر کسی تقریب کے گزر جائیں لیکن پھر اس بیچارے غریب چوتھے بھائی کا چہرہ سامنے آ جاتا ہے جسکی شادی شاید چند ماہ کے دوران متوقع ہے۔
ع - مشکلیں مجھ پر پڑیں اتنی کہ آساں ہو گئیں
مزید پڑھیے۔۔۔۔

Jun 2, 2008

میں نے اپنی پہلی کتاب خریدی

وہ بھی ایک عجیب دن تھا۔ اسلامیہ کالج سیالکوٹ سے گھر واپس آتے ہوئے نہ جانے جی میں کیا آئی کہ میں نے اپنی سائیکل کا رُخ اردو بازار کی طرف موڑ لیا۔
ان دنوں میں گیارھویں جماعت میں پڑھتا تھا اور اپنے کالج کی لائبریری جب پہلی بار دیکھی تو دیکھتا ہی رہ گیا کہ دنیا میں ایک ہی جگہ اتنی کتابیں بھی ہوتی ہیں، ناول اور کہانیاں تو خیر میں بچپن سے ہی پڑھا کرتا تھا لیکن اردو ادب سے صحیح شناسائی کالج میں پہنچ کر ہوئی اور وہ بھی اتفاقاً۔ ہوا کچھ یوں کہ میرے ایک اسکول کے دوست، جو کالج میں بھی ساتھ ہی تھا، کی بڑی بہن کو کرنل محمد خان کی کتاب “بجنگ آمد” درکار تھی جو کہ انکے کالج کی لائبریری میں نہیں تھی، انہوں نے اپنے بھائی سے کہا کہ اپنے کالج میں پتا کرو، اور بھائی صاحب نے مجھے پکڑا کہ چلو لائبریری، خیر وہ کتاب مل گئی لیکن واپس کرنے سے پہلے میں نے بھی پڑھ ڈالی۔
اس کتاب کا پڑھنا تھا کہ بس گویا دبستان کھل گیا، اسکے بعد میں نے پہلے کرنل محمد خان کی اور بعد میں شفیق الرحمن کی تمام کتب لائبریری سے نکلوا کر پڑھ ڈالیں۔
خیر اردو بازار میں داخل ہوا تو ایک بُک اسٹور پر رک گیا اور کتابیں دیکھنے لگا، ایک کتاب نظر آئی “شناخت پریڈ”، یہ ڈاکٹر یونس بٹ کی کتاب ہے اور شاید ان کی پہلی کتاب ہے، اسکی ورق گردانی کی تو اچھی لگی۔ میرے دل میں آیا کہ کتاب خریدنی چاہیئے لیکن ایک بڑا مسئلہ اسی وقت کھڑا ہو گیا، کتاب کی قیمت پچاس روپے تھی، سوچا پچاس لکھی ہوئی ہے شاید کم کر دیں، مالک سے بات کی، اس نے ایک دفع میرے چہرے کی طرف دیکھا اور دوسرے ہی لمحے کہا کہ اسکی قیمت کم نہیں ہو سکتی۔ مالک کی اس بے رحمانہ بات پر کیا کہہ سکتا تھا سوائے چپ رہنے کے۔ (خیر اب وہ مالک صاحب میرے اچھے خاصے شناسا ہیں اور تقریباً پچیس سے پنتیس فیصد رعایت بھی کر دیتے ہیں)۔
وہاں سے میں چلا تو آیا لیکن دل کتاب میں ہی اٹکا ہوا تھا، کافی دن اسی سوچ بچار میں گزارے کہ پچاس روپے کہاں سے لاؤں۔ ان دنوں میرا جیب خرچ پانچ روپے روزانہ تھا اور اگر دس دن پیسے جمع کرتا تو پچاس روپے جمع ہو جاتے اور کوشش بھی کی لیکن پیسے تھے کہ جمع ہو کر نہیں دیتے تھے (ویسے وہ اب بھی نہیں ہوتے)۔ بہت تیر مارا تو کچھ دنوں کے بعد میرے پاس پچیس روپے جمع ہو گئے لیکن اب بھی آدھی رقم کم تھی اور تمنا بیتاب۔
سوچ سوچ کر پاگل ہوتا رہا لیکن کچھ سمجھ نہیں آتا تھا کہ کتاب کیسے خریدوں کہ اللہ کی غیبی مدد پہنچ ہی گئی۔ ایک دن والد صاحب کی میز پر بیٹھا ہوا تھا کسی کام کیلیئے دراز کھولا تو اس میں ڈاک کے ٹکٹ نظر آئے اور ساتھ ہی ذہن میں ایک شیطانی منصوبہ، میں نے سوچا اگر میں کچھ ڈاک ٹکٹ چرا لوں اور انہیں بیچ ڈالوں تو رقم مل جائے گی۔
پہلے تو ضمیر نے ملامت کیا کہ چوری بری چیز ہے لیکن پھر حضرتِ شیطان فوراً مدد کو آئے کہ کونسے برے کام کیلیئے چوری کرنی ہے، آخر کتاب ہی تو خریدنی ہے۔ میں نے پچیس روپے کے ڈاک ٹکٹ نکال لیے لیکن پھر خیال آیا کہ اپنے جمع کیئے ہوئے پیسے ضرور خرچ کرنے ہیں، اگر چوری کرنی ہی ہے تو پورے پیسوں کی کروں۔
سو نہایت ایمانداری سے گن کر پورے پچاس روپوں کے ڈاک ٹکٹ اٹھا لیئے، اب انہیں بیچنے کا مسئلہ درپیش تھا، اس وقت تو درکنار مجھے ابھی تک بھی کسی بھی چیز کو بیچنے کا تجربہ نہیں ہے لیکن شوق کے ہاتھوں مجبور تھا سو اسی وقت تیز تیز سائیکل چلاتا ہوا ڈاکخانے پہنچا، مجھے امید تھی کہ مجھے فوراً ہی رقم مل جائے گی لیکن ڈاکخانے میں بیٹھے کلرک نے مجھے سختی سے ڈانٹ دیا کہ یہاں یہ کام نہیں ہوتا۔ وہاں سے نامراد لوٹا تو اسی ادھیڑ بن میں تھا کہ اب کہاں جاؤں، کیا کروں۔
اسی سوچ بچار میں سائیکل چلا رہا تھا اور سڑک کے دونوں طرف دیکھتا بھی جا رہا تھا کہ کوئی ڈاکخانہ نظر آئے، بالآخر کچہری روڈ پر ایک چھوٹا سے ڈاکخانہ نظر آیا، وہاں گیا تو ایک جہاں دیدہ بلکہ گرم و سرد چشیدہ، گرگِ باراں دیدہ قسم کے بزرگ وہاں بیٹھے تھے، مدعا بیان کیا تو اپنی موٹے موٹے شیشوں والی عینک کے پیچھے سے مجھے گھورا اور ساتھ ہی ارشاد فرمایا کہ ٹھیک ہے لے لوں گا لیکن بیس روپے دونگا، میں نے التجا کی کہ جناب پچاس روپے کے ٹکٹ ہیں کچھ تو زیادہ عنایت فرمائیں، خیر وہ انکے پچیس روپے دینے پر راضی ہو گئے۔
ٹکٹیں چوری کرتے وقت میں تو یہی سمجھ رہا تھا کہ پچاس روپے پورے مل جائیں گے لیکن اس دن صحیح اندازہ ہوا کہ ہمارے معاشرے میں مجبوریاں کیسے خریدی اور بیچی جاتی ہیں۔ اب کل ملا کر میرے پاس پچاس روپے پورے تھے سو فوراً اردو بازار گیا اور چین اس وقت ملا جب “شناخت پریڈ” پڑھ ڈالی۔
یہ ایک معمولی واقعہ ہی سہی، لیکن آج بیس برس بعد بھی جب اس واقعے کے متعلق سوچتا ہوں تو افسوس بھی ہوتا ہے اور خوشی بھی، افسوس تو ظاہر ہے کہ چوری کا ہوتا ہے اور خوشی اس بات کی اس دن جب سائیکل کا رخ اردو بازار کی طرف موڑا تھا تو بس میری زندگی کا اپنا رخ بھی ایک ایسی جانب مڑ گیا کہ اس کے آگے ایک بحرِ بیکراں تھا، اسکے بعد کتابیں خریدنے اور پڑھنے کی ایسی عادت پڑی کہ یہ مشغلہ شاید اب موت ہی مجھ سے چھڑا سکے۔
مزید پڑھیے۔۔۔۔

May 23, 2008

پاکستان سپیکٹیٹر پر میرا انٹرویو

دی پاکستان سپیکٹیٹر کی محترمہ غزالہ خان نے کچھ دن پہلے یہاں میرے انٹرویو کی بات کی تھی، میں نے انہیں لکھا کہ میں تو بلاگنگ کی دنیا میں بالکل نووارد ہوں اور ابھی چند دن ہی ہوئے ہیں بلاگ لکھتے ہوئے، اسلیئے ایک دفعہ پھر دیکھ لیجیئے کہ میں انٹرویو کے قابل ہوں بھی یا نہیں۔
بہرحال انہوں نے سوالات مجھے بھیج دیئے جن کے جواب میں نے بھی لکھ بھیجے، اور کل یہ انٹرویو چھپ گیا، جسے اس ربط پر پڑھا جا سکتا ہے۔
مزید پڑھیے۔۔۔۔

May 21, 2008

میں اور عمران سیریز کے ناول

“اوئے الو کے پٹھے” ۔۔۔ والد صاحب نے دھاڑتے ہوئے مجھے پکارا۔
“جی، جی۔۔۔۔۔ ابو جی۔۔۔۔۔۔” میں نے کہنے کی کوشش کی، مگر جیسے میری آواز میرے اندر ہی کہیں مر چکی تھی۔
“اوئے تو پھر یہ گھٹیا ناول پڑھ رہا ہے، خبیث۔۔۔۔”
ہوا کچھ یوں تھا، کہ اللہ جنت نصیب کرے، والد صاحب مرحوم نے محلے کی ساتھ والی گلی میں ایک گھر کے باہر بیٹھے ہوئے مجھے عمران سیریز کا ناول پڑھتے ہوئے پکڑ لیا تھا۔
اس سے پہلے والد صاحب، گھر میں مجھے کئی بار منع کرچکے تھے بلکہ پٹائی ہوتے ہوتے بچی تھی، اسکا حل میں نے یہ ڈھونڈا ہوا تھا کہ محلے کی ایک ایسی گلی میں کسی کے گھر کے باہر بیٹھ کر میں ناول پڑھا کرتا تھا جسکے بارے میں مجھے پورا یقین تھا کہ والد صاحب ادھر نہیں آئیں گے، لیکن اس دن میری قسمت خراب تھی کہ چھاپہ پڑگیا۔
والد صاحب کے صبر کی یہ شاید آخری حد تھی، انہوں نے آؤ، دیکھا نہ تاؤ، زناٹے کا ایک تھپڑ میرے گال پر جڑ دیا، مجھے بازو سے پکڑا اور سیدھے اس دکاندار کے پاس لے گئے جس سے میں عمران سیریز کے ناول کرائے پر لیکر پڑھا کرتا تھا۔ وہ دکاندار والد صاحب کا شناسا تھا اس نے فوری حامی بھر لی کے آئندہ سے مجھے ناول نہیں دے گا۔
یوں تو جنوں، پریوں، عمرو عیار اور کسی حد تک اشفاق کی انسپکڑ سیریز میں بڑے شوق سے پڑھا کرتا تھا لیکن جب سے عمران سیریز میرے ہاتھ لگی تھی، میرا اوڑھنا، بچھونا یہی ناول تھے، اور تو اور میں کرکٹ کھیلنا بھی بھول چکا تھا۔
ہمارے محلے میں ایک دودھ، دہی اور چائے والے کی دکان تھی، وہ کئی بھائی تھے اور سبھی ناولوں اور جاسوسی ڈائجسٹوں کے رسیا تھے، اول اول تو ڈائجسٹوں کی طرف میں نے دھیان نہیں کیا لیکن ایک دن میں نے ایک سائیڈ پر پڑا ناول اٹھالیا۔ ایسے ہی ورق گردانی کرتے ہوئے مجھے وہ بہت اچھا لگا، پہلے تھوڑا سا پڑا، اور اگلے دن اس سے مانگ کر پورا پڑھ ڈالا۔ وہ مظہر کلیم کا کوئی ناول تھا۔ اب میری روٹین بن گئی تھی کہ میں اس دکان پر جاتا اور انکے نئے ناول لانے کا انتظار کرتا، وہ سارے بھائی باری باری اسے پڑھتے اسلئے مجھے کافی انتظار کرنا پڑتا تھا، لیکن جس کہانی کے دو حصے ہوتے تھے اس میں میری “موجیں” ہوجاتی تھیں جتنی دیر میں وہ پہلا حصہ پڑھتے میں دوسرا حصہ ختم کرچکا ہوتا اور پہلا حصہ بعد میں پڑھتا۔
شوق بڑھا اور میں نے کتابیں کرایے پر دینے والی دکان تک رسائی حاصل کرلی، والد صاحب نے گھر میں جب میرے ہاتھ میں ناول دیکھا تو آگ بگولہ ہوگئے، دراصل سرورق پر بنی ہوئی خوبصورت اور سٹائلش لڑکیوں کی تصویریں انہیں کھل گئی تھیں، انہوں نے مری والدہ سے کہا کہ یہ بیہودہ اور فخش ناول پڑھنے لگ گیا ہے اس پر نظر رکھو۔ کھلے بندھوں ناول پڑھنے بند ہوئے تو میں نے، چھپ چھپ کر ناول پڑھنے شروع کردیے، کبھی چھت پھر، کبھی اس وقت جب دوپہر کو سب سوئے ہوتے تھے، رات کی تنہائی میں اسکول کے کام کا بہانہ کرکے اور دیر تک جاگ کر۔
لیکن بھلا عشق و مشک بھی چھپتی ہے، والدہ ہر بار کبھی بستر کی چادر کے نیچے سے، کبھی اسکول کی کتابوں کے ڈھیر سے ناول برآمد کرہی لیتی تھیں۔ کچھ عرصہ، تو میری منت سماجت پر انہوں نے والد صاحب کو کچھ نہ بتایا۔ لیکن کب تلک بھلا، وہ خود متفکر تھیں جب انہوں نے دیکھا کہ یہ باز نہیں آرہا تو بتادیا۔
اب گھر میں میرے لیے ناول پڑھنے ناممکن ہوچکے تھے، اس کا حل یہ ڈھونڈا کہ محلے کی گلیوں میں بیٹھ کر پڑھنا شروع کردیا، وہاں سے تھپڑ کھا کر اٹھا تو ذہن نے ایک اور حل سوچا۔
میں گھر میں امی سے کہہ کر جاتا کہ کرکٹ کھیلنے جا رہا ہوں، اور سیدھا پہنچ جاتا ساتھ والے محلے کی ایک دکان پر۔ اسے میں نے کہا کہ مجھے یہاں بیٹھ کر پڑھنے دو تمھارا کیا جائے گا، الٹا چوبیس گھنٹے کی بجائے ناول فورا مل جایا کرے گا، وہ مان گیا اور مجھے یوں لگا کہ مجھے جنت مل گئی ہو، میں وہاں گھنٹوں بیٹھ کر ناول پر ناول پڑھتا ہی چلا جاتا، اسکی دکان میں مظہر کلیم کے جتنے ناول تھے شاید میں نے سارے پڑھ ڈالے تھے۔ مسلسل پڑھنے سے میری آنکھیں سرخ ہوجاتی تھیں اور ان میں سے پانی بہنا شروع ہوجاتا تھا لیکن میں تھا کہ بس مخمور تھا۔ اسکا ایک ضمنی فائدہ یہ ہوا، کہ میری پڑھنے کی رفتار کافی بڑھ گئی تھی، کیونکہ ایک فکر یہ بھی ہوتی تھی کہ گھر واپس جانا ہے اور ناول بھی ختم کرنا ہے۔
ایک وقت آیا کہ میں کالج پہنچ گیا، اب والد صاحب کی سختی بھی کچھ کم ہوچکی تھی اور میری آزادی بھی بڑھ چکی تھی سو کھلے بندھوں بھی پڑھتا اور کالج میں بھی عین ریاضی کی کلاس میں پچھلے بنچوں پر بیٹھ کر۔ وہ ہماری بور ترین کلاس ہوتی تھی، ٹیچر کو سب “پیار” سے “چُوچا” کہتے تھے کہ اسکی ہیتِ کذائی ہی کچھ ایسی تھی۔ اوپر سے ریاضی اور وہ بھی “چُوچے” کے ہاتھوں، نیند اور انگڑائیوں کے سوا اور کوئی کام ہی نہیں ہوتا تھا، بس عمران سیریز نے پورے دو سال ساتھ نبھایا۔
شاید والدِ مرحوم اپنے نقطہ نظر سے صحیح کہتے تھے، لیکن عمران سیریز کا ایک بھوت تھا جو سر پر سوار تھا، وہ عمران کی مزے مزے کی باتیں، وہ جولیانا کو چھیڑنا، وہ جوزف اور جوانا کی طاقتیں، وہ ایکس ٹو کا کردار، وہ جذباتی مناظر، وہ عمران کا اسرائیل کے منصوبوں کو تباہ کرنا، وہ نئی نئی ایجادیں، وہ مخالف تنظیموں کے باسز کی بوکھلاہٹیں، کتنے مصالحے تھے ان ناولوں میں جنہوں نے ایک عمر تک مجھے مسحور کئے رکھا۔
خیر وہ زمانہ بہت پیچھے رہ گیا اب، لیکن یہ حقیقت کہ اب بھی دیر رات گئے جب میرا ذہن کوئی ادق کتاب پڑھتے پڑھتے ماؤف ہوجاتا ہے تو میں مٹی سے اٹے ہوئے عمران سیریز کے وہ چند ناول نکال لیتا ہوں جو ایک مدت سے میرے پاس پڑے ہوئے ہیں۔
مزید پڑھیے۔۔۔۔