Showing posts with label تعارف. Show all posts
Showing posts with label تعارف. Show all posts

Feb 25, 2011

وشوامتر - ناصر علی

یہ مضمون کچھ دن قبل فیس بُک پر ایک ادبی گروپ میں منعقدہ جناب ناصر علی کی کتاب "اور" کی تقریبِ رونمائی کیلیے لکھا گیا تھا، یہاں بھی اپنے قارئین کے ساتھ شیئر کر رہا ہوں۔

------
بات کو ایک وضاحت سے شروع کرنے کے سوا میرے پاس کوئی چارہ نہیں ہے اور وہ یہ کہ خاکسار نہ تو کوئی نقاد ہے اور نہ ہی اس کا کتابوں پر مضمون لکھنے کا کوئی تجربہ ہے بلکہ کسی بھی کتاب پر مضمون لکھنے کا یہ پہلا تجربہ ہے۔، بلکہ پہلا تجربہ کیا مجھے تو کوئی کتاب بھی اس طرح زندگی میں پہلی بار ملی ہے، اس سے پہلے ایک دو ادبی جریدے ملے تھے لیکن کتاب کا ملنا ایک بالکل ہی نیا تجربہ تھا اور اس پر مستزاد مضمون لکھنا سو اس مضمون میں روایتی اور سکہ بند ادبی مضمونوں والی یقیناً کوئی بات نہیں ہوگی بلکہ کتاب پڑھ کر جو بھی میں نے محسوس کیا صاف صاف اور سیدھے سیدھے لفظوں میں لکھ دیا ہے۔ آپ کہہ سکتے ہیں کہ میں نے ناصر علی صاحب کی کتاب کو تختۂ مشق بنایا ہے، اور اس کا آپ کو پورا حق ہے، لیکن یہ بات کہنے کا مجھے بھی حق ہے کہ ناصر علی صاحب نے خود اپنی کتاب کو میرے ہاتھوں سے تختۂ مشق بنوایا ہے سو اس مضمون کے پردے سے جو کچھ بھی نکلے گا اس کی ساری ذمہ داری ناصر علی صاحب پر ہے۔

کوئی دو ہفتے ادھر کی بات ہے، شام کو تھکا ہارا اپنے کمرے میں بیٹھا تھا، حسبِ معمول سوچ رہا تھا کہ کیا پڑھوں، آزاد کی دربارِ اکبری شروع کر رکھی تھی لیکن اس کو پڑھنے کو دل نہیں کر رہا تھا، آزاد کی انشا پردازی اپنی جگہ لیکن کچھ معرکوں کو اتنی طوالت دی ہے کہ جی اوب جاتا ہے اور میں کتاب کے کسی ایسے ہی مقام پر تھا، ابھی انہی سوچوں میں تھا کہ آج کی رات کس کے ساتھ بسر کی جائے کہ فون کی گھنٹی بجی فون کسی اجنبی نمبر سے تھا، خیر سنا، آواز آئی۔ "ایک لاوارث، محمد وارث کو ڈھونڈ رہا ہے۔" یقین مانیے یہ شگفتہ جملہ سن کر ساری تھکاوٹ اور کلفت ہوا ہو گئی اور کچھ دیر تک خوب مزے کی گپ شپ ہوئی اور اگلی گفتگو کیلیے یہ بات تمہید ہو گئی۔ یہ تھا میرا ناصر علی صاحب سے تعارف، گو فیس بُک پر ان سے "آشنائی" تھی لیکن فیس بُک کی آشنائی کسی کالج یا یونیورسٹی کے مختلف جماعتوں کے طالب علموں کی آپس میں آشنائی جیسی ہی ہوتی ہے۔ اس پہلی گفگتو میں ناصر علی صاحب نے مجھے دو کتابیں بھیجنے کا مژدہ سنایا، ایک رفیع رضا صاحب کی اور ایک انکی اپنی "اور" جس کی تقریب کے سلسلے میں ہم سب موجود ہیں۔

خیر، ایک دو دن بعد دونوں کتابیں ملیں، اور جیسا کہ بہت سے لوگوں کی عادت ہوتی ہے کہ ایک دم ہی سے کتاب ابتدا سے شروع نہیں کرتے، میں نے بھی کتاب کی ورق گردانی شروع کی جیسے جیسے اشعار نظر سے گزرتے گئے، میں سرشار ہوتا گیا اور غالب کا مصرع "میں نے یہ جانا کہ گویا یہ بھی میرے دل میں ہے" بار بار دماغ میں تازہ ہوتا رہا۔ ناصر صاحب سے پھر بات ہوئی نے ان کا حکم تھا کہ اس پر کچھ لکھوں بھی۔

لکھنے کا ذہن میں آیا تو سب سے پہلے جو لفظ میرے ذہن میں آیا وہ "وشوامتر" تھا، یہ ہزاروں سال قبل کے ایک رشی کا نام، ہے جس کا لفظی فارسی ترجمہ علامہ اقبال نے "جاوید نامہ" میں "جہان دوست" کے نام سے کیا ہے۔ اور ناصر علی کی ذات اور کتاب پر مضمون کیلیے مجھے یہ نام انتہائی موزوں لگا کیونکہ ناصر علی جہان دوست ہیں۔ کچھ عرض کر دوں۔

علم دوست ایک اصطلاح ہے جو بہت مشہور ہے اور بہت فخر کے ساتھ استعمال کی جاتی ہے لیکن یہ علم دوست اصطلاح بہت گمراہ کن ہے، خالی خولی علم دوستی کسی کام کی نہیں ہے، کیونکہ صرف علم سے محبت ضروری نہیں کہ آدمی کو انسان بنا دے، علم آدمی کو وحشی درندہ بھی بنا سکتا ہے اور اس نے بنایا ہے، تاریخِ عالم اس بات پر گواہ ہے اور اسی لیے مولانا رُومی نے کہا تھا

علم را بر تن زنی مارے بُوَد
علم را بر دل زنی یارے بُوَد

علم دوستی کے ساتھ اگر انسان دوستی نہیں ہوگی تو وہ علم سانپ ہی بنے گا، اور اگر علم دوستی کے ساتھ انسان دوستی بھی شامل ہو جائے تو وہ جہان دوستی ہو جائے گی اور مجھے کہنے دیجیئے کہ ناصر علی کہ شاعری میں علم دوستی کے ساتھ انسان دوستی ہے اور وہ خود جہان دوست ہیں یعنی کہ وشوامتر۔ اور جو جہان دوست ہے وہ سب سے پیار کرے گا، اس جہان سے بھی جو "فتنہ و فساد" کی آماجگاہ ہے، دیکھیے گا کیا کہتے ہیں ناصر علی

جہانِ خوبصورت میں ہوا خوش
میں اس مٹی کی مورت میں ہوا خوش

میں لامکاں کے لیے کیوں مکاں کو رد کر دوں
زمیں اماں ہے میں کیسے اماں کو رد کر دوں

ایسا انسان دل کا صاف ہوگا

ناصر علی میں نے دلِ زندہ میں بہت کچھ
رکھا ہے مگر میل ملا کر نہیں رکھا

 اور از ناصر علی - سرورق

ایسا انسان دینِ محبت کا ماننے والا اور کیشِ انسانیت پر چلنے والا ہے

ہمارا دین تو ناصر علی محبت ہے
اسی طرح کے مسلمان میں خدا ملے گا

سامنے اس کے کھڑے ہو کے کھڑے کیا ہونگے
یار ہم لوگ محبت سے بڑے کیا ہونگے

زباں پہ لفظ، بدن میں لہو محبت ہے
تجھے خبر ہی نہیں ہے کہ تو محبت ہے

آدم زادو، سب کا اس میں فائدہ ہوگا
انسانیت تو سب کے مطلب کا حق ہے

ایسا انسان وسیع المشرب صوفی ہوگا، جو پکار پکار کر کہے گا کہ اے خدا کے بندو اگر کسی منزل کی تلاش ہی میں ہو تو اپنی نظر منزل پر رکھو، راہ اور راستے کے جھگڑوں میں کیوں پڑتے ہو، پیار محبت کے ساتھ بھی تو یہ راستے کاٹے جا سکتے ہیں

اس دنیا کے خالق کے گھر جانے والے
جتنے ہم ہیں اتنے رستے ہو سکتے ہیں

بجھاؤ پیاس مگر پیار کی سبیل کے ساتھ
بٹھاؤ لکشمی دیوی کو میکَئیل کے ساتھ

کچھ ایسا نقشۂ انسانیت بناؤ تم
کہ دیوتاؤں کا جھگڑا نہ ہو خلیل کے ساتھ

ایسا انسان دلوں کی خلیج کو پاٹے گا نہ کے رشتۂ الفت کو کاٹے گا، کہتے ہیں کسی نے بابا فرید کی خدمت میں ایک قینچی پیش کی، آپ نے کہا مجھے قینچی مت دو جو کاٹتی ہے بلکہ سوئی دو جو سیتی ہے، میں نے ناصر علی کو صوفی کہا تو غلط نہیں کہا

لگے جو ہاتھ قلندر ترا سوئی تاگا
دلوں کے بیچ پروتا رہوں دھمالوں کو

جہان دوست اور انسان دوست، حضرتِ انسان کی عظمت کے گن گائے گا، اس کا دل انسان کے لیے دھڑکے گا اور اس کا دماغ انسان کی فلاح اور امن کیلیے ہی سوچے گا، فقط انسان کیلیے

نہ خوف کھاؤ کہ اسلام کا ہے یہ قلعہ
بناؤ اپنا کلیسا اسی فصیل کے ساتھ

خدا کرے کہ مرے گیت ہوں فلسطینی
خدا کرے کہ انہیں گاؤں اسرَئیل کے ساتھ

ہمارے چشمۂ زم زم کو بھی خوشی ہوگی
اگر تجھے ترے اشنان میں خدا ملے گا

اور یہ بھی بتائے گا کہ اپنی اور انسان کی معرفت ہی خدا کی معرفت ہے

اسی تڑپ، اسی میلان میں خدا ملے گا
قریب آ، تجھے انسان میں خدا ملے گا

پکار حضرتِ انسان کے لیے لبیک
تجھے اسی رہِ آسان میں خد املے گا

اٹھائے پھرتا ہوں تسبیح بھی صلیب کے ساتھ
مجھے اسی سر و سامان میں خدا ملے گا

اور ایسا انسان اپنی ذاتی زندگی اور روزمرہ کی زندگی میں بھی انہی رویوں کا مالک ہوگا۔ اردو شاعری میں ماں کی عظمت اور ماں کی محبت پر بہت کچھ لکھا گیا ہے، باپ کی عظمت پر شاید ہی کوئی شعر میری نظر سے گزرا ہو، ناصر علی کا شعر دیکھیے

میں اپنے باپ سے ناصر علی بڑا خوش ہوں
یہ میرا باپ نہیں چار سو محبت ہے

اور یہ چار سو محبت خود ناصر علی کا روپ دھار لیتی ہے جب وہ خود بحیثیت شوہر اور باپ کے کہتا ہے

مرا نو سال کا بیٹا ہے ناصر
میں بیٹے کی حضورت میں ہوا خوش

میری بیوی مرے بستر پہ سنورتی ہوئی رات
میرا بیٹا، مرے ہاتھوں میں ہمکتا ہوا دن

اپنے گرتے ہوئے بالوں میں کہاں دیکھتا ہوں
زندگی میں تجھے بچوں میں رواں دیکھتا ہوں

اور ایسان انسان دوست اور جہان دوست انسان جب اپنے اردگرد ہمہ گیر مذہبی منافرت اور منافقت پھیلی ہوئی دیکھتا ہے تو بے اختیار چلا اٹھتا ہے

ڈرا رہے ہو بہت آتشِ جہنم سے
تمھارے دین کی لگتا ہے لاج آگ سے ہے

ارے یہ کوئی طریقہ ہے بات کرنے کا
وہاں کا ذکر کروں اور یہاں کو رد کر دوں

اور ایسا انسان اپنے معاشرے سے اور اس میں آکٹوپس کی طرح پھیلے ہوئے غلط اور بیمار ذہنیت کے مظہر رویوں سے، اور معاشرے کے معاشی، معاشرتی اور سیاسی معاملات سے کیسے لاتعلق رہ سکتا ہے سو ببانگِ دہل اظہار کرتا ہے

کبھی خیرات کے بل اور کبھی صدقات کے بل
پیر مشہور ہوا ایسی کرامات کے بل

عجب فسانۂ ھل من مزید سنتا ہوں
ذرا خدا نے جو دوزخ میں لات کی اور بس

کل شب سر میں درد تھا میرے، اور ہمسایے میں
اللہ ھُو، اللہ ھُو، اللہ ھُو نے تنگ کیا

آسماں نامِ خدا لگ گئے ہیں سات کے سات
اور زمیں نامِ زمیندار لگا دی گئی ہے

جدھر بھی جاؤں میں ناصر علی، تباہی ہے
وطن فسانۂ عاد و ثمود لگتا ہے

بتا رہی ہے لگی آگ شہر شہر مجھے
کہ بادشاہ سلامت کا تاج آگ سے ہے

ناصر علی اس شاہ کی ہم لوگ رعایا
جس شاہ کی تعظیم گرانی سے بھری ہے


خرد افروزی - جزا یا سزا

ایک الہامی کتاب میں ہے کہ آدم و حوا کو جنت سے اس لیے نکالا گیا کہ انہوں نے "نیک و بد" کی پہچان والے درخت کا پھل کھا لیا تھا سو وہ خدا کی مانند نیک و بد کی پہچان کرنے والے بن گئے سو بطورِ سزا جنت سے نکال دیے گئے۔

جی، نیک و بد کی پہچان یعنی عقل مندی اور خرد افروزی گناہ ہے اور سزا بھی رکھتی ہے۔ اور یہ صرف ایک مذہب کا حال نہیں ہے، تمام مذاہبِ عالم "عقل" کے خلاف ہی رہے ہیں۔ جب ابنِ رُشد نے کہا تھا کہ سچائیاں دو ہیں، ایک مذہب کی اور دوسری فلسفے کی تو ساری اسلامی علمی دنیا امام غزالی کی قیادت میں اسکے خلاف اٹھ کھڑی ہوئی اور اسلامی دنیا میں ابنِ رشد کے اس خیال کی مکمل بیخ کنی کر دی گئی لیکن اسپین اور فرانس کے کچھ علما اور طلبا کے اذہان میں یہ خیال جڑ پکڑ گیا اور پھر باقاعدہ ایک تحریک بنی، اور فلسفے کی تاریخ میں یہ تحریک "ابنِ رشدیت" کے نام سے جانی گئی جس نے فلسفے اور سائنس کو کلیسا کی قید سے آزاد کروانے کی بنیاد رکھی۔

یہ معروضہ یوں ذہن میں آ گیا کہ کتاب کے مطالعے کے دوران مجھ پر یہ بھی انکشاف ہوا کہ ناصر علی کے شعروں میں کچھ سائنسی اور فلسفیانہ نظریات بھی آ گئے ہیں، نہ جانے کیسے۔ مجھے نہیں علم کہ ناصر علی نے خالص سائنس کا مطالعہ کس حد تک کیا ہے لیکن یہ ضرور جانتا ہوں کہ شاعروں کے الہام پر سائنسدان عش عش کر اٹھتے ہونگے۔ مثلاً یہ اشعار دیکھیے جن میں ناصر علی انہی باتوں کا اظہار کیا ہے۔

خوش ہو رہا ہوں، دانشِ انساں نے لے لیا
رستہ میانِ شمس و قمر اپنے ہاتھ میں

سائنس حواسِ خمسہ سے باہر کسی چیز کو نہیں مانتی۔

شعاعِ شوق کہے، آنچ کا بنا ہوا ہوں
مگر حواس کہیں، پانچ کا بنا ہوا ہوں

اس کائنات کا وجود ہی توازن پر ہے، توازن نہ ہو تو یہ کائنات پلک جھپکنے میں تباہ و برباد و فنا ہو جائے

مرے بدن کا توازن بتا رہا ہے مجھے
کہ میں ضرور کڑی جانچ کا بنا ہوا ہوں

--------
زمیں سے تا بہ خلا مستقل تحرّک ہے
سو طے ہوا ہے کہ ہیجان میں خدا ملے گا

مادہ کی سب سے چھوٹی اکائی کسی زمانے میں ایٹم تھی، پھر ایٹم بھی ٹوٹا اور اسکے اندر مزید چھوٹے ذرات دریافت ہو گئے، الیکڑون،پروٹان، نیوٹران، یہ بھی ٹوٹے مزید چھوٹے ذرے دریافت ہوئے۔ بات یہیں رکی نہیں، کوانٹم تھیوری نے ثابت کیا کہ مادہ ٹھوس حالت میں ہے ہی نہیں، بلکہ مادہ بھی متحرک لہروں یا ویوز سے بنا ہے، اب یہ ناصر علی کا الہام ہی ہے جو اوپر والا شعر ہوا۔

------
اے رہِ عمرِ رواں، کیا ابتدا، کیا انتہا
اک تسلسل ہے یہاں، کیا ابتدا، کیا انتہا

یہ شعر سٹیڈی اسٹیٹ تھیوری ہے کہ کائنات ازل سے یونہی ہے اور ابد تک یونہی رہے گی۔

-------
میں اک ایسا خط ہوں ناصر جس کو کھینچنے والا
جتنا سیدھا کھینچ لے اس میں خم رہ جاتا ہے

اس شعر میں مجھے لگتا ہے کہ ناصر علی نے انسانی خمیر میں جو روایتی ٹیڑھ ہے اسکا ذکر کیا ہے، اگر ایہام گوئی کا دور ہوتا تو میں کہتا کہ یہ قریب کے معنی ہیں، دُور کے معنی کچھ اور ہیں اور وہی شاعر کے پیشِ نظر ہیں کہ کسی زمانے میں دو متوازی اور سیدھی لائنوں کی تعریف یہ کی جاتی تھی کہ وہ کبھی بھی آپس میں نہیں ملتیں اور انفینٹی یا لامحدودیت تک ایسے ہی سیدھی اور متوازی رہیں گی۔ آئن سٹائن کے تھیوری آف ریلیٹی وٹی نے ثابت کیا ہے اس کائنات میں نامحسوس سا خم ہے، سو دو متوازی اور سیدھی لائنیں بھی کسی نہ کسی مقام پر آپس میں جا ملیں گی۔

اور از ناصر علی

روایتی شاعری سے متنفر ناصر علی

ذاتی طور پر مجھے عشق و محبت اور گل و بلبل کی حکایات سے پرخاش نہیں ہے، میں اسے بھی شاعری کا عظیم جزو مانتا ہوں بشرطیکہ وارداتِ قلبی شاعر کی اپنی ہو، احساسات اسکے اپنے ہوں، اندازِ بیاں اسکا اپنا ہو، خیال آفرینی کی طرف اسکی توجہ ہو اور اس سے ہم انکار بھی نہیں کر سکتے کیونکہ جتنے انسان ہیں اتنے ہی سب کے اپنے اپنے منفرد احساسات ہیں سو ان کو سننے میں کچھ حرج نہیں۔

لیکن صرف شعر برائے شعر کہنا اور وہ بھی کسے سچے جذبے کے بغیر واقعتاً جگالی ہی ہے، ناصر علی اس حقیقت کا مکمل ادراک رکھتے ہیں اور اسکا اظہار بھی کرتے ہیں۔

چھوڑو ابہام کی باتیں فقط اتنا سوچو
شاعروں نے بھی یہاں شعر گھڑے کیا ہونگے

اے کسی حسنِ تغزّل کو ترستی ہوئی آنکھ
شعر بنتا ہے مری جان کسی بات کے بل

تمھارے شعر کے پچّیس تیس مضموں ہیں
جگالتے ہو مسلسل انھی خیالوں کو

سمجھ پڑے جو یہاں نوجواں دماغوں کو
تمھارے شعر میں ایسی زبان ہے کہ نہیں

غزل میں عشق و محبت کی بات کی اور بس
خراب ایک حسینہ کی ذات کی اور بس

مت یوں ہی لفظ ڈھال شعروں میں
بات دل سے نکال شعروں میں

غزل غزل وہی مضمون باندھتے ہیں ہم
غزل غزل وہی طرزِ کہن چلی ہوئی ہے

بات کو زلفِ گرہ گیر سے باندھا ہوا ہے
شعر کو حسن کی تفسیر سے باندھا ہوا ہے

اور آخر میں ناصر علی کی کتاب میں موجود غزلوں کی زمینوں اور ردیفوں کے متعلق کچھ عرض کرنا چاہونگا کہ کتاب پڑھتے ہوئے یہ خوشگوار احساس بھی قاری کو اپنی لپیٹ میں لیتا ہے کہ جو شاعر دوسروں کو جگالی کرنے سے منع کر رہا ہے وہ خود بھی اس "گناہ" سے پاک ہے۔ ناصر علی کی زمینیں منفرد اور انکی اپنی ہیں، ردیفیں جو بقول مولانا شبلی نعمانی اردو فارسی شاعری میں سم و تال کا سا کام دیتی ہیں وہ انتہائی خوبصورت ہیں، میں چاہ رہا تھا کہ ان ردیفوں کی نشاندہی کر دوں لیکن مضمون کی طوالت کے خوف سے قلم زد کرتا ہوں کہ جو احباب کتاب دیکھ چکے ہیں وہ جانتے ہی ہیں اور جو دیکھیں گے وہ جان جائیں گے۔

محمد وارث
سیالکوٹ
20.02.2011

مزید پڑھیے۔۔۔۔

Jul 6, 2009

رعنائیِ خیال - ایک اور خوبصورت ادبی بلاگ

مجھے بہت خوشی ہو رہی ہے ایک اور خوبصورت ادبی بلاگ کا تعارف لکھتے ہوئے، ایک اور اچھے شاعر نے اپنا بلاگ شروع کیا ہے اس سے زیادہ خوشی کی بات میرے لیے کیا ہوگی بھلا۔ یہ بلاگ 'رعنائیِ خیال' خوبصورت لب و لہجے کے نوجوان شاعر جناب محمد احمد صاحب کا ہے۔

احمد صاحب کا تعلق کراچی سے ہے، اور انٹرنیٹ کی دنیا کے علاوہ کراچی کے ادبی حلقوں میں بھی فعال ہیں، ہماری ان سے شناسائی 'اردو محفل' پر ہوئی تھی جہاں انہوں نے اپنی خوبصورت شاعری سے اس خاکسار کا دل موہ لیا۔ احمد صاحب کی شاعری کی سب سے اہم بات جو مجھے نظر آئی کہ بھیڑ چال سے الگ ہو کر، انہوں نے اپنی شاعری میں خیال آفرینی کی فضا پیدا کرنے کی کوشش کی ہے اور یہی بات ان کو دیگر نوجوان شعراء سے ممتاز کرتی ہے، ان کے کچھ اشعار دیکھیئے۔

سمندر کتنا گہرا ہے، کنارے سوچتے ہوں گے
زمیں سے آسماں تک استعارے سوچتے ہوں گے

نظارہ منظروں کی کتنی پرتوں سے عبارت ہے
کوئی ہو دیدۂ بینا، نظارے سوچتے ہوں گے
----
حسین شعر کہنے کا عمل بذاتِ خود ایک حسین عمل ہے، احمد صاحب کے اشعار دیکھیئے، مجھے پورا یقین ہے کہ ایسے اشعار تخلیق کرتے ہوئے وہ خود بھی بہت محظوظ ہوئے ہونگے۔

رات کی رانی، اوس کا پانی، جگنو، سرد ہوا
مُسکاتی، خوشبو مہکاتی، جنگل جنگل شام

رنگ سُنہرا دھوپ سا اُس کا، گیسو جیسے رات
چاند سا اُجلا اُجلا چہرہ، اُس کا آنچل شام
-----
چھوٹی بحر اس خاکسار کو انتہائی پسند ہے، اور چھوٹی بحر میں شعر کہنا ایک مشکل ترین امر ہے کہ اس میں بھرتی کے الفاظ کی قطعاً کوئی گنجائش نہیں ہوتی، احمد صاحب کے شعر دیکھیئے

کچھ کسی کو نظر نہیں آتا
روشنی بے حساب ہے شاید

کیا محبت اُسے بھی ہے مجھ سے
مختصر سا جواب ہے 'شاید'
----
امید کرتا ہوں کہ احمد صاحب اسی طرح کی خوبصورت شاعری تخلیق کرتے رہیں گے اور اپنے بلاگ پر پیش کرتے رہیں گے اور اس بات کا بھی یقین ہے کہ انہوں نے اردو سیارہ پر اپنے بلاگ کی شمولیت کی درخواست ضرور دے دی ہوگی تا کہ جیسے ہی انکے بلاگ کی عمر 'دو ماہ' ہو وہ اردو سیارہ پر ظاہر ہونا شروع ہو جائے اور احمد صاحب کی تخلیقات قارئین تک اور قارئین ان تک پہنچ سکیں۔
مزید پڑھیے۔۔۔۔

Apr 25, 2009

دو خوبصورت ادبی بلاگز، غبارِ خاطر اور ناطقہ

جہاں تک میرا مشاہدہ ہے، قریب قریب سبھی اردو بلاگرز اعلیٰ ادبی ذوق کے مالک ہیں اور شعر و ادب کو اپنے اپنے بلاگز کی زینت بناتے رہتے ہیں اور کئی احباب تو بہت اچھی تحاریر بھی لکھتے ہیں جنہیں خالصتاً ادبی تحاریر کہا جا سکتا ہے اور شعر و شاعری بھی اکثر پوسٹ ہوتی رہتی ہے۔ لیکن خالصتاً ادبی بلاگز، یعنی یہ کہ دیگر موضوعات سے صرفِ نظر کرتے ہوئے اگر صرف شعر و ادب وغیرہ کے موضوع تک بلاگ کو محدود رکھا جائے تو، کم کم ہی ہیں اور میرے لیے انتہائی خوشی کی بات ہے کہ حال ہی میں دو انتہائی خوبصورت ادبی بلاگز کا اردو بلاگنگ کی دنیا میں اضافہ ہوا ہے۔
وہاب اعجاز خان صاحب کا "غبارِ خاطر"
وہاب اعجاز خان صاحب کا تعلق صوبہ سرحد سے ہے اور اردو محفل کے اراکین اور قارئین کیلیے ان کا نام کسی تعارف کا محتاج نہیں ہے۔ آپ کا شمار اردو محفل کے ابتدائی اراکین میں ہوتا ہے۔ آپ دو تین سال پہلے تک اردو محفل پر بہت فعال تھے لیکن شاید کسی وجہ سے اب اردو محفل پر کم کم تشریف لاتے ہیں۔ میری بدقسمتی کہ اردو محفل پر میری ان سے زیادہ بات چیت نہیں ہو سکی لیکن اب بلاگ کے حوالے سے انشاءاللہ ان سے ربط رہے گا۔
اردو محفل پر انکے کام اور موضوعات سے اندازہ ہوتا ہے کہ شعر و ادب اور تنقید انکے خاص موضوعات ہیں اور اپنے بلاگ پر اسی حوالے سے انہوں نے خوبصورت تحاریر لکھنا شروع کی ہیں۔ انکے بلاگ کا عنوان 'غبارِ خاطر' بھی بہت خوبصورت ہے۔ میری طرف سے وہاب اعجاز خان صاحب کو بلاگنگ کی دنیا میں خوش آمدید اور امید ہے کہ انکے بلاگ پر خوبصورت تحاریر ہمیں پڑھنے کو ملتی رہیں گی۔

م۔ م۔ مغل صاحب کا "ناطقہ"
محمد محمود مغل صاحب، ہماری طرح صرف ویب پر فعال نہیں ہیں، بلکہ کراچی کے علمی و ادبی حلقوں میں بھی انتہائی فعال ہیں۔ کئی ایک ادبی تنظمیوں کے عہدیدار ہیں اور اکثر مشاعروں اور ادبی تقاریب کی نظامت کے فرائض بھی سر انجام دیتے ہیں۔ اچھے شاعر ہیں اور انکا کلام بھی اکثر اردو محفل پر پڑھنے کو ملتا ہے۔ شاعری کے ساتھ ساتھ آپ افسانہ نگاری اور کالم نگاری سے بھی شغف رکھتے ہیں۔ مغل صاحب کا تفصیلی تعارف اردو محفل پر دیکھا جا سکتا ہے۔
سیاست اور مذہب، انسانی زندگی سے نہ علیحدہ ہیں اور نہ انہیں علیحدہ کیا جا سکتا ہے اور اسی حوالے سے شاید مغل صاحب بھی ان موضوعات پر اپنے بلاگ پر لکھتے ہیں، جس میں قطعاً کوئی مضائقہ نہیں ہے، لیکن مجھے امید ہے بلکہ خواہش بھی ہے کہ وہ اپنے بلاگ پر شعر و ادب کے حوالے سے ہی زیادہ لکھیں گے۔

اور یہ بھی خواہش ہے اور دعا بھی کہ بلاگنگ کی دنیا میں موضوعاتی بلاگز اور علمی و ادبی بلاگز کا اضافہ ہوتا رہے۔
مزید پڑھیے۔۔۔۔