ملنے لگے ہو دیر دیر، دیکھیے کیا ہے کیا نہیں
تم تو کرو ہو صاحبی، بندے میں کچھ رہا نہیں
بوئے گُل اور رنگِ گُل، دونوں ہیں دل کش اے نسیم
لیک بقدرِ یک نگاہ، دیکھیے تو وفا نہیں
شکوہ کروں ہوں بخت کا، اتنے غضب نہ ہو بتاں
مجھ کو خدا نخواستہ، تم سے تو کچھ گلِا نہیں
![]() |
Mir Taqi Mir, میر تقی میر |
نالے کِیا نہ کر سُنا، نوحے مرے پہ عندلیب
بات میں بات عیب ہے، میں نے تجھے کہا نہیں
چشمِ سفید و اشکِ سرخ، آہ دلِ حزیں ہے یاں
شیشہ نہیں ہے مے نہیں، ابر نہیں ہوا نہیں
ایک فقط ہے سادگی، تس پہ بلائے جاں ہے تو
عشوہ کرشمہ کچھ نہیں، آن نہیں ادا نہیں
آب و ہوائے ملکِ عشق، تجربہ کی ہے میں بہت
کر کے دوائے دردِ دل، کوئی بھی پھر جِیا نہیں
ہوئے زمانہ کچھ سے کچھ، چھوٹے ہے دل لگا مرا
شوخ کسی بھی آن میں، تجھ سے تو میں جدا نہیں
نازِ بُتاں اٹھا چکا، دیر کو میر ترک کر
کعبے میں جا کے رہ میاں، تیرے مگر خدا نہیں
(میر تقی میر)
------
بحر - بحر رجز مثمن مطوی مخبون
افاعیل - مُفتَعِلُن مُفاعِلُن /مُفتَعِلُن مُفاعِلُن
یہ ایک مقطع بحر ہے یعنی دو مساوی ٹکڑوں میں تقسیم ہوتی ہے اور ہر ایک ٹکڑا ایک مصرعے کے حکم میں آ سکتا ہے یعنی ہر ٹکڑے کے اختتام پر عملِ تسبیغ جائز ہے یعنی ہر مفاعلن کو مفاعلان بنا سکتے ہیں۔ جیسا کہ اس غزل کے پہلے شعر کے پہلے مصرعے کے پہلے ٹکڑے میں، دوسرے شعر کے پہلے مصرعے کے دوسرے ٹکڑے میں اور کئی ایک اور جگہوں ہر ہے۔
اشاری نظام - 2112 2121 / 2112 2121
ہندسوں کو اردو طرز پر یعنی دائیں سے بائیں پڑھیں یعنی 2112 پہلے ہے۔ اس بحر میں ہر 2121 کو 12121 میں تبدیل کیا جا سکتا ہے۔
تقطیع-
ملنے لگے ہو دیر دیر، دیکھیے کیا ہے کیا نہیں
تم تو کرو ہو صاحبی، بندے میں کچھ رہا نہیں
مل نِ لگے - مفتعلن - 2112
ہُ دیر دیر - مفاعلان - 12121
دیک ے کا - مفتعلن - 2112
ہِ کا نہی - مفاعلن - 2121
تم تُ کرو - مفتعلن - 2112
ہُ صاحبی -مفاعلن - 2121
بندِ مِ کچ - مفتعلن - 2112
رہا نہی - مفاعلن - 2121
------
مزید پڑھیے۔۔۔۔