Showing posts with label میر تقی میر. Show all posts
Showing posts with label میر تقی میر. Show all posts

Dec 22, 2012

میرے سنگِ مزار پر فرہاد - غزلِ میر تقی میر

میرے سنگِ مزار پر فرہاد
رکھ کے تیشہ کہے ہے یا اُستاد

ہم سے بن مرگ کیا جدا ہو ملال
جان کے ساتھ ہے دلِ ناشاد

آنکھیں موند اور سفر عدم کا کر
بس بہت دیکھا عالمِ ایجاد

فکرِ تعمیر میں نہ رہ منعم
زندگانی کی کچھ بھی ہے بنیاد؟

خاک بھی سر پہ ڈالنے کو نہیں
کس خرابہ میں ہم ہوئے آباد

سنتے ہو، ٹک سنو کہ پھر مجھ بعد
نہ سنو گے یہ نالہ و فریاد

لگتی ہے کچھ سموم سی تو نسیم
خاک کس دل جلے کی کی برباد

بھُولا جا ہے غمِ بُتاں میں جی
غرض آتا ہے پھر خدا ہی یاد
Mir Taqi Mir, میر تقی میر, Urdu Poetry, Urdu Shairi, Urdu Ghazal, Classical Urdu Poetry, Ilm-e-Arooz, Ilm-e-Urooz, Taqtee, Behr, Meer Taqi Meer, اردو شاعری، اردو غزل، کلاسیکی ارو شاعری، علم عروض، تقطیع، بحر
Mir Taqi Mir, میر تقی میر

تیرے قیدِ قفس کا کیا شکوہ
نالہ اپنے سے، اپنے سے فریاد

ہرطرف ہیں اسیر ہم آواز
باغ ہے گھر ترا تو اے صیّاد

ہم کو مرنا یہ ہے کہ کب ہوں گے
اپنی قیدِ حیات سے آزاد

ایسا ہرزہ ہے وہ کہ اٹھتے صبح
سو جگہ جانا اس کی ہے معتاد

نقش صورت پذیر نہیں اس کا
یوں ہی تصدیع کھینچے ہے بہزاد

خوب ہے خاک سے بزرگاں کی
چاہنا تو مرے تئیں امداد

پر مروّت کہاں اسے اے میر
تو ہی مجھ دل جلے کو کر ناشاد

نامرادی ہو جس پہ پروانہ
وہ جلاتا پھرے چراغِ مراد

میر تقی میر
-----

قافیہ - آد یعن ساکن الف دال اور ان سے پہلے زبر کی آواز جیسے استاد میں تاد، فرہاد میں ہاد، ناشاد میں شاد، ایجاد میں جاد وغیرہ۔

ردیف - اس غزل کی کوئی ردیف نہیں یعنی یہ غیر مردف ہے۔

 بحر - بحر خفیف مسدس مخبون محذوف مقطوع

افاعیل - فاعِلاتُن مُفاعِلُن فَعلُن
(پہلے رکن فاعلاتن کی جگہ مخبون رکن فعلاتن بھی آسکتا ہے، آخری رکن فعلن کی جگہ فعلان، فَعِلن اور فَعِلان بھی آسکتا ہے یوں آٹھ وزن اکھٹے ہو سکتے ہیں)۔ تفصیل کیلیئے میرا مقالہ “ایک خوبصورت بحر - بحر خفیف” دیکھیئے)

علامتی  نظام - 2212 2121 22
ہندسوں کو اردو رسم الخط کے مطابق پڑھیے یعنی دائیں سے بائیں یعنی 2212 پہلے پڑھیے۔ اور اس میں بھی 12 پہلے ہے۔
(پہلے 2212 کی جگہ 2211 اور آخری 22 کی جگہ 122، 211 اور 1211 بھی آ سکتا ہے)

تقطیع -

میرے سنگِ مزار پر فرہاد
رکھ کے تیشہ کہے ہے یا استاد

میرِ سنگے - فاعلاتن - 2212
مزار پر - مفاعلن - 2121
فرہاد - فعلان - 122

رک کِ تیشہ - فاعلاتن - 2212
کہے ہِ یا - مفاعلن - 2121
استاد - فعلان - 122
----
مزید پڑھیے۔۔۔۔

Jul 6, 2012

تم تو کرو ہو صاحبی، بندے میں کچھ رہا نہیں - غزل میر تقی میر

میر تقی میر کی ایک انتہائی خوبصورت غزل

ملنے لگے ہو دیر دیر، دیکھیے کیا ہے کیا نہیں
تم تو کرو ہو صاحبی، بندے میں کچھ رہا نہیں

بوئے گُل اور رنگِ گُل، دونوں ہیں دل‌ کش اے نسیم
لیک بقدرِ یک نگاہ، دیکھیے تو وفا نہیں

شکوہ کروں ہوں بخت کا، اتنے غضب نہ ہو بتاں
مجھ کو خدا نخواستہ، تم سے تو کچھ گلِا نہیں
Mir Taqi Mir, میر تقی میر, Urdu Poetry, Urdu Shairi, Urdu Ghazal, Classical Urdu Poetry, Ilm-e-Arooz, Ilm-e-Urooz, Taqtee, Behr, Meer Taqi Meer, اردو شاعری، اردو غزل، کلاسیکی ارو شاعری، علم عروض، تقطیع، بحر
Mir Taqi Mir, میر تقی میر

نالے کِیا نہ کر سُنا، نوحے مرے پہ عندلیب
بات میں بات عیب ہے، میں نے تجھے کہا نہیں

چشمِ سفید و اشکِ سرخ، آہ دلِ حزیں ہے یاں
شیشہ نہیں ہے مے نہیں، ابر نہیں ہوا نہیں

ایک فقط ہے سادگی، تس پہ بلائے جاں ہے تو
عشوہ کرشمہ کچھ نہیں، آن نہیں ادا نہیں

آب و ہوائے ملکِ عشق، تجربہ کی ہے میں بہت
کر کے دوائے دردِ دل، کوئی بھی پھر جِیا نہیں

ہوئے زمانہ کچھ سے کچھ، چھوٹے ہے دل لگا مرا
شوخ کسی بھی آن میں، تجھ سے تو میں جدا نہیں

نازِ بُتاں اٹھا چکا، دیر کو میر ترک کر
کعبے میں جا کے رہ میاں، تیرے مگر خدا نہیں

(میر تقی میر)
------

بحر - بحر رجز مثمن مطوی مخبون

افاعیل - مُفتَعِلُن مُفاعِلُن /مُفتَعِلُن مُفاعِلُن
یہ ایک مقطع بحر ہے یعنی دو مساوی ٹکڑوں میں تقسیم ہوتی ہے اور ہر ایک ٹکڑا ایک مصرعے کے حکم میں آ سکتا ہے یعنی ہر ٹکڑے کے اختتام پر عملِ تسبیغ جائز ہے یعنی ہر مفاعلن کو مفاعلان بنا سکتے ہیں۔ جیسا کہ اس غزل کے پہلے شعر کے پہلے مصرعے کے پہلے ٹکڑے میں، دوسرے شعر کے پہلے مصرعے کے دوسرے ٹکڑے میں اور کئی ایک اور جگہوں ہر ہے۔

اشاری نظام - 2112 2121 / 2112 2121
ہندسوں کو اردو طرز پر یعنی دائیں سے بائیں پڑھیں یعنی 2112 پہلے ہے۔ اس بحر میں ہر 2121 کو 12121 میں تبدیل کیا جا سکتا ہے۔

تقطیع-

ملنے لگے ہو دیر دیر، دیکھیے کیا ہے کیا نہیں
تم تو کرو ہو صاحبی، بندے میں کچھ رہا نہیں

مل نِ لگے - مفتعلن - 2112
ہُ دیر دیر - مفاعلان - 12121
دیک ے کا - مفتعلن - 2112
ہِ کا نہی - مفاعلن - 2121

تم تُ کرو - مفتعلن - 2112
ہُ صاحبی -مفاعلن - 2121
بندِ مِ کچ - مفتعلن - 2112
رہا نہی - مفاعلن - 2121
------
مزید پڑھیے۔۔۔۔

Apr 26, 2012

کب تلک یہ ستم اُٹھائیے گا - غزلِ میر

کب تلک یہ ستم اُٹھائیے گا
ایک دن یونہی جی سے جائیے گا

شکلِ تصویرِ بے خودی کب تک
کسو دن آپ میں بھی آئیے گا

سب سے مل جل کہ حادثے سے پھر
کہیں ڈھونڈھا بھی تو نہ پائیے گا

نہ ہوئے ہم اسیری میں تو نسیم
کوئی دن اور باؤ کھائیے گا

کہیے گا اس سے قصّہٴ مجنوں
یعنی پردے میں غم بتائیے گا
meer, taqi, meer taqi, meer, classical urdu poetry, urdu poetry, میر، تقی، میر تقی میر، کلاسیکی اردو شاعری، اردو شاعری, Mir Taqi Mir
میر تقی میر, Mir Taqi Mir
اس کے پاؤں کو جا لگی ہے حنا
خوب سے ہاتھ اسے لگائیے گا

اس کے پابوس کی توقّع پر
اپنے تئیں خاک میں ملائیے گا

شرکتِ شیخ و برہمن سے میر
کعبہ و دیر سے بھی جائیے گا

اپنی ڈیڑھ اینٹ کی جُدا مسجد
کسو ویرانے میں بنائیے گا
--------

بحر - بحر خفیف مسدس مخبون محذوف مقطوع

افاعیل - فاعِلاتُن مُفاعِلُن فَعلُن
(پہلے رکن فاعلاتن کی جگہ مخبون رکن فعلاتن بھی آسکتا ہے، آخری رکن فعلن کی جگہ فعلان، فَعِلن اور فَعِلان بھی آسکتا ہے یوں آٹھ وزن اکھٹے ہو سکتے ہیں)۔ تفصیل کیلیئے میرا مقالہ “ایک خوبصورت بحر - بحر خفیف” دیکھیئے)

اشاری نظام - 2212 2121 22
ہندسوں کو اردو رسم الخط کے مطابق پڑھیے یعنی دائیں سے بائیں یعنی 2212 پہلے پڑھیے۔ اور اس میں بھی 12 پہلے ہے۔
(پہلے 2212 کی جگہ 2211 اور آخری 22 کی جگہ 122، 211 اور 1211 بھی آ سکتا ہے)

تقطیع -


کب تلک یہ ستم اُٹھائیے گا
ایک دن یونہی جی سے جائیے گا


کب تلک یہ - فاعلاتن -2212
ستم اُ ٹا - مفاعلن - 2121
ء ی گا - فَعِلن - 211

ایک دن یو - فاعلاتن - 2212
ہِ جی سِ جا - مفاعلن - 2121
ء ی گا - فَعِلن - 211
-------

مزید پڑھیے۔۔۔۔

Mar 13, 2012

لطف مجھ میں بھی ہیں ہزاروں میر - غزل میر تقی میر

گرچہ کب دیکھتے ہو، پر دیکھو
آرزو ہے کہ تم ادھر دیکھو

عشق کیا کیا ہمیں دکھاتا ہے
آہ تم بھی تو یک نظر دیکھو

یوں عرق جلوہ گر ہے اس مونہہ پر
جس طرح اوس پھول پر دیکھو

ہر خراشِ جبیں جراحت ہے
ناخنِ شوق کا ہنر دیکھو

تھی ہمیں آرزو لبِ خنداں
سو عوض اس کے چشمِ تر دیکھو
meer, taqi, meer taqi, meer, classical urdu poetry, urdu poetry, میر، تقی، میر تقی میر، کلاسیکی اردو شاعری، اردو شاعری, ilm-e-arooz, taqtee, Mir Taqi Mir
میر تقی میر Mir Taqi Mir
رنگِ رفتہ بھی دل کو کھینچے ہے
ایک دن آؤ یاں سحر دیکھو

دل ہوا ہے طرف محبت کا
خون کے قطرے کا جگر دیکھو

پہنچے ہیں ہم قریب مرنے کے
یعنی جاتے ہیں دُور گر دیکھو

لطف مجھ میں بھی ہیں ہزاروں میر
دیدنی ہوں جو سوچ کر دیکھو

----


بحر - بحر خفیف مسدس مخبون محذوف مقطوع

افاعیل - فاعِلاتُن مُفاعِلُن فَعلُن
(پہلے رکن فاعلاتن کی جگہ مخبون رکن فعلاتن بھی آسکتا ہے، آخری رکن فعلن کی جگہ فعلان، فَعِلن اور فَعِلان بھی آسکتا ہے یوں آٹھ وزن اکھٹے ہو سکتے ہیں)۔ تفصیل کیلیئے میرا مقالہ “ایک خوبصورت بحر - بحر خفیف” دیکھیئے)

اشاری نظام - 2212 2121 22
ہندسوں کو اردو رسم الخط کے مطابق پڑھیے یعنی دائیں سے بائیں یعنی 2212 پہلے پڑھیے۔ اور اس میں بھی 12 پہلے ہے۔
(پہلے 2212 کی جگہ 2211 اور آخری 22 کی جگہ 122، 211 اور 1211 بھی آ سکتا ہے)

تقطیع -


گرچہ کب دیکھتے ہو، پر دیکھو
آرزو ہے کہ تم ادھر دیکھو


گر چ کب دے - فاعلاتن - 2212
ک تے ہُ پر - مفاعلن - 2121
دیکو - فعلن - 22

آرزو ہے - فاعلاتن - 2212
کِ تم ادر - مفاعلن - 2121
دیکو - فعلن - 22
-----

مزید پڑھیے۔۔۔۔

Aug 9, 2011

عشق میں بے خوف و خطر چاہئے - میر تقی میر

عشق میں بے خوف و خطر چاہئے
جان کے دینے کو جگر چاہئے

قابلِ آغوش ستم دیدگاں
اشک سا پاکیزہ گہر چاہئے

شرط سلیقہ ہے ہر اک امر میں
عیب بھی کرنے کو ہنر چاہئے

عشق کے آثار ہیں اے بوالہوس
داغ بہ دل، دست بہ سر چاہئے

سینکڑوں مرتے ہیں سدا، پھر بھی یاں
واقعہ اک شام و سحر چاہئے

meer, taqi, meer taqi, meer, classical urdu poetry, urdu poetry, میر، تقی، میر تقی میر، کلاسیکی اردو شاعری، اردو شاعری, ilm-e-arooz, taqtee,Mir Taqi Mir
Mir Taqi Mir, میر تقی میر

حال یہ پہنچا ہے کہ اب ضعف سے
اٹھتے پلک، ایک پہر چاہئے

کم ہیں شناسائے زرِ داغِ دل
اس کے پرکھنے کو نظر چاہئے

خوف قیامت کا یہی ہے کہ میر
ہم کو جیا بارِ دگر چاہئے

(میر تقی میر)

-----

بحر - سریع مسدّس مطوی مکسوف

افاعیل - مُفتَعِلُن مُفتَعِلُن فاعِلُن

اشاری نظام - 2112 2112 212

تقطیع -

عشق میں بے خوف و خطر چاہئے
جان کے دینے کو جگر چاہئے

عشق مِ بے - مُفتَعِلُن - 2112
خوف خطر - مُفتَعِلُن - 2112
چاہیے - فاعلن - 212

جان کِ دے - مُفتَعِلُن - 2112
نے کُ جگر - مُفتَعِلُن - 2112
چاہیے - فاعلن - 212

------
مزید پڑھیے۔۔۔۔