Showing posts with label پرتو روہیلہ. Show all posts
Showing posts with label پرتو روہیلہ. Show all posts

Oct 10, 2008

پرتو روہیلہ کی ایک غزل - دکھ تو مضمر ہی میری جان میں تھے

دکھ تو مضمر ہی میری جان میں تھے
میرے دشمن مرے مکان میں تھے

ناخدا سے گِلہ نہ موسم سے
میرے طوفاں تو بادبان میں تھے

سب شکاری بھی مل کے کیا کرتے
شیر بیٹھے ہوئے مچان میں تھے

یہ قصیدے جو تیری شان میں ہیں
یہ قصیدے ہی اس کی شان میں تھے

یہ جو تیری وفا کے گاہک ہیں
یہ ابھی دوسری دکان میں تھے

تیشۂ وقت ہی بتائے گا
کتنے چہرے ابھی چٹان میں تھے

میں ہی اپنا رقیب تھا پرتو
میرے جذبے ہی درمیان میں تھے
(پرتو روہیلہ)
———
بحر - بحر خفیف مسدس مخبون محذوف مقطوع
افاعیل - فاعِلاتُن مَفاعِلُن فعلُن
(اس بحر میں آٹھ وزن جمع ہو سکتے ہیں، تفصیل کیلیئے میرا مقالہ “ایک خوبصورت بحر - بحر خفیف” دیکھیئے)
اشاری نظام - 2212 2121 22
تقطیع
دکھ تو مضمر ہی میری جان میں تھے
میرے دشمن مرے مکان میں تھے
دک تُ مضمر - فاعلاتن - 2212
ہِ میرِ جا - مفاعلن - 2121
ن م تھے - فَعِلن - 211
میرِ دشمن - فاعلاتن - 2212
مرے مکا - مفاعلن - 2121
ن م تھے - فَعِلن - 211
مزید پڑھیے۔۔۔۔