Showing posts with label اصغر سودائی. Show all posts
Showing posts with label اصغر سودائی. Show all posts

Nov 20, 2008

فیض مرحوم کی برسی اور انکی خوبصورت فارسی نعت مع ترجمہ

آج فیض احمد فیض مرحوم کی چوبیسویں برسی ہے، آج کے دن اقلیمِ سخن کا ایک اور فرمانروا ہم سے بچھڑ گیا۔
ع - خاک میں، کیا صُورتیں ہوںگی کہ پنہاں ہو گئیں
Persian poetry, Persian Poetry with Urdu translation, Farsi poetry, Farsi poetry with urdu translation,Faiz Ahmed Faiz, فیض احمد فیض
Faiz Ahmed Faiz, فیض احمد فیض
ہمارا شہر سیالکوٹ اگر شہرِ اقبال کہلاتا ہے تو یہ شہر فیض کے فیض سے بھی فیضیاب ہے کہ شہرِ فیض بھی ہے گویا کہ ایک اور “سودائی” کا شہر۔ اقبال اور فیض میں سیالکوٹ کے علاوہ شمس العلماء مولوی سید میر حسن کا ذکر بھی قدرِ مشترک کے طور پر کیا جاتا ہے کہ آپ دونوں کے استاد تھے لیکن ایک اور بہت اہم قدرِ مشترک جس کا ذکر عموماً نہیں کیا جاتا وہ پروفیسر یوسف سلیم چشتی ہیں۔ پروفیسر صاحب اقبال کے سب سے بڑے شارح و مفسر اور ایک طرح سے دوست شاگرد تھے کہ اقبال کے کلام کے مطالب خود اقبال سے مدتوں تک سمجھے اور فیض کے وہ استاد تھے بلکہ اگر یوں کہا جائے کہ پروفیسر چشتی نے اردو دنیا کو فیض کا فیض عطا کیا تو غلط نہ ہوگا۔ فیض احمد فیض خود فرماتے ہیں۔
“جب دسویں جماعت میں پہنچے تو ہم نے بھی تک بندی شروع کر دی اور ایک دو مشاعروں میں شعر پڑھ دیے۔ منشی سراج دین نے ہم سے کہا میاں ٹھیک ہے تم بہت تلاش سے شعر کہتے ہو مگر یہ کام چھوڑ دو، ابھی تو تم پڑھو لکھو اور جب تمھارے دل و دماغ میں پختگی آ جائے تب یہ کام کرنا۔ اس وقت یہ تضیعِ اوقات ہے۔ ہم نے شعر کہنا ترک کر دیا۔ جب ہم مَرے کالج سیالکوٹ میں داخل ہوئے اور وہاں پروفیسر یوسف سلیم چشتی اردو پڑھانے آئے جو اقبال کے مفسر بھی ہیں، تو انہوں نے مشاعرے کی طرح ڈالی اور کہا طرح پر شعر کہو۔ ہم نے کچھ شعر کہے اور ہمیں داد ملی۔ چشتی صاحب نے منشی سراج الدین کے بالکل خلاف مشورہ دیا اور کہا فوراً اس طرف توجہ کرو، شاید تم کسی دن شاعر ہو جاؤ۔”
فیض کے کلیات “نسخہ ھائے وفا” میں شامل آخری کتاب “غبار ایام ” کا اختتام فیض کی ایک خوبصورت فارسی نعت پر ہوتا ہے اور شاید کلیات میں یہ واحد نعت ہے۔ بہت دنوں سے ذہن میں تھا کہ اس نعت کو لکھوں اور آج فیض کی برسی کے موقعے پر اس خوبصورت نعت کر مع ترجمہ پوسٹ کرنے کی سعادت حاصل کر رہا ہوں۔
اے تو کہ ہست ہر دلِ محزوں سرائے تو
آوردہ ام سرائے دِگر از برائے تو
اے کہ آپ (ص) کا ہر دکھی دل میں ٹھکانہ ہے، میں نے بھی آپ کے لیے ایک اور سرائے بنائی ہے یعنی کہ میرے دکھی دل میں بھی آپ کا گھر ہو جائے۔
خواجہ بہ تخت بندۂ تشویشِ مُلک و مال
بر خاک رشکِ خسروِ دوراں گدائے تو
تخت پر بیٹھا ہوا شاہ ملک و مال کی تشویش میں مبتلا ہے، جبکہ خاک پر بیٹھا ہوا آپ کا گدا وقت کے شاہنشاہ کے لیے بھی باعثِ رشک ہوتا ہے۔
آنجا قصیدہ خوانیِ لذّاتِ سیم و زر
اینجا فقط حدیثِ نشاطِ لِقائے تو
وہاں (دنیا داروں کے ہاں) سونے اور چاندی کی لذات کے قصیدے ہیں جب کہ یہاں (ہم خاکساروں کے ہاں) فقط آپ کے دیدار کے نشاط کی باتیں ہیں۔
آتش فشاں ز قہر و ملامت زبانِ شیخ
از اشک تر ز دردِ غریباں ردائے تو
شیخ ( اور واعظ) کی زبان قہر اور ملامت سے آتش فشاں بنی ہوئی ہے جبکہ غریبوں کے درد کی وجہ سے آپ کی چادر مبارک آپ کے آنسو سے تر ہے۔
باید کہ ظالمانِ جہاں را صدا کُنَد
روزے بسُوئے عدل و عنایت صدائے تو
ضروری ہے کہ دنیا کے ظالم (جوابی) صدا کریں، ایک (کسی) دن عدل و عنایت کی طرف (لے جانے والی) آپ کی آواز پر یعنی آپ کی عدل و عنایت کی طرف بلانے والی آواز پر ظالموں کو لبیک کہنا ہی پڑے گا۔
مزید پڑھیے۔۔۔۔

May 19, 2008

نعرۂ پاکستان کے خالق اصغر سودائی وفات پا گئے

لازوال نعرۂ پاکستان، “پاکستان کا مطلب کیا، لا الہ الا اللہ” کے خالق پروفیسر اصغر سودائی، 17 مئی کو سیالکوٹ میں چل بسے، انا للہ و انا الیہ راجعون۔ اللہ تعالی مرحوم کو اپنے جوارِ رحمت میں جگہ دیں۔
پروفیسر سودائی نے 1944 میں اپنی طالب علمی کے دور میں تحریک پاکستان کے دوران ایک نظم کہی تھی، ”ترانۂ پاکستان” اور یہ بے مثال مصرع اسی نظم کا ہے۔ آپ سے ایک بار پوچھا گیا تھا کہ یہ مصرع کیسے آپ کے ذہن میں آیا تو آپ نے فرمایا کہ جب لوگ پوچھتے تھے کہ، مسلمان پاکستان کا مطالبہ کرتے ہیں لیکن پاکستان کا مطلب کیا ہے تو میرے ذہن میں آیا کہ سب کو بتانا چاہیئے کہ پاکستان کا مطلب کیا ہے۔ اور یہ نعرہ ہندوستان کے طول و عرض میں اتنا مقبول ہوا کہ پاکستان تحریک اور یہ نعرہ لازم و ملزوم ہو گئے اور اسی لیئے قائد اعظم نے کہا تھا کہ “تحریکِ پاکستان میں پچیس فیصد حصہ اصغر سودائی کا ہے۔”
اصغر سودائی 1926 میں سیالکوٹ میں پیدا ہوئے اور تعلیم حاصل کرنے کے بعد شعبۂ تعلیم کو اپنا پیشہ بنایا اور علامہ اقبال کالج، سیالکوٹ کے پرنسپل کی حیثیت سے ریٹائرڈ ہوئے۔ آپ نے اپنی ساری زندگی تعلیم و ادب کی آبیاری میں گزاری، ایک شعری مجموعہ “چلن صبا کی طرح” یادگار چھوڑا ہے۔
سیالکوٹ، علامہ اقبال چوک میں‌ ایک ریسٹورنٹ ہے، ایمیلیا ہوٹل، یہ یوں سمجھیں کہ لاہور کے پاک ٹی ہاؤس کی طرز کا ریسٹورنٹ ہے کہ جہاں عمعوماً شعرا، صحافی اور ادب سے دلچسپی رکھنے والے حضرات جمع ہوتے ہیں، مرحوم بھی اکثر وہاں آتے تھے اور اپنے ملنے والوں کو تحریک پاکستان، قائد اعظم کے سیالکوٹ کے دورے اور اپنے مصرعے کے متعلق دلچسپ واقعات سنایا کرتے تھے اور اسی وجہ سے لوگ ان کو “تحریک پاکستان کا چلتا پھرتا انسائیکلوپیڈیا” بھی کہتے تھے۔
میں یہ لکھنے میں انتہائی فخر محسوس کر رہا ہوں کہ سیالکوٹ کے علامہ اقبال، مولانا ظفر علی خان، فیض احمد فیض کی طرح پروفیسر اصغر سودائی بھی سیالکوٹ کے ایک ایسے فرزند ہیں کہ سیالکوٹ ان کے نام پر ہمیشہ فخر کرے گا۔
مجھے اصغر سودائی صاحب سے چند بار ملنے کا شرف حاصل رہا ہے، شرافت اور سادگی کا مرقع تھے مرحوم، انتہائی شفقت اور پیار سے ملتے تھے۔ مجھے یاد ہے آخری ملاقات ان سے کچھ سال قبل ہوئی تھی، وہ سیالکوٹ کچہری سے اپنے گھر کی طرف پیدل جا رہے تھے، میں‌ نے ان کو سڑک پر دیکھا تو رک گیا، بہت اصرار کیا کہ میں آپ کو گھر چھوڑ آتا ہوں لیکن نہیں‌ مانے، فقط دعائیں دیتے رہے۔
مجھے ان سے شرفِ تلمیذ تو حاصل نہیں رہا کہ میری کالج کی زندگی سے بہت پہلے وہ ریٹائرڈ ہو چکے تھے لیکن میں ایسے بزرگوں سے ضرور ملا ہوں جو انکے شاگرد رہ چکے تھے، ان میں‌ سے ایک مغل صاحب تھے، انکی قمیص کا سب سے اوپر والا بٹن ہمیشہ بند رہتا تھا، میں نے ایک دن پوچھ ہی لیا کہ یہ بٹن بھری گرمیوں میں بھی بند رکھتے ہیں، کہنے لگے یہ اصغر سودائی صاحب کی نشانی ہے کہ جب ہمیں‌ پڑھایا کرتے تھے تو کہتے تھے کہ وضع داری کا تقاضہ ہے کہ اساتذہ کے سامنے تمام بٹن بند رکھے جائیں، موحوم خود بھی اس عادت کو نبھاتے رہے اور انکے شاگرد بھی۔
اللہ اللہ، وضع دار بزرگ اس دنیا سے چلے ہی جا رہے ہیں، لیکن جب تک پاکستان کا نام باقی ہے (اور یہ تا قیامت ہے انشاءاللہ) مرحوم اصغر سودائی صاحب کا نام اور ان کا نعرہ “ پاکستان کا مطلب کیا، لا الہ الا اللہ” بھی باقی رہے گا۔
مزید پڑھیے۔۔۔۔