Showing posts with label حفیظ جالندھری. Show all posts
Showing posts with label حفیظ جالندھری. Show all posts

Nov 23, 2012

یہ بالیقیں حُسین ہے، نبی کا نُورِ عین ہے - حفیظ جالندھری

لباس ہے پھٹا ہوا، غُبار میں اٹا ہوا
تمام جسمِ نازنیں، چھدا ہوا کٹا ہوا
یہ کون ذی وقار ہے، بلا کا شہ سوار ہے
کہ ہے ہزاروں قاتلوں کے سامنے ڈٹا ہوا
یہ بالیقیں حُسین ہے، نبی کا نُورِ عین ہے

یہ کون حق پرست ہے، مئے رضائے مست ہے
کہ جس کے سامنے کوئی بلند ہے نہ پست ہے
اُدھر ہزار گھات ہے، مگر عجیب بات ہے
کہ ایک سے ہزار کا بھی حوصلہ شکست ہے
یہ بالیقیں حُسین ہے، نبی کا نُورِ عین ہے

یہ جسکی ایک ضرب سے، کمالِ فنّ ِ حرب سے
کئی شقی گرئے ہوئے تڑپ رہے ہیں کرب سے
غضب ہے تیغِ دوسرا کہ ایک ایک وار پر
اُٹھی صدائے الاماں زبانِ شرق وغرب سے
یہ بالیقیں حُسین ہے، نبی کا نُورِ عین ہے

عبا بھی تار تار ہے، تو جسم بھی فگار ہے
زمین بھی تپی ہوئی  فلک بھی شعلہ بار ہے
مگر یہ مردِ تیغ زن، یہ صف شکن فلک فگن
کمالِ صبر و تن دہی سے محوِ کارزار ہے
یہ بالیقیں حُسین ہے، نبی کا نُورِ عین ہے
Ilm-e-Arooz, Ilm-e-Urooz, Taqtee, Behr, Urdu Poetry, Urdu Shairi, اردو شاعری، علم عروض، تقطیع، بحر، بحر ہزج, سلام, Salam; hafeez jalandhari، حفیظ جالندھری
Hafeez Jalandhari، حفیظ جالندھری

دلاوری میں فرد ہے، بڑا ہی شیر مرد ہے
کہ جس کے دبدبے سے رنگ دشمنوں کا زرد ہے
حبیبِ مُصطفیٰ ہے یہ، مجاہدِ خدا ہے یہ
جبھی تو اس کے سامنے، یہ فوج گرد گرد ہے
یہ بالیقیں حُسین ہے، نبی کا نُورِ عین ہے

اُدھر سپاہِ شام ہے، ہزار انتظام ہے
اُدھر ہیں دشمنانِ دیں، اِدھر فقط اِمام ہے
مگر عجیب شان ہے غضب کی آن بان ہے
کہ جس طرف اُٹھی ہے تیغ بس خدا کا نام ہے
یہ بالیقیں حُسین ہے، نبی کا نُورِ عین ہے

حفیظ جالندھری
-----

بحر - بحرِ ہزج مثمن مقبوض

افاعیل - مفاعلن مفاعلن مفاعلن مفاعلن

علامتی نظام - 2121 / 2121 / 2121 /2121
ہندسوں کو اردو کی طرز پر دائیں سے بائیں پڑھیے۔ یعنی 2121 میں 1 پہلے ہے

تقطیع -

لباس ہے پھٹا ہوا، غبار میں اٹا ہوا
تمام جسمِ نازنیں، چھدا ہوا کٹا ہوا

لباس ہے - مفاعلن - 2121
پٹا ہوا - مفاعلن - 2121
غبار مے - مفاعلن - 2121
اٹا ہوا - مفاعلن - 2121

تمام جس - مفاعلن - 2121
مِ نازنی - مفاعلن - 2121
چھدا ہوا - مفاعلن - 2121
کٹا ہوا - مفاعلن - 2121

یہ بالیقیں حُسین ہے، نبی کا نورِ عین ہے

یِ بل یقی - مفاعلن - 2121
حُسین ہے - مفاعلن - 2121
نبی کَ نُو - مفاعلن - 2121
رِ عین ہے - مفاعلن - 2121
-----


مزید پڑھیے۔۔۔۔

Jan 29, 2009

ابھی تو میں جوان ہوں - حفیظ جالندھری

ابو الاثر حفیظ جالندھری نے اپنی شاعری کے بارے میں کہا تھا اور کیا خوب کہا تھا۔

تشکیل و تکمیلِ فن میں جو بھی حفیظ کا حصّہ ہے
Hafeez Jalandhari, حفیظ جالندھری, urdu poetry, urdu ghazal, ilm-e-arooz, taqtee
Hafeez Jalandhari, حفیظ جالندھری
نصف صدی کا قصّہ ہے، دو چار برس کی بات نہیں
پاکستان میں عام طور پر حفیظ جالندھری، ترانۂ پاکستان کے خالق ہونے کے حوالے سے جانے جاتے ہیں اور اردو شاعری کی دنیا میں اپنی مثنوی “شاہنامہ اسلام” کے حوالے سے، لیکن ان کی کچھ غزلیں اور نظمیں بھی ایسی ہیں جو اردو ادب میں زندہ جاوید ہو چکی ہیں اور انہی میں سے ایک “ابھی تو میں جوان ہوں” ہے۔
ابھی تو میں جوان ہوں

ہوا بھی خوش گوار ہے
گلوں پہ بھی نکھار ہے
ترنّمِ ہزار ہے
بہارِ پُر بہار ہے
کہاں چلا ہے ساقیا
اِدھر تو لوٹ، اِدھر تو آ
یہ مجھ کو دیکھتا ہے کیا
اٹھا سبُو، سبُو اٹھا
سبُو اٹھا، پیالہ بھر
پیالہ بھر کے دے اِدھر
چمن کی سمت کر نظر
سماں تو دیکھ بے خبر
وہ کالی کالی بدلیاں
افق پہ ہو گئیں عیاں
وہ اک ہجومِ مے کشاں
ہے سوئے مے کدہ رواں
یہ کیا گماں ہے بد گماں
سمجھ نہ مجھ کو ناتواں

خیالِ زہد ابھی کہاں
ابھی تو میں جوان ہوں

عبادتوں کا ذکر ہے
نجات کی بھی فکر ہے
جنون ہے ثواب کا
خیال ہے عذاب کا
مگر سنو تو شیخ جی
عجیب شے ہیں آپ بھی
بھلا شباب و عاشقی
الگ ہوئے بھی ہیں کبھی
حسین جلوہ ریز ہوں
ادائیں فتنہ خیز ہوں
ہوائیں عطر بیز ہوں
تو شوق کیوں نہ تیز ہوں
نگار ہائے فتنہ گر
کوئی اِدھر کوئی اُدھر
ابھارتے ہوں عیش پر
تو کیا کرے کوئی بشر
چلو جی قصّہ مختصر
تمھارا نقطۂ نظر

درست ہے تو ہو مگر
ابھی تو میں جوان ہوں

نہ غم کشود و بست کا
بلند کا نہ پست کا
نہ بود کا نہ ہست کا
نہ وعدۂ الست کا
امید اور یاس گم
حواس گم، قیاس گم
نظر کے آس پاس گم
ہمہ بجز گلاس گم
نہ مے میں کچھ کمی رہے
قدح سے ہمدمی رہے
نشست یہ جمی رہے
یہی ہما ہمی رہے
وہ راگ چھیڑ مطربا
طرَب فزا، الَم رُبا
اثر صدائے ساز کا
جگر میں آگ دے لگا
ہر ایک لب پہ ہو صدا
نہ ہاتھ روک ساقیا

پلائے جا پلائے جا
ابھی تو میں جوان ہوں

یہ گشت کوہسار کی
یہ سیر جوئبار کی
یہ بلبلوں کے چہچہے
یہ گل رخوں کے قہقہے
کسی سے میل ہو گیا
تو رنج و فکر کھو گیا
کبھی جو بخت سو گیا
یہ ہنس گیا وہ رو گیا
یہ عشق کی کہانیاں
یہ رس بھری جوانیاں
اِدھر سے مہربانیاں
اُدھر سے لن ترانیاں
یہ آسمان یہ زمیں
نظارہ ہائے دل نشیں
انھیں حیات آفریں
بھلا میں چھوڑ دوں یہیں
ہے موت اس قدر قریں
مجھے نہ آئے گا یقیں

نہیں نہیں ابھی نہیں
ابھی تو میں جوان ہوں
——–
بحر - بحر ہزج مربع مقبوض
(مربع یعنی ایک شعر میں چار رکن یا ایک مصرع میں دو رکن)

افاعیل - مَفاعِلُن مَفاعِلُن
(آخری رکن میں مسبغ شکل یعنی مفاعلن کی جگہ مفاعلان بھی آ سکتا ہے)

اشاری نظام - 2121 2121
(آخری 2121 کی جگہ 12121 بھی آ سکتا ہے)

تقطیع -
ہوا بھی خوش گوار ہے
گلوں پہ بھی نکھار ہے
ترنّمِ ہزار ہے
بہارِ پر بہار ہے

ہوا بھی خُش - مفاعلن - 2121
گوار ہے - مفاعلن - 2121
گلو پِ بی - مفاعلن - 2121
نکار ہے - مفاعلن - 2121
تَرَن نُ مے - مفاعلن - 2121
ہزار ہے - مفاعلن - 2121
بہار پر - مفاعلن - 2121
بہار ہے - مفاعلن - 2121



اور یہ نظم ملکہ پکھراج اور طاہرہ سیّد کی آواز میں





مزید پڑھیے۔۔۔۔