Showing posts with label فلسفہ. Show all posts
Showing posts with label فلسفہ. Show all posts

Jul 16, 2008

غالب کی ایک شاہکار فارسی غزل مع منظوم تراجم - دود سودائے تُتق بست آسماں نامیدمش

غالب کی مندرجہ ذیل غزل نہ صرف غالب کی ایک شاہکار غزل ہے بلکہ غالب کے فلسفے و فکر کو سمجھنے میں مشعلِ راہ بھی ہے۔ صوفی تبسم اس غزل کے تعارف میں فرماتے ہیں کہ “غالب نے اس غزل کے بیشتر شعروں میں اس کائنات کے بارے میں ایک خاص زاویہ نظر پیش کیا ہے کہ یہ سب کچھ جو ہمیں نظر آرہا ہے اس کا وجود خارجی کوئی نہیں، یہ انسانی ذہن ہی کی تخلیق ہے۔ یہ ایک سیمیا ہے۔ ایک طلسم ہے جو انسانی وہم نے باندھ رکھا ہے”۔
جس زاویہ نظر کی طرف صوفی تبسم نے اشارہ کیا ہے، فلسفے میں یہ ایک باقاعدہ سکول آف تھاٹ ہے اور نام اسکا “مثالیت پسندی” یا آئیڈیل ازم ہے اور یہ مادیت پسندی یا میٹریل ازم کی عین ضد ہے۔ لبِ لباب اس سلسلہ فکر کا وہی ہے جو صوفی صاحب نے بیان کر دیا ہے، اسکے برعکس مادیت پسند، مادے کو ہی سچائی قرار دیتے ہیں اور مادے کو ذہن پر ترجیح دیتے ہیں۔ مثالیت پسندی کی ابتدا تو شاید قبل از سقراط قدیم یونانی فلسفیوں فیثا غورث اور پارمی نائدیس نے کی تھی لیکن اسکا پہلا جاندار مبلغ افلاطون تھا اور جرمن فلاسفر ہیگل نے اسے بامِ عروج پر پہنچا دیا۔ اس سلسلہ فکر کے چند مشہور فلاسفہ میں فلاطینوس، ڈیکارٹ، لائبنیز، ہولباخ، جارج برکلے، عمانویل کانٹ، فشٹے وغیرہم شامل ہیں۔
یہ بات تو سبھی جانتے ہیں کہ غالب کو تصوف سے خاص شغف تھا، اور وہ وحدت الوجودی تھے، جیسا کہ مولانا حالی اور دیگر شارحین و ناقدینِ غالب نے بیان فرمایا ہے، جیسے ڈاکٹر شوکت شبزواری صاحب “فلسفہ کلامِ غالب” میں اور کئی مشہور و معروف ناقدین “نقدِ غالب” میں بیان فرماتے ہیں۔ طوالت کے خوف سے اقتباسات خذف کرتا ہوں۔
دراصل وحدت الوجود اور مثالیت پسندی کا آپس میں چولی دامن کا ساتھ ہے بلکہ اگر یوں کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ مثالیت پسندی، وحدت الوجود کا حصہ ہے۔ وحدت الوجود کا فلسفہ مسلمانوں میں شام کے نسطوری عیسائیوں کے ذریعے آیا تھا جنہوں نے اسے اسکندریہ کے صوفی مثالیت پسند فلسفی فلاطینوس سے حاصل کیا تھا۔ یہی وہ فلاطینوس ہے جسکی تحریروں کو ایک زمانے تک مسلم مفکر ارسطو کی تحریریں سمجھتے رہے۔ قصہ مختصر، غالب چونکہ “وجودی” تھے لامحالہ مثالیت پسندی انکے کلام میں آگئی۔
غزل پیشِ خدمت ہے۔

شعرِ غالب
دود سودائے تُتق بست آسماں نامیدمش
دیدہ بر خوابِ پریشان زد، جہاں نامیدمش
صوفی تبسم۔ ترجمہ
خیالِ خام کا ایک دھواں سا ہمارے سر پر چھا گیا، میں نے اسکا نام آسمان رکھ دیا۔ آنکھوں نے ایک پریشان خواب دیکھا اور میں نے اسے جہان کہہ دیا۔
صوفی تبسم۔ منظوم ترجمہ
دود افسون نظر تھا، آسماں کہنا پڑا
ایک پریشاں خواب دیکھا اور جہاں کہنا پڑا
افتخار احمد عدنی
دود کا پردہ تھا جس کو آسماں کہتا تھا میں
اور اک خوابِ پریشاں کو جہاں کہتا تھا میں
پروفیسر رالف رسل
My hot sighs raised a canopy: I said, this is the sky
My eyes beheld a troubled dream: I said, this is the world

Persian poetry, Persian Poetry with Urdu translation, Farsi poetry, Farsi poetry with urdu translation, Mirza Ghalib, مرزا غالب
مرزا غالب, Mirza Ghalib
شعرِ غالب
وہم خاکے ریخت در چشمم بیاباں دیدمش
قطرہ بگداخت، بحرِ بیکراں نامیدمش
تبسم
وہم نے میری آنکھوں میں خاک ڈال دی اور وہ مجھے بیاباں بن کر نظر آئی۔ ایک قطرہ تھا جو پگھل کر رہ گیا میں نے اسے بحرِ بیکراں کا نام دیا۔
تبسم، منظوم
تھا غبارِ وہم وہ، میں نے بیاباں کہہ دیا
تھا گداز قطرہ، بحرِ بیکراں کہنا پڑا
عدنی
ایک مٹھی خاک تھی صحرا جسے سمجھا کیا
اور اک قطرے کو بحرِ بیکراں کہتا تھا میں
رسل
My fancies threw dust in my eyes: I said, this is the desert
The drop of water spread: I said, this is the boundless sea


شعرِ غالب
باد دامن زد بر آتش نو بہاراں خواندمش
داغ گشت آں شعلہ، از مستی خزاں نامیدمش
تبسم
ہوا نے آگ کو بھڑکایا میں نے اسے بہار کہہ دیا۔ اسی آگ کے شعلے جل کر جب داغ بن کر رہ گئے تو میں نے اسے خزاں کا نام دیا۔
تبسم، منظوم
آگ بھڑکائی ہوا نے، میں اسے سمجھا بہار
شعلہ بن کر داغ جب ابھرا خزاں کہنا پڑا

Persian poetry, Persian Poetry with Urdu translation, Farsi poetry, Farsi poetry with urdu translation, Sufi Tabassum, صوفی غلام مصطفیٰ تبسم
صوفی تبسم, Sufi Tabassum
عدنی
آگ بھڑکی جب ہوا سے میں یہ سمجھا ہے بہار
داغ جب شعلے ہوئے، ان کو خزاں کہتا تھا میں
رسل
I saw flames leaping in the wind: I cried out, spring is coming
They danced themselves to ashes, and I said, autumn has come


شعرِ غالب
قطرہٴ خونے گرہ گردید، دل دانستمش
موجِ زہرابے بہ طوفاں زد زباں نامیدمش
تبسم
ایک قطرہء خوں تھا بل کھا کر گرہ بن گیا اور میں نے اسے دل سمجھ لیا۔ ایک زہراب کی لہر تھی اس میں تلاطم برپا ہوا میں نے اسے زباں کہہ دیا۔
تبسم، منظوم
قطرۂ خوں کا تھا پیچ و تاب، دل جانا اسے
لہر تھی زہراب غم کی اور زباں کہنا پڑا
عدنی
قطرہء خوں کی گرہ تھی جس کو دل جانا کیا
موج تھی زہراب کی جس کو زباں کہتا تھا میں
رسل
The drop of blood became a clot: I knew it as my heart
A wave of bitter water rolled: I said, this is my speech


شعرِ غالب
غربتم نا سازگار آمد، وطن فہمیدمش
کرد تنگی حلقہء دام آشیاں نامیدمش

تبسم
پردیس مجھے راس نہ آیا ناچار میں نے اسے وطن سمجھ لیا۔ حلقہء دام تنگ نکلا میں نے اسے آشیاں کہہ دیا۔
تبسم، منظوم
ناموافق تھی بہت غربت، وطن کہتے بنی
تنگ نکلا حلقہء دام آشیاں کہنا پڑا
عدنی
جب نہ غربت راس آئی میں اسے سمجھا وطن
تنگ ہوا جب حلقہء دام آشیاں کہتا تھا میں

رسل
In exile I felt lost: I said, this country is my country
I felt the snare’s noose tightening: I said, this is my nest


شعرِ غالب
بود در پہلو بہ تمکینے کہ دل می گفتمش
رفت از شوخی بہ آئینے کہ جاں نامیدمش
تبسم
وہ ہمارے پہلو میں اس شان سے بیٹھا تھا کہ میں نے اسے دل کہا، وہ اس انداز سے اٹھ کر گیا کہ اسے جاں کہنا پڑا۔
تبسم، منظوم
اس طرح پہلو میں آ بیٹھا کہ جیسے دل تھا وہ
اس روش سے وہ گیا اٹھ کر کہ جاں کہنا پڑا
عدنی
تھا وہ جب تمکین سے پہلو میں، دل سمجھا اسے
اور شوخی سے ہوا رخصت تو جاں کہتا تھا میں

Persian poetry, Persian Poetry with Urdu translation, Farsi poetry, Farsi poetry with urdu translation, Iftikhar Ahmed Adani, افتخار احمد عدنی
افتخار احمد عدنی, Iftikhar Ahmed Adani
رسل
She sat in pride close to my side: I said, she is my heart
Capriciously she rose and left: There goes my soul


شعرِ غالب
ہر چہ از جاں کاست در مستی بہ سود افزودمش
ہرچہ با من ماند از ہستی زیاں نامیدمش
تبسم
مستی کے عالم میں جو کچھ زندگی میں کمی واقع ہوئی میں نے اسے نفع میں شمار کیا اور میری ہستی میں سے جو کچھ بچ رہا اسے نقصان سمجھ لیا۔ یعنی زندگی کے وہی لمحات تھے جو عالمِ مستی اور ذوق و شوق میں گزر گئے، بقیہ زندگی تو گویا زندگی ہی نہ تھی۔
تبسم، منظوم
کٹ گئی جو عمر مستی میں وہی تھا سودِ زیست
بچ رہا جو کچھ بھی مستی میں زیاں کہنا پڑا
عدنی
عمر جو مستی میں گزری اس کو جانا میں نے سود
ہوش میں جتنی کٹی اس کو زیاں کہتا تھا میں
رسل
All that I lost in ecstasy accrued to me as gain
All that remained of consciousness I designated loss


شعرِ غالب
تا ز من بگسست عمرے، خوشدلش پنداشتم
چو بہ من پیوست لختے، بد گماں نامیدمش
تبسم
جب تک وہ مجھ سے ایک طویل عرصے کیلیے الگ ہو کر رہا میں اسے ایک خوش ذوق انسان سمجھتا رہا۔ جب وہ تھوڑی مدت کیلیے مجھ سے آ ملا تو میں نے اسے بد گماں کا لقب دیا۔
عدنی
مہرباں سمجھا کیا جب تک رہا وہ مجھ سے دور
اور قریب آیا تو اس کو بد گماں کہتا تھا میں
رسل
For years she held aloof from me: I said, she favours me
She came close for a while: I said, she has her doubts of me


شعرِ غالب
اُو بہ فکر کشتنِ من بود، آہ از من کہ من
لاابالی خواندمش، نامہرباں نامیدمش
تبسم
وہ میرے مارنے کی فکر میں تھا۔ کتنی افسوس کی بات ہے کہ میں اسے لا ابالی کہتا رہا اور نامہرباں کے نام سے پکارتا رہا۔
عدنی
گھات میں تھا قتل کی وہ اور اسے سمجھے بغیر
لا ابالی بے خبر، نا مہرباں کہتا تھا میں
رسل
She was intent on slaying me. Alas for me, that I
Declared she was indifferent, said that she was unkind


شعرِ غالب
تانہم بروے سپاس خدمتے از خویشتن
بود صاحب خانہ امّا میہماں نامیدمش
تبسم
وہ صاحبِ خانہ تھا اور میں اسے میہماں کہتا رہا تاکہ میں اسکی کوئی خدمت کرکے اس پر کوئی احسان دھر سکوں۔
تبسم، منظوم
تھا مجھے منظور اسے مرہونِ منت دیکھنا
تھا وہ صاحب خانہ لیکن میہماں کہنا پڑا
عدنی
اپنی خدمت کا فقط احساں جتانے کیلیے
تھا وہ صاحب خانہ لیکن میہماں کہتا تھا میں
رسل
To make her feel obliged to me for all I did for her
She was my host, and yet I told myself, she is my guest


شعرِ غالب
دل زباں را راز دان آشنائی ہا نخواست
گاہ بہماں گفتمش، گاہے فلاں نامیدمش
تبسم
میرا دل نہیں چاہتا تھا کہ میری زباں محبت اور دوستی کی رازداں ہو اس لیے جب بھی محبوب کا تذکرہ آیا میں نے اسے کبھی فلاں، کبھی فلاں کہا۔
شعرِ غالب
ہم نگہ جاں می ستاند، ہم تغافل می کشد
آں دمِ شمشیر و ایں پشتِ کماں نامیدمش
تبسم
اسکا التفات بھی جاں ستاں ہے اور اسکا تغافل بھی مار ڈالتا ہے۔ اسکی توجہ تلوار کی دھار ہے اور اسکی بظاہر بے التفاتی پشتِ کمان کی طرح ہے کہ جس سے تیر نکل کر زخم لگاتا ہے۔


شعرِ غالب
در سلوک از ہر چہ پیش آمد گزشتن داشتم
کعبہ دیدم نقش پائے رہرواں نامیدمش
تبسم
راہِ سلوک میں جو کچھ راستے میں آیا اسے نظر انداز کرکے آگے نکل گیا۔ کعبے کو دیکھا تو اسے رہروانِ راہِ سلوک کا نقشِ پا کہہ دیا۔
تبسم، منظوم
یوں طریقت میں ہر اک شے سے نظر آگے پڑی
کعبے کو بھی نقش پائے رہرواں کہنا پڑا
عدنی
چھوڑ پیچھے راہِ حق میں جو نظر آیا بڑھا
کعبے کو اک نقشِ پائے رہرواں کہتا تھا میں
رسل
I journeyed on beyond each stage I set myself to cover
I saw the Kaba as the tracks of those who had gone on

Persian poetry, Persian Poetry with Urdu translation, Farsi poetry, Farsi poetry with urdu translation, Ralph Russell, رالف رسل
رالف رسل, Ralph Russell
شعرِ غالب
بر امیدِ شیوہء صبر آزمائی زیستم
تو بریدی از من و من امتحاں نامیدمش

تبسم
میں اس امید پر جیتا تھا کہ تیرا جور و ستم کا شیوہ میری طاقتِ صبر کو آزمانے کیلیے ہے، تو مجھ پر ستم ڈھاتا رہے گا اور میں زندہ رہوں گا۔ لیکن تو مجھے چھوڑ کر چلا گیا اور میں نے اس ترے چلے جانے کو امتحان قرار دیا۔
تبسم، منظوم
شیوہء صبر آزمائی پر ترے جیتا تھا میں
یوں تری فرقت کو اپنا امتحاں کہنا پڑا
عدنی
شیوہء صبر آزمائی کے سہارے میں جیا
تو ہوا مجھ سے الگ تو امتحاں کہتا تھا میں
رسل
My hopes told me, she likes to try my powers of endurance
You served all our ties: I said, she is just testing me


شعرِ غالب
بود غالب عندلیبے از گلستانِ عجم
من ز غفلت طوطیِ ہندوستاں نامیدمش
تبسم
غالب تو گلستانِ ایران کی ایک بلبل تھا، میں نے غفلت میں اسے طوطیِ ہندوستاں کہہ دیا۔
--------


بحر - بحر رمل مثمن محذوف


افاعیل - فاعِلاتُن فاعِلاتُن فاعِلاتُن فاعِلُن
(آخری رکن فاعلن میں فاعِلان بھی آ سکتا ہے)


اشاری نظام - 2212 2212 2212 212
(آخری 212 کی جگہ 1212 بھی آ سکتا ہے)


تقطیع -
دود سودائے تُتق بست آسماں نامیدمش
دیدہ بر خواب پریشان زد، جہاں نامیدمش


دود سودا - فاعلاتن - 2212
ئے تتق بس - فاعلاتن - 2212
تاسما نا - فاعلاتن - 2212 (الف وصل استعمال ہوا ہے)
میدمش - فاعلن - 212


دیدَ بر خا - فاعلاتن - 2212
بے پریشا - فاعلاتن - 2212
زد جہاں نا - فاعلاتن - 2212
میدمش - فاعلن - 212

مزید پڑھیے۔۔۔۔

May 9, 2008

دنیا کا پہلا فلسفی

دنیا کا پہلا فلسفی - تھےلیز آف مائیلیٹس
(Thales of Miletus)
بھری گرمیوں کا دن تھا، دو متحارب بادشاہوں کی فوجیں آپس میں برسرِ پیکار تھیں، اس دن سینکڑوں لاشیں گر چکیں تھیں۔ یہ دونوں فوجیں پچھلے پندرہ سالوں سے آپس میں خون کی ندیاں بہا رہی تھیں کبھی جنگ رک جاتی تھی اور کبھی خون آشام تلواریں ہزاروں جوانوں کو موت کی ابدی نیند سلا دیتی تھیں۔ اور پچھلے پانچ سالوں سے تو بغیر کسی وقفے سے جنگ اور موت کے دیوتا ہی ان کی پرستشوں کے محور تھے۔ کہ یکا یک آسمان نے اپنا رنگ بدلنا شروع کیا۔ ایک عفریت تھی کہ سورج دیوتا کو نگلے جا رہی تھی۔ روزِ روشن، آہستہ آہستہ تاریکی میں بدلنا شروع ہوا، دیکھتے ہی دیکھتے وہ عفریت مکمل طور پر سورج دیوتا کو نگل گئی، لوگوں کو دن دیہاڑے ستارے نظر آنے لگے اور بھری دوپہر میں یوں محسوس ہونے لگا کہ آدھی رات ہے۔ ان متحارب لشکروں نے اپنے سورج دیوتا کا یہ حشر ہوتے دیکھا تو تلواریں، نیزے، بھالے پھینک، سجدے میں گر گئے اور مناجات پڑھنے لگے۔ سورج دیوتا کو آہستہ، آہستہ اس عفریت سے رہائی ملی اور وہ دوبارہ اپنی کرنوں سے دنیا کو ضیاء پاش کرنے لگا۔ لیکن اب دونوں لشکروں کے دل بدل چکے تھے، انہوں نے لڑنے سے انکار کر دیا، انہوں نے کہا کہ دیوتا ان کی خونریزیوں کی وجہ سے ان سے ناراض ہو گئے تھے، اسی وجہ سے سورج دیوتا کو یہ سزا ملی، لہذا یہ موت کا کھیل بند کر کے امن سے رہنا چاہئیے۔ جب پیادے ہی لڑنے کو تیار نہ تھے تو شاہ و وزیر بھلا کیا کرتے سو ان دونوں بادشاہوں نے آپس میں امن کا معاہدہ کیا اور عوام ہنسی خوشی رہنے لگے۔
یہ کوئی دیومالائی کہانی نہیں ہے بلکہ قدیم تاریخ کا ایک ایسا منفرد واقعہ ہے جس کا انتہائی صداقت سے تعین ہو چکا ہے۔ یہ ہمارے مروجہ اور مستعمل کیلنڈر کے مطابق 28 مئی 585قبل مسیح کا دن تھا کہ جس دن سورج گرہن لگا، اور یہ دونوں فوجیں قدیم سلطنتوں لیڈیا اور میڈیا کی تھیں، موجودہ دور میں یہ دونوں علاقے، بالترتیب ترکی اور ایران کے حصے بنتے ہیں کہ جو ازمنہء قدیم سے ہی آپس میں برسرِ پیکار رہے ہیں۔ یہ تو شاید مظاہر فطرت کا پہلا واقعہ تھا جسنے ان لوگوں کی پر خون دنیا میں امن پیدا کر دیا۔ لیکن اس واقعے کی اہمیت ایک اور وجہ سے اس سے بھی زیادہ اہم ہے۔ جس وقت یہ جنگ سورج گرہن کی وجہ سے رکی، اسی وقت لوگوں نے میدانِ جنگ سے ملحقہ ایک شہر میں ایک آدمی کو گھیرے ہوا تھا اور حیران و پریشان تھے کہ اس شخص کو اس سورج گرہن کا کیسے پتہ چل گیا کہ یہ دیوتا بھی نہیں اور اس نے کافی عرصہ پہلے اس سورج گرہن کی پیشن گوئی کر دی تھی۔ ناسا کے سائنسدانوں نے نہ صرف اس سورج گرہن والے واقعے کی تاریخ پر مہرِ تصدیق ثبت کردی ہے، بلکہ اس بات کو بھی مانا ہے کہ ایشیائے کُوچک کے ان علاقوں میں جہاں پر یہ لڑائی جاری تھی، یہ ایک مکمل سورج گرہن تھا۔ یہ پیشن گوئی کرنے والا شخص، تھے لیز تھا جو متفقہ طور پر دنیا میں پہلا فلسفی مانا جاتا ہے۔
علمِ نجوم جو بعد میں ترقی کرکے علمِ ہیت بنا، دنیا کے قدیم ترین علموں میں سے ہے۔ بابل اور مصر کے لوگ آج سے ہزاروں سال پہلے اسکے عالم تھے۔ اسکی ابتدا تو شاید اس وقت ہوئی ہوگی جب انسان نے اپنی تاریک راتوں میں سفر کرنے کیلیے ستاروں کی طرف دیکھا ہوگا اور سینکڑوں، ہزاروں سالوں کے مشاہدے نے اسے سکھلا دیا کہ آسمان میں کچھ ستارے ایسے بھی ہیں، جو ہمیشہ ایک ہی سمت کا تعین کرتے ہیں اور انسے دوسری سمتوں کا تعین بآسانی ہو سکتا ہے، لیکن اس علم کو ترقی اس وقت ملی جب یہ معبدوں کے پروہتوں کے ہاتھ میں آیا۔ اس زمانے کے لوگ اور بہت سارے مظاہرِ فطرت کے ساتھ چاند، سورج اور ستاروں کی بھی پرستش کرتے تھے اور پروہت چونکہ دیوتاؤں کے نائب ہوتے تھے اور انکی بات ہی دیوتاؤں کی بات ہوتی تھی، لہذا یہ ان پروہتوں کی مجبوری تھی کہ وہ اپنے آپ کو اپنے دیوتاؤں کے حالات سے با خبر رکھیں۔ بابل اور مصر کے لوگ آج سے ہزاروں سال پہلے علم نجوم میں کافی ترقی یافتہ تھے۔ ان پروہتوں نے جب اتنہائی بلند و بالا معبدوں کے اونچے اونچے چبوتروں پر بیٹھ کر تاریک راتوں میں آسمان کے ستاروں کا سینکڑوں سالوں تک مشاہدہ کیا اور انکا ریکارڈ رکھنا شروع کیا تو زائچے بن گئے، انہوں نے نہ صرف ستاروں کی گردش اور مختلف موسموں میں انکی آسمان میں پوزیشن کو نوٹ کیا بلکہ وہ اس بات پر بھی قادر ہوگئے کہ ستاروں کی پوزیشن کے متعلق پیشن گوئیاں کر سکیں اور اسی سے وہ پروہت سورج گرہن اور چاند گرہن کے متعلق پیشن گوئیاں کیا کرتے تھے۔ یہ ایک انتہائی سائینٹفک علم تھا جو کہ مشاہدہ پر مشتمل تھا لیکن ان پروہتوں نے اس پر طلسم و اسرار کے دبیز پردے ڈالے ہوئے تھے۔ وہ عوام کو گرہنوں کی پیشن گوئی کرکے نہ صرف مرعوب کرتے تھے بلکہ ان کو یہ کہہ کر کہ دیوتا ان سے ناراض ہوگئے ہیں، قربانیوں اور مناجات پر مجبور بھی کردیتے تھے۔
تھےلیز ایشیائے کوچک کے بحیرہ روم کے ساحل پر ایک یونانی نوآبادی آئیونیا کے شہر مائیلیٹس کا باشندہ تھا۔ اسکے نسل کے بارے میں مورخ آجتک متفق نہیں ہوسکے، بہت سارے مؤرخین کا کہنا ہے کہ وہ یونانی الاصل تھا لیکن قدیم اور نامور یونانی مؤرخ ہیروڈوٹس کا کہنا ہے کہ وہ فونیشی الاصل یعنی ایشیائی تھا۔ تھے لیز 624 ق-م میں مائیلیٹس میں پیدا ہوا اور 546 ق۔م میں وہیں وفات پا گیا۔ تھے لیز کا عہد تاریخ کا ایک انتہائی اہم دور ہے، یہ وہ زمانہ تھا جب علم کا مرکز ایشیا سے مغرب کی طرف منتقل ہو رہا تھا۔ قدیم اور عظیم مصری تہذیب اپنی آخری سانسیں لے رہی تھی اور میسوپوٹیمیا کی تہذیب، ایرانی فاتحین کے ہاتھوں تخت و تاراج ہو رہی تھی، گو ابھی دم خم باقی تھا۔ آئیونیا کی شہری ریاستوں کے مصر اور بابل کے ساتھ دوستانہ اور تجارتی روابط تھے اور انہی خوشگوار تعلقات کی وجہ سے تھےلیز کو اپنی جوانی میں ان علاقوں کے سفروں کا مواقع ملے۔ بابل کے سفر کے دوران اس نے وہاں سے علم نجوم یا علم ہیت سیکھا تھا۔ اسکا مصر کا سفر بہت یادگار ہے۔ مصر کی تہذیب ہزاروں سال پرانی ہے، اور جب تھےلیز نے اہرامِ مصر دیکھے تو انکو تعمیر ہوئے بھی تقریبا دو ہزار سال ہوچکے تھے۔ مصر میں تھےلیز نے جیومیڑی اور ریاضی کا علم حاصل کیا۔ مصر میں اس کا ایک واقعہ تو بہت ہی مشہور ہے۔ مصر میں قیام کے دوران اسکے علم کا شہرہ ہو چکا تھا۔ اہلِ مصر نے اس سے پوچھا کہ تم بتاؤ ہمارے اہرام کی اونچائی کتنی ہے کہ یہ بات ان کیلیے ایک چیستان تھی۔ تھےلیز نے کہا یہ تو کوئی بڑی بات نہیں ہے۔ اس نے ان سے کہا کہ ریگستان میں ایک چھڑی گاڑ دو، جب چھڑی کا سایہ اسکی اصل لمبائی کے برابر ہوگیا تو تھےلیز نے کہا اب اہرام کا سایہ ماپ لو، وہ بھی یقینا انکی اصل اونچائی کے برابر ہوگا، یہ بظاہر سامنے کی بات نظر آتی ہے لیکن تھےلیز نے یہ بات کرکے یقیناّ اہلیانِ مصر کو ششدر کر دیا ہوگا۔ مصر میں اسکے قیام کے دوران اسکی دریائے نیل کی طغیانی، کہ جس پر مصر کا دارومدار آج بھی ہے، کے بارے میں تحقیقات بھی کافی مشہور ہیں۔
تھےلیز کی کوئی تحریر باقی نہیں ہے اور بعض مؤرخین کے نزدیک اس نے کوئی کتاب لکھی بھی نہیں تھی، اس بات پر بہرحال مؤرخین و فلاسفہ کا اختلاف ہے۔ تھےلیز کے فلسفے کو دوام ارسطو نے اپنی مختلف کتابوں میں بیان کرکے بخشا ہے۔ ارسطو نے نہ صرف اسکے فلسفے پر بحث کی ہے بلکہ اسکے حالاتِ زندگی کا بھی ذکر کیا ہے۔ اپنی کتاب سیاسیات میں ارسطو نے اسکے علمِ نجوم میں مہارت کا قصہ بیان کیا ہے۔ ہوا یوں کہ لوگ اسکو غربت کا طعنہ مارا کرتے تھے کہ یوں تو بڑے عالم فاضل بنے پھرتے ہو اور بھوکوں مر رہے ہو، اسنے کہا، اچھا اگر یہ بات ہے تو پھر دیکھنا ۔اس نے علم ہیت میں اپنی مہارت سے اندازہ لگایا کہ اس سال گرما میں موسم کچھ اسطرح کا ہوگا کہ زیتون کی فصل بہت اچھی ہوگی، لہذا اسنے مائیلیٹس اور اسکے ملحقہ علاقوں کے زیتون کا تیل نکالنے والے تمام کارخانے اپنے نام بُک کروالیے۔ یہ سردیوں کا موسم تھا، کارخانے بند پڑے تھے اور اسکے مقابل کوئی بولی لگانے والا بھی نہیں تھا، لہذا اسے بڑے مناسب داموں پر یہ کارخانے مل گئے۔ جب موسمِ گرما میں زیتون کی فصل آئی تو وہ واقعی بہت شاندار تھی، اب ہر کسی کو تیل نکالنے کیلیے کارخانے درکار تھے، تھےلیز نے اپنی من مرضی کے نرخوں پر وہ کارخانے چلائے اور کثیر سرمایہ کمایا اور لوگوں سے کہا کہ دیکھو اگر فلسفی اور علما دولت کمانا چاہئیں تو بہت کما سکتے ہیں لیکن انکے مقاصد اور طرح کے ہوتے ہیں، یہ تو ارسطو کی بیان کردہ کہانی تھی، اس واقعہ پر ایک ستم ظریف فلسفی نے یہ اضافہ کیا کہ اس تمام قصے میں نہ تو علمِ نجوم میں مہارت درکار تھی اور نہ ہی زیتون کی بہت اچھی فصل کی، بلکہ یہ تو سیدھا سادا تاجرانہ اجارہ داری کا واقعہ ہے۔ اسکا ایک اور واقعہ بھی مشہور ہے ایک دفعہ شام کو وہ کہیں جا رہا تھا اور چلتے چلتے آسمان میں ستاروں کا مشاہدہ بھی کر رہا تھا کہ ایک گڑھے میں گر گیا، اس پر وہاں پر موجود لڑکیوں نے اسکی خوب سبکی کی کہ آسمانوں کی خبر تو رکھتا ہے اور پاؤں کی خبر نہیں۔
تھےلیز کو دنیا میں متفقہ طور پر پہلا فلسفی اور سائنسدان مانا جاتا ہے اور اسکے ساتھ، فزکس جیومیٹری اور ریاضی کا موجد بھی، جیومیٹری کو مصریوں نے بہت پہلے ترقی دی تھی اور تھےلیز نے یہ علم انہی سے سیکھا تھا لیکن اس وقت تک یہ علم بغیر کسی قواعد و ضوابط کے تھا، تھےلیز نے سائنسی بنیادوں پر جیومیٹری کے قواعد و ضوابط منظم کیے اور تھیورم پیش کیے جو بعد میں اقلیدس نے بیان کیے اور آج تک ساری دنیا میں پڑھائے جاتے ہیں۔ فلسفے اور سائنس کا بانی اس لحاظ سے کہ وہ پہلا آدمی تھا جس نے اس کائنات کے وجود میں آنے کی وجوہات کی علمی اور عقلی توجیہات بیان کیں۔ اس سے پہلے جب بھی کوئی سوال پوچھتا تھا کہ دنیا کیسے وجود میں آئی تو ہر طرف سے یہی جواب ملتا تھا کہ اس دیوی اور دیوتاؤں نے بنایا ہے۔ اس نے آفرینشِِ کائنات کے بارے میں مادی اسباب کا فلسفہ بیان کیا اور کہا کہ دنیا پانی سے وجود میں آئی ہے۔ اس نے اور بھی نظریات پیش کیے جو آج کی دنیا کو بچگانہ معلوم ہوتے ہیں مثلاّ یہ کہ زمین چپٹی ہے اور پانی کی سطح پر تیر رہی ہے اور کائنات دیوی دیوتاؤں سے بھری ہوئی ہے، لیکن تھےلیز کا تاریخ انسانیت میں یہ کارنامہ نہیں ہے کہ اس نے پانی کو بنیاد مانا بلکہ یہ ہے کہ اس نے علوم کو خرافاتی پردوں کی دبیز تہوں سے نکال کر خرد کی بات کی اور انسان کو یکایک خرافات اور اسطوریات کی دنیا سے نکال کر خرد افروز تحریک کی بنیاد رکھی۔ بقولِ غالب، میں چمن میں کیا گیا گویا دبستان کھل گیا۔ تھےلیز کے بعد یکے بعد دیگرے بہت سارے فلسفی آسمانِ علم و عقل پر نمودار ہوئے اور اپنے اپنے نظریات پیش کیئے۔ جن میں سب سے پہلے اسکا شاگردِ رشید اناکسی مینڈر تھا، اس نے کہا کہ یہ کائنات پانی نے نہیں بنی بلکہ ایک لامحدود زندہ شے ہے۔ یہی اناکسی مینڈر تھا جس نے ڈارون سے دو ہزار سال پہلے نظریہِ ارتقا پیش کیا اور اسکی ایک دلیل یہ دی کہ انسان کا بچہ پیدا ہوتے ہی، دوسرے حیوانات کی طرح اپنی خوراک تلاش نہیں کرسکتا اور اسکا دودھ پینے کا عرصہ بھی زیادہ ہوتا ہے،اسلیے اگر انسان شروع ہی سے ایسا ہوتا تو کبھی زندہ نہ رہ سکتا تھا، لہذا وہ حیوانوں ہی کی ترقی یافتہ شکل ہے۔ اسکے بعد اناکسی منیس نے کہا کہ گو کائنات کا اصول مادی ہے لیکن یہ ہوا سے بنی ہے۔ ہیریقلیتس نے کہا نہیں یہ کائنات آگ سے بنی ہے۔ ایمپےدکلیس نے عناصرِ اربعہ کا نظریہ پیش کیا اور کہا کہ کائنات آگ، ہوا، مٹی اور پانی سے مل کر بنی ہے اور یہی عناصرِ اربعہ کا نظریہ ہے جو آج تک مسلم صوفیوں میں مقبول ہے۔
ایک مفکر، سائنسدان، ریاضی دان، ماہر علمِ نجوم اور جیومیڑی ہونے کے ساتھ ساتھ، تھےلیز انجینیئر اور سیاست دان بھی تھا۔ ان دنوں مائیلیٹس ایک بہت بڑا تجارتی شہر تھا اور وہاں غلاموں کی بہت بڑی آبادی موجود تھی اور امیر و غریب طبقے کی کشمکش عروج پر تھی۔ پہلے عوام نے شہر پر قبضہ کیا اور طبقہ اشرافیہ کے بیوی بچوں کو قتل کردیا۔ اسکے بعد اشرافیہ نے شہر کو فتح کیا اور غلاموں کو زندہ جلا دیا۔ اسی طرح کے حالات ایشیائے کوچک کی دیگر یونانی شہری ریاستوں کے تھے۔ اس پر مستزاد یہ کے ایرانیوں نے میسوپوٹیمیا کے علاقے فتح کرنے کے بعد اپنا رخ مغرب کی طرف کیا ہوا تھا اور یہ شہری ریاستیں انکی مستقل زد میں تھیں۔ انہی حالات کو مدِ نظر رکھتے ہوئے، تھےلیز نے شہری ریاستوں کی ایک فیڈریشن کا نظریہ پیش کیا جسکو پذیرائی نہ ملی۔
نطریے کو پذیرائی ملی ہو یا نہ، لیکن تھےلیز کو اپنی زندگی میں ہی بہت پذیرائی مل گئی تھی۔ عمر کے آخری حصے میں اسے عوام کی جانب سے سوفوس یا فلسفی اور حکیم کا خطاب مل چکا تھا۔ قدیم یونانیوں نے سقراط سے پہلے کہ سات دانشور آدمیوں کی فہرست میں اسے نمبر ایک کے درجے پر رکھا ہوا تھا۔ تھےلیز کے بہت سارے مقولے بھی مشہور ہیں۔
جیسے کسی نے اس سے پوچھا کہ خدا کیا ہے۔
اس نے کہا جس کی نہ ابتدا ہے اور نہ انتہا۔
لوگوں نے پوچھا، انسان امن و سکون اور انصاف کے ساتھ کیسے رہ سکتا ہے۔
تھےلیز نے کہا، اسطرح کہ ہم ہر وہ کام چھوڑ دیں جسکا دوسروں کو الزام دیتے ہیں۔
کسی نے کہا سب سے مشکل کام کیا ہے، اسنے کہا اپنے آپ کو جاننا۔
اور سب سے زیادہ آسان کام، کسی نے فورا پوچھا۔
"مشورہ دینا"، تھےلیز نے جواب دیا۔
-----------
پس نوشت
اس تحریر کا بنیادی مقصد تھےلیز کا تعارف ہے۔ نہ کہ اسکے فلسفے پر بحث۔ جو احباب تھےلیز اور دیگر فلسفیوں کے فلسفے پر تفصیلی بحث پڑھنا چاہتے ہوں وہ مندرجہ ذیل لنکس سے استفادہ کر سکتے ہیں۔
Thales of Miletus - The Internet Encyclopedia of Philosophy
Thales - Wikipedia

Bibliography:
-Greek Thinkers. Vol. 1: A History of Ancient Philosophy by Theodor Gomperz (translated from German by Laurie Magnus, 4 Volumes).
-The Story of Civilization. Vol. 2: The Life of Greece by Will Durant (11 volumes).
-The Story of Philosophy by Will Durant
-History of Western Philosophy by Bertrand Russel
-Collins Dictionary of Philosophy
-Encyclopedia Britannica 1970 ed.
-Funk & Wagnalls New Encyclopedia 1978 ed.
مختصر تاریخ فلسفہء یونان از ڈاکٹر ویلہلم نیسل- جرمن سے ترجمہ از خلیفہ عبدالحکیم
تاریخ فلسفہ از کلیمنٹ-سی-جے-ویب، انگلش سے ترجمہ از احسان احمد
روایاتِ فلسفہ از علی عباس جلالپوری
----
اختتامیہ
میں نے یہ مضمون مئی 2007 میں لکھا تھا اور سے سے پہلے اسے "ون اردو" پر شائع کیا تھا، اسکے بعد یہ مضمون میں نے "اردو محفل" پر شائع کیا تو اسے سال 2007 کا 'فلسفے اور تاریخ' کے زمرے میں بہترین پوسٹ کا ایوارڈ دیا گیا۔ بعد میں اسے پروفیسر سید تفسیر احمد صاحب نے اپنی ویب سائٹ 'دانش" کدہ پر شائع کیا۔ اسکے علاوہ میری اجازت کے بغیر بھی دو تین ویب سائٹس پر یہ مضمون شائع ہو چکا ہے اور حد یہ کہ مصنف کے طور پر میرا نام تک نہیں دیا۔ مجھے انتہائی خوشی ہے کہ میرے اس مضمون کو بہت پذیرائی ملی لیکن اس بات کا بھی دکھ ہے کہ بعض ویب سائٹس والوں نے میری اجازت حاصل کرنا تو کجا مصنف کے طور پر میرا نام دینا بھی گوارا نہیں کیا۔میں یہاں پر اس مضمون کے کاپی رائٹس فری کرتا ہوں بشرطیکہ حوالے اور مصنف کے طور پر میرا نام دیا جائے۔
مزید پڑھیے۔۔۔۔