Showing posts with label تاریخ. Show all posts
Showing posts with label تاریخ. Show all posts

May 12, 2008

بانگِ درا کا ایک کردار - عرفی شیرازی

یہ مضمون اپریل 2007ء میں لکھا تھا اور کسی بھی موضوع پر میرا پہلا مضمون ہے، سب سے پہلے "ون اردو" پر شائع ہوا اور اسکے بعد "اردو محفل" پر۔
—————
اقبال کے تبحرِ علم اور وسعت مطالعہ کا یہ عالم تھا کہ انکے کلام کے مطالعہ سے یوں لگتا ہے جیسے سارا عالم انکی نگاہ میں تھا۔ فارسی کلام تو خیر دور کی بات ہے، حالانکہ جس پہ علامہ کو فخر تھا، اور جسکے عشاق اب خال خال ہی نطر آتے ہیں، انکا اردو کلام بھی اور ابتدائی کلام بانگِ درا بھی تلمیحات سے بھر پور ہے۔ تلمیح کے لغوی معنی، اچٹتی ہوئی نگاہ ڈالنا کے ہیں، کلام یا نثر میں اسکا مطلب کسی تاریخی واقعہ یا بات کی طرف اشارہ کرنے کے ہوتے ہیں کہ وہ بات قارئین کے ذہن میں تازہ ہوجائے۔ کلامِ اقبال دیکھئے، علامہ پے در پے، قرانی آیات، احادیثِ نبوی، تاریخ اسلام، تاریخ عالم، فلاسفہ، شعرا، متکلمین اور دیگر شخصیات کی طرف اشارہ کرتے ہی چلے جاتے ہیں، اور اقبالیات میں تو تلمیحاتِ اقبال پر باقاعدہ کتب موجود ہیں۔ کلامِ اقبال اور پیامِ اقبال کو صحیح تر سمجھنے کیلیے ضروری ہے کہ قاری علامہ کے ساتھ ساتھ رہے وگرنہ وہی بات ہو جاتی ہے کہ ایک لحظہ غافل ہوئے اور منزل کوسوں دور جا پڑی۔

علامہ نے جہاں تلمیحات بھر پور استعمال کی ہیں وہیں انہوں نے مشہور شعرا کے کلام پر تضمینیں بھی کہیں ہیں۔ تضمین کا لغوی مطلب ملانا یا شامل کرنا ہے اور شاعری میں کسی مشہور کلام کو اپنی نظم میں داخل کرنا یا اس پر کچھ کہنا ہے۔ بانگِ درا میں جہاں اقبال نے دوسرے مشہور فارسی شعرا جیسے بیدل، صائب، ابو طالب کلیم وغیرہ کے فارسی کلام پر تضمینیں کہیں ہیں وہیں انہوں نے عرفی شیرازی کے ایک شعر پر بھی تضمین کہی ہے، اور انہی موصوف کا تعارف مقصود ہے۔

عرفی کا نام محمد جمال الدین تھا اور وہ 1556 میں شیراز میں پیدا ہوا، ابتدائی تعلیم وہیں حاصل کی اور پھر ہندوستان میں چلا آیا کہ یہاں دورِ اکبری تھا اور سارے ایران کے سخن ور اسی کے دربار سے منسلک تھے۔ عرفی نے ہندوستان میں خوب نام کمایا، یہاں اسکے اصل ممدوح عبدالرحیم خانخاناں اور شہزادہ سلیم تھے۔ صرف 36 سال کی عمر پا کر عین عالم شباب میں فوت ہوگیا۔ پہلے لاہور میں دفن ہوا لیکن بعد میں اسکی لاش کو نجفِ اشرف لے جا کر دفن کیا گیا۔

علامہ کی نظم کا پہلا شعر ہی دیکھئے

محل ایسا کیا تعمیر عرفی کے تخیل نے
تصدق جس پہ حیرت خانہء سینا و فارابی

فضائے عشق پر تحریر کی اس نے نوا ایسی
میسر جس سے ہے آنکھوں کو اب تک اشک عنابی

Persian poetry, Persian Poetry with Urdu translation, Farsi poetry, Farsi poetry with urdu translation, Allama Iqbal, علامہ اقبال, Urfi Shirazi, عرفی شیرازی
نظم عُرفی از علامہ محمد اقبال
ابنِ سینا اور فارابی، عالم اسلام کے بلا شک و شبہ دو بہت بڑے فلاسفر اور حکیم تھے اور بو علی سینا کے مدت تک جسکی کتب یورپ میں نصاب کا حصہ رہیں، انکی تمام ریاضتوں کو علامہ نے عرفی کے تخیل پر قربان کردیا۔ اور یہی عرفی کا عوجِ کمال ہے۔ عرفی کا شعرا میں اگر نام مہتاب کی طرح چمک رہا ہے تو اسی بلند تخیل، زورِ بیان، سوزِ عشق اور جدت طرازی کی وجہ سے۔

علامہ نے جب اس سے امت کا مسائل کا حل پوچھا تو دیکھیے کیا شعر جواب میں منتخب کیا ہے۔

نوا را تلخ تر می زن چو ذوقِ نغمہ کم یابی
حدی را تیز تر می خواں چو محمل را گراں بینی

ترجمہ- اگر ذوقِ نغمہ کم ہوگیا ہے تو اپنی نوا کر تلخ تر کر دے، اگر اونٹ پر بوجھ زیادہ ہو تو حدی خواں اپنی لے اور تیز کر دیتے ہیں۔

صدیوں کے تجربات سے یہ بات عیاں ہے کہ عرب جب بے آب و گیاہ ریگستانوں میں سفر کرتے ہیں اور اونٹوں پر بوجھ بھی ہوتا ہے تو وہ حدی خوانی کرتے ہیں جس سے نا صرف انکا خود اپنا سفر کٹ جاتا ہے بلکہ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ اس لے اور تان سے اونٹ بھی بوجھ کو بھول کر مزے سے سفر کاٹ لیتے ہین یہ عرفی کا کمال مشاہدہ تھا کہ اس نے اس حقیقت کو اپنے شعر میں بیان کر دیا اور علامہ نے اسے منتخب کیا۔

علامہ کے انتخاب میں کس کو کلام ہو سکتا ہے، اور یہ بات اگر مدِ نظر رکھیں کہ علامہ ادب برائے ادب کے قائل نہیں تھے، بلکہ ادب برائے زندگی انکا مقصدِ حیات تھا، وہ ایک پیغام اپنی قوم تک پہنچانا چاہتے تھے، اس موضوع کو کسی اور وقت کیلیے اٹھا رکھتا ہوں کہ علامہ نے کبھی بھی خود کو شاعر نہیں سمجھا بلکہ وہ اپنے آپ کو فلسفی یا شاعر فلسفی سمجھتے تھے، تو یہ بات واضح تر ہو جاتی ہے کہ علامہ رمز و کنایہ یا دقیق تشبیہات کے سہارے اپنی شاعری نہیں کر سکتے تھے۔

انکے کلام سے مترشح ہے کہ آپ نے اپنا پیغام واضح اور صاف صاف الفاظ میں بیان کیا ہے اور عرفی کے شعر کو اپنے حق میں لانے سے انکا مقصد بھی یہی تھا کہ جو معروضی حالات اس وقت کے تھے اور جو زمینی حقائق تھے،انکو پیشِ نظر رکھ کر انکی نوا تلخ تر ہی ہونی چاہیے تھی اور اس نا چیز کی رائے میں علامہ شعوری طور پر اس شعر کو اپنے کام اور کلام کے حق میں لائے ہیں۔

عرفی کا ایک عام معنی تو وہی ہے جو ہمارے ذہن میں عرف سے آتا ہے، لیکن مولانا شبلی نعمانی نے اس تخلص کی وجہء تسمیہ یہ بیان کی ہے کہ ایران میں مذہبی مسائل کی علاوہ جو دوسرے مسائل ہوتے ہیں ان کے تصفیے کیلئے جو قاضی کا عہدہ تھا اسکو وہ عرف کہتے تھے اور یہ عہدہ عرفی کے خاندان میں تھا، اسی لیے اس نے فخر کی وجہ سے یہ تخلص رکھا کہ اس زمانے میں عموما شعراء کرام بڑے گھرانوں سے نہیں ہوتے تھے۔

عرفی بہت خود دار آدمی تھا، اس مغلیہ زمانے میں جب شعرا جھوٹ کے پلندے قصیدوں میں انعام کے لالچ میں بیان کرتے تھے اور در در کی جبہ سرائی کرتے تھے، عرفی نے اپنی خودداری کو قائم رکھا اور یہی وجہ ہے کہ وہ بہت مغرور شاعر مشہور ہے۔ اسکا دوسرا بڑا وصف اسکا ہجو گوئی سے پرہیز ہے، فارسی شعرا ایک دوسرے کی ہجو گوئی میں اتنا گر گئے تھے کہ دامنِ شرافت تک کو چھوڑ دیا اور تقریبا ہر بڑے شاعر نے ہجو گوئی کی ہے اور بعضے تو فحشیات اور مغلضات تک آ پہنچے لیکن عرفی نے اپنا دامن اس برائی سے مکمل پاک رکھا۔ لوگوں نے اس کی ہجو گوئی کی، اسکو بہت برا بھلا کہا کہ یہ عام روش تھی کہ شعرا ایک دوسرے کی تضحیک کرکے بادشاہوں کی نظر میں اپنی وقعت بڑھاتے تھے لیکن عرفی انتہائی شریف آدمی تھا۔ ایک اور وصف اسکا، پاک دامنی تھا، اس لہو و لعب کے دور میں جب بادشاہوں سے لیکر ہر صاحبِ مال دادِ عیش دینے میں مصروف تھا، اسنے اپنا دامن ہر قسم کی آلائش سے پاک رکھا۔

عرفی نے شیراز میں کم سنی کے عالم میں ہی شاعری شروع کردی تھی اور وہاں خوب نام کمایا، اس زمانے میں یہ رواج تھا کہ مشاعروں میں کسی موضوع کے حق اور مخالفت میں نظم میں دلائل دیئے جاتے تھے، باوجود اس کے کہ عرفی کم سن تھا وہ دقیق موضوعات پر بڑے بڑے نامور شعراء کے سامنے ایک موضوع کے ہر دو پہلؤں پر دلائل دیتا اور دونوں طرف بازی لے جاتا، لیکن زندگی میں ان کامیابیوں کی اسے بڑی بھاری قیمت چکانا پڑی، کہ اس کے بہت سارے حاسدین پیدا ہوگئے تھے اور یہ کامیابیاں آخر اس کی جان لے کر ہی ٹلیں۔

ہندوستان میں بھی چونکہ اس نے بہت جلد اپنا نام پیدا کرلیا تھا اور خاص طور پر وہ شہزادہ سلیم، جو کہ بعد میں شہنشاہ جہانگیر کے لقب سے تختِ مغلیہ پر جلوہ افروز ہوا، کا منظوِ نظر بن گیا تھا، اسکے حاسدین نے اسے زہر دے کر ختم کر دیا۔ عرفی کو خود بھی اسکا احساس تھا اسلئے ایک جگہ کہتا ہے

از من بگیر عبرت و کسبِ ہنر مکن
با بختِ خود عداوتِ ہفت آسمان مخواہ

مجھے دیکھ کر عبرت حاصل کر اور ہنر پیدا کرنے کا خیال چھوڑ دے، تو کیوں چاہتا ہے کہ سات آسمانوں کی دشمنی مول لے لے۔

عرفی کی تصنیفات میں ایک کتاب موسوم بہ “نفسیہ” تھی جو کہ تصوف میں ہے لیکن ناپید ہے اور ذکر اسکا صرف تذکروں میں ہی رہ گیا ہے، اسکے علاوہ دو مثنویاں اور ایک کلیات موجود ہیں۔ کلیات میں 26 قصیدے، 270 غزلیں اور سات سو اشعار کے قطعات اور رباعیاں ہیں۔ اس زمانے کو شعری روایات کو مدِ نظر رکھتے ہوئے دیکھیں تو یہ تعداد دوسرے شعراء کے کلام کے مقابلے میں کچھ بھی نہیں ہے اور وجہ اسکی یہ ہے کہ اسکا تقریبا 6000 اشعار کا ایک دیوان ضائع ہو گیا تھا، جس کا اس کو بہت قلق تھا اور اسکے غم میں عرفی نے ایک انتہائی درد ناک غزل بھی کہی تھی، لیکن اس ماتم کے دوران انتہائی بلند ہمتی اور جوش کے عالم میں کہتا ہے

گفتہ گر شد ز کفم، شکر کہ نا گفتہ بجاست
از دو صد گنج یکے مشت گہر باختہ ام

اگر کہا ہوا ہاتھ سے چلا گیا ہے تو کیا فکر کہ نا کہا ہوا تو موجود ہے پھر کہہ لوں گا کہ میرے بیش بہا خزانے سے صرف ایک مٹھی بھر گوہر ہی گئے ہیں۔

اپنے زمانے کے شعری مذاق کے مطابق عرفی کا اصل میدانِ سخن قصیدہ ہی تھا لیکن ذاتی طور پر اپنے مزاج کے عین مطابق اسے غزل گوئی ہی پسند تھی اور اسکی غزلیں واقعی ہی لا جواب ہیں، ایک جگہ کہتا ہے

قصیدہ کارِ ہوس پیشگان بود عرفی
تو از قبیلہ عشقی، وظیفہ ات غزل است

عرفی تیرے سامنے قصیدہ ہوس کا کام ہی ہے، تیرا تعلق تو قبیلہء عشاق سے ہے اور تیرا وظیفہ تو غزل ہے۔

مولانا شبلی نعمانی نے عرفی کہ جو شعری خصوصیات بیان کی ہیں ان میں، زورِ کلام، الفاظ کی نئی نئی ترکیبیں اور استعارے، جدتِ تشبیہات، مسلسل مضامین، مضمون آفرینی، طرزِ ادا کی جدت، صدق دوستی، بلند ہمتی، اخلاق اور عشقیہ سوز و گداز شامل ہیں۔ اسکے علاوہ عرفی کی شاعری کا بہت بڑا مقام اسکی فلسفیانہ شاعری ہے، یہ کوئی نئی بات نہیں، خاص بات یہ ہے کہ اسنے اپنی فلسفیانہ شاعری میں بھی شاعرانہ طرزِ ادا کو ہاتھ سے نہیں جانے دیا کہ عموما شعراء کرام فلسفیانہ مضمون کو بیان کرتے ہوئے، تغزل کو قربان کر دیتے ہیں۔ ان سب خصوصیات کی امثال کو طوالت کے خوف سے محذوف کرتا ہوں۔

یہ بھی ایک عجیب اتفاق ہے کہ بذلہ سنجی، حاضر جوابی اور ظرافتِ طیع بھی تمام نابغہء روزگار لوگوں میں بدرجہ اتم پائی جاتی ہے، غالب اور اقبال ہمارے سامنے کی مثالیں ہیں، عرفی بھی اس سے مستسنٰی نہیں ہے، بلا کا ظریف تھا۔

اکبر کے نو رتننوں میں سے دو بھائیوں، ابو الفضل اور فیضی نے بہت نام کمایا انکے باپ کا نام مبارک تھا۔ ایک دن عرفی ابوالفضل کے گھر اسے ملنے گیا تو دیکھا کہ وہ قلم دانتوں میں دبائے سوچنے بیٹھا ہوا ہے، عرفی نے پوچھا، کیا سوچ رہے ہو۔ ابوالفضل نے کہا کی بھائی صاحب/فیضی نے قرآن مجید کی جو بغیر نقطوں کے تفسیر لکھی ہے اسکا دیباچہ اسی طرح یعنی بغیر نقطوں کے لکھ رہا ہوں۔ چاہتا ہوں کہ والد صاحب کا نام بھی اس میں آ جائے اور صنعت کا التزام بھی ہاتھ سے نہ جائے۔ لیکن کچھ سوجھ نہیں رہا۔ عرفی نے فورا کہا اس میں تردد کی کیا بات ہے۔ اپنے لہجے میں ممارک لکھ دو۔ اس وقت گنوار لوگ مبارک کو ممارک ہی کہتے تھے۔

ایک دفعہ فیضی بیمار تھا، عرفی عیادت کو گیا۔ فیضی کو کتوں کا بہت شوق تھا، عرفی نے دیکھا کہ فیضی کے ارد گرد پلے سونے کے پٹے ڈالے گھوم پھر رہے ہیں۔ عرفی نے کہا، مخدوم زادوں کا کیا نام ہے۔ فیضی نے کہا ان کا نام عرفی ہے یعنی کچھ خاص نہیں ہے۔ عرفی نے کہا ، “مبارک” ہو۔

متقدمینِ شعر فارسی اور شعراء اردو پر ، مرزا عبدالقادر کے بعد اگر کوئی شاعر سب سے زیادہ اثر پذیر ہوا ہے تو وہ شاید عرفی ہی ہے۔ تقریبا ہر بڑے شاعر نے عرفی سے فیض حاصل کیا ہے اور اقبال بھی اس سے مستسنیٰ نہیں ہیں۔ اقبال کی فارسی میں ایک پوری غزل عرفی کی زمین، یعنی اسی بحر و قافیہ ردیف میں موجود ہے لیکن اسے طوالت اور فارسی کے خوف سے چھوڑتا ہوں۔ غالب نے بھی عرفی سے بھر پور فیض حاصل کیا ہے ایک شعر اوپر عرفی کا گزر چکا ہے، غالب کے اس شعر میں اسکی بازگشت دیکھیں۔

ہم کہاں کے دانا تھے، کس ہنر میں یکتا تھے
بے سبب ہوا غالب دشمن آسماں اپنا

چند شعر اور عرفی اور غالب کے بیان کرتا ہوں تا کہ بات واضح ہو جائے

بہ کیشِ برہمناں آں کس از شہیدان است
کہ در عبادتِ بت روئے بر زمیں میرد

برہمنوں کے نزدیک شیہد وہ ہے، جو بت کے سامنے سجدے میں گرے ہوئے جان دے دے۔

اور غالب یوں رقم طراز ہیں

وفاداری بشرطِ استواری، اصل ایماں ہے
مرے بت خانے میں تو کعبے میں گاڑو برہمن کو

عرفی کہتا ہے

عشق اگر مرد است، مردے تابِ دیدار آورد
ورنہ چوں موسیٰ بسے آورد بسیار آورد

اگر عشق بلند ہمتی کا نام ہے تو وہ مرد آئے جسے تابِ دیدار ہو، ورنہ جسطرح موسیٰ آئے تھے تو اسطرح کے بہت آتے ہیں۔

اور غالب اس خیال کو یوں پیش کرتے ہیں

دھمکی میں مر گیا جو نہ بابِ نبرد تھا
عشق نبرد پیشہ، طلب گارِ مرد تھا

عرفی کچھ یوں اپنی سیہ بختی بیان کرتے ہیں

ز فروغِ آفتابم نہ بود خبرِ کہ بے تو
چو دو زلف تست یکساں، شب و روزم از سیاہی

مجھے سورج کی روشنی کی خبر ہی نہیں ہوتی کہ تیرے بغیر میرے دن اور رات تیری دو زلفوں کی طرح یکساں سیاہ ہیں۔

اور غالب اس مضمون کو اسطرح باندھتے ہیں

جسے نصیب ہو روزِ سیاہ میرا سا
وہ شخص دن نہ کہے رات کو تو کیونکر ہو

اور آخر میں عرفی کے کلام میں سے چند اشعار، نمونہء کلام کے طور پر

عرفی تو میندیش ز غوغائے رقیباں
آوازِ سگاں کم نہ کند رزقِ گدا را

عرفی تو رقیبوں کے شور و گل سے مت گھبرا کہ آوازِ سگاں سے بھی کبھی گدا کا رزق کم ہوا ہے۔

منم آں سیر ز جاں گشتہ کہ با تیغ و کفن
تا درِ خانہ جلاد غزل خواں رفتم

میں اس جان سے وہ تنگ آیا ہوں کہ تلوار اور کفن کے ساتھ، جلاد کے گھر کی طرف غزل خوانی کرتے ہوئے جا رہا ہوں۔

ہر کس نہ شناسندہء راز است وگرنہ
ایں ہا ہمہ راز است کہ معلومِ عوام است

ہر شخص کو راز پہچان لینے کا ملکہ حاصل نہیں ورنہ جو کچھ عوام جانتے ہیں وہ بھی در اصل سارے کا سارا راز ہی ہے۔

عشق می خوانم و می گریم زار
طفلِ نادانم و اول سبق است

عشق کا سبق لیتا ہوں اور زار زار رو رہا ہوں جیسے نادان بچے کا پہلا سبق ہوتا ہے۔

قبولِ خاطر معشوق شرط دیدار است
بحکمِ شوق تماشا مکن کہ بے ادبی است

دوست جس حد تک پسند کرے اسی حد تک نظارہ کرنا چاہیئے کہ اپنے شوق کے موافق دیکھنا بے ادبی ہے۔

اگرفتم آں کہ بہشتم دہند بے طاعت
قبول کردن و رفتن نہ شرط انصاف ست

میں نے مان لیا کہ مجھے بہشت بغیر عمل کے ہی مل جائے گی لیکن اسے قبول کرنا اور اس میں اسطرح جانا انصاف کے خلاف ہے۔

زبان بہ بند و نظر باز کن کہ منع کلیم
کنایب از ادب آموزی تقاضائیست

زبان بند کرو اور آنکھیں کھولو کہ موسیٰ کو جو منع کیا تھا تو یہ بتانا مقصود تھا کہ ادب ملحوظ رکھنا چاہیئے۔

بیا بہ ملکِ قناعت کہ دردِ سر نہ کشی
ز قصہ ہا کہ بہ ہمت فروشِ طے بستند

قناعت کی طرف آ کہ پھر تمہیں ان کہانیوں سے جو حاتم طائی سے منسوب ہیں کوئی مطلب نہیں رہے گا۔

----

مزید پڑھیے۔۔۔۔

May 9, 2008

بانگِ درا کا ایک کردار - غلام قادر روہیلہ

یہ مضمون اپریل 2007ء میں لکھا تھا اور سب سے پہلے"ون اردو" پر شائع کیا اور اسکے بعد اردو محفل" پر۔
---------------------
اقبال نے اپنی نظم بعنوان "غلام قادر روہیلہ" میں ایک تاریخی واقعے کی طرف اشارہ کیا ہے، جس میں غلام قادر روہیلہ کی بربریت دکھائی ہے، کہ اس نے مغل بادشاہ کی آنکھیں نکالنے کے بعد اس کے حرم کی عورتوں کو رقص کا حکم دیا تھا۔ لیکن روہیلہ نے جب یہ دیکھا کہ وہ شریف بیبیاں کسطرح اسکے حکم پر عمل در آمد کر رہی ہیں تو اس کو کچھ شرم آئی، اپنی تلوار اور خنجر کھول کر رکھ دیئے اور یوں ظاہر کیا کہ وہ سو گیا ہے، آخر اٹھا اور ان عورتوں سے کہا کہ سونے کا تو بہانہ تھا، میں نے تمھیں موقعہ دیا تھا کہ میرے خنجر سے ہی میرا خاتمہ کردو، لیکن افسوس خاندانِ تیمور سے غیرت ختم ہو چکی۔

اقبال نظم کا اختتام اس شعر پر کرتے ہیں۔

مگر یہ راز آخر کھل گیا سارے زمانے پر
حمیت نام ہے جس کا گئی تیمور کے گھر سے
Persian poetry, Persian Poetry with Urdu translation, Farsi poetry, Farsi poetry with urdu translation, Allama Iqbal, علامہ اقبال, Ghulam Qadir Rohela, غلام قادر روہیلہ
نظم غلام قادر روہیلہ از علامہ محمد اقبال
بظاہر یہی لگتا ہے کہ یہ نظم غلام قادر روہیلہ کی بربریت دکھانے کیلیے ہے، لیکن اس کا اختتام ہمیں فکر و جستجو کی دعوت دے کر چھوڑ جاتا ہے کہ جب تک تمام تاریخی واقعات سامنے نہ ہوں، قاری پیچ و تاب میں ہی مبتلا رہتا ہے، اور یہ بھی اقبال کے کلام کا ایک خاصہ ہے۔

غلام قادر روہیلہ، کا تعلق افغانوں کے قبیلہ روہیلہ سے تھے جو روہیل کھنڈ کے باسی تھے۔ تاریخ ہندوستان، مغلوں اور پٹھانوں کی نبرد آزمایوں سے بھری پڑی ہے۔ عظیم پٹھان شاعر، خوشخال خان خٹک کا کلام اسکا واضح ثبوت ہے۔ شیر شاہ سوری نے بھی ہمایوں کو شکست دے کر ہندوستان بدر کر دیا تھا لیکن اسکی اولاد آخر ہمایوں کے ہاتھوں
ہی موت کے گھاٹ اتری۔

اس نظم میں جس مغل بادشاہ کا ذکر ہے، اسکا نام مرزا عبداللہ تھا اور لقب شاہ عالم ثانی، وہ 1759 سے لیکر اپنی وفات 1806 تک تختَ دہلی پر کٹھ پتلی حکمران رہا۔ غلام قادر روہیلہ کے ہاتھوں 1787 میں اندھا ہوا۔ مغل سلطنت کا زوال عالمگیر کی وفات کے ساتھ ہی ہو گیا تھا، اسکے بعد جتنا عرصہ بھی یہ سلطنت رہی، وہ ہاتھی والی اس مثال کے مصداق ہے کہ وہ مرتے مرتے بھی کافی عرصہ لگا دیتا ہے۔ اس واقعے کے بیک گراؤنڈ میں دیکیں تو اس وقت طاقت کے ڈرامے میں کئی کردار تھے: مغل خود، مرہٹے، سکھ، انگریز اور حملہ آور۔ مرہٹوں اور سکھوں نے اس زمانے میں شمالی ہندوستان میں طوفان اٹھایا ہوا تھا اور حکمرانوں کیلئے مسلسل دردِ سر بنے ہوئے تھے۔
مرہٹوں کی چیرہ دستیاں اور مظالم جب حد سے بڑھ گئے تو، غلام قادر روہیلہ کا جرنیل دادا، نجیب الدولہ انکے خلاف اٹھ کھڑا ہوا۔ اس نے یہ سوچا کہ مغل، مرہٹوں کے خلاف اسکا ساتھ دیں گے کہ مرہٹے خود، مغل سلطنت کیلیے مسلسل پریشانیاں کھڑی کر رہے تھے، لیکن خاندانِ تیموریہ اور انکے وزراء نے کمال بد طینتی کا مظاہرہ کرتے ہوئے، الٹا مرہٹوں کے ساتھ مل کر نجیب الدولہ کو محصور کر دیا اور اس سے پے در پے جنگیں لڑیں۔

ان حالات میں جب نجیب الدولہ نے دیکھا کہ اب کوئی چارہ نہیں ہے تو اسنے احمد شاہ ابدالی سے مدد مانگی۔ احمد شاہ ابدالی نے اپنے قاضی سے فتوٰی طلب کیا تو قاضی نے کہا کہ مرہٹوں کے خلاف نجیب الدولہ کی مدد جائز ہے۔ لہذا احمد شاہ ابدالی نے مرہٹوں سے پانی پت کے مقام پر جنگیں لڑیں۔ اور ان میں سب سے مشہور پانی پت کی تیسری لڑائی ہے جو 1761 میں ہوئی اور اس میں ابدالی نے غلام قادر روہیلہ کے دادا نجیب الدولہ اور والد ضابطہ خان کی مدد سے مرہٹوں کو شکستِ فاش دی جس سے مرہٹوں کی اصل طاقت ہمیشہ کیلیے ختم ہو گئی۔ ابدالی کے سامنے اس وقت دہلی کا تخت خالی پڑا ہوا تھا، لیکن یہ بھی تاریخ کی ستم ظریفی ہے یا پھر انسان کا مقدر کہ ہوتا وہ نہیں ہے جسے چاہا جاتا ہے۔ ابدالی بجائے دہلی پہ قابض ہونے کے واپس چلا گیا۔

اسکے بعد بھی نجیب الدولہ کی مرہٹوں اور سکھوں سے کشمکش جاری رہی لیکن وہ 1770 میں فوت ہوگیا۔ اس بہادر جرنیل کی تعریف اپنے پرائے سب ہی کرتے ہیں، یہاں تک کہ انتہائی متعصب ہندو مصنف جادو ناتھ سرکار، جس نے تاریخِ مغلیہ اور تاریخِ ہند پر کئی کتابیں تصنیف کی ہیں اور جو مسلمانوں کے خلاف زہر سے بھری پڑی ہیں، اس نے بھی نجیب الدولہ کی معاملہ فہمی اور جرنیلی کی تعریفیں کی ہیں۔

نجیب الدولہ کے مرنے کے بعد، مرہٹوں نے روہیلوں سے پانی پت کی شکست کا انتہائی شرمناک انتقام لیا۔ اسکی وفات کے دو سال بعد ہی 1772 میں مرہٹوں نے مغلوں کے ساتھ مل کر روہیلوں کو خون کے گھاٹ اتار دیا۔ اور یہی واقعہ غلام قادر روہیلہ کے انتقام کا محرک ہے۔

غلام قادر روہیلہ اس وقت کوئی 12، 13 سال کا بچہ تھا، اس نے اپنے قبیلے کو مرہٹوں کے ساتھ ساتھ اپنے مسلمان بھائیوں کے ہاتھوں مرتے دیکھا۔ بات یہیں تک رہتی تو شاید وہ یہ فعلَ شعنیہ نہ کرتا جس کی طرف علامہ نے اپنی نظم میں اشارہ کیا ہے۔ لیکن ہوا وہی جو فاتح فوجیں ہمیشہ کرتی ہیں، مرہٹوں اور مغل فوج نے روہیلہ قبیلے کی عورتوں کی عصمت دری کی۔ غلام قادر نے یہ سب کچھ اپنی آنکھوں سے دیکھا، جان تو اسکی بچ گئی لیکن وہ اس ظلم کو کبھی نہ بھلا سکا جو اصل میں مغل بادشاہ شاہ عالم ثانی نے ہی کیا تھا کہ مرہٹے اکیلے روہیلوں کو فتح نہیں کرسکتے تھے۔

غلام قادر نے 1787 میں جب اسکی عمر کوئی 27 سال تھی، دہلی پر حملہ کیا اور اسے فتح کر لیا اور یہ واقع رو پذیر ہوا۔ جب اس نے شاہ عالم ثانی کو پکڑا تو اس نے کہا۔ اگرچہ تمھارا جرم تو اسکا متقاضی ہے کہ تمہارا بند بند جدا کرکے تمہارا گوشت چیل کوؤں کو کھلا دیا جائے لیکن یہ میری خدا ترسی ہے کہ میں تمھیں زندہ چھوڑے دیتا ہوں، ہاں اس میں شک نہیں کہ میں نے تم سے غوث گڑھ کی اس بد سلوکی کا جو تم نے میری ماں بہنوں کے ساتھ روا رکھی، پورا پورا انتقام لے لیا ہے۔ اور اسکے بعد خنجر سے اسکی دونوں آنکھیں نکال دیں۔ اس واقعہ کے ایک سال بعد ہی غلام قادر 1788 میں مرہٹوں کے ساتھ لڑتا ہوا مارا گیا۔

اب اس تمام واقعے سے ایک بات تو ظاہر ہوتی ہے کی غلام قادر نے جو کچھ بھی کیا وہ انتقام کے جذبے میں تھا
کہ مغلوں اور مرہٹوں نے اسکی خاندان کی عورتوں کی خود اور اپنی فوجوں سے آبروریزی کروائی، لیکن غلام قادر نے فتح کے باوجود اس حد تک بربریت نہیں دکھائی جس کا مظاہرہ مغل و مرہٹہ فوجوں نے کیا تھا بلکہ اس نے غیرت کھا کے مغل عورتوں کو موقع بھی دیا کہ اسے قتل کر دیں۔

یہی وجہ ہے کہ اقبال نے اپنی نظم کا آغاز تو غلام قادر روہیلہ کی بربریت سے کیا ہے، لیکن نظم کے اختتام پہ نہ صرف غلام قادر پر لعن طعن نہیں کی بلکہ مغلوں کو ہی تنقید کا نشانہ بنایا ہے کہ انہی میں غیرت و حمیت ختم ہو گئی تھی۔

----

مزید پڑھیے۔۔۔۔

بانگِ درا کا ایک کردار - فاطمہ بنتِ عبداللہ

یہ مضمون مئی 2007ء میں لکھا تھا اور سب سے پہلے "ون اردو" پر شائع ہوا، اسکے بعد "اردو محفل" پر۔
------------------
علامہ نے اپنی نظم فاطمہ بنتِ عبداللہ میں فاطمہ کو زبردست خراجِ تحسین پیش کیا ہے، اور نظم کے عنوان کے ساتھ خود ہی وضاحت کردی ہے کہ فاطمہ عرب لڑکی تھی جو طرابلس کی جنگ 1912 میں غازیوں کو پانی پلاتی ہوئی شہید ہوئی۔علامہ نے اپنی شعری روایات کے عین مطابق، نظم کے پہلے ہی مصرعہ میں جان ڈال دی ہے اور اپنا خیال انتہائی واشگاف الفاظ میں بیان کردیا ہے، فرماتے ہیں،فاطمہ، تو آبروئے امتِ مرحوم ہے
تمام نظم ہی لا جواب ہے، پہلے بند میں فاطمہ کو خراجِ تحسین پیش کرتے ہوئے فرماتے ہیں

یہ کلی بھی اس گلستانِ خزاں منظر میں تھی
ایسی چنگاری بھی یا رب اپنی خاکستر میں تھی

اور دوسرے بند میں علامہ نے اپنی دور بیں اور دور رس نگاہوں سے فاطمہ کی شہادت کے واقعے میں مضمر حقیقت
بیان کردی ہے، ایک شعر کچھ یوں ہے۔

ہے کوئی ہنگامہ تیری تربتِ خاموش میں
پل رہی ہے ایک قومِ تازہ اس آغوش میں
Persian poetry, Persian Poetry with Urdu translation, Farsi poetry, Farsi poetry with urdu translation, Allama Iqbal, علامہ اقبال
نظم فاطمہ بنت عبداللہ از علامہ اقبال


پہلے بند کا ایک مصرعہ اور شعر جو اوپر تحریر کیئے گئے ہیں، ان سے ایک بات واضح ہو رہی ہے کہ اقبال صرف فاطمہ کو خراجِ تحسین ہی پیش نہیں کر رہے، بلکہ ایک اور حقیقت کی طرف بھی اشارہ کر رہے ہیں، جو "امتِ مرحوم" اور "گلستانِ خزاں منظر" کے الفاظ سے واضح ہے۔ اس نظم اور علامہ کے پیغام کو کماحقہ سمجھنے کیلیے ضروری ہے کہ تاریخ کی تھوڑی سی ورق گردانی کی جائے اور اس واقعہ کے پس منظر کو ذہن میں رکھا جائے۔
فاطمہ، ایک چودہ سالہ معصوم عرب لڑکی تھی، جو کہ جذبہء جہاد اور جذبہء شہادت سے مالا مال تھی اور بالآخر جنگ میں اپنے غازی اور زخمی مجاہد بھائیوں کو اپنے مشکیزے سے پانی پلاتی ہوئی، جامِ شہادت نوش کر گئی۔ شہید زندہ ہوتے ہیں یہ ہر مسلمان کا ایمان ہے، لیکن ہم جیسے مسلمانوں کو اس معصومہ و شہیدہ کا نام و کام قطعاّ معلوم نہ ہوتے اگر علامہ اسکو خراجِ تحسین پیش نہ کرتے، اور اب، جب تک علامہ، بانگِ درا اور اردو کا نام رہے گا، اس شہیدہ کا نام ہمارے ذہنوں میں بھی زندہ رہے گا۔

جنگِ طرابلس، اصل میں اٹلی اور سلطنتِ عثمانیہ، موجودہ ترکی کی جنگ تھی، جس میں ترکی نے تو شکست مان کر طرابلس اور دوسرے صوبے، موجودہ لیبیا کو، اٹلی کے حوالے کر دیا تھا، لیکن وہاں کے مقامی مجاہدین نے، غیر ملکی قابضین کے خلاف اپنی جد و جہد جاری رکھی۔ یہ ایک لمبی داستان ہے، میں اس مجملاّ بیان کرنے کی کوشش کرتا ہوں۔

لیبیا کو تاریخ عالم میں ہمیشہ سے ایک خاص اہمیت حاصل رہی ہے، اسکی تاریخ کم و بیش ساڑھے تین، چار ہزار سال پرانی ہے، قدیم یونانیوں نے اسے یہ نام دیا تھا کہ قریب 1300 قبل مسیح میں یہاں ایک قبیلہ موسوم بہ لیبی یا لیبو آباد تھا۔ شمالی افریقہ کے بحیرہ روم کے ساحلوں پر آباد یہ ملک ہمیشہ سے حملہ آوروں اور استعماریوں کی جولاں گاہ بنا رہا ہے، کبھی یہ ملک ایک وحدت کے طور پر موجود رہا اور کبھی دو، تین صوبوں کی خود مختار ریاستوں میں۔ قبلِ اسلام اسے سلطنتِ روما نے کئی بار پامال کیا، عربوں نے اسے فتح کیا، یہاں اسلام پھیلایا اور یہاں آباد بھی ہوئے، بعد میں سلطنتِ عثمانیہ کا حصہ بنا اور صدیوں تک ان کے زیرِِ نگیں رہا۔
تاریخ عالم کا یہ ایک انتہائی تاریک باب ہے کہ فاشسٹ اور استعماری و استبدادی قوتوں نے ہمیشہ سے اپنے ملکوں کے علاوہ دوسرے اور غیر جانبدار و لاچار ملکوں کو اپنا مشقِ ستم بنایا، کبھی مال و دولت کیلیے اور کبھی اپنے مفادات کیلیے اور صد حیف کہ طلوعِ "انسانیت" سے شروع ہونے والا یہ بھیانک کھیل، انسان اور انسانیت کی "ترقی" کے باوجود رکا نہیں۔

اٹلی نے یورپ میں اپنے مفادات کے تحفظ کیلیے، ستمبر 1911 کو ایک دن کے الٹی میٹم پر لیبیا پر حملہ کردیا تا کہ ترکی کو مزید کمزور کیا جا سکے اور ادھر سے پریشر ڈال کر ان کو یورپ سے ہمیشہ کیلیے فارغ کر دیا جائے۔ ترکی کی ایک کمزور سی فوج اس وقت لیبیا میں موجود تھی جو شاید بہت جلد ہتھیار ڈال ڈیتی، لیکن وہاں کے عربی اور مقامی بربر قبیلے اٹلی کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے اور یہ جنگ اکتوبر 1912 تک چلی، اکتوبر میں ایک معاہدے کے تحت ترکی نے لیبیا پر اٹلی کا مکلمل تسلطت تسلیم کر لیا اور وہاں سے ہمیشہ کیلیے فارغ ہوگئے۔ لیکن مقامی لوگوں نے اس معاہدے کو تسلیم کرنے سے انکار کردیا اور اٹلی کے خلاف اپنی جد و جہد جاری رکھی۔ اس کے بعد اٹلی اور ترکی کے درمیان بالقان کی جنگ لڑی گئی اور اور پھر پہلی جنگِ عظیم میں مقابلے ہوئے۔ اس جنگِ عظیم میں مقامی لوگوں نے اپنی مدد آپ کے تحت اٹلی کو ناکوں چنے چبوا دیئے اور تمام صوبہ طرابلس پر قابض ہو کر اپنی خود مختار حکومت قائم کر لی، پہلی جنگِ عظیم میں ترکی کی عبرتناک شکست اور سلطنتِ عثمانیہ کے سقوط کے بعد اٹلی نے مقامی لوگوں کو پر اذیت ناک مظالم کے پہاڑ ڈھا دیئے لیکن انکے ذکر سے پہلے بہتر معلوم ہوتا ہے کہ اس تحریک اور اسکے بانی کا تھوڑا سا جائزہ پیش کر دیا جائے کہ جس نے لیبیا اور ملحقہ ملکوں، مراکش، سوڈان، الجزائر وغیرہ کے مسلمانوں کے دلوں میں اس قدر جذبہ پیدا کر دیا تھا کہ فاطمہ سی معصوم بچی بھی جہاد کیلیے نکل کھڑی ہوئی۔

تاریخ میں یہ تحریک سنوسی تحریک کے نام سے جانی جاتی ہے جو کہ اس کے بانی سید محمد بن علی سنوسی کے نامِ نامی سے منسوب ہے۔ وہاں کے مقامی لوگ آج بھی انکو السنوسی الکبیر کے نام سے اپنے دلوں میں بسائے ہوئے ہیں۔

سید محمد بن علی، 1791 میں الجزائر کے ایک چھوٹے سے قصبے سنوس میں پیدا ہوئے، ابتدائی تعلیم کے بعد آپ نے تیونس، قاہرہ اور مکہ میں تعلیم حاصل کی۔ 1837 میں آپ نے ایک اصلاحی تحریک شروع کی، اور بنیادی مقصد اسکا سنتِ نبوی اور شریعت پر عمل کرنا تھا، یہ ایک انتہائی سادہ تحریک تھی اسلئے لوگ جوق در جوق اس میں شامل ہوتے گئے اور دیکھتے ہی دیکھتے یہ تحریک تمام شمالی افریقہ میں پھیل گئی۔ سید محمد نے اصلاح کی غرض سے مختلف شہروں میں خانقاہیں اور زاویے قائم کیے، جہاں پر لوگوں اور بچوں کو شریعت اور سنتِ نبوی کے ساتھ ساتھ، زراعت، باغبانی، کپٹرا سازی اور معماری کی تعلیم بھی دی جاتی تھی اور اسکے ساتھ ساتھ جذبہ جہاد کی بھی تلقین کی جاتی تھی۔ آپ کا انتقال 1859 میں ہوا اور آپکے فرزندگان نے اس تحریک کو جاری رکھا اور جنگ طرابلس اور ما بعد جنگوں میں آپ کی اولاد ہی سپہ سالار تھی۔

پہلی جنگِ عظیم کے بعد اٹلی کے فاشسٹ حکمران، مسولینی نے لیبیا کے لوگوں کو سبق سکھانے اور اس تحریک کو ختم کرنےکیلیے وسیع پیمانے پر 1923 میں فوجی مہم شروع کی۔ اس وقت کی سپر پاور اٹلی کا مقابلہ ان نہتے اور بے یار و مدد گار مجاہدوں نے سالوں تک کیا لیکن 1927 تک اٹلی نے چن چن کر مجاہدین کو تقریبا ختم کر دیا اور 1931 میں اس تحریک کے مرکز کفرہ شہر کو فتح کرلیا۔ اور اس تحریک کے راہنماؤں اور مجاہدوں کو اذیت ناک سزائیں دے کر مار ڈالا۔ اس وقت اس تحریک کے راہنما عمر المختار سنوسی تھے، جنھیں اٹلی نے گرفتار کرنے کے بعد پھانسی کی سزا سنائی اور لوگوں کو عبرت کا سبق سکھانے کیلیے اس پھانسی کیلیے ایک بڑی تقریب کا اہتمام کیا جس میں لیبیا کے بیس ہزار سے زائد باشندوں کو گرفتار کرکے زبردستی شامل کیا گیا تا کہ "باغی" کا انجام دیکھیں۔

لیکن جو تحریک عوام کے دلوں میں بسی ہو، اور ایمان کی حرارت اس میں جوان لہو شامل کرتی رہے وہ بھلا کب ختم ہوتی ہے دوسری جنگ عظیم میں اس تحریک کو ایک دفعہ پھر ابھرنے کا موقع ملا اور اس دفعہ انہوں نے اتحادی فوجوں کے ساتھ مل کر اٹلی کا مقابلہ کیا اور جنگ کے بعد اقوامِ متحدہ کی قرارداد کی رو سے 1951 میں مکمل خود مختار ملک بن گیا۔ لیبیا کو یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ وہ دنیا کا پہلا ملک تھا جس نے اقوامِ متحدہ کی حمایت سے آزادی حاصل کی۔

علامہ نے اپنی نظم میں جہاں فاطمہ بنتِ عبداللہ کو زبردست خراجِ تحسین پیش کیا ہے وہیں، امتِ مرحومہ کا نوحہ بھی بیان کیا ہے کہ اس وقت کے خلیفہ و امیر المومنین نے اپنی اس نہتی رعایا کو ظالموں کے رحم و کرم پر چھوڑ کر راہِ فرار اختیار کر لیا تھا۔ اور دوسرا علامہ کی زمانہ شناس نگاہوں نے دیکھ لیا تھا کہ یہ تحریک دبنے والی نہیں کہ جس قوم کی بچیوں کے جذبہء شہادت کا یہ عالم تھا اس قوم کے جوانوں اور جہاں دیدہ برزگوں کا کیا عالم ہوگا۔

Persian poetry, Persian Poetry with Urdu translation, Farsi poetry, Farsi poetry with urdu translation, Allama Iqbal, علامہ اقبال
فاطمہ بنت عبداللہ - ایک نایاب تصویر بشکریہ توصیف امین


اور علامہ کی اور بہت سی مبنی بر حقیقت باتوں میں سے یہ بھی ایک پوری ہونے والی بات تھی کہ یہ تحریک اپنے منطقی منزل پر پہنچ کر رہی۔

----

مزید پڑھیے۔۔۔۔

دنیا کا پہلا فلسفی

دنیا کا پہلا فلسفی - تھےلیز آف مائیلیٹس
(Thales of Miletus)
بھری گرمیوں کا دن تھا، دو متحارب بادشاہوں کی فوجیں آپس میں برسرِ پیکار تھیں، اس دن سینکڑوں لاشیں گر چکیں تھیں۔ یہ دونوں فوجیں پچھلے پندرہ سالوں سے آپس میں خون کی ندیاں بہا رہی تھیں کبھی جنگ رک جاتی تھی اور کبھی خون آشام تلواریں ہزاروں جوانوں کو موت کی ابدی نیند سلا دیتی تھیں۔ اور پچھلے پانچ سالوں سے تو بغیر کسی وقفے سے جنگ اور موت کے دیوتا ہی ان کی پرستشوں کے محور تھے۔ کہ یکا یک آسمان نے اپنا رنگ بدلنا شروع کیا۔ ایک عفریت تھی کہ سورج دیوتا کو نگلے جا رہی تھی۔ روزِ روشن، آہستہ آہستہ تاریکی میں بدلنا شروع ہوا، دیکھتے ہی دیکھتے وہ عفریت مکمل طور پر سورج دیوتا کو نگل گئی، لوگوں کو دن دیہاڑے ستارے نظر آنے لگے اور بھری دوپہر میں یوں محسوس ہونے لگا کہ آدھی رات ہے۔ ان متحارب لشکروں نے اپنے سورج دیوتا کا یہ حشر ہوتے دیکھا تو تلواریں، نیزے، بھالے پھینک، سجدے میں گر گئے اور مناجات پڑھنے لگے۔ سورج دیوتا کو آہستہ، آہستہ اس عفریت سے رہائی ملی اور وہ دوبارہ اپنی کرنوں سے دنیا کو ضیاء پاش کرنے لگا۔ لیکن اب دونوں لشکروں کے دل بدل چکے تھے، انہوں نے لڑنے سے انکار کر دیا، انہوں نے کہا کہ دیوتا ان کی خونریزیوں کی وجہ سے ان سے ناراض ہو گئے تھے، اسی وجہ سے سورج دیوتا کو یہ سزا ملی، لہذا یہ موت کا کھیل بند کر کے امن سے رہنا چاہئیے۔ جب پیادے ہی لڑنے کو تیار نہ تھے تو شاہ و وزیر بھلا کیا کرتے سو ان دونوں بادشاہوں نے آپس میں امن کا معاہدہ کیا اور عوام ہنسی خوشی رہنے لگے۔
یہ کوئی دیومالائی کہانی نہیں ہے بلکہ قدیم تاریخ کا ایک ایسا منفرد واقعہ ہے جس کا انتہائی صداقت سے تعین ہو چکا ہے۔ یہ ہمارے مروجہ اور مستعمل کیلنڈر کے مطابق 28 مئی 585قبل مسیح کا دن تھا کہ جس دن سورج گرہن لگا، اور یہ دونوں فوجیں قدیم سلطنتوں لیڈیا اور میڈیا کی تھیں، موجودہ دور میں یہ دونوں علاقے، بالترتیب ترکی اور ایران کے حصے بنتے ہیں کہ جو ازمنہء قدیم سے ہی آپس میں برسرِ پیکار رہے ہیں۔ یہ تو شاید مظاہر فطرت کا پہلا واقعہ تھا جسنے ان لوگوں کی پر خون دنیا میں امن پیدا کر دیا۔ لیکن اس واقعے کی اہمیت ایک اور وجہ سے اس سے بھی زیادہ اہم ہے۔ جس وقت یہ جنگ سورج گرہن کی وجہ سے رکی، اسی وقت لوگوں نے میدانِ جنگ سے ملحقہ ایک شہر میں ایک آدمی کو گھیرے ہوا تھا اور حیران و پریشان تھے کہ اس شخص کو اس سورج گرہن کا کیسے پتہ چل گیا کہ یہ دیوتا بھی نہیں اور اس نے کافی عرصہ پہلے اس سورج گرہن کی پیشن گوئی کر دی تھی۔ ناسا کے سائنسدانوں نے نہ صرف اس سورج گرہن والے واقعے کی تاریخ پر مہرِ تصدیق ثبت کردی ہے، بلکہ اس بات کو بھی مانا ہے کہ ایشیائے کُوچک کے ان علاقوں میں جہاں پر یہ لڑائی جاری تھی، یہ ایک مکمل سورج گرہن تھا۔ یہ پیشن گوئی کرنے والا شخص، تھے لیز تھا جو متفقہ طور پر دنیا میں پہلا فلسفی مانا جاتا ہے۔
علمِ نجوم جو بعد میں ترقی کرکے علمِ ہیت بنا، دنیا کے قدیم ترین علموں میں سے ہے۔ بابل اور مصر کے لوگ آج سے ہزاروں سال پہلے اسکے عالم تھے۔ اسکی ابتدا تو شاید اس وقت ہوئی ہوگی جب انسان نے اپنی تاریک راتوں میں سفر کرنے کیلیے ستاروں کی طرف دیکھا ہوگا اور سینکڑوں، ہزاروں سالوں کے مشاہدے نے اسے سکھلا دیا کہ آسمان میں کچھ ستارے ایسے بھی ہیں، جو ہمیشہ ایک ہی سمت کا تعین کرتے ہیں اور انسے دوسری سمتوں کا تعین بآسانی ہو سکتا ہے، لیکن اس علم کو ترقی اس وقت ملی جب یہ معبدوں کے پروہتوں کے ہاتھ میں آیا۔ اس زمانے کے لوگ اور بہت سارے مظاہرِ فطرت کے ساتھ چاند، سورج اور ستاروں کی بھی پرستش کرتے تھے اور پروہت چونکہ دیوتاؤں کے نائب ہوتے تھے اور انکی بات ہی دیوتاؤں کی بات ہوتی تھی، لہذا یہ ان پروہتوں کی مجبوری تھی کہ وہ اپنے آپ کو اپنے دیوتاؤں کے حالات سے با خبر رکھیں۔ بابل اور مصر کے لوگ آج سے ہزاروں سال پہلے علم نجوم میں کافی ترقی یافتہ تھے۔ ان پروہتوں نے جب اتنہائی بلند و بالا معبدوں کے اونچے اونچے چبوتروں پر بیٹھ کر تاریک راتوں میں آسمان کے ستاروں کا سینکڑوں سالوں تک مشاہدہ کیا اور انکا ریکارڈ رکھنا شروع کیا تو زائچے بن گئے، انہوں نے نہ صرف ستاروں کی گردش اور مختلف موسموں میں انکی آسمان میں پوزیشن کو نوٹ کیا بلکہ وہ اس بات پر بھی قادر ہوگئے کہ ستاروں کی پوزیشن کے متعلق پیشن گوئیاں کر سکیں اور اسی سے وہ پروہت سورج گرہن اور چاند گرہن کے متعلق پیشن گوئیاں کیا کرتے تھے۔ یہ ایک انتہائی سائینٹفک علم تھا جو کہ مشاہدہ پر مشتمل تھا لیکن ان پروہتوں نے اس پر طلسم و اسرار کے دبیز پردے ڈالے ہوئے تھے۔ وہ عوام کو گرہنوں کی پیشن گوئی کرکے نہ صرف مرعوب کرتے تھے بلکہ ان کو یہ کہہ کر کہ دیوتا ان سے ناراض ہوگئے ہیں، قربانیوں اور مناجات پر مجبور بھی کردیتے تھے۔
تھےلیز ایشیائے کوچک کے بحیرہ روم کے ساحل پر ایک یونانی نوآبادی آئیونیا کے شہر مائیلیٹس کا باشندہ تھا۔ اسکے نسل کے بارے میں مورخ آجتک متفق نہیں ہوسکے، بہت سارے مؤرخین کا کہنا ہے کہ وہ یونانی الاصل تھا لیکن قدیم اور نامور یونانی مؤرخ ہیروڈوٹس کا کہنا ہے کہ وہ فونیشی الاصل یعنی ایشیائی تھا۔ تھے لیز 624 ق-م میں مائیلیٹس میں پیدا ہوا اور 546 ق۔م میں وہیں وفات پا گیا۔ تھے لیز کا عہد تاریخ کا ایک انتہائی اہم دور ہے، یہ وہ زمانہ تھا جب علم کا مرکز ایشیا سے مغرب کی طرف منتقل ہو رہا تھا۔ قدیم اور عظیم مصری تہذیب اپنی آخری سانسیں لے رہی تھی اور میسوپوٹیمیا کی تہذیب، ایرانی فاتحین کے ہاتھوں تخت و تاراج ہو رہی تھی، گو ابھی دم خم باقی تھا۔ آئیونیا کی شہری ریاستوں کے مصر اور بابل کے ساتھ دوستانہ اور تجارتی روابط تھے اور انہی خوشگوار تعلقات کی وجہ سے تھےلیز کو اپنی جوانی میں ان علاقوں کے سفروں کا مواقع ملے۔ بابل کے سفر کے دوران اس نے وہاں سے علم نجوم یا علم ہیت سیکھا تھا۔ اسکا مصر کا سفر بہت یادگار ہے۔ مصر کی تہذیب ہزاروں سال پرانی ہے، اور جب تھےلیز نے اہرامِ مصر دیکھے تو انکو تعمیر ہوئے بھی تقریبا دو ہزار سال ہوچکے تھے۔ مصر میں تھےلیز نے جیومیڑی اور ریاضی کا علم حاصل کیا۔ مصر میں اس کا ایک واقعہ تو بہت ہی مشہور ہے۔ مصر میں قیام کے دوران اسکے علم کا شہرہ ہو چکا تھا۔ اہلِ مصر نے اس سے پوچھا کہ تم بتاؤ ہمارے اہرام کی اونچائی کتنی ہے کہ یہ بات ان کیلیے ایک چیستان تھی۔ تھےلیز نے کہا یہ تو کوئی بڑی بات نہیں ہے۔ اس نے ان سے کہا کہ ریگستان میں ایک چھڑی گاڑ دو، جب چھڑی کا سایہ اسکی اصل لمبائی کے برابر ہوگیا تو تھےلیز نے کہا اب اہرام کا سایہ ماپ لو، وہ بھی یقینا انکی اصل اونچائی کے برابر ہوگا، یہ بظاہر سامنے کی بات نظر آتی ہے لیکن تھےلیز نے یہ بات کرکے یقیناّ اہلیانِ مصر کو ششدر کر دیا ہوگا۔ مصر میں اسکے قیام کے دوران اسکی دریائے نیل کی طغیانی، کہ جس پر مصر کا دارومدار آج بھی ہے، کے بارے میں تحقیقات بھی کافی مشہور ہیں۔
تھےلیز کی کوئی تحریر باقی نہیں ہے اور بعض مؤرخین کے نزدیک اس نے کوئی کتاب لکھی بھی نہیں تھی، اس بات پر بہرحال مؤرخین و فلاسفہ کا اختلاف ہے۔ تھےلیز کے فلسفے کو دوام ارسطو نے اپنی مختلف کتابوں میں بیان کرکے بخشا ہے۔ ارسطو نے نہ صرف اسکے فلسفے پر بحث کی ہے بلکہ اسکے حالاتِ زندگی کا بھی ذکر کیا ہے۔ اپنی کتاب سیاسیات میں ارسطو نے اسکے علمِ نجوم میں مہارت کا قصہ بیان کیا ہے۔ ہوا یوں کہ لوگ اسکو غربت کا طعنہ مارا کرتے تھے کہ یوں تو بڑے عالم فاضل بنے پھرتے ہو اور بھوکوں مر رہے ہو، اسنے کہا، اچھا اگر یہ بات ہے تو پھر دیکھنا ۔اس نے علم ہیت میں اپنی مہارت سے اندازہ لگایا کہ اس سال گرما میں موسم کچھ اسطرح کا ہوگا کہ زیتون کی فصل بہت اچھی ہوگی، لہذا اسنے مائیلیٹس اور اسکے ملحقہ علاقوں کے زیتون کا تیل نکالنے والے تمام کارخانے اپنے نام بُک کروالیے۔ یہ سردیوں کا موسم تھا، کارخانے بند پڑے تھے اور اسکے مقابل کوئی بولی لگانے والا بھی نہیں تھا، لہذا اسے بڑے مناسب داموں پر یہ کارخانے مل گئے۔ جب موسمِ گرما میں زیتون کی فصل آئی تو وہ واقعی بہت شاندار تھی، اب ہر کسی کو تیل نکالنے کیلیے کارخانے درکار تھے، تھےلیز نے اپنی من مرضی کے نرخوں پر وہ کارخانے چلائے اور کثیر سرمایہ کمایا اور لوگوں سے کہا کہ دیکھو اگر فلسفی اور علما دولت کمانا چاہئیں تو بہت کما سکتے ہیں لیکن انکے مقاصد اور طرح کے ہوتے ہیں، یہ تو ارسطو کی بیان کردہ کہانی تھی، اس واقعہ پر ایک ستم ظریف فلسفی نے یہ اضافہ کیا کہ اس تمام قصے میں نہ تو علمِ نجوم میں مہارت درکار تھی اور نہ ہی زیتون کی بہت اچھی فصل کی، بلکہ یہ تو سیدھا سادا تاجرانہ اجارہ داری کا واقعہ ہے۔ اسکا ایک اور واقعہ بھی مشہور ہے ایک دفعہ شام کو وہ کہیں جا رہا تھا اور چلتے چلتے آسمان میں ستاروں کا مشاہدہ بھی کر رہا تھا کہ ایک گڑھے میں گر گیا، اس پر وہاں پر موجود لڑکیوں نے اسکی خوب سبکی کی کہ آسمانوں کی خبر تو رکھتا ہے اور پاؤں کی خبر نہیں۔
تھےلیز کو دنیا میں متفقہ طور پر پہلا فلسفی اور سائنسدان مانا جاتا ہے اور اسکے ساتھ، فزکس جیومیٹری اور ریاضی کا موجد بھی، جیومیٹری کو مصریوں نے بہت پہلے ترقی دی تھی اور تھےلیز نے یہ علم انہی سے سیکھا تھا لیکن اس وقت تک یہ علم بغیر کسی قواعد و ضوابط کے تھا، تھےلیز نے سائنسی بنیادوں پر جیومیٹری کے قواعد و ضوابط منظم کیے اور تھیورم پیش کیے جو بعد میں اقلیدس نے بیان کیے اور آج تک ساری دنیا میں پڑھائے جاتے ہیں۔ فلسفے اور سائنس کا بانی اس لحاظ سے کہ وہ پہلا آدمی تھا جس نے اس کائنات کے وجود میں آنے کی وجوہات کی علمی اور عقلی توجیہات بیان کیں۔ اس سے پہلے جب بھی کوئی سوال پوچھتا تھا کہ دنیا کیسے وجود میں آئی تو ہر طرف سے یہی جواب ملتا تھا کہ اس دیوی اور دیوتاؤں نے بنایا ہے۔ اس نے آفرینشِِ کائنات کے بارے میں مادی اسباب کا فلسفہ بیان کیا اور کہا کہ دنیا پانی سے وجود میں آئی ہے۔ اس نے اور بھی نظریات پیش کیے جو آج کی دنیا کو بچگانہ معلوم ہوتے ہیں مثلاّ یہ کہ زمین چپٹی ہے اور پانی کی سطح پر تیر رہی ہے اور کائنات دیوی دیوتاؤں سے بھری ہوئی ہے، لیکن تھےلیز کا تاریخ انسانیت میں یہ کارنامہ نہیں ہے کہ اس نے پانی کو بنیاد مانا بلکہ یہ ہے کہ اس نے علوم کو خرافاتی پردوں کی دبیز تہوں سے نکال کر خرد کی بات کی اور انسان کو یکایک خرافات اور اسطوریات کی دنیا سے نکال کر خرد افروز تحریک کی بنیاد رکھی۔ بقولِ غالب، میں چمن میں کیا گیا گویا دبستان کھل گیا۔ تھےلیز کے بعد یکے بعد دیگرے بہت سارے فلسفی آسمانِ علم و عقل پر نمودار ہوئے اور اپنے اپنے نظریات پیش کیئے۔ جن میں سب سے پہلے اسکا شاگردِ رشید اناکسی مینڈر تھا، اس نے کہا کہ یہ کائنات پانی نے نہیں بنی بلکہ ایک لامحدود زندہ شے ہے۔ یہی اناکسی مینڈر تھا جس نے ڈارون سے دو ہزار سال پہلے نظریہِ ارتقا پیش کیا اور اسکی ایک دلیل یہ دی کہ انسان کا بچہ پیدا ہوتے ہی، دوسرے حیوانات کی طرح اپنی خوراک تلاش نہیں کرسکتا اور اسکا دودھ پینے کا عرصہ بھی زیادہ ہوتا ہے،اسلیے اگر انسان شروع ہی سے ایسا ہوتا تو کبھی زندہ نہ رہ سکتا تھا، لہذا وہ حیوانوں ہی کی ترقی یافتہ شکل ہے۔ اسکے بعد اناکسی منیس نے کہا کہ گو کائنات کا اصول مادی ہے لیکن یہ ہوا سے بنی ہے۔ ہیریقلیتس نے کہا نہیں یہ کائنات آگ سے بنی ہے۔ ایمپےدکلیس نے عناصرِ اربعہ کا نظریہ پیش کیا اور کہا کہ کائنات آگ، ہوا، مٹی اور پانی سے مل کر بنی ہے اور یہی عناصرِ اربعہ کا نظریہ ہے جو آج تک مسلم صوفیوں میں مقبول ہے۔
ایک مفکر، سائنسدان، ریاضی دان، ماہر علمِ نجوم اور جیومیڑی ہونے کے ساتھ ساتھ، تھےلیز انجینیئر اور سیاست دان بھی تھا۔ ان دنوں مائیلیٹس ایک بہت بڑا تجارتی شہر تھا اور وہاں غلاموں کی بہت بڑی آبادی موجود تھی اور امیر و غریب طبقے کی کشمکش عروج پر تھی۔ پہلے عوام نے شہر پر قبضہ کیا اور طبقہ اشرافیہ کے بیوی بچوں کو قتل کردیا۔ اسکے بعد اشرافیہ نے شہر کو فتح کیا اور غلاموں کو زندہ جلا دیا۔ اسی طرح کے حالات ایشیائے کوچک کی دیگر یونانی شہری ریاستوں کے تھے۔ اس پر مستزاد یہ کے ایرانیوں نے میسوپوٹیمیا کے علاقے فتح کرنے کے بعد اپنا رخ مغرب کی طرف کیا ہوا تھا اور یہ شہری ریاستیں انکی مستقل زد میں تھیں۔ انہی حالات کو مدِ نظر رکھتے ہوئے، تھےلیز نے شہری ریاستوں کی ایک فیڈریشن کا نظریہ پیش کیا جسکو پذیرائی نہ ملی۔
نطریے کو پذیرائی ملی ہو یا نہ، لیکن تھےلیز کو اپنی زندگی میں ہی بہت پذیرائی مل گئی تھی۔ عمر کے آخری حصے میں اسے عوام کی جانب سے سوفوس یا فلسفی اور حکیم کا خطاب مل چکا تھا۔ قدیم یونانیوں نے سقراط سے پہلے کہ سات دانشور آدمیوں کی فہرست میں اسے نمبر ایک کے درجے پر رکھا ہوا تھا۔ تھےلیز کے بہت سارے مقولے بھی مشہور ہیں۔
جیسے کسی نے اس سے پوچھا کہ خدا کیا ہے۔
اس نے کہا جس کی نہ ابتدا ہے اور نہ انتہا۔
لوگوں نے پوچھا، انسان امن و سکون اور انصاف کے ساتھ کیسے رہ سکتا ہے۔
تھےلیز نے کہا، اسطرح کہ ہم ہر وہ کام چھوڑ دیں جسکا دوسروں کو الزام دیتے ہیں۔
کسی نے کہا سب سے مشکل کام کیا ہے، اسنے کہا اپنے آپ کو جاننا۔
اور سب سے زیادہ آسان کام، کسی نے فورا پوچھا۔
"مشورہ دینا"، تھےلیز نے جواب دیا۔
-----------
پس نوشت
اس تحریر کا بنیادی مقصد تھےلیز کا تعارف ہے۔ نہ کہ اسکے فلسفے پر بحث۔ جو احباب تھےلیز اور دیگر فلسفیوں کے فلسفے پر تفصیلی بحث پڑھنا چاہتے ہوں وہ مندرجہ ذیل لنکس سے استفادہ کر سکتے ہیں۔
Thales of Miletus - The Internet Encyclopedia of Philosophy
Thales - Wikipedia

Bibliography:
-Greek Thinkers. Vol. 1: A History of Ancient Philosophy by Theodor Gomperz (translated from German by Laurie Magnus, 4 Volumes).
-The Story of Civilization. Vol. 2: The Life of Greece by Will Durant (11 volumes).
-The Story of Philosophy by Will Durant
-History of Western Philosophy by Bertrand Russel
-Collins Dictionary of Philosophy
-Encyclopedia Britannica 1970 ed.
-Funk & Wagnalls New Encyclopedia 1978 ed.
مختصر تاریخ فلسفہء یونان از ڈاکٹر ویلہلم نیسل- جرمن سے ترجمہ از خلیفہ عبدالحکیم
تاریخ فلسفہ از کلیمنٹ-سی-جے-ویب، انگلش سے ترجمہ از احسان احمد
روایاتِ فلسفہ از علی عباس جلالپوری
----
اختتامیہ
میں نے یہ مضمون مئی 2007 میں لکھا تھا اور سے سے پہلے اسے "ون اردو" پر شائع کیا تھا، اسکے بعد یہ مضمون میں نے "اردو محفل" پر شائع کیا تو اسے سال 2007 کا 'فلسفے اور تاریخ' کے زمرے میں بہترین پوسٹ کا ایوارڈ دیا گیا۔ بعد میں اسے پروفیسر سید تفسیر احمد صاحب نے اپنی ویب سائٹ 'دانش" کدہ پر شائع کیا۔ اسکے علاوہ میری اجازت کے بغیر بھی دو تین ویب سائٹس پر یہ مضمون شائع ہو چکا ہے اور حد یہ کہ مصنف کے طور پر میرا نام تک نہیں دیا۔ مجھے انتہائی خوشی ہے کہ میرے اس مضمون کو بہت پذیرائی ملی لیکن اس بات کا بھی دکھ ہے کہ بعض ویب سائٹس والوں نے میری اجازت حاصل کرنا تو کجا مصنف کے طور پر میرا نام دینا بھی گوارا نہیں کیا۔میں یہاں پر اس مضمون کے کاپی رائٹس فری کرتا ہوں بشرطیکہ حوالے اور مصنف کے طور پر میرا نام دیا جائے۔
مزید پڑھیے۔۔۔۔