Showing posts with label میری تحریریں. Show all posts
Showing posts with label میری تحریریں. Show all posts

Apr 23, 2012

راگ درباری کانہڑہ - ایک تعارف

راگ درباری برصغیر کی موسیقی کے مقبول ترین راگوں میں سے ہے اور مقبولیت میں اس سے زیادہ شاید صرف راگ بھیرویں ہی ہے۔ سینکڑوں ہزاروں بندشیں، غزلیں اور گیت درباری میں بنے ہیں اور بنائے جا رہے ہیں، گانے اور پہچاننے میں بھی آسان ہے لیکن اسے اس کی نزاکتوں کے ساتھ گانا صرف اساتذہٴ فن ہی کا کام ہے۔

مانا جاتا ہے کہ اس راگ کو میاں تان سین نے دربارِ اکبری میں گانے کیلیے خاص طور پر اختراع کیا تھا اور اسی لیے اس راگ میں گھمبیرتا ہے اور اسے راگوں کی دنیا میں گھمبیر، بارعب، با وقار، سنجیدہ اور متین  راگ سمجھا جاتا ہے۔

 میں یہاں درباری کا مختصر تعارف لکھ رہا ہوں اور اس میں گائے ہوئے ایک دو خیال اور غزلیں وغیرہ بھی اس کے ساتھ شامل ہیں۔

 نوٹیشن کا طریقہ
 تیور سروں کو یہاں پورے نام سے ظاہر کیا جائے گا، مثال کے طور پر تیور گندھار کیلیے "گا" لکھا جائے گا جب کہ کومل سُروں کو پورے نام کی بجائے صرف پہلے حرف سے ظاہر کیا جائے گا یعنی کومل گندھار کو "گ" سے ظاہر کیا جائے گا۔  تار سپتک یعنی اوپر والی سپتک کے سر کے بعد ایک ڈیش - لگائی جائے یعنی تار سپتک کے سا کو، "سا-" کے ساتھ ظاہر کیا جائے گا اور مندر سپتک یعنی نچلی سپتک کے سر سے پہلے ڈیش لگائی جائے گی یعنی مندر سپتک کے سا کو "-سا" سے ظاہر کیا جائے گا۔ جب کہ کسی سُر کے ساتھ کوئی ڈیش نہ ہونے کا مطلب ہے کہ وہ مدھ سپتک یعنی درمیانی سپتک کا سر ہے اور بنیادی سپتک بھی یہی مدھ سپتک ہے۔

 راگ - درباری کانہڑہ
 یہ اس راگ کا مکمل نام ہے اور یہ کانہڑے کی ایک شکل ہے، عام طور پر (یا پیار سے) اسے صرف درباری ہی کہا جاتا ہے۔

 ٹھاٹھ - اساوری
 ایک خوبصورت ٹھاٹھ یعنی راگوں کا گروپ جس کا بنیادی راگ، راگ اساوری ہے ١ور اس راگ کے نام پر ہی اس ٹھاٹھ کا نام ہے۔ اس خاکسار کو ذاتی طور پر یہ ٹھاٹھ حد سے زیادہ پسند ہے کیونکہ میرے کچھ پسندیدہ ترین راگوں یعنی دربای، اساوری، جونپوری کا تعلق اسی ٹھاٹھ سے ہے۔

 اساوری ٹھاٹھ میں، رکھب یعنی رے تیور ہے جبکہ گندھار یعنی گا، مدھم یعنی ما، دھیوت یعنی دھا اور نکھاد یعنی نی، چاروں کومل سر ہیں۔  جبکہ کھرج سا اور پنچم پا ہوتے ہی اچل ہیں یعنی انکے کومل اور تیور سُر نہیں ہوتے۔ اگر شُدھ سُروں میں بات کریں تو اس ٹھاٹھ میں سا، رے، ما اور پا شدھ سر ہیں۔ اور یہی ترتیب درباری میں ہے۔

 جاتی یا ذات - سمپورن + کھاڈو (یا شاڈو)
 یعنی آروہی میں سات سر اور اوروہی میں چھ سر۔ اوروہی میں دھیوت ورجت ہے یعنی نہیں لگایا جاتا۔

 آروہی یا ترتیبِ صعودی
 یعنی نیچے سے اوپر جاتے ہوئے اس راگ کے سر یہ ہیں۔

 -ن سا رے گ رے سا، م پا د ن سا-

 (کچھ اساتذہ آخری ٹکڑے کو م پا د ن رے- سا- بھی کہتے ہیں)

 اوروہی یا ترتیبِ نزولی
 یعنی اوپر سے نیچے آتے ہوئے

 سا- د ن پا، م پا، گ م رے سا

 یہاں ایک بات کی وضاحت بہت ضروری ہے۔ جیسے کہ اس راگ کی جاتی میں لکھا گیا کہ اوروہی میں دھیوت ورجت ہے یعنی نہیں لگایا جاتا لیکن اوروہی لکھتے ہوئے آپ نے نوٹ کیا ہوگا کہ دھیوت یعنی د لکھا گیا ہے تو پھر یہ ورجت کیسے ہوا یا اوروہی کھاڈو کیسے ہوئی۔ اس بات کی وضاحت آج تک کسی کتاب یا ویب سائٹ پر میری نظر سے نہیں گزری سب یہی لکھ دیتے ہیں کہ دھیوت ورجت ہے۔ قصہ کچھ یوں ہے کہ اوروہی میں دھیوت تو لگ رہا ہے لیکن اپنی ترتیب میں نہیں یعنی سا- کے بعد نکھاد کی جگہ دھیوت آ گیا ہے اور دھیوت کے فوری بعد پنچم کی بجائے نکھاد ہے یوں " د ن" کا ٹکڑا اوروہی کا حصہ بننے کی بجائے آروہی کا حصہ بن گیا ہے اور یہی اس بات کا مطلب ہے کہ دھیوت اوروہی میں ورجت ہے۔ یعنی اوروہی میں کبھی بھی دھیوت کے بعد پنچم نہیں آے گا بلکہ دھیوت کے بعد ہمیشہ ہی نکھاد آئے گا اور نکھاد کے بعد پنچم اور یہی اس راگ کی نزاکت ہے جسے قائم رکھنا بہت ضروری ہے اس کی خلاف ورزی کرنے سے درباری، درباری نہیں رہے گا۔

سروں کی مزید تفہیم کیلیے ایک تصویر شامل کر رہا ہوں جس میں درباری کے سروں کی ہارمونیم پر نشاندہی کی گئی ہے۔


 پکڑ
 یعنی سروں کے وہ ٹکڑے جو کسی راگ میں بار بار لگائے جاتے ہیں اور راگ اس سے پہچانا جاتا ہے۔ درباری کی مختلف پکڑیں مشہور ہیں، کچھ مشہور اسطرح سے ہیں

 گ م رے سا
 -د -ن سا رے سا
 وغیرہ

 وادی سُر - رکھب
 یعنی کسی راگ کا سب سے اہم سُر، جس کو بار بار لگایا جاتا ہے یا اس پر رکا جاتا ہے یا اس پر زور دیا جاتا ہے-

 سَم وادی سُر - پنچم
 وادی سُر کے بعد دوسرا سب سے اہم سُر-

 وقت - رات کا دوسرا پہر یا آدھی رات
 یعنی وہ خاص وقت جس میں عموماً کوئی راگ گایا جاتا ہے اور اپنا سماں باندھ دیتا ہے۔

 درباری کی کچھ مزید خصوصیات
 - اس میں دو سُر یعنی کومل گندھار اور کومل دھیوت کا اندوہلن کیا جاتا ہے یعنی ان سُروں کو جھولایا جاتا ہے اور یہ اس راگ کا خاص انگ ہے جو اس کو دوسروں سے الگ کرتا ہے اور بہت لطف دیتا ہے۔
 - یہ پوروانگ کا راگ ہے یعنی عام طور پر نچلے سروں میں گایا جاتا ہے۔
 - یہ راگ بلمپت لے یعنی دھیمی لے (سلو ٹیمپو) میں زیادہ اچھا لگتا ہے۔ - اسکی آروہی میں کومل گندھار دُربل یعنی کمزور رہتا ہے یعنی اس سُر پر زیادہ زور نہیں دیا جاتا۔

------

سب سے پہلے عصرِ حاضر کے تان سین استاد بڑے غلام علی خان مرحوم ( قصور پٹیالہ گھرانہ) کی راگ درباری میں ایک انتہائی خوبصورت بندش  "انوکھا لاڈلا"۔



اور میرے ایک اور پسندیدہ گلوکار استاد فتح علی خان پٹیالہ گھرانہ کی ایک خوبصورت بندش راگ درباری میں



ایک خوبصورت ترانہ اسی راگ میں, استاد نزاکت علی اور استاد سلامت علی شام چوراسی گھرانہ


اور مہدی حسن کی ایک خوبصورت غزل کو بکو پھیل گئی۔۔۔۔۔۔۔۔



فلم بیجو باورا کے لیے گائی گئی اُستاد امیر خان کی راگ درباری میں خوبصورت سرگم


اسکے علاوہ کچھ اور خوبصورت غزلیں جو اسی راگ میں ہیں، انکے نام لکھ رہا ہوں

- ہنگامہ ہے کیوں برپا - غلام علی
- تسکیں کو ہم نہ روئیں - اقبال بانو
- آ میرے پیار کی خوشبو - استاد امانت علی

اس پوسٹ میں یو ٹیوب کی بہت زیادہ ویڈیوز نہیں لگا رہا کہ کچھ قارئین کو کوفت نہ ہو، اگر آپ اس راگ میں بنائی گائی میری پسند کی کچھ اور چیزیں سننا چاہتے ہیں تو یہ ربط دیکھیے، بصورتِ دیگر آپ کی اپنی پسند کیلیے یو ٹیوب تو ہے ہی۔

مزید پڑھیے۔۔۔۔

Sep 3, 2011

یہ بھی سُنو ۔۔۔۔۔۔

قلتِ سامعین و قارئین کا شور ہر طرف ہے، کسی سے بات کر کے دیکھ لیں، کسی عالم فاضل سے، کسی خطیب مقرر سے، کسی ادیب سے، کسی شاعر کی دکھتی رگ پر ہاتھ رکھ دیں، حتٰی کہ کسی بلاگر کا حالِ دل پوچھ لیں، یہی جواب ملے گا کہ جناب اب اچھے قاری یا سامع کہاں ملتے ہیں، یہ الگ بات ہے کہ قارئین اور سامعین کا جواب بھی کچھ ایسا ہی ہوتا ہے۔

دوسروں تک اپنی آواز پہنچانا اور کچھ نہ کچھ سنانا شاید بہت ضروری ہے، لیکن ضروری تو نہیں کہ ہر کسی کی اس نقار خانے میں سنی جائے مرزا غالب فرماتے ہیں۔

کب وہ سنتا ہے کہانی میری
اور پھر وہ بھی زبانی میری

ہاں مرزا کے 'روگ' کچھ ایسے ہی تھے لیکن یہ بھی چنداں ضروری نہیں کہ ہر کسی کا مرزا والا حشر ہی ہو، مولانا رومی علیہ الرحمہ ایسی آواز سنا گئے کہ صدیاں گزر گئیں لیکن آج تک ہر طرف صاف صاف اور واضح سنائی دیتی ہے، 'مثنوی' کا آغاز اسی سننے سنانے سے کیا ہے اور کیا خوب آغاز کیا ہے، فرماتے ہیں۔

بِشنو، از نَے چوں حکایت می کُنَد
وَز جدائی ہا شکایت می کُنَد
بانسری کی سنو، کیا حکایت بیان کرتی ہے، اور (ازلی) جدائیوں کی کیا شکایت کرتی ہے۔

اور داستان سنانے والا، اللہ کا ایک بندہ ایسا گزرا ہے کہ سلطانِ وقت نے اسے ایک ایک شعر کے بدلے ایک ایک اشرفی دینے کا وعدہ کیا اور اس نے چالیس ہزار ایسے اشعار سنائے کہ ابد تک اشرفیوں میں تلتے رہیں گے۔ لیکن وائے اس شاہ پر کہ اپنے وعدے سے مکر گیا اور سونے کی اشرفیوں کو چاندی کے سکوں سے بدل دیا، خود دار فردوسی نے سلطان محمود غزنوی کی اس وعدہ خلافی کو قبول کرنے سے انکار کر دیا، 'شاہنامہ' کو بغل میں دابا اور اسکے پایہ تخت سے بھاگ گیا۔ 'زود پشیماں' سلطان کو سالہا سال کے بعد احساس ہوا اور جب اس شاعرِ بے مثال کے شہر پہنچا تو اسکے گھر چالیس ہزار اشرفیاں لیکر حاضر ہوا لیکن درویش شاعر دنیا سے کوچ کر چکا تھا، خوددار باپ کی خوددار بیٹی نے سلطان سے اشرفیاں لینے سے بھی انکار کر دیا۔

سلطان کی یہ ناگفتنی کہانی بھی ہمیشہ سنائی جاتی رہے گی لیکن کہاں دنیا کا سلطان اور کہاں اقلیم سخن کا فرمارواں، فردوسی پورے جوش و جذبے سے فرماتے ہیں

ع- دگرہا شنیدستی ایں ھَم شَنَو
دیگر تو بہت کچھ سن چکے اب یہ بھی سنو۔

خیر کہاں یہ بزرگ 'بزورِ بازو' سنانے والے کہ اتنا زورآور قلم کسی کو ہی نصیب ہوا ہوگا اور کہاں ہم جیسے طفلانِ مکتب جو کسی کا یہ شعر گنگنا کر ہی دل خوش کر لیتے ہیں۔

وہی قصّے ہیں وہی بات پرانی اپنی
کون سنتا ہے بھلا آج کہانی اپنی

اب سننے سنانے کی بات 'پرانی کہانیوں' تک پہنچ ہی گئی ہے تو اس طفلِ مکتب کی ایک رباعی بھی سن لیں جو کچھ سال پرانی ہے اور میری پہلی رباعی ہے۔

بکھرے ہوئے پُھولوں کی کہانی سُن لے
ہے چار دنوں کی زندگانی سُن لے
پیری میں تو ہوتے ہیں سبھی وقفِ عشق
کرتا ہے خراب کیوں جوانی سُن لے

سنایا تو ظاہر ہے اپنے آپ کو ہی ہے، ہاں اگر کسی قاری کو لگے کہ ان کو سنا رہا ہوں تو انہیں مبارک باد کہ ابھی تک جوان ہیں یا کم از کم اپنے آپ کو جوان سمجھتے ہیں۔
مزید پڑھیے۔۔۔۔

Feb 25, 2011

وشوامتر - ناصر علی

یہ مضمون کچھ دن قبل فیس بُک پر ایک ادبی گروپ میں منعقدہ جناب ناصر علی کی کتاب "اور" کی تقریبِ رونمائی کیلیے لکھا گیا تھا، یہاں بھی اپنے قارئین کے ساتھ شیئر کر رہا ہوں۔

------
بات کو ایک وضاحت سے شروع کرنے کے سوا میرے پاس کوئی چارہ نہیں ہے اور وہ یہ کہ خاکسار نہ تو کوئی نقاد ہے اور نہ ہی اس کا کتابوں پر مضمون لکھنے کا کوئی تجربہ ہے بلکہ کسی بھی کتاب پر مضمون لکھنے کا یہ پہلا تجربہ ہے۔، بلکہ پہلا تجربہ کیا مجھے تو کوئی کتاب بھی اس طرح زندگی میں پہلی بار ملی ہے، اس سے پہلے ایک دو ادبی جریدے ملے تھے لیکن کتاب کا ملنا ایک بالکل ہی نیا تجربہ تھا اور اس پر مستزاد مضمون لکھنا سو اس مضمون میں روایتی اور سکہ بند ادبی مضمونوں والی یقیناً کوئی بات نہیں ہوگی بلکہ کتاب پڑھ کر جو بھی میں نے محسوس کیا صاف صاف اور سیدھے سیدھے لفظوں میں لکھ دیا ہے۔ آپ کہہ سکتے ہیں کہ میں نے ناصر علی صاحب کی کتاب کو تختۂ مشق بنایا ہے، اور اس کا آپ کو پورا حق ہے، لیکن یہ بات کہنے کا مجھے بھی حق ہے کہ ناصر علی صاحب نے خود اپنی کتاب کو میرے ہاتھوں سے تختۂ مشق بنوایا ہے سو اس مضمون کے پردے سے جو کچھ بھی نکلے گا اس کی ساری ذمہ داری ناصر علی صاحب پر ہے۔

کوئی دو ہفتے ادھر کی بات ہے، شام کو تھکا ہارا اپنے کمرے میں بیٹھا تھا، حسبِ معمول سوچ رہا تھا کہ کیا پڑھوں، آزاد کی دربارِ اکبری شروع کر رکھی تھی لیکن اس کو پڑھنے کو دل نہیں کر رہا تھا، آزاد کی انشا پردازی اپنی جگہ لیکن کچھ معرکوں کو اتنی طوالت دی ہے کہ جی اوب جاتا ہے اور میں کتاب کے کسی ایسے ہی مقام پر تھا، ابھی انہی سوچوں میں تھا کہ آج کی رات کس کے ساتھ بسر کی جائے کہ فون کی گھنٹی بجی فون کسی اجنبی نمبر سے تھا، خیر سنا، آواز آئی۔ "ایک لاوارث، محمد وارث کو ڈھونڈ رہا ہے۔" یقین مانیے یہ شگفتہ جملہ سن کر ساری تھکاوٹ اور کلفت ہوا ہو گئی اور کچھ دیر تک خوب مزے کی گپ شپ ہوئی اور اگلی گفتگو کیلیے یہ بات تمہید ہو گئی۔ یہ تھا میرا ناصر علی صاحب سے تعارف، گو فیس بُک پر ان سے "آشنائی" تھی لیکن فیس بُک کی آشنائی کسی کالج یا یونیورسٹی کے مختلف جماعتوں کے طالب علموں کی آپس میں آشنائی جیسی ہی ہوتی ہے۔ اس پہلی گفگتو میں ناصر علی صاحب نے مجھے دو کتابیں بھیجنے کا مژدہ سنایا، ایک رفیع رضا صاحب کی اور ایک انکی اپنی "اور" جس کی تقریب کے سلسلے میں ہم سب موجود ہیں۔

خیر، ایک دو دن بعد دونوں کتابیں ملیں، اور جیسا کہ بہت سے لوگوں کی عادت ہوتی ہے کہ ایک دم ہی سے کتاب ابتدا سے شروع نہیں کرتے، میں نے بھی کتاب کی ورق گردانی شروع کی جیسے جیسے اشعار نظر سے گزرتے گئے، میں سرشار ہوتا گیا اور غالب کا مصرع "میں نے یہ جانا کہ گویا یہ بھی میرے دل میں ہے" بار بار دماغ میں تازہ ہوتا رہا۔ ناصر صاحب سے پھر بات ہوئی نے ان کا حکم تھا کہ اس پر کچھ لکھوں بھی۔

لکھنے کا ذہن میں آیا تو سب سے پہلے جو لفظ میرے ذہن میں آیا وہ "وشوامتر" تھا، یہ ہزاروں سال قبل کے ایک رشی کا نام، ہے جس کا لفظی فارسی ترجمہ علامہ اقبال نے "جاوید نامہ" میں "جہان دوست" کے نام سے کیا ہے۔ اور ناصر علی کی ذات اور کتاب پر مضمون کیلیے مجھے یہ نام انتہائی موزوں لگا کیونکہ ناصر علی جہان دوست ہیں۔ کچھ عرض کر دوں۔

علم دوست ایک اصطلاح ہے جو بہت مشہور ہے اور بہت فخر کے ساتھ استعمال کی جاتی ہے لیکن یہ علم دوست اصطلاح بہت گمراہ کن ہے، خالی خولی علم دوستی کسی کام کی نہیں ہے، کیونکہ صرف علم سے محبت ضروری نہیں کہ آدمی کو انسان بنا دے، علم آدمی کو وحشی درندہ بھی بنا سکتا ہے اور اس نے بنایا ہے، تاریخِ عالم اس بات پر گواہ ہے اور اسی لیے مولانا رُومی نے کہا تھا

علم را بر تن زنی مارے بُوَد
علم را بر دل زنی یارے بُوَد

علم دوستی کے ساتھ اگر انسان دوستی نہیں ہوگی تو وہ علم سانپ ہی بنے گا، اور اگر علم دوستی کے ساتھ انسان دوستی بھی شامل ہو جائے تو وہ جہان دوستی ہو جائے گی اور مجھے کہنے دیجیئے کہ ناصر علی کہ شاعری میں علم دوستی کے ساتھ انسان دوستی ہے اور وہ خود جہان دوست ہیں یعنی کہ وشوامتر۔ اور جو جہان دوست ہے وہ سب سے پیار کرے گا، اس جہان سے بھی جو "فتنہ و فساد" کی آماجگاہ ہے، دیکھیے گا کیا کہتے ہیں ناصر علی

جہانِ خوبصورت میں ہوا خوش
میں اس مٹی کی مورت میں ہوا خوش

میں لامکاں کے لیے کیوں مکاں کو رد کر دوں
زمیں اماں ہے میں کیسے اماں کو رد کر دوں

ایسا انسان دل کا صاف ہوگا

ناصر علی میں نے دلِ زندہ میں بہت کچھ
رکھا ہے مگر میل ملا کر نہیں رکھا

 اور از ناصر علی - سرورق

ایسا انسان دینِ محبت کا ماننے والا اور کیشِ انسانیت پر چلنے والا ہے

ہمارا دین تو ناصر علی محبت ہے
اسی طرح کے مسلمان میں خدا ملے گا

سامنے اس کے کھڑے ہو کے کھڑے کیا ہونگے
یار ہم لوگ محبت سے بڑے کیا ہونگے

زباں پہ لفظ، بدن میں لہو محبت ہے
تجھے خبر ہی نہیں ہے کہ تو محبت ہے

آدم زادو، سب کا اس میں فائدہ ہوگا
انسانیت تو سب کے مطلب کا حق ہے

ایسا انسان وسیع المشرب صوفی ہوگا، جو پکار پکار کر کہے گا کہ اے خدا کے بندو اگر کسی منزل کی تلاش ہی میں ہو تو اپنی نظر منزل پر رکھو، راہ اور راستے کے جھگڑوں میں کیوں پڑتے ہو، پیار محبت کے ساتھ بھی تو یہ راستے کاٹے جا سکتے ہیں

اس دنیا کے خالق کے گھر جانے والے
جتنے ہم ہیں اتنے رستے ہو سکتے ہیں

بجھاؤ پیاس مگر پیار کی سبیل کے ساتھ
بٹھاؤ لکشمی دیوی کو میکَئیل کے ساتھ

کچھ ایسا نقشۂ انسانیت بناؤ تم
کہ دیوتاؤں کا جھگڑا نہ ہو خلیل کے ساتھ

ایسا انسان دلوں کی خلیج کو پاٹے گا نہ کے رشتۂ الفت کو کاٹے گا، کہتے ہیں کسی نے بابا فرید کی خدمت میں ایک قینچی پیش کی، آپ نے کہا مجھے قینچی مت دو جو کاٹتی ہے بلکہ سوئی دو جو سیتی ہے، میں نے ناصر علی کو صوفی کہا تو غلط نہیں کہا

لگے جو ہاتھ قلندر ترا سوئی تاگا
دلوں کے بیچ پروتا رہوں دھمالوں کو

جہان دوست اور انسان دوست، حضرتِ انسان کی عظمت کے گن گائے گا، اس کا دل انسان کے لیے دھڑکے گا اور اس کا دماغ انسان کی فلاح اور امن کیلیے ہی سوچے گا، فقط انسان کیلیے

نہ خوف کھاؤ کہ اسلام کا ہے یہ قلعہ
بناؤ اپنا کلیسا اسی فصیل کے ساتھ

خدا کرے کہ مرے گیت ہوں فلسطینی
خدا کرے کہ انہیں گاؤں اسرَئیل کے ساتھ

ہمارے چشمۂ زم زم کو بھی خوشی ہوگی
اگر تجھے ترے اشنان میں خدا ملے گا

اور یہ بھی بتائے گا کہ اپنی اور انسان کی معرفت ہی خدا کی معرفت ہے

اسی تڑپ، اسی میلان میں خدا ملے گا
قریب آ، تجھے انسان میں خدا ملے گا

پکار حضرتِ انسان کے لیے لبیک
تجھے اسی رہِ آسان میں خد املے گا

اٹھائے پھرتا ہوں تسبیح بھی صلیب کے ساتھ
مجھے اسی سر و سامان میں خدا ملے گا

اور ایسا انسان اپنی ذاتی زندگی اور روزمرہ کی زندگی میں بھی انہی رویوں کا مالک ہوگا۔ اردو شاعری میں ماں کی عظمت اور ماں کی محبت پر بہت کچھ لکھا گیا ہے، باپ کی عظمت پر شاید ہی کوئی شعر میری نظر سے گزرا ہو، ناصر علی کا شعر دیکھیے

میں اپنے باپ سے ناصر علی بڑا خوش ہوں
یہ میرا باپ نہیں چار سو محبت ہے

اور یہ چار سو محبت خود ناصر علی کا روپ دھار لیتی ہے جب وہ خود بحیثیت شوہر اور باپ کے کہتا ہے

مرا نو سال کا بیٹا ہے ناصر
میں بیٹے کی حضورت میں ہوا خوش

میری بیوی مرے بستر پہ سنورتی ہوئی رات
میرا بیٹا، مرے ہاتھوں میں ہمکتا ہوا دن

اپنے گرتے ہوئے بالوں میں کہاں دیکھتا ہوں
زندگی میں تجھے بچوں میں رواں دیکھتا ہوں

اور ایسان انسان دوست اور جہان دوست انسان جب اپنے اردگرد ہمہ گیر مذہبی منافرت اور منافقت پھیلی ہوئی دیکھتا ہے تو بے اختیار چلا اٹھتا ہے

ڈرا رہے ہو بہت آتشِ جہنم سے
تمھارے دین کی لگتا ہے لاج آگ سے ہے

ارے یہ کوئی طریقہ ہے بات کرنے کا
وہاں کا ذکر کروں اور یہاں کو رد کر دوں

اور ایسا انسان اپنے معاشرے سے اور اس میں آکٹوپس کی طرح پھیلے ہوئے غلط اور بیمار ذہنیت کے مظہر رویوں سے، اور معاشرے کے معاشی، معاشرتی اور سیاسی معاملات سے کیسے لاتعلق رہ سکتا ہے سو ببانگِ دہل اظہار کرتا ہے

کبھی خیرات کے بل اور کبھی صدقات کے بل
پیر مشہور ہوا ایسی کرامات کے بل

عجب فسانۂ ھل من مزید سنتا ہوں
ذرا خدا نے جو دوزخ میں لات کی اور بس

کل شب سر میں درد تھا میرے، اور ہمسایے میں
اللہ ھُو، اللہ ھُو، اللہ ھُو نے تنگ کیا

آسماں نامِ خدا لگ گئے ہیں سات کے سات
اور زمیں نامِ زمیندار لگا دی گئی ہے

جدھر بھی جاؤں میں ناصر علی، تباہی ہے
وطن فسانۂ عاد و ثمود لگتا ہے

بتا رہی ہے لگی آگ شہر شہر مجھے
کہ بادشاہ سلامت کا تاج آگ سے ہے

ناصر علی اس شاہ کی ہم لوگ رعایا
جس شاہ کی تعظیم گرانی سے بھری ہے


خرد افروزی - جزا یا سزا

ایک الہامی کتاب میں ہے کہ آدم و حوا کو جنت سے اس لیے نکالا گیا کہ انہوں نے "نیک و بد" کی پہچان والے درخت کا پھل کھا لیا تھا سو وہ خدا کی مانند نیک و بد کی پہچان کرنے والے بن گئے سو بطورِ سزا جنت سے نکال دیے گئے۔

جی، نیک و بد کی پہچان یعنی عقل مندی اور خرد افروزی گناہ ہے اور سزا بھی رکھتی ہے۔ اور یہ صرف ایک مذہب کا حال نہیں ہے، تمام مذاہبِ عالم "عقل" کے خلاف ہی رہے ہیں۔ جب ابنِ رُشد نے کہا تھا کہ سچائیاں دو ہیں، ایک مذہب کی اور دوسری فلسفے کی تو ساری اسلامی علمی دنیا امام غزالی کی قیادت میں اسکے خلاف اٹھ کھڑی ہوئی اور اسلامی دنیا میں ابنِ رشد کے اس خیال کی مکمل بیخ کنی کر دی گئی لیکن اسپین اور فرانس کے کچھ علما اور طلبا کے اذہان میں یہ خیال جڑ پکڑ گیا اور پھر باقاعدہ ایک تحریک بنی، اور فلسفے کی تاریخ میں یہ تحریک "ابنِ رشدیت" کے نام سے جانی گئی جس نے فلسفے اور سائنس کو کلیسا کی قید سے آزاد کروانے کی بنیاد رکھی۔

یہ معروضہ یوں ذہن میں آ گیا کہ کتاب کے مطالعے کے دوران مجھ پر یہ بھی انکشاف ہوا کہ ناصر علی کے شعروں میں کچھ سائنسی اور فلسفیانہ نظریات بھی آ گئے ہیں، نہ جانے کیسے۔ مجھے نہیں علم کہ ناصر علی نے خالص سائنس کا مطالعہ کس حد تک کیا ہے لیکن یہ ضرور جانتا ہوں کہ شاعروں کے الہام پر سائنسدان عش عش کر اٹھتے ہونگے۔ مثلاً یہ اشعار دیکھیے جن میں ناصر علی انہی باتوں کا اظہار کیا ہے۔

خوش ہو رہا ہوں، دانشِ انساں نے لے لیا
رستہ میانِ شمس و قمر اپنے ہاتھ میں

سائنس حواسِ خمسہ سے باہر کسی چیز کو نہیں مانتی۔

شعاعِ شوق کہے، آنچ کا بنا ہوا ہوں
مگر حواس کہیں، پانچ کا بنا ہوا ہوں

اس کائنات کا وجود ہی توازن پر ہے، توازن نہ ہو تو یہ کائنات پلک جھپکنے میں تباہ و برباد و فنا ہو جائے

مرے بدن کا توازن بتا رہا ہے مجھے
کہ میں ضرور کڑی جانچ کا بنا ہوا ہوں

--------
زمیں سے تا بہ خلا مستقل تحرّک ہے
سو طے ہوا ہے کہ ہیجان میں خدا ملے گا

مادہ کی سب سے چھوٹی اکائی کسی زمانے میں ایٹم تھی، پھر ایٹم بھی ٹوٹا اور اسکے اندر مزید چھوٹے ذرات دریافت ہو گئے، الیکڑون،پروٹان، نیوٹران، یہ بھی ٹوٹے مزید چھوٹے ذرے دریافت ہوئے۔ بات یہیں رکی نہیں، کوانٹم تھیوری نے ثابت کیا کہ مادہ ٹھوس حالت میں ہے ہی نہیں، بلکہ مادہ بھی متحرک لہروں یا ویوز سے بنا ہے، اب یہ ناصر علی کا الہام ہی ہے جو اوپر والا شعر ہوا۔

------
اے رہِ عمرِ رواں، کیا ابتدا، کیا انتہا
اک تسلسل ہے یہاں، کیا ابتدا، کیا انتہا

یہ شعر سٹیڈی اسٹیٹ تھیوری ہے کہ کائنات ازل سے یونہی ہے اور ابد تک یونہی رہے گی۔

-------
میں اک ایسا خط ہوں ناصر جس کو کھینچنے والا
جتنا سیدھا کھینچ لے اس میں خم رہ جاتا ہے

اس شعر میں مجھے لگتا ہے کہ ناصر علی نے انسانی خمیر میں جو روایتی ٹیڑھ ہے اسکا ذکر کیا ہے، اگر ایہام گوئی کا دور ہوتا تو میں کہتا کہ یہ قریب کے معنی ہیں، دُور کے معنی کچھ اور ہیں اور وہی شاعر کے پیشِ نظر ہیں کہ کسی زمانے میں دو متوازی اور سیدھی لائنوں کی تعریف یہ کی جاتی تھی کہ وہ کبھی بھی آپس میں نہیں ملتیں اور انفینٹی یا لامحدودیت تک ایسے ہی سیدھی اور متوازی رہیں گی۔ آئن سٹائن کے تھیوری آف ریلیٹی وٹی نے ثابت کیا ہے اس کائنات میں نامحسوس سا خم ہے، سو دو متوازی اور سیدھی لائنیں بھی کسی نہ کسی مقام پر آپس میں جا ملیں گی۔

اور از ناصر علی

روایتی شاعری سے متنفر ناصر علی

ذاتی طور پر مجھے عشق و محبت اور گل و بلبل کی حکایات سے پرخاش نہیں ہے، میں اسے بھی شاعری کا عظیم جزو مانتا ہوں بشرطیکہ وارداتِ قلبی شاعر کی اپنی ہو، احساسات اسکے اپنے ہوں، اندازِ بیاں اسکا اپنا ہو، خیال آفرینی کی طرف اسکی توجہ ہو اور اس سے ہم انکار بھی نہیں کر سکتے کیونکہ جتنے انسان ہیں اتنے ہی سب کے اپنے اپنے منفرد احساسات ہیں سو ان کو سننے میں کچھ حرج نہیں۔

لیکن صرف شعر برائے شعر کہنا اور وہ بھی کسے سچے جذبے کے بغیر واقعتاً جگالی ہی ہے، ناصر علی اس حقیقت کا مکمل ادراک رکھتے ہیں اور اسکا اظہار بھی کرتے ہیں۔

چھوڑو ابہام کی باتیں فقط اتنا سوچو
شاعروں نے بھی یہاں شعر گھڑے کیا ہونگے

اے کسی حسنِ تغزّل کو ترستی ہوئی آنکھ
شعر بنتا ہے مری جان کسی بات کے بل

تمھارے شعر کے پچّیس تیس مضموں ہیں
جگالتے ہو مسلسل انھی خیالوں کو

سمجھ پڑے جو یہاں نوجواں دماغوں کو
تمھارے شعر میں ایسی زبان ہے کہ نہیں

غزل میں عشق و محبت کی بات کی اور بس
خراب ایک حسینہ کی ذات کی اور بس

مت یوں ہی لفظ ڈھال شعروں میں
بات دل سے نکال شعروں میں

غزل غزل وہی مضمون باندھتے ہیں ہم
غزل غزل وہی طرزِ کہن چلی ہوئی ہے

بات کو زلفِ گرہ گیر سے باندھا ہوا ہے
شعر کو حسن کی تفسیر سے باندھا ہوا ہے

اور آخر میں ناصر علی کی کتاب میں موجود غزلوں کی زمینوں اور ردیفوں کے متعلق کچھ عرض کرنا چاہونگا کہ کتاب پڑھتے ہوئے یہ خوشگوار احساس بھی قاری کو اپنی لپیٹ میں لیتا ہے کہ جو شاعر دوسروں کو جگالی کرنے سے منع کر رہا ہے وہ خود بھی اس "گناہ" سے پاک ہے۔ ناصر علی کی زمینیں منفرد اور انکی اپنی ہیں، ردیفیں جو بقول مولانا شبلی نعمانی اردو فارسی شاعری میں سم و تال کا سا کام دیتی ہیں وہ انتہائی خوبصورت ہیں، میں چاہ رہا تھا کہ ان ردیفوں کی نشاندہی کر دوں لیکن مضمون کی طوالت کے خوف سے قلم زد کرتا ہوں کہ جو احباب کتاب دیکھ چکے ہیں وہ جانتے ہی ہیں اور جو دیکھیں گے وہ جان جائیں گے۔

محمد وارث
سیالکوٹ
20.02.2011

مزید پڑھیے۔۔۔۔

Feb 21, 2011

رباعی کے حوالے سے کچھ استفسارات اور میرے جوابات

رباعی کے اوزان کے حوالے سے اس خاکسار نے ایک مضمون لکھا تھا "رباعی کے اوزان پر ایک بحث"، اسی مضمون کے حوالے سے فیس بُک پر ایک دوست نے کچھ استفسارات کیے تھے، وہ اور ان کا جواب لکھ رہا ہوں۔

استفسار: یہ جو ہم بچپن سے سنتے آئے ہیں کہ "لا حول ولا قوۃ الا باللہ " رباعی کا وزن ہے ۔۔ تو کیا یہ چوبیس اوزان میں سے ایک ہے ؟ اور وہ وزن کیا ہے ؟

جواب: دراصل قرآن مجید کی چند ایک آیات  اور کچھ احادیث ایسی ہیں جو اتفاقاً کسی نہ کسی وزن پر موزوں ہو جاتی ہیں۔  انہی میں سے حدیث کا یہ کلمہ بھی ہے کہ رباعی کے ایک وزن پر آ جاتا ہے۔

اسکی تقطیع کچھ یوں ہے

لا حول و لا قوّۃ الا باللہ

لا حولَ - مفعول
و لا قو وَ - مفاعیل
تَ اِل لا بل - مفاعیلن
لا ہ - فاع

یعنی اسکا وزن 'مفعول مفاعیل مفاعیلن فاع' ہے۔

بعض لوگ ضرورت شعری کے تحت اللہ کی ہ گرا دیتے ہیں اس صورت میں آخری رکن فاع کی جگہ فع آ جائے گا اور یوں بھی رباعی کا وزن ہی رہے گا لیکن یہاں ایسی کوئی ضرورت نہیں ہے سو بہتر ہے کہ اللہ کا مکمل وزن لیا جائے۔

یہ رباعی کا ایک انتہائی مستعمل وزن ہے، اور اساتذہ عموماً رباعی کے سلسلے میں سب سے پہلے یہی وزن یاد کروایا کرتے تھے۔

مولانا الطاف حسین حالی کی ایک رباعی جس میں انہوں نے یہ وزن باندھا ہے

کیا پاس تھا قولِ حق کا، اللہ اللہ
تنہا تھے، پہ اعدا سے یہ فرماتے تھے شاہ
میں اور اطاعتِ یزیدِ گمراہ
لا حَولَ و لا قُوّۃَ الّا باللہ

استفسار: غالب کی مشہور رباعی جس پر ماہرین عروض نے اعتراض کیا ہے

دل رک رک کر بند ہوگیا ہے غالب

اور کہا جاتا ہے کہ اس میں ایک " رک " کا لفظ زیادہ ہے ۔۔ اس بارے میں وارث صاحب کی رائے کیا ہے

جواب: غالب کی مذکورہ رباعی کی بھی دلچسپ صورتحال ہے۔

دُکھ جی کے پسند ہو گیا ہے غالب
دل رک رک کر بند ہو گیا ہے غالب
واللہ کہ شب کو نیند آتی ہی نہیں
سونا سوگند ہو گیا ہے غالب

کہا جاتا ہے کہ رباعی کے اوزان پر گرفت بہت مشکل ہے اور بڑے بڑے شاعر بھی اسکے اوزان کے بارے میں خطا کر جاتے ہیں جیسے کہ غالب سا شاعر بھی کہ اوپر والی رباعی میں دوسرا مصرع رباعی کے وزن سے خارج ہے۔

غالب کے مذکورہ مصرعے پر سب سے پہلے یہ اعتراض علامہ نظم طباطبائی نے اپنی شرح دیوانِ غالب میں کیا تھا اور اسکے بعد سے 'سخن فہموں' اور 'غالب کے طرف داروں' میں اس پر خوب خوب بحث ہوئی ہے۔

میرے لیے حیرت اور مزے کی بات یہ ہے کہ مولانا غلام رسول مہر نے اپنے مرتب کردہ دیوانِ غالب اور اپنی شہرہ آفاق شرح 'نوائے سروش' دونوں میں یہ رباعی لکھتے ہوئے ایک 'رُک' دوسرے مصرعے سے نکال دیا ہے گویا اپنی طرف سے تصحیح کر دی ہے اور اسکی متنازعہ حیثیت پر بالکل بھی بحث نہیں کی ہے حالانکہ مستند یہی ہے کہ غالب نے ' رک رک کر' ہی کہا ہے۔

یہ بات بھی بالکل ٹھیک ہے کہ اگر مذکورہ مصرعے میں سے ایک 'رک' نکال دیا جائے تو مصرعہ وزن میں آ جاتا ہے۔ لیکن اس پر دو اعتراض ہیں ایک تو یہ کہ اگر مصرعہ اس طرح کر دیا جائے

دل رُک کر بند ہو گیا ہے غالب

تو وزن میں ضرور آئے گا لیکن اس مصرعے کی ساری دلکشی ختم ہو جائے گی بلکہ 'فضول سا' مصرعہ ہو جائے گا۔ دوسرا یہ کہ غالب سے قادر الکلام شاعر کو کیا علم نہیں تھا کہ مصرع بے وزن ہو رہا ہے اور رباعی کے اوزان میں نہیں آ رہا؟

مولانا نجم الدین غنی رامپوری نے علمِ عروض پر اپنی شہرہ آفاق کتاب 'بحر الفصاحت' میں بھی یہ اعتراض غالب کے مصرعے پر کیا ہے اور اسکا جواب اس کتاب کے مرتب سید قدرت نقوی نے دیا ہے۔ انہوں نے اس پر ایک علیحدہ سے مضمون بھی لکھا ہے جو کہ افسوس میری نظر سے نہیں گزرا۔

قدرت نقوی صاحب کے بقول لفظ 'بند' گو فارسی کا لفظ ہے اور وتد ہے یعنی اسکا وزن 'فاع' ہے لیکن ان کا کہنا ہے کہ غالب نے اس لفظ کا ہندی استعمال کیا ہے اور 'بند' کی نون کو نون فارسی کی بجائے مخلوط نون سمجھا ہے، اور جیسا کہ اہلِ علم جانتے ہیں کہ نون مخلوط کا کوئی وزن نہیں ہوتا جیسا کہ لفظ 'آنکھ' میں اس نون کا کوئی وزن نہیں ہے سو نقوی صاحب کے بقول غالب نے اس کو سبب باندھا ہے یعنی 'بند' کا وزن 'بد' یا 'فع' لیا ہے۔

اگر نقوی صاحب کے مفروضے کو مان لیا جائے تو پھر غالب کا مصرع وزن میں آ جاتا ہے یعنی

دل رک رک کر بند ہو گیا ہے غالب

دل رک رک - مفعولن
کر بد ہُ - مفعول
گیا ہے غا - مفاعیلن
لب - فع

یعنی اسطرح یہ مصرع 'مفعولن مفعول مفاعیلن فع' کے وزن پر آ کر موزوں ہو جاتا ہے۔

اس خاکسار کی بھی رائے میں یہ غالب کی عروضی غلطی نہیں ہے، یہ ماننا بہت مشکل ہے کہ غالب کو رباعی کے اوزان کا علم نہ ہو، بلکہ یہ غالب کی اجتہادی غلطی ہے کہ انہوں نے مصرعے کی دلکشی برقرار رکھنے کیلیے 'بند' کا غلط وزن لے لیا ہے، کیونکہ بہرحال بند میں نون مخلوط نہیں ہے بلکہ یہ لفظ فارسی کا ہے اور اس میں نون فارسی ہے جیسے 'رنگ' جنگ وغیرہ میں۔

استفسار: اقبال کی دو بیتیاں جنہیں عرف عام میں رباعی بھی کہا جاتا ہے اور غالبا" اقبال نے انہیں خود بھی رباعی کہا ہے ۔ اور وہ رباعی کے اوزان میں نہیں آتے ۔کیا ان سے قطعات کو رباعی کہنے کا جواز نکلتا ہے؟ مثلاً "تراشیدم، پرستیدم، شکستم" والا قطعہ۔

جواب: یہ بات تو طے ہے کہ رباعی اور قطعے میں بنیادی فرق وزن کا ہی ہے، باقی فرق ضمنی سے ہیں۔ جو دو شعر رباعی کے مذکورہ چوبیس اوزان میں ہیں وہ رباعی ہے وگرنہ قطعہ۔

اگر اس فرق کو روا نہ رکھیں تو پھر رباعی بہ حیثیت صنف کے ختم ہی جائے گی لہذا اس خاکسار کی ذاتی رائے میں اقبال نے اپنی دو بیتوں یا قطعات کو جو اپنی کتابوں میں رباعی لکھا ہے تو اس سے قطعے کو رباعی کہنے کا جواز نہیں نکلتا۔

لیکن اس بات سے ایک بڑا اہم سوال یہ اٹھ کھڑا ہوتا ہے کہ پھر اقبال نے ان دو بیتوں یا قطعات کو رباعی کیوں کہا اور ان کی زندگی میں ہی جو اردو اور فارسی کتب طبع ہوئیں ان کو رباعی ہی لکھا ہے گویا یہ انکی اجازت سے لکھا گیا ہے حالانکہ وہ رباعی کے اوزان میں نہیں ہے۔ تو پھر کیا وجہ تھی؟ یہ تو ممکن نہیں ہے کہ وہ رباعی کے اوزان کو نہ جانتے ہوں۔

خاکسار کے محدود علم میں ایسی کوئی کتاب یا مضمون نہیں گزرا جس میں اقبال سے اس بابت میں استفسار کیا گیا ہو کہ انہوں نے ایسا کیوں کیا؟ اگر علامہ کا جواب مل جاتا تو بات صاف ہو جاتی ہے لیکن اس کی غیر موجودگی ظاہر ہے ہم صرف قیاس ہی کر سکتے ہیں کہ علامہ نے ایسا کیوں کیا۔

میرے نزدیک، رباعی کا چونکہ لغوی مطلب چار مصرعے والی ہے تو ہو سکتا ہے کہ اقبال نے اس وجہ سے ان قطعات کو رباعی لکھ دیا ہو۔

ایک وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ فارسی کے ایک قدیم اور مشہور شاعر ہیں بابا طاہر عریاں، انہوں نے صرف رباعیات ہی کہی ہیں اور انکے کلام کو 'دو بیتی' بھی کہا جاتا ہے اور رباعی بھی حالانکہ وہ رباعی کے مروجہ اوزان میں نہیں ہیں۔ ہو سکتا ہے کہ اقبال نے انکے تتبع میں ایسا کیا ہو۔ واللہ اعلم بالصواب

لیکن ایک بات تو طے ہے کہ فارسی کے قدیم شعرا سے لیکر ہمارے عہد کے شعرا تک، جتنے بھی مشہور رباعی گو شعرا ہیں انہوں نے جب بھی رباعی کہی رباعی کے اوزان میں ہی کہی سو رباعی اور قطعہ میں فرق ضروری ہے۔

--------

مزید پڑھیے۔۔۔۔

Feb 3, 2011

رباعی کے اوزان پر ایک بحث

رباعی بھی خاصے کی چیز ہے، قدما اس کے چوبیس وزن بنا گئے سو عام شعرا کو اس سے متنفر کرنے کیلیے یہی کافی ہے کہ رباعی کے چوبیس وزن ہیں، حالانکہ اگر تھوڑا سا تدبر و تفکر کیا جائے اور ان اوزان کو ایک خاص منطقی ترتیب اور انداز سے سمجھا جائے تو ان اوزان کو یاد رکھنا اور ان پر عبور حاصل کرنا کچھ مشکل نہیں ہے، اور یہ مضمون بنیادی طور پر اسی موضوع پر ہے جس میں رباعی کے اوزان کو ایک خاص ترتیب سے سمجھنے کی کوشش کی گئی ہے۔

ایک عرض یہ کرتا چلوں کہ ضروری نہیں کہ ایک رباعی میں مخلتف اوزان ہی اکھٹے کیے جائیں، اگر ایک ہی وزن میں چاروں مصرعے ہوں تو پھر بھی رباعی ہے اور اگر ایک ہی وزن میں بیسیوں رباعیاں ہوں تو پھر بھی رباعیاں ہی ہیں لیکن اس میں مختلف اوزان کو اکھٹا کرنے کا فائدہ یہ ہے کہ شاعر اپنے مافی الضمیر کو بہتر سے بہتر انداز میں اور مختلف الفاظ کے چناؤ کے ساتھ بیان کر سکتا ہے اور پھر بنیادی طور ان اوزان میں فرق بھی بہت تھوڑا ہے، جس سے آہنگ پر فرق نہیں پڑتا، مثال کے طور پر، چوبیس میں سے بارہ اوزان تو صرف فع کو فاع اور فعِل کو فعول سے بدلنے سے حاصل ہو جاتے ہیں، تفصیل انشاءاللہ نیچے آئے گی۔

رباعی کی بحر، افاعیل اور انکی ترتیب

رباعی کی بحر، بحرِ ہزج ہے جسکا بنیادی رکن 'مفاعیلن' ہے اور اسی مفاعیلن کے مختلف وزن ہی، جو مختلف زحافات کے استعمال سے حاصل ہوتے ہیں، اس میں استعمال ہوتے ہیں۔

رباعی میں دس افاعیل آتے ہیں، جو کہ مفاعیلن ہی سے حاصل ہوتے ہیں، زحافات کے نام اور ان کے استعمال کا طریقہ لکھ کر اس مضمون کو بالکل ہی ناقابلِ برداشت نہیں بنانا چاہتا، صرف افاعیل لکھ رہا ہوں۔

1- مفاعیلن
2- مفاعیل
3- مفعولن
4- مفاعلن
5- مفعول
6- فاعلن
7- فعول
8- فَعِل
9- فاع
10- فع

اس میں نوٹ کرنے کی خاص بات یہ ہے کہ 'فعولن' اس فہرست میں نہیں ہے، یعنی فعولن جو کہ مفاعیلن سے حاصل ہونے والا ایک انتہائی مستعمل رکن ہے وہ رباعی میں نہیں آتا، اگر آئے گا تو رباعی کا وزن خراب ہو جائے گا۔

کسی بھی مثمن بحر کی طرح، رباعی کی بحر کے بھی چار رکن ہیں یعنی

صدر (یا ابتدا)، حشو، حشو، عرض (یا ضرب)

اور نوٹ کرنے کی بات یہ ہے کہ اوپر والے دس افاعیل میں سے جو بھی چار بحر میں استعمال ہونگے انکی اس بحر کی ترتیب میں اپنی اپنی جگہ مخصوص ہے، جیسے

- صدر یعنی پہلے رکن میں ہمیشہ مفعول آئے گا یا مفعولن، کوئی اور رکن نہیں آ سکتا۔

- ضرب یعنی چوتھے رکن میں ہمیشہ فع، فاع، فعِل اور فعول میں سے کوئی ایک آئے گا، اور کوئی رکن نہیں آ سکتا۔

- مفاعلن اور فاعلن ہمیشہ پہلے حشو یعنی دوسرے رکن میں ہی آئیں گے، اور کسی بھی جگہ نہیں آ سکتے۔

- مفاعیلن اور مفاعیل دونوں حشو میں یعنی دوسرے اور تیسرے رکن میں آسکتے ہیں، کسی اور جگہ نہیں آتے۔

- مفاعیلن اور مفاعیل کے علاوہ، مفعولن، مفعول بھی دونوں حشو میں آ سکتے ہیں۔

اسکے علاوہ، رباعی کے مختلف افاعیل کی ترتیب یاد رکھنے میں قدما کا جو کلیہ سب سے اہم ہے وہ کچھ یوں ہے جو کہ مرزا یاس یگانہ نے اپنی کتاب "چراغِ سخن" میں لکھا ہے۔

سبب پئے سبب و وتد پئے وتد

یوں سمجھیے کہ یہی رباعی کے اوزان کی کلید ہے یعنی ایک سبب کے بعد ہمیشہ سبب آئے گا اور ایک وتد کے بعد ہمیشہ وتد آئے گا، مثال کے طور پر، ایک شاعر ایک رباعی شروع کرتا ہے اور جیسا کہ ہم جانتے ہیں کہ رباعی یا تو مفعول سے شروع ہوگی یا مفععولن سے۔

فرض کریں، رباعی مفعول سے شروع ہوتی ہے، یعنی پہلا رکن مفعول ہو گیا، اب دوسرے رکن میں جو تمام افاعیل آ سکتے ہیں وہ یہ ہیں

مفاعیلن
مفاعیل
مفاعلن
مفعولن
مفعول
فاعلن

اب اس بنیادی کلیے کو ذہن میں رکھیے کہ سبب کے بعد سبب اور وتد کے بعد وتد، پہلا رکن مفعول ہے جو کہ وتد پر ختم ہو رہا ہے سو اگلا رکن لازمی وتد سے شروع ہوگا، اوپر والی فہرست میں جو افاعیل وتد سے شروع ہو رہے ہیں وہ یہ ہیں

مفاعیلن
مفاعیل
مفاعلن

یعنی مفعول کے بعد اب صرف ان تین میں سے کوئی رکن آئے گا، فرض کریں مفاعیل آیا اور ہمارے پاس دو رکن ہو گئے یعنی

مفعول مفاعیل

اب مفاعیل بھی وتد پر ختم ہو رہا ہے سو اگلا رکن بھی لازمی وتد سے شروع ہوگا، یہ پھر تین ہیں، مفاعیلن، مفاعیل، مفاعلن لیکن ہم جانتے ہیں کہ مفاعلن تیسرے رکن میں نہیں آ سکتا سو مفاعیلن اور مفاعیل میں سے کوئی آئے گا، فرض کریں مفاعیلن لیا تو اب تین رکن ہو گئے

مفعول مفاعیل مفاعیلن

اب رہ گیا چوتھا رکن، جس میں فع، فاع، فعِل اور فعول ہی آ سکتے ہیں، کلیہ ذہن میں رکھیے، مفاعیلن سبب پر ختم ہو رہا ہے سو اگلا رکن سبب سے شروع ہوگا، وہ فع ہے سو رباعی کا وزن مل گیا

مفعول مفاعیل مفاعیلن فع

اب کسی بھی بحر کی طرح، آخری رکن میں عملِ تسبیغ کی یہاں بھی اجازت ہے سو فع کو فاع کریں اور دوسرا وزن بھی مل گیا

مفعول مفاعیل مفاعیلن فاع

اوپر والے کلیات کو استعمال کرتے ہوئے ہم نے رباعی کے دو وزن حاصل کر لیے، اب انہی کی مدد سے ہم رباعی کے سارے وزن یعنی چوبیس حاصل کریں گے۔

اساتذہ نے رباعی کو دو شجروں میں تقسیم کیا ہے، جو رباعی مفعول سے شروع ہوتی ہے، اسکے بارہ اوزان کو شجرۂ اخرب کہتے ہیں اور جو رباعی مفعولن سے شروع ہوتی ہے اسکے بارہ اوزان کو شجرۂ اخرم کہتے ہیں، اور یہ دونوں نام بھی زحافات کے نام پر ہیں۔ یہاں ایک وضاحت یہ کہ بعض قدیم اساتذہ نے اخرب اور اخرم اوزان کو ایک ہی رباعی میں باندھنے سے منع کیا ہے، لیکن اس بات کو کوئی بھی رباعی گو شاعر نہیں مانتا اور بلاتکلف اخرب اور اخرم کے اوزان ایک ہی رباعی میں جمع کرتے ہیں۔

شجرۂ اخرب اور اسکے بارہ اوزان

ان اوزان کو شجرہ کہا جاتا ہے لیکن اس خاکسار کے محدود مطالعے میں عروض کی کوئی ایسی کتاب نہیں ہے جس میں اس کو ایک شجرہ کی طرح واضح کیا گیا ہو، خاکسار یہ کوشش کر رہا ہے، ممکن ہے کسی کتاب میں اسے اس صورت میں لکھا گیا ہو، شجرے کی تصویر دیکھیے، تصویر کو بڑا دیکھنے کیلیے اس پر کلک کیجیے۔

urdu poetry, urdu ghazal, ilm-e-arooz, taqtee, رباعی اوزان شجرہ اخرب, Rubai

اب اس شجرہ کو اوپر والے اصولوں کی روشنی میں کھول کر بیان کرتا ہوں۔

جیسا کہ ہم جانتے ہیں کہ اس شجرہ میں پہلے رکن میں ہمیشہ مفعول آتا ہے جو وتد پہ ختم ہوتا ہے سو اگلا رکن مفاعیلن، مفاعیل اور مفاعلن ہونگے جو کہ وتد سے شروع ہوتے ہیں، سب سے پہلے مفاعیلن کو لیتے ہیں سو

مفعول مفاعیلن

یہ سبب پر ختم ہوا سو اگلا رکن لازمی سبب سے شروع ہوگا جو کہ تین ہیں یعنی مفعولن، مفعول اور فاعلن لیکن ہم جانتے ہیں کہ تیسرے رکن میں فاعلن نہیں آ سکتا سو صرف دو رہ گئے، مفعولن اور مفعول اور ان دو افاعیل سے یہ اوزان حاصل ہوئے

مفعول مفاعیلن مفعولن
مفعول مفاعیلن مفعول

اب مفعولن سبب پر ختم ہوا سو اگلا رکن فع ہوگا جو کہ سبب ہے سو پہلا مکمل وزن مل گیا

مفعول مفاعیلن مفعولن فع (وزن نمبر 1)

فع کو فاع سے بدلیں دوسرا وزن حاصل ہو گیا

مفعول مفاعیلن مفعولن فاع (وزن نمبر 2)

اب تیسرے رکن میں مفعول کو لیں تو یہ وتد پر ختم ہوا سو چوتھا رکن وتد سے شروع ہوگا جو فعِل ہے سو

مفعول مفاعیلن مفعول فعِل (وزن نمبر 3)

فعِل کو فعول سے بدل لیں، ایک اور وزن مل گیا

مفعول مفاعیلن مفعول فعول (وزن نمبر 4)

اب پھر دوسرے رکن پر چلتے ہیں اور اگلے چار وزن حاصل کرتے ہیں، مفعول کے بعد مفاعیل لائے یعنی

مفعول مفاعیل

مفاعیل وتد پر ختم ہوا سو اگلا رکن وتد سے شروع ہوگا، مفاعلن یہاں نہیں آ سکتا سو مفاعیلن یا مفاعیل ہونگے یعنی

مفعول مفاعیل مفاعیلن
مفعول مفاعیل مفاعیل

مفاعیلن سبب پر ختم ہوا سو فع آئے گا یعنی

مفعول مفاعیل مفاعیلن فع (وزن نمبر 5)

مفعول مفاعیل مفاعیلن فاع (وزن نمبر 6)


تیسرے رکن میں مفاعیل لائیے جو وتد پر ختم ہوا سو اگلا رکن فعِل ہوا

مفعول مفاعیل مفاعیل فعِل (وزن نمبر 7)

مفعول مفاعیل مفاعیل فعول (وزن نمبر 8)


آٹھ وزن مل گئے، اگلے چار دوسرے رکن میں مفاعلن لانے سے ملیں گے یعنی

مفعول مفاعلن

یہ بھی وتد پر ختم ہوا سو اگلا رکن وتد سے شروع ہوگا جو کہ دو ہیں، مفاعیلن اور مفاعیل کیونکہ مفاعلن تیسرے رکن میں نہیں آ سکتا

مفعول مفاعلن مفاعیلن
مفعول مفاعلن مفاعیل

مفاعیلن کے ساتھ فع آئے گا سو

مفعول مفاعلن مفاعیلن فع (وزن نمبر 9)

مفعول مفاعلن مفاعیلن فاع (وزن نمبر 10)

مفاعیل کے ساتھ فعِل آئے گا سو

مفعول مفاعلن مفاعیل فعِل (وزن نمبر 11)

مفعول مفاعلن مفاعیل فعول (وزن نمبر 12)

گویا ایک خاص ترتیب سے چلتے ہوئے ہمیں رباعی کے بارہ وزن مل گئے، اگلے بارہ وزن شجرہ اخرم کے ہیں اور اسی طرح حاصل ہونگے۔


شجرۂ اخرم اور اسکے بارہ اوزان

پہلے اس شجرہ کی تصویر دیکھ لیں، بڑا دیکھنے کیلیے اس پر کلک کیجیے۔

urdu poetry, urdu ghazal, ilm-e-arooz, taqtee, رباعی اوزان شجرہ اخرم, Rubai

جیسا کہ ہمیں علم ہے کہ یہ شجرہ ہمیشہ مفعولن سے شروع ہوتا ہے جو کہ سبب پر ختم ہوتا ہے سو دوسرا رکن سبب ہی سے شروع ہوگا، جو کہ تین ہیں، مفعولن، مفعول اور فاعلن۔ مفعولن سے شروع کرتے ہیں

مفعولن مفعولن

یہ بھی سبب پر ختم ہوا سو تیسرا رکن بھی سبب سے شروع ہوگا، وہ دو ہیں، مفعولن اور مفعول کیونکہ فاعلن یہاں نہیں آ سکتا سو

مفعولن مفعولن مفعولن
مفعولن مفعولن مفعول

مفعولن سبب پر ختم ہوا سو لازمی طور پر اگلا رکن سبب سے شروع ہوگا جو فع ہے سو

مفعولن مفعولن مفعولن فع (وزن نمبر 1)

اور فع کو فاع سے بدلیں تو

مفعولن مفعولن مفعولن فاع (وزن نمبر 2)

تیسرے رکن میں مفعول لائیں جو وتد پر ختم ہوا سو چوتھا رکن لازمی فعِل ہوگا سو

مفعولن مفعولن مفعول فعِل (وزن نمبر 3)

اور فعِل کو فعول سے بدلیں تو

مفعولن مفعولن مفعول فعول (وزن نمبر 4)

اب واپس دوسرے رکن پر چلتے ہیں اور مفعولن کے بعد مفعول لاتے ہیں یعنی

مفعولن مفعول

اب مفعول وتد پر ختم ہوا، تیسرا رکن لازمی وتد سے شروع ہوگا، یہ تین ہیں، مفاعیلن مفاعیل اور مفاعلن لیکن ہم جانتے ہیں کہ مفاعلن کبھی بھی تیسرے رکن میں نہیں آئے گا سو دو رہ گئے، مفاعیلن اور مفاعیل یعنی

مفعولن مفعول مفاعیلن
مفعولن مفعول مفاعیل

مفاعیلن کے بعد فع آیا تو

مفعولن مفعول مفاعیلن فع (وزن نمبر 5)

اور

مفعولن مفعول مفاعیلن فاع (وزن نمبر 6)

اب تیسرے رکن میں مفاعیل لائیں تو یہ وتد پر ختم ہوا سو اسکے بعد فعِل آیا یعنی

مفعولن مفعول مفاعیل فعِل (وزن نمبر 7)

اور مفعولن مفعول مفاعیل فعول (وزن نمبر 8)

اب واپس دوسرے رکن کی طرف چلتے ہیں وہاں ہم فاعلن کو چھوڑ آئے تھے، اس کو لائیں گے تو مزید چار وزن مل جائیں گے۔

مفعولن فاعلن

فاعلن وتد پر ختم ہوا سو اگلا رکن مفاعیلن، مفاعیل یا مفاعلن ہوگا، مفاعلن باہر ہوگیا تو مفاعیلن اور مفاعیل رہ گئے

مفعولن فاعلن مفاعیلن
مفعولن فاعلن مفاعیل

مفاعیلن کے بعد فع آیا تو

مفعولن فاعلن مفاعیلن فع (وزن نمبر 9)

اور

مفعولن فاعلن مفاعیلن فاع (وزن نمبر 10)

تیسرے رکن میں مفاعیل لائے تو اسکے بعد فعِل آیا سو

مفعولن فاعلن مفاعیل فعِل (وزن نمبر 11)

اور مفعولن فاعلن مفاعیل فعول (وزن نمبر 12)

اور یوں ہمیں 'سبب پئے سبب و وتد پئے وتد" کے اصول اور افاعیل و ارکان کی خاص ترتیب پر چلتے ہوئے دونوں شجروں کے بارہ بارہ اوزان یعنی کل چوبیس وزن مل گئے۔

یہ وہ طریقہ جس کو سمجھتے ہوئے اس خاکسار نے رباعی کے اوزان کو سمجھا، اسکے علاوہ بھی کئی ایک طریقے ہیں لیکن میں نے اس میں کوشش کی ہے کہ اوزان کو ایک خاص منطقی ترتیب سے لاؤں، امید ہے قارئین کیلیے یہ طریقہ رباعی کے اوزان سمجھنے کیلیے کارآمد اور فائدہ مند ہوگا۔

مزید پڑھیے۔۔۔۔

Jan 29, 2010

چائے خانہ

یہ تحریر خاص اردو محفل کیلیے لکھی گئی تھی، اپنے بلاگ کے قارئین سے بھی شیئر کر رہا ہوں، میرا اس سلسلے میں مزید لکھنے کا ارادہ ہے۔
------

چائے خانہ

پروفیسر تنقید علی خان۔ "۔۔۔۔۔۔ تو جناب میں عرض کر رہا تھا کہ جب تک ہمارے ادبا و شعرا ناخالص دودھ کی بنی ہوئی چائے پیتے رہیں گے، انکی معروضی رویے انکے عروضی رویوں سے الجھتے ہی رہیں گے اور وہ کبھی بھی اس اعلیٰ قسم کی ادبیات تخلیق نہیں کر سکتے جسے تخلیق کہا جا سکے۔"

مولانا سبز وار۔ "قبلہ میرا تو ماننا ہے کہ جب تک گوالا باوضو ہو کر اور قبلہ رو ہو کر، اسمِ اعظم کا ورد کرتے ہوئے دودھ نہیں دوہے گا تب تک ایسا ہی ناخالص دودھ آتا رہے گا چاہے اس میں پانی ملایا جائے یا نہ ملایا جائے، کیا آپ نے نہیں سنا، علامہ فرما گئے ہیں، نگاہِ مرد مومن سے بدل جاتی ہیں سب دھاریں۔"

داد مقصود۔ "واہ واہ واہ، اجی واہ واہ واہ، کیا کہنے جناب، واہ واہ واہ۔"

مولانا سبزوار۔ "آداب۔"

لال خان احمر۔ "میرا کہنا یہ ہے کہ دودھ میں پانی اور پانی میں دودھ ملانے والے دونوں قسم کے گوالوں کو جب تک سولی پر نہیں لٹکایا جاتا اور جب تک انکی بھینسوں کو قومیایا نہیں جاتا تب تک نہ تو اس ملک کے حالات درست ہو سکتے ہیں اور نہ ہی اچھا شعر و ادب تخلیق ہو سکتا ہے، وہ شعر و ادب جو ترقی پسندی کی جان ہے، وہ شعر و ادب جس کی تعلیمات اعلیٰ حضرات لینن اور اسٹالن نے فرمائی ہیں، اپنے نصب العین تک پہنچنے اور ملک میں جدلیاتی مادیت کے نفاذ کے لیے از حد ضروری ہے کہ سب گوالوں کو پھانسی دے دی جائے، ہمارے قبلہ و کعبہ جنابِ فیض احمد فیض فرما گئے ہیں

اے چائے نوشو اٹھ بیٹھو، وہ وقت قریب آ پہنچا ہے
جب دودھ اُبالے جائیں گے، جب جیل گوالے جائیں گے۔"

داد مقصود۔ "واہ واہ واہ، اجی واہ واہ واہ، کیا کہنے جناب، واہ واہ واہ۔"

قاضی قدیر اللہ۔ "چھوڑیں آپ یہ باتیں، فیض احمد فیض کو چائے سے کیا تعلق، وہ تو کڑوے جوشاندے پیتے تھے، اور پھر ان کو گزرے ابھی جمہ جمہ آٹھ دن بھی نہیں ہوئے، کوئی ایک آدھ صدی گزرے گی تو پھر دیکھیں گے کہ ان کی شاعری میں کوئی دم خم بھی تھا یا نہیں، جبکہ دوسری طرف ہمارے علامہ کی پیش بینی دیکھیئے، آج سے کئی دہائیاں پہلے، ایک ہی شعر میں ہمارے اور گوالوں کے متعلق ایسا کلام فرما گئے ہیں کہ صدیوں تک زندہ و جاوید ہو گیا ہے، کیا پیش بینی تھی یعنی کہ انہوں نے اپنی دُور رس نگاہوں سے دیکھ لیا تھا کہ قاضی قدیر فتویٰ دے گا جب کہ ابھی ہم تولد بھی نہیں ہوئے تھے۔"

لال خان احمر۔ "کونسا شعر'"

قاضی قدیر اللہ۔

"تقدیر کے قاضی کا یہ فتویٰ ہے ازل سے
ہے دودھ ملاوٹ کی سزا مرگِ گوالات"

مولانا سبز وار۔ "جزاک اللہ۔"

داد مقصود۔ "واہ واہ واہ، اجی واہ واہ واہ، کیا کہنے جناب، واہ واہ واہ۔"


ساگر ندیم ساگر۔ "ہمیں مردہ پرستی کی سمندر سے نکلنا ہوگا، کب تک ہم اسی بحرِ ذخار کے غوطے کھاتے رہیں گے جبکہ آپ کے سامنے نئے عہد کے ساگر موجزن ہیں، لیکن کسی کا ہماری طرف دھیان ہی نہیں جاتا، سب پی آر کا شاخسانہ ہے، کسی نے ہماری نظم کا ذکر تک نہیں کیا جو ہم نے گوالوں کے موضوع پر لکھی تھی۔"

داد مقصود ۔"ارشاد"

ساگر ندیم ساگر۔

"کاش میں ایک گوالے کا ہی سجّن ہوتا
وہ بڑے پیار سے چاؤ سے بڑے مان کے ساتھ
تازہ خالص، کبھی تو، دودھ پلاتا مجھ کو"

داد مقصود۔ "واہ واہ واہ، اجی واہ واہ واہ، کیا کہنے جناب، واہ واہ واہ۔"

آتش قربان آتش۔ "سرقہ"


ساگر ندیم ساگر۔ "کیا کہا؟"

آتش قربان آتش۔ "سرقہ"

ساگر ندیم ساگر۔ "تم ہوتے کون ہو میری نظم کو سرقہ کہنے والے، تم آج تک خود تو ایک بھی کام کا مصرع کہہ نہیں سکے اور میری تخلیق کو تم سرقہ کہتے ہو۔"

آتش قربان آتش۔ "تمہیں کیا علم شاعری کیا ہے؟ اور میری شاعری کیا ہے، تم، تم۔۔۔۔۔۔۔۔۔"

مولانا سبزوار۔ "صبر، بھائیو صبر، میرا خیال ہے، قاضی قدیراللہ صاحب سے فتویٰ لے لیتے ہیں۔"

قاضی قدیراللہ۔ "اتنے چھوٹے سے مسئلے پر ہمارا فتویٰ، یہ فیصلہ تو پروفیسر تنقید علی خان صاحب ہی کر دیں گے۔ لیکن یہ فیصلہ تو ہوتا رہے گا لیکن چائے کدھر ہے؟ کیا نام ہے اس چائے والے کا؟"

داد مقصود۔ "اسد اللہ"

قاضی قدیر اللہ۔ "اسد، او اسد۔"

پروفیسر تنقید علی خان۔ "جی جی بلائیے اس کو، چائے نہیں ملی تو سر میں درد شروع ہو گیا۔"

مولانا سبزوار۔ "بھئی ہم پر تو اللہ کی رحمت ہے، کوئی نشہ نہیں لگایا خود کو، چائے، لسی، دودھ، دہی، سب پر الحمدللہ کہتے ہیں، بقولِ شاعر

چاء ہے یا دہی ہے تو
میری زندگی ہے تو"

داد مقصود۔ "واہ واہ واہ، اجی واہ واہ واہ، کیا کہنے جناب، واہ واہ واہ۔"

قاضی قدیراللہ۔ "اسد، اوئے اسد کے بچے'"

اسداللہ۔ "جی جی، حضور حاضر ہو گیا۔"

پروفیسر تنقید علی خان۔ "چائے کدھر ہے بھئی۔"

اسداللہ۔ "کیا بتاؤں حضور، پہلے تو خالص دودھ نہیں مل رہا تھا، وہ ملا تو چینی غائب، وہ لایا تو اب گیس نہیں آ رہی، چائے کیسے بناتا۔"

قاضی قدیراللہ۔ "تو کیا چائے نہیں ملے گی؟"

اسداللہ۔ "ملے گئی کیوں نہیں حضور، ایسی چائے پلاؤں گا کہ کیا یاد کریں گے آپ۔"

مولانا سبزوار۔ "لیکن بناؤ گے کیسے، گیس تو آ نہیں رہی۔"

اسداللہ۔ "حضور، اس کا حل میں نے ڈھونڈ لیا تھا، وہ جو لائبریری سے دیوانِ غالب لایا تھا اس کو جلایا ہے چائے بنانے کیلیے، لیکن وہ تھا ہی کتنا، چند تو صفحےتھے، دودھ تک گرم نہیں ہوا اس سے، اب کلیاتِ میر جلا رہا ہوں، ابھی لاتا ہوں چائے۔"

پروفیسر تنقید علی خان۔ "خوب بدلہ لیا ہے بھئی غالب سے، غالب نے اپنا تخلص اسد چھوڑا اور اس اسد نے غالب کا دیوان ہی جلا دیا، اسے کہتے ہیں تاریخ اپنے آپ کو مدوری دور میں دہراتی ہے۔"

داد مقصود۔ "واہ واہ واہ، اجی واہ واہ واہ، کیا کہنے جناب، واہ واہ واہ۔"

اسداللہ۔ "لیجیئے حضور چائے حاضر ہے، ایسی چائے آپ نے کبھی نہیں پی ہوگی جس کے بنانے میں دیوانِ غالب اور کلیاتِ میر کو جلایا گیا ہے بلکہ غالب اور میر کا خون کیا گیا ہے۔"

قاضی قدیراللہ۔ "ہاں بھئی چائے تو واقعی بہت اچھی ہے، پہلی چسکی میں ہی لطف آگیا۔"

مولانا سبزوار۔

"تیری چائے کی کیا کریں تعریف
اسداللہ خاں قیامت ہے"

داد مقصود۔ "واہ واہ واہ، اجی واہ واہ واہ، کیا کہنے جناب، واہ واہ واہ۔"

اسداللہ۔ "بہت شکریہ جناب، آپ چائے سے لطف اندوز ہوں، میں ابھی بِل بنوا کر آیا۔"
----

اسداللہ۔ "ہائیں، یہ سب کدھر گئے، بھاگ گئے؟ واہ بے شاعرو، بِل دیے بغیر ہی بھاگ گئے، اور جاتے ہوئے گلاس اور کپ بھی توڑ گئے، اب لائبریری والوں کو کیا جواب دونگا جن سے دیوانِ غالب اور کلیاتِ میر مانگ کر لایا تھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ہاں لیکن کیا بھی ہو جائے گا، فضول ہی کتابیں ہونگی جو انہوں نے مجھے دے دی تھیں۔"

مزید پڑھیے۔۔۔۔

Jul 13, 2009

نکمّے

"کون؟ مسلمان؟"
"نہیں۔"
"ہمارے حکمران؟"
"نہیں۔"
"سیاستدان؟"
"نہیں۔"
"مذہب کے ٹھیکیدار؟"
"نہیں۔"
"سرکاری افسران؟"
"نہیں۔"
"پُلسیے؟"
"نہیں۔"
"سرکاری اسکولوں کے ماسٹر؟"
"نہیں۔"
"کاروباری لوگ؟ دکاندار؟"
"نہیں۔"
"کرکٹ ٹیم کے کھلاڑی؟"
"نہیں۔"
"ہا ہا ہا، شاعر؟"
"نہیں۔"
"تو پھر آخر کون؟"
"پاکستانی فوج کے جرنیل!"
"جرنیل؟، جنہوں نے باسٹھ سالوں میں سے آدھے سال اس ملک پر حکمرانی کی، وہ اور نکمّے؟"
"ہاں، وہی نکمّے، انہوں نے باقی کے آدھے سال اس نکمّوں کے مُلک پر حکمرانی کرنے کے موقعے ضائع کر دیئے۔"
مزید پڑھیے۔۔۔۔

Apr 23, 2009

محشرِ خیال

پہلا۔ "یار اُس خاتوں کو دیکھا تھا آج۔"
دوسرا۔ "کون، وہ جو اپنا بچہ اسکول میں داخل کروانے آئی تھی۔"
پہلا۔ "ہاں ہاں، وہی، یار کیا خوبصورت خاتون تھی، کیا حسن و جمال تھا۔"
دوسرا۔ "شرم کر شرم اگر کچھ ہے تو، تمھارا منہ سوکھ رہا تھا اس کو میڈم میڈم کہتے ہوئے اور اب کیسا کمینہ بنا ہوا ہے۔"
پہلا۔ "ارے جا، تُو تو ہے ہی بد ذوق، اس شاعر کے بچے کو دیکھ، جب سے اس کو دیکھا ہے اس پر نظم لکھنے کے خیال میں ہے۔"
دوسرا۔ "اور وہ بھی میری حق حلال کی کمائی کو اسطرح دھوئیں میں اڑاتے ہوئے، یہ کوئی پچاسواں سگریٹ تو ہوگا اسکا صبح سے۔"
تیسرا۔ "دیکھو، تم دونوں نے جو بکواس کرنی ہے کرتے رہو، لیکن مجھے مت تنگ کرو، میں پہلے ہی بہت پریشان ہوں، شعر پھنسا ہوا ہے۔"
دوسرا۔ "ہا ہا ہا، شعر، منہ دیکھا ہے کبھی اپنا آئینے میں، تُو دو چار کتابیں پڑھ کر سمجھتا ہے کہ شاعری کرنے لگ گیا ہے، ہا ہا ہا۔"
تیسرا۔ "دیکھو میرے منہ نہ لگو، ورنہ ہجو کہہ دونگا۔"
پہلا۔ "اپنی ہجو، یہ بھی کوئی انوکھی چیز ہی ہوگی۔"
تیسرا۔ "تجھے اٹھکیلیاں سوجھی ہیں ہم بیزار بیٹھے ہیں۔"
دوسرا۔ "بیزار تو میں ہوں تم دونوں سے، میں سارا دن مر جاتا ہوں کام کر کر کے اور تم دونوں عیش کر رہے ہو۔"
پہلا۔ "اوئے کون سی عیش۔"
دوسرا۔ "عیش ہی تو ہے، کام کے نہ کاج کے دشمن اناج کے، آدھی رات ہو گئی تم نہ جانے کہاں سے گھوم گھما کے آ رہے ہو۔"
پہلا۔ "تو میں اکیلا تھا کیا، تم سب بھی تو ساتھ تھے میرے۔"
دوسرا۔ "صحیح ہے، لیکن لیکر تو تم گئے تھے۔"
پہلا۔ "تو یہ شاعر خان ہمیں زبردستی لائبریری نہیں لے جاتا کیا؟ اور تم جو ہر روز صبح صبح، جب سونے کا مزہ آ رہا ہوتا ہے ہمیں اٹھا کر اسکول لے جاتے ہو۔"
دوسرا۔ "تو کیا وقت سے نوکری پر جانا کوئی بری بات ہے۔"
تیسرا۔ "ہا ہا، وقت، یوں کہو کہ اگر دیر ہو جائے تو دیدارِ جمالِ پری رُخاں نہیں ہوتا۔"
دوسرا۔ "تم اپنا منہ بند ہی رکھو، خیالوں میں نہ جانے کہاں کہاں اور کس کس کے ساتھ گھومتے پھرتے رہتے ہو، بس جو شعر گھڑ رہے ہو انہیں گھڑتے رہو۔"
تیسرا۔ "کتنے بدذوق ہو تم، فکرِ سخن کو شعر گھڑنا کہہ رہے ہو۔"
دوسرا۔" ہاں تم دن رات فکرِ سخن کرتے ہواور یہ دن رات گپیں مارتا ہے اور میں کام کر کر کے مر رہا ہوں۔"
پہلا۔ "تم تو جیسے بڑے فرشتے ہو، ہر وقت کوئی بڑا ہاتھ مارنےکے چکر میں ہو۔""
دوسرا۔ "جا جا، کون سا ہاتھ، اتنے سال ہو گئے اکاؤنٹنٹ کی نوکری کرتے ہوئے، کوئی ایک پیسے کا الزام نہیں لگا سکتا۔"
پہلا۔ "اوہ، الزام، یوں کہو نا کہ کبھی تمھارا داؤ ہی نہیں لگا، اور وہ جو تم ہر وقت یہ خواب دیکھتے ہو کہ کسی دن اسکول مالک کی بیٹی خود آ کر تم سے شادی کی خواہش ظاہر کرے گی۔"
چوتھا۔ "تم تینوں جہنمی ہو۔"
پہلا۔ "تو تُو کون سا ہم سے جدا ہے، تُو بھی جہنم میں جلے گا ہمارے ساتھ۔"
تیسرا۔ "تم لوگ کیا بک بک کر رہے ہو، میں نے کہا نا کہ میرا شعر پھنسا ہوا ہے۔"
پہلا۔ "چپ کر جاؤ یار، جب تک اس کا شعر نہیں نکلے گا یہ اسی طرح سگریٹ پر سگریٹ پھونکتا رہے گا۔"
دوسرا۔ "اور تم اسی طرح فون کالز کرتے رہو گے، یہ اگر میری کمائی دھوئیں میں اڑا رہا ہے تو تم باتوں میں۔"
پہلا۔ "تم تو ہر وقت پیسہ پیسہ ہی کرتے رہتے ہو، نہ جانے کیوں؟"
دوسرا۔ "چونکہ میں کماتا ہوں اس لیے فکر کیوں نہ کروں، اوئے شاعر وہ کیا شعر ہے تمھارے علامہ کا، فکر شکر والا۔"
تیسرا۔ "فکرِ فردا نہ کروں محوِ غمِ دوش رہوں۔۔۔۔۔"
پہلا۔ "بس کرو، کس قسم کا شعر ہے یہ۔"
تیسرا۔ "جی جی، اگر کسی لڑکی نے کسی امام دین کا شعر بھی سنایا ہوتا تو تم واہ واہ کرتے مر جاتے۔"
پہلا۔ "ہاں اس وقت تمھاری روح مجھ میں حلول کر جاتی ہے۔"
چوتھا۔ "تم سب جہنمی ہو۔"
دوسرا۔ "تُو تو چپ ہی رہا کر، جب بھی بولتے ہو کفن پھاڑ کر بولتے ہو، مجھے یہ فکر کھائے جا رہی ہے کہ ابھی پورا مہینہ پڑا ہے اور پیسے ختم ہو گئے ہیں، اب اس نامراد شاعر کیلیے سگریٹ بھی ادھار لینے پڑیں گے۔"
تیسرا۔ "قرض کی پیتے تھے مے۔۔۔۔"
دوسرا۔ "خبرادر، جو کسی حرام چیز کا نام لیا میرے سامنے۔"
پہلا۔ "ہاں جی، حاجی صاحب کے سامنے کسی حرام چیز کا نام نہیں لینا، یہ دوسری بات ہے کہ خود دن رات اس فکر میں مرا جاتا ہے کہ کوئی بینک اکاؤنٹ ہو اور اس پر سود ملتا رہے۔"
دوسرا۔ "مجھے تم سے سخت اختلاف ہے، بینکوں میں جو منافع ملتا ہے وہ سود ہر گز نہیں ہے۔۔۔۔۔۔"
تیسرا۔ "کیا فضول بحث شروع کرنے لگے ہو تم لوگ، میرے کان پک گئے ہیں تم دونوں کی باتیں سن سن کر، میرے ساتھ تو کوئی گل و بلبل کی بات کرو، کسی غزالِ دشت کی بات کرو، کسی ماہ جبیں۔۔۔۔۔۔"
دوسرا۔ "یہ کیا اوٹ پٹانگ باتیں سوجھتی ہیں تمھیں۔"
تیسرا۔ "مجھے تو بس یہی کچھ سوجھتا ہے۔"
پہلا۔ "اندھے کو اندھیرے میں بہت دُور کی سوجھی۔"
چوتھا۔ "تم سب جہنمی ہو۔"
تیسرا۔ "لو وہ بھی کہتے ہیں کہ یہ بے ننگ و نام ہے۔"
دوسرا۔ "یار اب تو کچھ دیر بعد اذان ہونے والی ہے، میں سونے لگا ہوں۔"
پہلا۔ "اچھا، کیسے سونے لگا ہوں، ابھی تو اس کی 'مس کال' آنی ہے جس نے کل ہی اپنا نمبر دیا ہے۔"
دوسرا۔ "ہاں اس نے تمھاری باری شاید سب سے آخر پر رکھی ہے۔"
تیسرا۔ "اور ابھی میں نے اپنی نظم مکمل کرنی ہے، مکمل ہوگی تو صبح اسکول میں کسی کو سنا سکوں گا۔"
دوسرا۔ "تم سب جہنم میں جاؤ۔"
چوتھا۔ "آمین۔"

پس نوشت۔اگر کسی کو اس مکالمے میں راقم کا چہرہ نظر آئے تو اسے سوئے ظن پر محمول کیا جائے، ہاں اگر اپنا چہرہ نظر آ جائے تو یہ عین حسنِ ظن ہوگا، اور جن کو اس میں 'حسنِ زن' نظر آیا ہے ان کیلیے کچھ کہنا عبث ہے۔

مزید پڑھیے۔۔۔۔

Mar 31, 2009

اللہ کی مار

"یہ سب شاعروں پر اللہ کی مار کیوں پڑی ہوتی ہے؟ میری بیوی نے ایک دن کسی کتاب پر کسی شاعر کی تصویر دیکھتے ہوئے کہا۔"
میں نے بے چین ہوتے ہوئے کہا۔ "کیا مطلب"۔
"کچھ نہیں، بس ایسے ہی پوچھ رہی ہوں، جس شاعر کو دیکھو، عجیب حلیہ ہوتا ہے اور عجیب و غریب شکل، ایسے لگتا ہے ان پر اللہ کی مار پڑی ہوئی ہے۔"
خیر میں جواب تو کیا دیتا بس سگریٹ سلگا کر خون کے گھونٹ پی کر رہ گیا۔ ایسا ہی کچھ مکالمہ ایک دن میرے اور میرے بڑے بیٹے، سات سالہ حسن، کے درمیان ہوا۔ میں اسے غالب کے متعلق بتا رہا تھا اور سبق دینے کے بعد اس سے سوال و جواب کا سلسلہ شروع کیا۔
"ہاں اب بتاؤ، غالب کون تھے۔"
"غالب شاعر تھا۔"
"الو، شاعروں کی عزت کرتے ہیں، کہتے ہیں غالب شاعر تھے۔"
"جی اچھا"
"تو کون تھے غالب۔"
"وہ شاعر تھے"
"کس زبان کے شاعر تھے"
"اردو کے"
"اور"
"اور، ۔۔۔۔۔۔۔۔۔فارسی کے"
"شاباش، بہت اچھے"
اس مکالمے کے دوران وہ آہستہ آہستہ مجھ سے دور بھی ہو رہا تھا، کہ اچانک بولا۔
"غالب کے ہاتھ تھے۔"

میں نے چونک کر اسکی طرف دیکھا تو اسکے لبوں پر شرارتی مسکراہٹ کھیل رہی تھی، دراصل اس نے اپنی طرف سے غالب کی توہین کرنے کی کوشش کی تھی کہ میں اسے کہہ رہا تھا شاعروں کی عزت کرنی چاہیئے۔ جب سے ہماری بیوی نے ہمارے بلاگ پر "اُوئے غالب" والی تحریر دیکھی ہے، مسلسل اس کوشش میں ہے کہ بچوں سے شعر و شاعری کو دُور رکھا جائے اور ہر وقت شاعروں کی برائیاں کر کے بچوں کے ذہن میں جو پودا میں لگا رہا ہوں اس کو پنپنے سے پہلے ہی تلف کر دیا جائے۔

اس تحریر سے یہ دکھانا مقصود نہیں ہے کہ ہم "شاعر" ہیں اور ہمارے گھر میں ہماری عزت پھوٹی کوڑی کی بھی نہیں ہے بلکہ نثر کے اس ٹاٹ میں ایک اور ٹاٹ کا ہی پیوند لگانا چاہ رہا ہوں، بیوی بچے آج کل لاہور میں ہیں پورے ایک ہفتے کیلیے اور میں خالی الذہن، ظاہر ہے اس میں شاعری ہی آ سکتی ہے۔

کل رات ایک رباعی ہوئی سوچا بلاگ پر ہی لکھ دوں کہ "محفوظ" ہو جائے وگرنہ کاغذ قلم کا ہم سے کیا رشتہ، سو عرض کیا ہے۔

ہے تیر سے اُلفت نہ نشانے سے ہمیں
کھونے سے غرَض کوئی، نہ پانے سے ہمیں
سو بار کہے ہمیں سگِ لیلیٰ، خلق
کچھ بھی نہیں چاہیے زمانے سے ہمیں
مزید پڑھیے۔۔۔۔

Mar 27, 2009

سبکسارانِ ساحل

درد کا کیا ہے جی، کبھی بھی کسی کو بھی کہیں بھی اٹھ سکتا ہے اور رنگ رنگ کا اٹھ سکتا ہے، بلکہ بے رنگ اور بد رنگ بھی کہ اس کو دو چار "تڑکے" لگا کر اپنی مرضی کے رنگ بھرے جا سکتے ہیں۔

کچھ لوگوں کے دماغ میں درد اٹھتا ہے کہ وہ اپنے ازلی رقیب کا خانہ بن جاتا ہے اور کچھ کو زبان کا کہ کشتوں کو پشتے لگا دیتے ہیں لیکن سب سے خطرناک شاید وہ ہوتا ہے جو زبان کے جنوب مشرق میں اٹھتا ہے، جگہ تو ایک ہی ہوتی ہے لیکن یہ درد اپنی ذات میں مختلف رنگ لیے ہوتا ہے کبھی قوم و ملک کا، کبھی رنگ و نسل کا، کبھی ملت و امت کا، کبھی دین و مذہب کا اور کبھی شعر و ادب کا، آخر بھئی کوئی چیز کسی کی جاگیر تھوڑی ہے۔

لیکن اس آخری درد کے بارے میں غالب مرحوم نے بات یہ کہہ کر ختم کر دی تھی۔

درد ہو دل میں تو دوا کیجے
دل ہی جب درد ہو تو کیا کیجے

اللہ جنت نصیب کرے، مرزا بوڑھے ہو کر مرے، دنیا جہان کے عوارض اپنے آپ کو لاحق کرائے بجز دردِ دل کے، اور وہی دردِ دل جب سچ مچ اٹھا تو فیض پکار اٹھے۔

درد اتنا تھا کہ اُس رات دلِ وحشی نے
ہر رگِ جاں سے الجھنا چاہا
ہر بنِ مو سے ٹپکنا چاہا

یقیناً "ہارٹ اٹیک" کی کیفیات کو فیض نے اسی نام کی نظم میں بہت خوبصورت انداز سے پیش کیا ہے لیکن کیا کیجے ان حضرات کا جنہیں بیدل جونپوری کے الفاظ میں اکثر کچھ ایسا درد اٹھتا ہے۔

ہیں یہاں دوشیزگانِ قوم بیدل با ادب
اس جگہ موزوں نہیں ہے فاعلاتن فاعلات
گرلز کالج میں غزل کا وزن ہونا چاہیے
طالباتن طالباتن طالباتن طالبات

لیکن دوشیزگان کے حق میں سب سے محلق وہ درد تھا جو 'مَنّے موچی' کے پیٹ میں اس وقت اٹھا جب اسکا بیٹا امریکہ سے ڈالر بھیجنے لگ گیا اور اس نے گاؤں کے چوہدری سے اسکی باکرہ بیٹی کا ہاتھ اپنے بیٹے کیلیے مانگ لیا، گویا دوشیزہ نہ ہوئی اردو شاعری ہو گئی۔

ہوتے تو جی دونوں 'کمّی' ہی ہیں، لیکن سارا فرق 'درجہ حرارت' کا ہے، کہاں وہ جو تنور کے اندر سر دیکر روٹیاں پکاتا ہے اور کہاں وہ جو کڑاھی کے اوپر کھڑا ہو کر دودھ جلیبیوں کا پیالہ ختم کرنے کے بعد ڈکار مارتا ہے۔ حافظ شیرازی نے کہا تھا۔

شبِ تاریک و بیمِ موج و گردابے چنیں ہائل
کُجا دانند حالِ ما سبکسارانِ ساحل ہا

اندھیری رات ہے، اور موج کا خوف ہے اور ایسا خوفناک بھنور ہے، ساحلوں کے بے فکرے اور انکی سیر کرنے والے، ہمارا حال کیسے جان سکتے ہیں؟
مزید پڑھیے۔۔۔۔

Mar 13, 2009

ماما (انگریزی والا)۔۔۔۔۔

پہلے واضح کر دوں کہ یہ 'ماما' پنجابی والا نہیں ہے بلکہ انگریزی والا لفظ ہے اور اس وضاحت کی یوں ضرورت محسوس ہوئی کہ پنجابی والا 'ماما' جو کہ اب ایک گالی بن چکا ہے (نہ جانے کیوں) اور چونکہ ڈر ہے کہ گالیوں کے عنوان والے بلاگز کی رسم ہی نہ چل نکلے، آغاز تو الا ماشاءاللہ ہو ہی چکا، تو واضح کر دوں، اور یہ بھی کہ میں گالی پر نہیں گل پر لکھنا چاہ رہا ہوں۔ گُل جو چمن میں کھلتا ہے تو بہار آ جاتی ہے، ہر طرف نغمۂ ہزار گونجتا ہے، اور پژمُردہ دلوں میں جان پڑ جاتی ہے۔


اور اب شاید یہ واضح کرنا بھی ضروری ہو کہ یہ وہ گُل نہیں ہیں جن کے بارے میں علامہ فرماتے ہیں کہ تصویرِ کائنات میں رنگ انہی 'گلوں' کے وجود سے ہے بلکہ یہ تو وہ گل ہیں جو ان سنگلاخ چٹانوں کے سینوں پر کھلتے ہیں جن کی آبیاری تیشۂ فرہاد سے ہوتی ہے، وہ نرم و نازک گل جو سخت بلکہ کرخت سینوں میں دھڑکتے ہیں۔ خونِ جگر سے سینچ کر غنچہ امید وا کرنا حاشا و کلا آسان کام نہیں ہے۔


نہ جانے کیوں زکریا اجمل المعروف بہ 'زیک' کی طرف میرا دھیان جب بھی جاتا ہے تو ذہن میں ایک ماں کا تصور ہی ابھرتا ہے، اس بات کی کوئی وجہ میرے ذہن میں نہیں آتی بجز اسکے کہ اردو، اردو ویب، اور اردو محفل کیلیے اللہ نے انہیں ایک ماں کا دل ہی عطا کیا ہے، اپنے بچے کی ذرا سی پریشانی پر بے اختیار ہو ہو جانا اور اس کی نگہداشت و پرداخت ہمیشہ نگاہ میں رکھنا اور اسکی ترقی و کامیابی کو ہمیشہ دل میں رکھنا اور اس کے مستقبل کی طرف سے ہمیشہ پریشان رہنا، میں نے تو زیک کو جب بھی دیکھا انہی حالتوں میں دیکھا۔ اب اگر انہیں اردو ویب کی 'ماما' نہ لکھوں تو کیا لکھوں اور کیا کہوں۔


دل اگر ماں کا ہے تو دماغ اللہ نے انہیں ایسا حکیمانہ عطا کیا ہے کہ انکی خاموشی بہت ساروں کے لیے سند ہے، مطلب ہے آپ کسی ایسے خشک موضوع پر لکھیئے جس میں حقائق ہیں یا اعداد و شمار ہیں (نہ کہ ایسے گل و بلبل کی باتوں مگر صرف باتوں والے موضوعات جن پر ہم بزعمِ خود طبع آزمائی کرتے ہیں) اور اگر کوئی غلطی ہے تو زیک ضرور اس کو درست کریں گے، گویا زیک انہی اساتذہ کی لڑی میں سے ہیں جن کی خاموشی سند سمجھی جاتی تھی۔ علامہ اقبال کسی مشاعرے کی صدارت فرما رہے تھے اور مبتدی پڑھ رہے تھے، علامہ اپنے مشہورِ زمانہ اسٹائل میں ہتھیلی پر سر ٹکائے بیزار سے بیٹھے تھے اور انکی خاموشی ہی اس بات کی سند تھی کہ اشعار ٹھیک ہی ہیں کہ دفعتہً ایک شعر پر علامہ بے اختیار 'ہُوں' پکار اٹھے، اور وہ شاعر یہ بات اپنی زندگی کا سب سے بڑا واقعہ سمجھتا رہا کہ علامہ انکے اشعار پر نہ صرف خاموش رہے تھے بلکہ ایک شعر پر 'ہُوں' بھی کہا تھا، اور میں نے نہیں دیکھا زیک کو کبھی 'ہُوں' بھی کہتے ہوئے۔


زیک اور اپنے آپ میں کوئی مماثلت ڈھونڈنے نکلتا ہوں تو کچھ ہاتھ نہیں آتا بجز ایک دُور کی کوڑی کے، کہ بقولِ زیک انہیں اردو بلاگ لکھنے کا خیال ایک فارسی بلاگ کو دیکھ کر آیا تھا اور میں شاید اردو بلاگ لکھتا ہی اس لیے ہوں کہ اپنی پسند کے فارسی اشعار کسی طرح محفوظ کر سکوں۔ زیک کو اللہ تعالیٰ نے بہت بردبار اور ٹھنڈے دل و دماغ کا مالک بھی بنایا ہے اور فی زمانہ یہ ایک اتنی بڑی خوبی ہے کہ انسان ہونے کی نشانی ہے اور شاید یہی اوصاف رکھنے والے کسی انسان کے بارے میں مولانا جلال الدین رومی نے فرمایا تھا، (دیکھیے فارسی کا ذکر زبان پر آیا نہیں اور میں ہر پھر کر فارسی اشعار پر اتر آیا)۔


دی شیخ با چراغ ھمی گشت گردِ شہر

کز دیو و دَد ملولَم و انسانَم آرزوست


کل رات ایک بزرگ ہاتھ میں چراغ لیے سارے شہر میں گھوما کیا اور کہتا رہا کہ میں شیطانوں اور درندوں سے تنگ آ گیا ہوں اور کسی انسان کو دیکھنے کا آرزومند ہوں۔


بات انسان تک پہنچی ہے تو خدا تک بھی ضرور پہنچے گی کہ زیک کی زندگی کے اس رخ کے بارے میں کوئی بات کرنا میں معیوب سمجھتا ہوں مگر یہ کہ زیک میں اگر کہیں میری رُوح ہوتی تو رات کی کیا تخصیص، وہ ہر وقت شہر کی گلیوں میں غالب کا یہ نعرۂ مستانہ لگا کر مجنونانہ گھومتے۔


ہاں وہ نہیں خدا پرست، جاؤ وہ بے وفا سہی

جس کو ہوں دین و دل عزیز، اُس کی گلی میں جائے کیوں


اور چلتے چلتے یہ بھی عرض کردوں کہ بات ایک وضاحت سے شروع ہوئی تھی اور ایک وضاحت پر ہی ختم ہو رہی ہے کہ یہ خاکہ، یا اگر بلاگ کے حوالے سے مجھے ایک بدعت کی اجازت دیں تو کہوں کہ یہ 'بلاخاکہ' میں نے زیک کی اجازت لیے بغیر لکھ مارا اور وہ یہ سوچ کر کہ اگر اجازت لیکر ہی خاکے لکھے جاتے تو "گنجے فرشتے" کبھی تخلیق نہ ہو پاتی۔


مزید پڑھیے۔۔۔۔

Nov 20, 2008

فیض مرحوم کی برسی اور انکی خوبصورت فارسی نعت مع ترجمہ

آج فیض احمد فیض مرحوم کی چوبیسویں برسی ہے، آج کے دن اقلیمِ سخن کا ایک اور فرمانروا ہم سے بچھڑ گیا۔
ع - خاک میں، کیا صُورتیں ہوںگی کہ پنہاں ہو گئیں
Persian poetry, Persian Poetry with Urdu translation, Farsi poetry, Farsi poetry with urdu translation,Faiz Ahmed Faiz, فیض احمد فیض
Faiz Ahmed Faiz, فیض احمد فیض
ہمارا شہر سیالکوٹ اگر شہرِ اقبال کہلاتا ہے تو یہ شہر فیض کے فیض سے بھی فیضیاب ہے کہ شہرِ فیض بھی ہے گویا کہ ایک اور “سودائی” کا شہر۔ اقبال اور فیض میں سیالکوٹ کے علاوہ شمس العلماء مولوی سید میر حسن کا ذکر بھی قدرِ مشترک کے طور پر کیا جاتا ہے کہ آپ دونوں کے استاد تھے لیکن ایک اور بہت اہم قدرِ مشترک جس کا ذکر عموماً نہیں کیا جاتا وہ پروفیسر یوسف سلیم چشتی ہیں۔ پروفیسر صاحب اقبال کے سب سے بڑے شارح و مفسر اور ایک طرح سے دوست شاگرد تھے کہ اقبال کے کلام کے مطالب خود اقبال سے مدتوں تک سمجھے اور فیض کے وہ استاد تھے بلکہ اگر یوں کہا جائے کہ پروفیسر چشتی نے اردو دنیا کو فیض کا فیض عطا کیا تو غلط نہ ہوگا۔ فیض احمد فیض خود فرماتے ہیں۔
“جب دسویں جماعت میں پہنچے تو ہم نے بھی تک بندی شروع کر دی اور ایک دو مشاعروں میں شعر پڑھ دیے۔ منشی سراج دین نے ہم سے کہا میاں ٹھیک ہے تم بہت تلاش سے شعر کہتے ہو مگر یہ کام چھوڑ دو، ابھی تو تم پڑھو لکھو اور جب تمھارے دل و دماغ میں پختگی آ جائے تب یہ کام کرنا۔ اس وقت یہ تضیعِ اوقات ہے۔ ہم نے شعر کہنا ترک کر دیا۔ جب ہم مَرے کالج سیالکوٹ میں داخل ہوئے اور وہاں پروفیسر یوسف سلیم چشتی اردو پڑھانے آئے جو اقبال کے مفسر بھی ہیں، تو انہوں نے مشاعرے کی طرح ڈالی اور کہا طرح پر شعر کہو۔ ہم نے کچھ شعر کہے اور ہمیں داد ملی۔ چشتی صاحب نے منشی سراج الدین کے بالکل خلاف مشورہ دیا اور کہا فوراً اس طرف توجہ کرو، شاید تم کسی دن شاعر ہو جاؤ۔”
فیض کے کلیات “نسخہ ھائے وفا” میں شامل آخری کتاب “غبار ایام ” کا اختتام فیض کی ایک خوبصورت فارسی نعت پر ہوتا ہے اور شاید کلیات میں یہ واحد نعت ہے۔ بہت دنوں سے ذہن میں تھا کہ اس نعت کو لکھوں اور آج فیض کی برسی کے موقعے پر اس خوبصورت نعت کر مع ترجمہ پوسٹ کرنے کی سعادت حاصل کر رہا ہوں۔
اے تو کہ ہست ہر دلِ محزوں سرائے تو
آوردہ ام سرائے دِگر از برائے تو
اے کہ آپ (ص) کا ہر دکھی دل میں ٹھکانہ ہے، میں نے بھی آپ کے لیے ایک اور سرائے بنائی ہے یعنی کہ میرے دکھی دل میں بھی آپ کا گھر ہو جائے۔
خواجہ بہ تخت بندۂ تشویشِ مُلک و مال
بر خاک رشکِ خسروِ دوراں گدائے تو
تخت پر بیٹھا ہوا شاہ ملک و مال کی تشویش میں مبتلا ہے، جبکہ خاک پر بیٹھا ہوا آپ کا گدا وقت کے شاہنشاہ کے لیے بھی باعثِ رشک ہوتا ہے۔
آنجا قصیدہ خوانیِ لذّاتِ سیم و زر
اینجا فقط حدیثِ نشاطِ لِقائے تو
وہاں (دنیا داروں کے ہاں) سونے اور چاندی کی لذات کے قصیدے ہیں جب کہ یہاں (ہم خاکساروں کے ہاں) فقط آپ کے دیدار کے نشاط کی باتیں ہیں۔
آتش فشاں ز قہر و ملامت زبانِ شیخ
از اشک تر ز دردِ غریباں ردائے تو
شیخ ( اور واعظ) کی زبان قہر اور ملامت سے آتش فشاں بنی ہوئی ہے جبکہ غریبوں کے درد کی وجہ سے آپ کی چادر مبارک آپ کے آنسو سے تر ہے۔
باید کہ ظالمانِ جہاں را صدا کُنَد
روزے بسُوئے عدل و عنایت صدائے تو
ضروری ہے کہ دنیا کے ظالم (جوابی) صدا کریں، ایک (کسی) دن عدل و عنایت کی طرف (لے جانے والی) آپ کی آواز پر یعنی آپ کی عدل و عنایت کی طرف بلانے والی آواز پر ظالموں کو لبیک کہنا ہی پڑے گا۔
مزید پڑھیے۔۔۔۔

Nov 9, 2008

مردِ قلندر

کبھی کبھی یوں بھی ہوتا ہے کہ ایک شخص اپنے قبیلے، اپنی قوم، اپنی ملت، اپنے ملک اور اپنے لوگوں کی علامت بن جاتا ہے، انکی پہچان اور تشخص بن جاتا ہے۔ یہ بلند رتبہ خدا جسے دے دے۔
حافظ شیرازی نے کہا تھا۔
ہزار نُکتۂ باریک تر ز مُو اینجاست
نہ ہر کہ سر بَتَراشَد قلندری دانَد
یہ وہ مقام ہے کہ یہاں ہزار ہا نازک اور لطیف اور بال سے باریک نکات ہیں، ہر کوئی سر ترشوانے سے قلندر تھوڑی بن جاتا ہے۔
اقبالِ کے قلندر ہونے سے کس کو انکار ہو سکتا ہے کہ اپنی اردو و فارسی شاعری میں ان لطیف و عظیم اسرار و رموز کو فاش کیا ہے کہ کوئی سر ترشوانے والا قلندر بھی کیا بیان کرے گا۔
علامہ کے پیشِ نظر یقیناً حافظ کا شعر تھا جب علامہ نے اپنے متعلق کہا تھا، اور کیا خوب کہا ہے۔
Persian poetry, Persian Poetry with Urdu translation, Farsi poetry, Farsi poetry with urdu translation, Allama Iqbal, علامہ اقبال
 Allama Iqbal, علامہ اقبال
بیا بہ مجلَسِ اقبال و یک دو ساغر کَش
اگرچہ سَر نَتَراشَد قلندری دانَد
اقبال کی مجلس کی طرف آ اور ایک دو ساغر کھینچ، اگرچہ اس کا سر مُنڈھا ہوا نہیں ہے (لیکن پھر بھی) وہ قلندری رکھتا (قلندری کے اسرار و رموز جانتا) ہے۔
اے کاش کہ ہمیں بھی ایک آدھ جرعہ نصیب ہو جائے!
مزید پڑھیے۔۔۔۔

Aug 26, 2008

جنگل اداس ہے - آہ احمد فراز

احمد فراز بھی اس دارِ فانی سے کوچ فرما گئے، اناللہ و انا الیہ راجعون۔ اقلیم سخن کا نامور شاعر جس نے ایک عرصے تک اردو شاعری کے چاہنے والوں کے دلوں پر راج کیا، بالآخر سمندر میں مل گئے، بقول احمد ندیم قاسمی مرحوم

کون کہتا ہے کہ موت آئی تو مر جاؤنگا
میں تو دریا ہوں سمندر میں اتر جاؤنگا

احمد فراز سے میرا تعارف کہیں بچپن میں ہی ہو گیا تھا جب مجھے علم ہوا کہ میرا پسندیدہ “گیت” رنجش ہی سہی دل ہی دکھانے کیلیئے آ، جو میں پہروں مہدی حسن کی آواز میں سنا کرتا تھا، دراصل احمد فراز کی غزل ہے۔ مجھے بڑی حیرت ہوئی کہ اچھا غزلیں بھی اسطرح فلموں میں گائی جاتی ہیں اور یہ حیرت بڑھتی چلی گئی جب یہ بھی علم ہوا کہ ایک اور گانا “اب کے ہم بچھڑے تو شاید کبھی خوابوں میں ملیں” بھی انہی کی غزل ہے۔ یہ وہ دور تھا جب موسیقی میں ہر طرف مہدی حسن کا طوطی بول رہا تھا اور مہدی حسن میرے پسندیدہ گلوکار تھے۔ پھر میں نے پاکستان ٹیلی ویژن پر انکی ایک اور مشہور غزل “اب کے تجدیدِ وفا کا نہیں امکاں جاناں” جو مہناز نے انتہائی دلکش انداز میں گائی ہے، سنی تو فراز کیلیئے دل میں محبت اور بھی بڑھ گئی۔

اس وقت تک میں نے فراز کی کوئی کتاب نہیں پڑھی تھی لیکن پھر مجھے ‘کلیاتِ فراز’ کا علم ہوا جو ماورا نے شائع کیے تھے، یہ پچھلی صدی کی آخری دہائی کے اوائل کا زمانہ تھا اور میں کالج میں پڑھتا تھا، میں نے لاہور منی آڈر بھیج کر فراز کے کلیات منگوائے اور پھر پہروں ان میں غرق رہتا اور آج بھی یہ کلیات میرے آس پاس کہیں دھرے رہتے ہیں۔
ایک شاعر جب اپنی وارداتِ قلبی بیان کرتا ہے تو اس یقین کے ساتھ کہ اسکا ایک ایک لفظ سچ ہے، آفاقی حقیقت ہے اور اٹل اور آخری سچائی ہے اور ہوتا بھی ایسے ہی ہے کہ کسی انسان کے اوپر جو گزرتی ہے وہی اس کیلیئے حقیقت ہے، فراز کی اپنی زندگی اپنے اس شعر کے مصداق ہی گزری اور کیا آفاقی اور اٹل سچائی ہے اس شعر میں:

میں زندگی سے نبرد آزما رہا ہوں فراز
میں جانتا تھا یہی راہ اک بچاؤ کی تھی

فراز کی شاعری انسانی جذبوں کی شاعری ہے وہ انسانی جذبے جو سچے بھی ہیں اور آفاقی بھی ہیں، فراز بلاشبہ اس عہد کے انتہائی قد آور شاعر تھے۔ فراز کی زندگی کا ایک پہلو انکی پاکستان میں آمریت کے خلاف جدوجہد ہے، اس جدوجہد میں انہوں نے کئی مشکلات بھی اٹھائیں لیکن اصول کی بات کرتے ہی رہے۔ شروع شروع میں انکی شاعری کی نوجوان نسل میں مقبولیت دیکھ کر ان کی شاعری پر بے شمار اعتراضات بھی ہوئے، انہیں ‘اسکول کالج کا شاعر’ اور ‘نابالغ’ شاعر بھی کہا گیا۔ مرحوم جوش ملیح آبادی نے بھی انکی شاعری پر اعتراضات کیئے اور اب بھی انگلینڈ میں مقیم ‘دریدہ دہن’ شاعر اور نقاد ساقی فاروقی انکی شاعری پر بہت اعتراضات کرتے ہیں لیکن کلام کی مقبولیت ایک خدا داد چیز ہے اور فراز کے کلام کو اللہ تعالٰی نے بہت مقبولیت دی۔ انکی شاعری کا مقام تو آنے والا زمانے کا نقاد ہی طے کرے گا لیکن انکی آخری کتاب “اے عشق جنوں پیشہ” جو پچھلے سال چھپی تھی، اس میں سے ایک غزل لکھ رہا ہوں جو انہوں نے اپنے کلام اور زندگی کے متعلق کہی ہے اور کیا خوب کہی ہے۔
Ahmed Faraz, احمد فراز، urdu poetry, urdu ghazal, ilm-e-arooz, taqtee
Ahmed Faraz, احمد فراز
کوئی سخن برائے قوافی نہیں ‌کہا
اک شعر بھی غزل میں اضافی نہیں‌ کہا

ہم اہلِ صدق جرم پہ نادم نہیں رہے
مر مِٹ گئے پہ حرفِ معافی نہیں‌ کہا

آشوبِ‌ زندگی تھا کہ اندوہِ عاشقی
اک غم کو دوسرے کی تلافی نہیں‌ کہا

ہم نے خیالِ یار میں کیا کیا غزل کہی
پھر بھی یہی گُماں‌ ہے کہ کافی نہیں کہا

بس یہ کہا تھا دل کی دوا ہے مغاں کے پاس
ہم نے کبھی شراب کو شافی نہیں کہا

پہلے تو دل کی بات نہ لائے زبان پر
پھر کوئی حرف دل کے منافی نہیں کہا

اُس بے وفا سے ہم نے شکایت نہ کی فراز
عادت کو اُس کی وعدہ خلافی نہیں کہا

ہر ذی روح کو اس دارِ فانی سے کوچ کرنا ہے، یہ ایک اٹل حقیقت ہے لیکن کچھ انسان ہوتے ہیں جن کے جانے سے چار سُو اداسی پھیل جاتی ہے اور یہی کیفیت کل سے کچھ میری ہے۔ غالب کے شعر پر بات ختم کرتا ہوں

ہر اک مکان کو ہے مکیں سے شرف اسد
مجنوں جو مر گیا ہے تو جنگل اداس ہے
مزید پڑھیے۔۔۔۔

May 19, 2008

نعرۂ پاکستان کے خالق اصغر سودائی وفات پا گئے

لازوال نعرۂ پاکستان، “پاکستان کا مطلب کیا، لا الہ الا اللہ” کے خالق پروفیسر اصغر سودائی، 17 مئی کو سیالکوٹ میں چل بسے، انا للہ و انا الیہ راجعون۔ اللہ تعالی مرحوم کو اپنے جوارِ رحمت میں جگہ دیں۔
پروفیسر سودائی نے 1944 میں اپنی طالب علمی کے دور میں تحریک پاکستان کے دوران ایک نظم کہی تھی، ”ترانۂ پاکستان” اور یہ بے مثال مصرع اسی نظم کا ہے۔ آپ سے ایک بار پوچھا گیا تھا کہ یہ مصرع کیسے آپ کے ذہن میں آیا تو آپ نے فرمایا کہ جب لوگ پوچھتے تھے کہ، مسلمان پاکستان کا مطالبہ کرتے ہیں لیکن پاکستان کا مطلب کیا ہے تو میرے ذہن میں آیا کہ سب کو بتانا چاہیئے کہ پاکستان کا مطلب کیا ہے۔ اور یہ نعرہ ہندوستان کے طول و عرض میں اتنا مقبول ہوا کہ پاکستان تحریک اور یہ نعرہ لازم و ملزوم ہو گئے اور اسی لیئے قائد اعظم نے کہا تھا کہ “تحریکِ پاکستان میں پچیس فیصد حصہ اصغر سودائی کا ہے۔”
اصغر سودائی 1926 میں سیالکوٹ میں پیدا ہوئے اور تعلیم حاصل کرنے کے بعد شعبۂ تعلیم کو اپنا پیشہ بنایا اور علامہ اقبال کالج، سیالکوٹ کے پرنسپل کی حیثیت سے ریٹائرڈ ہوئے۔ آپ نے اپنی ساری زندگی تعلیم و ادب کی آبیاری میں گزاری، ایک شعری مجموعہ “چلن صبا کی طرح” یادگار چھوڑا ہے۔
سیالکوٹ، علامہ اقبال چوک میں‌ ایک ریسٹورنٹ ہے، ایمیلیا ہوٹل، یہ یوں سمجھیں کہ لاہور کے پاک ٹی ہاؤس کی طرز کا ریسٹورنٹ ہے کہ جہاں عمعوماً شعرا، صحافی اور ادب سے دلچسپی رکھنے والے حضرات جمع ہوتے ہیں، مرحوم بھی اکثر وہاں آتے تھے اور اپنے ملنے والوں کو تحریک پاکستان، قائد اعظم کے سیالکوٹ کے دورے اور اپنے مصرعے کے متعلق دلچسپ واقعات سنایا کرتے تھے اور اسی وجہ سے لوگ ان کو “تحریک پاکستان کا چلتا پھرتا انسائیکلوپیڈیا” بھی کہتے تھے۔
میں یہ لکھنے میں انتہائی فخر محسوس کر رہا ہوں کہ سیالکوٹ کے علامہ اقبال، مولانا ظفر علی خان، فیض احمد فیض کی طرح پروفیسر اصغر سودائی بھی سیالکوٹ کے ایک ایسے فرزند ہیں کہ سیالکوٹ ان کے نام پر ہمیشہ فخر کرے گا۔
مجھے اصغر سودائی صاحب سے چند بار ملنے کا شرف حاصل رہا ہے، شرافت اور سادگی کا مرقع تھے مرحوم، انتہائی شفقت اور پیار سے ملتے تھے۔ مجھے یاد ہے آخری ملاقات ان سے کچھ سال قبل ہوئی تھی، وہ سیالکوٹ کچہری سے اپنے گھر کی طرف پیدل جا رہے تھے، میں‌ نے ان کو سڑک پر دیکھا تو رک گیا، بہت اصرار کیا کہ میں آپ کو گھر چھوڑ آتا ہوں لیکن نہیں‌ مانے، فقط دعائیں دیتے رہے۔
مجھے ان سے شرفِ تلمیذ تو حاصل نہیں رہا کہ میری کالج کی زندگی سے بہت پہلے وہ ریٹائرڈ ہو چکے تھے لیکن میں ایسے بزرگوں سے ضرور ملا ہوں جو انکے شاگرد رہ چکے تھے، ان میں‌ سے ایک مغل صاحب تھے، انکی قمیص کا سب سے اوپر والا بٹن ہمیشہ بند رہتا تھا، میں نے ایک دن پوچھ ہی لیا کہ یہ بٹن بھری گرمیوں میں بھی بند رکھتے ہیں، کہنے لگے یہ اصغر سودائی صاحب کی نشانی ہے کہ جب ہمیں‌ پڑھایا کرتے تھے تو کہتے تھے کہ وضع داری کا تقاضہ ہے کہ اساتذہ کے سامنے تمام بٹن بند رکھے جائیں، موحوم خود بھی اس عادت کو نبھاتے رہے اور انکے شاگرد بھی۔
اللہ اللہ، وضع دار بزرگ اس دنیا سے چلے ہی جا رہے ہیں، لیکن جب تک پاکستان کا نام باقی ہے (اور یہ تا قیامت ہے انشاءاللہ) مرحوم اصغر سودائی صاحب کا نام اور ان کا نعرہ “ پاکستان کا مطلب کیا، لا الہ الا اللہ” بھی باقی رہے گا۔
مزید پڑھیے۔۔۔۔