Showing posts with label جاوید نامہ. Show all posts
Showing posts with label جاوید نامہ. Show all posts

Jun 18, 2010

مجلسِ خدایانِ اقوامِ قدیم - جاوید نامہ از علامہ اقبال سے ایک اقتباس

زندہ رود (علامہ اقبال) کا افلاک کا سفر پیر رومی کی معیت میں جاری ہے اور انکے ساتھ ساتھ ہمارا بھی۔ اس سے پہلے کی دو پوسٹس میں ہم دیکھ چکے ہیں کہ فلکِ قمر پر علامہ نبوت کی چار تعلیمات (طواسین) دیکھتے ہیں اور وہیں علامہ نے "طاسینِ محمد (ص)" کے تحت حرمِ کعبہ میں ابوجہل کی روح کا نوحہ لکھا ہے۔

فلکِ قمر سے رومی و علامہ، فلکِ عطارد پر پہنچتے ہیں اور وہاں سید جمال الدین افغانی اور سعید حلیم پاشا کی ارواح کی زیارت کرتے ہیں۔ کافی دلچسپ حصہ ہے اور علامہ ان دونوں مصلحان سے اسلامی اور عالمی امور پر گفتگو کرتے ہیں جیسے اشتراکیت و ملوکیت، محکماتِ عالمِ قرآنی، خلافتِ آدم، حکومت الٰہی وغیرہ۔ اسکے علاوہ روسی قوم کے نام جمال الدین افغانی کا ایک پیغام بھی اس حصے میں شامل ہے۔

فلکِ عطارد سے علامہ اور انکے راہبر پیرِ رومی، فلکِ زہرہ کی طرف پرواز کر جاتے ہیں، اور یہی حصہ ہماری اس پوسٹ کا موضوع ہے۔ فلکِ زہرہ کا تعارف کرواتے ہوئے، رومی علامہ سے فرماتے ہیں۔

اندروں بینی خدایانِ کہن
می شناسم من ہمہ را تن بہ تن

یہاں، زہرہ کے اندر، تُو قدیم خداؤں کو دیکھے گا اور میں ان سب کو ایک ایک کر کے پہچانتا ہوں۔

اور وہ خدا کون کون سے تھے

بعل و مردوخ و یعوق و نسر و فسر
رم خن و لات و منات و عسر و غسر

یہ سب بتوں کے نام ہیں جو قدیم عرب، بابل اور مصر کے معبود و خدا تھے

رومی، علامہ کی معلومات میں مزید اضافہ فرماتے ہوئے کہتے ہیں کہ

بر قیامِ خویش می آرد دلیل
از مزاجِ ایں زمانِ بے خلیل

یہ سارے مرے اور مٹے ہوئے معبود ایک بار پھر اپنے قیام یعنی زندہ ہونے پر موجودہ زمانے کے مزاج سے جو کہ بغیر خلیل (ع) کے ہے، دلیل لاتے ہیں یعنی یہ سمجھتے ہیں کہ موجودہ زمانے میں کوئی بُت شکن نہیں ہے سو ہم پھر سے زندہ ہو گئے ہیں۔

اس تمہید کے بعد رومی علامہ کو زہرہ کے اندر لے جاتے ہیں، اس موقع پر علامہ نے زہرہ کی فضا کی نقشہ کشی دلپذیر انداز میں کی ہے، اور وہاں وہ ایک مجلس دیکھتے ہیں، "مجلسِ خدایانِ اقوامِ قدیم" یعنی قدیم اقوام کے خداؤں کے مجلس۔ علامہ مجلس کی نقشہ کشی کرنے کے بعد اس مجلس کے اراکین کا تعارف کچھ یوں کرواتے ہیں۔

اندریں وادی خدایانِ کہن
آں خدائے مصر و ایں رب الیمن

اس وادی کے اندر پرانے خدا تھے، وہ اگر مصر والوں کا خدا تھا تو یہ یمن والوں کا رب۔

آں ز اربابِ عرب ایں از عراق
ایں الہ الوصل و آں رب الفراق

کوئی عرب والوں کے خداؤں میں سے تھا تو کوئی عراق والوں کے، کوئی وصال (صلح و امن) کا الہ تھا تو کوئی فراق (جنگ و جدل) کا خدا۔

ایں ز نسلِ مہر و دامادِ قمر
آں بہ زوجِ مشتری دارد نظر

کوئی سورج کی نسل میں سے تھا (سوریہ ونشی) تو کوئی چاند کا داماد تھا اور کسی نے مشتری سے شادی کرنے پر نظر رکھی ہوئی تھی یعنی مشتری کا چاہنے والا دیوتا تھا۔

آں یکے در دستِ اُو تیغِ دو رو
واں دگر پیچیدہ مارے در گلو

ایک کے ہاتھ میں دو منہ والی تلوار تھی تو دوسرے نے سانپ اپنے گلے میں لٹکائے ہوئے تھے۔

ہر یکے ترسندہ از ذکرِ جمیل
ہر یکے آزردہ از ضربِ خلیل

لیکن یہ سب کے سب ذکرِ جمیل یعنی ذکرِ حق سے ڈرے ہوئے تھے اور ضربِ خلیل (ع) ) سے آزردہ خاطر تھے کہ اس ضرب نے ان کو پاش پاش کر دیا تھا۔

اسی منظر کی نقشہ کشی جمی انجنیئر نے بھی کی ہے، جو کہ اقبال اکادمی کے شائع کردہ جاوید نامہ ڈیلکس ایڈیشن میں شامل ہے، وہ ملاحظہ کیجیئے، بڑی تصویر دیکھنے کیلیے اس پر کلک کیجیے۔

Persian poetry, Persian Poetry with Urdu translation, Farsi poetry, Farsi poetry with urdu translation, Allama Iqbal, علامہ اقبال, Javiad Nama, جاوید نامہ, Maulana Rumi, مولانا رومی

اب اس تعارف کے بعد، اس مجلس کی کچھ روداد بھی سنیے۔

گفت مردوخ، آدم از یزداں گریخت
از کلیسا و حرم نالاں گریخت

مردوخ نے کہا، (آج کا آدمی) خدا سے دُور بھاگ گیا ہے، وہ کلیسا اور حرم یعنی مذہب سے نالہ و فریاد (یعنی اسکی برائیاں) کرتا ۔ہوا نکل آیا ہے

تا بیَفزایَد بہ درّاک و نظر
سوئے عہدِ رفتہ باز آید نگر

یہ آدمی (اس امید میں کہ) اپنے ادراک و عقل و سمجھ و نطر کو فزوں کرے یعنی بڑھائے، دیکھو گزرے ہوئے یعنی ہمارے عہد کی طرف دوبارہ واپس آ رہا ہے۔

می برد لذّت ز آثارِ کہن
از تجلی ہائے ما دارد سخن

وہ پرانے آثار سے لذت حاصل کر رہا ہے، اور ہماری تجلیوں کے بارے میں گفتگو کر رہا ہے۔

روزگار افسانۂ دیگر کشاد
می وزد زاں خاکداں بادِ مراد

اس زمانے نے ایک اور افسانے کا باب کھولا ہے، اور اس خاکدان سے ہمارے لیے بادِ مراد آ رہی ہے یعنی یہ زمانہ ہمارے لیے سازگار ہو رہا ہے۔

بعل از فرطِ طرب خوش می سرود
بر خدایاں راز ہائے ما کشود

بعل (مرودوخ کی یہ باتیں سن کر بہت خوش ہوا اور) فرطِ خوشی میں نغمہ گانے لگا اور ان خداؤں پر ہمارے یعنی موجودہ انسان کے راز کھولنے لگا۔

اب نغمۂ بعل بھی سن لیجیے

نغمۂ بعل
پہلا پند

آدم ایں نیلی تتق را بر درید
آں سوئے گردوں خدائے را ندید

انسان نے اس آسمان کو تو پھاڑ ڈالا ہے یعنی ستاروں تک پہنچ رہا ہے لیکن اُس نے آسمان کی دوسری طرف خدا کو نہیں دیکھا۔

در دلِ آدم بجز افکار چیست
ہمچو موج ایں سر کشید و آں رمید

انسان کے دل میں افکار کے سوا اور کچھ نہیں ہے، اور بھی سب عارضی کہ موج کی طرح سر اٹھاتے ہیں اور چلے جاتے ہیں۔

جانش از محسوس می گیرد قرار
بو کہ عہدِ رفتہ باز آید پدید

اُس کی جان صرف محسوسات یعنی حواسِ خمسہ ہی سے چین و قرار پاتی ہے اور اس وجہ سے پوری امید ہے کہ گزرا ہوا دور یعنی ہمارا عہد واپس آ جائے گا۔

زندہ باد افرنگیِ مشرق شناس
آں کہ ما را از لحد بیروں کشید

مشرق کے مزاج کو پہچانچے والا فرنگی زندہ رہے کہ اس نے ہمیں ہماری قبروں سے باہر کھینچ لیا ہے یعنی پھر سے زندہ کر دیا ہے۔

اے خدایانِ کہن وقت است وقت
اے پرانے خداؤ (یہی) وقت ہے وقت ہے (تمھارے عروج کا)۔

دوسرا بند

در نگر آں حلقۂ وحدت شکست
آلِ ابراہیم بے ذوقِ الست

دیکھو، وہ توحید کا حلقہ ٹوٹ گیا ہے، آلِ ابراہیم الست کے ذوق کے بغیر ہے، تلمیح ہے آیت الست بربکم (کیا میں تمھارا رب نہیں ہوں) کی طرف۔

صحبتش پاشیدہ، جامش ریز ریز
آن کہ بود از بادۂ جبریل مست

اُس کی محفل پراگندہ اور اسکے جام ریزہ ریزہ ہیں، وہ کہ جو کبھی بادۂ جبریل سے مست تھا۔

مردِ حر افتاد در بندِ جہات
با وطن پیوست و از یزداں گسست

آزاد مرد جہات (حواسِ خمسہ) کی قید میں جکڑا ہوا ہے، وہ وطن سے جڑ گیا ہے اور خدا سے جدا ہو گیا ہے۔

خونِ اُو سرد از شِکوہِ دیریاں
لا جرم پیرِ حرم زنار بست

اُس کا خون دیر والوں (کافروں) کی شان و شوکت سے سرد ہو چکا ہے، جس کا نتیجہ ہے کہ پیرِ حرم نے زنار پہن لیا ہے۔

اے خدایانِ کہن وقت است وقت
اے پرانے خداؤ (یہی) وقت ہے وقت ہے (تمھارے عروج کا)۔

تیسرا بند

در جہاں باز آمد ایّامِ طرب
دیں ہزیمت خوردہ از ملک و نسب

دنیا میں ہماری خوشی کا دور پھر واپس آ گیا ہے، دین نے ملک و نسب سے شکست کھا لی ہے۔

از چراغِ مصطفیٰ اندیشہ چیست؟
زاں کہ او را پف زند صد بولہب

اب ہمیں چراغِ مصطفیٰ (یعنی اسلام سے) کیا ڈر اور خطرہ کہ اس چراغ کو بجھانے کیلیے سینکڑوں ابولہب پھونکیں مار رہے ہیں۔

گرچہ می آید صدائے لا الہٰ
آں چہ از دل رفت کے ماند بہ لب

اگرچہ ابھی تک لا الہٰ کی صدا آ رہی ہے لیکن جو دل سے چلا گیا ہے وہ لب پر بھی کب تک رہے گا۔

اہرمن را زندہ کرد افسونِ غرب
روزِ یزداں زرد رو از بیمِ شب

مغرب کے جادو نے اہرمن (شیطان) کو زندہ کر دیا ہے، اور خدا کا دن رات کے خوف سے زرد ہے۔

اے خدایانِ کہن وقت است وقت
اے پرانے خداؤ (یہی) وقت ہے وقت ہے (تمھارے عروج کا)۔

چوتھا بند

بندِ دیں از گردنش باید کشود
بندۂ ما بندۂ آزاد بود

اُس یعنی مسلمانوں کی گردن سے دین کا پھندا کھول دینا چاہیئے کیونکہ ہمارا بندہ تو آزاد بندہ تھا اور یہ مخلتف قیود و حدود میں جکڑے ہوئے ہیں۔

تا صلوٰۃ او را گراں آید ہمے
رکعتے خواہیم و آں ہم بے سجود

چونکہ اس کیلیے نماز ایک کارِ گراں اور بوجھ بن چکی ہے سو ہم چاہتے ہیں کہ اس کیلیے ایک ہی رکعت ہو اور وہ بھی بغیر سجدے کے۔

جذبہ ہا از نغمہ می گردد بلند
پس چہ لذت در نمازِ بے سرود

چونکہ نغمہ و موسیقی سے جذبات بلند ہوتے ہیں سو اس نماز میں کیا لذت ہوگی جس میں راگ رنگ نہ ہو (سو ہماری نماز میں راگ رنگ بھی شامل ہوگا)۔

از خداوندے کہ غیب او را سزد
خوشتر آں دیوے کہ آید در شہود

اُس خدا سے جو غیب میں رہنا پسند کرتا ہے، (انسانوں کیلیے) وہ دیوتا زیادہ بہتر ہے جو سامنے اور مشاہدے میں ہو۔

اے خدایانِ کہن وقت است وقت
سو اے پرانے خداؤ (یہی) وقت ہے وقت ہے (تمھارے عروج کا)۔

یہاں علامہ اور انکے راہبر پیر رومی اس مجلس کو چھوڑ کر آگے بڑھتے ہیں اور فلکِ زہرہ کے دریا میں اترتے ہیں اور وہاں حضرت موسیٰ والے فرعون اور فیلڈ مارشل ہربرٹ کچنر کی روحوں کو دیکھتے ہیں اور ان سے گفتگو کرتے ہین۔ لارڈ کچنر ایک مشہور اور متنازعہ انگریز جنرل تھا جس نے درندگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے مشہور مجاہد مہدی سوڈانی کی قبر کھود ڈالی اور لاش کو سزا دی۔

اس ملاقات میں اسی واقعے کے متعلق باتیں ہیں لیکن ہم یہاں اس خوبصورت مجلس سے جدا ہوتے ہیں اس وعدے کے ساتھ کہ اس محفل میں پھر حاضر ہونگے۔

مزید پڑھیے۔۔۔۔

May 12, 2009

جاوید نامہ مصوّر سے ایک منظر کی تصاویر

"بانگِ درا کی بیشتر نظمیں میری طالب علمی کے زمانے کی ہیں، زیادہ پختہ کلام افسوس کہ فارسی میں ہوا۔۔۔۔۔۔۔ اس (بانگِ درا) سے زیادہ اہم کام یہ ہے کہ جاوید نامہ کا تمام و کمال ترجمہ کیا جائے، یہ نظم ایک قسم کی "ڈیوائن کامیڈی" ہے۔ مترجم کا اس سے یورپ میں شہرت حاصل کر لینا یقینی امر ہے اگر وہ ترجمے میں کامیاب ہو جائے، اور اگر اس ترجمہ کا کوئی عمدہ مصوّر (السٹریٹ) بھی کر دے تو یورپ اور ایشیا میں مقبول تر ہوگا۔ اس کتاب میں بعض بالکل نئے تخیلات ہیں اور مصوّر کے لیے بہت عمدہ مسالہ ہے۔"

یہ اُس خط سے ایک اقتباس ہے جو علامہ اقبال نے ڈاکٹر غلام محی الدین صوفی کو 30 مارچ 1933ء کو لکھا، صوفی صاحب نے انہیں بتایا تھا کہ ان (صوفی صاحب) کا ایک دوست "شکوہ" اور "جوابِ شکوہ" کا انگریزی منظوم ترجمہ کر رہا ہے۔

اسی طرح 25 جون 1935ء کو علامہ اقبال ایک مصوّر ضرار احمد کاظمی کو جو "شکوہ" اور "جوابِ شکوہ" کو مصوّر کر رہے تھے، لکھتے ہیں۔

"میری رائے میں میری کتابوں میں سے صرف "جاوید نامہ" ایک ایسی کتاب ہے جس پر مصوّر طبع آزمائی کرے تو دنیا میں نام پیدا کر سکتا ہے مگر اس کے لیے پوری مہارتِ فن کے علاوہ الہامِ الٰہی اور صرفِ کثیر کی ضرورت ہے۔"

اسی مصور کو اپنی وفات سے صرف تین دن پہلے 18 اپریل 1938ء کو لکھتے ہیں: "پوری مہارتِ فن کے بعد اگر آپ نے "جاوید نامہ" پر خامہ فرسائی کی تو ہمیشہ زندہ رہو گے۔"

ان تمام خطوط کے اقتباسات، جن سے علامہ اقبال کی نظر میں اپنی کتاب "جاوید نامہ" کی اہمیت اور اس کو مصوّر کرنے کی شدید خواہش ظاہر ہوتی ہے، میں نے "جاوید نامہ" کی ایک طبعِ خاص (ڈیلکس ایڈیشن) سے لیئے ہیں، جسے اقبال اکادمی پاکستان، لاہور نے 1982ء میں شائع کیا تھا۔ اس ڈیلکس ایڈیشن کی سب سے خصوصی بات یہ ہے کہ اس میں "جاوید نامہ" کے مختلف حصوں کی جمی انجنیئر کی مصوّر کی ہوئی تصاویر ہیں۔ دراصل جمی انجنیئر نے علامہ اقبال کے فرزند، ڈاکٹر جاوید اقبال کی اقامت گاہ کی دیواروں پر جاوید نامہ کے جملہ مناظر نقش کیے تھے اور انہی مناظر میں سے اقبال اکادمی نے 35 تصاویر جاوید نامہ کے مذکورہ ڈیلکس ایڈیشن میں شائع کی ہیں۔ کتاب میں شائع کرنے کیلیے تصاویر کو منتخب کرنے کا فریضہ ڈاکٹر جاوید اقبال نے سرانجام دیا تھا۔ اور اسی ایڈیشن میں سے چار تصاویر میں یہاں پیش کر رہا ہوں، یہ چار تصاویر "جاوید نامہ" کے ایک منظر کو واضح کرتی ہیں۔ ان تصاویر پر میں نے نہ صرف "جاوید نامہ" میں سے متعلقہ حصے کا نام لکھا دیا ہے بلکہ اس طبعِ خاص میں تصاویر کے نیچے جو اشعار دیئے گئے ہیں وہ بھی (مع ترجمہ) لکھ دیئے ہیں اور یوں علیحدہ علیحدہ تصویر بھی اپنی جگہ پر مکمل سی ہے۔ تصاویر کو بڑا دیکھنے کیلیے ان پر 'کلک' کیجیے۔

اس منظر کا سیاق و سباق کچھ یوں ہے کہ مولانا رومی، علامہ اقبال کو افلاک کی سیر پر اپنے ساتھ لے جاتے ہیں جسے علامہ نے "سیاحتِ عالمِ علوی" کا نام دیا ہے۔ اپنے اس سفر پر سب سے پہلے وہ "فلکِ قمر" پر پہنچتے ہیں اور وہاں پر چاند کی ایک وادی "یرغمید" کو دیکھتے ہیں۔ اس وادی میں رومی، علامہ کو نبوت کے چار مناظر دکھاتے ہیں۔ اس تصویر میں اسی منظر کی بیان کیا گیا ہے اور اگلی تصاویر میں انہی مناظر کو بڑا کر کے دکھایا گیا ہے۔ اس تصویر میں مولانا رومی علامہ کو سنگِ قمر کی دیورا پر نقش چار "طاسینِ نبوت" یا نبوت کی تعلیمات دکھاتے ہیں جن کی تفصیل نیچے آ رہی ہے، یہ بات بھی قابلِ ذکر ہے کہ ان حصوں کے عناوین سے بھی علامہ کے تخیل کا اوج دکھائی دیتا ہے۔

Persian poetry, Persian Poetry with Urdu translation, Farsi poetry, Farsi poetry with urdu translation, Allama Iqbal, علامہ اقبال, Javiad Nama, جاوید نامہ, Maulana Rumi, مولانا رومی
طاسینِ گوتم - توبہ آوردن زنِ رقاصۂ عشوہ فروش یعنی گوتم کی تعلیمات، ایک عشوہ فروش رقاصہ کا توبہ کرنا۔ یہ دراصل گوتم بدھ اور ایک رقاصہ کا مکالمہ ہے، جس میں گوتم بدھ رقاصہ سے بات کرتا ہے اور جواباً رقاصہ توبہ کرتی ہے۔
Persian poetry, Persian Poetry with Urdu translation, Farsi poetry, Farsi poetry with urdu translation, Allama Iqbal, علامہ اقبال, Javiad Nama, جاوید نامہ, Maulana Rumi, مولانا رومی
اس سے اگلے حصے کا نام "طاسینِ زرتشت - آزمایش کردن اہرمن زرتشت را" یعنی زرتشت کی تعلیمات، اہرمن (شیطان) کا زرتشت کی آزمائش کرنا۔ یہ بھی ایک مکالمہ ہے جس میں اہرمن، زرتشت کو بہکانے کی کوشش کرتا ہے اور جواباً زرتشت اپنے نظریات بیان کرتا ہے۔
Persian poetry, Persian Poetry with Urdu translation, Farsi poetry, Farsi poetry with urdu translation, Allama Iqbal, علامہ اقبال, Javiad Nama, جاوید نامہ, Maulana Rumi, مولانا رومی

اس سے اگلا حصہ بھی دلچسپ ہے، "طاسینِ مسیح، رویائے حکیم طالسطائی" یعنی مسیح (ع) کی تعلیمات، حکیم ٹالسٹائی کا خواب۔ افسوس کہ اس منظر کی بڑی تصویر ڈاکٹر جاوید اقبال نے کتاب کے لیے منتخب نہیں کی (نہ جانے کیوں) لیکن پہلی تصویر میں اسے دیکھا جا سکتا ہے۔ اس میں مشہور روسی ناول نگار اور مذہبی مصلح، ٹالسٹائی کا ایک خواب علامہ نے دکھایا ہے کہ ایک شخص چاندی کی ندی کے پارے میں کمر تک غرق ہے اور ندی کے کنارے ایک ساحر اور حسین عورت کھڑی ہے اور ان کے درمیان ایک مکالمہ ہوتا ہے، وہ عورت، جسے علامہ نے افرنگیں کا نام دیا ہے اور وہ استعارہ ہے مغربی تہذیب کا، اس مرد (یہودیوں) کو طعنہ مارتی ہے کہ تم لوگوں نے مسیح کے ساتھ کیا کیا کہ ان کو سولی پر لٹکا دیا اور اب چاندی کے (یعنی میرے پجاری) بنے ہوئے ہو اور جواب میں وہ شخص اس پر اعتراضات کرتا ہے کہ تم نے ہم لوگوں کو گمراہ کر دیا، یہ دراصل وہ اعتراضات ہیں جو ٹالسٹائی نے اپنی تصنیفات میں عیسائی مذہب پر کیے تھے۔ اس حصے کا یہ شعر بہت خوبصورت ہے۔

آنچہ ما کردیم با ناسوتِ اُو
ملّتِ اُو کرد با لاہوتِ اُو

(وہ شخص، اس عورت کو جواب دیتے ہوئے کہتا ہے کہ) کہ ہم نے جو کچھ بھی اُس (عیسیٰ ع) کے جسم (ناسوت) کے ساتھ کیا، ان کی ملّت نے وہی کچھ ان کی روح (لاہوت) کے ساتھ کیا، یعنی ہم نے تو فقط عیسیٰ کے جسم کو سولی پر چڑھایا تھا، ان کی قوم نے انکی روح کو سولی پر چڑھا دیا۔

اور اس منظر کا آخری حصہ بھی انتہائی دلچسپ پے، "طاسینِ محمد، نوحہ روحِ ابوجہل در حرمِ کعبہ" یعنی حضرت محمد (ص) کی تعلیمات، ابوجہل کی روح کا حرمِ کعبہ میں نوحہ، یہ مکمل حصہ میں اپنے بلاگ پر پوسٹ کر چکا ہوں، خواہش مند قارئین اس ربط پر اسے پڑھ سکتے ہیں، اس میں ابوجہل کی روح حرم کعبہ میں نوحہ کرتی ہے اور بیان کرتی ہے کہ انکے اور انکے بتوں کے ساتھ حضرت محمد (ص) نے کیا کیا۔ یہ تصویر میں نے اُس پوسٹ میں بھی شامل کر دی ہے۔
Persian poetry, Persian Poetry with Urdu translation, Farsi poetry, Farsi poetry with urdu translation, Allama Iqbal, علامہ اقبال, Javiad Nama, جاوید نامہ, Maulana Rumi, مولانا رومی
جمی انجنیئر اپنی اس کاوش میں کس حد تک کامیاب رہے، یہ تو علامہ ہی بہتر بتا سکتے تھے اگر وہ زندہ ہوتے لیکن بہرحال انکی کاوش قابلِ تحسین ہے۔

مزید پڑھیے۔۔۔۔

Mar 2, 2009

حرمِ کعبہ میں ابوجہل کی روح کا نوحہ - جاوید نامہ از اقبال سے اشعار

جاوید نامہ اقبال کا ایک ایسا شاہکار ہے جس کو وہ اپنا حاصلِ زندگی سمجھتے تھے اور وہ ہے بھی۔ دراصل یہ اقبال کا افلاک کا ایک سفر نامہ ہے جس پر مولانا رومی انہیں ساتھ لے جاتے ہیں۔ اس سفر میں وہ مختلف سیاروں اور آسمانوں کی سیر کرتے ہیں اور کئی مشاہیر سے ملاقاتیں کرتے ہیں۔
جاوید نامہ کا تفصیلی تعارف انشاءاللہ پھر کسی وقت لکھوں گا، یہاں پر نیچے جو تین بند ہیں انکا سیاق و سباق لکھ دیتا ہوں تا کہ ان کو صحیح طور پر سمجھا جا سکے۔
اقبال اور رومی جب آسمانوں کے سفر پر نکلتے ہیں تو سب سے پہلے "فلکِ قمر" پر پہنچتے ہیں۔ فلک قمر پر انکی ملاقات ایک "جہاں دوست" سے ہوتی ہے، جہاں دوست دراصل ایک قدیم ہندو رشی "وشوامتر" ہے۔ وشوامتر سے باتیں کر کے وہ چاند کی ایک وادی یرغمید کی طرف جاتے ہیں جسے فرشتوں نے وادیِ طواسین کا نام دے رکھا ہے (یہ دونوں نام ظاہر ہے اقبال نے ہی دیے ہیں)۔
طواسین، دراصل طاسین کی جمع ہے، اور منصور حلاج کی کتاب کا نام ہے، منصور نے طواسین سے مراد تجلیات لیا ہے جبکہ علامہ نے یہاں اس سے مراد تعلیمات لیا ہے۔ وادیِ طواسین میں علامہ نے گوتم بدھ، زرتشت، حضرت عیسٰی (ع) اور حضرت مُحمّد (ص) کی تعلیمات بیان کی ہیں۔
اس مقام پر میں پچھلے کئی برسوں سے اٹکا ہوا ہوں اور جب بھی جاوید نامہ کا یہ حصہ نظر سے گزرتا ہے دل بے اختیار اقبال کی عظمت کو سلام کر اٹھتا ہے۔ اقبال کی فکر کا عروج ہے کہ یہ تعلیمات چار مختلف انداز سے بیان کی ہیں۔ گوتم کی تعلیمات کا عنوان ہے "طاسینِ گوتم، توبہ آوردن زنِ رقاصہ عشوہ فروش" یعنی ایک عشوہ فروش رقاصہ کا توبہ کرنا۔ اس میں گوتم بدھ اور رقاصہ کا مکالمہ لکھا ہے۔ زرتشت کی تعلیمات کا عنوان "آزمایش کردن اہرمن زرتشت را" یعنی اہرمن (شیطان) کا زرتشت کی آزمایش کرنا اور ان دونوں کا مکالمہ ہے۔ حضرت مسیح (ع) کی تعلیمات "رویائے حکیم طالسطائی" یعنی مشہور روسی ناول نگار، مفکر اور مصلح ٹالسٹائی کے خواب کی صورت میں بیان کی ہیں۔
حضرت مُحمّد (ص) کی تعلیمات "نوحہ رُوحِ ابو جہل در حرمِ کعبہ" یعنی ابوجہل کی روح کا حرم کعبہ میں نوحے کی صورت میں بیان کی ہیں۔ ایک بار پھر یہاں اقبال کی عظمت اور اوجِ خیال اور انفرادیت کو سلام کرتے ہی بن پڑتی ہے۔ اقبال نے یہاں اس انسانی اور نفسیاتی نکتے سے کام لیا ہے کہ آپ کا دشمن آپ پر جو جو الزام لگائے گا اور جو جو آپ کے نقائص بیان کرے گا وہ دراصل آپ کی خوبیاں ہیں۔
اس پس منظر کو ذہن میں رکھتے ہوئے دیکھتے ہیں کہ علامہ کیا فرماتے ہیں۔
طاسینِ مُحمّد
نوحہ رُوحِ ابوجہل در حرمِ کعبہ

سینۂ ما از مُحمّد داغ داغ
از دمِ اُو کعبہ را گل شُد چراغ
ہمارا سینہ محمد (ص) کی وجہ سے داغ داغ ہے، اسکے دم (پھونک) سے کعبہ کا چراغ بجھ گیا۔
از ہلاکِ قیصر و کسریٰ سرُود
نوجواناں را ز دستِ ما ربُود
اُس نے قیصر و کسریٰ (بادشاہوں) کی بربادی کی باتیں کیں، وہ نوجوانوں کو ہمارے ہاتھوں میں سے اچک کر لے گیا۔
ساحر و اندر کلامَش ساحری است
ایں دو حرفِ لااِلٰہ خود کافری است
وہ جادوگر ہے اور اس کے کلام کے اندر جادوگری ہے، یہ دو حرف لاالہ (کوئی معبود نہیں) تو خود کافری ہے کہ ہر کسی کا انکار کیا جا رہا ہے۔
تا بساطِ دینِ آبا دَر نَوَرد
با خداوندانِ ما کرد، آنچہ کرد
جب اس نے ہمارے آبا و اجداد کے دین کی بساط الٹ دی تو ہمارے خداؤں کے ساتھ جو کچھ کیا وہ ناقابل بیان ہے۔Persian poetry, Persian Poetry with Urdu translation, Farsi poetry, Farsi poetry with urdu translation, Allama Iqbal, علامہ اقبال, Javiad Nama, جاوید نامہ, Maulana Rumi, مولانا رومی
پاش پاش از ضَربتَش لات و منات
انتقام از وے بگیر اے کائنات
اس کی ضرب سے لات و منات پاش پاش ہو گئے، اے کائنات (اسکے اس فعل و جرأت پر) اس سے انتقام لے۔
دل بہ غایب بست و از حاضر گَسَست
نقشِ حاضر را فسونِ او شکست
اس نے غائب سے دل لگایا ہے اور جو حاضر ہیں (بُت) ان سے ناطہ توڑا، اسکے جادو نے حاضر کے نقش کو توڑ دیا۔
دیدہ بر غایب فرو بَستَن خطاست
آنچہ اندر دیدہ می نایَد کجاست
غایب پر نگاہ مرکوز رکھنا (دل لگانا) خطا ہے، جو نظر ہی نہیں آتا وہ کہاں ہے (اس کا کیا وجود جو نظر ہی نہ آئے)۔
پیشِ غایب سجدہ بردَن کُوری است
دینِ نو کُور است و کوری دُوری است
غایب کے سامنے سجدہ کرنا تو اندھا پن ہے، یہ نیا دین اندھا پن ہے اور اندھا پن (حاضر کو نہ دیکھ پانا) تو دوری ہے، فراق ہے۔
خُم شُدَن پیشِ خدائے بے جہات
بندہ را ذوقے نَبَخَشد ایں صلٰوت
بے جہات خدا کے سامنے جھکنا، بندے کو یہ (ایسی) نماز کوئی ذوق عطا نہیں کرتی، اس شعر میں اقبال نے یہ نکتہ بھی بیان کیا ہے اسی نماز میں ذوق ہے جس میں بندہ خدا کو سامنے دیکھے یعنی مشہور حدیث کی طرف اشارہ ہے۔

مذہَبِ اُو قاطعِ مُلک و نسَب
از قریش و منکر از فضلِ عرَب
اس کا مذہب ملک و نسب کو کاٹتا ہے، یعنی مساوات کا درس دیتا ہے، وہ قریش اور عرب کی فضیلت کا منکر ہے۔
در نگاہِ اُو یکے بالا و پست
با غُلامِ خویش بر یک خواں نشست
اسکی نگاہ میں اعلٰی اور ادنٰی ایک برابر ہیں، وہ اپنے غلام کے ساتھ ایک ہی دستر خوان پر بیٹھا۔
قدرِ احرارِ عرب نشناختہ
با کَلِفتانِ حبَش در ساختہ
اس نے عرب کے آزاد بندوں کی قدر نہیں جانی، اس نے افریقہ کے بد صورتوں (اور غلاموں) سے موافقت پیدا کر لی۔
احمَراں با اسوَداں آمیختَند
آبروئے دُودمانے ریختَند
اس نے سرخ رنگ والوں (عربوں) کو سیاہ رنگ والوں (حبشیوں) کے ساتھ ملا دیا، اس نے خاندان کی عزت مٹی میں ملا دی۔
ایں مساوات ایں مواخات اعجمی است
خوب می دانَم کہ سلماں مزدکی است
یہ مساوات اور بھائی چارے کی باتیں عجمی ہیں، میں خوب جانتا ہوں کہ سلمان (فارسی رض) مزدکی ہے۔ مزدک پانچویں صدی عیسوی کے آخر اور چھٹی صدی کے قبل کا ایک ایرانی مصلح تھا جس نے مساوات کی بات کی، ایرانی بادشاہ صباد نے اسکے نظریات قبول بھی کر لیے لیکن بعد میں اس نے اپنے بیٹے اور ولی عہد خسرو نوشیرواں کے ہاتھوں مزدک اور اسکے لاکھوں معتقدین کا قتلِ عام کروا دیا۔ ابو جہل یہ کہنا چاہ رہا ہے کہ سلمان فارسی (رض) بھی مزدکی ہیں اور انہوں ہی نے ہی حضرت محمد (ص) کو مساوات کی باتیں سکھائی ہیں وگرنہ عرب میں ان باتوں کا کیا کام۔
ابنِ عبداﷲ فریبَش خوردہ است
رستخیزی بر عرب آوردہ است
عبداللہ کے بیٹے (حضرت محمد ص) نے اسی (سلمان) کا فریب کھایا ہے اور عرب پر (مساوات) کی جنگ مسلط کر دی ہے۔
عترتِ ہاشم ز خود مہجور گشت
از دو رکعت چشمِ شاں بے نور گشت
ہاشم کا خاندان اپنے آپ (اپنی فضیلت) سے ہی دور ہو گیا ہے، دو رکعت کی نماز نے انکی آنکھوں کو بے نور کر دیا ہے۔
اعجمی را اصلِ عدنانی کجاست
گنگ را گفتارِ سحبانی کجاست
عجمیوں کو عدنانیوں (قریش کے جدِ امجد عدنان) سے کیا نسبت ہو سکتی ہے، گونگا کہاں اور سبحانی کی گفتار کہاں۔ (سبحاں زمانۂ اسلام کا ایک نامور اور شعلہ بیاں خطیب و مقرر تھا، فتح مکہ کے بعد اسلام قبول کیا اور بعد میں امیر معاویہ کے مصاحبین مین شامل ہو کر خطیب العرب کا خطاب پایا)۔
چشمِ خاصانِ عرب گردیدہ کور
بر نیائے اے زہَیر از خاک گور
عرب کے خاص لوگوں کی آنکھ اندھی ہو گئی ہے، اے زُہیر اپنی قبر سے اٹھ کھڑا ہو۔ (زہیر عرب کا نامور شاعر جو اسلام کے خلاف شعر کہہ کر عربیوں کو مسلمانوں کے خلاف ابھارتا تھا)۔
اے تو ما را اندریں صحرا دلیل
بشکن افسونِ نوائے جبرئیل
اے (زہیر) تو صحرا (عرب) میں ہمارا رہبر ہے، تو جبرائیل کی نوا یعنی قرآن کا جادو (اپنی شاعری سے) توڑ دے۔

باز گو اے سنگِ اسوَد باز گوے
آں چہ دیدیم از مُحمّد باز گوے
پھر بیان کر اے کالے پتھر (حجر اسود در کعبہ) پھر بیان کر، محمد (ص) کے ہاتھوں جو کچھ ہم نے دیکھا (ہم ہر جو گزری وہ اتنی دردناک کہانی ہے کہ) پھر بیان کر۔
اے ہبَل، اے بندہ را پوزش پذیر
خانۂ خود را ز بے کیشاں بگیر
اے ہبل (قریش کا مشہور بت و معبود) اے بندوں کے عذر قبول کرنے والے، اپنے گھر (کعبہ) کو ان بے دینوں سے واپس لے لے۔
گلّۂ شاں را بہ گُرگاں کن سبیل
تلخ کن خرمائے شاں را بر نخیل
ان کے بھیڑوں کے گلے کو بھیڑیوں کے حوالے کر، انکی کھجوروں کو درختوں پر ہی تلخ کر دے۔
صرصرے دہ با ہوائے بادیہ
"أَنَّهُمْ أَعْجَازُ نَخْلٍ خَاوِيَۃ"
ان پر صحرا کی ہوا کو صرصر (تند و تیز و گرم طوفانی ہوا) بنا کر بھیج، تا کہ وہ اس طرح گر جائیں جیسے کھجور کے کھوکھلے تنے۔ دوسرا مصرع سورۃ الحاقہ کی ایک آیت کا ٹکڑا ہے۔
اے منات اے لات ازیں منزل مَرَو
گر ز منزل می روی از دل مَرَو
اے لات و منات اس منزل (کعبہ) سے مت جاؤ، اگر اس منزل سے چلے بھی جاؤ تو ہمارے (عرب و قریش) کے دلوں سے مت جاؤ۔
اے ترا اندر دو چشمِ ما وثاق
مہلتے، "اِن کُنتِ اَزمَعتِ الِفراق"
اے وہ کہ تمھارا ہماری آنکھوں کے اندر گھر ہے، اگر تم نے جدا ہونے کا فیصلہ کر ہی لیا ہے تو مہلت تو دو، کچھ دیر تو ٹھہرو۔ عربی ٹکڑا مشہور عربی شاعر امراء القیس کے ایک شعر کا پارہ ہے۔

انہی اشعار کے ساتھ اقبال فلکِ قمر سے رومی کی معیت میں فلکِ عطارد کی طرف سفر کر جاتے ہیں۔

مزید پڑھیے۔۔۔۔