Showing posts with label مرزا غالب. Show all posts
Showing posts with label مرزا غالب. Show all posts

May 16, 2011

ایک زمین تین شاعر - غالب، داغ، امیر مینائی

اپنے بلاگ کے قارئین کی خدمت میں اس سے پہلے فارسی کے تین شعراء، مولانا رومی، مولانا عراقی اور علامہ اقبال کی تین غزلیات پیش کی تھیں جو ایک ہی زمین میں تھیں، آج اردو کے تین مشہور شعراء، مرزا غالب، نواب داغ دہلوی اور مُنشی امیر مینائی کی غزلیات پیش کر رہا ہوں جو ایک ہی زمین میں ہیں۔ غالب کی غزل تو انتہائی مشہور ہے، دیگر دونوں غزلیں بھی خوب ہیں۔ غزلیات بشکریہ کاشفی صاحب، اردو محفل فورم۔

غزلِ غالب

یہ نہ تھی ہماری قسمت کہ وصالِ یار ہوتا
اگر اور جیتے رہتے، یہی انتظار ہوتا

ترے وعدے پہ جئے ہم تو یہ جان جھوٹ جانا
کہ خوشی سے مر نہ جاتے اگر اعتبار ہوتا

تری نازکی سے جانا کہ بندھا تھا عہد بودا
کبھی تُو نہ توڑ سکتا اگر استوار ہوتا

کوئی میرے دل سے پوچھے ترے تیرِ نیم کش کو
یہ خلش کہاں سے ہوتی جو جگر کے پار ہوتا

یہ کہاں کی دوستی ہے کہ بنے ہیں دوست ناصح
کوئی چارہ ساز ہوتا، کوئی غمگسار ہوتا
urdu poetry, urdu ghazal, ilm-e-arooz, taqtee, Mirza Ghalib, مرزا غالب
Mirza Ghalib, مرزا غالب
رگِ سنگ سے ٹپکتا وہ لہو کہ پھر نہ تھمتا
جسے غم سمجھ رہے ہو یہ اگر شرار ہوتا

غم اگرچہ جاں گسِل ہے، پہ کہاں بچیں کہ دل ہے
غمِ عشق گر نہ ہوتا، غمِ روزگار ہوتا

کہوں کس سے میں کہ کیا ہے، شب غم بری بلا ہے
مجھے کیا بُرا تھا مرنا اگر ایک بار ہوتا

ہوئے مر کے ہم جو رُسوا، ہوئے کیوں‌ نہ غرقِ دریا
نہ کبھی جنازہ اُٹھتا، نہ کہیں مزار ہوتا

اُسے کون دیکھ سکتا کہ یگانہ ہے وہ یکتا
جو دوئی کی بو بھی ہوتی تو کہیں دوچار ہوتا

یہ مسائلِ تصوّف، یہ ترا بیان غالب
تجھے ہم ولی سمجھتے جو نہ بادہ خوار ہوتا

------------------

غزلِ داغ

عجب اپنا حال ہوتا جو وصال یار ہوتا
کبھی جان صدقے ہوتی، کبھی دل نثار ہوتا

کوئی فتنہ تاقیامت نہ پھر آشکار ہوتا
ترے دل پہ کاش ظالم مجھے اختیار ہوتا

جو تمہاری طرح تم سے کوئی جھوٹے وعدے کرتا
تمہیں منصفی سے کہہ دو، تمہیں اعتبار ہوتا؟

غمِ عشق میں مزہ تھا جو اسے سمجھ کے کھاتے
یہ وہ زہر ہے کہ آخر، مئے خوشگوار ہوتا

نہ مزہ ہے دشمنی میں، نہ ہے لطف دوستی میں
کوئی غیر غیر ہوتا، کوئی یار یار ہوتا
urdu poetry, urdu ghazal, ilm-e-arooz, taqtee, Dagh Dehlvi, داغ دہلوی
Dagh Dehlvi, داغ دہلوی
یہ مزہ تھا دل لگی کا کہ برابر آگ لگتی
نہ تجھے قرار ہوتا، نہ مجھے قرار ہوتا

ترے وعدے پر ستمگر، ابھی اور صبر کرتے
اگر اپنی زندگی کا ہمیں اعتبار ہوتا

یہ وہ دردِ دل نہیں ہے کہ ہو چارہ ساز کوئی
اگر ایک بار ملتا، تو ہزار بار ہوتا

گئے ہوش تیرے زاہد جو وہ چشمِ مست دیکھی
مجھے کیا الٹ نہ دیتی، جو نہ بادہ خوار ہوتا

مجھے مانتے سب ایسا کہ عدو بھی سجدے کرتے
درِ یار کعبہ بنتا جو مرا مزار ہوتا

تمہیں ناز ہو نہ کیونکر، کہ لیا ہے داغ کا دل
یہ رقم نہ ہاتھ لگتی، نہ یہ افتخار ہوتا

---------------------

غزلِ امیر مینائی

مرے بس میں یا تو یا رب، وہ ستم شعار ہوتا
یہ نہ تھا تو کاش دل پر مجھے اختیار ہوتا

پسِ مرگ کاش یوں ہی، مجھے وصلِ یار ہوتا
وہ سرِ مزار ہوتا، میں تہِ مزار ہوتا

ترا میکدہ سلامت، ترے خم کی خیر ساقی
مرا نشہ کیوں اُترتا، مجھے کیوں‌ خمار ہوتا
urdu poetry, urdu ghazal, ilm-e-arooz, taqtee, Ameer Meenia, امیر مینائی
Ameer Meenia, امیر مینائی
مرے اتّقا کا باعث، تو ہے میری ناتوانی
جو میں توبہ توڑ سکتا، تو شراب خوار ہوتا

میں ہوں‌ نامراد ایسا کہ بلک کے یاس روتی
کہیں پا کے آسرا کچھ جو امیدوار ہوتا

نہیں پوچھتا ہے مجھ کو، کوئی پھول اس چمن میں
دلِ داغدار ہوتا تو گلے کا ہار ہوتا

وہ مزا دیا تڑپ نے کہ یہ آرزو ہے یا رب
مرے دونوں پہلوؤں میں، دلِ بے قرار ہوتا

دمِ نزع بھی جو وہ بُت، مجھے آ کے مُنہ دکھاتا
تو خدا کے منہ سے اتنا نہ میں شرم سار ہوتا

نہ مَلَک سوال کرتے، نہ لَحَد فشار دیتی
سرِ راہِ کوئے قاتل، جو مرا مزار ہوتا

جو نگاہ کی تھی ظالم، تو پھر آنکھ کیوں چُرائی
وہی تیر کیوں نہ مارا، جو جگر کے پار ہوتا

میں زباں سے تم کو سچّا، کہو لاکھ بار کہہ دُوں
اسے کیا کروں کہ دل کو نہیں اعتبار ہوتا

مری خاک بھی لَحَد میں، نہ رہی امیر باقی
انہیں مرنے ہی کا اب تک، نہیں اعتبار ہوتا

------------
بحر - بحر رمل مثمن مشکول
افاعیل - فَعِلاتُ فاعِلاتُن / فَعِلاتُ فاعِلاتُن
یہ ایک مقطع بحر ہے یعنی ہر مصرع دو مساوی ٹکڑوں میں تقسیم ہوتا ہے اور ہر ٹکڑا بھی ایک مصرعے کے حکم میں آ سکتا ہے یعنی اس میں عملِ تسبیغ کیا جا سکتا ہے۔
اشاری نظام - 1211 2212 / 1211 2212
ہندسوں کو اردو طرز پر پڑھیے یعنی دائیں سے بائیں یعنی 1211 کا ٹکڑا پہلا ہے اور اس میں بھی 11 پہلے ہے۔
تقطیع
غالب کے مطلعے کی تقطیع درج کر رہا ہوں، تینوں غزلوں کے تمام اشعار اس بحر میں تقطیع ہونگے۔

یہ نہ تھی ہماری قسمت کہ وصالِ یار ہوتا
اگر اور جیتے رہتے، یہی انتظار ہوتا

یِ نہ تھی ہَ - فعلات - 1211
ما رِ قسمت - فاعلاتن - 2212
کہ و صا ل - فعلات - 1211
یار ہوتا - فاعلاتن - 2212

اَ گَ رو ر - فعلات - 1211 (الفِ وصل کا ساقط ہونا نوٹ کریں)۔
جی تِ رہتے - فاعلاتن - 2212
یَ ہِ ان تِ - فعلات - 1211
ظار ہوتا - فاعلاتن - 2212

----------
مزید پڑھیے۔۔۔۔

Jan 5, 2010

فارسی غزلِ غالب مع تراجم - مژدۂ صبح دریں تیرہ شبانم دادند

غالب کی درج ذیل غزل کا شمار بھی غالب کی شاہکار غزلوں میں سے ہوتا ہے۔ یہ غزلِ مسلسل ہے اور اس میں غالب کی شاعرانہ تعلی عروج پر ہے۔ غالب کو اپنی شاعرانہ عظمت اور منفرد شخصیت کا بھر پور اور شدید احساس تھا اور اردو کلام میں بھی انہوں نے اس کا اظہار کیا ہے لیکن اس غزل میں تو اس موضوع کو انہوں نے دوام بخش دیا ہے۔ صوفی غلام مصطفیٰ تبسم کے الفاظ میں "اس میں صرف حسنِ بیان ہی نہیں بلکہ شعر کہنے والے کے دل و دماغ اور اسکی سوچ کی گہرائی اور وسعت کا بخوبی اندازہ ہو جاتا ہے۔ اسلوبِ بیان کی فنکارانہ مہارت اور ندرت نے اشعار میں بڑا حسین لطف پیدا کیا ہے"۔

اس غزل کے اشعار 3 تا 8 خاص اہمیت کے حامل ہیں۔ مولانا الطاف حسین حالی ان اشعار کے متعلق یادگارِ غالب میں ارشاد فرماتے ہیں۔ "قضا و قدر نے جو کچھ عرب کی فتوحات کے وقت عجم سے چھینا اسکے عوض میں مجھ کو، کہ میں بھی عجمی الاصل ہوں، کچھ نہ کچھ دیا"۔

صوفی تبسم نے مولانا حالی کی رائے سے تھوڑا اختلاف کیا ہے، فرماتے ہیں "خادم اس سلسلے میں صرف اتنا کہنے کی جسارت کرتا ہے کہ مجھے مولانا کے الفاظ عرب کی فتوحات سے اختلاف ہے۔ مرزا صاحب اپنے آپ کو ایرانی اور تورانی، تہذیبی روایت کا وارث سمجھتے تھے اور اس پر نازاں تھے، اور اس بات کو قدرت کی طرف منسوب کرتے تھے۔ قدیم ایرانی شوکت و جاہ سے انھیں جو کچھ ملا، وہ تاج و گوہر کی صورت میں نہیں بلکہ ادب پاروں کی شکل میں ملا"۔

پروفیسر رالف رسل، مطلع کے بعد باقی کے اشعار کے متعلق یوں رائے زن ہیں۔

"The remaining verses lament the passing of the glory and the beauty of ancient, pre-Islamic Iran, where fire was worshiped, wine was drunk, there were idols in the temples, and the blowing of conches accompanied worship. Ghalib claims he is the heir to all this, and that his poetry has the power to re-create it............ Ghalib prided himself on this ability."


غزل پیشِ خدمت ہے۔
Mirza Ghalib, مرزا غالب, Persian poetry, Persian Poetry with Urdu translation, Farsi poetry, Farsi poetry with urdu translation,
Mirza Ghalib, مرزا غالب
شعرِ غالب
مژدۂ صبح دریں تیرہ شبانم دادند
شمع کشتند و ز خورشید نشانم دادند

صوفی غلام مصطفٰی تبسم
ان سیاہ راتوں میں مجھے صبح کی بشارت دی گئی۔ شمع کو بجھا دیا اور سورج کی نشان دہی کی گئی۔

افتخار احمد عدنی
شمع گل کرکے سحر نور فشاں دی مجھ کو
اور اک طلعتِ خورشید نشاں دی مجھ کو

پروفیسر رالف رسل
In my dark nights they brought me the good tidings of the morning
Put out the candles, turning me towards the rising sun


شعرِ غالب
رخ کشودند و لب ہرزہ سرایم بستند
دل ربودند و دو چشمِ نگرانم دادند

صوفی تبسم
مجھے اپنا جلوہ دکھا کر میرے بیہودہ گو لبوں کو سی دیا گیا، میرا دل چھین لیا اور اسکے عوض دیکھنے والی دو آنکھیں عطا کر دی گئیں۔

عدنی
اک جھلک ایسی دکھائی کہ کیا مہر بلب
دل مرا چھین کے چشمِ نگراں دی مجھ کو

رسل
They showed their faces, and at once my babbling tongue was silenced
They took my heart away from me, and gave me eyes to see


شعرِ غالب
سوخت آتش کدہ ز آتش نفسم بخشیدند
ریخت بتخانہ ز ناقوس فغانم دادند

صوفی تبسم
آتش کدہ جل کر راکھ ہوا تو اسکی آگ میرے سانس کو مل گئی۔ بت خانہ گرا تو اسکے ناقوس کی فریاد مجھے عطا ہوئی۔

عدنی
سرد آتشکدہ کرکے مجھے آتش بخشی
ہوا ناقوس جو خاموش، فغاں دی مجھ کو

رسل
They burnt the fire-temples, and breathed their fire into my spirit
Cast idols down, and let the conches sound in my lament


شعرِ غالب
گہر از رایتِ شاہانِ عجم برچیدند
بعوض خامۂ گنجینہ فشانم دادند

صوفی تبسم
شاہانِ عجم کے جھنڈوں کے موتی اُتار لیے گئے اور اسکے عوض وہ قلم عنایت ہوا جو خزانہ لٹانے والا ہے۔

عدنی
سب گہر رایتِ شاہانِ عجم کے چن کر
اک قلم، نادر و گنجینہ فشاں دی مجھ کو

رسل
They plucked the pearls that once had decked the banner of their kings
And gave me them to scatter from the treasury of my pen


شعرِ غالب
افسر از تارکِ ترکانِ پشنگی بردند
بسخن ناصیۂ فرکیانم دادند

صوفی تبسم
ترکوں کے سر سے تاج اتار لیا گیا اور مجھ کو شاعری میں اقبالِ کیانی مرحمت ہوا۔


شعرِ غالب
گوہر از تاج گسستند و بدانش بستند
ہر چہ بردند بہ پیدا، بہ نہانم دادند

صوفی تبسم
تاج سے موتی توڑ لیے گئے اور انھیں علم و دانش میں جڑ دیا گیا، جو کچھ علی الاعلان لوٹا تھا وہ مجھے خاموشی اور پوشیدہ طور پر دے دیا۔

عدنی
تھے جو سب تاج کے گوہر مری دانش میں جڑے
اور خاموشی سے یہ نقدِ گراں دی مجھ کو

رسل
Prised from their crown, they set the jewels in my crown of wisdom
All that men saw them take away, they secretly gave back


شعرِ غالب
ہر چہ در جزیہ ز گبراں، مئےِ ناب آوردند
بشبِ جمعۂ ماہِ رمضانم دادند

صوفی تبسم
آتش پرستوں سے جو شراب جزیے کے طور پر لی گئی، وہ ماہ رمضان کی شبِ جمعہ کو مجھے عنایت ہوئی۔

عدنی
وہ مےِ ناب جو ہاتھ آئی بطورِ جزیہ
بہ شبِ جمعۂ ماہِ رمضاں دی مجھ کو

رسل
The wine they took as tribute from the worshippers of fire
They gave to me one Friday in the month of Ramazan


شعرِ غالب
ہر چہ از دستگہِ پارس بہ یغما بردند
تا بنالم ہم ازآں جملہ زبانم دادند

صوفی تبسم
غرض کہ پارس کی جو پونجی لٹ گئی تھی، اس میں سے زبان مجھے دے دی تاکہ میں فریاد کروں۔

عدنی
فارس کی ساری متاع لوٹ کے اس کے بدلے
بہرِ فریاد فقط ایک زباں دی مجھ کو

رسل
From all they took in booty from the treasures of Iran
They gave to me a tongue in which to utter my lament


شعرِ غالب
دل ز غم مردہ و من زندہ ہمانا ایں مرگ
بود ارزندہ بماتم کہ امانم دادند

صوفی تبسم
میرا دل تو (غم) سے مر چکا ہے لیکن میں زندہ ہوں، اسکی وجہ لازماً یہی ہے کہ موت میرے ماتم کے مناسب تھی، اس سے مجھے محفوظ رکھا اور اسے سلامت رکھا تاکہ وہ میرا ماتم کرتی رہے۔

مزید پڑھیے۔۔۔۔

Dec 30, 2009

غالب کے لطیفے

مولانا الطاف حسین حالی نے 'یادگارِ غالب' میں مرزا غالب کو 'حیوانِ ظریف' لکھا ہے اور یقیناً کچھ سوچ سمجھ کر ہی لکھا ہوگا، دراصل مرزا کی بذلہ سنجی، ستم ظریفی اور ذوقِ مزاح ہمیں جا بجا مرزا کی تحاریر و تقاریر اور انکی روزمرہ کی زندگی میں ملتا ہے جنہیں بڑی آسانی سے 'لطائف' کا نام دیا جا سکتا ہے سو انہی لطائف کو جو اِدھر اُدھر بکھرے ہوئے تھے ان کو اس خاکسار نے غالب کے شائقین کیلیے مرتب کیا تھا، جس میں ظاہر ہے میرا اپنا نام بھی شامل ہے۔ یہ لطائف یقیناً بہت سے احباب کیلیے نئے نہیں ہونگے کہ ان میں سے کچھ تو ہمیں درسی کتب میں بھی پڑھائے جاتے تھے اور کچھ وقتاً فوقتاً نظر سے گزرتے ہی رہتے ہیں، ہاں یہ ضرور ہے کہ ان کو میں نے یکجا کردیا ہے جو اس ربط پر پڑھے جا سکتے ہیں۔
مزید پڑھیے۔۔۔۔

Aug 16, 2009

مثنوی 'اشتہار پنج آہنگ' از مرزا غالب

غالب کی ایک مثنوی 'قادر نامہ' ویب کی دنیا میں پہلی بار پیش کرنے کے بعد 'نسخۂ مہر' سے غالب کی ایک اور مثنوی لکھ رہا ہوں کہ یہ بھی ویب پر 'غیر مطبوعہ' ہے۔
تعارف
'پنج آہنگ' غالب کی فارسی نثر کی کتاب ہے اور پانچ حصوں پر مشتمل ہے جس میں غالب نے القاب و آداب، لغاتِ فارسی، اشعارِ مکتوبی، تقاریظ اور مکاتیب وغیرہ لکھے ہیں۔ یہ کتاب سب سے پہلے اگست 1849ء میں شاہی قلعے کے مطبع میں شائع ہوئی اور اس کتاب کی اشاعت سے پہلے غالب نے اسکا ایک منظوم اشتہار مثنوی کی صورت میں لکھا جو اخبار میں شائع ہوا۔
مولانا غلام رسول مہر مثنوی کے تعارف میں رقم طراز ہیں:
"پنج آہنگ" کا منظوم اشتہار بھی ایک نادر چیز ہے، یہ مثنوی میں نے سب سے پہلے علی گڑھ کالج میگزین کے "غالب نمبر" (حصہ آثارِ غالب مرتبہ قاضی عبدالودود صاحب) میں دیکھی تھی۔
مثنوی سے اندازہ ہوتا ہے کہ یہ اس زمانے میں لکھی گئی تھی جب پنج آہنگ شاہی مطبع میں زیرِ طبع تھی اور مطبع حکیم احسن اللہ خان کے اہتمام میں تھا۔ اشتہار حکیم غلام نجف خاں کی طرف سے تھا جیسا کہ آخر میں واضح کر دیا گیا ہے۔ عرشی صاحب کے بیان کے مطابق 'اسعد الاخبار' آگرہ میں چھپی تھی۔"
urdu poetry, urdu ghazal, ilm-e-arooz, taqtee، Mirza Ghalib, مرزا غالب
Mirza Ghalib, مرزا غالب


مثنوی "اشتہار پنج آہنگ" از مرزا اسد اللہ خان غالب
مژدہ اے رہروانِ راہِ سخن
پایہ سنجانِ دستگانِ سخن
طے کرو راہِ شوق زود ازود
آن پہنچی ہے منزلِ مقصود
پاس ہے اب سوادِ اعظمِ نثر
دیکھیے چل کے نظمِ عالمِ نثر
سب کو اس کا سواد ارزانی
چشمِ بینش ہو جس سے نورانی
یہ تو دیکھو کہ کیا نظر آیا
جلوۂ مدّعا نظر آیا
ہاں یہی شاہراہِ دہلی ہے
مطبعِ بادشاہِ دہلی ہے
منطبع ہو رہی ہے پنج آہنگ
گل و ریحان و لالہ رنگا رنگ
ہے یہ وہ گلشنِ ہمیشہ بہار
بارور جس کا سرو، گُل بے خار
نہیں اس کا جواب عالم میں
نہیں ایسی کتاب عالم میں
اس سے اندازِ شوکتِ تحریر
اخذ کرتا ہے آسماں کا دبیر
مرحبا طرزِ نغز گفتاری
حبَّذا رسم و راہِ نَثّاری
نثرِ مدحت سراے ابراہیم (1)
ہے مقرّر جواب، پئے تعلیم
اس کے فقروں میں کون آتا ہے؟
کیا کہیں کیا وہ راگ گاتا ہے
تین نثروں سے کام کیا نکلے (2)
ان کے پڑھنے سے نام کیا نکلے
ورزشِ قصّۂ کہن کب تک؟
داستانِ شہِ دکن کب تک؟ (3)
تا کجا درسِ نثر ہائے کہن
تازہ کرتا ہے دل کو تازہ سخن
تھے ظہوری و عرفی و طالب
اپنے اپنے زمانے میں غالب
نہ ظہوری ہے اب، نہ طالب ہے
اسد اللہ خانِ غالب ہے
قول حافظ کا ہے بجا اے دوست
"ہر کرا پنج روز نوبتِ اوست"
کل وہ سرگرمِ خود نمائی تھے
شمعِ بزمِ سخن سرائی تھے
آج یہ قدر دانِ معنی ہے
بادشاہِ جہانِ معنی ہے (4)
نثر اس کی، ہے کارنامۂ راز
نظم اس کی، نگار نامۂ راز
دیکھو اس دفترِ معانی کو
سیکھو آئینِ نکتہ دانی کو
اس سے جو کوئی بہرہ ور ہوگا
سینہ گنجینۂ گہر ہوگا
ہو سخن کی جسے طلب گاری
کرے اس نسخے کی خریداری
آج جو دیدہ ور کرے درخواست
تین بھیجے روپے وہ بے کم و کاست
منطبع جب کہ ہو چکے گی کتاب
زرِ قیمت کا ہوگا اور حساب
چار سے پھر نہ ہوگی کم قیمت
اس سے لیویں گے کم نہ ہم قیمت (5)
جس کو منظور ہو کہ زر بھیجے
احسن اللہ خاں کے گھر بھیجے
وہ بہارِ ریاضِ مہر و وفا
جس کو کہتے ہیں عمدۃ الحکما
میں جو ہوں درپئے حصولِ شرف
نام عاصی کا ہے غلامِ نجف
ہے یہ القصّہ حاصلِ تحریر
کہ نہ ارسالِ زر میں ہو تاخیر
چشمۂ انطباع جاری ہے
ابتدائے ورق شماری ہے

حواشی از مولانا غلام رسول مہر
1- ابراہیم عادل شاہ فرمانروائے بیجا پور اور اسکا مدحت سرا ظہوری تھا جس نے ابراہیم کی مدح میں 'سہ نثر' لکھی۔ وہی نثر اس زمانے میں اور خود ہمارے زمانے میں پڑھائی جاتی تھی۔
2- سہ نثر
3- ابراہیم بادشاہ بیجا پور
4- یعنی ایک زمانے میں ظہوری، عرفی اور طالب سرگرمِ خود نمائی تھے، اب غالب جہانِ معنی کا بادشاہ ہے۔
5- مطلب یہ کہ دورانِ انطباع میں 'پنج آہنگ' کی قیمت تین روپے رکھی گئی تھی اور بعدِ انطباع چار روپے کا فیصلہ ہو گیا تھا۔ اس میں کمی کا کوئی امکان نہ تھا۔ اس سے یہ بھی اندازہ ہو سکتا ہے کہ بادشاہی مطبع میں کتابوں کی قیمت بہت زیادہ تھی۔ دوسرے مطبعوں میں تمام کتابیں نسبتاً ارزاں ملتی تھیں، پھر منشی نول کشور نے تو ارزانی کی حد کر دی کہ بڑی بڑی اور ضخیم کتابیں بہت کم قیمت پر بازار میں پہنچا دیں۔ کتاب حکیم نجف خاں نے چھاپی تھی اور شاہی مطبع حکیم احسن اللہ خان کے زیرِ اہتمام تھا۔

مزید پڑھیے۔۔۔۔

Jul 28, 2009

مثنوی 'قادر نامہ' از غالب - ویب کی دنیا میں پہلی بار

ویب کی دنیا میں غالب کے اردو کلام کا شاید ہی کوئی حصہ ہوگا جو موجود نہ ہو لیکن جو مثنوی میں آپ کی خدمت میں پیش کر رہا ہوں وہ ویب کی دنیا میں پہلی بار پیش ہو رہی ہے، میرے لیے یہ سعادت تو ہے ہی لیکن حیرت بھی ہے کہ ابھی تک کسی کی نظر اس پر کیوں نہیں پڑی۔

مثنوی قادر نامہ کا تعارف
غالب کے سات بچے تھے لیکن افسوس ان میں سے کوئی بھی پندرہ ماہ سے زائد تک نہ جیا اور غالب لاولد ہی مرے۔ اپنی اسی تنہائی اور بعض دیگر وجوہات کی بنا پر غالب نے زین العابدین خاں عارف کو متبنیٰ بنا لیا تھا جو انکی بیوی کے بھانجے تھے۔ عارف خوش ذوق شاعر تھے اور انہوں نے غالب کی شاگردی بھی اختیار کر لی تھی لیکن وائے رے قسمت کہ عین شباب کے عالم، پینتیس سال کی عمر میں، عارف بھی وفات پا گئے، اور عارف کی جواں مرگ پر غالب کی ایک رثائی غزل انکے دیوان میں موجود ہے۔

ہاں اے فلکِ پیر، جواں تھا ابھی عارف
کیا تیرا بگڑتا، جو نہ مرتا کوئی دن اور

اور انہی عارف مرحوم کے چھوٹے چھوٹے یتیم بچوں کیلیے غالب نے 'مثنوی قادر نامہ' لکھی تھی۔ دراصل یہ مثنوی ایک طرح کی لغت نامہ ہے جس میں غالب نے عام استعمال کے فارسی اور عربی الفاظ کے ہندی یا اردو مترادف بیان کیے ہیں تا کہ پڑھنےوالوں کے ذخیرۂ الفاظ میں اضافہ ہو سکے، بقولِ غالب

جس نے قادر نامہ سارا پڑھ لیا
اُس کو آمد نامہ کچھ مشکل نہیں

اس مثنوی کے محاسن تو اہلِ نظر ہی دیکھیں گے میں تو یہ دیکھ رہا ہوں کہ اولاد کی طرف سے انتہائی بدقسمت غالب، اپنے لے پالک کے یتیم بچوں کو تعلیم دے رہے ہیں تو اس میں کیا کیا محبت اور کیسی کیسی شفقت شامل نہیں ہوگی اور غالب کا دل کسطرح کے جذبات سے لبریز ہوگا جب انہوں نے یہ مثنوی کہی ہوگی۔
یہ مثنوی مولانا غلام رسول مہر نے اپنے مرتب کردہ 'دیوانِ غالب' میں تیسرے ضمیمے کے طور پر شامل کی ہے، لیکن دیوانِ غالب کی مشہور و معروف شرح 'نوائے سروش' میں اسے شامل نہیں کیا، نہ جانے کیوں۔ میں یہ مثنوی اسی مذکورہ دیوان سے لکھ رہا ہوں۔ پہلی بار یہ مثنوی 1856ء میں شائع ہوئی تھی۔

گو یہ مثنوی غالب نے بچوں کیلیے لکھی تھی لیکن ہے بڑوں کے بڑے کام کی چیز، یقین نہ آئے تو پڑھ کے دیکھیئے۔

Mirza Ghalib, مرزا غالب, urdu poetry, urdu ghazal, ilm-e-arooz, taqtee, Masnavi, مثنوی
Mirza Ghalib, مرزا غالب

مثنوی 'قادر نامہ' از مرزا اسد اللہ خان غالب
قادر اور اللہ اور یزداں، خدا -- ہے نبی، مُرسل، پیمبر، رھنما

پیشوائے دیں کو کہتے ہیں امام -- وہ رسول اللہ کا قائم مقام

ہے صحابی دوست، خالص ناب ہے --  جمع اس کی یاد رکھ اصحاب ہے

بندگی کا ہاں عبادت نام ہے --  نیک بختی کا سعادت نام ہے

کھولنا افطار ہے اور روزہ صوم --  لیل یعنی رات، دن اور روز، یوم


ہے صلوٰۃ اے مہرباں اسمِ نماز --  جس کے پڑھنے سے ہو راضی بے نیاز


جا نماز اور پھر مصلّا ہے وہی --  اور سجّادہ بھی گویا ہے وہی


اسم وہ ہے جس کو تم کہتے ہو نام --  کعبہ، مکّہ وہ جو ہے بیت الحرام


گرد پھرنے کو کہیں گے ہم طواف --  بیٹھ رہنا گوشے میں ہے اعتکاف

پھر فلک، چرخ اور گردوں اور سہپر --  آسماں کے نام ہیں اے رشکِ مہر


مہر سورج، چاند کو کہتے ہیں ماہ --  ہے محبت مہر، لازم ہے نباہ


غرب پچھّم اور پورب شرق ہے --  ابر بدلی اور بجلی برق ہے


آگ کا آتش اور آذر نام ہے --  اور انگارے کا اخگر نام ہے


تیغ کی ہندی اگر تلوار ہے --  فارسی پگڑی کی بھی دستار ہے


نیولا راسُو ہے اور طاؤس مور --  کبک کو ہندی میں کہتے ہیں چکور


خم ہے مٹکا اور ٹھلیا ہے سبو --  آب پانی، بحر دریا، نہر جُو


چاہ کو ہندی میں کہتے ہیں کنواں --  دُود کو ہندی میں کہتے ہیں دھواں


سینہ چھاتی، دست ہاتھ اور پائے پاؤں --  شاخ ٹہنی، برگ پتا، سایہ چھاؤں


ماہ چاند، اختر ہیں تارے، رات شب -- دانت دنداں، ہونٹ کو کہتے ہیں لب


استخواں ہڈّی ہے اور ہے پوست کھال --  سگ ہے کتّا اور گیدڑ ہے شغال


تِل کو کنجد اور رُخ کو گال کہہ --  گال پر جو تل ہو اس کو خال کہہ


کیکڑا سرطان ہے، کچھوا سنگ پشت -- 
ساق پنڈلی، فارسی مٹھی کی مشت

ہے شکم پیٹ، اور بغل آغوش ہے --  کہنی آرنج اور کندھا دوش ہے

دودھ جو پینے کا ہے وہ شیر ہے --  طفل لڑکا اور بوڑھا پیر ہے


ہندی میں عقرب کا بچھّو نام ہے --  فارسی میں بھوں کا ابرو نام ہے


ہے وہی کژدُم جسے عقرب کہیں --  نیش ہے وہ ڈنگ جس کو سب کہیں


ہے لڑائی، حرب اور جنگ ایک چیز --  کعب، ٹخنہ اور شتالنگ ایک چیز


ناک بینی، پرّہ نتھنا، گوش کان --  کان کی لو نرمہ ہے، اے مہربان


چشم ہے آنکھ اور مژگاں ہے پَلک --  آنکھ کی پتلی کو کہیے مردمک


منہ پر گر جھری پڑے آژنگ جان --  فارسی چھینکے کی تو آونگ جان


مسا، آژخ اور چھالہ، آبلہ --  اور ہے دائی،جنائی، قابلہ


اونٹ اُشتر اور اُشغر سیّہ ہے --  گوشت ہے لحم اورچربی پیّہ ہے


ہے زنخ ٹھوڑی، گلا ہے خنجرہ --  سانپ ہے مار اور جھینگر زنجرہ


ہے زنخ ٹھوڑی، ذقن بھی ہے وہی --  خاد ہے چیل اور زغن بھی ہے وہی


پھر غلیواز اس کو کہیے جو ہے چیل --  چیونٹی ہے مور اور ہاتھی ہے پیل


لومڑی روباہ اور آہو ہرن --  شمس سورج اور شعاع اسکی کرن


اسپ جب ہندی میں گھوڑا نام پائے --  تازیانہ کیوں نہ کوڑا نام پائے


گربہ بلّی، موش چوہا، دام جال --  رشتہ تاگا، جامہ کپڑا، قحط کال


خر گدھا اور اس کو کہتے ہیں اُلاغ --  دیگ داں چولہا جسے کہیے اُجاغ


ہندی چڑیا، فارسی کنجشک ہے --  مینگنی جس کو کہیں وہ پشک ہے


تابہ ہے بھائی توے کی فارسی --  اور تیہو ہے لوے کی فارسی


نام مکڑی کا کلاش اور عنکبوت --  کہتے ہیں مچھلی کو ماہی اور حوت


پشّہ مچھّر، اور مکھّی ہے مگس --  آشیانہ گھونسلا، پنجرہ قفس


بھیڑیا گرگ اور بکری گوسپند --  میش کا ہے نام بھیڑ اے خود پسند


نام گُل کا پھول، شبنم اوس ہے --  جس کو نقّارہ کہیں وہ کوس ہے


خار کانٹا، داغ دھبّا، نغمہ راگ --  سیم چاندی، مس ہے تانبا، بخت بھاگ


سقف چھت ہے، سنگ پتھّر، اینٹ خشت --  جو بُرا ہے اس کو ہم کہتے ہیں زشت


زر ہے سونا اور زرگر ہے سنار --  موز کیلا اور ککڑی ہے خیار


ریش داڑھی، مونچھ سلبت اور بُروت --  احمق اور نادان کو کہتے ہیں اُوت


زندگانی ہے حیات اور مرگ موت --  شوے خاوند اور ہے انباغ سَوت


ہفت سات اور ہشت آٹھ اور بست بیس --  سی اگر کہیے تو ہندی اس کی تیس


ہے چہل چالیس اور پنجہ پچاس --  ناامیدی یاس، اور اُمّید آس


جملہ سب، اور نصف آدھا، ربع پاؤ --  صرصر آندھی، سیل نالا، باد باؤ


ہے جراحت اور زخم اور گھاؤ ریش --  بھینس کو کہتے ہیں بھائی گاؤمیش


دوش کل کی رات اور امروز آج --  آرد آٹا اور غلّہ ہے اناج


چاہیے ہے ماں کو مادر جاننا --  اور بھائی کو برادر جاننا


پھاوڑا بیل اور درانتی واس ہے --  فارسی کاہ اور ہندی گھاس ہے


سبز ہو جب تک اسے کہیے گیاہ -- خشک ہو جاتی ہے جب، کہتے ہیں کاہ


چکسہ پڑیا، کیسہ کا تھیلی ہے نام -- فارسی میں دھپّے کا سیلی ہے نام


اخلگندو جھجھنا، نیرو ہے زور -- بادفر، پِھرکی اور ہے دُزد چور


انگبیں شہد اور عسل، یہ اے عزیز --  ام کو ہیں تین، پر ہے ایک چیز


آجُل اور آروغ کی ہندی ڈکار -- مے شراب اور پینے والا میگسار


روئی کو کہتے ہیں پنبہ سن رکھو -- آم کو کہتے ہیں انبہ سن رکھو


خانہ گھر ہے اور کوٹھا بام ہے -- قلعہ دژ، کھائی کا خندق نام ہے


گر دریچہ فارسی کھڑکی کی ہے -- سرزنش بھی فارسی جھڑکی کی ہے


ہے بنولا، پنبہ دانہ، لاکلام -- اور تربُز، ہندوانہ، لاکلام


ہے کہانی کی فسانہ فارسی -- اور شعلہ کی زبانہ فارسی


نعل در آتش اسی کا نام ہے -- جو کہ بے چین اور بے آرام ہے


پست اور ستّو کو کہتے ہیں سویق -- ژرف اور گہرے کو کہتے ہیں عمیق


تار، تانا، پود بانا، یاد رکھ -- آزمودن، آزمانا یاد رکھ


یوسہ، مچھّی، چاہنا ہے خواستن -- کم ہے اندک اور گھٹنا کاستن


خوش رہو، ہنسنے کو خندیدن کہو -- گر ڈرو، ڈرنے کو ترسیدن کہو


ہے ہراسیدن بھی ڈرنا، کیوں ڈرو؟ -- اور جنگیدن ہے لڑنا، کیوں لڑو؟


ہے گزرنے کی گزشتن فارسی -- اور پھرنے کی ہے گشتن فارسی


وہ سرودن ہے جسے گانا کہیں -- ہے وہ آوردن جسے لانا کہیں


زیستن کو جانِ من جینا کہو -- اور نوشیدن کو تم پینا کہو


دوڑنے کی فارسی ہے تاختن -- کھیلنے کی فارسی ہے باختن


دوختن سینا، دریدن پھاڑنا -- کاشتن بونا ہے، رُفتن جھاڑنا


کاشتن بونا ہے اور کشتن بھی ہے -- کاتنے کی فارسی رِشتن بھی ہے


ہے ٹپکنے کی چکیدن فارسی -- اور سننے کی شنیدن فارسی


کودنا جستن، بریدن کاٹنا -- اور لیسیدن کی ہندی چاٹنا


سوختن جلنا، چمکنا تافتن -- ڈھونڈنا جستن ہے، پانا یافتن


دیکھنا دیدن، رمیدن بھاگنا -- جان لو، بیدار بودن، جاگنا


آمدن آنا، بنانا ساختن -- ڈالنے کی فارسی انداختن


باندھنا بستن، کشادن کھولنا -- داشتن رکھنا ہے، سختن تولنا


تولنے کو اور جو سنجیدن کہو -- پھر خفا ہونے کو رنجیدن کہو


فارسی سونے کی خفتن جانیے -- منہ سے کچھ کہنے کو گفتن جانیے


کھینچنے کی ہے کشیدن فارسی -- اور اُگنے کی دمیدن فارسی


اونگھنا پوچھو، غنودن جان لو -- مانجنا چاہو، زدودن جان لو


ہے قلم کا فارسی میں خامہ نام -- ہے غزل کا فارسی میں چامہ نام


کس کو کہتے ہیں غزل؟ ارشاد ہو -- ہاں غزل پڑھیے، سبق گر یاد ہو


غزل
صبح سے دیکھیں گے رستہ یار کا
جمعہ کے دن وعدہ ہے دیدار کا


وہ چُراوے باغ میں میوہ، جسے
پھاند جانا یاد ہو دیوار کا


پُل ہی پر سے پھیر لائے ہم کو لوگ
ورنہ تھا اپنا ارادہ پار کا


شہر میں چھڑیوں کے میلے کی ہے دھوم
آج عالم اور ہے بازار کا


لال ڈِگی پر کرے گا جا کے کیا
پُل پہ چل، ہے آج دن اتوار کا


گر نہ ڈر جاؤ تو دکھلائیں تمھیں
کاٹ اپنی کاٹھ کی تلوار کا


واہ بے لڑکے پڑھی اچھّی غزل
شوق ابھی سے ہے تجھے اشعار کا

لو سنو کل کا سبق آ جاؤ تم -- پوزی افسار اور دمچی پاردم


چھلنی کو غربال، پرویزن کہو -- چھید کو تم رخنہ اور روزن کہو


چہ کے معنی کیا، چگویم کیا کہوں -- من شَوَم خاموش، میں چُپ ہو رہوں


بازخواہم رفت، میں پھر جاؤں گا -- نان خواہم خورد، روٹی کھاؤں گا


فارسی کیوں کی چرا ہے یاد رکھ -- اور گھنٹے کی درا ہے یاد رکھ


دشت صحرا اور جنگل ایک ہے -- پھر سہ شنبہ اور منگل ایک ہے


جس کو ناداں کہیے وہ انجان ہے -- فارسی بینگن کی بادنجان ہے


جس کو کہتے ہیں جمائی فازہ ہے -- جو ہے انگڑائی، وہی خمیازہ ہے


یارہ کہتے ہیں کڑے کو ہم سے پوچھ -- پاڑ ہے تالار، اک عالم سے پوچھ


جس طرح گہنے کی زیور فارسی -- اسی طرح ہنسلی کی پرگر فارسی


بھِڑ کی بھائی، فارسی زنبور ہے -- دسپنا اُنبر ہے اور انبور ہے


فارسی آئینہ، ہندی آرسی -- اور ہے کنگھی کی شانہ فارسی


ہینگ انگوزہ ہے اور ارزیر رانگ -- ساز باجا اور ہے آواز بانگ


لوہے کو کہتے ہیں آہن اور حدید -- جو نئی ہے چیز اسے کہیے جدید


زوجہ جورو، یزنہ بہنوئی کو جان -- خشم غصہ اور بدخوئی کو جان


ہے نوا آواز ساماں اور اول -- نرخ، قیمت اور بہا،یہ سب ہیں مول


سیر لہسن، تُرب مولی، ترہ ساگ -- کھا بخور، برخیز اُٹھ، بگریز بھاگ


روئی کی پونی کا ہے پاغُند نام -- دُوک تکلے کو کہیں گے، لاکلام


گیتی اور گیہاں ہے دنیا یاد رکھ -- اور ہے ندّاف، دُھنیا یاد رکھ


کوہ کو ہندی میں کہتے ہیں پہاڑ -- فارسی گلخن ہے اور ہندی ہے بھاڑ


تکیہ بالش اور بچھونا بسترا -- اصل بستر ہے سمجھ لو تم ذرا


بسترا بولیں سپاہی اور فقیر -- ورنہ بستر کہتے ہیں برنا و پیر


پیر بوڑھا اور برنا ہے جواں -- جان کو البتہ کہتے ہیں رواں


اینٹ کے گارے کا نام آژند ہے -- ہے نصیحت بھی وہی جو پند ہے


پند کو اندرز بھی کہتے ہیں ،ہاں -- ارض ہے، پر،مرز بھی کہتے ہیں ہاں


کیا ہے ارض اور مرز تم سمجھے؟ زمیں -- عنق گردن اور پیشانی جبیں


آس چکّی، آسیا مشہور ہے -- اور فَوفل چھالیا مشہور ہے


بانسلی نے اور جلاجل جانجھ ہے -- پھر ستَروَن اور عقیمہ بانجھ ہے


کُحل سرمہ اور سلائی میل ہے -- جس کو جھولی کہتے ہیں زنبیل ہے

پایا قادر نامہ نے آج اختتام -- اک غزل اور پڑھ لو، والسّلام


غزل
شعر کے پڑھنے میں کچھ حاصل نہیں
مانتا لیکن ہمارا دل نہیں


علم ہی سے قدر ہے انسان کی
ہے وہی انسان جو جاہل نہیں


کیا کہِیں کھائی ہے حافظ جی کی مار؟
آج ہنستے آپ جو کِھل کِھل نہیں


کس طرح پڑھتے ہو رک رک کر سبق
ایسے پڑھنے کا تو میں قائل نہیں


جس نے قادر نامہ سارا پڑھ لیا
اس کو آمد نامہ کچھ مشکل نہیں

-------
مزید پڑھیے۔۔۔۔

Nov 28, 2008

اُو اے غالب

پچھلے کچھ دنوں سے میرے گھر کا ماحول کافی خراب ہے کہ ہماری بیگم صاحبہ ہم سے بہت نالاں ہیں، وجہ اسکی کوئی خاص تو نہیں لیکن اگر کسی کو شعر و ادب سے للہی بغض ہو تو کیا کیا جا سکتا ہے۔ جی ہاں ہماری بیگم صاحبہ کو نفرت ہے شعر و ادب و کتب سے۔
اس سے یہی برداشت نہیں ہو رہا تھا کہ میں گھر میں اپنا زیادہ تر وقت کتابوں میں یا کمپیوٹر کے سامنے گزارتا ہوں تو یہ کیسے ہضم ہو کہ میں بچوں کو بھی شعر یاد کروانے شروع کر دوں۔
کچھ دن پہلے میں گھر میں بیٹھا ہوا تھا کہ غالب کا شعر یاد آ گیا۔
دلِ ناداں تجھے ہوا کیا ہے
آخر اس درد کی دوا کیا ہے
نہ جانے جی میں کیا آیا کہ میں نے اپنے دونوں بیٹوں، سات سالہ حسن اور پانچ سالہ احسن سے کہا کہ جو کوئی بھی یہ شعر یاد کرے گا اسے انعام ملے گا۔ اب انعام کے لالچ میں دونوں نے شعر یاد کرنا شروع کر دیا بلکہ کر بھی لیا گو کچھ گڑ بڑ ضرور کر جاتے ہیں، حسن ‘ناداں’ کو مسلسل ‘نادان’ پڑھ رہا ہے اور احسن ‘آخر’ کو پہلے مصرعے میں ادا کرتا ہے۔ لیکن میری خوشی کا کوئی ٹھکانہ نہیں ہے کہ میں نے غالب کے بیج اپنے گھر میں بونے شروع کر دیے ہیں، اور بیگم صاحبہ کا جل جل کے برا حال ہو رہا ہے۔
اس پر مستزاد یہ کہ میری دو سالہ بیٹی فاطمہ کو غالب کی تصویر کی پہچان ہو گئی ہے، وہ جب بھی دیوانِ غالب پر غالب کی تصویر یا کمپیوٹر پر میرے بلاگ پر لگی ہوئی تصویر دیکھتی ہے تو زور زور سے چلانا شروع کر دیتی ہے “اُو اے غالب، اُو اے غالب۔” میں بتا نہیں سکتا کہ اس وقت مجھے کتنی خوشی ہوتی ہے۔ مرزا غالبیاد تو میں نے اسے ‘اقبال’ کا نام بھی کروا دیا ہے لیکن ابھی تک اقبال کی اسے پہچان نہیں ہو سکی اور ہار بار بتانا پڑتا ہے کہ یہ اقبال ہے۔
اور فاطمہ کیلیئے غالب کی یہ تصویر اس پوسٹ میں لگا رہا ہوں کہ ‘اُو اے غالب، اُو اے
غالب” کی صدائیں میرے کانوں مین رس گھولتی رہیں اور بیگم صاحبہ کے سینے پر مونگ دلتی رہیں۔
مزید پڑھیے۔۔۔۔

Oct 28, 2008

فارسی رباعیاتِ غالب مع تراجم

(1)
رباعی غالب
غالب آزادۂ موحد کیشَم
بر پاکی خویشتن گواہِ خویشَم
گُفتی بہ سُخَن بَرفتگاں کس نَرَسد
از باز پَسیں نُکتہ گزاراں پیشَم
ترجمہ
اے غالب، میں ایک آزاد منش اور موحد کیش انسان ہوں، اپنی پاک فطرتی پر خود ہی اپنا گواہ ہوں۔ تو نے کہا کہ کوئی بھی (آج کا شاعر) شاعری میں گذشتہ دور کے شعرا تک نہیں پہنچتا، میں‌ بہرحال آخر میں آنے والے نکتہ آفرینوں سے آگے ہوں۔
منظوم ترجمہ صبا اکبر آبادی
غالب آزاد ہوں، موحد ہوں میں
ہاں پاک دلی کا اپنی شاہد ہوں میں
کہتے ہیں کہ سب کہہ گئے پچھلے شعرا
اب طرزِ سخن کا اپنی موجد ہوں میں
Mirza Ghalib, مرزا غالب, Persian poetry, Persian Poetry with Urdu translation, Farsi poetry, Farsi poetry with urdu translation, Rubai, رباعی
Mirza Ghalib, مرزا غالب
(2)
رباعی غالب
غالب بہ گُہَر ز دودۂ زاد شَمَم
زاں رو بہ صفائے دمِ تیغست دَمَم
چوں رفت سپہبدی، زدم چنگ بہ شعر
شد تیر شکستہ نیا کانِ قَلَمَم
ترجمہ
غالب، میں نسل کے لحاظ سے ایک اچھے اور صاف خاندان کا فرد ہوں، اسی لئے میرا دم تلوار کے دم کی طرح صاف ہے۔ جب خاندان سے سپہ گری ختم ہوگئی تو میں نے ہاتھ میں‌ قلم پکڑ لیا، چنانچہ میرے اسلاف کا ٹوٹا ہوا تیر میرا قلم بن گیا۔
منظوم ترجمہ صبا اکبر آبادی
غالب ہے نسب نامہ مرا تیغِ دو دم
تلوار کی دھار ہے نفس سے مرے کم
اب شاعری ہے سپہ گری کے بدلے
ٹوٹے ہوئے نیزوں کو بنایا ہے قلم
Persian poetry, Persian Poetry with Urdu translation, Farsi poetry, Farsi poetry with urdu translation, Rubai, رباعی
Saba Akbar Abadi, صبا اکبرآبادی
(3)
رباعیِ غالب
در عالمِ بے زَری کہ تلخ است حیات
طاعت نَتَواں کرد بہ امیدِ نجات
اے کاش ز حق اشارتِ صوم صلوٰت
بودے بَوَجُود مال چوں حج و زکوٰت
ترجمہ
مفلسی کی حالت میں جبکہ زندگی تلخ ہوتی ہے، نجات کی امید میں عبادت کیونکر کی جاسکتی ہے۔ کاش کہ خدا کی طرف سے، روزے اور نماز کے سلسلے میں بھی حج اور زکوٰت کی طرح مال کی شرط ہوتی، یعنی نماز اور روزہ بھی صاحبِ استطاعت و صاحبِ نصاب پر فرض ہوتے۔
منظوم ترجمہ صبا اکبر آبادی
افلاس کے عالم میں ہوئی تلخ حیات
طاعت بھی نہیں ہوتی بہ امید نجات
اے کاش نماز اور روزہ ہوتے
مشروط بہ مال جیسے حج اور زکوٰت
مزید پڑھیے۔۔۔۔

Jul 16, 2008

غالب کی ایک شاہکار فارسی غزل مع منظوم تراجم - دود سودائے تُتق بست آسماں نامیدمش

غالب کی مندرجہ ذیل غزل نہ صرف غالب کی ایک شاہکار غزل ہے بلکہ غالب کے فلسفے و فکر کو سمجھنے میں مشعلِ راہ بھی ہے۔ صوفی تبسم اس غزل کے تعارف میں فرماتے ہیں کہ “غالب نے اس غزل کے بیشتر شعروں میں اس کائنات کے بارے میں ایک خاص زاویہ نظر پیش کیا ہے کہ یہ سب کچھ جو ہمیں نظر آرہا ہے اس کا وجود خارجی کوئی نہیں، یہ انسانی ذہن ہی کی تخلیق ہے۔ یہ ایک سیمیا ہے۔ ایک طلسم ہے جو انسانی وہم نے باندھ رکھا ہے”۔
جس زاویہ نظر کی طرف صوفی تبسم نے اشارہ کیا ہے، فلسفے میں یہ ایک باقاعدہ سکول آف تھاٹ ہے اور نام اسکا “مثالیت پسندی” یا آئیڈیل ازم ہے اور یہ مادیت پسندی یا میٹریل ازم کی عین ضد ہے۔ لبِ لباب اس سلسلہ فکر کا وہی ہے جو صوفی صاحب نے بیان کر دیا ہے، اسکے برعکس مادیت پسند، مادے کو ہی سچائی قرار دیتے ہیں اور مادے کو ذہن پر ترجیح دیتے ہیں۔ مثالیت پسندی کی ابتدا تو شاید قبل از سقراط قدیم یونانی فلسفیوں فیثا غورث اور پارمی نائدیس نے کی تھی لیکن اسکا پہلا جاندار مبلغ افلاطون تھا اور جرمن فلاسفر ہیگل نے اسے بامِ عروج پر پہنچا دیا۔ اس سلسلہ فکر کے چند مشہور فلاسفہ میں فلاطینوس، ڈیکارٹ، لائبنیز، ہولباخ، جارج برکلے، عمانویل کانٹ، فشٹے وغیرہم شامل ہیں۔
یہ بات تو سبھی جانتے ہیں کہ غالب کو تصوف سے خاص شغف تھا، اور وہ وحدت الوجودی تھے، جیسا کہ مولانا حالی اور دیگر شارحین و ناقدینِ غالب نے بیان فرمایا ہے، جیسے ڈاکٹر شوکت شبزواری صاحب “فلسفہ کلامِ غالب” میں اور کئی مشہور و معروف ناقدین “نقدِ غالب” میں بیان فرماتے ہیں۔ طوالت کے خوف سے اقتباسات خذف کرتا ہوں۔
دراصل وحدت الوجود اور مثالیت پسندی کا آپس میں چولی دامن کا ساتھ ہے بلکہ اگر یوں کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ مثالیت پسندی، وحدت الوجود کا حصہ ہے۔ وحدت الوجود کا فلسفہ مسلمانوں میں شام کے نسطوری عیسائیوں کے ذریعے آیا تھا جنہوں نے اسے اسکندریہ کے صوفی مثالیت پسند فلسفی فلاطینوس سے حاصل کیا تھا۔ یہی وہ فلاطینوس ہے جسکی تحریروں کو ایک زمانے تک مسلم مفکر ارسطو کی تحریریں سمجھتے رہے۔ قصہ مختصر، غالب چونکہ “وجودی” تھے لامحالہ مثالیت پسندی انکے کلام میں آگئی۔
غزل پیشِ خدمت ہے۔

شعرِ غالب
دود سودائے تُتق بست آسماں نامیدمش
دیدہ بر خوابِ پریشان زد، جہاں نامیدمش
صوفی تبسم۔ ترجمہ
خیالِ خام کا ایک دھواں سا ہمارے سر پر چھا گیا، میں نے اسکا نام آسمان رکھ دیا۔ آنکھوں نے ایک پریشان خواب دیکھا اور میں نے اسے جہان کہہ دیا۔
صوفی تبسم۔ منظوم ترجمہ
دود افسون نظر تھا، آسماں کہنا پڑا
ایک پریشاں خواب دیکھا اور جہاں کہنا پڑا
افتخار احمد عدنی
دود کا پردہ تھا جس کو آسماں کہتا تھا میں
اور اک خوابِ پریشاں کو جہاں کہتا تھا میں
پروفیسر رالف رسل
My hot sighs raised a canopy: I said, this is the sky
My eyes beheld a troubled dream: I said, this is the world

Persian poetry, Persian Poetry with Urdu translation, Farsi poetry, Farsi poetry with urdu translation, Mirza Ghalib, مرزا غالب
مرزا غالب, Mirza Ghalib
شعرِ غالب
وہم خاکے ریخت در چشمم بیاباں دیدمش
قطرہ بگداخت، بحرِ بیکراں نامیدمش
تبسم
وہم نے میری آنکھوں میں خاک ڈال دی اور وہ مجھے بیاباں بن کر نظر آئی۔ ایک قطرہ تھا جو پگھل کر رہ گیا میں نے اسے بحرِ بیکراں کا نام دیا۔
تبسم، منظوم
تھا غبارِ وہم وہ، میں نے بیاباں کہہ دیا
تھا گداز قطرہ، بحرِ بیکراں کہنا پڑا
عدنی
ایک مٹھی خاک تھی صحرا جسے سمجھا کیا
اور اک قطرے کو بحرِ بیکراں کہتا تھا میں
رسل
My fancies threw dust in my eyes: I said, this is the desert
The drop of water spread: I said, this is the boundless sea


شعرِ غالب
باد دامن زد بر آتش نو بہاراں خواندمش
داغ گشت آں شعلہ، از مستی خزاں نامیدمش
تبسم
ہوا نے آگ کو بھڑکایا میں نے اسے بہار کہہ دیا۔ اسی آگ کے شعلے جل کر جب داغ بن کر رہ گئے تو میں نے اسے خزاں کا نام دیا۔
تبسم، منظوم
آگ بھڑکائی ہوا نے، میں اسے سمجھا بہار
شعلہ بن کر داغ جب ابھرا خزاں کہنا پڑا

Persian poetry, Persian Poetry with Urdu translation, Farsi poetry, Farsi poetry with urdu translation, Sufi Tabassum, صوفی غلام مصطفیٰ تبسم
صوفی تبسم, Sufi Tabassum
عدنی
آگ بھڑکی جب ہوا سے میں یہ سمجھا ہے بہار
داغ جب شعلے ہوئے، ان کو خزاں کہتا تھا میں
رسل
I saw flames leaping in the wind: I cried out, spring is coming
They danced themselves to ashes, and I said, autumn has come


شعرِ غالب
قطرہٴ خونے گرہ گردید، دل دانستمش
موجِ زہرابے بہ طوفاں زد زباں نامیدمش
تبسم
ایک قطرہء خوں تھا بل کھا کر گرہ بن گیا اور میں نے اسے دل سمجھ لیا۔ ایک زہراب کی لہر تھی اس میں تلاطم برپا ہوا میں نے اسے زباں کہہ دیا۔
تبسم، منظوم
قطرۂ خوں کا تھا پیچ و تاب، دل جانا اسے
لہر تھی زہراب غم کی اور زباں کہنا پڑا
عدنی
قطرہء خوں کی گرہ تھی جس کو دل جانا کیا
موج تھی زہراب کی جس کو زباں کہتا تھا میں
رسل
The drop of blood became a clot: I knew it as my heart
A wave of bitter water rolled: I said, this is my speech


شعرِ غالب
غربتم نا سازگار آمد، وطن فہمیدمش
کرد تنگی حلقہء دام آشیاں نامیدمش

تبسم
پردیس مجھے راس نہ آیا ناچار میں نے اسے وطن سمجھ لیا۔ حلقہء دام تنگ نکلا میں نے اسے آشیاں کہہ دیا۔
تبسم، منظوم
ناموافق تھی بہت غربت، وطن کہتے بنی
تنگ نکلا حلقہء دام آشیاں کہنا پڑا
عدنی
جب نہ غربت راس آئی میں اسے سمجھا وطن
تنگ ہوا جب حلقہء دام آشیاں کہتا تھا میں

رسل
In exile I felt lost: I said, this country is my country
I felt the snare’s noose tightening: I said, this is my nest


شعرِ غالب
بود در پہلو بہ تمکینے کہ دل می گفتمش
رفت از شوخی بہ آئینے کہ جاں نامیدمش
تبسم
وہ ہمارے پہلو میں اس شان سے بیٹھا تھا کہ میں نے اسے دل کہا، وہ اس انداز سے اٹھ کر گیا کہ اسے جاں کہنا پڑا۔
تبسم، منظوم
اس طرح پہلو میں آ بیٹھا کہ جیسے دل تھا وہ
اس روش سے وہ گیا اٹھ کر کہ جاں کہنا پڑا
عدنی
تھا وہ جب تمکین سے پہلو میں، دل سمجھا اسے
اور شوخی سے ہوا رخصت تو جاں کہتا تھا میں

Persian poetry, Persian Poetry with Urdu translation, Farsi poetry, Farsi poetry with urdu translation, Iftikhar Ahmed Adani, افتخار احمد عدنی
افتخار احمد عدنی, Iftikhar Ahmed Adani
رسل
She sat in pride close to my side: I said, she is my heart
Capriciously she rose and left: There goes my soul


شعرِ غالب
ہر چہ از جاں کاست در مستی بہ سود افزودمش
ہرچہ با من ماند از ہستی زیاں نامیدمش
تبسم
مستی کے عالم میں جو کچھ زندگی میں کمی واقع ہوئی میں نے اسے نفع میں شمار کیا اور میری ہستی میں سے جو کچھ بچ رہا اسے نقصان سمجھ لیا۔ یعنی زندگی کے وہی لمحات تھے جو عالمِ مستی اور ذوق و شوق میں گزر گئے، بقیہ زندگی تو گویا زندگی ہی نہ تھی۔
تبسم، منظوم
کٹ گئی جو عمر مستی میں وہی تھا سودِ زیست
بچ رہا جو کچھ بھی مستی میں زیاں کہنا پڑا
عدنی
عمر جو مستی میں گزری اس کو جانا میں نے سود
ہوش میں جتنی کٹی اس کو زیاں کہتا تھا میں
رسل
All that I lost in ecstasy accrued to me as gain
All that remained of consciousness I designated loss


شعرِ غالب
تا ز من بگسست عمرے، خوشدلش پنداشتم
چو بہ من پیوست لختے، بد گماں نامیدمش
تبسم
جب تک وہ مجھ سے ایک طویل عرصے کیلیے الگ ہو کر رہا میں اسے ایک خوش ذوق انسان سمجھتا رہا۔ جب وہ تھوڑی مدت کیلیے مجھ سے آ ملا تو میں نے اسے بد گماں کا لقب دیا۔
عدنی
مہرباں سمجھا کیا جب تک رہا وہ مجھ سے دور
اور قریب آیا تو اس کو بد گماں کہتا تھا میں
رسل
For years she held aloof from me: I said, she favours me
She came close for a while: I said, she has her doubts of me


شعرِ غالب
اُو بہ فکر کشتنِ من بود، آہ از من کہ من
لاابالی خواندمش، نامہرباں نامیدمش
تبسم
وہ میرے مارنے کی فکر میں تھا۔ کتنی افسوس کی بات ہے کہ میں اسے لا ابالی کہتا رہا اور نامہرباں کے نام سے پکارتا رہا۔
عدنی
گھات میں تھا قتل کی وہ اور اسے سمجھے بغیر
لا ابالی بے خبر، نا مہرباں کہتا تھا میں
رسل
She was intent on slaying me. Alas for me, that I
Declared she was indifferent, said that she was unkind


شعرِ غالب
تانہم بروے سپاس خدمتے از خویشتن
بود صاحب خانہ امّا میہماں نامیدمش
تبسم
وہ صاحبِ خانہ تھا اور میں اسے میہماں کہتا رہا تاکہ میں اسکی کوئی خدمت کرکے اس پر کوئی احسان دھر سکوں۔
تبسم، منظوم
تھا مجھے منظور اسے مرہونِ منت دیکھنا
تھا وہ صاحب خانہ لیکن میہماں کہنا پڑا
عدنی
اپنی خدمت کا فقط احساں جتانے کیلیے
تھا وہ صاحب خانہ لیکن میہماں کہتا تھا میں
رسل
To make her feel obliged to me for all I did for her
She was my host, and yet I told myself, she is my guest


شعرِ غالب
دل زباں را راز دان آشنائی ہا نخواست
گاہ بہماں گفتمش، گاہے فلاں نامیدمش
تبسم
میرا دل نہیں چاہتا تھا کہ میری زباں محبت اور دوستی کی رازداں ہو اس لیے جب بھی محبوب کا تذکرہ آیا میں نے اسے کبھی فلاں، کبھی فلاں کہا۔
شعرِ غالب
ہم نگہ جاں می ستاند، ہم تغافل می کشد
آں دمِ شمشیر و ایں پشتِ کماں نامیدمش
تبسم
اسکا التفات بھی جاں ستاں ہے اور اسکا تغافل بھی مار ڈالتا ہے۔ اسکی توجہ تلوار کی دھار ہے اور اسکی بظاہر بے التفاتی پشتِ کمان کی طرح ہے کہ جس سے تیر نکل کر زخم لگاتا ہے۔


شعرِ غالب
در سلوک از ہر چہ پیش آمد گزشتن داشتم
کعبہ دیدم نقش پائے رہرواں نامیدمش
تبسم
راہِ سلوک میں جو کچھ راستے میں آیا اسے نظر انداز کرکے آگے نکل گیا۔ کعبے کو دیکھا تو اسے رہروانِ راہِ سلوک کا نقشِ پا کہہ دیا۔
تبسم، منظوم
یوں طریقت میں ہر اک شے سے نظر آگے پڑی
کعبے کو بھی نقش پائے رہرواں کہنا پڑا
عدنی
چھوڑ پیچھے راہِ حق میں جو نظر آیا بڑھا
کعبے کو اک نقشِ پائے رہرواں کہتا تھا میں
رسل
I journeyed on beyond each stage I set myself to cover
I saw the Kaba as the tracks of those who had gone on

Persian poetry, Persian Poetry with Urdu translation, Farsi poetry, Farsi poetry with urdu translation, Ralph Russell, رالف رسل
رالف رسل, Ralph Russell
شعرِ غالب
بر امیدِ شیوہء صبر آزمائی زیستم
تو بریدی از من و من امتحاں نامیدمش

تبسم
میں اس امید پر جیتا تھا کہ تیرا جور و ستم کا شیوہ میری طاقتِ صبر کو آزمانے کیلیے ہے، تو مجھ پر ستم ڈھاتا رہے گا اور میں زندہ رہوں گا۔ لیکن تو مجھے چھوڑ کر چلا گیا اور میں نے اس ترے چلے جانے کو امتحان قرار دیا۔
تبسم، منظوم
شیوہء صبر آزمائی پر ترے جیتا تھا میں
یوں تری فرقت کو اپنا امتحاں کہنا پڑا
عدنی
شیوہء صبر آزمائی کے سہارے میں جیا
تو ہوا مجھ سے الگ تو امتحاں کہتا تھا میں
رسل
My hopes told me, she likes to try my powers of endurance
You served all our ties: I said, she is just testing me


شعرِ غالب
بود غالب عندلیبے از گلستانِ عجم
من ز غفلت طوطیِ ہندوستاں نامیدمش
تبسم
غالب تو گلستانِ ایران کی ایک بلبل تھا، میں نے غفلت میں اسے طوطیِ ہندوستاں کہہ دیا۔
--------


بحر - بحر رمل مثمن محذوف


افاعیل - فاعِلاتُن فاعِلاتُن فاعِلاتُن فاعِلُن
(آخری رکن فاعلن میں فاعِلان بھی آ سکتا ہے)


اشاری نظام - 2212 2212 2212 212
(آخری 212 کی جگہ 1212 بھی آ سکتا ہے)


تقطیع -
دود سودائے تُتق بست آسماں نامیدمش
دیدہ بر خواب پریشان زد، جہاں نامیدمش


دود سودا - فاعلاتن - 2212
ئے تتق بس - فاعلاتن - 2212
تاسما نا - فاعلاتن - 2212 (الف وصل استعمال ہوا ہے)
میدمش - فاعلن - 212


دیدَ بر خا - فاعلاتن - 2212
بے پریشا - فاعلاتن - 2212
زد جہاں نا - فاعلاتن - 2212
میدمش - فاعلن - 212

مزید پڑھیے۔۔۔۔

Jun 3, 2008

غزلِ مرزا غالب - درد ہو دل میں تو دوا کیجے

درد ہو دل میں تو دوا کیجے
دل ہی جب درد ہو تو کیا کیجے

ہم کو فریاد کرنی آتی ہے
آپ سنتے نہیں تو کیا کیجے

ان بتوں کو خدا سے کیا مطلب
توبہ توبہ، خدا خدا کیجے

رنج اٹھانے سے بھی خوشی ہوگی
پہلے دل درد آشنا کیجے
urdu poetry, urdu ghazal, ilm-e-arooz, taqtee, Mirza Ghalib, مرزا غالب
مرزا غالب, Mirza Ghalib
عرضِ شوخی، نشاطِ عالم ہے
حسن کو اور خود نما کیجے

دشمنی ہو چکی بہ قدرِ وفا
اب حقِ دوستی ادا کیجے

موت آتی نہیں کہیں غالب
کب تک افسوس زیست کا کیجے
——–
بحر - بحر خفیف مسدس مخبون محذوف مقطوع
افاعیل - فاعِلاتُن مُفاعِلُن فَعلُن
(اس بحر میں آٹھ وزن جمع ہو سکتے ہیں، تفصیل کیلیئے میرا مقالہ “ایک خوبصورت بحر - بحر خفیف” دیکھیئے)
اشاری نظام - 2212 2121 22
تقطیع -
درد ہو دل میں تو دوا کیجے
دل ہی جب درد ہو تو کیا کیجے
درد ہو دل - فاعلاتن - 2212
مِ تو دوا - مفاعلن - 2121
کیجے - فعلن - 22
دل ہِ جب در - فاعلاتن - 2212
د ہو تُ کا - مفاعلن - 2121
کیجے - فعلن - 22
-----

یہ خوبصورت غزل ملکہٴ ترنم نورجہاں کی خوبصورت آواز میں






مزید پڑھیے۔۔۔۔

May 28, 2008

غالب کی ایک خوبصورت فارسی غزل مع منظوم تراجم - ز من گَرَت نہ بُوَد باور انتظار بیا

غالب کی مندرجہ ذیل غزل صوفی تبسم کے پنجابی ترجمے اور غلام علی کی گائیکی کی وجہ سے شہرہ آفاق مقبولیت حاصل کر چکی ہے اور میری بھی پسندیدہ ترین غزلوں میں سے ہے۔

شعرِ غالب
ز من گَرَت نہ بُوَد باور انتظار بیا
بہانہ جوئے مباش و ستیزہ کار بیا

اردو ترجمہ خواجہ حمید یزدانی
میں تیرے انتظار میں ہوں، اگر تجھے اس کا یقین نہیں ہے تو آ اور دیکھ لے۔ اس ضمن میں بہانے مت تلاش کر، بے شک لڑنے جھگڑنے کا طور اپنا کر آ۔

منظوم ترجمہ پنجابی صوفی تبسم
میرے شوق دا نیں اعتبار تینوں، آ جا ویکھ میرا انتظار آ جا
اینویں لڑن بہانڑے لبھنا ایں، کی تو سوچنا ایں سِتمگار آ جا

منظوم اردو ترجمہ صوفی تبسم
دکھا نہ اتنا خدا را تو انتظار آ جا
نہ ہو ملاپ تو لڑنے کو ایک بار آ جا

منظوم ترجمہ چوہدری نبی احمد باجوہ
نہیں جو مانتے تم میرا انتظار آؤ
بہانہ جو نہ بنو، ہاں ستیزہ کار آؤ


منظوم ترجمہ اردو افتخار احمد عدنی
تجھے ہے وہم، نہیں مجھ کو انتظار آجا
بہانہ چھوڑ، مری جاں ستیزہ کار آجا


انگلش ترجمہ پروفیسر رالف رسل
You cannot think my life is spent in waiting? Well then, come
Seek no excuses; arm yourself for battle and then come
Persian poetry, Persian Poetry with Urdu translation, Farsi poetry, Farsi poetry with urdu translation, مرزا غالب, Mirza Ghalib
مرزا غالب, Mirza Ghalib
شعرِ غالب
بہ یک دو شیوہ ستم دل نمی شوَد خرسند
بہ مرگِ من، کہ بہ سامانِ روزگار بیا


یزدانی
میرا دل تیرے دو ایک اندازِ ستم سے خوش نہیں ہوتا، تجھے میری موت کی قسم تو اس سلسلے میں زمانے بھر کا سامان لے کر آ۔


باجوہ
ستم کی اک دو ادا سے نہیں یہ دل خورسند
بلا ہو، موت ہو، آشوبِ روزگار آؤ


عدنی
جفا میں بخل نہ کر، میرے دل کی وسعت دیکھ
ستم کی فوج لیے مثلِ روز گار آجا


رسل
These meager modes of cruelty bring me no joy. By God
Bring all the age’s armoury to use on me, and come


شعرِ غالب
بہانہ جوست در الزامِ مدّعی شوقَت
یکے بَرَغمِ دلِ نا امیدوار بیا


یزدانی
ہمارا دل تیرے عشق میں رقیب پر الزام دھرنے کے بہانے سوچتا رہتا ہے یعنی یہ کہ رقیب تجھے ہماری طرف نہیں آنے دیتا، تو کبھی یا ذرا ہمارے اس نا امید دل کی اس سوچ کے برعکس آ۔


باجوہ
تمھارے شوق کو الزامِ مدعی کا ہےعذر
کبھی بَرَغمِ دلِ نا امیدوار آؤ


شعرِ غالب
ہلاکِ شیوۂ تمکیں مخواہ مستاں را
عناں گسستہ تر از بادِ نو بہار بیا


یزدانی
تو اپنے مستوں یعنی عاشقوں کیلیے یہ مت چاہ یا پسند کر کے وہ تیرے شیوہء تمکیں (دبدبہء غرورِ حسن) کے نتیجے میں‌ ہلاک ہو جائیں، تو نو بہار کی ہوا سے بھی زیادہ تیزی کے ساتھ آ۔


باجوہ
ہلاکِ شیوۂ تمکیں نہ کیجیے مستوں کو
عناں گسستہ مرے ابرِ نو بہار آؤ


عدنی
ہلاک شیوۂ تمکیں سے کر نہ مستوں کو
حجاب چھوڑ کر اے بادِ نو بہار آجا


Persian poetry, Persian Poetry with Urdu translation, Farsi poetry, Farsi poetry with urdu translation, Sufi Ghulam Mustafa Tabassum, صوفی غلام مصطفی تبسم
صوفی غلام مصطفیٰ تبسم, Sufi Tabassum
رسل
Why seek to slay your lovers by your awesome majesty
Be even more unbridled than the breeze of spring, and come


شعرِ غالب
ز ما گسستی و با دیگراں گرو بستی
بیا کہ عہدِ وفا نیست استوار بیا


یزدانی
تو نے ہم سے تو پیمانِ وفا توڑ لیا اور دوسروں یعنی رقیبوں کے ساتھ یہ عہد باندھ لیا۔ آ، تو ہماری طرف آ کیونکہ عہدِ وفا کوئی محکم عہد نہیں‌ ہے۔


باجوہ
جو ہم سے کٹ کے بندھا غیر سے ہے عہد نیا
جہاں میں عہدِ وفا کب ہے استوار آؤ


عدنی
جو تو نے غیر سے باندھا اسے بھی توڑ صنم
ہوا ہے عہدِ وفا کب سے استوار آ جا


رسل
You broke with me, and now you pledge yourself to other men
But come, the pledge of loyalty is never kept. So come


شعرِ غالب
وداع و وصل جداگانہ لذّتے دارَد
ہزار بار بَرَو، صد ہزار بار بیا


یزدانی
فراق اور وصل دونوں میں اپنی اپنی ایک لذت ہے، تو ہزار بار جا اور لاکھ بار آ۔


تبسم پنجابی
بھانویں ہجر تے بھانویں وصال ہووئے ،وکھو وکھ دوہاں دیاں لذتاں نے
میرے سوہنیا جا ہزار واری ،آ جا پیاریا تے لکھ وار آجا


تبسم اردو
وداع و وصل میں ہیں لذّتیں جداگانہ
ہزار بار تو جا، صد ہزار بار آ جا


باجوہ
جدا جدا ہے وداع اور وصل کی لذّت
ہزار بار اگر جاؤ، لاکھ بار آؤ


عدنی
وداع و وصل ہیں دونوں کی لذّتیں اپنی
ہزار بار جدا ہو کے لاکھ بار آجا


Persian poetry, Persian Poetry with Urdu translation, Farsi poetry, Farsi poetry with urdu translation, افتخار احمد عدنی, Iftikhar Ahmed Adani
افتخار احمد عدنی, Iftikhar Ahmed Adani
رسل
Parting and meeting - each of them has its distinctive joy
Leave me a hundred times; turn back a thousand times, and come


شعرِ غالب
تو طفل سادہ دل و ہمنشیں بد آموزست
جنازہ گر نہ تواں دید بر مزار بیا


یزدانی
تو ایک بھولے بھالے بچے کی طرح ہے اور رقیب تجھے الٹی سیدھی پٹیاں پڑھا رہا ہے، سو اگر تو ہمارا جنازہ نہیں دیکھ سکا تو کم از کم ہمارے مزار پر ہی آ جا۔


تبسم پنجابی
تُو سادہ تے تیرا دل سادہ ،تینوں ایویں رقیب کُراہ پایا
جے تو میرے جنازے تے نیں آیا، راہ تکدا اے تیری مزار آ جا


تبسم اردو
تو سادہ دل ہے بہت اور رقیب بد آموز
نہ وقتِ مرگ گر آیا، سرِ مزار آ جا


باجوہ
ہو تم تو سادہ مگر ہمنشیں ہے بد آموز
جنازہ مل نہ سکے گا، سرِ مزار آؤ


شعرِ غالب
فریب خوردۂ نازَم، چہا نمی خواہَم
یکے بہ پُرسَشِ جانِ امیدوار بیا


یزدانی
میں ناز و ادا کا فریب خوردہ یعنی مارا ہوا ہوں، میں‌ کیا کیا نہیں چاہتا، یعنی میری بہت سی آرزوئیں ہیں، تو ہماری امیدوار جان کا حال احوال تو پوچھنے آ۔


باجوہ
فریب خوردہ ہوں میں ناز کا اسے چھوڑو
برائے پرسشِ جانِ امیدوار آؤ


شعرِ غالب
ز خوئے تُست نہادِ شکیب نازک تر
بیا کہ دست و دِلَم می رَوَد ز کار بیا


یزدانی
تیری نزاکت طبع کے ہاتھوں ہمارے صبر کی بنیاد بہت ہی نازک ہوگئی ہے، تو آ کہ تیرے اس رویے کے باعث میرا دست و دل بیکار ہو کر رہ گئے ہیں۔


باجوہ
تمھاری خو سے سرشتِ شکیب نازک ہے
چلا میں، صبر کا دامن ہے تار تار آؤ


شعرِ غالب
رواجِ صومعہ ہستیست، زینہار مَرَو
متاعِ میکدہ مستیست، ہوشیار بیا


یزدانی
خانقاہوں میں غرور و تکبر کا رواج ہے، دیکھیو ادھر مت جائیو، جبکہ میکدہ کی دولت و سرمایہ مستی ہے، وہاں ذرا چوکنا ہو کر آجا۔


تبسم پنجابی
ایہہ رواج اے مسجداں مندراں دا ،اوتھے ہستیاں تے خود پرستیاں نے
میخانے وِچ مستیاں ای مستیاں نے ،ہوش کر، بن کے ہوشیار آ جا


تبسم اردو
رواجِ صومعہ ہستی ہے واں نہ جا ہر گز
متاعِ میکدہ مستی ہے بے شمار آ جا


باجوہ
رواجِ صومعہ ہستی ہے مت ادھر جاؤ
متاعِ میکدہ مستی ہے، ہوشیار آؤ


عدنی
رواجِ صومعہ، ہستی ہے، اس طرف مت جا
متاعِ میکدہ مستی ہے، ہوشیار آجا


Persian poetry, Persian Poetry with Urdu translation, Farsi poetry, Farsi poetry with urdu translation, Ralph Russell, رالف رسل
رالف رسل, Ralph Russell
رسل
The mosque is all awareness. Mind you never go that way
The tavern is all ecstasy. So be aware, and come


شعر غالب
حصار عافیَتے گر ہوس کُنی غالب
چو ما بہ حلقۂ رندانِ خاکسار بیا


یزدانی
اے غالب اگر تجھے کسی عافیت کے قلعے کی خواہش ہے تو ہماری طرح رندانِ خاکسار کے حلقہ میں آ جا۔


تبسم پنجابی
سُکھیں وسنا جے تُوں چاہونا ایں میرے غالبا ایس جہان اندر
آجا رنداں دی بزم وِچ آ بہہ جا، ایتھے بیٹھ دے نے خاکسار آ جا


تبسم اردو
حصارِ امن اگر چاہیے تجھے غالب
درونِ حلقۂ رندانِ خاکسار آ جا


باجوہ
حصار امن کی خواہش ہے گر تمھیں غالب
اِدھر ہے حلقۂ رندانِ خاکسار آؤ


عدنی
حصارِ امن کی خواہش ہے گر تجھے غالب
میانِ حلقۂ رندانِ خاکسار آجا


رسل
If you desire a refuge, Ghalib, there to dwell secure
Find it within the circle of us reckless ones, and come
——–


بحر - بحرِ مجتث مثمن مخبون محذوف مقطوع


افاعیل: مَفاعِلُن فَعِلاتُن مَفاعِلُن فَعلُن
(آخری رکن فعلن میں فعلان، فَعِلُن اور فعِلان بھی آ سکتے ہیں)


اشاری نظام - 2121 2211 2121 22
(آخری رکن میں 22 کی جگہ 122، 211 اور 1211 بھی آ سکتے ہیں)


تقطیع -
ز من گرت نہ بود باور انتظار بیا
بہانہ جوئے مباش و ستیزہ کار بیا


ز من گَرَت - مفاعلن - 2121
نہ بوَد با - فعلاتن - 2211
وَ رنتظا - مفاعلن - 2121 (الف وصل استعمال ہوا ہے)
ر بیا - فَعِلن - 211


بہانَ جو - مفاعلن - 2121
ء مبا شو - فعلاتن - 2211
ستیزَ کا - مفاعلن - 2121
ر بیا - فَعِلن - 211

----


اور یہ غزل غلام علی کی آواز میں






مزید پڑھیے۔۔۔۔

May 12, 2008

فارسی کلامِ غالب کے تراجم

غالب کی وجۂ شہرت انکا اردو کلام ہے، لیکن غالب کو ہمیشہ اپنے فارسی کلام پر فخر رہا اور وہ اردو کو ثانوی حیثیت ہی دیتے رہے اسی لیے کہا تھا کہ “بگزار مجموعہء اردو کے بے رنگِ من است”۔ غالب اپنے آپ کو کلاسیکی فارسی شعراء کے ہم پلہ بلکہ انسے بہتر ہی سمجھتے رہے، اور یہ بالکل بجا بھی ہے۔ غالب فارسی کلام میں سبک ہندی لڑی کے آخری تاجدار ہیں، یہ ایک علیحدہ بحث ہے کہ ایرانی سبکِ ہندی کو بالکل در خورِ اعتنا نہیں سمجھتے، لیکن سبکِ ہندی، کہ نازک خیالی اور حسنِ تعلیل جسکی بڑی خصوصیات ہیں، میں غالب کا مقام انتہائی بلند ہے۔

نوجوانی میں غالب، فارسی اور اردو دونوں میں بیدل کا تتبع کرتے تھے لیکن تائب ہوگئے، اس کے علاوہ فارسی غزل مین وہ نظیری سے بہت متاثر تھے لیکن بالآخر اپنا رنگ جما کر رہے۔ لیکن انکا فارسی کلام کبھی بھی مقبول نہیں ہوسکا، اسکی کئی ایک وجوہات مولانا حالی نے بیان کی ہیں۔ ناقدر شناسی اور فارسی سے دُوری اسکی بڑی مثالیں ہیں۔ برصغیر میں فارسی کا انحطاط تو شاید غالب کے زمانے میں ہی شروع ہو چکا تھا، لیکن آزادی تک پہنچتے پہنچتے تو فارسی شناس معدودے چند ہی رہ گئے تھے۔ اور اب تو یہ حال ہے کہ “زبان یارِ من ترکی و من ترکی نمی دانم”۔
Persian poetry, Persian Poetry with Urdu translation, Farsi poetry, Farsi poetry with urdu translation, Mirza Ghalib, مرزا غالب

کلیاتِ غالب نظمِ فارسی، پاکستان میں‌ پہلی دفعہ، شیخ مبارک علی تاجر و ناشر کتب، لاہور نے 1965 میں‌ شائع کیے، اس میں غالب کے فارسی قطعات، مخمس، ترکیب بند، ترجیع بند، مثنویات، قصائد، غزلیات، رباعیات اور تقریظ شامل ہیں۔ مکمل کلیاتِ نظمِ فارسی کا ترجمہ شاید ابھی تک شائع نہیں ہوا۔ 

غزلیات فارسی غالب کا اردو ترجمہ صوفی غلام مصطفیٰ تبسم نے کیا تھا جو کہ پکیجز لاہور نے شائع کروایا تھا اسکی بھی مجھے صرف جلد دوئم جس میں ردیف د تا ے کی غزلیں ہیں، ہی ملی، جلدِ اول بعد از تلاش بسیار نہیں مل سکی۔
ڈاکٹر خواجہ حمید یزدانی نے ایک ترجمہ “شرح کلیاتِ غالب فارسی” کے نام سے پیش کیا ہوا ہے لیکن وہ غالب کے مکمل فارسی کلام پر مشتمل نہیں ہے بلکہ غزلیاتِ غالب، رباعیات غالبِ اور چند قصیدوں کے انتخاب پر مشتمل ہے۔
ایک لا جواب کام افتخار احمد عدنی صاحب اور پروفیسر رالف رسل کا ہے۔ انتخاب فارسی غزلیاتِ غالب کے تراجم ان دونوں اصحاب کے یک جا ہیں اور لا جواب ہیں۔ عدنی صاحب نے منظوم ترجمہ کیا ہے۔ یہ کتاب پاکستان رائٹرز کوآپریٹو سوسائٹی نے، انجمنِ ترقی اردو کے تعاون سے 1999 میں‌ شائع کی۔ 


غالب کے فارسی کلام کا ایک منظوم ترجمہ چوہدری نبی احمد باجوہ نے کیا تھا جو کے 1972 میں “شش جہاتِ غالب” کے نام سے شائع ہوا، اس میں انہوں نے غالب کے فارسی منتخب کلام کا منظوم ترجمہ کیا ہے۔
غالب کی فارسی غزلیات کا ایک منظوم ترجمہ ڈاکٹر خالد حمید صاحب نے کیا ہے جسے بزمِ علم و فن پاکستان، اسلام آباد نے شائع کیا ہے۔ 


فارسی رباعیات غالب کا منظوم ترجمہ صبا اکبر آبادی مرحوم نے “ہم کلام” کے نام سے کیا تھا، اور کیا خوب کام ہے یہ۔ 1986 میں پہلی دفعہ شائع ہوا۔

مزید پڑھیے۔۔۔۔