Showing posts with label بحر ہزج. Show all posts
Showing posts with label بحر ہزج. Show all posts

Nov 23, 2012

یہ بالیقیں حُسین ہے، نبی کا نُورِ عین ہے - حفیظ جالندھری

لباس ہے پھٹا ہوا، غُبار میں اٹا ہوا
تمام جسمِ نازنیں، چھدا ہوا کٹا ہوا
یہ کون ذی وقار ہے، بلا کا شہ سوار ہے
کہ ہے ہزاروں قاتلوں کے سامنے ڈٹا ہوا
یہ بالیقیں حُسین ہے، نبی کا نُورِ عین ہے

یہ کون حق پرست ہے، مئے رضائے مست ہے
کہ جس کے سامنے کوئی بلند ہے نہ پست ہے
اُدھر ہزار گھات ہے، مگر عجیب بات ہے
کہ ایک سے ہزار کا بھی حوصلہ شکست ہے
یہ بالیقیں حُسین ہے، نبی کا نُورِ عین ہے

یہ جسکی ایک ضرب سے، کمالِ فنّ ِ حرب سے
کئی شقی گرئے ہوئے تڑپ رہے ہیں کرب سے
غضب ہے تیغِ دوسرا کہ ایک ایک وار پر
اُٹھی صدائے الاماں زبانِ شرق وغرب سے
یہ بالیقیں حُسین ہے، نبی کا نُورِ عین ہے

عبا بھی تار تار ہے، تو جسم بھی فگار ہے
زمین بھی تپی ہوئی  فلک بھی شعلہ بار ہے
مگر یہ مردِ تیغ زن، یہ صف شکن فلک فگن
کمالِ صبر و تن دہی سے محوِ کارزار ہے
یہ بالیقیں حُسین ہے، نبی کا نُورِ عین ہے
Ilm-e-Arooz, Ilm-e-Urooz, Taqtee, Behr, Urdu Poetry, Urdu Shairi, اردو شاعری، علم عروض، تقطیع، بحر، بحر ہزج, سلام, Salam; hafeez jalandhari، حفیظ جالندھری
Hafeez Jalandhari، حفیظ جالندھری

دلاوری میں فرد ہے، بڑا ہی شیر مرد ہے
کہ جس کے دبدبے سے رنگ دشمنوں کا زرد ہے
حبیبِ مُصطفیٰ ہے یہ، مجاہدِ خدا ہے یہ
جبھی تو اس کے سامنے، یہ فوج گرد گرد ہے
یہ بالیقیں حُسین ہے، نبی کا نُورِ عین ہے

اُدھر سپاہِ شام ہے، ہزار انتظام ہے
اُدھر ہیں دشمنانِ دیں، اِدھر فقط اِمام ہے
مگر عجیب شان ہے غضب کی آن بان ہے
کہ جس طرف اُٹھی ہے تیغ بس خدا کا نام ہے
یہ بالیقیں حُسین ہے، نبی کا نُورِ عین ہے

حفیظ جالندھری
-----

بحر - بحرِ ہزج مثمن مقبوض

افاعیل - مفاعلن مفاعلن مفاعلن مفاعلن

علامتی نظام - 2121 / 2121 / 2121 /2121
ہندسوں کو اردو کی طرز پر دائیں سے بائیں پڑھیے۔ یعنی 2121 میں 1 پہلے ہے

تقطیع -

لباس ہے پھٹا ہوا، غبار میں اٹا ہوا
تمام جسمِ نازنیں، چھدا ہوا کٹا ہوا

لباس ہے - مفاعلن - 2121
پٹا ہوا - مفاعلن - 2121
غبار مے - مفاعلن - 2121
اٹا ہوا - مفاعلن - 2121

تمام جس - مفاعلن - 2121
مِ نازنی - مفاعلن - 2121
چھدا ہوا - مفاعلن - 2121
کٹا ہوا - مفاعلن - 2121

یہ بالیقیں حُسین ہے، نبی کا نورِ عین ہے

یِ بل یقی - مفاعلن - 2121
حُسین ہے - مفاعلن - 2121
نبی کَ نُو - مفاعلن - 2121
رِ عین ہے - مفاعلن - 2121
-----


مزید پڑھیے۔۔۔۔

Oct 8, 2012

اے تیرِ غمت را دلِ عُشّاق نشانہ - غزل مولانا ہلالی استر آبادی مع اردو ترجمہ

اے تیرِ غمَت را دلِ عُشّاق نشانہ
خلقے بتو مشغول و تو غائب ز میانہ

اے کہ تیرے غم کے تیر کا نشانہ عشاق کا دل ہے، ساری خلقت تجھ میں مشغول ہے اور تو درمیان سے غائب ہے۔

مجنوں صِفَتَم در بدر و خانہ بخانہ
شاید کہ ببینم رُخِ لیلیٰ بہ بہانہ

میں، مجنوں کی طرح در بدر اور خانہ بخانہ (پھرتا ہوں) شاید کہ کسی بہانے ہی سے رخ لیلیٰ کا دیدار ہو جائے۔

گہ معتکفِ مسجد و گہ ساکنِ دیرَم
یعنی کہ ترا می طلبم خانہ بخانہ

کبھی میں مسجد میں حالتِ اعتکاف میں ہوں اور کبھی مندر کا ساکن ہوں، یعنی میں خانہ بخانہ تیرا ہی طالب ہوں (کہ مسجد و مندر میں تو ہی ہے)-

حاجی بہ رہِ کعبہ و من طالبِ دیدار
اُو خانہ ہمی جوید و من صاحبِ خانہ

حاجی کعبے کا مسافر ہے اور میں تیرے دیدار کا طالب ہوں، یعنی وہ تو گھر ڈھونڈتا ہے اور میں گھر والے کو۔

تقصیرِ ہلالی بہ اُمیدِ کرمِ تُست
یعنی کہ گنہ را بہ ازیں نیست بہانہ

ہلالی کی تقصیروں کو تیرے کرم کی ہی امید ہے یعنی کہ گناہوں کیلیے اس سے بہتر کوئی بہانہ نہیں ہے۔

مولانا ہلالی اَستر آبادی
----

قافیہ - آنہ یعنی الف نون اور ہائے ہوز ساکن اور الف سے پہلے زبر کی آواز۔ جیسے نشانہ میں شانہ، میانہ میں یانہ، بہانہ میں ہانہ اور خانہ۔ واضح رہے کہ الف سے پہلے ہمیشہ زبر کی آواز ہی ہوتی ہے۔

ردیف - اس غزل کی ردیف نہیں ہے یعنی یہ غزل غیر مُردّف ہے۔

بحر - بحرِ ہزج مثمن اخرب مکفوف محذوف

 افاعیل: مَفعُولُ مَفَاعیلُ مَفَاعیلُ فَعُولُن
آخری رکن فعولن کی جگہ مسبغ رکن فعولان بھی آ سکتا ہے۔ جیسے چوتھے شعر کے پہلے مصرعے میں "طالبِ دیدار" میں جز "بِ دیدار" فعولان کے وزن پرں تقطیع ہوگا۔ اسی طرح مقطع کے پہلے مصرعے میں بھی۔

علامتی نظام - 122 / 1221 / 1221 / 221
(آخری رکن 221 کی جگہ 1221 بھی آ سکتا ہے)
ہندسوں کو اردو رسم الخظ کے مطابق یعنی دائیں سے بائیں پڑھیے یعنی  122 پہلے ہے اور اس میں بھی 2 پہلے ہے۔

 تقطیع -

اے تیر غمَت را دلِ عُشّاق نشانہ
خلقے بتو مشغول و تو غائب ز میانہ

اے تیر - مفعول - 122
غمت را دِ - مفاعیل - 1221
لِ عشّاق - مفاعیل - 1221
نشانہ - فعولن - 221

خلقے بَ - مفعول - 122
تُ مشغول - مفاعیل - 1221
تُ غائب ز - مفاعیل - 1221
میانہ - فعولن - 221
----

مزید پڑھیے۔۔۔۔

Sep 14, 2012

حالات کے قدموں پہ قلندر نہیں گرتا - قتیل شفائی

حالات کے قدموں پہ قلندر نہیں گرتا
ٹوٹے بھی جو تارا تو زمیں پر نہیں گرتا

گرتے ہیں سمندر میں بڑے شوق سے دریا
لیکن کسی دریا میں سمندر نہیں گرتا

سمجھو وہاں پھل دار شجر کوئی نہیں ہے
وہ صحن کہ جِس میں کوئی پتھّر نہیں گرتا

اِتنا تو ہوا فائدہ بارش کی کمی سے
اِس شہر میں اب کوئی پھسل کر نہیں گرتا

انعام کے لالچ میں لکھے مدح کسی کی
اتنا تو کبھی کوئی سخنور نہیں گرتا

حیراں ہے کوئی روز سے ٹھہرا ہوا پانی
تالاب میں اب کیوں کوئی کنکر نہیں گرتا
Qateel Shifai, قتیل شفائی, Ilm-e-Arooz, Ilm-e-Urooz, Urdu Poetry, Urdu Shairy, Urdu Ghazl, Taqtee, Behr, علم عروض، تقطیع، اردو شاعری، اردو غزل
Qateel Shifai, قتیل شفائی

اُس بندہٴ خوددار پہ نبیوں کا ہے سایا
جو بھوک میں بھی لقمہٴ تر پر نہیں گرتا

کرنا ہے جو سر معرکہِ زیست تو سُن لے
بے بازوئے حیدر، درِ خیبر نہیں گرتا

قائم ہے قتیل اب یہ مرے سر کے ستوں پر
بھونچال بھی آئے تو مرا گھر نہیں گرتا
-----

قافیہ - اَر یعنی رے ساکن اور اس سے پہلے زبر کی آواز جیسے قلندر میں دَر، پَر، سمندر میں دَر، پتھر میں تھَر، کر وغیرہ۔

ردیف - نہیں گرتا

بحر - بحرِ ہزج مثمن اخرب مکفوف محذوف

 افاعیل: مَفعُولُ مَفَاعیلُ مَفَاعیلُ فَعُولُن
آخری رکن فعولن کی جگہ مسبغ رکن فعولان بھی آ سکتا ہے۔

علامتی نظام - 122 / 1221 / 1221 / 221
(آخری رکن 221 کی جگہ 1221 بھی آ سکتا ہے)
ہندسوں کو اردو رسم الخظ کے مطابق یعنی دائیں سے بائیں پڑھیے یعنی  122 پہلے ہے اور اس میں بھی 2 پہلے ہے۔

 تقطیع -

حالات کے قدموں پہ قلندر نہیں گرتا
ٹوٹے بھی جو تارا تو زمیں پر نہیں گرتا

حالات - مفعول - 122
کِ قدمو پِ - مفاعیل - 1221
قلندر نَ - مفاعیل - 1221
ہِ گرتا - فعولن - 221

ٹوٹے بِ - مفعول - 122
جُ تارا تُ - مفاعیل - 1221
زمی پر نَ - مفاعیل - 1221
ہِ گرتا - فعولن - 221
----
مزید پڑھیے۔۔۔۔

Sep 11, 2012

یہی دھڑکا مرے پندار سے باندھا ہوا ہے - شیخ خالد کرار

ریاست جموں و کشمیر، ہندوستان سے ہمارے کرما فرما اور "اردو جاوداں" کے مدیر جناب شیخ خالد کرار صاحب کی ایک غزل۔ انکی مزید شاعری انکی ویب سائٹ "ورود"ربط پر پڑھی جا سکتی ہے۔

یہی دھڑکا مرے پندار سے باندھا ہوا ہے
مرے اثبات کو انکار سے باندھا ہوا ہے

مرے ہاتھوں میں کِیلیں گاڑھ رکھّی ہیں کسی نے
مرے ہی جسم کو دیوار سے باندھا ہوا ہے

یا رستہ دائروں کی قید میں ہے میری خاطر
یا میرے جسم کو پرکار سے باندھا ہوا ہے
Khalid Karrar, خالد کرار، Ilm-e-Arooz, Ilm-e-Urooz, Taqtee, Behr, Urdu Poetry, Urdu Ghazal, Urdu Shairi, اردو شاعری، علم عروض، تقطیع، بحر، بحر مجتث, اردو غزل
Khalid Karrar, خالد کرار

حویلی میں مرے اجداد رہتے تھے مگر اب
انا کے سانپ کو دستار سے باندھا ہوا ہے

مجھے واپس اُسی جنگل میں جانا ہے کسی دن
مجھے تہذیب نے بازار سے باندھا ہوا ہے

میں اُس کو سر اٹھا کر دیکھنا تو چاہتا ہوں
مگر کندھوں کو اُس نے بار سے باندھا ہوا ہے

مجھے ہر گام ہے تازہ ہزیمت عمر بھر کی
کہ میں نے آئنہ کردار سے باندھا ہوا ہے

حیاداری کے دھاگے نے پرو رکھّا ہے خالد
بھرم نے مجھ کو میرے یار سے باندھا ہوا ہے

شیخ خالد کرار
-----

قافیہ - آر یعنی الف رے اور ان سے پہلے زبر کی آواز جیسے پندار میں دار، انکار میں کار، دیوار میں وار وغیرہ۔

ردیف - سے باندھا ہوا ہے

بحر - بحر ہزج مثمن محذوف

افاعیل - مفاعیلن مفاعیلن مفاعیلن فعولن

علامتی نظام - 2221 / 2221 / 2221 / 221
ہندسوں کو اردو طرز یعنی دائیں سے بائیں پڑھیے یعنی 2221 پہلے ہے اور اس میں بھی 1 پہلے ہے۔

تقطیع-

یہی دھڑکا مرے پندار سے باندھا ہوا ہے
مرے اثبات کو انکار سے باندھا ہوا ہے

یہی دڑکا - مفاعیلن - 2221
مرے پندا - مفاعیلن - 2221
ر سے بادا - مفاعیلن - 2221
ہوا ہے - فعولن - 221

مرے اثبا - مفاعیلن - 2221
ت کو انکا - مفاعیلن - 2221
ر سے بادا - مفاعیلن - 2221
ہوا ہے - فعولن - 221
-----
مزید پڑھیے۔۔۔۔

Aug 16, 2012

ہم آہ بھی کرتے ہیں تو ہو جاتے ہیں بدنام - غزل اکبر الہ آبادی

غمزہ نہیں ہوتا کہ اشارہ نہیں ہوتا
آنکھ ان سے جو ملتی ہے تو کیا کیا نہیں ہوتا

جلوہ نہ ہو معنی کا تو صورت کا اثر کیا
بلبل گلِ تصویر کا شیدا نہیں ہوتا

اللہ بچائے مرضِ عشق سے دل کو
سنتے ہیں کہ یہ عارضہ اچھّا نہیں ہوتا
Urdu Poetry, Akbar Allahabadi, اکبر الہ آبادی, Ilm-e-Arooz, Ilm-e-urooz, Prosody, meters, Behr, Taqtee, ااردو شاعری، اردو غزل، تقطیع، علم عروض،
Akbar Allahabadi, اکبر الہ آبادی

تشبیہ ترے چہرے کو کیا دوں گُلِ تر سے
ہوتا ہے شگفتہ مگر اتنا نہیں ہوتا

میں نزع میں ہوں آئیں تو احسان ہے اُن کا
لیکن یہ سمجھ لیں کہ تماشا نہیں ہوتا

ہم آہ بھی کرتے ہیں تو ہو جاتے ہیں بدنام
وہ قتل بھی کرتے ہیں تو چرچا نہیں ہوتا
-----

قافیہ - آ یعنی الف اور اس سے پہلے زبر کی آواز جیسے اشارہ کا را، کیا کا آ، شیدا کا دا وغیرہ۔

یہاں یہ وضاحت ضروری ہے کہ ایسے قافیے ہائے ہوز یعنی ہ کے ساتھ بھی کیے جا سکتے ہیں جیسے اشارہ میں قافیہ را کی بجائے رہ ہے لیکن اس کی اجازت ہے بشرطیکہ اس کا اعلان مطلع میں کیا جائے یعنی ایک ایسا قافیہ مطلع میں لایا جائے اور بعد میں جتنے مرضی لے آئیں جیسے اس غزل میں چہرہ قافیہ بھی آ سکتا تھا۔

ردیف - نہیں ہوتا

بحر - بحرِ ہزج مثمن اخرب مکفوف محذوف

 افاعیل: مَفعُولُ مَفَاعیلُ مَفَاعیلُ فَعُولُن
آخری رکن فعولن کی جگہ مسبغ رکن فعولان بھی آ سکتا ہے، جیسے کہ اس غزل کے آخری شعر کے پہلے مصرعے میں الفاظ "ہیں بدنام" کی تقطیع فعولان کے وزن پر ہوگی۔

علامتی نظام - 122 / 1221 / 1221 / 221
(آخری رکن 221 کی جگہ 1221 بھی آ سکتا ہے)
ہندسوں کو اردو رسم الخظ کے مطابق یعنی دائیں سے بائیں پڑھیے یعنی  122 پہلے ہے اور اس میں بھی 2 پہلے ہے۔

 تقطیع -

غمزہ نہیں ہوتا کہ اشارہ نہیں ہوتا
آنکھ ان سے جو ملتی ہے تو کیا کیا نہیں ہوتا

غمزہ نَ - مفعول - 122
ہِ ہوتا کِ - مفاعیل - 1221
اشارہ نَ - مفاعیل - 1221
ہِ ہوتا - فعولن - 221

آ کُن سِ - مفعول - 122 - یہاں "آنکھ ان" میں الف کا وصال نوٹ کریں۔
جُ ملتی ہِ - مفاعیل - 1221
تُ کا کا نَ - مفاعیل - 1221
ہِ ہوتا - فعولن - 221
-----
مزید پڑھیے۔۔۔۔

Jul 19, 2012

زبورِ عجم سے علامہ اقبال کی ایک فارسی غزل مع اردو ترجمہ- دلِ بے قیدِ من با نورِ ایماں کافری کردہ

دلِ بے قیدِ من با نورِ ایماں کافری کردہ
حرم را سجدہ آوردہ، بتاں را چاکری کردہ

میرے بے قید دل نے ایمان کے نور کے ساتھ کافری کی ہے کہ سجدہ تو حرم کو کرتا ہے لیکن چاکری اور غلامی بتوں کی کرتا ہے۔

متاعِ طاعتِ خود را ترازوے برافرازد
ببازارِ قیامت با خدا سوداگری کردہ

(زاہد، عابد، صوفی) اپنے اطاعت کے مال و متاع کو ترازو میں تولتا ہے، گویا کہ قیامت کے بازار میں خدا کے ساتھ سوداگری کرتا ہے۔ اس خیال کا اظہار علامہ نے اپنے اردو اشعار میں بھی کیا ہے اور ان سے پہلے بھی بہت سے شعرا نے کیا ہے کہ خدا کی اطاعت بغیر کسی لالچ کے ہونی چاہیے۔

زمین و آسماں را بر مرادِ خویش می خواہد
غبارِ راہ و با تقدیرِ یزداں داوری کردہ

انسان زمین و آسمان کو اپنی من چاہی خواہشات کے مطابق دیکھنا چاہتا ہے حالانکہ وہ راہ کے گرد و غبار جیسا ہے اور پھر بھی خدا کی تقدیر کے ساتھ مقابلہ کرتا ہے۔

گہے با حق در آمیزد، گہے با حق در آویزد
زمانے حیدری کردہ، زمانے خیبری کردہ

(بے یقینی اور تذبذب میں مبتلا انسان) کبھی تو حق کے ساتھ گھل مل جاتا ہے اور کبھی حق کے مخالف ہو جاتا ہے اور اس سے مقابلہ کرتا ہے یعنی کسی لمحے حضرت علی ع کی طرح حیدری کرتا ہے اور دوسرے لمحے خیبر کے مرحب کی طرح ہو جاتا ہے جس نے حضرت علی سے مقابلہ کیا تھا۔ دوسرے مصرعے میں تلمیح تو ہے ہی، تشبیہ بھی بہت خوبصورت ہے۔
Allama Iqbal, علامہ اقبال, Allama Muhammad Iqbal, Allama Iqbal Persian-Farsi poetry with Urdu Translation, Ilm-e-Arooz, Ilm--e-Urooz, Taqtee, Behr, علم عروض، تقطیع، بحر، بحر ہزج، بحر ہزج مثمن سالم، علامہ اقبال کی فارسی شاعری مع بمع اردو ترجمہ، علامہ محمد اقبال
Allama Iqbal, علامہ اقبال

بایں بے رنگیٴ جوہر ازو نیرنگ می ریزد
کلیمے بیں کہ ہم پیغمبری ہم ساحری کردہ

(حق ناشناس اور دو رنگی میں مبتلا آدمی سے) اپنے جوہر کی بے رنگی کے باوجود نیرنگ کا ظہور ہوتا رہتا ہے یعنی وہ ایک ایسے کلیم کی مانند ہے جو پیغمبری بھی کرتا ہے اور ساحری بھی کرتا ہے۔

نگاہش عقلِ دُوراندیش را ذوقِ جنوں دادہ
ولیکن با جنونِ فتنہ ساماں نشتری کردہ

اُسکی نگاہ نے دوراندیش عقل کو ذوقِ جنوں دیا لیکن فتنہ سامان جنون کے ساتھ نشتری بھی کی یعنی اس کو نشتر لگائے۔ عجب خوبصورت شعر ہے کہ ایک طرف اُس کی نگاہ اگر عقل کو ذوق جنون دیتی ہے تو دوسری طرف جنون کو بھی نشتر لگا لگا کر قابو میں رکھتی ہے۔

بخود کے می رسد ایں راہ پیمائے تن آسانے
ہزاراں سال منزل در مقامِ آزری کردہ

خود تک کیسے پہنچ سکتا ہے یہ تن آسان راہ چلنے والا کہ وہ ہزاروں سال مقامِ آزر میں ہی بیٹھا رہا۔ یعنی انسان کی اصل منزل یہ ہے کہ وہ خود تک پہنچے اور اس کیلیے ضروری ہے کہ جہدِ مسلسل میں لگا ہی رہے اور راہ کی آرام دہ جگہوں پر بیٹھا ہی نہ رہے۔

(علامہ محمد اقبال، زبورِ عجم)
------

قافیہ - آری یعنی ری اور اُس سے پہلے زبر کی آواز، یعنی کافری، چاکری، سوداگری وغیرہ
یہاں ایک سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب ری سے پہلے زبر کی آواز قافیہ ہے تو اصل لفظ تو کافِر ہے یعنی فے کے نیچے زیر ہے تو زبر کیسے آئی تو اسکا جواب یہ ہے کہ لفظ کافر عربی میں تو کافِر ہی ہے لیکن فارسی اور اردو میں فے کی زبر کے ساتھ یعنی کافَر بھی استعمال ہوتا ہے جیسے، مرزا غالب نے پتھر، ساغر اور  پر کا قافیہ کافَر کیا ہے، اسی طرح اس غزل میں بھی ہے۔

ردیف۔ کردہ

بحر - بحر ہزج مثمن سالم

افاعیل - مَفاعِیلُن مَفاعِیلُن مَفاعِیلُن مَفاعِیلُن

علامتی نظام - 2221 / 2221 / 2221 / 2221
(ہندسوں کو اردو کی طرز پر یعنی دائیں سے بائیں پڑھیے یعنی 1 پہلے اور 222 بعد میں)

تقطیع -

دلِ بے قیدِ من با نورِ ایماں کافری کردہ
حرم را سجدہ آوردہ، بتاں را چاکری کردہ

دِلے بے قے - مفاعیلن - 2221
دِ من با نُو - مفاعیلن - 2221
ر ایما کا - مفاعیلن - 2221
فری کردہ - مفاعیلن - 2221

حرم را سج - مفاعیلن - 2221
دَ آوردہ - مفاعیلن - 2221
بتا را چا - مفاعیلن - 2221
کری کردہ -مفاعیلن - 2221
------


مزید پڑھیے۔۔۔۔

Jun 18, 2012

یہ عشق نے دیکھا ہے، یہ عقل سے پنہاں ہے - غزل اصغر گونڈوی

یہ عشق نے دیکھا ہے، یہ عقل سے پنہاں ہے
قطرہ میں سمندر ہے، ذرّہ میں بیاباں ہے

ہے عشق کہ محشر میں، یوں مست و خراماں ہے
دوزخ بگریباں ہے، فردوس بہ داماں ہے

ہے عشق کی شورش سے، رعنائی و زیبائی
جو خون اچھلتا ہے، وہ رنگِ گلستاں ہے

پھر گرمِ نوازش ہے، ضو مہرِ درخشاں کی
پھر قطرہٴ شبنم میں، ہنگامہٴ طوفاں ہے

اے پیکرِ محبوبی میں کس سے تجھے دیکھوں
جس نے تجھے دیکھا ہے، وہ دیدہٴ حیراں ہے

سو بار ترا دامن، ہاتھوں میں مرے آیا
جب آنکھ کھلی دیکھا، اپنا ہی گریباں ہے
Asghar Gondvi, اصغر گونڈوی, Urdu Poetry, Urdu Ghazal, Urdu Shairi, Ilm-e-Arooz, Ilm-e-Urooz, Taqtee, Classical Urdu Poetry, Behr, اردو شاعری، اردو غزل، کلاسیکی اردو شاعری، علم عروض، بحر، تقطیع
Asghar Gondvi, اصغر گونڈوی

اک شورشِ بے حاصل، اک آتشِ بے پروا
آفت کدہٴ دل میں، اب کفر نہ ایماں ہے

دھوکا ہے یہ نظروں کا، بازیچہ ہے لذّت کا
جو کنجِ قفس میں تھا، وہ اصلِ گلستاں ہے

اک غنچہٴ افسردہ، یہ دل کی حقیقت تھی
یہ موج زنی خوں کی، رنگینیِ پیکاں ہے

یہ حسن کی موجیں ہیں یا جوشِ تبسّم ہے
اس شوخ کے ہونٹوں پر، اک برق سی لرزاں ہے

اصغر سے ملے لیکن، اصغر کو نہیں دیکھا
اشعار میں سنتے ہیں، کچھ کچھ وہ نمایاں ہے

اصغر گونڈوی
------

بحر - بحر ہزج مثمن اخرب
(یہ ایک مقطع بحر ہے یعنی ہر مصرع دو مساوی ٹکڑوں میں تقسیم ہوتا ہے اور ہر ٹکڑا، ایک مصرع کے احکام میں آ سکتا ہے۔ )

افاعیل - مَفعُولُ مَفَاعِیلُن / مَفعُولُ مَفَاعِیلُن

اشاری نظام - 122 2221 / 122 2221
ہندسوں کو اردو رسم الخط کے مطابق یعنی دائیں سے بائیں پڑھیں یعنی  122 پہلے ہے اور اس میں بھی 2 پہلے ہے۔

تقطیع -

یہ عشق نے دیکھا ہے، یہ عقل سے پنہاں ہے
قطرہ میں سمندر ہے، ذرّہ میں بیاباں ہے

یہ عشق - مفعول - 122
نِ دیکا ہے - مفاعیلن - 2221
یہ عقل - مفعول - 122
سِ پنہا ہے - مفاعیلن - 2221

قطرہ مِ - مفعول - 122
سمندر ہے - مفاعیلن - 2221
ذر رہ مِ - مفعول - 122
بیابا ہے - مفاعیلن - 2221
------


مزید پڑھیے۔۔۔۔

Jun 15, 2012

ہر چہرے میں آتی ہے نظر یار کی صورت - واصف علی واصف

ہر چہرے میں آتی ہے نظر یار کی صورت
احباب کی صورت ہو کہ اغیار کی صورت

سینے میں اگر سوز سلامت ہو تو خود ہی
اشعار میں ڈھل جاتی ہے افکار کی صورت

 جس آنکھ نے دیکھا تجھے اس آنکھ کو دیکھوں
ہے اس کے سوا کیا ترے دیدار کی صورت

پہچان لیا تجھ کو تری شیشہ گری سے
آتی ہے نظر فن ہی سے فنکار کی صورت
Urdu Poetry, Urdu Shairy, Urdu Ghazal, Wasif Ali Wasif, واصف علی واصف, Ilm-e-Arooz, Ilm-e-Urooz, Taqtee, Behar, اردو شاعری، اردو غزل، علم عروض، تقطیع، بحر
Wasif Ali Wasif, واصف علی واصف
اشکوں نے بیاں کر ہی دیا رازِ تمنّا
ہم سوچ رہے تھے ابھی اظہار کی صورت

اس خاک میں پوشیدہ ہیں ہر رنگ کے خاکے
مٹّی سے نکلتے ہیں جو گلزار کی صورت

دل ہاتھ پہ رکھّا ہے کوئی ہے جو خریدے؟
دیکھوں تو ذرا میں بھی خریدار کی صورت

صورت مری آنکھوں میں سمائے گی نہ کوئی
نظروں میں بسی رہتی ہے سرکار کی صورت

واصف کو سرِدار پکارا ہے کسی نے
انکار کی صورت ہے نہ اقرار کی صورت

واصف علی واصف

غزل بشکریہ اردو محفل
------

بحر - بحرِ ہزج مثمن اخرب مکفوف محذوف

 افاعیل: مَفعُولُ مَفَاعیلُ مَفَاعیلُ فَعُولُن
(آخری رکن فعولن کی جگہ مسبغ رکن فعولان بھی آ سکتا ہے)

اشاری نظام - 122 1221 1221 221
(آخری رکن 221 کی جگہ 1221 بھی آ سکتا ہے)
ہندسوں کو اردو رسم الخظ کے مطابق یعنی دائیں سے بائیں پڑھیے یعنی  122 پہلے ہے اور اس میں بھی 2 پہلے ہے۔

 تقطیع -

ہر چہرے میں آتی ہے نظر یار کی صورت
احباب کی صورت ہو کہ اغیار کی صورت

ہر چہرِ - مفعول - 122
مِ آتی ہِ - مفاعیل - 1221
نظر یار - مفاعیل - 1221
کِ صورت - فعولن - 221

احباب - مفعول - 122
کِ صورت ہُ - مفاعیل - 1221
کِ اغیار - مفاعیل - 1221
کِ صورت - فعولن - 221
--------
مزید پڑھیے۔۔۔۔

Apr 14, 2012

ہرچند کہ ساغر کی طرَح جوش میں رہیے - غزل شان الحق حقّی

ہرچند کہ ساغر کی طرَح جوش میں رہیے
ساقی سے ملے آنکھ تو پھر ہوش میں رہیے

کچھ اس کے تصوّر میں وہ راحت ہے کہ برسوں
بیٹھے یونہی اس وادیٔ گُل پوش میں رہیے

اک سادہ تبسّم میں وہ جادو ہے کہ پہروں
ڈوبے ہوئے اک نغمۂ خاموش میں رہیے

ہوتی ہے یہاں قدر کسے دیدہ وری کی
آنکھوں کی طرح اپنے ہی آغوش میں رہیے

ٹھہرائی ہے اب حالِ غمِ دل نے یہ صورت
مستی کی طرح دیدۂ مے نوش میں رہیے
shan, haqqi, shan-ul-haq-haqqi, poetry, urdu poetry, ghazal, شان، شان الحق حقی، اردو شاعری، اردو غزل، شاعری، غزل
ڈاکٹر شان الحق حقّی, Shan-ul-Haq Haqqi
ہمّت نے چلن اب یہ نکالا ہے کہ چبھ کر
کانٹے کی طرح پائے طلب کوش میں رہیے

آسودہ دلی راس نہیں عرضِ سُخن کو
ہے شرط کہ دریا کی طرح جوش میں رہیے

ہستی میں وہ حالت ہے دل و جاں کی کہ جیسے
جا کر کسی مینارۂ خاموش میں رہیے

کیوں دیکھیے خونابہ فشانی کو کسی کی
آرائشِ رخسار و لب و گوش میں رہیے

یا ربط خدایانِ جفا کیش سے رکھیے
یا حلقۂ یارانِ وفا کوش میں رہیے

حقّی وہی اب پھر غمِ ایّام کا دکھڑا
یہ محفلِ رنداں ہے ذرا ہوش میں رہیے

ڈاکٹر شان الحق حقّی
--------
بحر - بحرِ ہزج مثمن اخرب مکفوف محذوف

 افاعیل: مَفعُولُ مَفَاعیلُ مَفَاعیلُ فَعُولُن
(آخری رکن فعولن کی جگہ مسبغ رکن فعولان بھی آ سکتا ہے)

اشاری نظام - 122 1221 1221 221
(آخری رکن 221 کی جگہ 1221 بھی آ سکتا ہے)

 تقطیع -


ہرچند کہ ساغر کی طرَح جوش میں رہیے
ساقی سے ملے آنکھ تو پھر ہوش میں رہیے


ہر چند - مفعول - 122
کہ ساغر کِ - مفاعیل - 1221
طرَح جوش - مفاعیل - 1221
مِ رہیے - فعولن - 221

ساقی سِ - مفعول - 122
ملے آک - مفاعیل - 1221
تُ پر ہوش - مفاعیل - 1221
مِ رہیے - فعولن - 221
------
مزید پڑھیے۔۔۔۔

Jan 11, 2012

حقیقت کا اگر افسانہ بن جائے تو کیا کیجے - قتیل شفائی

حقیقت کا اگر افسانہ بن جائے تو کیا کیجے
گلے مل کر بھی وہ بیگانہ بن جائے تو کیا کیجے

ہمیں سو بار ترکِ مے کشی منظور ہے لیکن
نظر اس کی اگر میخانہ بن جائے تو کیا کیجے

نظر آتا ہے سجدے میں جو اکثر شیخ صاحب کو
وہ جلوہ، جلوۂ جانانہ بن جائے تو کیا کیجے
Qateel Shifai, urdu poetry, urdu ghazal, ilm-e-arooz, taqtee
قتیل شفائی Qateel Shifai
ترے ملنے سے جو مجھ کو ہمیشہ منع کرتا ہے
اگر وہ بھی ترا دیوانہ بن جائے تو کیا کیجے

خدا کا گھر سمجھ رکّھا ہے اب تک ہم نے جس دل کو
قتیل اس میں بھی اک بُتخانہ بن جائے تو کیا کیجے

(قتیل شفائی)
--------

بحر - بحر ہزج مثمن سالم

افاعیل - مَفاعِیلُن مَفاعِیلُن مَفاعِیلُن مَفاعِیلُن

اشاری نظام - 2221 2221 2221 2221
(ہندسوں کو دائیں سے بائیں پڑھیے یعنی 1 پہلے اور 222 بعد میں)

تقطیع -

حقیقت کا اگر افسانہ بن جائے تو کیا کیجے
گلے مل کر بھی وہ بیگانہ بن جائے تو کیا کیجے

حقیقت کا - مفاعیلن - 2221
اگر افسا - مفاعیلن - 2221
نہ بن جائے - مفاعیلن - 2221
تُ کا کیجے - مفاعیلن - 2221

گلے مل کر - مفاعیلن - 2221
بِ وہ بیگا - مفاعیلن - 2221
نہ بن جائے - مفاعیلن - 2221
تُ کا کیجے - مفاعیلن - 2221

-----

اور یہ غزل استاد نصرت فتح علی خان کی آواز میں




مزید پڑھیے۔۔۔۔

Dec 28, 2011

کچھ اس انداز سے چھیڑا تھا میں نے نغمۂ رنگیں - اصغر گونڈوی

اصغر گونڈوی اردو شاعری کا ایک اہم نام ہیں لیکن جس قدر ان کا کلام اچھا ہے اس قدر وہ مقبول نہ ہو سکے۔ آپ ایک صوفیِ باصفا تھے اور کلام میں بھی تصوف کی چاشنی بدرجہ اتم موجود ہے۔ علامہ اقبال انکی شاعری کی بہت تعریف فرماتے تھے اور مولانا ابوالکلام آزاد نے کہا تھا کہ اگر اردو شاعری کو ایک اکائی فرض کیا جائے تو آدھی شاعری صرف اصغر گونڈوی کی ہے۔

اصغر گونڈوی کی ایک خوبصورت غزل

نہ ہوگا کاوشِ بے مدّعا کا رازداں برسوں
وہ زاہد، جو رہا سرگشتۂ سود و زیاں برسوں

ابھی مجھ سے سبق لے محفلِ رُوحانیاں برسوں
رہا ہوں میں شریکِ حلقہٴ پیرِ مُغاں برسوں
urdu poetry, urdu ghazal, ilm-e-arooz, taqtee, asghar gondvi
اصغر گونڈوی Asghar Gondvi
کچھ اس انداز سے چھیڑا تھا میں نے نغمۂ رنگیں
کہ فرطِ ذوق سے جھومی ہے شاخِ آشیاں برسوں

جبینِ شوق لائی ہے وہاں سے داغِ ناکامی
یہ کیا کرتی رہی کم بخت، ننگِ آستاں برسوں

وہی تھا حال میرا، جو بیاں میں آ نہ سکتا تھا
جسے کرتا رہا افشا، سکوتِ رازداں برسوں

نہ پوچھو، مجھ پہ کیا گزری ہے میری مشقِ حسرت سے
قفس کے سامنے رکھّا رہا ہے آشیاں برسوں

خروشِ آرزو ہو، نغمۂ خاموش الفت بن
یہ کیا اک شیوۂ فرسودۂ آہ و فغاں برسوں

نہ کی کچھ لذّتِ افتادگی میں اعتنا میں نے
مجھے دیکھا کِیا اُٹھ کر غبارِ کارواں برسوں

وہاں کیا ہے؟ نگاہِ ناز کی ہلکی سی جنبش ہے
مزے لے لے کے اب تڑپا کریں اربابِ جاں برسوں

محبّت ابتدا سے تھی مجھے گُلہائے رنگیں سے
رہا ہوں آشیاں میں لے کے برقِ آشیاں برسوں

میں وہ ہر گز نہیں جس کو قفس سے موت آتی ہو
میں وہ ہوں جس نے خود دیکھا نہ سوئے آشیاں برسوں

غزل میں دردِ رنگیں تُو نے اصغر بھر دیا ایسا
کہ اس میدان میں روتے رہیں گے نوحہ خواں برسوں

اصغر گونڈوی

--------

بحر - بحر ہزج مثمن سالم

افاعیل - مَفاعِیلُن مَفاعِیلُن مَفاعِیلُن مَفاعِیلُن

اشاری نظام - 2221 2221 2221 2221
(ہندسوں کو دائیں سے بائیں پڑھیے یعنی 1 پہلے اور 222 بعد میں)

تقطیع -

نہ ہوگا کاوشِ بے مدّعا کا رازداں برسوں
وہ زاہد، جو رہا سرگشتۂ سود و زیاں برسوں

نہ ہوگا کا - مفاعیلن - 2221
وَ شے بے مُد - مفاعیلن - 2221
دَ عا کا را - مفاعیلن - 2221
ز دا بر سو - مفاعیلن - 2221

وُ زاہد جو - مفاعیلن - 2221
رہا سر گش - مفاعیلن - 2221
تَ اے سُو دو - مفاعیلن - 2221
ز یا بر سو - مفاعیلن - 2221

-------
مزید پڑھیے۔۔۔۔

Dec 4, 2011

علی کے گل رُخوں سے بُوئے زھرائی نہیں جاتی - سلام از سیّد نصیر الدین نصیر

سیّد نصیر الدین نصیر مرحوم کا ایک خوبصورت سلام

تڑپ اٹھتا ہے دل، لفظوں میں دہرائی نہیں جاتی
زباں پر کربلا کی داستاں لائی نہیں جاتی

حسین ابنِ علی کے غم میں ہوں دنیا سے بیگانہ
ہجومِ خلق میں بھی میری تنہائی نہیں جاتی

اداسی چھا رہی ہے روح پر شامِ غریباں کی
طبیعت ہے کہ بہلانے سے بہلائی نہیں جاتی
urdu poetry, ilm-e-arooz, taqtee, salam, karbala, syyed naseer-ud-din naseer
سیّد نصیر الدین نصیر مرحوم
Syyed Naseer-ud-Din Naseer
کہا عبّاس نے افسوس، بازو کٹ گئے میرے
سکینہ تک یہ مشکِ آب لے جائی نہیں جاتی

جتن ہر دور میں کیا کیا نہ اہلِ شر نے کر دیکھے
مگر زھرا کے پیاروں کی پذیرائی نہیں جاتی

دلیل اس سے ہو بڑھ کر کیا شہیدوں کی طہارت پر
کہ میّت دفن کی جاتی ہے، نہلائی نہیں جاتی

طمانچے مار لو، خیمے جلا لو، قید میں رکھ لو
علی کے گل رُخوں سے بُوئے زھرائی نہیں جاتی

کہا شبّیر نے، عبّاس تم مجھ کو سہارا دو
کہ تنہا لاشِ اکبر مجھ سے دفنائی نہیں جاتی

حُسینیّت کو پانا ہے تو ٹکّر لے یزیدوں سے
یہ وہ منزل ہے جو لفظوں میں سمجھائی نہیں جاتی

وہ جن چہروں کو زینت غازۂ خاکِ نجف بخشے
دمِ آخر بھی ان چہروں کی زیبائی نہیں جاتی

نصیر آخر عداوت کے بھی کچھ آداب ہوتے ہیں
کسی بیمار کو زنجیر پہنائی نہیں جاتی

(سید نصیر الدین نصیر)
-------

بحر - بحر ہزج مثمن سالم

افاعیل - مَفاعِیلُن مَفاعِیلُن مَفاعِیلُن مَفاعِیلُن

اشاری نظام - 2221 2221 2221 2221
(ہندسوں کو دائیں سے بائیں پڑھیے یعنی 1 پہلے اور 222 بعد میں)

تقطیع -

تڑپ اٹھتا ہے دل، لفظوں میں دہرائی نہیں جاتی
زباں پر کربلا کی داستاں لائی نہیں جاتی

تڑپ اٹھتا - مفاعیلن - 2221
ہِ دل لفظو - مفاعیلن - 2221
مِ دہرائی - مفاعیلن - 2221
نہی جاتی - مفاعیلن - 2221

زبا پر کر - مفاعیلن - 2221
بلا کی دا - مفاعیلن - 2221
س تا لائی - مفاعیلن - 2221
نہی جاتی - مفاعیلن - 2221

--------
مزید پڑھیے۔۔۔۔

Oct 13, 2011

اب اداس پھرتے ہو سردیوں کی شاموں میں - شعیب بن عزیز

اس خاکسار کا یہ خیال تھا اور اب بھی بہت حد تک ہے کہ یہ بلاگ جنگل میں مور کے ناچ جیسا ہے لیکن اس خیال میں کچھ شبہ تین چار ماہ پہلے پیدا ہوا جب مشہور کالم نویس اور شاعر جناب عطا الحق قاسمی صاحب کے صاحبزادے یاسر پیرزادہ صاحب کی ایک ای میل ملی۔ اس میں انہوں نے اس بلاگ کی توصیف فرمائی تھی اور یہ بھی فرمایا تھا کہ انہیں اس بلاگ کے متعلق شعیب بن عزیز صاحب نے بتایا تھا۔ خیر ان کا مقدور بھر شکریہ ادا کیا اور کچھ معلومات کا تبادلہ ہوا۔

آپ نے ایک بہت خوبصورت شعر سنا ہوگا

اب اداس پھرتے ہو، سردیوں کی شاموں میں
اس طرح تو ہوتا ہے، اس طرح کے کاموں میں

یہ شعر بہت مشہور ہے لیکن اس کے خالق کا نام بہت کم لوگوں کے علم میں ہے، جی ہاں اس کے خالق شعیب بن عزیز صاحب ہیں۔

جس دن کا یہ ذکر ہے اسی دن شام کو شعیب بن عزیز صاحب کا فون آیا، یہ میرے لیے واقعی ایک بہت اہم اور عزت افزائی کی بات تھی کیونکہ کہاں یہ خاکسار اور کہاں جناب شعیب بن عزیز صاحب۔ میں ذاتی طور پر شعیب بن عزیز صاحب کے متعلق کچھ نہیں جانتا تھا بجز انکی ایک غزل کے جو آج پوسٹ کر رہا ہوں لیکن اب اتنا ضرور جانتا ہوں کہ آپ ایک درویش منش، اعلیٰ ظرف اور صاحبِ دل انسان ہیں۔ اگر آپ میں یہ خصوصیات نہ ہوتیں تو ایک اکیسویں گریڈ کے آفیسر اور حکومتِ پنجاب کے سیکرٹری اطلاعات کو کیا ضرورت تھی کہ اس خاکسار کو نہ صرف یاد کرتے بلکہ بلاگ کی توصیف بھی فرماتے اور مزید اور مسلسل لکھنے کی تاکید فرماتے۔ تین چار ماہ قبل یہ وہ دن تھے جب میں اپنے بلاگ کی طرف سے بالکل ہی لاتعلق تھا لیکن شعیب صاحب کی تاکید نے مہمیز کا کام کیا۔

اور اب کچھ بات انکی مذکورہ غزل کے بارے میں۔ اس غزل کا مطلع اتنا جاندار اور رواں ہے کہ سالہا سال سے زبان زدِ عام ہے، ہر کسی کی زبان پر ہے اور ہر موقعے پر استمعال ہوتا ہے لیکن اس مطلع کی اس پذیرائی نے اس غزل کے دیگر اشعار کو پسِ پشت ڈال دیا ہے حالانکہ میرے نزدیک اس غزل کا تیسرا شعر بیت الغزل ہے اور دیگر سبھی اشعار بھی بہت خوبصورت ہیں۔

خوبصورت غزل پیش خدمت ہے، پڑھیے اور سن دھنیے

اب اداس پھرتے ہو، سردیوں کی شاموں میں
اس طرح تو ہوتا ہے، اس طرح کے کاموں میں

اب تو اُس کی آنکھوں کے، میکدے میّسر ہیں
پھر سکون ڈھونڈو گے، ساغروں میں جاموں میں

دوستی کا دعویٰ کیا، عاشقی سے کیا مطلب
میں ترے فقیروں میں، میں ترے غلاموں میں
Shoaib Bin Aziz, شعیب بن ٕعزیز, urdu poetry, urdu ghazal, ilm-e-arooz, taqtee
شعیب بن عزیز
Shoaib Bin Aziz
زندگی بکھرتی ہے، شاعری نکھرتی ہے
دل بروں کی گلیوں میں، دل لگی کے کاموں میں

جس طرح شعیب اس کا، نام چُن لیا تم نے
اس نے بھی ہے چُن رکھّا، ایک نام ناموں میں
--------
بحر - بحر ہزج مثمن اَشتر

افاعیل - فاعلن مفاعیلن / فاعلن مفاعیلن
(یہ ایک مقطع بحر ہے یعنی ہر مصرع دو مساوی ٹکڑوں میں تقسیم ہوتا ہے اور ہر ٹکڑا، ایک مصرع کے احکام میں آ سکتا ہے۔ )

اشاری نظام - 212 2221 / 212 2221
ہندسے دائیں سے بائیں، اردو کی طرح پڑھیے۔

تقطیع -
اب اداس پھرتے ہو، سردیوں کی شاموں میں
اس طرح تو ہوتا ہے، اس طرح کے کاموں میں

اب اُدا - فاعلن - 212
س پرتے ہو - مفاعیلن - 2221
سردیو - فاعلن - 212
کِ شامو مے - مفاعیلن 2221

اس طرح - فاعلن - 212
تُ ہوتا ہے - مفاعیلن - 2221
اس طرح - فاعلن - 212
کِ کامو مے - 2221

-------
مزید پڑھیے۔۔۔۔

Sep 29, 2011

جس دن سے حرام ہو گئی ہے - ریاض خیر آبادی

ریاض خیرآبادی اردو شاعری میں خمریات کے امام ہیں، حالانکہ وہ انتہائی پابندِ شرع بزرگ تھے اور انکے متعلق یہ کہا جاتا ہے کہ ساری زندگی میں مے نوشی تو دُور کی بات ہے انہوں نے شاید شراب دیکھی بھی نہ ہوگی۔ مولانا کی ایک غزل پیشِ خدمت ہے۔

جس دن سے حرام ہو گئی ہے
مے، خلد مقام ہو گئی ہے
urdu poetry, urdu ghazal, ilm-e-arooz, taqtee, Maulana Riaz Khairabadi, مولانا ریاض خیر آبادی
مولانا ریاض خیر آبادی
Maulana Riaz Khairabadi
توبہ سے ہماری بوتل اچھّی
جب ٹوٹی ہے، جام ہو گئی ہے

قابو میں ہے ان کے وصل کا دن
جب آئے ہیں شام ہو گئی ہے

آتے ہی قیامت اس گلی میں
پامالِ خرام ہو گئی ہے

مے نوش ضرور ہیں وہ نا اہل
جن پر یہ حرام ہو گئی ہے

بجھ بجھ کے جلی تھی قبر پر شمع
جل جل کے تمام ہو گئی ہے

ہر بات میں ہونٹ پر ہے دشنام
اب حسنِ کلام ہو گئی ہے
-----

بحر - ہزج مسدس اخرب مقبوض محذوف

افاعیل - مفعول مفاعلن فعولن
اس بحر میں تسکین اوسط زخاف کی مدد سے ایک اور وزن بھی حاصل ہوتا ہے جو "مفعولن فاعلن فعولن"  ہے  اور بذاتِ خود ایک علیحدہ بحر ہے۔ اس بحر میں ان دونوں اوزان کا ایک شعر میں اجتماع جائز ہے۔

اشاری نظام - 122 2121 221
یا 222 212 221
دونوں کا اجتماع جائز ہے۔
ہندسوں کو اردو طررِ تحریر یعنی دائیں سے بائیں پڑھیے۔

تقطیع -
جس دن سے حرام ہو گئی ہے
مے، خلد مقام ہو گئی ہے

جس دن سِ - مفعول -122
حرام ہو - مفاعلن - 2121
گئی ہے - فعولن - 221

مے خلد - مفعول - 122
مقام ہو - مفاعلن - 2121
گئی ہے - فعولن - 221
----
مزید پڑھیے۔۔۔۔

Sep 19, 2011

سر سید احمد خان کی ایک فارسی غزل مع ترجمہ

مشہور محقق شیخ محمد اکرام نے اپنی شاہکار “کوثر سیریز” کی آخری کتاب “موجِ کوثر” میں سر سید احمد خان کی ایک فارسی غزل کے پانچ اشعار دیے ہیں سو وہ ترجمے کے ساتھ پیش کرنے کی جسارت کر رہا ہوں۔
شیخ صاحب نے یہ اشعار سر سید کا مذہبی جوش و ولولہ دکھانے کیلیئے دیئے ہیں اور کیا سچ بات کہی ہے شیخ صاحب نے لیکن شاعرانہ نکتہ نظر سے بھی ان اشعار میں سر سید کا زورِ بیان اور صنعتوں کا کمال دیکھیئے، زور بیانِ میں تو یہ اشعار بڑے بڑے کلاسیکی فارسی اساتذہ کے کلام سے لگّا کھاتے ہیں۔
Persian poetry, Persian Poetry with Urdu translation, Farsi poetry, Farsi poetry with urdu translation, Sir Syyed Ahmed Khan, سر سید احمد خان
Sir Syyed Ahmed Khan, سر سید احمد خان
فلاطوں طِفلَکے باشَد بہ یُونانے کہ مَن دارَم
مَسیحا رشک می آرَد ز دَرمانے کہ مَن دارَم


(افلاطون تو ایک بچہ ہے اس یونان کا جو میرا ہے، مسیحا خود رشک کرتا ہے اس درمان پر کہ جو میں رکھتا ہوں)
خُدا دارَم دِلے بِریاں ز عشقِ مُصطفٰی دارَم
نَدارَد ھیچ کافر ساز و سامانے کہ مَن دارَم


(میں خدا رکھتا ہوں کہ جلے ہوے دل میں عشقِ مصطفٰی (ص) رکھتا ہوں، کوئی کافر بھی ایسا کچھ ساز و سامان نہیں رکھتا جو کہ میرے پاس ہے)

ز جبریلِ امیں قُرآں بہ پیغامے نمی خواھَم
ہمہ گفتارِ معشوق است قرآنے کہ مَن دارَم

(جبریلِ امین سے پیغام کے ذریعے قرآن کی خواہش نہیں ہے، وہ تو سراسر محبوب (ص) کی گفتار ہے جو قرآن کہ میں رکھتا ہوں)۔

فلَک یک مطلعِ خورشید دارَد با ہمہ شوکت
ہزاراں ایں چُنیں دارَد گریبانے کہ مَن دَارم

آسمان اس تمام شان و شوکت کے ساتھ فقط سورج کا ایک مطلع رکھتا ہے جب کہ اس (مطلع خورشید) جیسے ہزاروں میرے گریبان میں ہیں۔

ز بُرہاں تا بہ ایماں سنگ ھا دارَد رہِ واعظ
نَدارَد ھیچ واعظ ہمچو بُرہانے کہ مَن دارَم

واعظ کی دلیل و عقل سے ایمان تک کی راہ پتھروں سے بھری پڑی ہے لیکن کوئی واعظ اس جیسی برہان نہیں رکھتا جو کہ میرے پاس ہے۔

(سر سید احمد خان)
——–
بحر - بحر ہزج مثمن سالم

افاعیل - مَفاعِیلُن مَفاعِیلُن مَفاعِیلُن مَفاعِیلُن

اشاری نظام - 2221 2221 2221 2221

تقطیع -
فلاطوں طفلکے باشد بہ یُونانے کہ من دارَم
مسیحا رشک می آرد ز درمانے کہ من دارم
فلاطو طف - مفاعیلن - 2221
لَکے باشد - مفاعیلن - 2221
بَ یونانے - مفاعیلن - 2221
کِ من دارم - مفاعیلن - 2221
مسیحا رش - مفاعیلن - 2221
ک می آرد - مفاعیلن - 2221
ز درمانے - مفاعیلن - 2221
کِ من دارم - مفاعیلن - 2221

-----
مزید پڑھیے۔۔۔۔

Aug 15, 2011

سو بار چمن مہکا، سو بار بہار آئی -- صُوفی غلام مُصطفٰی تبسم

سو بار چمن مہکا، سو بار بہار آئی
دنیا کی وہی رونق، دل کی وہی تنہائی

اک لحظہ بہے آنسو، اک لحظہ ہنسی آئی
سیکھے ہیں نئے دل نے اندازِ شکیبائی

یہ رات کی خاموشی یہ عالمِ تنہائی
پھر درد اٹھا دل میں پھر یاد تری آئی

اس عالمِ ویراں میں کیا انجمن آرائی
دو روز کی محفل ہے اک عمر کی تنہائی

اس موسمِ گل ہی سے بہکے نہیں دیوانے
ساتھ ابرِ بہاراں کے وہ زلف بھی لہرائی

urdu poetry, urdu ghazal, ilm-e-arooz, taqtee, sufi ghulam mustafa tabassum, صوفی غلام مصطفیٰ تبسم
صوفی غلام مصطفیٰ تبسم
Sufi Ghulam Mustafa Tabassum
ہر دردِ محبّت سے الجھا ہے غمِ ہستی
کیا کیا ہمیں یاد آیا جب یاد تری آئی

چرکے وہ دیے دل کو محرومیٔ قسمت نے
اب ہجر بھی تنہائی اور وصل بھی تنہائی

جلوؤں کے تمنّائی جلوؤں کو ترستے ہیں
تسکین کو روئیں گے جلوؤں کے تمنّائی

دیکھے ہیں بہت ہم نے ہنگامے محبّت کے
آغاز بھی رسوائی، انجام بھی رسوائی

دنیا ہی فقط میری حالت پہ نہیں چونکی
کچھ تیری بھی آنکھوں میں ہلکی سی چمک آئی

اوروں کی محبت کے دہرائے ہیں افسانے
بات اپنی محبت کی ہونٹوں پہ نہیں آئی

افسونِ تمنّا سے بیدار ہوئی آخر
کچھ حسن میں بے باکی کچھ عشق میں زیبائی

وہ مست نگاہیں ہیں یا وجد میں رقصاں ہے
تسنیم کی لہروں میں فردوس کی رعنائی

آنکھوں نے سمیٹے ہیں نظروں میں ترے جلوے
پھر بھی دلِ مضطر نے تسکین نہیں پائی

سمٹی ہوئی آہوں میں جو آگ سلگتی تھی
بہتے ہوئے اشکوں نے وہ آگ بھی بھڑکائی

یہ بزمِ محبّت ہے، اس بزمِ محبّت میں
دیوانے بھی شیدائی، فرزانے بھی شیدائی

پھیلی ہیں فضاؤں میں اس طرح تری یادیں
جس سمت نظر اُٹّھی آواز تری آئی

اک ناز بھرے دل میں یہ عشق کا ہنگامہ
اک گوشہٴ خلوت میں یہ دشت کی پنہائی

ان مدھ بھری آنکھوں میں کیا سحر تبسّم تھا
نظروں میں محبت کی دنیا ہی سمٹ آئی

(صوفی غلام مصطفٰی تبسم)
——–
بحر - بحر ہزج مثمن اخرب
(یہ ایک مقطع بحر ہے یعنی ہر مصرع دو مساوی ٹکڑوں میں تقسیم ہوتا ہے اور ہر ٹکڑا، ایک مصرع کے احکام میں آ سکتا ہے۔ )

افاعیل - مَفعُولُ مَفَاعِیلُن / مَفعُولُ مَفَاعِیلُن

اشاری نظام - 122 2221 122 2221

تقطیع -
سو بار چمن مہکا سو بار بہار آئی
دنیا کی وہی رونق، دل کی وہی تنہائی
سو بار - مفعول - 122
چمن مہکا - مفاعیلن - 2221
سو بار - مفعول - 122
بہا رائی - مفاعیلن - 2221 (الفِ وصل ساقط ہوا ہے)۔

دنیا کِ - مفعول - 122
وہی رونق - مفاعیلن - 2221
دل کی وَ - مفعول - 122
ہِ تنہائی - مفاعیلن - 2221

----
مزید پڑھیے۔۔۔۔

May 4, 2011

اختر شیرانی کی ایک شاہکار نظم - اے عشق کہیں لے چل

عین عالمِ شباب میں وفات پا جانے والے محمد داؤد خان اختر شیرانی، 1905ء تا 1948ء، دنیائے اردو میں “شاعرِ رومان” کے لقب سے جانے جاتے ہیں۔ آپ کا تعلق ایک ادبی اور علمی خانوادے سے تھا کہ آپ کے والد حافظ محمود شیرانی نہ صرف فارسی کے استاد تھے بلکہ ایک بلند پایہ محقق اور تاریخ دان بھی تھے، انکا شاہکار، اردو کی ابتدا کے متعلق انکی لازوال کتاب “پنجاب میں اردو” ہے۔

اختر شیرانی نے اُس دور میں اپنی رومانوی شاعری بالخصوص رومانوی نظموں
urdu poetry, urdu ghazal, ilm-e-arooz, taqtee, Akhtar Sheerani, اختر شیرانی
Akhtar Sheerani, اختر شیرانی
کا لوہا منوایا جب ایک طرف غزل کے اساتذہ کا طوطی بولتا تھا تو دوسری طرف ترقی پسند بزرجمہر ادبی افق پر چھائے ہوئے تھے، لیکن اختر شیرانی مرحوم نے ایک نئی صدا بلند کی اور دیکھتے ہی دیکھتے وہ آواز چار دانگ عالم پھیل گئی اور دیکھتے ہی دیکھتے وہ آواز گم بھی ہو گئی۔

اختر شیرانی کی نظم “اے عشق کہیں لے چل” کا شمار اردو کلاسکس میں ہوتا ہے اور مجھے بھی یہ نظم بہت پسند ہے۔ یہ نظم معنوی خوبیوں سے تو مالا مال ہے ہی لیکن اس میں نغمگی، بے ساختگی اور روانی بھی دیدنی ہے۔ اختر شیرانی کا مکمل کلام اس ربط پر پڑھا جا سکتا ہے۔

اے عشق کہیں لے چل

اے عشق کہیں لے چل، اس پاپ کی بستی سے
نفرت گہِ عالم سے، لعنت گہِ ہستی سے
ان نفس پرستوں سے، اِس نفس پرستی سے
دُور اور کہیں لے چل
اے عشق کہیں لے چل

ہم پریم پُجاری ہیں، تُو پریم کنہیّا ہے
تُو پریم کنہیّا ہے، یہ پریم کی نیّا ہے
یہ پریم کی نیّا ہے، تُو اِس کا کھویّا ہے
کچھ فکر نہیں لے چل
اے عشق کہیں لے چل

بے رحم زمانے کو، اب چھوڑ رہے ہیں ہم
بے درد عزیزوں سے، منہ موڑ رہے ہیں ہم
جو آس کہ تھی وہ بھی، اب توڑ رہے ہیں ہم
بس تاب نہیں لے چل
اے عشق کہیں لے چل

یہ جبر کدہ آزاد افکار کا دشمن ہے
ارمانوں کا قاتل ہے، امّیدوں کا رہزن ہے
جذبات کا مقتل ہے، جذبات کا مدفن ہے
چل یاں سے کہیں لے چل
اے عشق کہیں لے چل

آپس میں چھل اور دھوکے، سنسار کی ریتیں ہیں
اس پاپ کی نگری میں، اجڑی ہوئی پریتیں ہیں
یاں نیائے کی ہاریں ہیں، انیائے کی جیتیں ہیں
سکھ چین نہیں لے چل
اے عشق کہیں لے چل

اک مذبحِ جذبات و افکار ہے یہ دنیا
اک مسکنِ اشرار و آزار ہے یہ دنیا
اک مقتلِ احرار و ابرار ہے یہ دنیا
دور اس سے کہیں لے چل
اے عشق کہیں لے چل

یہ درد بھری دنیا، بستی ہے گناہوں کی
دل چاک اُمیدوں کی، سفّاک نگاہوں کی
ظلموں کی جفاؤں کی، آہوں کی کراہوں کی
ہیں غم سے حزیں لے چل
اے عشق کہیں لے چل

آنکھوں میں سمائی ہے، اک خواب نما دنیا
تاروں کی طرح روشن، مہتاب نما دنیا
جنّت کی طرح رنگیں، شاداب نما دنیا
للہ وہیں لے چل
اے عشق کہیں لے چل

وہ تیر ہو ساگر کی، رُت چھائی ہو پھاگن کی
پھولوں سے مہکتی ہوِ پُروائی گھنے بَن کی
یا آٹھ پہر جس میں، جھڑ بدلی ہو ساون کی
جی بس میں نہیں لے چل
اے عشق کہیں لے چل

قدرت ہو حمایت پر، ہمدرد ہو قسمت بھی
سلمٰی بھی ہو پہلو میں، سلمٰی کی محبّت بھی
ہر شے سے فراغت ہو، اور تیری عنایت بھی
اے طفلِ حسیں لے چل
اے عشق کہیں لے چل

اے عشق ہمیں لے چل، اک نور کی وادی میں
اک خواب کی دنیا میں، اک طُور کی وادی میں
حوروں کے خیالاتِ مسرور کی وادی میں
تا خلدِ بریں لے چل
اے عشق کہیں لے چل

سنسار کے اس پار اک اس طرح کی بستی ہو
جو صدیوں سے انساں کی صورت کو ترستی ہو
اور جس کے نظاروں پر تنہائی برستی ہو
یوں ہو تو وہیں لے چل
اے عشق کہیں لے چل

مغرب کی ہواؤں سے، آواز سی آتی ہے
اور ہم کو سمندر کے، اُس پار بلاتی ہے
شاید کوئی تنہائی کا دیس بتاتی ہے
چل اس کے قریں لے چل
اے عشق کہیں لے چل

اک ایسی فضا جس تک، غم کی نہ رسائی ہو
دنیا کی ہوا جس میں، صدیوں سے نہ آئی ہو
اے عشق جہاں تُو ہو، اور تیری خدائی ہو
اے عشق وہیں لے چل
اے عشق کہیں لے چل

اک ایسی جگہ جس میں، انسان نہ بستے ہوں
یہ مکر و جفا پیشہ، حیوان نہ بستے ہوں
انساں کی قبا میں یہ شیطان نہ بستے ہوں
تو خوف نہیں لے چل
اے عشق کہیں لے چل

برسات کی متوالی، گھنگھور گھٹاؤں میں
کہسار کے دامن کی، مستانہ ہواؤں میں
یا چاندنی راتوں کی شفّاف فضاؤں میں
اے زہرہ جبیں لے چل
اے عشق کہیں لے چل

ان چاند ستاروں کے، بکھرے ہوئے شہروں میں
ان نور کی کرنوں کی ٹھہری ہوئی نہروں میں
ٹھہری ہوئی نہروں میں، سوئی ہوئی لہروں میں
اے خضرِ حسیں لے چل
اے عشق کہیں لے چل

اک ایسی بہشت آگیں وادی میں پہنچ جائیں
جس میں کبھی دنیا کے، غم دل کو نہ تڑپائیں
اور جس کی بہاروں میں جینے کے مزے آئیں
لے چل تُو وہیں لے چل
اے عشق کہیں لے چل

————
بحر - بحر ہزج مثمن اخرب
یہ ایک مقطع بحر ہے یعنی ہر مصرع دو مساوی ٹکڑوں میں تقسیم ہوتا ہے اور ہر ٹکڑا، ایک مصرع کے احکام میں آ سکتا ہے۔
افاعیل - مَفعُولُ مَفَاعِیلُن مَفعُولُ مَفَاعِیلُن
اشاری نظام - 122 2221 122 2221
تقطیع -
اے عشق کہیں لے چل، اس پاپ کی بستی سے
نفرت گہِ عالم سے، لعنت گہِ ہستی سے
اے عشق - مفعول - 122
کہیں لے چل - مفاعیلن - 2221
اس پاپ - مفعول - 122
کِ بستی سے - مفاعیلن - 2221

نفرت گَ - مفعول - 122
ہِ عالم سے - مفاعیلن - 2221
لعنت گَ - مفعول - 122
ہِ ہستی سے - مفاعیلن - 2221

----

مزید پڑھیے۔۔۔۔

May 2, 2011

غیروں کو بھلا سمجھے اور مجھ کو برا جانا - میر مہدی مجروح

غیروں کو بھلا سمجھے، اور مجھ کو برا جانا
سمجھے بھی تو کیا سمجھے، جانا بھی تو کیا جانا

اک عمر کے دُکھ پائے، سوتے ہیں فراغت سے
اے غلغلۂ محشر، ہم کو نہ جگا جانا

مانگوں تو سہی بوسہ پر کیا ہے علاج اس کا
یاں ہونٹ کا ہل جانا واں بات کا پا جانا

گو عمر بسر اس کی تحقیق میں کی تو بھی
ماہیّتِ اصلی کو اپنی نہ ذرا جانا

کیا یار کی بد خوئی، کیا غیر کی بد خواہی
سرمایۂ صد آفت ہے دل ہی کا آ جانا

کچھ عرضِ تمنّا میں شکوہ نہ ستم کا تھا
میں نے تو کہا کیا تھا اور آپ نے کیا جانا

اک شب نہ اُسے لائے، کچھ رنگ نہ دکھلائے
اک شور قیامت ہی نالوں نے اُٹھا جانا

چلمن کا الٹ جانا، ظاہر کا بہانہ ہے
ان کو تو بہر صورت اک جلوہ دکھا جانا

ہے حق بطرف اسکے، چاہے سَو ستم کر لو
اس نے دلِ عاشق کو مجبورِ وفا جانا

انجام ہوا اپنا آغازِ محبّت میں
اس شغل کو جاں فرسا ایسا تو نہ تھا جانا

مجروح ہوئے مائل کس آفتِ دوراں پر
اے حضرتِ من تم نے، دل بھی نہ لگا جانا

----

بحر - بحر ہزج مثمن اخرب
یہ ایک مقطع بحر ہے یعنی ہر مصرع دو مساوی ٹکڑوں میں تقسیم ہوتا ہے اور ہر ٹکڑا، ایک مصرع کے احکام میں آ سکتا ہے۔ اور ہر ٹکڑے میں عملِ تسبیغ ہو سکتا ہے۔

افاعیل - مَفعُولُ مَفَاعِیلُن / مَفعُولُ مَفَاعِیلُن

اشاری نظام - 122 2221 / 122 2221
(ہندسوں کو اردو طرزِ تحریر پر پڑھیے یعنی دائیں سے بائیں یعنی 122 سے شروع کریں اور اس میں بھی 2 پہلے ہے)۔

تقطیع -

غیروں کو بھلا سمجھے اور مجھ کو برا جانا
سمجھے بھی تو کیا سمجھے، جانا بھی تو کیا جانا

غے رو کُ - مفعول - 122
بلا سمجے - مفاعیلن - 2221
اُر مج کُ - مفعول - 122
بُرا جانا - مفاعیلن - 2221

سمجے بِ - مفعول - 122
تُ کا سمجے - مفاعیلن - 2221
جانا بِ - مفعول - 122
تُ کا جانا - مفاعیلن - 2221

-----
مزید پڑھیے۔۔۔۔

Feb 3, 2011

رباعی کے اوزان پر ایک بحث

رباعی بھی خاصے کی چیز ہے، قدما اس کے چوبیس وزن بنا گئے سو عام شعرا کو اس سے متنفر کرنے کیلیے یہی کافی ہے کہ رباعی کے چوبیس وزن ہیں، حالانکہ اگر تھوڑا سا تدبر و تفکر کیا جائے اور ان اوزان کو ایک خاص منطقی ترتیب اور انداز سے سمجھا جائے تو ان اوزان کو یاد رکھنا اور ان پر عبور حاصل کرنا کچھ مشکل نہیں ہے، اور یہ مضمون بنیادی طور پر اسی موضوع پر ہے جس میں رباعی کے اوزان کو ایک خاص ترتیب سے سمجھنے کی کوشش کی گئی ہے۔

ایک عرض یہ کرتا چلوں کہ ضروری نہیں کہ ایک رباعی میں مخلتف اوزان ہی اکھٹے کیے جائیں، اگر ایک ہی وزن میں چاروں مصرعے ہوں تو پھر بھی رباعی ہے اور اگر ایک ہی وزن میں بیسیوں رباعیاں ہوں تو پھر بھی رباعیاں ہی ہیں لیکن اس میں مختلف اوزان کو اکھٹا کرنے کا فائدہ یہ ہے کہ شاعر اپنے مافی الضمیر کو بہتر سے بہتر انداز میں اور مختلف الفاظ کے چناؤ کے ساتھ بیان کر سکتا ہے اور پھر بنیادی طور ان اوزان میں فرق بھی بہت تھوڑا ہے، جس سے آہنگ پر فرق نہیں پڑتا، مثال کے طور پر، چوبیس میں سے بارہ اوزان تو صرف فع کو فاع اور فعِل کو فعول سے بدلنے سے حاصل ہو جاتے ہیں، تفصیل انشاءاللہ نیچے آئے گی۔

رباعی کی بحر، افاعیل اور انکی ترتیب

رباعی کی بحر، بحرِ ہزج ہے جسکا بنیادی رکن 'مفاعیلن' ہے اور اسی مفاعیلن کے مختلف وزن ہی، جو مختلف زحافات کے استعمال سے حاصل ہوتے ہیں، اس میں استعمال ہوتے ہیں۔

رباعی میں دس افاعیل آتے ہیں، جو کہ مفاعیلن ہی سے حاصل ہوتے ہیں، زحافات کے نام اور ان کے استعمال کا طریقہ لکھ کر اس مضمون کو بالکل ہی ناقابلِ برداشت نہیں بنانا چاہتا، صرف افاعیل لکھ رہا ہوں۔

1- مفاعیلن
2- مفاعیل
3- مفعولن
4- مفاعلن
5- مفعول
6- فاعلن
7- فعول
8- فَعِل
9- فاع
10- فع

اس میں نوٹ کرنے کی خاص بات یہ ہے کہ 'فعولن' اس فہرست میں نہیں ہے، یعنی فعولن جو کہ مفاعیلن سے حاصل ہونے والا ایک انتہائی مستعمل رکن ہے وہ رباعی میں نہیں آتا، اگر آئے گا تو رباعی کا وزن خراب ہو جائے گا۔

کسی بھی مثمن بحر کی طرح، رباعی کی بحر کے بھی چار رکن ہیں یعنی

صدر (یا ابتدا)، حشو، حشو، عرض (یا ضرب)

اور نوٹ کرنے کی بات یہ ہے کہ اوپر والے دس افاعیل میں سے جو بھی چار بحر میں استعمال ہونگے انکی اس بحر کی ترتیب میں اپنی اپنی جگہ مخصوص ہے، جیسے

- صدر یعنی پہلے رکن میں ہمیشہ مفعول آئے گا یا مفعولن، کوئی اور رکن نہیں آ سکتا۔

- ضرب یعنی چوتھے رکن میں ہمیشہ فع، فاع، فعِل اور فعول میں سے کوئی ایک آئے گا، اور کوئی رکن نہیں آ سکتا۔

- مفاعلن اور فاعلن ہمیشہ پہلے حشو یعنی دوسرے رکن میں ہی آئیں گے، اور کسی بھی جگہ نہیں آ سکتے۔

- مفاعیلن اور مفاعیل دونوں حشو میں یعنی دوسرے اور تیسرے رکن میں آسکتے ہیں، کسی اور جگہ نہیں آتے۔

- مفاعیلن اور مفاعیل کے علاوہ، مفعولن، مفعول بھی دونوں حشو میں آ سکتے ہیں۔

اسکے علاوہ، رباعی کے مختلف افاعیل کی ترتیب یاد رکھنے میں قدما کا جو کلیہ سب سے اہم ہے وہ کچھ یوں ہے جو کہ مرزا یاس یگانہ نے اپنی کتاب "چراغِ سخن" میں لکھا ہے۔

سبب پئے سبب و وتد پئے وتد

یوں سمجھیے کہ یہی رباعی کے اوزان کی کلید ہے یعنی ایک سبب کے بعد ہمیشہ سبب آئے گا اور ایک وتد کے بعد ہمیشہ وتد آئے گا، مثال کے طور پر، ایک شاعر ایک رباعی شروع کرتا ہے اور جیسا کہ ہم جانتے ہیں کہ رباعی یا تو مفعول سے شروع ہوگی یا مفععولن سے۔

فرض کریں، رباعی مفعول سے شروع ہوتی ہے، یعنی پہلا رکن مفعول ہو گیا، اب دوسرے رکن میں جو تمام افاعیل آ سکتے ہیں وہ یہ ہیں

مفاعیلن
مفاعیل
مفاعلن
مفعولن
مفعول
فاعلن

اب اس بنیادی کلیے کو ذہن میں رکھیے کہ سبب کے بعد سبب اور وتد کے بعد وتد، پہلا رکن مفعول ہے جو کہ وتد پر ختم ہو رہا ہے سو اگلا رکن لازمی وتد سے شروع ہوگا، اوپر والی فہرست میں جو افاعیل وتد سے شروع ہو رہے ہیں وہ یہ ہیں

مفاعیلن
مفاعیل
مفاعلن

یعنی مفعول کے بعد اب صرف ان تین میں سے کوئی رکن آئے گا، فرض کریں مفاعیل آیا اور ہمارے پاس دو رکن ہو گئے یعنی

مفعول مفاعیل

اب مفاعیل بھی وتد پر ختم ہو رہا ہے سو اگلا رکن بھی لازمی وتد سے شروع ہوگا، یہ پھر تین ہیں، مفاعیلن، مفاعیل، مفاعلن لیکن ہم جانتے ہیں کہ مفاعلن تیسرے رکن میں نہیں آ سکتا سو مفاعیلن اور مفاعیل میں سے کوئی آئے گا، فرض کریں مفاعیلن لیا تو اب تین رکن ہو گئے

مفعول مفاعیل مفاعیلن

اب رہ گیا چوتھا رکن، جس میں فع، فاع، فعِل اور فعول ہی آ سکتے ہیں، کلیہ ذہن میں رکھیے، مفاعیلن سبب پر ختم ہو رہا ہے سو اگلا رکن سبب سے شروع ہوگا، وہ فع ہے سو رباعی کا وزن مل گیا

مفعول مفاعیل مفاعیلن فع

اب کسی بھی بحر کی طرح، آخری رکن میں عملِ تسبیغ کی یہاں بھی اجازت ہے سو فع کو فاع کریں اور دوسرا وزن بھی مل گیا

مفعول مفاعیل مفاعیلن فاع

اوپر والے کلیات کو استعمال کرتے ہوئے ہم نے رباعی کے دو وزن حاصل کر لیے، اب انہی کی مدد سے ہم رباعی کے سارے وزن یعنی چوبیس حاصل کریں گے۔

اساتذہ نے رباعی کو دو شجروں میں تقسیم کیا ہے، جو رباعی مفعول سے شروع ہوتی ہے، اسکے بارہ اوزان کو شجرۂ اخرب کہتے ہیں اور جو رباعی مفعولن سے شروع ہوتی ہے اسکے بارہ اوزان کو شجرۂ اخرم کہتے ہیں، اور یہ دونوں نام بھی زحافات کے نام پر ہیں۔ یہاں ایک وضاحت یہ کہ بعض قدیم اساتذہ نے اخرب اور اخرم اوزان کو ایک ہی رباعی میں باندھنے سے منع کیا ہے، لیکن اس بات کو کوئی بھی رباعی گو شاعر نہیں مانتا اور بلاتکلف اخرب اور اخرم کے اوزان ایک ہی رباعی میں جمع کرتے ہیں۔

شجرۂ اخرب اور اسکے بارہ اوزان

ان اوزان کو شجرہ کہا جاتا ہے لیکن اس خاکسار کے محدود مطالعے میں عروض کی کوئی ایسی کتاب نہیں ہے جس میں اس کو ایک شجرہ کی طرح واضح کیا گیا ہو، خاکسار یہ کوشش کر رہا ہے، ممکن ہے کسی کتاب میں اسے اس صورت میں لکھا گیا ہو، شجرے کی تصویر دیکھیے، تصویر کو بڑا دیکھنے کیلیے اس پر کلک کیجیے۔

urdu poetry, urdu ghazal, ilm-e-arooz, taqtee, رباعی اوزان شجرہ اخرب, Rubai

اب اس شجرہ کو اوپر والے اصولوں کی روشنی میں کھول کر بیان کرتا ہوں۔

جیسا کہ ہم جانتے ہیں کہ اس شجرہ میں پہلے رکن میں ہمیشہ مفعول آتا ہے جو وتد پہ ختم ہوتا ہے سو اگلا رکن مفاعیلن، مفاعیل اور مفاعلن ہونگے جو کہ وتد سے شروع ہوتے ہیں، سب سے پہلے مفاعیلن کو لیتے ہیں سو

مفعول مفاعیلن

یہ سبب پر ختم ہوا سو اگلا رکن لازمی سبب سے شروع ہوگا جو کہ تین ہیں یعنی مفعولن، مفعول اور فاعلن لیکن ہم جانتے ہیں کہ تیسرے رکن میں فاعلن نہیں آ سکتا سو صرف دو رہ گئے، مفعولن اور مفعول اور ان دو افاعیل سے یہ اوزان حاصل ہوئے

مفعول مفاعیلن مفعولن
مفعول مفاعیلن مفعول

اب مفعولن سبب پر ختم ہوا سو اگلا رکن فع ہوگا جو کہ سبب ہے سو پہلا مکمل وزن مل گیا

مفعول مفاعیلن مفعولن فع (وزن نمبر 1)

فع کو فاع سے بدلیں دوسرا وزن حاصل ہو گیا

مفعول مفاعیلن مفعولن فاع (وزن نمبر 2)

اب تیسرے رکن میں مفعول کو لیں تو یہ وتد پر ختم ہوا سو چوتھا رکن وتد سے شروع ہوگا جو فعِل ہے سو

مفعول مفاعیلن مفعول فعِل (وزن نمبر 3)

فعِل کو فعول سے بدل لیں، ایک اور وزن مل گیا

مفعول مفاعیلن مفعول فعول (وزن نمبر 4)

اب پھر دوسرے رکن پر چلتے ہیں اور اگلے چار وزن حاصل کرتے ہیں، مفعول کے بعد مفاعیل لائے یعنی

مفعول مفاعیل

مفاعیل وتد پر ختم ہوا سو اگلا رکن وتد سے شروع ہوگا، مفاعلن یہاں نہیں آ سکتا سو مفاعیلن یا مفاعیل ہونگے یعنی

مفعول مفاعیل مفاعیلن
مفعول مفاعیل مفاعیل

مفاعیلن سبب پر ختم ہوا سو فع آئے گا یعنی

مفعول مفاعیل مفاعیلن فع (وزن نمبر 5)

مفعول مفاعیل مفاعیلن فاع (وزن نمبر 6)


تیسرے رکن میں مفاعیل لائیے جو وتد پر ختم ہوا سو اگلا رکن فعِل ہوا

مفعول مفاعیل مفاعیل فعِل (وزن نمبر 7)

مفعول مفاعیل مفاعیل فعول (وزن نمبر 8)


آٹھ وزن مل گئے، اگلے چار دوسرے رکن میں مفاعلن لانے سے ملیں گے یعنی

مفعول مفاعلن

یہ بھی وتد پر ختم ہوا سو اگلا رکن وتد سے شروع ہوگا جو کہ دو ہیں، مفاعیلن اور مفاعیل کیونکہ مفاعلن تیسرے رکن میں نہیں آ سکتا

مفعول مفاعلن مفاعیلن
مفعول مفاعلن مفاعیل

مفاعیلن کے ساتھ فع آئے گا سو

مفعول مفاعلن مفاعیلن فع (وزن نمبر 9)

مفعول مفاعلن مفاعیلن فاع (وزن نمبر 10)

مفاعیل کے ساتھ فعِل آئے گا سو

مفعول مفاعلن مفاعیل فعِل (وزن نمبر 11)

مفعول مفاعلن مفاعیل فعول (وزن نمبر 12)

گویا ایک خاص ترتیب سے چلتے ہوئے ہمیں رباعی کے بارہ وزن مل گئے، اگلے بارہ وزن شجرہ اخرم کے ہیں اور اسی طرح حاصل ہونگے۔


شجرۂ اخرم اور اسکے بارہ اوزان

پہلے اس شجرہ کی تصویر دیکھ لیں، بڑا دیکھنے کیلیے اس پر کلک کیجیے۔

urdu poetry, urdu ghazal, ilm-e-arooz, taqtee, رباعی اوزان شجرہ اخرم, Rubai

جیسا کہ ہمیں علم ہے کہ یہ شجرہ ہمیشہ مفعولن سے شروع ہوتا ہے جو کہ سبب پر ختم ہوتا ہے سو دوسرا رکن سبب ہی سے شروع ہوگا، جو کہ تین ہیں، مفعولن، مفعول اور فاعلن۔ مفعولن سے شروع کرتے ہیں

مفعولن مفعولن

یہ بھی سبب پر ختم ہوا سو تیسرا رکن بھی سبب سے شروع ہوگا، وہ دو ہیں، مفعولن اور مفعول کیونکہ فاعلن یہاں نہیں آ سکتا سو

مفعولن مفعولن مفعولن
مفعولن مفعولن مفعول

مفعولن سبب پر ختم ہوا سو لازمی طور پر اگلا رکن سبب سے شروع ہوگا جو فع ہے سو

مفعولن مفعولن مفعولن فع (وزن نمبر 1)

اور فع کو فاع سے بدلیں تو

مفعولن مفعولن مفعولن فاع (وزن نمبر 2)

تیسرے رکن میں مفعول لائیں جو وتد پر ختم ہوا سو چوتھا رکن لازمی فعِل ہوگا سو

مفعولن مفعولن مفعول فعِل (وزن نمبر 3)

اور فعِل کو فعول سے بدلیں تو

مفعولن مفعولن مفعول فعول (وزن نمبر 4)

اب واپس دوسرے رکن پر چلتے ہیں اور مفعولن کے بعد مفعول لاتے ہیں یعنی

مفعولن مفعول

اب مفعول وتد پر ختم ہوا، تیسرا رکن لازمی وتد سے شروع ہوگا، یہ تین ہیں، مفاعیلن مفاعیل اور مفاعلن لیکن ہم جانتے ہیں کہ مفاعلن کبھی بھی تیسرے رکن میں نہیں آئے گا سو دو رہ گئے، مفاعیلن اور مفاعیل یعنی

مفعولن مفعول مفاعیلن
مفعولن مفعول مفاعیل

مفاعیلن کے بعد فع آیا تو

مفعولن مفعول مفاعیلن فع (وزن نمبر 5)

اور

مفعولن مفعول مفاعیلن فاع (وزن نمبر 6)

اب تیسرے رکن میں مفاعیل لائیں تو یہ وتد پر ختم ہوا سو اسکے بعد فعِل آیا یعنی

مفعولن مفعول مفاعیل فعِل (وزن نمبر 7)

اور مفعولن مفعول مفاعیل فعول (وزن نمبر 8)

اب واپس دوسرے رکن کی طرف چلتے ہیں وہاں ہم فاعلن کو چھوڑ آئے تھے، اس کو لائیں گے تو مزید چار وزن مل جائیں گے۔

مفعولن فاعلن

فاعلن وتد پر ختم ہوا سو اگلا رکن مفاعیلن، مفاعیل یا مفاعلن ہوگا، مفاعلن باہر ہوگیا تو مفاعیلن اور مفاعیل رہ گئے

مفعولن فاعلن مفاعیلن
مفعولن فاعلن مفاعیل

مفاعیلن کے بعد فع آیا تو

مفعولن فاعلن مفاعیلن فع (وزن نمبر 9)

اور

مفعولن فاعلن مفاعیلن فاع (وزن نمبر 10)

تیسرے رکن میں مفاعیل لائے تو اسکے بعد فعِل آیا سو

مفعولن فاعلن مفاعیل فعِل (وزن نمبر 11)

اور مفعولن فاعلن مفاعیل فعول (وزن نمبر 12)

اور یوں ہمیں 'سبب پئے سبب و وتد پئے وتد" کے اصول اور افاعیل و ارکان کی خاص ترتیب پر چلتے ہوئے دونوں شجروں کے بارہ بارہ اوزان یعنی کل چوبیس وزن مل گئے۔

یہ وہ طریقہ جس کو سمجھتے ہوئے اس خاکسار نے رباعی کے اوزان کو سمجھا، اسکے علاوہ بھی کئی ایک طریقے ہیں لیکن میں نے اس میں کوشش کی ہے کہ اوزان کو ایک خاص منطقی ترتیب سے لاؤں، امید ہے قارئین کیلیے یہ طریقہ رباعی کے اوزان سمجھنے کیلیے کارآمد اور فائدہ مند ہوگا۔

مزید پڑھیے۔۔۔۔

Jun 9, 2010

شورشِ زنجیر بسم اللہ - فیض

فیض احمد فیض کی ایک نظم جو مجھے بہت پسند ہے۔

شورشِ زنجیر بسم اللہ

ہوئی پھر امتحانِ عشق کی تدبیر بسم اللہ
ہر اک جانب مچا کہرامِ دار و گیر بسم اللہ
گلی کوچوں میں بکھری شورشِ زنجیر بسم اللہ

درِ زنداں پہ بُلوائے گئے پھر سے جنوں والے
دریدہ دامنوں والے، پریشاں گیسوؤں والے
جہاں میں دردِ دل کی پھر ہوئی توقیر بسم اللہ
ہوئی پھر امتحانِ عشق کی تدبیر بسم اللہ
Faiz Ahmed Faiz, فیض احمد فیض, urdu poetry, urdu ghazal, ilm-e-arooz, taqtee
Faiz Ahmed Faiz, فیض احمد فیض

گِنو سب داغ دل کے، حسرتیں شوقیں نگاہوں کی
سرِ دربار پُرسش ہو رہی ہے پھر گناہوں کی
کرو یارو شمارِ نالۂ شبگیر بسم اللہ

ستم کی داستاں، کشتہ دلوں کا ماجرا کہیے
جو زیرِ لب نہ کہتے تھے وہ سب کچھ برملا کہیے
مُصر ہے محتسب رازِ شہیدانِ وفا کہیے
لگی ہے حرفِ نا گفتہ پر اب تعزیر بسم اللہ

سرِ مقتل چلو بے زحمتِ تقصیر بسم اللہ
ہوئی پھر امتحانِ عشق کی تدبیر بسم اللہ

لاہور جیل
جنوری 1959ء
------

بحر - بحر ہزج مثمن سالم
افاعیل - مَفاعِیلُن مَفاعِیلُن مَفاعِیلُن مَفاعِیلُن
اشاری نظام - 2221 2221 2221 2221
(ہندسوں کو اردو طریقے سے پڑھیں یعنی دائیں سے بائیں یعنی 1 پہلے ہے)
تقطیع -
ہوئی پھر امتحانِ عشق کی تدبیر بسم اللہ
ہر اک جانب مچا کہرام دار و گیر بسم اللہ
گلی کوچوں میں بکھری شورشِ زنجیر بسم اللہ

ہُ ئی پر ام - مفاعیلن - 2221
تِ حا نے عش - مفاعیلن - 2221
ق کی تد بی - مفاعیلن - 2221
ر بس مِل لا - مفاعیلن - 2221
ہَ رِک جا نب - مفاعیلن - 2221 (الف کا وصال نوٹ کریں)۔
مچا کہرا - مفاعیلن - 2221
مِ دا رو گی - مفاعیلن - 2221
ر بس مِل لا - مفاعیلن - 2221
گلی کو چو - مفاعیلن - 2221
مِ بکری شو - مفاعیلن - 2221
ر شے زن جی - مفاعیلن - 2221
ر بس مِل لا - مفاعیلن - 2221

لفظ 'اللہ' کے وزن کے بارے میں ایک وضاحت یہ کہ اسکا صحیح وزن تو ال لا ہ یعنی مفعول یا 2 2 1 ہے اور کچھ ماہرینِ عروض اس لفظ کی آخری 'ہ' کو گرانا جائز نہیں سمجھتے لیکن شعرا عموماً اسکی پروا نہیں کرتے اور بلا تکلف اس کو 'ال لا' یعنی فعلن 2 2 باندھتے ہیں۔ لیکن اس نظم میں ایسا کوئی مسئلہ نہیں ہے گو میں نے تقطیع میں ہ کو حذف کر دیا ہے لیکن اگر ہ کو نہ بھی گرایا جائے تو آخری رکن مفاعیلن کی جگہ مفاعیلان بنے گا جو کے اسے بحر میں جائز ہے۔

مزید پڑھیے۔۔۔۔