مجھ سے مت کر یار کچھ گفتار، میں روزے سے ہوں
ہو نہ جائے تجھ سے بھی تکرار، میں روزے سے ہوں
ہر اک شے سے کرب کا اظہار، میں روزے سے ہوں
دو کسی اخبار کو یہ تار، میں روزے سے ہوں
میرا روزہ اک بڑا احسان ہے لوگوں کے سر
مجھ کو ڈالو موتیے کے ہار، میں روزے سے ہوں
میں نے ہر فائل کی دمچی پر یہ مصرعہ لکھ دیا
کام ہو سکتا نہیں سرکار، میں روزے سے ہوں
![]() |
Syyed Zamir Jafari, سیّد ضمیر جعفری |
اے مرے بچو ذرا ہوشیار، میں روزے سے ہوں
شام کو بہرِ زیارت آ تو سکتا ہوں مگر
نوٹ کرلیں دوست رشتہ دار، میں روزے سے ہوں
تو یہ کہتا ہے لحن تر ہو کوئی تازہ غزل
میں یہ کہتا ہوں کہ برخوردار، میں روزے سے ہوں
(سید ضمیر جعفری)
——–
بحر - بحر رمل مثمن محذوف
افاعیل - فاعِلاتُن فاعِلاتُن فاعِلاتُن فاعِلُن(آخری رکن یعنی فاعلن کی جگہ فاعلان بھی آ سکتا ہے)
اشاری نظام - 2212 2212 2212 212
(آخری 212 کی جگہ 1212 بھی آ سکتا ہے)
تقطیع:
مجھ سے مت کر یار کچھ گفتار، میں روزے سے ہوں
ہو نہ جائے تجھ سے بھی تکرار، میں روزے سے ہوں
مج سِ مت کر - فاعلاتن - 2212
یار کچ گف - فاعلاتن - 2212
تار مے رو - فاعلاتن - 2212
زے سِ ہو - فاعلن - 212
ہو نَ جائے - فاعلاتن - 2212
تج سِ بی تک - فاعلاتن - 2212
رار مے رو - فاعلاتن - 2212
زے سِ ہو - فاعلن - 212
مزید پڑھیے۔۔۔۔