شاہ نیاز کی یہ غزل، پروفیسر خلیق احمد نظامی نے اپنی مشہور کتاب "تاریخِ مشائخِ چشت" میں درج کی ہے۔ شاہ صاحب کی شاعری اور مصحفی کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں۔۔۔۔
"جب مصحفی لکھنؤ چلے گئے اور ان کے شاعرانہ کمالات کا شہرہ شاہ صاحب رحمتہ اللہ تعالیٰ علیہ کے کانوں تک پہنچا تو اپنی ایک غزل مصحفی کو لکھ کر بھیجی۔"
نظامی صاحب نے یہ غزل بغیر اردو ترجمے کے درج کی ہے سو ترجمہ لکھ رہا ہوں اور کسی کمی بیشی کیلیے پیشگی معذرت خواہ ہوں۔
کسیکہ سرّ ِ نہاں است۔۔۔۔۔۔۔۔ہمہ اُوست
عروسِ خلوت و ہم شمعِ انجمن ہمہ اُوست
افسوس کہ یہ خوبصورت مطلع، مصرعِ اولیٰ کے ایک یا دو الفاظ نہ ہونے کی وجہ سے نامکمل ہے۔ ہو سکتا ہے کہ پروفیسر نظامی صاحب کو بھی یہ مصرع مکمل نہ ملا ہو یا پھر ناشر کی کارستانی بھی ہو سکتی ہے۔ سننے میں آیا ہے کہ شاہ نیاز کا دیوان شائع ہو چکا ہے لہذا دوستوں سے گذارش ہے کہ اگر کسی کے پاس شاہ نیاز کا دیوان ہو اور اس میں یہ غزل ہو تو مکمل مصرع عطا فرما کر مشکور ہوں۔ دوسرے مصرعے کا مطلب کچھ یوں ہے کہ تنہائی کی رونق اور سرخوشی بھی وہی ہے اور شمعِ انجمن بھی وہی ہے۔
ز مصحفِ رُخِ خوباں ہمیں موذِ رقم
کہ خط و خال و رُخ و زلفِ پُر شکن ہمہ اُوست
رُخِ خوباں کے مصحف پر یہی رقم ہے کہ خط و خال اور رخ اور زلفِ پُر شکن سبھی کچھ وہی ہے۔ موذ لفظ باوجود تلاش کے کسی لغت میں نہیں ملا، اسکا مطلب کسی دوست کے علم میں ہو تو مطلع فرما کر مشکور ہوں۔
نظر بہ عیب مکن در ظہورِ باغِ وجود
کہ طوطیانِ چمن و زاغ و ہم زغن ہمہ اُوست
اس وجود کے گلستان کے ظاہر پر عیب کی نظر مت ڈال کہ طوطیان چمن بھی وہی ہے اور زاغ و زغن بھی وہی ہے۔
از سرّ ِ عشق چو واقف شوی، یقیں دانی
کہ قیس و لیلیٰ و شیریں و کوہ کن ہمہ اُوست
جب تُو عشق کے اسرار سے واقف ہو جائے تو یقین کر لے کہ قیس بھی وہی ہے اورو لیلیٰ بھی، شیریں بھی وہی ہے اور فرہاد بھی۔
![]() |
مزار شاہ نیاز احمد، بریلی، ہندوستان Mazar Shah Niaz Ahmed |
صنم پرست و صنم گر و صنم شکن ہمہ اُوست
میں نے صنم خانے میں صنم کی زبان سے سنا ہے کہ صنم پرست بھی وہی ہے اور صنم گر بھی وہی ہےا ور صنم شکن بھی وہی ہے۔
رساند مطربِ خوش گو ہمیں ندا در گوش
کہ چوب و تار و صدائے تنن تنن ہمہ اُوست
مطربِ خوش گو کی یہی آواز ہمارے کانوں تک پہنچی ہے کہ (ساز کی ) چوب بھی وہی ہے اور تار بھی اور صدائے تنن تنن بھی وہی ہے۔
---------
مزید پڑھیے۔۔۔۔