احمد فراز کی شاعری: ایک مختصر تاثر
احمد ندیم قاسمی
چند ہفتے پہلے کا واقعہ ہے کہ احمد فراز، امجد اسلام امجد، سجاد بابر اور میں عمرہ کی سعادت حاصل کرنے کے لیے احرام باندھے مکہ مکرمہ پہنچے۔ ہم طوافِ کعبہ مکمل کر چکے اور سعی کے لیے صفا و مروہ کا رخ کرنے والے تھے کہ ایک خاتون لپک کر آئی اور احمد فراز کو بصد شوق مخاطب کیا۔ "آپ احمد فراز صاحب ہیں نا؟" فراز نے اثبات میں جواب دیا تو وہ بولی۔ "ذرا سا رکئے گا، میرے بابا جان کو آپ سے ملنے کا بے حد اشتیاق ہے۔" وہ گئی اور ایک نہایت بوڑھے بزرگ کا بازو تھامے انہیں فراز کے سامنے لے آئی۔ بزرگ اتنے معمر تھے کہ بہت دشواری سے چل رہے تھے مگر انکا چہرہ عقیدت کے مارے سرخ ہو رہا تھا اور انکے ہاتھ کانپ رہے تھے۔ بولے "سبحان اللہ، یہ کتنا بڑا کرم ہے اللہ تعالیٰ کا کہ اس نے اپنے ہی گھر میں مجھے احمد فراز صاحب سے ملوا دیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔وہ احمد فراز جو میرے محبوب شاعر ہیں اور جنہوں نے میر اور غالب کی روایت کو توانائی بخشی ہے۔" عقیدت کے سلسلے میں انہوں نے اور بہت کچھ کہا اور جب ہم ان سے اجازت لیکر سعی کے لیے بڑھے تو میں نے فراز سے کہا۔ "آج آپ کی شاعری پر سب سے بڑے الزام کا ثبوت مل گیا ہے۔" سب نے حیران ہو کر میری طرف دیکھا تو میں نے کہا "دیکھا نہیں آپ نے، یہ "ٹین ایجر" فراز سے کتنی فریفتگی کا اظہار کر رہا تھا، یہ الگ بات ہے کہ اس ٹین ایجر کی عمر اسی پچاسی سے متجاوز تھی۔"
"فراز ٹین ایجرز کا شاعر ہے"۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"فراز صرف عنفوانِ شباب میں داخل ہونے والوں کا شاعر ہے۔"۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"فراز کالجوں اور یونیورسٹیوں کے نوجوان طلبہ کا شاعر ہے اور بس۔"۔۔۔۔۔۔۔۔فراز پر یہ الزامات ہر طرف سے وارد ہوتے رہے ہیں مگر وہ اس گھٹیا الزام تراشی سے بے نیاز، نہایت خوبصورت شاعری تخلیق کیے جا رہا ہے۔ اگر حسن و جمال اور عشق و محبت کی اعلیٰ درجے کی شاعری گھٹیا ہوتی تو میر اور غالب، بلکہ دنیا بھر کے عظیم شاعروں کے ہاں گھٹیا شاعری کے انباروں کے سوا اور کیا ہوتا۔ فراز کی شاعری میں بیشتر یقیناً حسن و عشق ہی کی کارفرمائیاں ہیں اور یہ وہ موضوع ہے جو انسانی زندگی میں سے خارج ہو جائے تو انسانوں کے باطن صحراؤں میں بدل جائیں، مگر فراز تو بھر پور زندگی کا شاعر ہے۔ وہ انسان کے بنیادی جذبوں کے علاوہ اس آشوب کا بھی شاعر ہے جو پوری انسانی زندگی کو محیط کیے ہوئے ہے۔ اس نے جہاں انسان کی محرومیوں، مظلومیتوں اور شکستوں کو اپنی غزل و نظم کا موضوع بنایا ہے وہیں ظلم و جبر کے عناصر اور آمریت و مطلق العنانی پر بھی ٹوٹ ٹوٹ کر برسا ہے اور اس سلسلے میں غزل کا ایسا ایسا شعر کہا ہے اور ایسی ایسی نظم لکھی ہے کہ پڑھتے یا سنتے ہوئے اسکے مداحین جھومتے ہیں اور اسکے معترضین کے منہ کھلے کے کھلے رہ جاتے ہیں۔ یہ دونوں پہلو زندگی کی حقیقت کے پہلو ہیں اور حقیقت ناقابلِ تقسیم ہوتی ہے۔
![]() |
Ahmed Nadeem Qasmi, احمد ندیم قاسمی |
ذکر اس غیرتِ مریم کا جب آتا ہے فراز
گھنٹیاں بجتی ہیں لفظوں کے کلیساؤں میں
---------
آج اُس نے شرَفِ ہم سفَری بخشا تھا
اور کچھ ایسے کہ مجھے خواہشِ منزل نہ رہی
میں صرف ان دو شعروں کے حوالے سے کہوں گا کہ جب میں یہ شعر پڑھتا ہوں تو مجھے ان میں پوری فارسی اور اردو غزل کی دلآویز روایات گونجتی ہوئی سنائی دیتی ہیں۔
![]() |
Ahmed Faraz, احمد فراز |
یہ جو بعض لوگ دُور کی کوڑی لاتے ہیں کہ فراز کے ہاں حسن و عشق کی نرمیوں کے ساتھ ساتھ تغیر و انقلاب کی جو للکار ہے وہ اسے تضادات کا شکار بنا دیتی ہے تو یہ حضرات اتنا بھی نہیں جانتے کہ حسن و عشق کی منازل سے گزرے بغیر انقلاب کی للکار اعتماد سے محروم رہتی ہے اور وہی شعراء صحیح انقلابی ہوتے ہیں جو انسانی ضمیر کی گہرائیوں کے اندازہ داں ہوتے ہیں۔ میں تو سمجھتا ہوں کہ فراز کا یہ کمال بھی لائقِ صد تحسین ہے کہ کڑی آزمائشوں سے گزرنے کے باوجود وہ اپنی انقلابی شاعری میں بھی سچا شاعر رہا ہے۔ وہ نعرہ زنی نہیں کرتا، صورتحال کا تجزیہ کرتا ہے اور پڑھنے سننے والوں کو اپنی سوچ کے مطابق سوچنے پر مجبور کر دیتا ہے۔ اُس کا یہ دعویٰ صد فیصد درست ہے کہ
دیکھو تو بیاضِ شعر میری
اک حرف بھی سرنگوں نہیں ہے
فراز کے یہ نام نہاد "تضادات" تو اُس کے فن کی توانائی ہیں، بصورتِ دیگر وہ ذات اور کائنات کو ہم رشتہ کیسے کر سکتا تھا اور اسطرح کے شعر کیسے کہہ سکتا تھا کہ
تم اپنی شمعِ تمنا کو رو رہے ہو فراز
ان آندھیوں میں تو پیارے چراغ سب کے گئے
خود آگاہی کا یہ وہ مقام ہے جہاں تک پہنچنے کے لیے عمریں درکار ہوتی ہیں۔
میں فراز کے شاعرانہ کمالات کے اس نہایت مختصر تاثر کے آخر میں اسکی غزل میں تغزل کی اس بھر پور فضا سے لطف اندوز ہونا چاہتا ہوں جو غزل کی سی لطیف صنفِ سخن کی سچی شناخت ہے۔ یہ صرف چند اشعار ہیں جو اس وقت یادداشت میں تازہ ہیں۔
تری قُربت کے لمحے پُھول جیسے
مگر پھولوں کی عمریں مختصر ہیں
--------
رات کیا سوئے کہ باقی عمر کی نیند اُڑ گئی
خواب کیا دیکھا کہ دھڑکا لگ گیا تعبیر کا
--------
ایسا گُم ہوں تری یادوں کے بیابانوں میں
دل نہ دھڑکے تو سنائی نہیں دیتا کچھ بھی
--------
بظاہر ایک ہی شب ہے فراقِ یار مگر
کوئی گزارنے بیٹھے تو عمر ساری لگے
--------
اب تو ہمیں بھی ترکِ مراسم کا دکھ نہیں
پر دل یہ چاہتا ہے کہ آغاز تُو کرے
یہ اس دور کی غزل ہے جس پر احمد فراز نے سالہا سال تک حکمرانی کی ہے اور جو اردو شاعری کی تاریخ میں ایک الگ باب کی متقاضی ہے۔
مزید پڑھیے۔۔۔۔