Showing posts with label منظوم تراجم. Show all posts
Showing posts with label منظوم تراجم. Show all posts

Apr 28, 2011

غزلِ خسرو - عاشق شدم و محرمِ ایں کار ندارم

شعرِ خسرو
عاشق شدم و محرمِ ایں کار ندارم
فریاد کہ غم دارم و غم خوار ندارم


ترجمہ
میں عاشق تو ہو گیا ہوں مگر اس کام کا میرے پاس کوئی محرم راز نہیں ہے، فریاد ہے کہ مجھے غم تو ہے لیکن کوئی غم خوار نہیں ہے۔

منظوم ترجمہ مسعود قریشی
عاشق ہوں، کوئی محرمِ اسرار نہیں ہے
فریاد کہ غم ہے، کوئی غم خوار نہیں ہے


شعرِ خسرو
آں عیش، کہ یاری دہدم صبر، ندیدم
واں بخت، کہ پرسش کندم یار ندارم


ترجمہ
میں پاس نہیں ہے وہ عیش کہ یار مجھے صبر دے، میرے پاس نہیں ہے وہ قسمت کہ یار خود میرا حال پوچھے۔

قریشی
وہ عیش کے دے صبر مجھے یار، نہ پایا
وہ بخت کہ پوچھے مجھے خود یار، نہیں ہے
Persian poetry, Persian Poetry with Urdu translation, Farsi poetry, Farsi poetry with urdu translation, Amir Khusro, امیر خسرو
امیر خسرو - ایک خاکہ
Amir Khusro
شعرِ خسرو
بسیار شدم عاشقِ دیوانہ ازیں پیش
آں صبر کہ ہر بار بُد ایں بار ندارم


ترجمہ
اس سے پہلے بھی میں بہت دفعہ عاشق و دیوانہ ہوا، لیکن وہ صبر جو ہر بار حاصل تھا، اب کے نہیں ہے۔

قریشی
سو بار ہوا عاشق و دیوانہ، پہ اب کے
وہ صبر جو حاصل تھا ہر اک بار، نہیں ہے


شعرِ خسرو
دل پُر ز غم و غصۂ ہجرست ولیکن
از تنگ دلی طاقتِ گفتار ندارم


ترجمہ
دل ہجر کے غم و غصے سے پر تو ہے لیکن تنگدلی کی وجہ سے مجھے طاقتِ گفتار نہیں ہے۔

قریشی
دل، ہجر پہ معمور تو ہے غصہ و غم سے
دل تنگ ہوں، اب طاقتِ گفتار نہیں ہے


شعرِ خسرو
خوں شد دلِ خسرو ز نگہداشتنِ راز
چوں ہیچ کسے محرمِ اسرار ندارم


ترجمہ
راز کی حفاظت کر کر کے خسرو کا دل خون ہوگیا ہے لیکن افسوس کہ کوئی بھی محرمِ اسرار نہیں ہے۔

قریشی
یہ راز چھپانے میں ہوا خوں دلِ خسرو
افسوس کوئی محرمِ اسرار نہیں ہے

---
مزید پڑھیے۔۔۔۔

Sep 12, 2010

امیر خسرو کی ایک غزل - از من آں کامیاب را چہ غمست - مع تراجم

امیر خسرو کی اس غزل کا شمار غزلِ مسلسل میں ہوتا ہے، اور ایک ہی خیال کو مختلف حقیقتوں سے واضح کیا ہے اور کیا خوب تشبیہات و استعارات اس غزل میں بیان کئے ہیں۔

شعرِ خسرو
از من آں کامیاب را چہ غمست
زیں شبِ ماہتاب را چہ غمست


ترجمہ
اس کامیاب (محبوب) کو مجھ سے کیا غم ہے، ماہتاب کو رات کا غم کب ہوتا ہے۔

منظوم ترجمہ مسعود قریشی
میرا اس کامیاب کو غم کیا
رات کا ماہتاب کو غم کیا
Amir Khusro, امیر خسرو, Persian poetry, Persian Poetry with Urdu translation, Farsi poetry, Farsi poetry with urdu translation,
Amir Khusro, امیر خسرو
شعرِ خسرو
ذرّہ ہا گر شوند زیر و زبر
چشمۂ آفتاب را چہ غمست


ترجمہ
اگر تمام ذرے زیر و زبر بھی ہو جائیں تو سورج کے چشمے کو انکے زیر و زبر ہونے کا کیا غم ہے۔

قریشی
ذرّے زیر و زبر جو ہوں تو ہوں
چشمۂ آفتاب کو غم کیا

شعرِ خسرو
گر بسوزد ہزار پروانہ
مشعلِ خانہ تاب را چہ غمست


ترجمہ
اگر ہزار پروانے بھی جل مریں تو گھر کو روشن کرنے والی مشعل کو اسکا کیا غم ہے۔

قریشی
جل مریں گو ہزار پروانے
مشعلِ خانہ تاب کو غم کیا

شعرِ خسرو
خرمنِ من کہ گشت خاکستر
آتشِ پُر عذاب را چہ غمست


ترجمہ
میری جان کی کھیتی جل کر راکھ ہوگئی مگر عذاب سے پُر آگ کو اس کا کیا غم ہے۔

قریشی
خرمنِ جاں جو جل کے راکھ ہوا
آتشِ پر عذاب کو غم کیا

شعرِ خسرو
گر مرا نیست خوابے اندر چشم
چشمِ آں نیم خواب را چہ غمست


ترجمہ
اگر میری آنکھوں میں نیند نہیں رہی تو اسکا اس نیم خواب آنکھوں (والے) کو کیا غم ہے۔

قریشی
رتجگے ہیں اگر نصیب مرا
دیدۂ نیم خواب کو غم کیا

شعرِ خسرو
خسرو ار جاں دہد تو دیر بہ ذی
ماہی ار میرد آب را چہ غمست


ترجمہ
خسرو تو جان دیتا ہے لیکن تو دیر تک زندہ رہ کہ مچھلی کے مرنے کا پانی کو کیا غم۔

قریشی
جان خسرو نے دی، تُو جُگ جُگ جی
مرگِ ماہی پہ آب کو غم کیا

----------
بحر - بحر خفیف مسدس مخبون محذوف مقطوع
(مسعود قریشی کا منظوم ترجمہ بھی اسی بحر میں ہے)

افاعیل - فاعِلاتُن مفاعِلُن فعلُن
(اس بحر میں آٹھ وزن جمع ہو سکتے ہیں، تفصیل کیلیئے میرا مقالہ “ایک خوبصورت بحر - بحر خفیف” دیکھیئے)

اشاری نظام - 2212 2121 22
(ہندسوں کا اردو کی طرز پر یعنی دائیں سے بائیں پڑھیں یعنی پہلے 2 پھر 1 پھر 2)

تقطیع

از من آں کامیاب را چہ غمست
زیں شبِ ماہتاب را چہ غمست

از مَ نا کا - 2212- فاعلاتن (من اور آں میں الف کا وصال ہوا)۔
م یا ب را - 2121 - مفاعلن
چ غَ مست - 1211 - فَعِلان (فعلن کی جگہ فَعِلان اس بحر میں جائز ہے)۔

زی شَ بے ما - 2212 - فاعلاتن
ہ تا ب را - 2121 - مفاعلن
چ غَ مست - 1211 - فعلان
مزید پڑھیے۔۔۔۔

Jan 5, 2010

فارسی غزلِ غالب مع تراجم - مژدۂ صبح دریں تیرہ شبانم دادند

غالب کی درج ذیل غزل کا شمار بھی غالب کی شاہکار غزلوں میں سے ہوتا ہے۔ یہ غزلِ مسلسل ہے اور اس میں غالب کی شاعرانہ تعلی عروج پر ہے۔ غالب کو اپنی شاعرانہ عظمت اور منفرد شخصیت کا بھر پور اور شدید احساس تھا اور اردو کلام میں بھی انہوں نے اس کا اظہار کیا ہے لیکن اس غزل میں تو اس موضوع کو انہوں نے دوام بخش دیا ہے۔ صوفی غلام مصطفیٰ تبسم کے الفاظ میں "اس میں صرف حسنِ بیان ہی نہیں بلکہ شعر کہنے والے کے دل و دماغ اور اسکی سوچ کی گہرائی اور وسعت کا بخوبی اندازہ ہو جاتا ہے۔ اسلوبِ بیان کی فنکارانہ مہارت اور ندرت نے اشعار میں بڑا حسین لطف پیدا کیا ہے"۔

اس غزل کے اشعار 3 تا 8 خاص اہمیت کے حامل ہیں۔ مولانا الطاف حسین حالی ان اشعار کے متعلق یادگارِ غالب میں ارشاد فرماتے ہیں۔ "قضا و قدر نے جو کچھ عرب کی فتوحات کے وقت عجم سے چھینا اسکے عوض میں مجھ کو، کہ میں بھی عجمی الاصل ہوں، کچھ نہ کچھ دیا"۔

صوفی تبسم نے مولانا حالی کی رائے سے تھوڑا اختلاف کیا ہے، فرماتے ہیں "خادم اس سلسلے میں صرف اتنا کہنے کی جسارت کرتا ہے کہ مجھے مولانا کے الفاظ عرب کی فتوحات سے اختلاف ہے۔ مرزا صاحب اپنے آپ کو ایرانی اور تورانی، تہذیبی روایت کا وارث سمجھتے تھے اور اس پر نازاں تھے، اور اس بات کو قدرت کی طرف منسوب کرتے تھے۔ قدیم ایرانی شوکت و جاہ سے انھیں جو کچھ ملا، وہ تاج و گوہر کی صورت میں نہیں بلکہ ادب پاروں کی شکل میں ملا"۔

پروفیسر رالف رسل، مطلع کے بعد باقی کے اشعار کے متعلق یوں رائے زن ہیں۔

"The remaining verses lament the passing of the glory and the beauty of ancient, pre-Islamic Iran, where fire was worshiped, wine was drunk, there were idols in the temples, and the blowing of conches accompanied worship. Ghalib claims he is the heir to all this, and that his poetry has the power to re-create it............ Ghalib prided himself on this ability."


غزل پیشِ خدمت ہے۔
Mirza Ghalib, مرزا غالب, Persian poetry, Persian Poetry with Urdu translation, Farsi poetry, Farsi poetry with urdu translation,
Mirza Ghalib, مرزا غالب
شعرِ غالب
مژدۂ صبح دریں تیرہ شبانم دادند
شمع کشتند و ز خورشید نشانم دادند

صوفی غلام مصطفٰی تبسم
ان سیاہ راتوں میں مجھے صبح کی بشارت دی گئی۔ شمع کو بجھا دیا اور سورج کی نشان دہی کی گئی۔

افتخار احمد عدنی
شمع گل کرکے سحر نور فشاں دی مجھ کو
اور اک طلعتِ خورشید نشاں دی مجھ کو

پروفیسر رالف رسل
In my dark nights they brought me the good tidings of the morning
Put out the candles, turning me towards the rising sun


شعرِ غالب
رخ کشودند و لب ہرزہ سرایم بستند
دل ربودند و دو چشمِ نگرانم دادند

صوفی تبسم
مجھے اپنا جلوہ دکھا کر میرے بیہودہ گو لبوں کو سی دیا گیا، میرا دل چھین لیا اور اسکے عوض دیکھنے والی دو آنکھیں عطا کر دی گئیں۔

عدنی
اک جھلک ایسی دکھائی کہ کیا مہر بلب
دل مرا چھین کے چشمِ نگراں دی مجھ کو

رسل
They showed their faces, and at once my babbling tongue was silenced
They took my heart away from me, and gave me eyes to see


شعرِ غالب
سوخت آتش کدہ ز آتش نفسم بخشیدند
ریخت بتخانہ ز ناقوس فغانم دادند

صوفی تبسم
آتش کدہ جل کر راکھ ہوا تو اسکی آگ میرے سانس کو مل گئی۔ بت خانہ گرا تو اسکے ناقوس کی فریاد مجھے عطا ہوئی۔

عدنی
سرد آتشکدہ کرکے مجھے آتش بخشی
ہوا ناقوس جو خاموش، فغاں دی مجھ کو

رسل
They burnt the fire-temples, and breathed their fire into my spirit
Cast idols down, and let the conches sound in my lament


شعرِ غالب
گہر از رایتِ شاہانِ عجم برچیدند
بعوض خامۂ گنجینہ فشانم دادند

صوفی تبسم
شاہانِ عجم کے جھنڈوں کے موتی اُتار لیے گئے اور اسکے عوض وہ قلم عنایت ہوا جو خزانہ لٹانے والا ہے۔

عدنی
سب گہر رایتِ شاہانِ عجم کے چن کر
اک قلم، نادر و گنجینہ فشاں دی مجھ کو

رسل
They plucked the pearls that once had decked the banner of their kings
And gave me them to scatter from the treasury of my pen


شعرِ غالب
افسر از تارکِ ترکانِ پشنگی بردند
بسخن ناصیۂ فرکیانم دادند

صوفی تبسم
ترکوں کے سر سے تاج اتار لیا گیا اور مجھ کو شاعری میں اقبالِ کیانی مرحمت ہوا۔


شعرِ غالب
گوہر از تاج گسستند و بدانش بستند
ہر چہ بردند بہ پیدا، بہ نہانم دادند

صوفی تبسم
تاج سے موتی توڑ لیے گئے اور انھیں علم و دانش میں جڑ دیا گیا، جو کچھ علی الاعلان لوٹا تھا وہ مجھے خاموشی اور پوشیدہ طور پر دے دیا۔

عدنی
تھے جو سب تاج کے گوہر مری دانش میں جڑے
اور خاموشی سے یہ نقدِ گراں دی مجھ کو

رسل
Prised from their crown, they set the jewels in my crown of wisdom
All that men saw them take away, they secretly gave back


شعرِ غالب
ہر چہ در جزیہ ز گبراں، مئےِ ناب آوردند
بشبِ جمعۂ ماہِ رمضانم دادند

صوفی تبسم
آتش پرستوں سے جو شراب جزیے کے طور پر لی گئی، وہ ماہ رمضان کی شبِ جمعہ کو مجھے عنایت ہوئی۔

عدنی
وہ مےِ ناب جو ہاتھ آئی بطورِ جزیہ
بہ شبِ جمعۂ ماہِ رمضاں دی مجھ کو

رسل
The wine they took as tribute from the worshippers of fire
They gave to me one Friday in the month of Ramazan


شعرِ غالب
ہر چہ از دستگہِ پارس بہ یغما بردند
تا بنالم ہم ازآں جملہ زبانم دادند

صوفی تبسم
غرض کہ پارس کی جو پونجی لٹ گئی تھی، اس میں سے زبان مجھے دے دی تاکہ میں فریاد کروں۔

عدنی
فارس کی ساری متاع لوٹ کے اس کے بدلے
بہرِ فریاد فقط ایک زباں دی مجھ کو

رسل
From all they took in booty from the treasures of Iran
They gave to me a tongue in which to utter my lament


شعرِ غالب
دل ز غم مردہ و من زندہ ہمانا ایں مرگ
بود ارزندہ بماتم کہ امانم دادند

صوفی تبسم
میرا دل تو (غم) سے مر چکا ہے لیکن میں زندہ ہوں، اسکی وجہ لازماً یہی ہے کہ موت میرے ماتم کے مناسب تھی، اس سے مجھے محفوظ رکھا اور اسے سلامت رکھا تاکہ وہ میرا ماتم کرتی رہے۔

مزید پڑھیے۔۔۔۔

Dec 1, 2009

امیر خسرو علیہ الرحمہ کی ایک غزل مع تراجم - نیست در شہر گرفتار تر از من دِگَرے

شعرِ خسرو
نیست در شہر گرفتار تر از من دِگَرے
نبُد از تیرِ غم افگار تر از من دِگَرے

ترجمہ
پورے شہر میں کوئی اور شخص (تیری محبت میں) مجھ جیسا گرفتار نہیں ہے، غموں کے تیر سے کوئی اور مجھ جیسا زخمی نہیں ہے۔

منظوم ترجمہ مسعود قریشی
شہر میں کوئی گرفتار نہیں ہے مجھ سا
تیر سے غم کے دل افگار نہیں ہے مجھ سا

شعرِ خسرو
بر سرِ کُوئے تو، دانم، کہ سگاں بسیار اند
لیک بنمائی وفادار تر از من دِگَرے

ترجمہ
میں جانتا ہوں کہ تیرے کوچے میں بہت سے سگ ہیں لیکن ان میں کوئی بھی مجھ سا وفادار نہیں ہے۔
Amir Khusro, امیر خسرو, Persian poetry, Persian Poetry with Urdu translation, Farsi poetry, Farsi poetry with urdu translation,
Amir Khusro, امیر خسرو
قریشی
یوں تو کوچے میں ترے سگ ہیں بہت سے لیکن
ایک بھی ان میں وفادار نہیں ہے مجھ سا

شعرِ خسرو
کارواں رفت و مرا بارِ بلائے در دل
چوں رَوَم، نیست گرانبار تر از من دِگَرے

ترجمہ
کارواں چلا گیا اور میرے دل میں جدائی کا بوجھ ڈال گیا، کسطرح چلوں کہ کوئی اور مجھ سا گراں بار نہیں ہے۔

قریشی
سب گئے، رہ گیا میں بارِ بلا دل میں لئے
ان میں کوئی بھی گرانبار نہیں ہے مجھ سا

شعرِ خسرو
ساقیا بر گزر از من کہ بخوابِ اجَلَم
باز جُو اکنوں تو ہشیار تر از من دِگَرے

ترجمہ
اے ساقی تو جانتا ہے کہ میں خوابِ اجل (مرنے کے قریب) ہوں لیکن مجھ سے گزر کے اس کے باوجود میکدے میں مجھ سے ہوشیار کوئی اور نہیں ہے۔

قریشی
ساقیا خوابِ اجل میں ہوں پہ تو جانتا ہے
میکدے میں کوئی ہشیار نہیں ہے مجھ سا

شعرِ خسرو
خسروَم، بہرِ بُتاں کُوئے بکو سرگرداں
در جہاں بود نہ بیکار تر از من دِگَرے

ترجمہ
میں خسرو، کوبکو بتوں کی تلاش میں سرگرداں ہوں، اس جہاں میں مجھ سا بیکار کوئی نہیں ہے۔

قریشی
کُو بہ کُو بہرِ بُتاں خسرو ہوا سرگرداں
کوئی اس دنیا میں بیکار نہیں ہے مجھ سا

----------

بحر - بحرِ رمل مثمن مخبون محذوف مقطوع
افاعیل - فاعِلاتُن فَعِلاتُن فَعِلاتُن فَعلُن
(پہلے رکن فاعلاتن کی جگہ مخبون رکن فعلاتن بھی آسکتا ہے، آخری رکن فعلن کی جگہ فعلان، فَعِلن اور فَعِلان بھی آسکتا ہے یوں آٹھ وزن اکھٹے ہو سکتے ہیں)
اشاری نظام - 2212 2211 2211 22
ہندسوں کو اردو کی طرز پر دائیں سے بائیں پڑھیے۔
(پہلے 2212 کی جگہ 2211 اور آخری 22 کی جگہ 122، 211 اور 1211 بھی آ سکتا ہے)
۔تقطیع -
نیست در شہر گرفتار تر از من دِگَرے
نبُد از تیرِ غم افگار تر از من دِگَرے

نیس در شہ - فاعلاتن - 2212 (نیست میں چونکہ اوپر تلے تین ساکن ہیں، ی، سین اور ت، اور تقطیع کا اصول ہے کہ جہاں اس طرح اوپر تلے تین ساکن ہوں اس میں آخری ساکن محسوب نہیں ہوتا یعنی اسکا کوئی وزن شمار نہیں کیا جاتا سو اسے چھوڑ دیتے ہیں، یعنی نیست کی ت کو چھوڑ دیا، اس طرح کے دیگر الفاظ میں دوست، گوشت، پوست، چیست، کیست وغیرہ شامل ہیں)۔
ر گرفتا - فعلاتن - 2211
ر تَ رز من - فعلاتن - 2211 (یہاں تر اور از کے درمیان میں الفِ وصال ساقط ہوا ہے، الفِ واصل اسے کہتے ہیں کہ پچھلا حرف ساکن ہو اور حرفِ علت نہ ہو یعنی الف، واؤ یا ی نہ ہو تو اسکے فوری بعد والے الف کو ختم کر کے یعنی وصل کروا کے پچھلے حرف کو اگلے حرف کے ساتھ ملا دیتے ہیں جیسے تر اور از میں، الف کے وصال کی سبھی شرطیں پوری ہوتی ہیں سو اس کو ساقط کر کے لفظ تر از سے تَ رز بنا لیا اور یوں وزن پورا ہوا)۔
دِ گِ رے - فَعِلُن - 211 (فاعلن کی جگہ فعِلن نوٹ کریں)۔
نَ بُ دز تی - فعلاتن - 2211 (الفِ واصل اور مخبون رکن دونوں نوٹ کریں)۔
رِ غَ مَفگا - فعلاتن - 2211 (الفِ واصل نوٹ کریں)۔
ر تَ رز من - فعلاتن - 2211 (الفِ واصل نوٹ کریں)۔
دِ گَ رے - فَعِلن - 211
مزید پڑھیے۔۔۔۔

Feb 26, 2009

غزلِ امیر خُسرو مع ترجمہ - دِلَم در عاشقی آوارہ شُد، آوارہ تر بادا

امیر خسرو کی ایک اور خوبصورت غزل جو مجھے بہت پسند ہے۔
دِلَم در عاشقی آوارہ شُد، آوارہ تر بادا
تَنَم از بیدِلی بیچارہ شد، بیچارہ تر بادا
ترجمہ
میرا دل عاشقی میں آوارہ ہو گیا ہے، اور زیادہ آوارہ ہو جائے۔ میرا جسم بے دلی سے بیچارہ ہو گیا ہے، اور زیادہ بیچارہ ہوجائے۔
منظوم ترجمہ مسعود قریشی
مرا دل عشق میں آوارہ ہے، آوارہ تر ہوجائے
مرا تن غم سے بے چارہ ہوا، بے چارہ تر ہوجائے
گر اے زاہد دعائے خیر می گوئی مرا ایں گو
کہ آں آوارۂ کوئے بُتاں، آوارہ تر بادا
ترجمہ
اگر اے زاہد تو میرے لیے دعائے خیر کرتا ہے تو میرے لیے یہ کہہ کہ کوئے بتاں کا آوارہ، اور زیادہ آوارہ ہو جائے۔
قریشی
اگر مجھ کو دعائے خیر دینی ہے تو کہہ زاہد
کہ وہ آوارۂ کوئے بتاں آوارہ تر ہو جائے
دِلِ من پارہ گشت از غم نہ زاں گونہ کہ بہ گردَد
اگر جاناں بدیں شاد است، یا رب پارہ تر بادا
ترجمہ
میرا دل غم سے ٹکرے ٹکرے ہوگیا ہے اور اسطرح بھی نہیں کہ وہ ٹھیک ہوجائے، اگر جاناں اسی طرح خوش ہے تو یا رب میرا دل اور پارہ پارہ ہوجائے۔
قریشی
مرا دل پارہ پارہ ہے، نہیں امّید بہتر ہو
اگر جاناں اسی میں شاد ہے تو پارہ تر ہو جائے
Amir Khusro, امیر خسرو, Persian poetry, Persian Poetry with Urdu translation, Farsi poetry, Farsi poetry with urdu translation,
Mazar Amir Khusro, مزار امیر خسرو
ہمہ گویند کز خونخواریَش خلقے بجاں آمد
من ایں گویَم کہ بہرِ جانِ من خونخوارہ تر بادا
ترجمہ
سبھی کہتے ہین کہ اسکی خونخواری سے خلق کی جان تنگ ہوگئی ہے، میں یہ کہتا ہوں کہ میری جان کیلیے وہ اور زیادہ خونخوار ہو جائے
قریشی
سبھی کہتے ہیں خونخواری سے اُسکی خلق عاجز ہے
میں کہتا ہوں وہ میری جان پر خونخوارہ تر ہو جائے
چو با تر دامنی خُو کرد خُسرو با دوچشمِ تر
بہ آبِ چشمِ مژگاں دامِنَش ہموارہ تر بادا
ترجمہ
اے خسرو، اگر تیری دو بھیگی ہوئی آنکھوں نے تر دامنی کو اپنی عادت بنا لیا ہے تو تیرا دامن آنکھوں کے آنسوؤں سے اور زیادہ بھیگ جائے۔
قریشی
دو چشمِ تر سے خسرو کو ہوئی تر دامنی کی خُو
برستی آنکھ سے دامن مگر ہموارہ تر ہو جائے
----------
بحر - بحر ہزج مثمن سالم
افاعیل - مَفاعِیلُن مَفاعِیلُن مَفاعِیلُن مَفاعِیلُن
اشاری نظام - 2221 2221 2221 2221
تقطیع -
دلم در عاشقی آوارہ شُد، آوارہ تر بادا
تَنم از بیدِلی بیچارہ شد، بیچارہ تر بادا
دِلَم در عا - مفاعیلن - 2221
ش قی آوا - مفاعیلن - 2221
رَ شُد آوا - مفاعیلن - 2221
رَ تر بادا - مفاعیلن - 2221
تَنم از بی - مفاعیلن - 2221
دِلی بیچا - مفاعیلن - 2221
رَ شد، بیچا - مفاعیلن - 2221
رَ تر بادا - مفاعیلن - 2221
مزید پڑھیے۔۔۔۔

Nov 24, 2008

امیر خسرو کی ایک غزل مع تراجم - جاں ز تَن بُردی و دَر جانی ہنوز

امیر خسرو کی ایک خوبصورت فارسی غزل مع تراجم۔
شعرِ خسرو
جاں ز تَن بُردی و دَر جانی ہنوز
درد ہا دادی و درمانی ہنوز
تُو میرے جسم سے دل کو نکال کر لے گیا لیکن اسکے اندر جان ابھی باقی ہے، تو نے بہت درد دیئے لیکن انکا علاج ابھی باقی ہے۔
منظوم ترجمہ مسعود قریشی
تن سے جاں لے کر بھی تُو جاں ہے ابھی
درد دے کر بھی تو درماں ہے ابھی
شعرِ خسرو
آشکارا سینہ ام بشگافتی
ہم چُناں در سینہ پنہانی ہنوز
تو نے میرے سینے کو پھاڑ دیا ہے لیکن ابھی تک تُو اسی طرح میرے سینے میں پوشیدہ ہے۔
مسعود قریشی
سینہ میرا آشکارا کر کے چاک
میرے سینے میں تو پنہاں ہے ابھی
شعرِ خسرو
مُلکِ دل کردی خراب از تیغِ ناز
داندریں ویرانہ سلطانی ہنوز
اپنی تیغِ ناز سے تُو نے میرے دل کے ملک کو ویران کر دیا لیکن اس ویرانے میں ابھی تک تیری ہی حکمرانی ہے۔
مسعود قریشی
ملکِ دل ویراں ہے تیغِ ناز سے
تو ہی ویرانے میں سلطاں ہے ابھی
شعرِ خسرو
ہر دو عالم قیمتِ خود گفتہ ای
نرخ بالا کُن کہ ارزانی ہنوز
تو نے اپنی قیمت دونوں جہان بتائی ہے، اپنا نرخ بڑھا کہ یہ ابھی تک ارزاں ہے۔
مسعود قریشی
اپنی قیمت دو جہاں تُو نے کہی
نرخ اونچا کر، تُو ارزاں ہے ابھی
شعرِ خسرو
جور کردی سالہا چوں کافراں
بہرِ رحمت نامسلمانی ہنوز
کافروں کی طرح تو نے سال ہا سال ظلم و ستم کئے لیکن رحمت کیلیئے ابھی تک نا مسلمانی موجود ہے۔
شعرِ خسرو
جاں ز بندِ کالبد آزاد گشت
دل بہ گیسوئے تو زندانی ہنوز
جان جسم کی قید سے آزاد ہو گئی ہے لیکن دل ابھی تک تیری زلفوں کی قید میں ہے۔
مسعود قریشی
جاں ہوئی آزاد تن کی قید سے
دل کو تیری زلف زنداں ہے ابھی
شعرِ خسرو
Amir Khusro, امیر خسرو, Persian poetry, Persian Poetry with Urdu translation, Farsi poetry, Farsi poetry with urdu translation,
Amir Khusro, امیر خسرو
پیری و شاہد پرستی نا خوش است
خسروا تا کے پریشانی ہنوز
وقتِ پیری شاہد پرستی اچھی بات نہیں، خسرو تو کب تک اس پریشانی سے دوچار رہے گا کہ جو ابھی تک ہے۔
مسعود قریشی
پیر ہو کر بھی وہ ہے شاہد پرست
اس لئے خسرو پریشاں ہے ابھی
————
بحر - بحر رمل مسدس محذوف
افاعیل - فاعِلاتُن فاعِلاتُن فاعِلُن
(آخری رکن میں فاعلن کی جگہ فاعلان بھی آ سکتا ہے)
اشاری نظام - 2212 2212 212
(آخری رکن میں 212 کی جگہ 1212 بھی آ سکتا ہے)
تقطیع -
جاں ز تن بُردی و در جانی ہنوز
درد ہا دادی و درمانی ہنوز
جا ز تن بر - فاعلاتن - 2212
دی و در جا - فاعلاتن - 2212
نی ہنوز - فاعلان - 1212
درد ہا دا - فاعلاتن - 2212
دی و در ما - فاعلاتن - 2212
نی ہنوز - فاعلان - 1212
مزید پڑھیے۔۔۔۔

Oct 28, 2008

فارسی رباعیاتِ غالب مع تراجم

(1)
رباعی غالب
غالب آزادۂ موحد کیشَم
بر پاکی خویشتن گواہِ خویشَم
گُفتی بہ سُخَن بَرفتگاں کس نَرَسد
از باز پَسیں نُکتہ گزاراں پیشَم
ترجمہ
اے غالب، میں ایک آزاد منش اور موحد کیش انسان ہوں، اپنی پاک فطرتی پر خود ہی اپنا گواہ ہوں۔ تو نے کہا کہ کوئی بھی (آج کا شاعر) شاعری میں گذشتہ دور کے شعرا تک نہیں پہنچتا، میں‌ بہرحال آخر میں آنے والے نکتہ آفرینوں سے آگے ہوں۔
منظوم ترجمہ صبا اکبر آبادی
غالب آزاد ہوں، موحد ہوں میں
ہاں پاک دلی کا اپنی شاہد ہوں میں
کہتے ہیں کہ سب کہہ گئے پچھلے شعرا
اب طرزِ سخن کا اپنی موجد ہوں میں
Mirza Ghalib, مرزا غالب, Persian poetry, Persian Poetry with Urdu translation, Farsi poetry, Farsi poetry with urdu translation, Rubai, رباعی
Mirza Ghalib, مرزا غالب
(2)
رباعی غالب
غالب بہ گُہَر ز دودۂ زاد شَمَم
زاں رو بہ صفائے دمِ تیغست دَمَم
چوں رفت سپہبدی، زدم چنگ بہ شعر
شد تیر شکستہ نیا کانِ قَلَمَم
ترجمہ
غالب، میں نسل کے لحاظ سے ایک اچھے اور صاف خاندان کا فرد ہوں، اسی لئے میرا دم تلوار کے دم کی طرح صاف ہے۔ جب خاندان سے سپہ گری ختم ہوگئی تو میں نے ہاتھ میں‌ قلم پکڑ لیا، چنانچہ میرے اسلاف کا ٹوٹا ہوا تیر میرا قلم بن گیا۔
منظوم ترجمہ صبا اکبر آبادی
غالب ہے نسب نامہ مرا تیغِ دو دم
تلوار کی دھار ہے نفس سے مرے کم
اب شاعری ہے سپہ گری کے بدلے
ٹوٹے ہوئے نیزوں کو بنایا ہے قلم
Persian poetry, Persian Poetry with Urdu translation, Farsi poetry, Farsi poetry with urdu translation, Rubai, رباعی
Saba Akbar Abadi, صبا اکبرآبادی
(3)
رباعیِ غالب
در عالمِ بے زَری کہ تلخ است حیات
طاعت نَتَواں کرد بہ امیدِ نجات
اے کاش ز حق اشارتِ صوم صلوٰت
بودے بَوَجُود مال چوں حج و زکوٰت
ترجمہ
مفلسی کی حالت میں جبکہ زندگی تلخ ہوتی ہے، نجات کی امید میں عبادت کیونکر کی جاسکتی ہے۔ کاش کہ خدا کی طرف سے، روزے اور نماز کے سلسلے میں بھی حج اور زکوٰت کی طرح مال کی شرط ہوتی، یعنی نماز اور روزہ بھی صاحبِ استطاعت و صاحبِ نصاب پر فرض ہوتے۔
منظوم ترجمہ صبا اکبر آبادی
افلاس کے عالم میں ہوئی تلخ حیات
طاعت بھی نہیں ہوتی بہ امید نجات
اے کاش نماز اور روزہ ہوتے
مشروط بہ مال جیسے حج اور زکوٰت
مزید پڑھیے۔۔۔۔

Oct 23, 2008

غزلِ خسرو مع تراجم - کافَرِ عِشقَم، مُسلمانی مرا درکار نیست

شعرِ خسرو
کافَرِ عِشقَم، مُسلمانی مرا درکار نیست
ہر رگِ من تار گشتہ، حاجتِ زنّار نیست
ترجمہ
میں عشق کا کافر ہوں، مجھے مسلمانی درکار نہیں، میری ہر رگ تار تار ہوچکی ہے، مجھے زُنار کی حاجت نہیں۔
منظوم ترجمہ مسعود قریشی
کافرِ عشق ہوں، ایماں مجھے درکار نہیں
تار، ہر رگ ہے، مجھے حاجتِ زنار نہیں
شعرِ خسرو
از سَرِ بالینِ مَن بَرخیز اے ناداں طبیب
دردمندِ عشق را دارُو بَجُز دیدار نیست
ترجمہ
اے نادان طبیب میرے سرہانے سے اٹھ جا، عشق کے بیمار کو تو صرف دیدار ہی دوا ہے۔
قریشی
میرے بالیں سے اٹھو اے مرے نادان طبیب
لا دوا عشق کا ہے درد، جو دیدار نہیں
Amir Khusro, امیر خسرو, Persian poetry, Persian Poetry with Urdu translation, Farsi poetry, Farsi poetry with urdu translation,
Amir Khusro, امیر خسرو
شعرِ خسرو
شاد باش اے دل کہ فَردَا برسَرِ بازارِ عشق
مُژدۂ قتل است گرچہ وعدۂ دیدار نیست
ترجمہ
اے دل تو خوش ہوجا کہ کل عشق کے بازار میں، قتل کی خوش خبری ہے اگرچہ دیدار کا وعدہ نہیں ہے۔
قریشی
اے دلِ زار ہو خوش، عشق کے بازار میں کَل
مژدۂ قتل ہے گو وعدۂ دیدار نہیں
شعرِ خسرو
ناخُدا در کشتیٔ ما گر نَباشد گو مَباش
ما خُدا داریم، ما را ناخُدا درکار نیست
ترجمہ
اگر ہماری کشتی میں ناخدا نہیں ہے تو کوئی ڈر نہیں کہ ہم خدا رکھتے ہیں اور ہمیں ناخدا درکار نہیں۔
قریشی
ناخدا گر نہیں کشتی میں نہ ہو، ڈر کیا ہے
ہم کہ رکھتے ہیں خدا، وہ ہمیں درکار نہیں
شعرِ خسرو
خلق می گویَد کہ خُسرو بُت پرستی می کُنَد
آرے آرے می کُنَم، با خلق ما را کار نیست
ترجمہ
خلق کہتی ہے کہ خسرو بت پرستی کرتا ہے، ہاں ہاں، میں کرتا ہوں مجھے خلق سے کوئی کام نہیں ہے۔
قریشی
بُت پرستی کا ہے خسرو پہ جو الزام تو ہو
ہاں صنم پوجتا ہوں، خلق سے کچھ کار نہیں
———–
بحر - بحر رمل مثمن محذوف
(مسعود قریشی کا منظوم ترجمہ بحر رمل مثمن مخبون محذوف مقطوع میں ہے۔)
افاعیل - فاعِلاتُن فاعِلاتُن فاعِلاتُن فاعِلُن
(آخری رکن فاعلن میں فاعِلان بھی آ سکتا ہے)
اشاری نظام - 2212 2212 2212 212
(آخری رکن 212 میں 1212 بھی آ سکتا ہے)
تقطیع -
کافَرِ عِشقَم، مُسلمانی مرا درکار نیست
ہر رگِ من تار گشتہ، حاجتِ زنّار نیست
کافرے عش - فاعلاتن - 2212
قم مسلما - فاعلاتن - 2212
نی مرا در - فاعلاتن - 2212
کار نیس - فاعلان - 1212
ہر رگے من - فاعلاتن - 2212
تار گشتہ - فاعلاتن - 2212
حاجتے زُن - فاعلاتن - 2212
نار نیس - فاعلان - 1212
مزید پڑھیے۔۔۔۔

Jul 16, 2008

غالب کی ایک شاہکار فارسی غزل مع منظوم تراجم - دود سودائے تُتق بست آسماں نامیدمش

غالب کی مندرجہ ذیل غزل نہ صرف غالب کی ایک شاہکار غزل ہے بلکہ غالب کے فلسفے و فکر کو سمجھنے میں مشعلِ راہ بھی ہے۔ صوفی تبسم اس غزل کے تعارف میں فرماتے ہیں کہ “غالب نے اس غزل کے بیشتر شعروں میں اس کائنات کے بارے میں ایک خاص زاویہ نظر پیش کیا ہے کہ یہ سب کچھ جو ہمیں نظر آرہا ہے اس کا وجود خارجی کوئی نہیں، یہ انسانی ذہن ہی کی تخلیق ہے۔ یہ ایک سیمیا ہے۔ ایک طلسم ہے جو انسانی وہم نے باندھ رکھا ہے”۔
جس زاویہ نظر کی طرف صوفی تبسم نے اشارہ کیا ہے، فلسفے میں یہ ایک باقاعدہ سکول آف تھاٹ ہے اور نام اسکا “مثالیت پسندی” یا آئیڈیل ازم ہے اور یہ مادیت پسندی یا میٹریل ازم کی عین ضد ہے۔ لبِ لباب اس سلسلہ فکر کا وہی ہے جو صوفی صاحب نے بیان کر دیا ہے، اسکے برعکس مادیت پسند، مادے کو ہی سچائی قرار دیتے ہیں اور مادے کو ذہن پر ترجیح دیتے ہیں۔ مثالیت پسندی کی ابتدا تو شاید قبل از سقراط قدیم یونانی فلسفیوں فیثا غورث اور پارمی نائدیس نے کی تھی لیکن اسکا پہلا جاندار مبلغ افلاطون تھا اور جرمن فلاسفر ہیگل نے اسے بامِ عروج پر پہنچا دیا۔ اس سلسلہ فکر کے چند مشہور فلاسفہ میں فلاطینوس، ڈیکارٹ، لائبنیز، ہولباخ، جارج برکلے، عمانویل کانٹ، فشٹے وغیرہم شامل ہیں۔
یہ بات تو سبھی جانتے ہیں کہ غالب کو تصوف سے خاص شغف تھا، اور وہ وحدت الوجودی تھے، جیسا کہ مولانا حالی اور دیگر شارحین و ناقدینِ غالب نے بیان فرمایا ہے، جیسے ڈاکٹر شوکت شبزواری صاحب “فلسفہ کلامِ غالب” میں اور کئی مشہور و معروف ناقدین “نقدِ غالب” میں بیان فرماتے ہیں۔ طوالت کے خوف سے اقتباسات خذف کرتا ہوں۔
دراصل وحدت الوجود اور مثالیت پسندی کا آپس میں چولی دامن کا ساتھ ہے بلکہ اگر یوں کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ مثالیت پسندی، وحدت الوجود کا حصہ ہے۔ وحدت الوجود کا فلسفہ مسلمانوں میں شام کے نسطوری عیسائیوں کے ذریعے آیا تھا جنہوں نے اسے اسکندریہ کے صوفی مثالیت پسند فلسفی فلاطینوس سے حاصل کیا تھا۔ یہی وہ فلاطینوس ہے جسکی تحریروں کو ایک زمانے تک مسلم مفکر ارسطو کی تحریریں سمجھتے رہے۔ قصہ مختصر، غالب چونکہ “وجودی” تھے لامحالہ مثالیت پسندی انکے کلام میں آگئی۔
غزل پیشِ خدمت ہے۔

شعرِ غالب
دود سودائے تُتق بست آسماں نامیدمش
دیدہ بر خوابِ پریشان زد، جہاں نامیدمش
صوفی تبسم۔ ترجمہ
خیالِ خام کا ایک دھواں سا ہمارے سر پر چھا گیا، میں نے اسکا نام آسمان رکھ دیا۔ آنکھوں نے ایک پریشان خواب دیکھا اور میں نے اسے جہان کہہ دیا۔
صوفی تبسم۔ منظوم ترجمہ
دود افسون نظر تھا، آسماں کہنا پڑا
ایک پریشاں خواب دیکھا اور جہاں کہنا پڑا
افتخار احمد عدنی
دود کا پردہ تھا جس کو آسماں کہتا تھا میں
اور اک خوابِ پریشاں کو جہاں کہتا تھا میں
پروفیسر رالف رسل
My hot sighs raised a canopy: I said, this is the sky
My eyes beheld a troubled dream: I said, this is the world

Persian poetry, Persian Poetry with Urdu translation, Farsi poetry, Farsi poetry with urdu translation, Mirza Ghalib, مرزا غالب
مرزا غالب, Mirza Ghalib
شعرِ غالب
وہم خاکے ریخت در چشمم بیاباں دیدمش
قطرہ بگداخت، بحرِ بیکراں نامیدمش
تبسم
وہم نے میری آنکھوں میں خاک ڈال دی اور وہ مجھے بیاباں بن کر نظر آئی۔ ایک قطرہ تھا جو پگھل کر رہ گیا میں نے اسے بحرِ بیکراں کا نام دیا۔
تبسم، منظوم
تھا غبارِ وہم وہ، میں نے بیاباں کہہ دیا
تھا گداز قطرہ، بحرِ بیکراں کہنا پڑا
عدنی
ایک مٹھی خاک تھی صحرا جسے سمجھا کیا
اور اک قطرے کو بحرِ بیکراں کہتا تھا میں
رسل
My fancies threw dust in my eyes: I said, this is the desert
The drop of water spread: I said, this is the boundless sea


شعرِ غالب
باد دامن زد بر آتش نو بہاراں خواندمش
داغ گشت آں شعلہ، از مستی خزاں نامیدمش
تبسم
ہوا نے آگ کو بھڑکایا میں نے اسے بہار کہہ دیا۔ اسی آگ کے شعلے جل کر جب داغ بن کر رہ گئے تو میں نے اسے خزاں کا نام دیا۔
تبسم، منظوم
آگ بھڑکائی ہوا نے، میں اسے سمجھا بہار
شعلہ بن کر داغ جب ابھرا خزاں کہنا پڑا

Persian poetry, Persian Poetry with Urdu translation, Farsi poetry, Farsi poetry with urdu translation, Sufi Tabassum, صوفی غلام مصطفیٰ تبسم
صوفی تبسم, Sufi Tabassum
عدنی
آگ بھڑکی جب ہوا سے میں یہ سمجھا ہے بہار
داغ جب شعلے ہوئے، ان کو خزاں کہتا تھا میں
رسل
I saw flames leaping in the wind: I cried out, spring is coming
They danced themselves to ashes, and I said, autumn has come


شعرِ غالب
قطرہٴ خونے گرہ گردید، دل دانستمش
موجِ زہرابے بہ طوفاں زد زباں نامیدمش
تبسم
ایک قطرہء خوں تھا بل کھا کر گرہ بن گیا اور میں نے اسے دل سمجھ لیا۔ ایک زہراب کی لہر تھی اس میں تلاطم برپا ہوا میں نے اسے زباں کہہ دیا۔
تبسم، منظوم
قطرۂ خوں کا تھا پیچ و تاب، دل جانا اسے
لہر تھی زہراب غم کی اور زباں کہنا پڑا
عدنی
قطرہء خوں کی گرہ تھی جس کو دل جانا کیا
موج تھی زہراب کی جس کو زباں کہتا تھا میں
رسل
The drop of blood became a clot: I knew it as my heart
A wave of bitter water rolled: I said, this is my speech


شعرِ غالب
غربتم نا سازگار آمد، وطن فہمیدمش
کرد تنگی حلقہء دام آشیاں نامیدمش

تبسم
پردیس مجھے راس نہ آیا ناچار میں نے اسے وطن سمجھ لیا۔ حلقہء دام تنگ نکلا میں نے اسے آشیاں کہہ دیا۔
تبسم، منظوم
ناموافق تھی بہت غربت، وطن کہتے بنی
تنگ نکلا حلقہء دام آشیاں کہنا پڑا
عدنی
جب نہ غربت راس آئی میں اسے سمجھا وطن
تنگ ہوا جب حلقہء دام آشیاں کہتا تھا میں

رسل
In exile I felt lost: I said, this country is my country
I felt the snare’s noose tightening: I said, this is my nest


شعرِ غالب
بود در پہلو بہ تمکینے کہ دل می گفتمش
رفت از شوخی بہ آئینے کہ جاں نامیدمش
تبسم
وہ ہمارے پہلو میں اس شان سے بیٹھا تھا کہ میں نے اسے دل کہا، وہ اس انداز سے اٹھ کر گیا کہ اسے جاں کہنا پڑا۔
تبسم، منظوم
اس طرح پہلو میں آ بیٹھا کہ جیسے دل تھا وہ
اس روش سے وہ گیا اٹھ کر کہ جاں کہنا پڑا
عدنی
تھا وہ جب تمکین سے پہلو میں، دل سمجھا اسے
اور شوخی سے ہوا رخصت تو جاں کہتا تھا میں

Persian poetry, Persian Poetry with Urdu translation, Farsi poetry, Farsi poetry with urdu translation, Iftikhar Ahmed Adani, افتخار احمد عدنی
افتخار احمد عدنی, Iftikhar Ahmed Adani
رسل
She sat in pride close to my side: I said, she is my heart
Capriciously she rose and left: There goes my soul


شعرِ غالب
ہر چہ از جاں کاست در مستی بہ سود افزودمش
ہرچہ با من ماند از ہستی زیاں نامیدمش
تبسم
مستی کے عالم میں جو کچھ زندگی میں کمی واقع ہوئی میں نے اسے نفع میں شمار کیا اور میری ہستی میں سے جو کچھ بچ رہا اسے نقصان سمجھ لیا۔ یعنی زندگی کے وہی لمحات تھے جو عالمِ مستی اور ذوق و شوق میں گزر گئے، بقیہ زندگی تو گویا زندگی ہی نہ تھی۔
تبسم، منظوم
کٹ گئی جو عمر مستی میں وہی تھا سودِ زیست
بچ رہا جو کچھ بھی مستی میں زیاں کہنا پڑا
عدنی
عمر جو مستی میں گزری اس کو جانا میں نے سود
ہوش میں جتنی کٹی اس کو زیاں کہتا تھا میں
رسل
All that I lost in ecstasy accrued to me as gain
All that remained of consciousness I designated loss


شعرِ غالب
تا ز من بگسست عمرے، خوشدلش پنداشتم
چو بہ من پیوست لختے، بد گماں نامیدمش
تبسم
جب تک وہ مجھ سے ایک طویل عرصے کیلیے الگ ہو کر رہا میں اسے ایک خوش ذوق انسان سمجھتا رہا۔ جب وہ تھوڑی مدت کیلیے مجھ سے آ ملا تو میں نے اسے بد گماں کا لقب دیا۔
عدنی
مہرباں سمجھا کیا جب تک رہا وہ مجھ سے دور
اور قریب آیا تو اس کو بد گماں کہتا تھا میں
رسل
For years she held aloof from me: I said, she favours me
She came close for a while: I said, she has her doubts of me


شعرِ غالب
اُو بہ فکر کشتنِ من بود، آہ از من کہ من
لاابالی خواندمش، نامہرباں نامیدمش
تبسم
وہ میرے مارنے کی فکر میں تھا۔ کتنی افسوس کی بات ہے کہ میں اسے لا ابالی کہتا رہا اور نامہرباں کے نام سے پکارتا رہا۔
عدنی
گھات میں تھا قتل کی وہ اور اسے سمجھے بغیر
لا ابالی بے خبر، نا مہرباں کہتا تھا میں
رسل
She was intent on slaying me. Alas for me, that I
Declared she was indifferent, said that she was unkind


شعرِ غالب
تانہم بروے سپاس خدمتے از خویشتن
بود صاحب خانہ امّا میہماں نامیدمش
تبسم
وہ صاحبِ خانہ تھا اور میں اسے میہماں کہتا رہا تاکہ میں اسکی کوئی خدمت کرکے اس پر کوئی احسان دھر سکوں۔
تبسم، منظوم
تھا مجھے منظور اسے مرہونِ منت دیکھنا
تھا وہ صاحب خانہ لیکن میہماں کہنا پڑا
عدنی
اپنی خدمت کا فقط احساں جتانے کیلیے
تھا وہ صاحب خانہ لیکن میہماں کہتا تھا میں
رسل
To make her feel obliged to me for all I did for her
She was my host, and yet I told myself, she is my guest


شعرِ غالب
دل زباں را راز دان آشنائی ہا نخواست
گاہ بہماں گفتمش، گاہے فلاں نامیدمش
تبسم
میرا دل نہیں چاہتا تھا کہ میری زباں محبت اور دوستی کی رازداں ہو اس لیے جب بھی محبوب کا تذکرہ آیا میں نے اسے کبھی فلاں، کبھی فلاں کہا۔
شعرِ غالب
ہم نگہ جاں می ستاند، ہم تغافل می کشد
آں دمِ شمشیر و ایں پشتِ کماں نامیدمش
تبسم
اسکا التفات بھی جاں ستاں ہے اور اسکا تغافل بھی مار ڈالتا ہے۔ اسکی توجہ تلوار کی دھار ہے اور اسکی بظاہر بے التفاتی پشتِ کمان کی طرح ہے کہ جس سے تیر نکل کر زخم لگاتا ہے۔


شعرِ غالب
در سلوک از ہر چہ پیش آمد گزشتن داشتم
کعبہ دیدم نقش پائے رہرواں نامیدمش
تبسم
راہِ سلوک میں جو کچھ راستے میں آیا اسے نظر انداز کرکے آگے نکل گیا۔ کعبے کو دیکھا تو اسے رہروانِ راہِ سلوک کا نقشِ پا کہہ دیا۔
تبسم، منظوم
یوں طریقت میں ہر اک شے سے نظر آگے پڑی
کعبے کو بھی نقش پائے رہرواں کہنا پڑا
عدنی
چھوڑ پیچھے راہِ حق میں جو نظر آیا بڑھا
کعبے کو اک نقشِ پائے رہرواں کہتا تھا میں
رسل
I journeyed on beyond each stage I set myself to cover
I saw the Kaba as the tracks of those who had gone on

Persian poetry, Persian Poetry with Urdu translation, Farsi poetry, Farsi poetry with urdu translation, Ralph Russell, رالف رسل
رالف رسل, Ralph Russell
شعرِ غالب
بر امیدِ شیوہء صبر آزمائی زیستم
تو بریدی از من و من امتحاں نامیدمش

تبسم
میں اس امید پر جیتا تھا کہ تیرا جور و ستم کا شیوہ میری طاقتِ صبر کو آزمانے کیلیے ہے، تو مجھ پر ستم ڈھاتا رہے گا اور میں زندہ رہوں گا۔ لیکن تو مجھے چھوڑ کر چلا گیا اور میں نے اس ترے چلے جانے کو امتحان قرار دیا۔
تبسم، منظوم
شیوہء صبر آزمائی پر ترے جیتا تھا میں
یوں تری فرقت کو اپنا امتحاں کہنا پڑا
عدنی
شیوہء صبر آزمائی کے سہارے میں جیا
تو ہوا مجھ سے الگ تو امتحاں کہتا تھا میں
رسل
My hopes told me, she likes to try my powers of endurance
You served all our ties: I said, she is just testing me


شعرِ غالب
بود غالب عندلیبے از گلستانِ عجم
من ز غفلت طوطیِ ہندوستاں نامیدمش
تبسم
غالب تو گلستانِ ایران کی ایک بلبل تھا، میں نے غفلت میں اسے طوطیِ ہندوستاں کہہ دیا۔
--------


بحر - بحر رمل مثمن محذوف


افاعیل - فاعِلاتُن فاعِلاتُن فاعِلاتُن فاعِلُن
(آخری رکن فاعلن میں فاعِلان بھی آ سکتا ہے)


اشاری نظام - 2212 2212 2212 212
(آخری 212 کی جگہ 1212 بھی آ سکتا ہے)


تقطیع -
دود سودائے تُتق بست آسماں نامیدمش
دیدہ بر خواب پریشان زد، جہاں نامیدمش


دود سودا - فاعلاتن - 2212
ئے تتق بس - فاعلاتن - 2212
تاسما نا - فاعلاتن - 2212 (الف وصل استعمال ہوا ہے)
میدمش - فاعلن - 212


دیدَ بر خا - فاعلاتن - 2212
بے پریشا - فاعلاتن - 2212
زد جہاں نا - فاعلاتن - 2212
میدمش - فاعلن - 212

مزید پڑھیے۔۔۔۔

Jul 3, 2008

امیر خسرو کی غزل - خَبَرَم رسید اِمشب کہ نگار خواہی آمد

امیر خسرو کی خوبصورت ترین غزلوں میں سے ایک غزل پیش کر رہا ہوں، یوں تو خسرو کا سارا کلام ہی تصوف کی چاشنی سے مملو ہے کہ آپ خود ایک صاحبِ حال صوفی تھے، لیکن کچھ غزلیں تو کمال کی ہیں اور یہ غزل بھی انہی میں سے ایک ہے۔
اس غزل کے اشعار مختلف نسخوں میں مختلف ملتے ہیں، میں نے لوک ورثہ اشاعت گھر کے شائع کردہ انتخاب کو ترجیح دی ہے۔ اس غزل کو استاد نصرت فتح علی خان نے بہت دلکش انداز میں گایا ہے۔
شعرِ خسرو
خَبَرَم رسید اِمشب کہ نگار خواہی آمد
سَرِ من فدائے راہے کہ سوار خواہی آمد
ترجمہ
مجھے خبر ملی ہے کہ اے میرے محبوب تو آج رات آئے گا، میرا سر اس راہ پر قربان جس راہ پر تو سوار ہو کر آئے گا۔
منظوم ترجمہ مسعود قریشی
ملا ہے رات یہ مژدہ کہ یار آئے گا
فدا ہُوں راہ پہ جس سے سوار آئے گا
شعرِ خسرو
ہمہ آہوانِ صحرا سرِ خود نہادہ بر کف
بہ امید آنکہ روزے بشکار خواہی آمد
ترجمہ
جنگل کے تمام ہرنوں نے اپنے سر اتار کر اپنے ہاتھوں میں رکھ لیے ہیں اس امید پر کہ کسی روز تو شکار کیلیے آئے گا۔
قریشی
غزالِ دشت، ہتھیلی پہ سر لئے ہوں گے
اس آس پر کہ تو بہرِ شکار آئے گا
Persian poetry, Persian Poetry with Urdu translation, Farsi poetry, Farsi poetry with urdu translation, Mazar Amir Khusro, مزار امیر خسرو
مزار امیر خسو, Mazar Amir Khusro
شعرِ خسرو
کَشَشے کہ عشق دارَد نہ گُزاردَت بدینساں
بجنازہ گر نیائی بہ مزار خواہی آمد
ترجمہ
عشق میں جو کشش ہے وہ تجھے اسطرح زندگی بسر کرنے نہیں دے گی، تو اگر میرے جنازے پر نہیں آیا تو مزار پر ضرور آئے گا۔
قریشی
کشش جو عشق میں ہے، بے اثر نہیں ہوگی
جنازہ پر نہ سہی، بر مزار آئے گا
شعرِ خسرو
بہ لبَم رسیدہ جانَم تو بیا کہ زندہ مانَم
پس ازاں کہ من نَمانَم بہ چہ کار خواہی آمد
ترجمہ
میری جان ہونٹوں پر آ گئی ہے، تُو آجا کہ میں زندہ رہوں۔ اسکے بعد جبکہ میں زندہ نہ رہوں گا تو پھر تو کس کام کیلیے آئے گا۔
قریشی
لبوں پہ جان ہے، تُو آئے تو رہوں زندہ
رہا نہ میں، تو مجھے کیا کہ یار آئے گا
شعرِ خسرو
بیک آمدن ربودی دل و دین و جانِ خسرو
چہ شَوَد اگر بدینساں دو سہ بار خواہی آمد
ترجمہ
تیرے ایک بار آنے نے خسرو کے دل و دین و جان سب چھین لیے ہیں، کیا ہوگا اگر تو اسی طرح دو تین بار آئے گا۔
قریشی
فدا کئے دل و دیں اک جھلک پر خسرو نے
کرے گا کیا جو تُو دو تین بار آئے گا
——–
بحر - بحر رمل مثمن مشکول
(مسعود قریشی کا منظوم ترجمہ بحر مجتث میں‌ ہے)
افاعیل - فَعِلاتُ فاعِلاتُن فَعِلاتُ فاعِلاتُن
اشاری نظام - 1211 2212 1211 2212
تقطیع -
خبرم رسید امشب کہ نگار خواہی آمد
سرِ من فدائے راہے کہ سوار خواہی آمد
خَ بَ رم رَ - فعلات - 1211
سید امشب - فاعلاتن - 2212
کِ نِ گا ر - فعلات - 1211
خا ہِ آمد - فاعلاتن - 2212
سَ رِ من فِ - فعلات - 1211
دا ء راہے - فاعلاتن - 2212
کِ سَوار - فعلات - 1211
خا ہِ آمد - فاعلاتن - 2212
مزید پڑھیے۔۔۔۔

May 28, 2008

غالب کی ایک خوبصورت فارسی غزل مع منظوم تراجم - ز من گَرَت نہ بُوَد باور انتظار بیا

غالب کی مندرجہ ذیل غزل صوفی تبسم کے پنجابی ترجمے اور غلام علی کی گائیکی کی وجہ سے شہرہ آفاق مقبولیت حاصل کر چکی ہے اور میری بھی پسندیدہ ترین غزلوں میں سے ہے۔

شعرِ غالب
ز من گَرَت نہ بُوَد باور انتظار بیا
بہانہ جوئے مباش و ستیزہ کار بیا

اردو ترجمہ خواجہ حمید یزدانی
میں تیرے انتظار میں ہوں، اگر تجھے اس کا یقین نہیں ہے تو آ اور دیکھ لے۔ اس ضمن میں بہانے مت تلاش کر، بے شک لڑنے جھگڑنے کا طور اپنا کر آ۔

منظوم ترجمہ پنجابی صوفی تبسم
میرے شوق دا نیں اعتبار تینوں، آ جا ویکھ میرا انتظار آ جا
اینویں لڑن بہانڑے لبھنا ایں، کی تو سوچنا ایں سِتمگار آ جا

منظوم اردو ترجمہ صوفی تبسم
دکھا نہ اتنا خدا را تو انتظار آ جا
نہ ہو ملاپ تو لڑنے کو ایک بار آ جا

منظوم ترجمہ چوہدری نبی احمد باجوہ
نہیں جو مانتے تم میرا انتظار آؤ
بہانہ جو نہ بنو، ہاں ستیزہ کار آؤ


منظوم ترجمہ اردو افتخار احمد عدنی
تجھے ہے وہم، نہیں مجھ کو انتظار آجا
بہانہ چھوڑ، مری جاں ستیزہ کار آجا


انگلش ترجمہ پروفیسر رالف رسل
You cannot think my life is spent in waiting? Well then, come
Seek no excuses; arm yourself for battle and then come
Persian poetry, Persian Poetry with Urdu translation, Farsi poetry, Farsi poetry with urdu translation, مرزا غالب, Mirza Ghalib
مرزا غالب, Mirza Ghalib
شعرِ غالب
بہ یک دو شیوہ ستم دل نمی شوَد خرسند
بہ مرگِ من، کہ بہ سامانِ روزگار بیا


یزدانی
میرا دل تیرے دو ایک اندازِ ستم سے خوش نہیں ہوتا، تجھے میری موت کی قسم تو اس سلسلے میں زمانے بھر کا سامان لے کر آ۔


باجوہ
ستم کی اک دو ادا سے نہیں یہ دل خورسند
بلا ہو، موت ہو، آشوبِ روزگار آؤ


عدنی
جفا میں بخل نہ کر، میرے دل کی وسعت دیکھ
ستم کی فوج لیے مثلِ روز گار آجا


رسل
These meager modes of cruelty bring me no joy. By God
Bring all the age’s armoury to use on me, and come


شعرِ غالب
بہانہ جوست در الزامِ مدّعی شوقَت
یکے بَرَغمِ دلِ نا امیدوار بیا


یزدانی
ہمارا دل تیرے عشق میں رقیب پر الزام دھرنے کے بہانے سوچتا رہتا ہے یعنی یہ کہ رقیب تجھے ہماری طرف نہیں آنے دیتا، تو کبھی یا ذرا ہمارے اس نا امید دل کی اس سوچ کے برعکس آ۔


باجوہ
تمھارے شوق کو الزامِ مدعی کا ہےعذر
کبھی بَرَغمِ دلِ نا امیدوار آؤ


شعرِ غالب
ہلاکِ شیوۂ تمکیں مخواہ مستاں را
عناں گسستہ تر از بادِ نو بہار بیا


یزدانی
تو اپنے مستوں یعنی عاشقوں کیلیے یہ مت چاہ یا پسند کر کے وہ تیرے شیوہء تمکیں (دبدبہء غرورِ حسن) کے نتیجے میں‌ ہلاک ہو جائیں، تو نو بہار کی ہوا سے بھی زیادہ تیزی کے ساتھ آ۔


باجوہ
ہلاکِ شیوۂ تمکیں نہ کیجیے مستوں کو
عناں گسستہ مرے ابرِ نو بہار آؤ


عدنی
ہلاک شیوۂ تمکیں سے کر نہ مستوں کو
حجاب چھوڑ کر اے بادِ نو بہار آجا


Persian poetry, Persian Poetry with Urdu translation, Farsi poetry, Farsi poetry with urdu translation, Sufi Ghulam Mustafa Tabassum, صوفی غلام مصطفی تبسم
صوفی غلام مصطفیٰ تبسم, Sufi Tabassum
رسل
Why seek to slay your lovers by your awesome majesty
Be even more unbridled than the breeze of spring, and come


شعرِ غالب
ز ما گسستی و با دیگراں گرو بستی
بیا کہ عہدِ وفا نیست استوار بیا


یزدانی
تو نے ہم سے تو پیمانِ وفا توڑ لیا اور دوسروں یعنی رقیبوں کے ساتھ یہ عہد باندھ لیا۔ آ، تو ہماری طرف آ کیونکہ عہدِ وفا کوئی محکم عہد نہیں‌ ہے۔


باجوہ
جو ہم سے کٹ کے بندھا غیر سے ہے عہد نیا
جہاں میں عہدِ وفا کب ہے استوار آؤ


عدنی
جو تو نے غیر سے باندھا اسے بھی توڑ صنم
ہوا ہے عہدِ وفا کب سے استوار آ جا


رسل
You broke with me, and now you pledge yourself to other men
But come, the pledge of loyalty is never kept. So come


شعرِ غالب
وداع و وصل جداگانہ لذّتے دارَد
ہزار بار بَرَو، صد ہزار بار بیا


یزدانی
فراق اور وصل دونوں میں اپنی اپنی ایک لذت ہے، تو ہزار بار جا اور لاکھ بار آ۔


تبسم پنجابی
بھانویں ہجر تے بھانویں وصال ہووئے ،وکھو وکھ دوہاں دیاں لذتاں نے
میرے سوہنیا جا ہزار واری ،آ جا پیاریا تے لکھ وار آجا


تبسم اردو
وداع و وصل میں ہیں لذّتیں جداگانہ
ہزار بار تو جا، صد ہزار بار آ جا


باجوہ
جدا جدا ہے وداع اور وصل کی لذّت
ہزار بار اگر جاؤ، لاکھ بار آؤ


عدنی
وداع و وصل ہیں دونوں کی لذّتیں اپنی
ہزار بار جدا ہو کے لاکھ بار آجا


Persian poetry, Persian Poetry with Urdu translation, Farsi poetry, Farsi poetry with urdu translation, افتخار احمد عدنی, Iftikhar Ahmed Adani
افتخار احمد عدنی, Iftikhar Ahmed Adani
رسل
Parting and meeting - each of them has its distinctive joy
Leave me a hundred times; turn back a thousand times, and come


شعرِ غالب
تو طفل سادہ دل و ہمنشیں بد آموزست
جنازہ گر نہ تواں دید بر مزار بیا


یزدانی
تو ایک بھولے بھالے بچے کی طرح ہے اور رقیب تجھے الٹی سیدھی پٹیاں پڑھا رہا ہے، سو اگر تو ہمارا جنازہ نہیں دیکھ سکا تو کم از کم ہمارے مزار پر ہی آ جا۔


تبسم پنجابی
تُو سادہ تے تیرا دل سادہ ،تینوں ایویں رقیب کُراہ پایا
جے تو میرے جنازے تے نیں آیا، راہ تکدا اے تیری مزار آ جا


تبسم اردو
تو سادہ دل ہے بہت اور رقیب بد آموز
نہ وقتِ مرگ گر آیا، سرِ مزار آ جا


باجوہ
ہو تم تو سادہ مگر ہمنشیں ہے بد آموز
جنازہ مل نہ سکے گا، سرِ مزار آؤ


شعرِ غالب
فریب خوردۂ نازَم، چہا نمی خواہَم
یکے بہ پُرسَشِ جانِ امیدوار بیا


یزدانی
میں ناز و ادا کا فریب خوردہ یعنی مارا ہوا ہوں، میں‌ کیا کیا نہیں چاہتا، یعنی میری بہت سی آرزوئیں ہیں، تو ہماری امیدوار جان کا حال احوال تو پوچھنے آ۔


باجوہ
فریب خوردہ ہوں میں ناز کا اسے چھوڑو
برائے پرسشِ جانِ امیدوار آؤ


شعرِ غالب
ز خوئے تُست نہادِ شکیب نازک تر
بیا کہ دست و دِلَم می رَوَد ز کار بیا


یزدانی
تیری نزاکت طبع کے ہاتھوں ہمارے صبر کی بنیاد بہت ہی نازک ہوگئی ہے، تو آ کہ تیرے اس رویے کے باعث میرا دست و دل بیکار ہو کر رہ گئے ہیں۔


باجوہ
تمھاری خو سے سرشتِ شکیب نازک ہے
چلا میں، صبر کا دامن ہے تار تار آؤ


شعرِ غالب
رواجِ صومعہ ہستیست، زینہار مَرَو
متاعِ میکدہ مستیست، ہوشیار بیا


یزدانی
خانقاہوں میں غرور و تکبر کا رواج ہے، دیکھیو ادھر مت جائیو، جبکہ میکدہ کی دولت و سرمایہ مستی ہے، وہاں ذرا چوکنا ہو کر آجا۔


تبسم پنجابی
ایہہ رواج اے مسجداں مندراں دا ،اوتھے ہستیاں تے خود پرستیاں نے
میخانے وِچ مستیاں ای مستیاں نے ،ہوش کر، بن کے ہوشیار آ جا


تبسم اردو
رواجِ صومعہ ہستی ہے واں نہ جا ہر گز
متاعِ میکدہ مستی ہے بے شمار آ جا


باجوہ
رواجِ صومعہ ہستی ہے مت ادھر جاؤ
متاعِ میکدہ مستی ہے، ہوشیار آؤ


عدنی
رواجِ صومعہ، ہستی ہے، اس طرف مت جا
متاعِ میکدہ مستی ہے، ہوشیار آجا


Persian poetry, Persian Poetry with Urdu translation, Farsi poetry, Farsi poetry with urdu translation, Ralph Russell, رالف رسل
رالف رسل, Ralph Russell
رسل
The mosque is all awareness. Mind you never go that way
The tavern is all ecstasy. So be aware, and come


شعر غالب
حصار عافیَتے گر ہوس کُنی غالب
چو ما بہ حلقۂ رندانِ خاکسار بیا


یزدانی
اے غالب اگر تجھے کسی عافیت کے قلعے کی خواہش ہے تو ہماری طرح رندانِ خاکسار کے حلقہ میں آ جا۔


تبسم پنجابی
سُکھیں وسنا جے تُوں چاہونا ایں میرے غالبا ایس جہان اندر
آجا رنداں دی بزم وِچ آ بہہ جا، ایتھے بیٹھ دے نے خاکسار آ جا


تبسم اردو
حصارِ امن اگر چاہیے تجھے غالب
درونِ حلقۂ رندانِ خاکسار آ جا


باجوہ
حصار امن کی خواہش ہے گر تمھیں غالب
اِدھر ہے حلقۂ رندانِ خاکسار آؤ


عدنی
حصارِ امن کی خواہش ہے گر تجھے غالب
میانِ حلقۂ رندانِ خاکسار آجا


رسل
If you desire a refuge, Ghalib, there to dwell secure
Find it within the circle of us reckless ones, and come
——–


بحر - بحرِ مجتث مثمن مخبون محذوف مقطوع


افاعیل: مَفاعِلُن فَعِلاتُن مَفاعِلُن فَعلُن
(آخری رکن فعلن میں فعلان، فَعِلُن اور فعِلان بھی آ سکتے ہیں)


اشاری نظام - 2121 2211 2121 22
(آخری رکن میں 22 کی جگہ 122، 211 اور 1211 بھی آ سکتے ہیں)


تقطیع -
ز من گرت نہ بود باور انتظار بیا
بہانہ جوئے مباش و ستیزہ کار بیا


ز من گَرَت - مفاعلن - 2121
نہ بوَد با - فعلاتن - 2211
وَ رنتظا - مفاعلن - 2121 (الف وصل استعمال ہوا ہے)
ر بیا - فَعِلن - 211


بہانَ جو - مفاعلن - 2121
ء مبا شو - فعلاتن - 2211
ستیزَ کا - مفاعلن - 2121
ر بیا - فَعِلن - 211

----


اور یہ غزل غلام علی کی آواز میں






مزید پڑھیے۔۔۔۔

May 26, 2008

امیر خسرو کی ایک غزل - ابر می بارَد و من می شَوَم از یار جدا

شعرِ خسرو
ابر می بارَد و من می شَوَم از یار جدا
چوں کنَم دل بہ چنیں روز ز دلدار جدا
ترجمہ
برسات کا موسم ہے اور میں اپنے دوست سے جدا ہو رہا ہوں، ایسے (شاندار) دن میں، میں کسطرح اپنے دل کو دلدار سے جدا کروں۔
منظوم ترجمہ مسعود قریشی
ابر روتا ہے، ہُوا مجھ سے مرا یار جدا
دل سے ایسے میں کروں کیسے مَیں دلدار جدا
شعرِ خسرو
ابر باران و من و یار ستادہ بوداع
من جدا گریہ کناں، ابر جدا، یار جدا
ترجمہ
برسات جاری ہے، میں اور میرا یار جدا ہونے کو کھڑے ہیں، میں علیحدہ گریہ و فریاد کر رہا ہوں، باراں علیحدہ برس رہی ہے، اور یار علیحدہ رو رہا ہے۔
قریشی
ابر برسے ہے، جدائی کی گھڑی ہے سر پر
میں جدا روتا ہوں اور ابر جدا، یار جدا
Persian poetry, Persian Poetry with Urdu translation, Farsi poetry, Farsi poetry with urdu translation, Mazar Amir Khusro, مزار امیر خسرو
مزار خسرو رح، دہلی انڈیا, Mazar Amir Khusro
شعرِ خسرو
سبزہ نوخیز و ہوا خرم و بستان سرسبز
بلبلِ روئے سیہ ماندہ ز گلزار جدا
ترجمہ
تازہ تازہ اگا ہوا سبزہ اور دل خوش کرنے والی ہوا اور سرسبز باغ ہے، اور ایسے میں سیاہ چہرے والی بد قسمت بلبل گلزار سے جدا ہونے کو ہے
قریشی
سبزہ نوخیز، ہوا شاد، گلستاں سرسبز
کیا قیامت ہے کہ بلبل سے ہے گلزار جدا
شعرِ خسرو
اے مرا در تہ ہر موی بہ زلفت بندے
چہ کنی بند ز بندم ہمہ یکبار جدا
ترجمہ
اے میرے محبوب تو نے مجھکو اپنی زلف کے ہر بال کی تہ کے نیچے باندھ لیا ہے، تو کیا باندھے گا جب تو مجھے یکبار ہی اس بند سے جدا کردے گا۔
شعرِ خسرو
دیدہ از بہر تو خونبار شد، اے مردم چشم
مردمی کن، مشو از دیدہء خونبار جدا
ترجمہ
اے آنکھ، میری آنکھ کی پتلی تیرے لیے پہلے ہی خونبار ہو گئی ہے، مہربانی کر اب تو ان خون بہانے والی آنکھوں سے جدا نہ ہونا۔
شعرِ خسرو
نعمتِ دیدہ نخواہم کہ بماند پس ازیں
ماندہ چون دیدہ ازان نعمتِ دیدار جدا
ترجمہ
میں نہیں چاہتا کہ اس کے بعد میری آنکھوں کی نعمت دیدار کی نعمت سے جدا رہے۔
قریشی
نعمتِ چشم ہے میرے لئے سامانِ عذاب
گر مری آنکھ سے ہو نعمتِ دیدار جدا
شعرِ خسرو
حسنِ تو دیر نپاید چو ز خسرو رفتی
گل بسے دیر نماند چو شد از خار جدا
ترجمہ
اے محبوب تیرا حسن زیادہ دیر تک قائم نہیں رہے گا، جب تو خسرو کے پاس سے چلا گیا کہ جب کوئی پھول کانٹے سے دور ہو جاتا ہے تو وہ زیادہ دیر تک نہیں رہتا۔
قریشی
ہو کے خسرو سے جدا، حسن رہے گا نہ ترا
کب بقا پھول کو ہے، اس سے ہو جب خار جدا
——–
بحر - بحرِ رمل مثمن مخبون محذوف مقطوع
افاعیل - فاعِلاتُن فَعِلاتُن فَعِلاتُن فَعلُن
(پہلے رکن فاعلاتن کی جگہ فعلاتن بھی آسکتا ہے، آخری رکن فعلن کی جگہ فعلان، فَعِلن اور فَعِلان بھی آسکتا ہے یوں آٹھ وزن اکھٹے ہو سکتے ہیں)
اشاری نظام - 2212 2211 2211 22
(پہلے 2212 کی 2211 اور آخری 22 کی جگہ 122، 211 اور 1211 بھی آ سکتا ہے)۔
تقطیع -
ابر می بارَد و من می شَوَم از یار جدا
چوں کنَم دل بہ چنیں روز ز دلدار جدا
ابر می با - فاعلاتن - 2212
رَ دَ من می - فعلاتن - 2211
شَ وَ مز یا - فعلاتن - 2211 (الف وصل استعمال ہوا ہے)
ر جدا - فَعِلن - 211
چو کنم دل - فاعلاتن - 2212
بَ چنی رو - فعلاتن - 2211
ز ز دلدا - فعلاتن - 2211
ر جدا - فَعِلن - 211
مزید پڑھیے۔۔۔۔

May 12, 2008

فارسی کلامِ غالب کے تراجم

غالب کی وجۂ شہرت انکا اردو کلام ہے، لیکن غالب کو ہمیشہ اپنے فارسی کلام پر فخر رہا اور وہ اردو کو ثانوی حیثیت ہی دیتے رہے اسی لیے کہا تھا کہ “بگزار مجموعہء اردو کے بے رنگِ من است”۔ غالب اپنے آپ کو کلاسیکی فارسی شعراء کے ہم پلہ بلکہ انسے بہتر ہی سمجھتے رہے، اور یہ بالکل بجا بھی ہے۔ غالب فارسی کلام میں سبک ہندی لڑی کے آخری تاجدار ہیں، یہ ایک علیحدہ بحث ہے کہ ایرانی سبکِ ہندی کو بالکل در خورِ اعتنا نہیں سمجھتے، لیکن سبکِ ہندی، کہ نازک خیالی اور حسنِ تعلیل جسکی بڑی خصوصیات ہیں، میں غالب کا مقام انتہائی بلند ہے۔

نوجوانی میں غالب، فارسی اور اردو دونوں میں بیدل کا تتبع کرتے تھے لیکن تائب ہوگئے، اس کے علاوہ فارسی غزل مین وہ نظیری سے بہت متاثر تھے لیکن بالآخر اپنا رنگ جما کر رہے۔ لیکن انکا فارسی کلام کبھی بھی مقبول نہیں ہوسکا، اسکی کئی ایک وجوہات مولانا حالی نے بیان کی ہیں۔ ناقدر شناسی اور فارسی سے دُوری اسکی بڑی مثالیں ہیں۔ برصغیر میں فارسی کا انحطاط تو شاید غالب کے زمانے میں ہی شروع ہو چکا تھا، لیکن آزادی تک پہنچتے پہنچتے تو فارسی شناس معدودے چند ہی رہ گئے تھے۔ اور اب تو یہ حال ہے کہ “زبان یارِ من ترکی و من ترکی نمی دانم”۔
Persian poetry, Persian Poetry with Urdu translation, Farsi poetry, Farsi poetry with urdu translation, Mirza Ghalib, مرزا غالب

کلیاتِ غالب نظمِ فارسی، پاکستان میں‌ پہلی دفعہ، شیخ مبارک علی تاجر و ناشر کتب، لاہور نے 1965 میں‌ شائع کیے، اس میں غالب کے فارسی قطعات، مخمس، ترکیب بند، ترجیع بند، مثنویات، قصائد، غزلیات، رباعیات اور تقریظ شامل ہیں۔ مکمل کلیاتِ نظمِ فارسی کا ترجمہ شاید ابھی تک شائع نہیں ہوا۔ 

غزلیات فارسی غالب کا اردو ترجمہ صوفی غلام مصطفیٰ تبسم نے کیا تھا جو کہ پکیجز لاہور نے شائع کروایا تھا اسکی بھی مجھے صرف جلد دوئم جس میں ردیف د تا ے کی غزلیں ہیں، ہی ملی، جلدِ اول بعد از تلاش بسیار نہیں مل سکی۔
ڈاکٹر خواجہ حمید یزدانی نے ایک ترجمہ “شرح کلیاتِ غالب فارسی” کے نام سے پیش کیا ہوا ہے لیکن وہ غالب کے مکمل فارسی کلام پر مشتمل نہیں ہے بلکہ غزلیاتِ غالب، رباعیات غالبِ اور چند قصیدوں کے انتخاب پر مشتمل ہے۔
ایک لا جواب کام افتخار احمد عدنی صاحب اور پروفیسر رالف رسل کا ہے۔ انتخاب فارسی غزلیاتِ غالب کے تراجم ان دونوں اصحاب کے یک جا ہیں اور لا جواب ہیں۔ عدنی صاحب نے منظوم ترجمہ کیا ہے۔ یہ کتاب پاکستان رائٹرز کوآپریٹو سوسائٹی نے، انجمنِ ترقی اردو کے تعاون سے 1999 میں‌ شائع کی۔ 


غالب کے فارسی کلام کا ایک منظوم ترجمہ چوہدری نبی احمد باجوہ نے کیا تھا جو کے 1972 میں “شش جہاتِ غالب” کے نام سے شائع ہوا، اس میں انہوں نے غالب کے فارسی منتخب کلام کا منظوم ترجمہ کیا ہے۔
غالب کی فارسی غزلیات کا ایک منظوم ترجمہ ڈاکٹر خالد حمید صاحب نے کیا ہے جسے بزمِ علم و فن پاکستان، اسلام آباد نے شائع کیا ہے۔ 


فارسی رباعیات غالب کا منظوم ترجمہ صبا اکبر آبادی مرحوم نے “ہم کلام” کے نام سے کیا تھا، اور کیا خوب کام ہے یہ۔ 1986 میں پہلی دفعہ شائع ہوا۔

مزید پڑھیے۔۔۔۔

امیر خسرو کی مشہور و معروف نعت - نمی دانَم چہ منزل بُود

درج ذیل نعت امیر خسرو کی مشہور و معروف نعت ہے لیکن ادبی محققین کے مطابق یہ انکے کسی بھی دیوان میں نہیں ملتی لیکن صدیوں سے معروف انہی کے نام سے ہے۔
شعرِ خسرو
نمی دانَم چہ منزل بُود، شب جائے کہ من بُودَم
بہ ہر سُو رقصِ بسمل بُود، شب جائے کہ من بودم
اردو ترجمہ
مجھے نہیں معلوم کہ وہ کون سی جگہ تھی جہاں کل رات میں تھا، ہر طرف وہاں رقصِ بسمل ہو رہا تھا کہ جہاں میں کل رات کو تھا۔
منطوم ترجمہ مسعود قریشی
نہیں معلوم تھی کیسی وہ منزل، شب جہاں میں تھا
ہر اک جانب بپا تھا رقصِ بسمل، شب جہاں میں تھا
Persian poetry, Persian Poetry with Urdu translation, Farsi poetry, Farsi poetry with urdu translation, Mazar Amir Khusro, مزار امیر خسرو
مزار امیر خسرو علیہ الرحمہ، دہلی ہندوستان, Mazar Amir Khusro
شعرِ خسرو
پری پیکر نگارے، سرو قدے، لالہ رخسارے
سراپا آفتِ دل بُود، شب جائے کہ من بودم
ترجمہ
پری کے جسم جیسا ایک محبوب تھا، اس کا قد سرو کی طرح تھا اور رخسار لالے کی طرح، وہ سراپا آفتِ دل تھا کل رات کہ جہاں میں تھا۔
قریشی
پری پیکر صنم تھا سرو قد، رخسار لالہ گُوں
سراپا وہ صنم تھا آفتِ دل، شب جہاں میں تھا
شعرِ خسرو
رقیباں گوش بر آواز، اُو دَر ناز، من ترساں
سخن گفتَن چہ مشکل بود، شب جائے کہ من بودم
ترجمہ
رقیب آواز پر کان دھرے ہوئے تھے، وہ ناز میں تھا اور میں خوف زدہ تھا۔ وہاں بات کرنا کس قدر مشکل تھا کل رات کہ جہاں میں تھا۔
قریشی
عدو تھے گوش بر آواز، وہ نازاں تھا، میں ترساں
سخن کرنا وہاں تھا سخت مشکل، شب جہاں میں تھا
شعرِ خسرو
خدا خود میرِ مجلس بُود اندر لا مکاں خسرو
محمد شمعِ محفل بود، شب جائے کہ من بودم
ترجمہ
اے خسرو، لا مکاں میں خدا خود میرِ مجلس تھا اور حضرت محمد اس محفل کی شمع تھے، کل رات کہ جہاں میں تھا۔
قریشی
خدا تھا میرِ مجلس لا مکاں کی بزم میں خسرو
محمد تھے وہاں پر شمعِ محفل، شب جہاں میں تھا
——–
بحر - بحر ہزج مثمن سالم
افاعیل - مَفاعِیلُن مَفاعِیلُن مَفاعِیلُن مَفاعِیلُن
اشاری نظام - 2221 2221 2221 2221
تقطیع -
نمی دانم چہ منزل بود، شب جائے کہ من بودم
بہ ہر سُو رقصِ بسمل بود، شب جائے کہ من بودم
نمی دانم - مفاعیلن - 2221
چ منزل بو - مفاعیلن - 2221
د شب جائے - مفاعیلن - 2221
کِ من بودم - مفاعیلن - 2221
بَ ہر سو رق - مفاعیلن - 2221
ص بسمل بو - مفاعیلن - 2221
د شب جائے - مفاعیلن - 2221
کِ من بودم - مفاعیلن - 2221
مزید پڑھیے۔۔۔۔