Showing posts with label انٹرویو. Show all posts
Showing posts with label انٹرویو. Show all posts

Apr 6, 2009

کرو جو بات کرنی ہے - امجد اسلام امجد کے ایک انٹرویو سے اقتباسات

امجد اسلام امجد کا ایک انٹرویو، انگریزی روزنامہ "دی نیشن" لاہور کے 29 مارچ کے سنڈے میگزین میں پڑھنے کو ملا، اس کو ڈرتے ڈرتے ہی پڑھا۔ ڈرنے کی کئی ایک وجوہات تھیں، مثلاً امجد اسلام امجد آزاد نظم کے شاعر ہیں، جیسا کہ خود انہوں نے اس انٹرویو میں کہا، اور یہ کہ ان کی نظمیں زیادہ تر "رومانوی" ہیں اور یہ کہ وہ نوجوان نسل میں انتہائی مقبول ہیں، سو میں ڈر رہا تھا کہ کہیں اس انٹرویو میں کوئی "ایسی ویسی" بات ہوئی تو خواہ مخواہ میرا خون کھولتا رہے گا، لیکن ہمت کر کے اسے پڑھنا شروع کر دیا اور جوں جوں پڑھتا گیا، امجد اسلام امجد کے خیالات میرے دل میں گھر کرتے گئے۔


امجد اسلام امجد کا کوئی انٹرویو میں نے پہلی بار پڑھا، بلکہ میں نے تو ان کی شاعری بھی زیادہ نہیں پڑھی، وجوہات اوپر لکھ آہا ہوں کہ کیوں، اور میری اور انکی شناسائی پاکستان ٹیلی ویژن کے "سپر ہٹ" ڈراموں کے حوالے سے ہوئی تھی۔ میں ان دنوں بہت چھوٹا تھا جب انکا مشہورِ زمانہ سیریل "وارث" ٹیلی کاسٹ ہوتا تھا، اور اپنے نام کو ٹی وی پر لکھا ہوا دیکھ کر خوشی سی ہوتی تھی، خیر 'وارث' کے بعد بھی کئی اچھے ڈرامے امجد اسلام امجد نے تخلیق کیے۔


انٹرویو کے جو حصے مجھے بہت اچھے لگے، ان کو لکھتا ہوں، چونکہ ان کو انگریزی سے اردو میں ترجمہ کر رہا ہوں، اور یہ بھی یقین ہے کہ انٹرویو کرنے والے واجد چودھری صاحب نے اس کا اردو سے انگریزی ترجمہ کیا ہوگا اور میں اس ترجمے کا ترجمہ کر رہا ہوں سو ہو سکتا ہے کہیں کسی بات میں کوئی فرق رہ جائے۔

Amjad Islam Amjad, امجد اسلام امجد, urdu poetry, urdu ghazal, ilm-e-arooz, taqtee
Amjad Islam Amjad, امجد اسلام امجد
ایک سوال یہ تھا "اکثر کہا جاتا ہے کہ محبت کا جذبہ اور جوش و ولولہ کسی کو اپنے خیالات کا اظہار شاعری میں کرنے پر مجبور کرتا ہے، کیا آپ کے ساتھ بھی یہی واقع ہے۔" اسکے جواب میں امجد اسلام امجد نے بہت خوبصورت بات کہی کہ "اس معاملے میں ایک سراب ہے، مسئلہ یہ ہے کہ کچھ شاعر فقط جنسِ مخالف کیلیے شاعری کرتے ہیں اور اسطرح اپنے آپ کو محدود کر لیتے ہیں، یہ تصویر کا ایک رخ ہے یعنی یہ صرف ایک رخ ہے، تصویر کی مکمل عکاسی نہیں ہے۔ محبت کا جذبہ کسی بھی انسان کو بلند کر سکتا ہے اور یہ جذبہ مختلف صورتوں میں ظاہر ہوتا ہے۔ یعنی محبت (یا رومان) شاعری کا ایک حصہ ہے، شاعری کی وجہ یا اصل نہیں ہے۔ رومانی شاعری مقبول ہے اور وہ اس وجہ سے کہ یہ آسانی سے سمجھ میں آ جاتی ہے۔ اوائلِ عمر میں شاعر کا زندگی کا تجربہ (اور مشاہدہ) بہت زیادہ وسیع نہیں ہوتا لیکن وقت کے ساتھ ساتھ اس میں اضافہ ہوتا چلا جاتا ہے۔"

ایک انتہائی اہم اور بنیادی سوال شاعری میں وزن اور اسکی مبادیات کے متعلق تھا، نہایت خوشی ہوئی مجھے امجد اسلام امجد کا نقطۂ نظر پڑھ کر کہ انہوں نے وہی بات کی جو مسلمہ ہے۔ سوال کچھ یوں تھا کہ "آج کل کے شعراء، شاعری میں توازن اور وزن کا خیال نہیں رکھتے، اور آزادنہ شاعری کرتے ہیں، کیا یہ شعری روایات کے خلاف بغاوت نہیں ہے؟ اور شاعری کی بنیادی باتوں اور وزن کا خیال رکھے بغیر جو شاعری کی جائے گی کیا اسے شاعری کہا جائے گا؟"

جیسا کہ اوپر لکھا کہ یہ ایک انتہائی اہم سوال ہے، لیکن امجد اسلام امجد کے جواب لکھنے سے پہلے میں ایک وضاحت یہ کرنا چاہتا ہوں کہ عموماً "آزاد نظم" کے متعلق کہا جاتا ہے کہ یہ شاعری کی ہر پابندی سے آزاد ہوتی ہے حالانکہ ایسا معاملہ نہیں ہے، آزاد نظم، صرف اور صرف قافیے اور ردیف سے آزاد ہوتی ہے اور اس میں بحر کے اراکین کو توڑنے کی اجازت ہوتی ہے لیکن وہ کسی نہ کسی وزن کی ضرور پابند ہوتی ہے، اور جو نظم بالکل ہی مادر پدر آزاد ہوتی ہے اس کی مثال نثری نظم ہے اور کوئی بھی شاعر اور نقاد نثری نظم کو شاعری نہیں مانتا، امجد اسلام امجد کا جواب اس لیے بھی بہت اہم ہے کہ آپ بذاتِ خود آزاد نظم کے شاعر ہیں۔ امجد اسلام امجد نے جواب دیا۔


"نظم، توازن اور شاعرانہ آھنگ کے بغیر شاعری نہیں ہے، میں ایسے لوگوں کو شاعر نہیں مانتا جو شاعری کی بنیادی باتوں کو ذہن میں نہیں رکھتے۔"


بہت دو ٹوک اور سیدھا سادھا جواب ہے اور کیا خوبصورت جواب ہے۔ ایک اور انتہائی اہم سوال غزل کے مستقبل کے متعلق تھا۔ غزل جہاں اردو شاعری کی اہم ترین صنف ہے وہیں اسکے خلاف "پروپیگنڈہ" بھی بہت کیا گیا ہے۔ جدیدیت کی حمایت اور کلاسیکی شاعری کے بغض میں کچھ نقادوں نے غزل کے متعلق بہت یاوہ گوئی کی ہے، انہیں میں ایک سلیم احمد تھے جنہوں نے غزل کو "وحشی صنفِ سخن" کا خطاب دیا تھا اور ایک ڈاکٹر وزیر آغا صاحب ہیں جو غزل کا کوئی مستقبل نہیں مانتے حالانکہ غزل صدیوں سے اردو میں رائج ہے اور آج بھی اسی جوش و جذبے کے ساتھ کہی جاتی ہے جیسے میر اور غالب کے زمانے میں کہی جاتی تھی اور کہی جاتی رہے گی کہ غزل میں جو چاشنی اور حسن ہے وہ اور کسی صنفِ سخن میں نہیں ہے۔


سوال اور جواب ملاحظہ کیجیے۔ "جدید ادب میں ہم دیکتھے ہیں کہ نظم کو غزل پر برتری حاصل ہے، کیا غزل بھی مثنوی کی طرح تاریخ کے اوراق میں گم ہو جائے گی۔" امجد اسلام امجد نے کہا۔ "ادب بنیادی طور پر دو بنیادی حصوں پر مشتمل ہے، نظم اور نثر، نظم کی دیگر اصناف ہیں جیسے مثنوی اور قصیدہ۔ موجودہ عصر میں مثنوی کی جگہ نظمِ مُعرّی (بلینک ورس) نے لے لی ہے یعنی ہیت اور موضوع میں ایک تبدیلی آ گئی، لیکن اگر غزل کی بات کی جائے تو ادب میں یہ ایک ایسی منفرد صنف ہے کہ دنیا کی صرف تین زبانوں میں پائی جاتی ہے یعنی اردو، فارسی اور عربی۔ اور ہماری زبان میں اسکی یہ انفرادیت ہے کہ ہر ایک شعر میں مختلف خیال (مکمل طور پر) بیان کیا جا سکتا ہے، لہذا غزل اردو ادب کا ہمیشہ رہنے والا اور سدا بہار حصہ ہے۔ ہر شاعر غزل سے ہی آغاز کرتا ہے۔ شاعری اور موسیقی میں اسکی چاشنی اور تغزل ہی اسکی روح ہے۔"

ایک سوال "کس قسم کی صنفِ ادب میں آپ زیادہ تر اپنے دلی جذبات کا اظہار کرتے ہیں" کہ جواب میں انہوں نے کہا۔ "اللہ نے مجھے ہر طرح کی صنف سے نوازا ہے، میں نے سبھی اصنافِ ادب میں کام کیا جیسے ڈرامہ، کالم نگاری، اور شاعری کے تراجم، لیکن مجھے نظم زیادہ پسند ہے، اور اسی کی وجہ سے میری پہچان ہے۔"


ایک اور دلچسپ اور اہم سوال موجودہ شعری رجحانات کے متعلق امجد اسلام امجد کے خیالات جاننے کے بارے میں تھا جسکے جواب میں انہوں نے کہا۔


نئے دیوانوں کو دیکھیں تو خوشی ہوتی ہے
ہم بھی ایسے ہی تھے جب آئے تھے ویرانے میں


میرے بیٹے کا عہد اس کیلیئے حقیقت ہے لیکن میرے لئے ایک خواب، اسی طرح میرا ماضی میرے لئے 'ناسٹلجیا' ہے لیکن اس کیلیے نہیں کیونکہ اس نے وہ دور نہیں گزارا۔ جدید زمانے کیلیے ان (نوجوان نسل) کے اپنے معاملات ہیں اور یہ وہ لوگ ہیں کہ ہو سکتا ہے کہ عام لوگوں کو آزادنہ طور پر چاند کا سفر کرتے دیکھیں جبکہ میرا تعلق اس عہد سے ہے جب چاند پر پہنچنا ایک خواب تھا، لہذا فرق صاف ظاہر ہے۔ آئندہ آنے والی نسلوں کیلیے انکے ہیروز بھی نئے ہونگے جو کہ ہمارے ہیروز سے مختلف ہونگے۔

آخر میں قارئین کیلیے تازہ کلام کی فرمائش پر امجد اسلام امجد نے ایک انتہائی خوبصورت نظم پڑھی جو کہ اس بلاگ کے قارئین کی بھی نذر ہے۔

کرو جو بات کرنی ہے
اگر اس آس پر بیٹھے کہ
امجد اسلام امجد
دنیا بس تمھیں سننے کی خاطر
گوش بر آواز ہو کر بیٹھ جائے گی
تو ایسا ہو نہیں سکتا
زمانہ، ایک لوگوں سے بھرا فُٹ پاتھ ہے
جس پر کسی کو ایک لمحے کے لیے رکنا
نہیں ملتا
بٹھاؤ لاکھ تم پہرے
تماشا گاہِ عالم سے
گزرتی جائے گی خلقت
بنا دیکھے، بنا ٹھہرے
کرو جو بات کرنی ہے
مزید پڑھیے۔۔۔۔

May 23, 2008

پاکستان سپیکٹیٹر پر میرا انٹرویو

دی پاکستان سپیکٹیٹر کی محترمہ غزالہ خان نے کچھ دن پہلے یہاں میرے انٹرویو کی بات کی تھی، میں نے انہیں لکھا کہ میں تو بلاگنگ کی دنیا میں بالکل نووارد ہوں اور ابھی چند دن ہی ہوئے ہیں بلاگ لکھتے ہوئے، اسلیئے ایک دفعہ پھر دیکھ لیجیئے کہ میں انٹرویو کے قابل ہوں بھی یا نہیں۔
بہرحال انہوں نے سوالات مجھے بھیج دیئے جن کے جواب میں نے بھی لکھ بھیجے، اور کل یہ انٹرویو چھپ گیا، جسے اس ربط پر پڑھا جا سکتا ہے۔
مزید پڑھیے۔۔۔۔