Showing posts with label نعت. Show all posts
Showing posts with label نعت. Show all posts

Feb 6, 2013

شیخ غلام قادر گرامی کی نعتیہ رباعیات مع اردو ترجمہ

پچھلی صدی کے مشہور فارسی شاعری شیخ غلام قادر گرامی کی کچھ نعتیہ رباعیات

آں ختمِ رُسل شاہِ عرب ماہِ عجم
آں موجِ نخست است ز دریائے قِدم
در تابشِ آفتابِ محشر چہ غم است
دستِ من و دامنِ رسولِ اکرم

وہ ختمِ رُسل کے جو شاہِ عرب اور ماہِ عجم ہیں۔ وہ جو قدامت کے دریا کی پہلی موج ہیں۔ ہمیں محشر کے آفتاب کی گرمی کا کیا غم کہ محشر میں ہم نے اپنے ہاتھ سے دامنِ رسولِ اکرم ص تھاما ہوگا۔
---

گویم ز مسیحا و محمد سخنے
ثانی دگرست نقسِ اوّل دگرست
نسبت در ماہ و مہر من میدانم
کامل دگرست فردِ کامل دگرست

میں مسیح ع اور محمد ص سے کچھ عرض کرنے کی جسارت کرتا ہوں اور کہتا ہوں کہ دوسرا یعنی مسیح ع کچھ اور ہیں اور اس کائنات کے پہلے نقش یعنی حضورِ اکرم ص کچھ اور ہیں۔ میں چاند، جو محدود روشنی کا حامل ہوتا ہے، اور سورج کہ جسکی ضیا پاشیوں سے سارا جہاں چمکتا ہے، کی نسبت اور فرق کو بخوبی جانتا ہوں کہ کامل ہونا یعنی بتدریج مکمل ہونا کچھ اور چیز ہے اور سراسر اور مکمل ترین اور ہر طرح سے اکمل ہونا کچھ اور ہے۔
----

خاور چکد از شبم بایں تیرہ شبی
کوثر چکد از لبم بایں تشنہ لبی
اے دوست ادب کہ در حریمِ دلِ ماست
شاہنشہِ انبیا رسولِ عربی

میری راتوں میں اس تمام تیرگی کے باوجود سورج چمکتے ہیں۔ میری اس تشنہ لبی کے باوجود میرے ہونٹوں سے کوثر کے قطرے ٹپکتے ہیں۔ اے دوست ادب کہ ہمارے دل کے حریم میں شاہنشاہِ انبیا رسولِ عربی ص بستے ہیں۔
----

پیغمبرِ ما کہ انبیا راست امام
جبریل آوردش از خداوند پیام
بودش برحِکمِ فطرت انجام آغاز
در دائرہِ نبوّت آغاز انجام

ہمارے پیغمر ص کہ جو تمام انبیا کے امام ہیں اور جبریلِ امین انکے پاس خدا کا پیغام لائے۔ آپ ص کا انجام اور آغاز دونوں فطرت کی حکمتوں پر مبنی تھے، گویا آپ دائرہ نبوت کا ایک ایسا مقام ہیں کہ جہاں سے آغاز بھی ہوتا ہے اور اختتام بھی۔
----
Rubaiyat, Rubai, persian poetry with urdu translation, farsi poetry with urdu translation, Sheikh Ghulam Qadir Grami, ،رباعیات شیخ غلام قادر گرامی  مع اردو ترجمہ،  فارسی شاعری مع اردو ترجمہ، رباعی، نعت
شیخ غلام قادر گرامی, Sheikh Ghulam Qadir Grami

فاراں دگرست کوہِ سینا دگرست
موسیٰ دگر و مثیلِ موسیٰ دگرست
در موسیٰ و مصطفیٰ چہ رمزیست غریب
ساحل دگرست، عینِ دریا دگرست

کوہِ فاران کچھ اور چیز ہے اور کوہِ سینا کچھ اور، مُوسیٰ ع کچھ اور ہیں اور مثیلِ مُوسیٰ ص کچھ اور۔ مُوسیٰ ع اور مصطفیٰ ص کے درمیان کیا ہی منفرد رمز ہے کہ ساحل کچھ اور چیز ہے یعنی مُوسیٰ اور عین دریا کچھ اور یعنی حضورِ اکرم ص۔
----

اے ختمِ رُسل جانِ جہاں فارقلیط
خوانند ترا بر آسماں فارقلیط
می گفت مسیح در بشاراتِ جلیل
من میروم آید بجہاں فارقلیط

اے آخری رسول ص، زمانے کی جان فارقلیط۔ آپ ص کو آسمانوں پر فارقلیط کہا جاتا ہے۔ مسیح ع نے اپنی عظیم و جلیل بشارات میں کہا کہ میں جا رہا ہوں اور اب دنیا میں فارقلیط ص آتے ہیں۔
----

ما را در سینہ داغِ ماہِ عرب ست
بر ما نظرش بے سببی ہا سبب ست
رمزیست نگفتنی بگویم اے دوست
میم است کہ پردہ دارِ عینِ عرب ست

ہمارے سینے میں ماہِ عرب یعنی رسولِ اکرم ص کا ہی عشق اور سوز ہے۔ ہمارے حال پر انکی نظر ہے سو تمام بے سر و سامانی کے باوجود یہی انکی نظرِ کرم ہی سارے سبب ہیں۔ اے دوست میں تجھ سے ایک ناگفتنی رمز کہتا ہوں کہ میم عرب کے عین کی پردہ دار ہے۔ آخری مصرعے میں وحدت الوجودی صوفیا کا عقیدہ بیان ہوا ہے۔
----
مزید پڑھیے۔۔۔۔

May 31, 2009

ایک نعت کے کچھ اشعار اور انکی تقطیع

محمد افضل صاحب (میرا پاکستان) نے خاکسار کی ایک پوسٹ پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا تھا کہ امام احمد رضا بریلوی علیہ الرحمہ کی مشہور و معروف نعت کے کچھ اشعار کی تقطیع لکھوں، سو لکھ رہا ہوں۔ پہلے اس وجہ سے نہیں لکھی تھی کہ اس وقت میں چاہ رہا تھا کہ پہلے علمِ عروض پر کچھ ضروری باتیں لکھ دوں تا کہ تقطیع کو پڑھتے ہوئے اس بلاگ کے قارئین اسے سمجھ بھی سکیں۔ اور اب جب کہ علمِ عروض اور تقطیع پر کچھ بنیادی باتیں لکھ چکا ہوں سو امید کرتا ہوں کہ وہ قارئین جو ان تحاریر کو 'فالو' کر رہے ہیں ان کو اس تقطیع کے سمجھنے میں کچھ آسانی ضرور ہوگی۔
تقطیع لکھنے سے پہلے کچھ بات اس بحر کی جس میں یہ خوبصورت سلام ہے۔ اس بحر کا نام 'بحرِ مُتَدارِک' ہے اور یہ ایک مفرد بحر ہے۔ مفرد بحریں وہ ہوتی ہیں جن کے وزن میں ایک ہی رکن کی تکرار ہوتی ہیں جب کہ مرکب بحروں کے وزن میں مختلف ارکان ہوتے ہیں۔ بحروں کے ارکان پر تفصیلی بحث ایک علیحدہ پوسٹ کی مقتضی ہے سو بعد میں، فی الحال اتنا کہ جیسے اس سے پہلے ہم دیکھ چکے ہیں کہ بحرِ ہزج میں 'مفاعیلن' چار بار آتا ہے یعنی مفاعیلن رکن ہے بحرِ ہزج کا اور بحرِ ہزج بھی ایک مفرد بحر ہے۔
اسی طرح ہماری آج کی مذکورہ بحر، بحرِ متدارک کا رکن 'فاعِلُن' ہے اور ایک مصرعے میں چار بار آتا ہے۔ فاعلن کو ذرا غور سے دیکھتے ہیں یعنی فا عِ لُن یعنی ایک ہجائے بلند، ایک ہجائے کوتاہ اور ایک ہجائے بلند یعنی 2 1 2 فاعلن کی علامتیں ہیں اور اس بحر کے ایک مصرعے کا وزن ہوگا۔

فاعِلُن فاعِلُن فاعِلُن فاعِلُن
212 212 212 212

اس بحر بلکہ عموماً ہر بحر کے آخری رکن میں تھوڑی سی تبدیلی کی اجازت ماہرین نے دے رکھی ہے اور وہ یہ کہ بحر کے آخری رکن یعنی یہاں پر آخری فاعلن یا آخری 212 کے آخر میں ایک ہجائے کوتاہ کی اضافے کی اجازت ہے یعنی آخری رکن 212 ہے تو اس پر ایک ہجائے کوتاہ بڑھایا تو یہ 1212 ہو گیا اور رکن فاعِلان ہو گیا یعنی فا2، ع1، لا2، ن1 یوں ایک شعر کے دونوں مصرعوں میں یہ وزن اگر اکھٹے جمع کر دیئے جائیں تو جائز ہے۔
فاعِلُن فاعِلُن فاعِلُن فاعِلُن
212 212 212 212
اور
فاعِلُن فاعِلُن فاعِلُن فاعِلان
212 212 212 1212
اس عمل یعنی آخری رکن پر ایک ہجائے کوتاہ کے بڑھانے کے عمل کو 'تسبیغ' کہا جاتا ہے اور ابھی اس نعت بلکہ عربی، فارسی، اردو شاعری میں ہر جگہ آپ دیکھیں گے کہ عملِ تسبیغ ایک ایسا عمل یا رعایت ہے جس کے بغیر کسی شاعر کی شاعری مکمل نہیں ہوتی۔ منطق اس رعایت کی یہ ہے کہ ماہرین کے مطابق اس عمل سے وزن پر کوئی فرق نہیں پڑھتا لیکن شاعروں کو بہت فائدہ ہو جاتا ہے کہ اپنی مرضی کا لفظ آسانی سے لا سکتے ہیں، پھر واضح کر دوں کہ تسبیغ کا عمل کسی بھی بحر کے صرف اور صرف آخری رکن میں جائز ہے اور شروع یا درمیانی اراکین پر یہ جائز نہیں ہے فقط ایک استثنا کے ساتھ کہ 'مقطع' بحروں کے درمیان بھی اسکی اجازت ہوتی ہے لیکن ان بحروں پر تفصیلی بحث پھر کسی وقت انشاءاللہ۔
اب ہم تقطیع دیکھتے ہیں۔
مُصطفیٰ جانِ رحمت پہ لاکھوں سلام
شمعِ بزمِ ہدایت پہ لاکھوں سلام
مُص طَ فا - 212 - فاعلن
جا نِ رح - 212- فاعلن
مَت پہ لا - 212 - فاعلن
کو سَ لا م - 1212 - فاعلان (عملِ تسبیغ نوٹ کریں، اور یہ بھی کہ لاکھوں کے کھوں کو عروضی متن میں صرف 'کو' لکھا ہے وجہ یہ کہ نون غنہ اور دو چشمی ھ، دونوں کا عروض میں کوئی وزن نہیں ہوتا اور یہ ایک اصول ہے۔)
شَم عِ بز - 212 - فاعلن
مے ہِ دا - 212 - فاعلن (اشباع کا عمل نوٹ کریں یعنی شاعر نے بزمِ کی میم کے نیچے جو اضافت زیر ہے اس کو کھینچ کر 'مے' یعنی ہجائے بلند بنایا ہے کیونکہ بحر کے مطابق یہاں ہجائے بلند یا 2 کی ضرورت تھی)۔
یَت پہ لا - 212 - فاعلن
کو سَ لا م - 1212 - فاعلان (وہی وضاحت ہے جو اوپر گزری)۔
شہر یارِ ارَم، تاجدارِ حرَم
نو بہارِ شفاعت پہ لاکھوں سلام
شہ ر یا - 212 - فاعلن (شہر کا صحیح تلفظ ہ ساکن کے ساتھ ہے، اکثر لوگ اس کا غلط تلفظ شہَر کرتے ہیں)۔
رے اِ رَم - 212 - فاعلن (اشباع نوٹ کریں)۔
تا ج دا - 212 - فاعلن
رے حَ رَم - 212 - فاعلن (رے میں پھر اشباع نوٹ کریں)۔
نو بَ ہا - 212 - فاعلن
رے شِ فا - 212 - فاعلن (رے میں عملِ اشباع)۔
عت پہ لا - 212 - فاعلن
کو سَ لا م - 1212 - فاعلان (وہی وضاحت ہے جو اوپر گزری)۔
جس کے سجدے کو محرابِ کعبہ جھکی
ان بھؤں کی لطافت پہ لاکھوں سلام
جس کِ سج - 212 - فاعلن (اخفا کا عمل نوٹ کریں یعنی کے کی ی شاعر نے گرا دی ہے کہ یہاں پر بحر کے مطابق اسے ہجائے کوتاہ کی ضرورت تھی)۔
دے کُ مح - 212 - فاعلن (اخفا کا عمل نوٹ کریں)۔
را بِ کع - 212 - فاعلن
بہ جُ کی - 212 - فاعلن
ان بَ ؤ - 212 - فاعلن (دو چشمی ھ کا کوئی وزن نہیں اور ؤ کو ہجائے بلند یا ہجائے کوتاہ سمجھنا شاعر کی صوابدید ہے یہاں شاعر نے اسے ہجائے بلند باندھا ہے کہ بحر کا یہی تقاضہ تھا)۔
کی لِ طا - 212 - فاعلن
فَت پہ لا - 212 - فاعلن
کو سَ لا م - 1212 - فاعلان
وہ دہن جس کی ہر بات وحیِ خدا
چشمۂ علم و حکمت پہ لاکھوں سلام
وہ دَ ہن - 212 - فاعلن
جس کِ ہر - 212 - فاعلن (کی میں اخفا کا عمل)۔
با ت وح - 212 - فاعلن
یے خُ دا - 212 - فاعلن (عمل اشباع)۔
چش مَ اے - 212 - فاعلن (ہمزۂ اضافت کو اے تلفظ کر کے ایک ہجائے بلند بنایا ہے کہ بحر میں اسی کی ضرورت تھی)۔
عل م حک - 212 - فاعلن (علم و حکمت کی جو اضافت واؤ ہے شاعر نے اسکا کوئی وزن نہیں لیا اور یہ شاعر کی صوابدید ہے)۔
مَت پہ لا - 212 - فاعلن
کو سَ لا م - 1212 - فاعلان
وہ زباں جس کو سب کُن کی کنجی کہیں
اس کی نافذ حکومت پہ لاکھوں سلام
وہ ز با - 212 - فاعلن (نوٹ کریں کہ زبان کی جگہ شاعر نے زباں یعنی نون غنہ استعمال کیا ہے وجہ یہ کہ نون غنہ کا کوئی وزن نہیں ہوتا اگر یہاں زبان نون معلنہ کے ساتھ ہوتا تو وزن بگڑ جاتا)۔
جس کُ سب - 212 - فاعلن (کو میں عملِ اخفا)۔
کُن کِ کُن - 212 - فاعلن (کی میں عملِ اخفا)۔
جی کَ ہے - 212 - فاعلن
اُس کِ نا - 212 - فاعلن (کی میں عملِ اخفا)۔
فذ حَ کو - 212 - فاعلن
مَت پہ لا - 212 - فاعلن
کو سَ لا م - 1212 - فاعلان
کُل جہاں ملک اور جو کی روٹی غذا
اس شکم کی قناعت پہ لاکھوں سلام
کُل جَ ہا - 212 - فاعلن (کیا آپ بتا سکتے ہیں کہ شاعر نے جہان کی جگہ جہاں کیوں استعمال کیا ہے)۔
مل ک ار - 212 - فاعلن (اور کو ایک ہجائے بلند کے برابر یعنی ار یا 2 بنا لینا شاعر کی صوابدید ہے)۔
جو کِ رو - 212 - فاعلن (کیا آپ بتا سکتے ہیں کہ کس لفظ پر اخفا استعمال ہوا ہے اور کیوں)۔
ٹی غَ ذا - 212 - فاعلن
اس شِ کم - 212 - فاعلن
کی قَ نا - 212 - فاعلن
عَت پہ لا - 212 - فاعلن
کو سَ لا م - 1212 - فاعلان
سیّدہ ، زاہرہ ، طیّبہ ، طاہرہ
جانِ احمد کی راحت پہ لاکھوں سلام
سی یَ دہ - 212 - فاعلن (تشدید والا حرف دو بار بولا جاتا ہے سو تقطیع میں جس حرف پر تشدید ہوتی ہے اس کو دو بار لکھا جاتا ہے یعنی اسکا وزن ہوتا ہے جیسے یہاں ی پر تشدید ہے اور اسی سے وزن پورا ہوا ہے)۔
زا ہ را - 212 - فاعلن
طی یَ بہ - 212 - فاعلن (تشدید پھر نوٹ کریں)۔
طا ہ رہ - 212 - فاعلن
جا نِ اح - 212 - فاعلن
مد کِ را - 212 - فاعلن (اخفا)۔
حَت پہ لا - 212 - فاعلن
کو سَ لا م - 1212 - فاعلان

اس خوبصورت نعت کے کچھ اشعار کی تقطیع کے دوران ہم نے کئی چیزیں دیکھیں، سب سے پہلے تو یہی کہ بحر مُتَدارِک ایک مفرد بحر ہے جس میں رکن فاعِلُن کی تکرار ہے، پھر یہ کہ عملِ تسبیغ شاعری کا ایک لازمی جز ہے اور اخفا اور اشباع کا بھی اعادہ ہوا کہ ان کے بغیر بھی شاعری مکمل نہیں ہوتی۔
کسی وضاحت کی صورت میں ضرور لکھیئے گا۔

مزید پڑھیے۔۔۔۔

Nov 20, 2008

فیض مرحوم کی برسی اور انکی خوبصورت فارسی نعت مع ترجمہ

آج فیض احمد فیض مرحوم کی چوبیسویں برسی ہے، آج کے دن اقلیمِ سخن کا ایک اور فرمانروا ہم سے بچھڑ گیا۔
ع - خاک میں، کیا صُورتیں ہوںگی کہ پنہاں ہو گئیں
Persian poetry, Persian Poetry with Urdu translation, Farsi poetry, Farsi poetry with urdu translation,Faiz Ahmed Faiz, فیض احمد فیض
Faiz Ahmed Faiz, فیض احمد فیض
ہمارا شہر سیالکوٹ اگر شہرِ اقبال کہلاتا ہے تو یہ شہر فیض کے فیض سے بھی فیضیاب ہے کہ شہرِ فیض بھی ہے گویا کہ ایک اور “سودائی” کا شہر۔ اقبال اور فیض میں سیالکوٹ کے علاوہ شمس العلماء مولوی سید میر حسن کا ذکر بھی قدرِ مشترک کے طور پر کیا جاتا ہے کہ آپ دونوں کے استاد تھے لیکن ایک اور بہت اہم قدرِ مشترک جس کا ذکر عموماً نہیں کیا جاتا وہ پروفیسر یوسف سلیم چشتی ہیں۔ پروفیسر صاحب اقبال کے سب سے بڑے شارح و مفسر اور ایک طرح سے دوست شاگرد تھے کہ اقبال کے کلام کے مطالب خود اقبال سے مدتوں تک سمجھے اور فیض کے وہ استاد تھے بلکہ اگر یوں کہا جائے کہ پروفیسر چشتی نے اردو دنیا کو فیض کا فیض عطا کیا تو غلط نہ ہوگا۔ فیض احمد فیض خود فرماتے ہیں۔
“جب دسویں جماعت میں پہنچے تو ہم نے بھی تک بندی شروع کر دی اور ایک دو مشاعروں میں شعر پڑھ دیے۔ منشی سراج دین نے ہم سے کہا میاں ٹھیک ہے تم بہت تلاش سے شعر کہتے ہو مگر یہ کام چھوڑ دو، ابھی تو تم پڑھو لکھو اور جب تمھارے دل و دماغ میں پختگی آ جائے تب یہ کام کرنا۔ اس وقت یہ تضیعِ اوقات ہے۔ ہم نے شعر کہنا ترک کر دیا۔ جب ہم مَرے کالج سیالکوٹ میں داخل ہوئے اور وہاں پروفیسر یوسف سلیم چشتی اردو پڑھانے آئے جو اقبال کے مفسر بھی ہیں، تو انہوں نے مشاعرے کی طرح ڈالی اور کہا طرح پر شعر کہو۔ ہم نے کچھ شعر کہے اور ہمیں داد ملی۔ چشتی صاحب نے منشی سراج الدین کے بالکل خلاف مشورہ دیا اور کہا فوراً اس طرف توجہ کرو، شاید تم کسی دن شاعر ہو جاؤ۔”
فیض کے کلیات “نسخہ ھائے وفا” میں شامل آخری کتاب “غبار ایام ” کا اختتام فیض کی ایک خوبصورت فارسی نعت پر ہوتا ہے اور شاید کلیات میں یہ واحد نعت ہے۔ بہت دنوں سے ذہن میں تھا کہ اس نعت کو لکھوں اور آج فیض کی برسی کے موقعے پر اس خوبصورت نعت کر مع ترجمہ پوسٹ کرنے کی سعادت حاصل کر رہا ہوں۔
اے تو کہ ہست ہر دلِ محزوں سرائے تو
آوردہ ام سرائے دِگر از برائے تو
اے کہ آپ (ص) کا ہر دکھی دل میں ٹھکانہ ہے، میں نے بھی آپ کے لیے ایک اور سرائے بنائی ہے یعنی کہ میرے دکھی دل میں بھی آپ کا گھر ہو جائے۔
خواجہ بہ تخت بندۂ تشویشِ مُلک و مال
بر خاک رشکِ خسروِ دوراں گدائے تو
تخت پر بیٹھا ہوا شاہ ملک و مال کی تشویش میں مبتلا ہے، جبکہ خاک پر بیٹھا ہوا آپ کا گدا وقت کے شاہنشاہ کے لیے بھی باعثِ رشک ہوتا ہے۔
آنجا قصیدہ خوانیِ لذّاتِ سیم و زر
اینجا فقط حدیثِ نشاطِ لِقائے تو
وہاں (دنیا داروں کے ہاں) سونے اور چاندی کی لذات کے قصیدے ہیں جب کہ یہاں (ہم خاکساروں کے ہاں) فقط آپ کے دیدار کے نشاط کی باتیں ہیں۔
آتش فشاں ز قہر و ملامت زبانِ شیخ
از اشک تر ز دردِ غریباں ردائے تو
شیخ ( اور واعظ) کی زبان قہر اور ملامت سے آتش فشاں بنی ہوئی ہے جبکہ غریبوں کے درد کی وجہ سے آپ کی چادر مبارک آپ کے آنسو سے تر ہے۔
باید کہ ظالمانِ جہاں را صدا کُنَد
روزے بسُوئے عدل و عنایت صدائے تو
ضروری ہے کہ دنیا کے ظالم (جوابی) صدا کریں، ایک (کسی) دن عدل و عنایت کی طرف (لے جانے والی) آپ کی آواز پر یعنی آپ کی عدل و عنایت کی طرف بلانے والی آواز پر ظالموں کو لبیک کہنا ہی پڑے گا۔
مزید پڑھیے۔۔۔۔

May 12, 2008

امیر خسرو کی مشہور و معروف نعت - نمی دانَم چہ منزل بُود

درج ذیل نعت امیر خسرو کی مشہور و معروف نعت ہے لیکن ادبی محققین کے مطابق یہ انکے کسی بھی دیوان میں نہیں ملتی لیکن صدیوں سے معروف انہی کے نام سے ہے۔
شعرِ خسرو
نمی دانَم چہ منزل بُود، شب جائے کہ من بُودَم
بہ ہر سُو رقصِ بسمل بُود، شب جائے کہ من بودم
اردو ترجمہ
مجھے نہیں معلوم کہ وہ کون سی جگہ تھی جہاں کل رات میں تھا، ہر طرف وہاں رقصِ بسمل ہو رہا تھا کہ جہاں میں کل رات کو تھا۔
منطوم ترجمہ مسعود قریشی
نہیں معلوم تھی کیسی وہ منزل، شب جہاں میں تھا
ہر اک جانب بپا تھا رقصِ بسمل، شب جہاں میں تھا
Persian poetry, Persian Poetry with Urdu translation, Farsi poetry, Farsi poetry with urdu translation, Mazar Amir Khusro, مزار امیر خسرو
مزار امیر خسرو علیہ الرحمہ، دہلی ہندوستان, Mazar Amir Khusro
شعرِ خسرو
پری پیکر نگارے، سرو قدے، لالہ رخسارے
سراپا آفتِ دل بُود، شب جائے کہ من بودم
ترجمہ
پری کے جسم جیسا ایک محبوب تھا، اس کا قد سرو کی طرح تھا اور رخسار لالے کی طرح، وہ سراپا آفتِ دل تھا کل رات کہ جہاں میں تھا۔
قریشی
پری پیکر صنم تھا سرو قد، رخسار لالہ گُوں
سراپا وہ صنم تھا آفتِ دل، شب جہاں میں تھا
شعرِ خسرو
رقیباں گوش بر آواز، اُو دَر ناز، من ترساں
سخن گفتَن چہ مشکل بود، شب جائے کہ من بودم
ترجمہ
رقیب آواز پر کان دھرے ہوئے تھے، وہ ناز میں تھا اور میں خوف زدہ تھا۔ وہاں بات کرنا کس قدر مشکل تھا کل رات کہ جہاں میں تھا۔
قریشی
عدو تھے گوش بر آواز، وہ نازاں تھا، میں ترساں
سخن کرنا وہاں تھا سخت مشکل، شب جہاں میں تھا
شعرِ خسرو
خدا خود میرِ مجلس بُود اندر لا مکاں خسرو
محمد شمعِ محفل بود، شب جائے کہ من بودم
ترجمہ
اے خسرو، لا مکاں میں خدا خود میرِ مجلس تھا اور حضرت محمد اس محفل کی شمع تھے، کل رات کہ جہاں میں تھا۔
قریشی
خدا تھا میرِ مجلس لا مکاں کی بزم میں خسرو
محمد تھے وہاں پر شمعِ محفل، شب جہاں میں تھا
——–
بحر - بحر ہزج مثمن سالم
افاعیل - مَفاعِیلُن مَفاعِیلُن مَفاعِیلُن مَفاعِیلُن
اشاری نظام - 2221 2221 2221 2221
تقطیع -
نمی دانم چہ منزل بود، شب جائے کہ من بودم
بہ ہر سُو رقصِ بسمل بود، شب جائے کہ من بودم
نمی دانم - مفاعیلن - 2221
چ منزل بو - مفاعیلن - 2221
د شب جائے - مفاعیلن - 2221
کِ من بودم - مفاعیلن - 2221
بَ ہر سو رق - مفاعیلن - 2221
ص بسمل بو - مفاعیلن - 2221
د شب جائے - مفاعیلن - 2221
کِ من بودم - مفاعیلن - 2221
مزید پڑھیے۔۔۔۔