Showing posts with label مومن خان مومن. Show all posts
Showing posts with label مومن خان مومن. Show all posts

Oct 2, 2012

ہر غنچہ لب سے عشق کا اظہار ہے غَلَط - مومن خان مومن

ہر غنچہ لب سے عشق کا اظہار ہے غَلَط
اس مبحثِ صحيح کی تکرار ہے غَلَط

کہنا پڑا درست کہ اتنا رہے لحاظ
ہر چند وصلِ غير کا انکار ہے غلط

کرتے ہيں مجھ سے دعویِ الفت، وہ کيا کريں
کيونکر کہيں مقولہٴ اغيار ہے غلط

يہ گرم جوشياں تری گو دل سے ہوں ولے
تاثیرِ نالہ ہائے شرر بار ہے غلط

کرتے ہو مجھ سے راز کی باتیں تم اس طرح
گويا کہ قولِ محرمِ اسرار ہے غلط
Momin Khan Momin, مومن خان مومن، Ilm-e-Arooz, Ilm-e-Urooz, Urdu Poetry, Urdu Shairy, Urdu Ghazl, Taqtee, Behr, علم عروض، تقطیع، اردو شاعری، اردو غزل
Momin Khan Momin, مومن خان مومن

اٹھ جا کہاں تلک کوئی باتيں اٹھائے گا
ناصح تو خود غلط تری گفتار ہے غلط

سچ تو يہ ہے کہ اس بُتِ کافر کے دور ميں
لاف و گزافِ مومنِ ديندار ہے غلط

----

قافیہ - آر یعنی الف اور رے ساکن اور ان سے پہلے زبر کی آواز جیسے اظہار میں ہار، تکرار میں رار، انکار میں کار، شرر بار میں بار وغیرہ۔

ردیف - ہے غلط

بحر - بحر مضارع مثمن اخرب مکفوف محذوف

 افاعیل: مَفعُولُ فاعِلاتُ مَفاعِیلُ فاعِلُن
آخری رکن میں‌ فاعلن کی جگہ فاعلان بھی آسکتا ہے، جیسے اس غزل کے دوسرے شعر کے پہلے مصرعے میں لفظ لحاظ آیا ہے اور الفاظ "رہے لحاظ" میں ٹکڑا "ہے لحاظ" فاعلان پر تقطیع ہوگا۔

علامتی نظام - 122 / 1212 / 1221 / 212
ہندسوں کو اردو کی طرز پر دائیں سے بائیں پڑھیے۔ یعنی 122 پہلے ہے اور اس میں بھی 22 پہلے ہے۔
(آخری رکن میں‌ 212 کی جگہ 1212 بھی آ سکتا ہے)

 تقطیع -

ہر غنچہ لب سے عشق کا اظہار ہے غلط
اس مبحثِ صحيح کی تکرار ہے غلط

ہر غنچَ - مفعول - 122
لب سِ عشق - فاعلات - 1212
کَ اظہار - مفاعیل - 1221
ہے غلط - فاعلن - 212

اس مبحَ - مفعول - 122
ثے صحیح - فاعلات - 1212
کِ تکرار - مفاعیل - 1221
ہے غلط - فاعلن - 212
----
مزید پڑھیے۔۔۔۔

Oct 31, 2008

حکیم مومن خان مومن کی ایک خوبصورت غزل - ناوک انداز جدھر دیدۂ جاناں ہوں گے

ناوک انداز جدھر دیدۂ جاناں ہوں گے
نیم بسمل کئی ہوں گے، کئی بے جاں ہوں گے

تابِ نظّارہ نہیں، آئینہ کیا دیکھنے دوں
اور بن جائیں گے تصویر، جو حیراں ہوں گے

تو کہاں جائے گی، کچھ اپنا ٹھکانا کر لے
ہم تو کل خوابِ عدم میں شبِ ہجراں ہوں گے

ایک ہم ہیں کہ ہوئے ایسے پشیمان کہ بس
ایک وہ ہیں کہ جنھیں چاہ کے ارماں ہوں گے

ہم نکالیں گے سن اے موجِ ہوا، بل تیرا
اس کی زلفوں کے اگر بال پریشاں ہوں گے
مومن خان مومن, Momin Khan Momin, urdu poetry, urdu ghazal, ilm-e-arooz, taqtee
مومن خان مومن
منّتِ حضرتِ عیسٰی نہ اٹھائیں گے کبھی
زندگی کے لیے شرمندۂ احساں ہوں گے؟

چاکِ پردہ سے یہ غمزے ہیں، تو اے پردہ نشیں
ایک میں کیا کہ سبھی چاک گریباں ہوں گے

پھر بہار آئی وہی دشت نوردی ہوگی
پھر وہی پاؤں، وہی خارِ مُغیلاں ہوں گے

سنگ اور ہاتھ وہی، وہ ہی سر و داغِ جنوں
وہی ہم ہوں گے، وہی دشت و بیاباں ہوں گے

عمر ساری تو کٹی عشقِ بتاں میں مومن
آخری وقت میں کیا خاک مسلماں ہوں گے

(حکیم مومن خان مومن)
——-
بحر - بحرِ رمل مثمن مخبون محذوف مقطوع
افاعیل - فاعِلاتُن فَعِلاتُن فَعِلاتُن فَعلُن
(پہلے رکن یعنی فاعلاتن کی جگہ مخبون رکن فَعِلاتُن بھی آ سکتا ہے اور آخری رکن یعنی فعلن کی جگہ فعلان، فَعِلُن اور فَعِلان بھی آ سکتے ہیں گویا آٹھ اوزان اس بحر میں جمع ہو سکتے ہیں)
اشاری نظام - 2212 2211 2211 22
(پہلے 2212 کی جگہ 2211 اور آخری 22 کی جگہ 122، 211 اور 1211 بھی آ سکتے ہیں)
تقطیع
ناوک انداز جدھر دیدۂ جاناں ہوں گے
نیم بسمل کئی ہوں گے، کئی بے جاں ہوں گے
ناوکن دا - فاعلاتن - 2212 (الفِ وصل استعمال ہوا ہے)
ز جدر دی - فعلاتن - 2211
دَ ء جانا - فعلاتن - 2211
ہو گے - فعلن - 22
نیم بسمل - فاعلاتن - 2212
کَ ء ہو گے - فعلاتن - 2211
کَ ء بے جا - فعلاتن - 2211
ہو گے - فعلن - 22
-----

اور یہ خوبصورت غزل مہدی حسن کی آواز میں








مزید پڑھیے۔۔۔۔