شیخ ابوسعید، مشہور عالم ابنِ سینا کے ہم عصر تھے، ان دونوں کی ایک ملاقات بہت مشہور ہے جس میں دونوں حضرات تین دن تک تخلیے میں گفت و شنید کرتے رہے، ملاقات کے بعد ابنِ سینا کے شاگردوں نے ان سے پوچھا کہ آپ نے شیخ سے کیا حاصل کیا، انہوں نے کہا کہ میں جو کچھ بھی جانتا ہوں وہ اس کو دیکھ سکتے ہیں، دوسری طرف شیخ کے مریدین نے آپ سے سوال کیا کہ آپ نے ابنِ سینا سے کیا حاصل کیا آپ نے کہا کہ میں جو کچھ بھی دیکھ سکتا ہوں وہ اسے جانتا ہے۔ ایک صوفی اور ایک عالم کی ایک دوسرے کیلیے یہ کلمات آبِ زر سے لکھنے کے قابل ہیں۔
شاعری میں شیخ ابوسعید کی خاص پہچان انکی رباعیات ہیں، جو تصوف و عرفان و معرفت و حقیقت کے اسرار سے پر ہیں اور چہار دانگ شہرت حاصل کر چکی ہیں، انہی میں سے چند رباعیاں ترجمہ کے ساتھ پیش کرنے کی جسارت کر رہا ہوں۔
(1)
![]() |
ابوسعید ابوالخیر ایک خاکہ Abu Saeed Abul Kheir |
در حالتِ عجز دستگیرِ ھمہ کس
یا رب تو مرا توبہ دہ و عذر پذیر
اے توبہ دہ و عذر پذیرِ ھمہ کس
اے سب کے دلوں کے حال جاننے والے، ناتوانی اور عاجزی میں سب کی مدد کرنے والے، یا رب تو مجھے توبہ (کی توفیق) دے اور میرے عذر کو قبول کر، اے سب کو توبہ کو توفیق دینے والے اور سب کے عذر قبول کرنے والے۔
(2)
خواہی کہ ترا دولتِ ابرار رسَد
مپسند کہ از تو بہ کس آزار رسَد
از مرگ مَیَندیش و غمِ رزق مَخور
کایں ھر دو بہ وقتِ خویش ناچار رسَد
اگر تُو چاہتا ہے کہ تجھے نیک لوگوں کی دولت مل جائے (تو پھر) نہ پسند کر کہ تجھ سے کسی کو آزار پہنچے، موت کی فکر نہ کر اور رزق کا غم مت کھا، کیوں کہ یہ دونوں اپنے اپنے وقت پر چار و ناچار (لازماً) پہنچ کر رہیں گے۔
(3)
در کعبہ اگر دل سوئے غیرست ترا
طاعت ہمہ فسق و کعبہ دیرست ترا
ور دل بہ خدا و ساکنِ میکده ای
مے نوش کہ عاقبت بخیرست ترا
کعبہ میں اگر تیرا دل غیر کی طرف ہے، (تو پھر) تیری ساری طاعت بھی سب فسق ہے اور کعبہ بھی تیرے لیے بتخانہ ہے۔ اور (اگر) تیرا دل خدا کی طرف ہے اور تو (چاہے) میکدے میں رہتا ہے تو (بے فکر) مے نوش کر کہ (پھر) تیری عاقبت بخیر ہے۔
(4)
تسبیح مَلَک را و صفا رضواں را
دوزخ بد را، بہشت مر نیکاں را
دیبا جم را و قیصر و خاقاں را
جاناں ما را و جانِ ما جاناں را
تسبیح (و تمحید وتحلیل) فرشتوں کیلیے اور معصومیت و پاکیزگی رضواں (فرشتے) کیلیے ہے، دوزخ بد اور جنت نیک مردوں کیلیے ہے، دیبا (و حریر یعنی قیمتی ساز و سامان) جمشید و قیصر و خاقان (بادشاہوں) کیلیے ہے اور جاناں ہمارے لیے ہے اور ہماری جان جاناں کیلیے۔
(5)
وصلِ تو کجا و مَنِ مَہجُور کجا
دُردانہ کجا، حوصلۂ مُور کجا
ہرچند ز سوختَن ندارَم باکی
پروانہ کجا و آتشِ طُور کجا
تیرا وصال کہاں اور ہجر کا مارا کہاں، گوہرِ نایاب کہاں اور چیونٹی کہاں، ہر چند کہ میں جل جانے سے نہیں ڈرتا لیکن پروانہ کہاں اور آتشِ طور کہاں۔
(6)
مجنونِ تو کوہ را، ز صحرا نَشَناخت
دیوانۂ عشقِ تو سر از پا نَشَناخت
ہر کس بہ تو رہ یافت ز خود گم گردید
آں کس کہ ترا شناخت خود را نَشَناخت
تیرے مجنوں کو پہاڑ و صحرا کی پہچان نہیں ہے (اس کیلیے دونوں ایک برابر ہیں)، تیرے عشق کا دیوانہ سر اور پاؤں میں فرق نہیں جانتا، ہر کوئی جسے تیری راہ ملی اسے نے خود کو گم کر دیا، ہر کوئی جس نے تجھے پہچان لیا وہ اپنی شناخت بھول گیا۔
(7)
باز آ، باز آ، ہر آنچہ ہستی باز آ
گر کافر و گبر و بت پرستی باز آ
ایں درگۂ ما درگۂ نومیدی نیست
صد بار اگر توبہ شکستی، باز آ
(اے میرے بندے) واپس آ، واپس آ، توجو کوئی بھی ہے، لوٹ آ، چاہے تو کافر ہے، یہودی ہے یا بت پرست ہے، لوٹ آ، یہ ہماری بارگاہ ناامید و مایوس ہونے کی جگہ نہیں ہے، تُو نے اگر سو بار بھی توبہ توڑی ہے پھر بھی لوٹ آ۔
(8)
من بے تو دمے قرار نتوانَم کرد
احسان ترا شمار نتوانم کرد
گر بر سرِ من زباں شَوَد ہر موئے
یک شکر تو از ہزار نتوانم کرد
مجھے تیرے بغیر ایک پل بھی قرار نہیں ہے، میں تیرے احسانات کا شمار ہی نہیں کر سکتا، اگر میرے سر کا ہر بال زبان بن جائے تو میں پھر بھی تیرے ہزاروں احسانوں میں سے ایک احسان کا بھی شکر ادا نہیں کر سکتا۔
(9)
گفتَم، چشمَم، گفت، بہ راہَش می دار
گفتم، جگرم، گفت، پُر آہَش می دار
گفتم، کہ دِلَم، گفت، چہ داری در دل
گفتم، غمِ تو، گفت، نگاہَش می دار
میں نے کہا کہ میری آنکھیں، اس نے کہا انہیں راہ پر لگائے رکھ، میں نے کہا کہ میرا جگر، اس نے کہا اسے آہوں سے بھرا ہوا رکھ، میں نے کہا کہ میرا دل، اس نے کہا دل میں کیا ہے، میں نے کہا کہ تیرا غم، اس نے کہا کہ اس کی (غم کی) دیکھ بھال کر۔
مزید پڑھیے۔۔۔۔