Showing posts with label محمد وارث. Show all posts
Showing posts with label محمد وارث. Show all posts

May 5, 2012

کلاسیکی موسیقی - ترانہ

ترانہ، برصغیر پاک و ہند کی کلاسیکی موسیقی میں گانے کا ایک خاص اور دلفریب انداز جس میں فارسی، عربی اور ہندی کے کچھ بے معنی الفاظ کی درمیانی (مدھ) اور تیز (دُرت)لے میں اس خوبصورتی کے ساتھ تکرار کی جاتی ہے کہ سماں بندھ جاتا ہے اور سننے والے مسحور ہو جاتے ہیں۔

کہا جاتا ہے کہ ترانہ، گانے کا طریقہ اور اسکے بول دونوں، خاص امیر خسرو کی اختراع  ہے، کچھ محقیقین کو اس میں اعتراض بھی ہے۔ لیکن شاید حقیقت یہی  ہے کہ ترانہ امیر خسرو ہی کی ایجاد ہے اور اس صنف کو مقبول بھی امیر خسرو نے کیا ہے، اور پچھے سات سو سال سے برصغیر میں ترانہ گایا اور سنا جا رہا ہے، واضح رہے کہ ترانہ فارسی شاعری کی ایک صنف کا بھی نام ہے۔

ترانہ کی اختراع کے بارے میں ایک دلچسپ حکایت بھی چلی آ رہی ہے، جو موضوع ہی سہی لیکن دلچسپی سے خالی نہیں، کہا جاتا ہے کہ ایک دفعہ علاءالدین خلجی کے دربار میں موسقی کا ایک مقابلہ ہوا جس کے آخر میں صرف دو گائیک رہ گئے، ایک ہندو پنڈت اور دوسرے امیر خسرو۔ ہندو پنڈت نے جب دیکھا کہ حریف بہت سخت ہے اور یہ جانتے ہوئے کہ وہ سنسکرت نہیں جانتا، سنسکرت کے کچھ بھاری بھر کم الفاظ انتہائی تیز لے میں گائے، جواب میں امیر خسرو نے انہی سروں میں اور اسی لے کے ساتھ فارسی کے کچھ بے معنی الفاظ گائے اور درباریوں کا دل جیتتے ہوئے  مقابلہ بھی جیت لیا اور یوں ترانہ ایجاد ہوا۔
amir, khusro, amir khusro, امیر خسرو، امیر، خسرو، کلاسیکی موسیقی، موسیقی، ترانہ، classical music, tarana
امیر خسرو علیہ الرحمة، ایک خاکہ
یہ کہانی گھڑی ہوئی اور موضوع ہی سہی لیکن صنف ترانہ پر بہت خوبصورتی سے روشنی ڈالتی ہے۔ ترانہ نام ہی خالص تجریدی موسیقی کے تجربے کا ہے۔ ترانہ کے مقابلے میں دیگر کلاسیکی گائیکی کے جتنے بھی اوضاع ہیں جیسے خیال، دھرپد اور ٹپہ جو کہ دونوں اب بہت حد تک متروک ہو چکے ہیں، ٹھمری یا  دادرا وغیرہ، ان سب میں با معنی الفاظ یا شاعری کو گایا جاتا ہے لیکن ترانہ میں شاعری کا عنصر سرے سے نکال ہی دیا گیا ہے اور خالص تجریدی موسیقی پر اس کی بنیاد رکھی گئی ہے تا کہ سننے والوں کا ذہن شاعری میں نہ بھٹکے اور ان کا دھیان صرف موسیقی میں رہے اور خالص موسیقی اور سروں سے لطف اندوز ہوں جب کہ بعض دفعہ تجرے کے طور پر ترانہ میں کچھ اشعار بھی گائے جاتے ہیں، جیسا کہ امیر خسرو ہی کا ایک ترانہ "یارِ من بیا بیا" ہے جس میں امیر خسرو کا ایک شعر بھی گایا جاتا ہے لیکن ایسی مثالیں چند ایک ہی ہیں اور زیادہ ترانے فقط بے معنی الفاظ پر مشتمل ہیں۔

جیسا کہ اوپر ذکر آیا ترانہ عموماً مدھ اور درت لے میں گایا جاتا ہے لیکن بلمپت یا دھیمی لے میں بھی ترانہ گایا جاتا ہے گو اسکی مثالیں خال خال ہی ہیں۔ ترانہ کو کسی بھی راگ میں علیحدہ بھی گایا جا سکتا ہے اور کسی خیال کے آخر میں بھی، ہر دوصورت میں یہ لطف سے خالی نہیں، لیکن چونکہ خیال اور اس میں بھی بڑا خیال کافی طویل ہوتا ہے لہذا علیحدہ سے گائے ہوئے ترانے آج کل زیادہ مقبول ہوتے ہیں۔

ترانہ میں جن بے معنی الفاظ کی بار بار تکرار ہوتی ہے ان میں سے کچھ نیچے درج کر رہا ہوں، یہ بات بھی نوٹ کرنے کی ہے عام طور پر یہ سارے الفاظ انہتائی سہل اور ادا کرنے میں ثقیل نہیں ہیں، جیسے

او دانی
تو دانی
نادر دانی
تنن
درآ
تا نا
تا نی
تا نوم
توم
دھیم
ری
یعلا
یعلی
وغیرہ وغیرہ

کچھ موسیقاروں نے اوپر مندرج فارسی الفاظ کو معنی پہنانے کی بھی کوشش کی ہے جیسا کہ ان کا کچھ نہ کچھ مطلب نکالا بھی جا سکتا ہے لیکن یہ کوشش کچھ زیادہ کامیاب نہیں ہوئی اور اس کا حسن انہی بے معنی الفاظ کی تکرار ہی میں ہے وگرنہ جتنی دیر میں کوئی سننے والا کسی جملے کے معنی ڈھونڈنے کی کوشش کرے گا اتنی دیر میں گائیک کہیں سے کہیں پہنچ چکا ہوگا۔

ان بے معنی الفاظ کے ساتھ ساتھ ترانہ میں سرگم کے سروں کی خوبصورت تکرار اور کچھ سازوں مثلاً طبلہ، پکھاوج، ستار وغیرہ کے بول جیسے دھا، ترکٹ، تک، دِر دِر وغیرہ کی بھی تکرار کی جاتی ہے۔ گائیک کے منہ سے ساز کے بول اور ساز کی انہی بولوں کی آواز، ایک سماں باندھتے ہیں جسے ہوا میں گرہ باندھنے سے تعبیر کیا جا سکتا ہے۔

برصغیر میں تقریباً ہر کلاسیکی گائیک نے ترانہ بھی ضرور گایا ہے، انہی میں سے کچھ اپنی پسند کے اور جو یوٹیوب پر مل سکے ہیں یہاں شامل کر رہا ہوں۔

سب سے پہلے میرے پسندیدہ گائیک استاد بڑے غلام علی خان صاحب مرحوم قصور گھرانہ کا ایک ترانہ۔







استاد فتح علی خان پٹیالہ گھرانہ کا ایک ترانہ، جو انہوں نے راگ درباری خیال گاتے ہوئے گایا ہے۔


ایک اور عظیم فنکار، استاد سلامت علی خان مرحوم، شام چوراسی گھرانہ، راگ سرسوتی میں ترانہ


اگر آپ میری پسند کچھ اور ترانے سننا چاہتے ہیں تو یہ ربط دیکھیے یا یو ٹیوب پر اپنی پسند کے ترانوں سے بھی لطف اندوز ہو سکتے ہیں۔
---------

مزید پڑھیے۔۔۔۔

Apr 23, 2012

راگ درباری کانہڑہ - ایک تعارف

راگ درباری برصغیر کی موسیقی کے مقبول ترین راگوں میں سے ہے اور مقبولیت میں اس سے زیادہ شاید صرف راگ بھیرویں ہی ہے۔ سینکڑوں ہزاروں بندشیں، غزلیں اور گیت درباری میں بنے ہیں اور بنائے جا رہے ہیں، گانے اور پہچاننے میں بھی آسان ہے لیکن اسے اس کی نزاکتوں کے ساتھ گانا صرف اساتذہٴ فن ہی کا کام ہے۔

مانا جاتا ہے کہ اس راگ کو میاں تان سین نے دربارِ اکبری میں گانے کیلیے خاص طور پر اختراع کیا تھا اور اسی لیے اس راگ میں گھمبیرتا ہے اور اسے راگوں کی دنیا میں گھمبیر، بارعب، با وقار، سنجیدہ اور متین  راگ سمجھا جاتا ہے۔

 میں یہاں درباری کا مختصر تعارف لکھ رہا ہوں اور اس میں گائے ہوئے ایک دو خیال اور غزلیں وغیرہ بھی اس کے ساتھ شامل ہیں۔

 نوٹیشن کا طریقہ
 تیور سروں کو یہاں پورے نام سے ظاہر کیا جائے گا، مثال کے طور پر تیور گندھار کیلیے "گا" لکھا جائے گا جب کہ کومل سُروں کو پورے نام کی بجائے صرف پہلے حرف سے ظاہر کیا جائے گا یعنی کومل گندھار کو "گ" سے ظاہر کیا جائے گا۔  تار سپتک یعنی اوپر والی سپتک کے سر کے بعد ایک ڈیش - لگائی جائے یعنی تار سپتک کے سا کو، "سا-" کے ساتھ ظاہر کیا جائے گا اور مندر سپتک یعنی نچلی سپتک کے سر سے پہلے ڈیش لگائی جائے گی یعنی مندر سپتک کے سا کو "-سا" سے ظاہر کیا جائے گا۔ جب کہ کسی سُر کے ساتھ کوئی ڈیش نہ ہونے کا مطلب ہے کہ وہ مدھ سپتک یعنی درمیانی سپتک کا سر ہے اور بنیادی سپتک بھی یہی مدھ سپتک ہے۔

 راگ - درباری کانہڑہ
 یہ اس راگ کا مکمل نام ہے اور یہ کانہڑے کی ایک شکل ہے، عام طور پر (یا پیار سے) اسے صرف درباری ہی کہا جاتا ہے۔

 ٹھاٹھ - اساوری
 ایک خوبصورت ٹھاٹھ یعنی راگوں کا گروپ جس کا بنیادی راگ، راگ اساوری ہے ١ور اس راگ کے نام پر ہی اس ٹھاٹھ کا نام ہے۔ اس خاکسار کو ذاتی طور پر یہ ٹھاٹھ حد سے زیادہ پسند ہے کیونکہ میرے کچھ پسندیدہ ترین راگوں یعنی دربای، اساوری، جونپوری کا تعلق اسی ٹھاٹھ سے ہے۔

 اساوری ٹھاٹھ میں، رکھب یعنی رے تیور ہے جبکہ گندھار یعنی گا، مدھم یعنی ما، دھیوت یعنی دھا اور نکھاد یعنی نی، چاروں کومل سر ہیں۔  جبکہ کھرج سا اور پنچم پا ہوتے ہی اچل ہیں یعنی انکے کومل اور تیور سُر نہیں ہوتے۔ اگر شُدھ سُروں میں بات کریں تو اس ٹھاٹھ میں سا، رے، ما اور پا شدھ سر ہیں۔ اور یہی ترتیب درباری میں ہے۔

 جاتی یا ذات - سمپورن + کھاڈو (یا شاڈو)
 یعنی آروہی میں سات سر اور اوروہی میں چھ سر۔ اوروہی میں دھیوت ورجت ہے یعنی نہیں لگایا جاتا۔

 آروہی یا ترتیبِ صعودی
 یعنی نیچے سے اوپر جاتے ہوئے اس راگ کے سر یہ ہیں۔

 -ن سا رے گ رے سا، م پا د ن سا-

 (کچھ اساتذہ آخری ٹکڑے کو م پا د ن رے- سا- بھی کہتے ہیں)

 اوروہی یا ترتیبِ نزولی
 یعنی اوپر سے نیچے آتے ہوئے

 سا- د ن پا، م پا، گ م رے سا

 یہاں ایک بات کی وضاحت بہت ضروری ہے۔ جیسے کہ اس راگ کی جاتی میں لکھا گیا کہ اوروہی میں دھیوت ورجت ہے یعنی نہیں لگایا جاتا لیکن اوروہی لکھتے ہوئے آپ نے نوٹ کیا ہوگا کہ دھیوت یعنی د لکھا گیا ہے تو پھر یہ ورجت کیسے ہوا یا اوروہی کھاڈو کیسے ہوئی۔ اس بات کی وضاحت آج تک کسی کتاب یا ویب سائٹ پر میری نظر سے نہیں گزری سب یہی لکھ دیتے ہیں کہ دھیوت ورجت ہے۔ قصہ کچھ یوں ہے کہ اوروہی میں دھیوت تو لگ رہا ہے لیکن اپنی ترتیب میں نہیں یعنی سا- کے بعد نکھاد کی جگہ دھیوت آ گیا ہے اور دھیوت کے فوری بعد پنچم کی بجائے نکھاد ہے یوں " د ن" کا ٹکڑا اوروہی کا حصہ بننے کی بجائے آروہی کا حصہ بن گیا ہے اور یہی اس بات کا مطلب ہے کہ دھیوت اوروہی میں ورجت ہے۔ یعنی اوروہی میں کبھی بھی دھیوت کے بعد پنچم نہیں آے گا بلکہ دھیوت کے بعد ہمیشہ ہی نکھاد آئے گا اور نکھاد کے بعد پنچم اور یہی اس راگ کی نزاکت ہے جسے قائم رکھنا بہت ضروری ہے اس کی خلاف ورزی کرنے سے درباری، درباری نہیں رہے گا۔

سروں کی مزید تفہیم کیلیے ایک تصویر شامل کر رہا ہوں جس میں درباری کے سروں کی ہارمونیم پر نشاندہی کی گئی ہے۔


 پکڑ
 یعنی سروں کے وہ ٹکڑے جو کسی راگ میں بار بار لگائے جاتے ہیں اور راگ اس سے پہچانا جاتا ہے۔ درباری کی مختلف پکڑیں مشہور ہیں، کچھ مشہور اسطرح سے ہیں

 گ م رے سا
 -د -ن سا رے سا
 وغیرہ

 وادی سُر - رکھب
 یعنی کسی راگ کا سب سے اہم سُر، جس کو بار بار لگایا جاتا ہے یا اس پر رکا جاتا ہے یا اس پر زور دیا جاتا ہے-

 سَم وادی سُر - پنچم
 وادی سُر کے بعد دوسرا سب سے اہم سُر-

 وقت - رات کا دوسرا پہر یا آدھی رات
 یعنی وہ خاص وقت جس میں عموماً کوئی راگ گایا جاتا ہے اور اپنا سماں باندھ دیتا ہے۔

 درباری کی کچھ مزید خصوصیات
 - اس میں دو سُر یعنی کومل گندھار اور کومل دھیوت کا اندوہلن کیا جاتا ہے یعنی ان سُروں کو جھولایا جاتا ہے اور یہ اس راگ کا خاص انگ ہے جو اس کو دوسروں سے الگ کرتا ہے اور بہت لطف دیتا ہے۔
 - یہ پوروانگ کا راگ ہے یعنی عام طور پر نچلے سروں میں گایا جاتا ہے۔
 - یہ راگ بلمپت لے یعنی دھیمی لے (سلو ٹیمپو) میں زیادہ اچھا لگتا ہے۔ - اسکی آروہی میں کومل گندھار دُربل یعنی کمزور رہتا ہے یعنی اس سُر پر زیادہ زور نہیں دیا جاتا۔

------

سب سے پہلے عصرِ حاضر کے تان سین استاد بڑے غلام علی خان مرحوم ( قصور پٹیالہ گھرانہ) کی راگ درباری میں ایک انتہائی خوبصورت بندش  "انوکھا لاڈلا"۔



اور میرے ایک اور پسندیدہ گلوکار استاد فتح علی خان پٹیالہ گھرانہ کی ایک خوبصورت بندش راگ درباری میں



ایک خوبصورت ترانہ اسی راگ میں, استاد نزاکت علی اور استاد سلامت علی شام چوراسی گھرانہ


اور مہدی حسن کی ایک خوبصورت غزل کو بکو پھیل گئی۔۔۔۔۔۔۔۔



فلم بیجو باورا کے لیے گائی گئی اُستاد امیر خان کی راگ درباری میں خوبصورت سرگم


اسکے علاوہ کچھ اور خوبصورت غزلیں جو اسی راگ میں ہیں، انکے نام لکھ رہا ہوں

- ہنگامہ ہے کیوں برپا - غلام علی
- تسکیں کو ہم نہ روئیں - اقبال بانو
- آ میرے پیار کی خوشبو - استاد امانت علی

اس پوسٹ میں یو ٹیوب کی بہت زیادہ ویڈیوز نہیں لگا رہا کہ کچھ قارئین کو کوفت نہ ہو، اگر آپ اس راگ میں بنائی گائی میری پسند کی کچھ اور چیزیں سننا چاہتے ہیں تو یہ ربط دیکھیے، بصورتِ دیگر آپ کی اپنی پسند کیلیے یو ٹیوب تو ہے ہی۔

مزید پڑھیے۔۔۔۔

Nov 17, 2011

مشک آں است کہ خود ببوید۔۔۔۔۔۔

پچھلے سال 2010ء کی طرح اس سال بھی پاکستان بلاگ ایوارڈز منعقد کیے جا رہے ہیں اور اس خاکسار نے بھی بہترین ادبی بلاگ کیلیے اپنا بلاگ خود ہی نامزد کر دیا ہے بالکل پچھلے سال کی طرح۔ ایوارڈ وغیرہ تو خیر جو کچھ بھی ہے بس اسطرح چند اور لوگوں تک شاید آواز پہنچ جاتی ہے۔

پچھلے سال بہترین ادبی بلاگ ایوارڈ بھی ایک طرفہ تماشا تھا، بڑے زور و شور سے نامزدگیاں کی گئیں لیکن اعلان کرتے ہوئے کیا ہوا۔۔۔۔۔۔۔چھوڑیے حضرت کچھ بھی نہیں ہوا یعنی کہ سرے سے اس شعبے یعنی ادبی شعبے میں ایوارڈ ہی نہیں دیا گیا شاید منتظمین اور منصفین نے یہی سمجھا کہ کوئی ایسا ادبی بلاگ نہیں ہے جس کو اس "اعلیٰ " ایوارڈ سے نوازا جائے۔

خیر اس خاکسار کو اپنے اس بلاگ کے "ادبی" ہونے کیلیے کسی سند کی ضرورت تو نہیں ہے کہ "مشک آں است کہ خود ببوید نہ کہ عطار بگوید" لیکن پھر بھی گرمیِ محفل اور رونقِ بازار کیلیے اپنا بلاگ نامزد کر دیا ہے۔

مزید پڑھیے۔۔۔۔

Sep 3, 2011

یہ بھی سُنو ۔۔۔۔۔۔

قلتِ سامعین و قارئین کا شور ہر طرف ہے، کسی سے بات کر کے دیکھ لیں، کسی عالم فاضل سے، کسی خطیب مقرر سے، کسی ادیب سے، کسی شاعر کی دکھتی رگ پر ہاتھ رکھ دیں، حتٰی کہ کسی بلاگر کا حالِ دل پوچھ لیں، یہی جواب ملے گا کہ جناب اب اچھے قاری یا سامع کہاں ملتے ہیں، یہ الگ بات ہے کہ قارئین اور سامعین کا جواب بھی کچھ ایسا ہی ہوتا ہے۔

دوسروں تک اپنی آواز پہنچانا اور کچھ نہ کچھ سنانا شاید بہت ضروری ہے، لیکن ضروری تو نہیں کہ ہر کسی کی اس نقار خانے میں سنی جائے مرزا غالب فرماتے ہیں۔

کب وہ سنتا ہے کہانی میری
اور پھر وہ بھی زبانی میری

ہاں مرزا کے 'روگ' کچھ ایسے ہی تھے لیکن یہ بھی چنداں ضروری نہیں کہ ہر کسی کا مرزا والا حشر ہی ہو، مولانا رومی علیہ الرحمہ ایسی آواز سنا گئے کہ صدیاں گزر گئیں لیکن آج تک ہر طرف صاف صاف اور واضح سنائی دیتی ہے، 'مثنوی' کا آغاز اسی سننے سنانے سے کیا ہے اور کیا خوب آغاز کیا ہے، فرماتے ہیں۔

بِشنو، از نَے چوں حکایت می کُنَد
وَز جدائی ہا شکایت می کُنَد
بانسری کی سنو، کیا حکایت بیان کرتی ہے، اور (ازلی) جدائیوں کی کیا شکایت کرتی ہے۔

اور داستان سنانے والا، اللہ کا ایک بندہ ایسا گزرا ہے کہ سلطانِ وقت نے اسے ایک ایک شعر کے بدلے ایک ایک اشرفی دینے کا وعدہ کیا اور اس نے چالیس ہزار ایسے اشعار سنائے کہ ابد تک اشرفیوں میں تلتے رہیں گے۔ لیکن وائے اس شاہ پر کہ اپنے وعدے سے مکر گیا اور سونے کی اشرفیوں کو چاندی کے سکوں سے بدل دیا، خود دار فردوسی نے سلطان محمود غزنوی کی اس وعدہ خلافی کو قبول کرنے سے انکار کر دیا، 'شاہنامہ' کو بغل میں دابا اور اسکے پایہ تخت سے بھاگ گیا۔ 'زود پشیماں' سلطان کو سالہا سال کے بعد احساس ہوا اور جب اس شاعرِ بے مثال کے شہر پہنچا تو اسکے گھر چالیس ہزار اشرفیاں لیکر حاضر ہوا لیکن درویش شاعر دنیا سے کوچ کر چکا تھا، خوددار باپ کی خوددار بیٹی نے سلطان سے اشرفیاں لینے سے بھی انکار کر دیا۔

سلطان کی یہ ناگفتنی کہانی بھی ہمیشہ سنائی جاتی رہے گی لیکن کہاں دنیا کا سلطان اور کہاں اقلیم سخن کا فرمارواں، فردوسی پورے جوش و جذبے سے فرماتے ہیں

ع- دگرہا شنیدستی ایں ھَم شَنَو
دیگر تو بہت کچھ سن چکے اب یہ بھی سنو۔

خیر کہاں یہ بزرگ 'بزورِ بازو' سنانے والے کہ اتنا زورآور قلم کسی کو ہی نصیب ہوا ہوگا اور کہاں ہم جیسے طفلانِ مکتب جو کسی کا یہ شعر گنگنا کر ہی دل خوش کر لیتے ہیں۔

وہی قصّے ہیں وہی بات پرانی اپنی
کون سنتا ہے بھلا آج کہانی اپنی

اب سننے سنانے کی بات 'پرانی کہانیوں' تک پہنچ ہی گئی ہے تو اس طفلِ مکتب کی ایک رباعی بھی سن لیں جو کچھ سال پرانی ہے اور میری پہلی رباعی ہے۔

بکھرے ہوئے پُھولوں کی کہانی سُن لے
ہے چار دنوں کی زندگانی سُن لے
پیری میں تو ہوتے ہیں سبھی وقفِ عشق
کرتا ہے خراب کیوں جوانی سُن لے

سنایا تو ظاہر ہے اپنے آپ کو ہی ہے، ہاں اگر کسی قاری کو لگے کہ ان کو سنا رہا ہوں تو انہیں مبارک باد کہ ابھی تک جوان ہیں یا کم از کم اپنے آپ کو جوان سمجھتے ہیں۔
مزید پڑھیے۔۔۔۔

Feb 21, 2011

رباعی کے حوالے سے کچھ استفسارات اور میرے جوابات

رباعی کے اوزان کے حوالے سے اس خاکسار نے ایک مضمون لکھا تھا "رباعی کے اوزان پر ایک بحث"، اسی مضمون کے حوالے سے فیس بُک پر ایک دوست نے کچھ استفسارات کیے تھے، وہ اور ان کا جواب لکھ رہا ہوں۔

استفسار: یہ جو ہم بچپن سے سنتے آئے ہیں کہ "لا حول ولا قوۃ الا باللہ " رباعی کا وزن ہے ۔۔ تو کیا یہ چوبیس اوزان میں سے ایک ہے ؟ اور وہ وزن کیا ہے ؟

جواب: دراصل قرآن مجید کی چند ایک آیات  اور کچھ احادیث ایسی ہیں جو اتفاقاً کسی نہ کسی وزن پر موزوں ہو جاتی ہیں۔  انہی میں سے حدیث کا یہ کلمہ بھی ہے کہ رباعی کے ایک وزن پر آ جاتا ہے۔

اسکی تقطیع کچھ یوں ہے

لا حول و لا قوّۃ الا باللہ

لا حولَ - مفعول
و لا قو وَ - مفاعیل
تَ اِل لا بل - مفاعیلن
لا ہ - فاع

یعنی اسکا وزن 'مفعول مفاعیل مفاعیلن فاع' ہے۔

بعض لوگ ضرورت شعری کے تحت اللہ کی ہ گرا دیتے ہیں اس صورت میں آخری رکن فاع کی جگہ فع آ جائے گا اور یوں بھی رباعی کا وزن ہی رہے گا لیکن یہاں ایسی کوئی ضرورت نہیں ہے سو بہتر ہے کہ اللہ کا مکمل وزن لیا جائے۔

یہ رباعی کا ایک انتہائی مستعمل وزن ہے، اور اساتذہ عموماً رباعی کے سلسلے میں سب سے پہلے یہی وزن یاد کروایا کرتے تھے۔

مولانا الطاف حسین حالی کی ایک رباعی جس میں انہوں نے یہ وزن باندھا ہے

کیا پاس تھا قولِ حق کا، اللہ اللہ
تنہا تھے، پہ اعدا سے یہ فرماتے تھے شاہ
میں اور اطاعتِ یزیدِ گمراہ
لا حَولَ و لا قُوّۃَ الّا باللہ

استفسار: غالب کی مشہور رباعی جس پر ماہرین عروض نے اعتراض کیا ہے

دل رک رک کر بند ہوگیا ہے غالب

اور کہا جاتا ہے کہ اس میں ایک " رک " کا لفظ زیادہ ہے ۔۔ اس بارے میں وارث صاحب کی رائے کیا ہے

جواب: غالب کی مذکورہ رباعی کی بھی دلچسپ صورتحال ہے۔

دُکھ جی کے پسند ہو گیا ہے غالب
دل رک رک کر بند ہو گیا ہے غالب
واللہ کہ شب کو نیند آتی ہی نہیں
سونا سوگند ہو گیا ہے غالب

کہا جاتا ہے کہ رباعی کے اوزان پر گرفت بہت مشکل ہے اور بڑے بڑے شاعر بھی اسکے اوزان کے بارے میں خطا کر جاتے ہیں جیسے کہ غالب سا شاعر بھی کہ اوپر والی رباعی میں دوسرا مصرع رباعی کے وزن سے خارج ہے۔

غالب کے مذکورہ مصرعے پر سب سے پہلے یہ اعتراض علامہ نظم طباطبائی نے اپنی شرح دیوانِ غالب میں کیا تھا اور اسکے بعد سے 'سخن فہموں' اور 'غالب کے طرف داروں' میں اس پر خوب خوب بحث ہوئی ہے۔

میرے لیے حیرت اور مزے کی بات یہ ہے کہ مولانا غلام رسول مہر نے اپنے مرتب کردہ دیوانِ غالب اور اپنی شہرہ آفاق شرح 'نوائے سروش' دونوں میں یہ رباعی لکھتے ہوئے ایک 'رُک' دوسرے مصرعے سے نکال دیا ہے گویا اپنی طرف سے تصحیح کر دی ہے اور اسکی متنازعہ حیثیت پر بالکل بھی بحث نہیں کی ہے حالانکہ مستند یہی ہے کہ غالب نے ' رک رک کر' ہی کہا ہے۔

یہ بات بھی بالکل ٹھیک ہے کہ اگر مذکورہ مصرعے میں سے ایک 'رک' نکال دیا جائے تو مصرعہ وزن میں آ جاتا ہے۔ لیکن اس پر دو اعتراض ہیں ایک تو یہ کہ اگر مصرعہ اس طرح کر دیا جائے

دل رُک کر بند ہو گیا ہے غالب

تو وزن میں ضرور آئے گا لیکن اس مصرعے کی ساری دلکشی ختم ہو جائے گی بلکہ 'فضول سا' مصرعہ ہو جائے گا۔ دوسرا یہ کہ غالب سے قادر الکلام شاعر کو کیا علم نہیں تھا کہ مصرع بے وزن ہو رہا ہے اور رباعی کے اوزان میں نہیں آ رہا؟

مولانا نجم الدین غنی رامپوری نے علمِ عروض پر اپنی شہرہ آفاق کتاب 'بحر الفصاحت' میں بھی یہ اعتراض غالب کے مصرعے پر کیا ہے اور اسکا جواب اس کتاب کے مرتب سید قدرت نقوی نے دیا ہے۔ انہوں نے اس پر ایک علیحدہ سے مضمون بھی لکھا ہے جو کہ افسوس میری نظر سے نہیں گزرا۔

قدرت نقوی صاحب کے بقول لفظ 'بند' گو فارسی کا لفظ ہے اور وتد ہے یعنی اسکا وزن 'فاع' ہے لیکن ان کا کہنا ہے کہ غالب نے اس لفظ کا ہندی استعمال کیا ہے اور 'بند' کی نون کو نون فارسی کی بجائے مخلوط نون سمجھا ہے، اور جیسا کہ اہلِ علم جانتے ہیں کہ نون مخلوط کا کوئی وزن نہیں ہوتا جیسا کہ لفظ 'آنکھ' میں اس نون کا کوئی وزن نہیں ہے سو نقوی صاحب کے بقول غالب نے اس کو سبب باندھا ہے یعنی 'بند' کا وزن 'بد' یا 'فع' لیا ہے۔

اگر نقوی صاحب کے مفروضے کو مان لیا جائے تو پھر غالب کا مصرع وزن میں آ جاتا ہے یعنی

دل رک رک کر بند ہو گیا ہے غالب

دل رک رک - مفعولن
کر بد ہُ - مفعول
گیا ہے غا - مفاعیلن
لب - فع

یعنی اسطرح یہ مصرع 'مفعولن مفعول مفاعیلن فع' کے وزن پر آ کر موزوں ہو جاتا ہے۔

اس خاکسار کی بھی رائے میں یہ غالب کی عروضی غلطی نہیں ہے، یہ ماننا بہت مشکل ہے کہ غالب کو رباعی کے اوزان کا علم نہ ہو، بلکہ یہ غالب کی اجتہادی غلطی ہے کہ انہوں نے مصرعے کی دلکشی برقرار رکھنے کیلیے 'بند' کا غلط وزن لے لیا ہے، کیونکہ بہرحال بند میں نون مخلوط نہیں ہے بلکہ یہ لفظ فارسی کا ہے اور اس میں نون فارسی ہے جیسے 'رنگ' جنگ وغیرہ میں۔

استفسار: اقبال کی دو بیتیاں جنہیں عرف عام میں رباعی بھی کہا جاتا ہے اور غالبا" اقبال نے انہیں خود بھی رباعی کہا ہے ۔ اور وہ رباعی کے اوزان میں نہیں آتے ۔کیا ان سے قطعات کو رباعی کہنے کا جواز نکلتا ہے؟ مثلاً "تراشیدم، پرستیدم، شکستم" والا قطعہ۔

جواب: یہ بات تو طے ہے کہ رباعی اور قطعے میں بنیادی فرق وزن کا ہی ہے، باقی فرق ضمنی سے ہیں۔ جو دو شعر رباعی کے مذکورہ چوبیس اوزان میں ہیں وہ رباعی ہے وگرنہ قطعہ۔

اگر اس فرق کو روا نہ رکھیں تو پھر رباعی بہ حیثیت صنف کے ختم ہی جائے گی لہذا اس خاکسار کی ذاتی رائے میں اقبال نے اپنی دو بیتوں یا قطعات کو جو اپنی کتابوں میں رباعی لکھا ہے تو اس سے قطعے کو رباعی کہنے کا جواز نہیں نکلتا۔

لیکن اس بات سے ایک بڑا اہم سوال یہ اٹھ کھڑا ہوتا ہے کہ پھر اقبال نے ان دو بیتوں یا قطعات کو رباعی کیوں کہا اور ان کی زندگی میں ہی جو اردو اور فارسی کتب طبع ہوئیں ان کو رباعی ہی لکھا ہے گویا یہ انکی اجازت سے لکھا گیا ہے حالانکہ وہ رباعی کے اوزان میں نہیں ہے۔ تو پھر کیا وجہ تھی؟ یہ تو ممکن نہیں ہے کہ وہ رباعی کے اوزان کو نہ جانتے ہوں۔

خاکسار کے محدود علم میں ایسی کوئی کتاب یا مضمون نہیں گزرا جس میں اقبال سے اس بابت میں استفسار کیا گیا ہو کہ انہوں نے ایسا کیوں کیا؟ اگر علامہ کا جواب مل جاتا تو بات صاف ہو جاتی ہے لیکن اس کی غیر موجودگی ظاہر ہے ہم صرف قیاس ہی کر سکتے ہیں کہ علامہ نے ایسا کیوں کیا۔

میرے نزدیک، رباعی کا چونکہ لغوی مطلب چار مصرعے والی ہے تو ہو سکتا ہے کہ اقبال نے اس وجہ سے ان قطعات کو رباعی لکھ دیا ہو۔

ایک وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ فارسی کے ایک قدیم اور مشہور شاعر ہیں بابا طاہر عریاں، انہوں نے صرف رباعیات ہی کہی ہیں اور انکے کلام کو 'دو بیتی' بھی کہا جاتا ہے اور رباعی بھی حالانکہ وہ رباعی کے مروجہ اوزان میں نہیں ہیں۔ ہو سکتا ہے کہ اقبال نے انکے تتبع میں ایسا کیا ہو۔ واللہ اعلم بالصواب

لیکن ایک بات تو طے ہے کہ فارسی کے قدیم شعرا سے لیکر ہمارے عہد کے شعرا تک، جتنے بھی مشہور رباعی گو شعرا ہیں انہوں نے جب بھی رباعی کہی رباعی کے اوزان میں ہی کہی سو رباعی اور قطعہ میں فرق ضروری ہے۔

--------

مزید پڑھیے۔۔۔۔

Feb 3, 2011

رباعی کے اوزان پر ایک بحث

رباعی بھی خاصے کی چیز ہے، قدما اس کے چوبیس وزن بنا گئے سو عام شعرا کو اس سے متنفر کرنے کیلیے یہی کافی ہے کہ رباعی کے چوبیس وزن ہیں، حالانکہ اگر تھوڑا سا تدبر و تفکر کیا جائے اور ان اوزان کو ایک خاص منطقی ترتیب اور انداز سے سمجھا جائے تو ان اوزان کو یاد رکھنا اور ان پر عبور حاصل کرنا کچھ مشکل نہیں ہے، اور یہ مضمون بنیادی طور پر اسی موضوع پر ہے جس میں رباعی کے اوزان کو ایک خاص ترتیب سے سمجھنے کی کوشش کی گئی ہے۔

ایک عرض یہ کرتا چلوں کہ ضروری نہیں کہ ایک رباعی میں مخلتف اوزان ہی اکھٹے کیے جائیں، اگر ایک ہی وزن میں چاروں مصرعے ہوں تو پھر بھی رباعی ہے اور اگر ایک ہی وزن میں بیسیوں رباعیاں ہوں تو پھر بھی رباعیاں ہی ہیں لیکن اس میں مختلف اوزان کو اکھٹا کرنے کا فائدہ یہ ہے کہ شاعر اپنے مافی الضمیر کو بہتر سے بہتر انداز میں اور مختلف الفاظ کے چناؤ کے ساتھ بیان کر سکتا ہے اور پھر بنیادی طور ان اوزان میں فرق بھی بہت تھوڑا ہے، جس سے آہنگ پر فرق نہیں پڑتا، مثال کے طور پر، چوبیس میں سے بارہ اوزان تو صرف فع کو فاع اور فعِل کو فعول سے بدلنے سے حاصل ہو جاتے ہیں، تفصیل انشاءاللہ نیچے آئے گی۔

رباعی کی بحر، افاعیل اور انکی ترتیب

رباعی کی بحر، بحرِ ہزج ہے جسکا بنیادی رکن 'مفاعیلن' ہے اور اسی مفاعیلن کے مختلف وزن ہی، جو مختلف زحافات کے استعمال سے حاصل ہوتے ہیں، اس میں استعمال ہوتے ہیں۔

رباعی میں دس افاعیل آتے ہیں، جو کہ مفاعیلن ہی سے حاصل ہوتے ہیں، زحافات کے نام اور ان کے استعمال کا طریقہ لکھ کر اس مضمون کو بالکل ہی ناقابلِ برداشت نہیں بنانا چاہتا، صرف افاعیل لکھ رہا ہوں۔

1- مفاعیلن
2- مفاعیل
3- مفعولن
4- مفاعلن
5- مفعول
6- فاعلن
7- فعول
8- فَعِل
9- فاع
10- فع

اس میں نوٹ کرنے کی خاص بات یہ ہے کہ 'فعولن' اس فہرست میں نہیں ہے، یعنی فعولن جو کہ مفاعیلن سے حاصل ہونے والا ایک انتہائی مستعمل رکن ہے وہ رباعی میں نہیں آتا، اگر آئے گا تو رباعی کا وزن خراب ہو جائے گا۔

کسی بھی مثمن بحر کی طرح، رباعی کی بحر کے بھی چار رکن ہیں یعنی

صدر (یا ابتدا)، حشو، حشو، عرض (یا ضرب)

اور نوٹ کرنے کی بات یہ ہے کہ اوپر والے دس افاعیل میں سے جو بھی چار بحر میں استعمال ہونگے انکی اس بحر کی ترتیب میں اپنی اپنی جگہ مخصوص ہے، جیسے

- صدر یعنی پہلے رکن میں ہمیشہ مفعول آئے گا یا مفعولن، کوئی اور رکن نہیں آ سکتا۔

- ضرب یعنی چوتھے رکن میں ہمیشہ فع، فاع، فعِل اور فعول میں سے کوئی ایک آئے گا، اور کوئی رکن نہیں آ سکتا۔

- مفاعلن اور فاعلن ہمیشہ پہلے حشو یعنی دوسرے رکن میں ہی آئیں گے، اور کسی بھی جگہ نہیں آ سکتے۔

- مفاعیلن اور مفاعیل دونوں حشو میں یعنی دوسرے اور تیسرے رکن میں آسکتے ہیں، کسی اور جگہ نہیں آتے۔

- مفاعیلن اور مفاعیل کے علاوہ، مفعولن، مفعول بھی دونوں حشو میں آ سکتے ہیں۔

اسکے علاوہ، رباعی کے مختلف افاعیل کی ترتیب یاد رکھنے میں قدما کا جو کلیہ سب سے اہم ہے وہ کچھ یوں ہے جو کہ مرزا یاس یگانہ نے اپنی کتاب "چراغِ سخن" میں لکھا ہے۔

سبب پئے سبب و وتد پئے وتد

یوں سمجھیے کہ یہی رباعی کے اوزان کی کلید ہے یعنی ایک سبب کے بعد ہمیشہ سبب آئے گا اور ایک وتد کے بعد ہمیشہ وتد آئے گا، مثال کے طور پر، ایک شاعر ایک رباعی شروع کرتا ہے اور جیسا کہ ہم جانتے ہیں کہ رباعی یا تو مفعول سے شروع ہوگی یا مفععولن سے۔

فرض کریں، رباعی مفعول سے شروع ہوتی ہے، یعنی پہلا رکن مفعول ہو گیا، اب دوسرے رکن میں جو تمام افاعیل آ سکتے ہیں وہ یہ ہیں

مفاعیلن
مفاعیل
مفاعلن
مفعولن
مفعول
فاعلن

اب اس بنیادی کلیے کو ذہن میں رکھیے کہ سبب کے بعد سبب اور وتد کے بعد وتد، پہلا رکن مفعول ہے جو کہ وتد پر ختم ہو رہا ہے سو اگلا رکن لازمی وتد سے شروع ہوگا، اوپر والی فہرست میں جو افاعیل وتد سے شروع ہو رہے ہیں وہ یہ ہیں

مفاعیلن
مفاعیل
مفاعلن

یعنی مفعول کے بعد اب صرف ان تین میں سے کوئی رکن آئے گا، فرض کریں مفاعیل آیا اور ہمارے پاس دو رکن ہو گئے یعنی

مفعول مفاعیل

اب مفاعیل بھی وتد پر ختم ہو رہا ہے سو اگلا رکن بھی لازمی وتد سے شروع ہوگا، یہ پھر تین ہیں، مفاعیلن، مفاعیل، مفاعلن لیکن ہم جانتے ہیں کہ مفاعلن تیسرے رکن میں نہیں آ سکتا سو مفاعیلن اور مفاعیل میں سے کوئی آئے گا، فرض کریں مفاعیلن لیا تو اب تین رکن ہو گئے

مفعول مفاعیل مفاعیلن

اب رہ گیا چوتھا رکن، جس میں فع، فاع، فعِل اور فعول ہی آ سکتے ہیں، کلیہ ذہن میں رکھیے، مفاعیلن سبب پر ختم ہو رہا ہے سو اگلا رکن سبب سے شروع ہوگا، وہ فع ہے سو رباعی کا وزن مل گیا

مفعول مفاعیل مفاعیلن فع

اب کسی بھی بحر کی طرح، آخری رکن میں عملِ تسبیغ کی یہاں بھی اجازت ہے سو فع کو فاع کریں اور دوسرا وزن بھی مل گیا

مفعول مفاعیل مفاعیلن فاع

اوپر والے کلیات کو استعمال کرتے ہوئے ہم نے رباعی کے دو وزن حاصل کر لیے، اب انہی کی مدد سے ہم رباعی کے سارے وزن یعنی چوبیس حاصل کریں گے۔

اساتذہ نے رباعی کو دو شجروں میں تقسیم کیا ہے، جو رباعی مفعول سے شروع ہوتی ہے، اسکے بارہ اوزان کو شجرۂ اخرب کہتے ہیں اور جو رباعی مفعولن سے شروع ہوتی ہے اسکے بارہ اوزان کو شجرۂ اخرم کہتے ہیں، اور یہ دونوں نام بھی زحافات کے نام پر ہیں۔ یہاں ایک وضاحت یہ کہ بعض قدیم اساتذہ نے اخرب اور اخرم اوزان کو ایک ہی رباعی میں باندھنے سے منع کیا ہے، لیکن اس بات کو کوئی بھی رباعی گو شاعر نہیں مانتا اور بلاتکلف اخرب اور اخرم کے اوزان ایک ہی رباعی میں جمع کرتے ہیں۔

شجرۂ اخرب اور اسکے بارہ اوزان

ان اوزان کو شجرہ کہا جاتا ہے لیکن اس خاکسار کے محدود مطالعے میں عروض کی کوئی ایسی کتاب نہیں ہے جس میں اس کو ایک شجرہ کی طرح واضح کیا گیا ہو، خاکسار یہ کوشش کر رہا ہے، ممکن ہے کسی کتاب میں اسے اس صورت میں لکھا گیا ہو، شجرے کی تصویر دیکھیے، تصویر کو بڑا دیکھنے کیلیے اس پر کلک کیجیے۔

urdu poetry, urdu ghazal, ilm-e-arooz, taqtee, رباعی اوزان شجرہ اخرب, Rubai

اب اس شجرہ کو اوپر والے اصولوں کی روشنی میں کھول کر بیان کرتا ہوں۔

جیسا کہ ہم جانتے ہیں کہ اس شجرہ میں پہلے رکن میں ہمیشہ مفعول آتا ہے جو وتد پہ ختم ہوتا ہے سو اگلا رکن مفاعیلن، مفاعیل اور مفاعلن ہونگے جو کہ وتد سے شروع ہوتے ہیں، سب سے پہلے مفاعیلن کو لیتے ہیں سو

مفعول مفاعیلن

یہ سبب پر ختم ہوا سو اگلا رکن لازمی سبب سے شروع ہوگا جو کہ تین ہیں یعنی مفعولن، مفعول اور فاعلن لیکن ہم جانتے ہیں کہ تیسرے رکن میں فاعلن نہیں آ سکتا سو صرف دو رہ گئے، مفعولن اور مفعول اور ان دو افاعیل سے یہ اوزان حاصل ہوئے

مفعول مفاعیلن مفعولن
مفعول مفاعیلن مفعول

اب مفعولن سبب پر ختم ہوا سو اگلا رکن فع ہوگا جو کہ سبب ہے سو پہلا مکمل وزن مل گیا

مفعول مفاعیلن مفعولن فع (وزن نمبر 1)

فع کو فاع سے بدلیں دوسرا وزن حاصل ہو گیا

مفعول مفاعیلن مفعولن فاع (وزن نمبر 2)

اب تیسرے رکن میں مفعول کو لیں تو یہ وتد پر ختم ہوا سو چوتھا رکن وتد سے شروع ہوگا جو فعِل ہے سو

مفعول مفاعیلن مفعول فعِل (وزن نمبر 3)

فعِل کو فعول سے بدل لیں، ایک اور وزن مل گیا

مفعول مفاعیلن مفعول فعول (وزن نمبر 4)

اب پھر دوسرے رکن پر چلتے ہیں اور اگلے چار وزن حاصل کرتے ہیں، مفعول کے بعد مفاعیل لائے یعنی

مفعول مفاعیل

مفاعیل وتد پر ختم ہوا سو اگلا رکن وتد سے شروع ہوگا، مفاعلن یہاں نہیں آ سکتا سو مفاعیلن یا مفاعیل ہونگے یعنی

مفعول مفاعیل مفاعیلن
مفعول مفاعیل مفاعیل

مفاعیلن سبب پر ختم ہوا سو فع آئے گا یعنی

مفعول مفاعیل مفاعیلن فع (وزن نمبر 5)

مفعول مفاعیل مفاعیلن فاع (وزن نمبر 6)


تیسرے رکن میں مفاعیل لائیے جو وتد پر ختم ہوا سو اگلا رکن فعِل ہوا

مفعول مفاعیل مفاعیل فعِل (وزن نمبر 7)

مفعول مفاعیل مفاعیل فعول (وزن نمبر 8)


آٹھ وزن مل گئے، اگلے چار دوسرے رکن میں مفاعلن لانے سے ملیں گے یعنی

مفعول مفاعلن

یہ بھی وتد پر ختم ہوا سو اگلا رکن وتد سے شروع ہوگا جو کہ دو ہیں، مفاعیلن اور مفاعیل کیونکہ مفاعلن تیسرے رکن میں نہیں آ سکتا

مفعول مفاعلن مفاعیلن
مفعول مفاعلن مفاعیل

مفاعیلن کے ساتھ فع آئے گا سو

مفعول مفاعلن مفاعیلن فع (وزن نمبر 9)

مفعول مفاعلن مفاعیلن فاع (وزن نمبر 10)

مفاعیل کے ساتھ فعِل آئے گا سو

مفعول مفاعلن مفاعیل فعِل (وزن نمبر 11)

مفعول مفاعلن مفاعیل فعول (وزن نمبر 12)

گویا ایک خاص ترتیب سے چلتے ہوئے ہمیں رباعی کے بارہ وزن مل گئے، اگلے بارہ وزن شجرہ اخرم کے ہیں اور اسی طرح حاصل ہونگے۔


شجرۂ اخرم اور اسکے بارہ اوزان

پہلے اس شجرہ کی تصویر دیکھ لیں، بڑا دیکھنے کیلیے اس پر کلک کیجیے۔

urdu poetry, urdu ghazal, ilm-e-arooz, taqtee, رباعی اوزان شجرہ اخرم, Rubai

جیسا کہ ہمیں علم ہے کہ یہ شجرہ ہمیشہ مفعولن سے شروع ہوتا ہے جو کہ سبب پر ختم ہوتا ہے سو دوسرا رکن سبب ہی سے شروع ہوگا، جو کہ تین ہیں، مفعولن، مفعول اور فاعلن۔ مفعولن سے شروع کرتے ہیں

مفعولن مفعولن

یہ بھی سبب پر ختم ہوا سو تیسرا رکن بھی سبب سے شروع ہوگا، وہ دو ہیں، مفعولن اور مفعول کیونکہ فاعلن یہاں نہیں آ سکتا سو

مفعولن مفعولن مفعولن
مفعولن مفعولن مفعول

مفعولن سبب پر ختم ہوا سو لازمی طور پر اگلا رکن سبب سے شروع ہوگا جو فع ہے سو

مفعولن مفعولن مفعولن فع (وزن نمبر 1)

اور فع کو فاع سے بدلیں تو

مفعولن مفعولن مفعولن فاع (وزن نمبر 2)

تیسرے رکن میں مفعول لائیں جو وتد پر ختم ہوا سو چوتھا رکن لازمی فعِل ہوگا سو

مفعولن مفعولن مفعول فعِل (وزن نمبر 3)

اور فعِل کو فعول سے بدلیں تو

مفعولن مفعولن مفعول فعول (وزن نمبر 4)

اب واپس دوسرے رکن پر چلتے ہیں اور مفعولن کے بعد مفعول لاتے ہیں یعنی

مفعولن مفعول

اب مفعول وتد پر ختم ہوا، تیسرا رکن لازمی وتد سے شروع ہوگا، یہ تین ہیں، مفاعیلن مفاعیل اور مفاعلن لیکن ہم جانتے ہیں کہ مفاعلن کبھی بھی تیسرے رکن میں نہیں آئے گا سو دو رہ گئے، مفاعیلن اور مفاعیل یعنی

مفعولن مفعول مفاعیلن
مفعولن مفعول مفاعیل

مفاعیلن کے بعد فع آیا تو

مفعولن مفعول مفاعیلن فع (وزن نمبر 5)

اور

مفعولن مفعول مفاعیلن فاع (وزن نمبر 6)

اب تیسرے رکن میں مفاعیل لائیں تو یہ وتد پر ختم ہوا سو اسکے بعد فعِل آیا یعنی

مفعولن مفعول مفاعیل فعِل (وزن نمبر 7)

اور مفعولن مفعول مفاعیل فعول (وزن نمبر 8)

اب واپس دوسرے رکن کی طرف چلتے ہیں وہاں ہم فاعلن کو چھوڑ آئے تھے، اس کو لائیں گے تو مزید چار وزن مل جائیں گے۔

مفعولن فاعلن

فاعلن وتد پر ختم ہوا سو اگلا رکن مفاعیلن، مفاعیل یا مفاعلن ہوگا، مفاعلن باہر ہوگیا تو مفاعیلن اور مفاعیل رہ گئے

مفعولن فاعلن مفاعیلن
مفعولن فاعلن مفاعیل

مفاعیلن کے بعد فع آیا تو

مفعولن فاعلن مفاعیلن فع (وزن نمبر 9)

اور

مفعولن فاعلن مفاعیلن فاع (وزن نمبر 10)

تیسرے رکن میں مفاعیل لائے تو اسکے بعد فعِل آیا سو

مفعولن فاعلن مفاعیل فعِل (وزن نمبر 11)

اور مفعولن فاعلن مفاعیل فعول (وزن نمبر 12)

اور یوں ہمیں 'سبب پئے سبب و وتد پئے وتد" کے اصول اور افاعیل و ارکان کی خاص ترتیب پر چلتے ہوئے دونوں شجروں کے بارہ بارہ اوزان یعنی کل چوبیس وزن مل گئے۔

یہ وہ طریقہ جس کو سمجھتے ہوئے اس خاکسار نے رباعی کے اوزان کو سمجھا، اسکے علاوہ بھی کئی ایک طریقے ہیں لیکن میں نے اس میں کوشش کی ہے کہ اوزان کو ایک خاص منطقی ترتیب سے لاؤں، امید ہے قارئین کیلیے یہ طریقہ رباعی کے اوزان سمجھنے کیلیے کارآمد اور فائدہ مند ہوگا۔

مزید پڑھیے۔۔۔۔

Dec 3, 2010

ایک خوبصورت بحر - بحرِ خفیف

یہ مضمون نومبر 2007ء میں لکھا تھا اور "اردو محفل" پر شائع کیا۔
------------------------
حصۂ اول ۔ بحرِ خفیف مسدس مخبون محذوف مقطوع - تعارف اور اوزان
بڑی بحر ایک دریا کی مانند ہوتی ہے۔ طغیانی میں ہو تو ہر چیز خس و خاشاک کی طرح بہا لے جائے۔ موج میں ہو تو لہریں گنتے جاؤ اور ختم نہ ہوں اور اگر کہیں روانی میں کمی آ جائے تو جگہ جگہ جوہڑ بن جاتے ہیں، 'بڈھے' روای کی طرح۔ اس کے مقابلے میں چھوٹی بحر ایک گنگناتی، لہراتی، بل کھاتی، مچلتی ندی کی طرح ہے۔ اور جیسے کسی دیو ہیکل پہاڑ کی اوٹ سے جھرنا ایک دم آنکھوں کے سامنے خوشنما منظر لیے آجاتا ہے اسی طرح چھوٹی بحروں میں کہی ہوئی بات دھم سے آنکھوں کو چکا چوند کردیتی ہے اور دماغ بغیر سوچ و بچار میں پڑے فوراً روشن ہو جاتا ہے۔

چھوٹی بحروں میں شاعری کرنا ہر شاعر کا مشغلہ رہا ہے۔ اساتذہ سے لیکر موجودہ عصر تک ہر شاعر نے ان بحروں میں طبع آزمائی کی ہے، اور اصنافِ سخن میں سے غزل کو اس میں خاص امتیاز حاصل ہے۔ تھوڑے اور گنے چنے الفاظ میں غزل کی رنگینیٔ بیاں کو نبھاتے ہوئے دو مصرعوں میں بات مکمل کر دینا بلکہ سامع تک پوری بلاغت سے پہنچا دینا واقعتاً ایک معانی رکھتا ہے۔ لیکن یہ ایک حقیقت ہے کہ چھوٹی بحروں میں کہی ہوئی اچھی غزلیں اردو ادب میں سدا بہار کا مقام رکھتی ہیں اور ان غزلوں کے اشعار اور مصرعے ضرب المثل کا مقام حاصل کرچکے ہیں۔

انہی چھوٹی بحروں میں ایک بحر، بحرِ خفیف ہے۔ بحرِ خفیف ایک مسدس (تین ارکان والی) بحر ہے اور تقریباً تمام مسدس بحریں چھوٹی ہیں کہ ان میں مثمن (چار ارکان والی) بحروں کے مقابلے میں ایک رکن کم ہوتا ہے اور پھر زحافات کا استعمال انہیں مزید مختصر کیے ہی چلا جاتا ہے۔ بحرِ خفیف کی ایک مزاحف شکل ،بحرِ خفیف مسدس مخبون محذوف مقطوع' کا تعارف اور اس مخصوس بحر میں کہی ہوئی مشہور غزلیات کی ایک فہرست اس مضمون کا مقصود ہے۔

وجۂ تسمیہ
بحرِ خفیف کی وجۂ تسمیہ صاحبِ بحر الفصاحت، مولوی نجم الدین غنی رامپوری نے یہ بیان کی ہے۔
"خفیف کے معنی ہلکے ہیں۔ چونکہ اس بحر کے سب ارکان ہلکے ہیں بسب اس کے کہ دو سبب وتد مجموع کو گھیرے ہوئے ہیں، اس لئے اس بحر کا نام خفیف رکھا ہے۔ اس بحر کو متاخرین شعرائے ریختہ نے سوائے مسدس مزاحف کے اور کسی طرح استعمال نہیں کیا۔"

آخری جملے سے یہ بھی معلومات ملتی ہیں کہ اب سالم حالت میں، مثمن و مسدس و مربع، یہ بحر استعمال نہیں ہوتی اور مزاحف بھی صرف مسدس (یعنی جس بحر کے ایک مصرعے میں تین رکن ہوں) استعمال ہوتی ہے۔

اوزان
بحرِ خفیف سالم الاصل کے اوزان یہ ہیں۔

مثمن۔ فاعِلاتُن مُستَفعِلُن فاعِلاتُن مُستَفعِلُن
مسدس۔ فاعِلاتُن مُستَفعِلُن فاعِلاتُن


لیکن جیسا کہ اوپر بیان کیا گیا ہے کہ یہ مضمون بحر خفیف کی ایک مسدس مزاحف شکل 'بحر خفیف مسدس مخبون مخذوف مقطوع' کے متعلق ہے اور اسی بحر کے اوزان سے یہاں بحث کی جائے گی۔
بحر خفیف مسدس مخبون مخذوف مقطوع کا وزن 'فاعِلاتُن مَفاعِلُن فَعلُن' ہے (فعلن میں ع کے سکون کے ساتھ)۔ اس بحر کا یہ وزن بحر خفیف مسدس سالم الاصل پر زحافات کے استعمال سے حاصل ہوتا ہے، یہ زحافات بحر کے نام میں ہی شامل ہیں یعنی زحافات خبن، حذف اور قطع۔
اس بحر کے وزن میں میں کچھ رعائیتیں اور اجازتیں دی گئی ہیں جس سے اس بحر کا حسن بہت بڑھ جاتا ہے اور ایک ہی بحر میں رہتے ہوئے اپنی مرضی کے اور فصیح سے فصیح تر الفاظ استعمال کیے جا سکتے ہیں۔ یہ اجازتیں کچھ اسطرح سے ہیں۔

1- اس بحر یعنی خفیف مسدس مخبون محذوف مقطوع کو بحر خفیف مسدس کی ہی ایک اور مزاحف صورت 'خفیف مسدس مخبون محذوف' کے ساتھ جمع کیا جا سکتا ہے۔ اس بحر کا وزن 'فاعِلاتُن مُفاعِلُن فَعِلُن' ہے (فعِلن میں ع کے کسرے یا زیر کے ساتھ)۔

2- ان دونوں مسدس بحروں یعنی مخبون محذوف مقطوع اور مخبون محذوف کے صدر و ابتدا (یعنی بالترتیب ہر شعر کے پہلے مصرعے کے پہلے رکن اور دوسرے مصرعے کے پہلے رکن) اور عروض و ضروب (یعنی بالترتیب ہر شعر کے پہلے مصرعے کے آخری رکن اور دوسرے مصرعے کے آخری رکن) میں ان اوزان کو جمع کرنے کی اجازت ہے۔

اول۔ صدو ابتدا میں جو اس بحر میں 'فاعلاتن' ہے کو اس رکن کی مخبون شکل یعنی 'فَعِلاتُن' کے ساتھ بدل سکتے ہیں۔ اور ایک شعر میں دونوں اوزان لا سکتے ہیں۔

دوم۔ عروض و ضروب میں جو اس بحر میں فَعلُن (عین کے سکون کے ساتھ) ہے کو فَعِلُن (عین کے کسرہ کے ساتھ) اور ان دونوں کی ہی مسبغ اشکال یعنی فَعلان (عین کے سکون کے ساتھ) اور فَعِلان (عین کے کسرہ کے ساتھ) کے ساتھ بدل سکتے ہیں۔

3- حشو (یعنی صدر و ابتدا اور عروض و ضروب کے درمیان آنے والے تمام اراکین) جو اس بحر میں صرف 'مفاعِلن' ہے کو کسی اور رکن کے ساتھ تبدیل نہیں کر سکتے وگرنہ بحر بدل جائے گی۔
اوپر دئے گئے اصولوں کی مدد سے اگر اس بحر میں جمع کئے جانے والے اوازن کی ایک فہرست بنائی جائے تو اس بحر میں تکنیکی طور پر آٹھ اوزان کو ایک ہی غزل میں یا ان میں سے کسی دو کو ایک ہی شعر میں جمع کیا جا سکتا ہے۔ یہ فہرست کچھ اسطرح سے ہے۔

1- فاعِلاتُن مُفاعِلُن فَعلُن (فعلن میں عین کے سکون کے ساتھ)
2- فَعِلاتُن مُفاعِلُن فَعلُن
3- فاعِلاتن مفاعِلن فعلان (فعلان میں عین کے سکون کے ساتھ)
4- فَعِلاتن مفاعِلن فعلان
5- فاعِلاتن مفاعِلن فَعِلُن (فعِلن میں عین کے کسرہ کے ساتھ)
6- فَعِلاتن مفاعلن فَعِلُن
7- فاعِلاتن مفاعلن فعِلان (فعِلان میں عین کے کسرہ کے ساتھ)
8- فَعِلاتن مفاعِلن فعِلان

یہاں پر ایک بات کی وضاحت کرتا چلوں کہ کلاسیکی عروض میں اوپر دیئے گئے آٹھوں اوزان کی بحروں کے علیحدہ علیحدہ نام تھے لیکن ان سب کو ایک ہی غزل میں جمع کرنے کی اجازت تھی لیکن جدید فارسی اور اردو عروض میں ان آٹھ اوزان کو تو علیحدہ مانا جاتا ہے اور جمع بھی کر سکتے ہیں لیکن آٹھ بحروں کی بجائے انھیں دو بحریں ہی تصور کیا جاتا ہے کہ عملی لحاظ سے یہ بات بالکل صحیح ہے۔

مختلف اوزان کو جمع کرنے کی امثال

اب ہم اوپر دیئے گئے اوزان کو ایک ہی غزل میں جمع کرنے کی دو مثالیں دیکھتے ہیں۔ یوں تو بے شمار غزلیں ہیں جن میں مندرجہ بالا اوزان کو جمع کیا گیا ہے لیکن میں نے اس کیلیے ایک غالب کی اور ایک فیض کی غزل منتخب کی ہے اور دیکھتے ہیں کہ ان دو عظیم شعرا نے کس مہارت کے ساتھ مختلف اوزان کو ایک ہی غزل میں جمع کیا ہے۔

غالب کی غزل کے اشعار

نے گُلِ نغمہ ہوں نہ پردۂ ساز
میں ہوں اپنی شکست کی آواز

مصرع اول عروضی متن و وزن
نے گُ لے نغ (فاعلاتن) مَ ہو نَ پر (مفاعِلن) دَ ء ساز (فعِلان) یہ فاعلاتن مفاعلن فعِلان اوپر دی گئی فہرست میں وزن نمبر 7 ہے۔

مصرع ثانی عروضی متن و وزن
مے ہُ اپنی (فاعلاتن) شکست کی (مفاعلن) آواز (فعلان)۔ فاعلاتن مفاعلن فعلان۔ وزن نمبر 3۔

تُو اور آرائشِ خمِ کاکُل
میں اور اندیشہ ہائے دور و دراز

مصرع اول عروضی متن و وزن
تُو اَ را را (فاعلاتن) ء شے خَ مے (مفاعلن) کاکل (فعلن)۔ فاعلاتن مفاعلن فعلن، وزن نمبر 1۔

مصرع ثانی عروضی متن و وزن
مے اَ رن دے (فاعلاتن) شَ ہاے دُو (مفاعلن) ر دراز (فعِلان) وزن نمبر 7۔

لافِ تمکیں فریب سادہ دلی
ہم ہیں اور راز ہائے سینہ گداز

مصرع اول عروضی متن و وزن
لاف تمکیں (فاعلاتن) فریب سا (مفاعلن) دَ دلی (فعِلن)۔ فاعلاتن مفاعلن فعِلن۔ وزن نمبر 5۔

مصرع ثانی۔ وزن نمبر 7 میں ہے۔

نہیں دل میں مرے وہ قطرۂ خوں
جس سے مژگاں ہوئی نہ ہو گل باز

مصرع اول عروضی متن و وزن
نَ ہِ دل میں (فعلاتن) مرے وُ قَط (مفاعلن) رَ ء خو (فعِلن)۔ فعلاتن مفاعلن فعِلن۔ وزن نمبر 6۔
مصرع ثانی وزن نمبر 3 میں ہے۔

یوں اس غزل میں غالب نے پانچ اوزان جمع کئے ہیں جو کہ اوپر والی فہرست کے مطابق اوزان نمبر 1، 3، 5، 6 اور 7 بنتے ہیں۔

فیض کی غزل کے اشعار

اب فیض احمد احمد فیض کی ایک غزل کے اشعار دیکھتے ہیں۔

آئے کچھ ابر کچھ شراب آئے
اس کے بعد آئے جو عذاب آئے

مصرع اول عروضی متن و وزن
آے کچ اب (فاعلاتن) ر کچ شرا (مفاعلن) بائے (فعلن)۔ فاعلاتن مفاعلن فعلن۔ وزن نمبر 1۔
مصرع ثانی عروضی متن و وزن

اس کِ بع دا (فاعلاتن) ء جو عذا (مفاعلن) بائے (فعلن)۔ فاعلاتن مفاعلن فعلن۔ وزن نمبر 1۔

عمر کے ہر وَرق پہ دل کو نظر
تیری مہر و وفا کے باب آئے

مصرع اول عروضی متن و وزن
عمر کے ہر (فاعلاتن) ورق پہ دل (مفاعلن) کُ نظر (فعِلن)۔ فاعلاتن مفاعلن فعِلن۔ وزن نمبر 5۔

مصرع ثانی، وزن نمبر 1 میں ہے۔

کر رہا تھا غمِ جہاں کا حساب
آج تم یاد بے حساب آئے

مصرع اول عروضی متن و وزن
کر رہا تھا (فاعلاتن) غَ مے جہا (مفاعلن) کَ حساب (فعِلان)۔ فاعلاتن مفاعلن فعِلان۔ وزن نمبر 7۔

مصرع ثانی، وزن نمبر 1 میں ہے۔

نہ گئی تیرے غم کی سرداری
دل میں یوں روز انقلاب آئے

مصرع اول عروضی متن و وزن
نَ گئی تے (فعلاتن) رِ غم کِ سر (مفاعلن) داری (فعلن)۔ فعلاتن مفاعلن فعلن۔ وزن نمبر 2۔

مصرع ثانی، وزن نمبر 1 میں ہے۔

جل اٹھے بزمِ غیر کے در و بام
جب بھی ہم خانماں خراب آئے

مصرع اول عروضی متن و وزن
جل اٹھے بز (فاعلاتن) مِ غیر کے (مفاعلن) در بام (فعلان)۔ فاعلاتن مفاعلن فعلان۔ وزن نمبر 3۔

مصرع ثانی، وزن نمبر 1 میں ہے۔

اس غزل میں فیض نے مجموعی طور پر پانچ اوزان جمع کئے ہیں جو اوپر والی اوزان کی فہرست کے مطابق وزن نمبر 1، 2، 3، 5 اور 7 ہیں۔

آٹھوں اوزان کی امثال (اوزان کے نمبر اوپر والی فہرست کے مطابق ہیں)

شعر فیض
آئے کچھ ابر کچھ شراب آئے
اس کے بعد آئے جو عذاب آئے

دونوں مصرعے 'فاعلاتن مفاعلن فعلن' میں ہیں (وزن نمبر 1)

شعرِ فیض
نہ گئی تیرے غم کی سرداری
دل میں یوں روز انقلاب آئے

اس شعر کا پہلا مصرع 'فعِلاتن مفاعلن فعلن' میں ہے (وزن نمبر 2)۔ دوسرا مصرع وزن نمبر 1 میں ہے۔

شعرِ فیض
جل اٹھے بزمِ غیر کے در و بام
جب بھی ہم خانماں خراب آئے

پہلا مصرع 'فاعلاتن مفاعلن فعلان' میں ہے (وزن نمبر 3)، دوسرا مصرع وزن نمبر 1 میں ہے۔

شعر مصحفی
نہ تو مے لعلِ یار کے مانند
نہ گل اس کے عذار کے مانند

دونوں مصرعے 'فعلاتن مفاعلن فعلان' میں ہیں (وزن نمبر 4)۔

شعرِ فیض
عمر کے ہر وَرَق پہ دل کو نظر
تیری مہر و وفا کے باب آئے

پہلا مصرع 'فاعلاتن مفاعلن فعِلن' میں ہے (وزن نمبر 5)۔

شعرِ غالب
نہیں دل میں مرے وہ قطرۂ خوں
جس سے مژگاں ہوئی نہ ہو گل باز

پہلا مصرع 'فعلاتن مفاعلن فعِلن' میں ہے (وزن نمبر 6)۔ دوسرا مصرع وزن نمبر 3 میں ہے۔

شعرِ فیض
کر رہا تھا غمِ جہاں کا حساب
آج تم یاد بے حساب آئے

پہلا مصرع 'فاعلاتن مفاعلن فعِلان' وزن نمبر 7 میں ہے۔

شعرِ داغ
غم اٹھانے کے ہیں ہزار طریق
کہ زمانے کے ہیں ہزار طریق

دوسرا مصرع 'فعلاتن مفاعلن فعِلان' میں ہے (وزن نمبر 8)۔ پہلا مصرع وزن نمبر 7 میں ہے۔

مشابہت

بحروں میں مشابہت کے حوالے سے محمد حسین آزاد کا آبِ حیات میں تحریر کردہ ایک واقعہ یاد آگیا جو انہوں انشاءاللہ خان انشا کے تذکرے میں بیان کیا ہے۔

"۔۔۔۔۔۔۔۔۔ان میں مرزا عظیم بیگ تھے کہ سودا کے دعوٰی شاگردی اور پرانی مشق کے گھمنڈ نے انکا دماغ بہت بلند کر دیا تھا۔ وہ فقط شد بود کا علم رکھتے تھے مگر اپنے تئیں ہندوستان کا صائب کہتے تھے اور خصوصاً ان معرکوں میں سب سے بڑھ کر قدم مارتے تھے۔ چنانچہ وہ ایک دن میر ماشاءاللہ خاں کے پاس آئے اور غزل سنائی کہ بحر رجز میں تھی مگر ناواقفیت سے کچھ شعر رمل میں جا پڑے تھے۔ سید انشاءاللہ بھی موجود تھے، تاڑ گئے۔ حد سے زیادہ تعریف کی اور اصرار سے کہا کہ مرزا صاحب اسے آپ مشاعرے میں ضرور پڑھیں۔ مدعی کمال کہ مغز سخن سے بے خبر تھا اس نے مشاعرہ عام میں غزل پڑھ دی۔ سید انشاءاللہ نے وہیں تقطیع کی فرمائش کی۔ اس وقت اس غریب پر جو گزری سو گزری مگر سید انشاءاللہ نے اس کے ساتھ سب کو لے ڈالا اور کوئی دم نہ مار سکا۔ بلکہ ایک مخمس بھی پڑھا، جس کا مطلع یہ ہے۔

گر تو مشاعرے میں صبا آج کل چلے
کہیو عظیم سے کہ ذرا وہ سنبھل چلے
اتنا بھی حد سے اپنی نہ باہر نکل چلے
پڑھنے کو شب جو یار غزل در غزل چلے
بحر رجز میں ڈال کے بحر رمل چلے"

اس واقعے کا ذکر مولوی نجم الدین غنی نے عیوبِ عروض کے تحت کیا ہے اور شعراء کرام کو متنبہ کیا ہے جو بحریں آپس میں متشابہ ہیں ان کو استعمال کرتے ہوئے احتیاط برتیں۔

اور یہ بات ہماری مذکورہ بحر کیلیے بھی حرف بحرف صحیح ہے کہ اس بحر کی مشابہت یوں تو کئی بحروں کے ساتھ ہے لیکن بحر 'رمل مسدس مخبون محذوف مقطوع' کے ساتھ تو حد سے زیادہ متشابہ ہے۔ اس دوسری بحر کا وزن 'فاعلاتن فعِلاتن فعلن' ہے اور اسکے صدر و ابتدا اور عروض و ضروب میں بھی وہی اور اتنے ہی اوزان آ سکتے ہیں جو کہ بحرِ خفیف کے ہیں یعنی اس میں بھی مجموعی طور پر آٹھ اوزان جمع ہو سکتے ہیں لیکن خفیف اور رمل مقطوع میں فرق یہ ہے کہ خفیف کا حشو 'مفاعلن' جب کہ رمل کا حشو 'فعِلاتن' ہے۔ اگر آپ اوپر دیئے گئے آٹھ اوزان کی فہرست دیکھیں تو نوٹ کریں گے کہ ان آٹھ اوزان میں صدر و ابتدا اور عروض و ضروب تو تبدیل ہو رہے ہیں لیکن حشو تبدیل نہیں ہو رہا بعینہ اسی طرح 'رمل' میں حشو 'فعِلاتن' تبدیل نہیں ہوتا اور صدر و ابتدا اور عروض و ضروب وہی ہیں جو 'خفیف' کے ہیں۔

یہ ایک انتہائی لطیف اور کم فرق ہے، یہ ایسے ہی جیسے آپ کہیں 'دعا یہ ہے' تو یہ بر وزن 'مفاعلن' ہے لیکن اگر کہیں 'یہ دعا ہے' تو یہ 'فعِلاتن' کے وزن پر ہے اور صرف ایک حرف کی جگہ تبدیل کرنے سے بحر بدل جائے گی۔

حصۂ دوم - بحرِ خفیف مسدس مخبون محذوف مقطوع میں کہی گئی کچھ مشہور غزلیات

اس مضمون کا عنوان "ایک خوبصورت بحر" میرے ذہن میں اس بحر میں کہی گئی مشہور غزلیات کو دیکھ کر آیا تھا۔ اور دوسری بات یہ تھی کہ اس بحر میں کہی گئی غزلیات ہمارے گلوکاروں میں بھی مقبول رہی ہیں اور بعضوں نے تو بہت اچھے انداز میں انہیں گایا ہے۔ انہی غزلیات میں سے کچھ غزلیات نیچے دی جا رہی ہیں۔ فہرست بالکل اور مکمل تاریخی ترتیب سے نہیں ہے لیکن بہرحال زمانے کا میں نے خیال رکھا ہے۔ ایک التزام میں نے یہ کیا ہے کہ ہر غزل کا مطلع دیا ہے اور اسکے ساتھ کچھ مشہور یا اپنی پسند کے اشعار بھی دے دیئے ہیں۔

ولی دکنی
دل ہوا ہے مرا خرابِ سخن
دیکھ کر حسن بے حجابِ سخن

راہِ مضمونِ تازہ بند نہیں
تا قیامت کھلا ہے بابِ سخن

اے ولی دردِ سر کبھو نہ رہے
جب ملے صندل و گلابِ سخن

ولہ
خوب رو خوب کام کرتے ہیں
یک نگہ میں غلام کرتے ہیں

دل لجاتے ہیں اے ولی میرا
سرو قد جب خرام کرتے ہیں

ولہ
عارفاں پر ہمیشہ روشن ہے
کہ فنِ عاشقی عجب فن ہے

مجکوں روشن دلاں نے دی ہے خبر
کہ سخن کا چراغ روشن ہے

ولہ
عشق بے تاب جاں گدازی ہے
حسن مشتاقِ دل نوازی ہے

اے ولی عیشِ ظاہری کا سبب
جلوۂ شاہدِ مجازی ہے

میر تقی میر
یہ بحر میر کی مرغوب ترین بحروں میں سے لگتی ہے کہ میر کے اس بحر میں سو کے قریب غزلیات صرف دیوانِ اول ہی میں ہیں۔

ہستی اپنی حباب کی سی ہے
یہ نمائش سراب کی سی ہے

نازکی اس کے لب کی کیا کہیئے
پنکھڑی اک گلاب کی سی ہے

میر ان نیم باز آنکھوں میں
ساری مستی شراب کی سی ہے

ولہ
دیکھ تو دل کہ جاں سے اٹھتا ہے
یہ دھواں سا کہاں سے اٹھتا ہے

گور کس دل جلے کی ہے یہ فلک
شعلہ اک صبح یاں سے اٹھتا ہے

عشق اک میر بھاری پتھّر ہے
کب یہ تجھ ناتواں سے اٹھتا ہے

ولہ
قصد اگر امتحان ہے پیارے
اب تلک نیم جان ہے پیارے

گفتگو ریختے میں ہم سے نہ کر
یہ ہماری زبان ہے پیارے

میر عمداً بھی کوئی مرتا ہے
جان ہے تو جہان ہے پیارے

ولہ
بار ہا گور دل جھکا لایا
اب کی شرطِ وفا بجا لایا

ابتدا ہی میں مر گئے سب یار
عشق کی کون انتہا لایا

اب تو جاتے ہیں بتکدے سے میر
پھر ملیں گے اگر خدا لایا

ولہ
اشک آنکھوں میں کب نہیں آتا
لہو آتا ہے جب نہیں آتا

ہوش جاتا نہیں رہا لیکن
جب وہ آتا ہے تب نہیں آتا

عشق کو حوصلہ ہے شرط ورنہ
بات کا کسو ڈھب نہیں آتا

دور بیٹھا غبارِ میر اس سے
عشق بن یہ ادب نہیں آتا

ولہ
ہے غزل میر یہ شفائی کی
ہم نے بھی طبع آزمائی کی

وصل کے دن کی آرزو ہی رہی
شب نہ آخر ہوئی جدائی کی

زور و زر کچھ نہ تھا تو بارے میر
کس بھروسے پہ آشنائی کی

ولہ
ہم ہوئے تم ہوئے کہ میر ہوئے
اس کی زلفوں کے سب اسیر ہوئے

نہیں آتے کسو کی آنکھوں میں
ہو کے عاشق بہت حقیر ہوئے

ولہ
عمر بھر ہم رہے شرابی سے
دلِ پر خوں کی اک گلابی سے

کام تھے عشق میں بہت پر میر
ہم ہی فارغ ہوئے شتابی سے

ولہ
گل و بلبل بہار میں دیکھا
ایک تجھ کو ہزار میں دیکھا

جن بلاؤں کو میر سنتے تھے
ان کو اس روزگار میں دیکھا

ولہ
تا بہ مقدور انتظار کیا
دل نے پھر زور بے قرار کیا

یہ توہّم کا کارخانہ ہے
یاں وہی ہے جو اعتبار کیا

سخت کافر تھا جن نے پہلے میر
مذہبِ عشق اختیار کیا

ولہ
گل کو محبوب میں قیاس کیا
فرق نکلا بہت جو باس کیا

صبح تک شمع سر کو دھنتی رہی
کیا پتنگے نے التماس کیا
ولہ
خوب رو سب کی جان ہوتے ہیں
آرزوئے جہان ہوتے ہیں
کیا رہا ہے مشاعرے میں اب
لوگ کچھ جمع آن ہوتے ہیں
میر و مرزا رفیع و خواجہ میر
کتنے اک یہ جوان ہوتے ہیں
ولہ
ہو گئی شہر شہر رسوائی
اے مری موت تو بھلی آئی
میر جب سے گیا ہے دل تب سے
میں تو کچھ ہو گیا ہوں سودائی
ولہ
رنج کھینچے تھے داغ کھائے تھے
دل نے صدمے بڑے اٹھائے تھے
پاسِ ناموسِ عشق تھا ورنہ
کتنے آنسو پلک تک آئے تھے
میر صاحب رولا گئے سب کو
کل وے تشریف یاں بھی لائے تھے
ولہ
کیا حقیقت کہوں کہ کیا ہے عشق
حق شناسوں کا ہاں خدا ہے عشق
کوہ کن کیا پہاڑ کاٹے گا
پردے میں زور آزما ہے عشق
کون مقصد کو عشق بنِ پہنچا
آرزو عشق، مدّعا ہے عشق
خواجہ میر درد
جگ میں آ کر اِدھر اُدھر دیکھا
تُو ہی آیا نظر، جدھر دیکھا
اُن لبوں نے نہ کی مسیحائی
ہم نے سَو سَو طرح سے مر دیکھا
زور عاشق مزاج ہے کوئی
درد کو قصّہ مختصر دیکھا
ولہ
جگ میں کوئی نہ ٹک ہنسا ہوگا
کہ نہ ہنستے میں رو دیا ہوگا
ان نے قصداً بھی میرے نالے کو
نہ سنا ہوگا، گر سنا ہوگا
دل زمانے کے ہاتھ سے سالم
کوئی ہوگا جو رہ گیا ہوگا
دل بھی اے درد قطرۂ خوں تھا
آنسوؤں میں کہیں گرا ہوگا
ولہ
ہے غلط گر گُمان میں کچھ ہے
تجھ سوا بھی جہان میں کچھ ہے
دل بھی تیرے ہی ڈھنگ سیکھا ہے
آن میں کچھ ہے، آن میں کچھ ہے
اِن دنوں کچھ عجب حال ہے مرا
دیکھتا کچھ ہوں، دھیان میں کچھ ہے
انشاءاللہ خاں انشا
ضعف آتا ہے، دل کو تھام تو لو
بولیو مت، مگر سلام تو لو
انھیں باتوں پہ لوٹتا ہوں میں
گالی پھر دے کے میرا نام تو لو
یک نگہ پر بِکے ہے انشا آج
مفت میں مول اک غلام تو لو
حیدر علی آتش
غیرتِ مہر، رشک ماہ ہو تم
خوبصورت ہو، بادشاہ ہو تم
کیوں کر آنکھیں نہ ہم کو دکھلاؤ
کیسے خوش چشم، خوش نگاہ ہو تم
غلام ہمدانی مصحفی
خواب تھا یا خیال تھا کیا تھا
ہجر تھا یا وصال تھا کیا تھا
جس کو ہم روزِ ہجر سمجھے تھے
ماہ تھا یا وہ سال تھا کیا تھا
مصحفی شب جو چپ تُو بیٹھا تھا
کیا تجھے کچھ ملال تھا کیا تھا
ولہ
یوں تو دنیا میں کیا نہیں ملتا
پر دلِ با صفا نہیں ملتا
بت پرستی سے باز آ اے دل
بت کے پوجے سے خدا نہیں ملتا
ہو کے روکھا وہ یوں لگا کہنے
کیا کرے گا بے، جا نہیں ملتا
ولہ
نہ تو مے لعلِ یار کے مانند
نہ گل اس کے عذار کے مانند
پھر گئیں ہم سے یار کی آنکھیں
گردشِ روزگار کے مانند
تربتِ مصحفی کو دیکھا کل
ڈھیر تھا اک مزار کے مانند
میرزا غالب
غالب کی ایک خوبی یہ بھی ہے کہ ان کے انتہائی مختصر سے دیوان میں جتنی مشہور غزلیں ہیں شاید ہی کسی اور شاعر کی ہوں۔ اور یہی معاملہ اس بحر کے ساتھ ہے کہ کل ملا کر کوئی دس کے لگ بھگ غزلیں اس بحر میں ہیں اور ایک سے بڑھ کر ایک، اور ہر غزل کا تقریباً ہر شعر ہی لا جواب ہے۔ غزلوں کے علاوہ کچھ قطعات اور مثنوی 'در صفتِ انبہ' بھی اسی بحر میں ہے۔
درد منّت کشِ دوا نہ ہوا
میں نہ اچّھا ہوا، بُرا نہ ہوا
جمع کرتے ہو کیوں رقیبوں کو
اک تماشا ہوا، گِلا نہ ہوا
جان دی، دی ہوئی اُسی کی تھی
حق تو یوں ہے کہ حق ادا نہ ہوا
کچھ تو پڑھیے کہ لوگ کہتے ہیں
آج غالب غزل سرا نہ ہوا
ولہ
وہ فراق اور وہ وصال کہاں
وہ شب و روز و ماہ و سال کہاں
تھی وہ اک شخص کے تصور سے
اب وہ رعنائیِ خیال کہاں
فکرِ دنیا میں سر کھپاتا ہوں
میں کہاں اور یہ وبال کہاں
ولہ
کوئی امّید بر نہیں آتی
کوئی صورت نظر نہیں آتی
موت کا ایک دن معیّن ہے
نیند کیوں رات بھر نہیں آتی
جانتا ہوں ثوابِ طاعت و زہد
پر طبیعت ادھر نہیں آتی
کعبے کس منہ سے جاؤ گے غالب
شرم تم کو مگر نہیں آتی
ولہ
دلِ ناداں تجھے ہوا کیا ہے
آخر اس درد کی دوا کیا ہے
جب کہ تجھ بن نہیں کوئی موجود
پھر یہ ہنگامہ اے خدا کیا ہے
ہم کو ان سے وفا کی ہے امّید
جو نہیں جانتے وفا کیا ہے
جان تم پر نثار کرتا ہوں
میں نہیں جانتا دعا کیا ہے
ولہ
پھر کچھ اک دل کو بے قراری ہے
سینہ جویائے زخمِ کاری ہے
پھر اُسی بے وفا پہ مرتے ہیں
پھر وہی زندگی ہماری ہے
بے خودی بے سبب نہیں غالب
کچھ تو ہے جس کی پردہ داری ہے
ولہ
میں انھیں چھیڑوں اور کچھ نہ کہیں
چل نکلتے جو مے پیے ہوتے
قہر ہو یا بلا ہو، جو کچھ ہو
کاشکے تم مرے لیے ہوتے
میری قسمت میں غم گر اتنا تھا
دل بھی، یا رب کئی دیے ہوتے
ولہ
پھر اس انداز سے بہار آئی
کہ ہوئے مہر و مہ تماشائی
ہے ہوا میں شراب کی تاثیر
بادہ نوشی ہے، باد پیمائی
ولہ
نے گلِ نغمہ ہوں نہ پردۂ ساز
میں ہوں اپنی شکست کی آواز
تُو اور آرائشِ خمِ کاکل
میں اور اندیشہ ہائے دور و دراز
مجھ کو پوچھا تو کچھ غضب نہ ہوا
میں غریب اور تُو غریب نواز
ولہ
ابنِ مریم ہوا کرے کوئی
میرے دکھ کی دوا کرے کوئی
بک رہا ہوں جنوں میں کیا کیا کچھ
کچھ نہ سمجھے خدا کرے کوئی
جب توقّع ہی اٹھ گئی غالب
کیوں کسی کا گِلا کرے کوئی
ولہ
درد ہو دل میں تو دوا کیجے
دل ہی جب درد ہو تو کیا کیجے
ان بتوں کو خدا سے کیا مطلب
توبہ توبہ، خدا خدا کیجے
رنج اٹھانے سے بھی خوشی ہوگی
پہلے دل درد آشنا کیجے
موت آتی نہیں کہیں غالب
کب تک افسوس زیست کا کیجے
مومن خاں مومن
اثر اس کو ذرا نہیں ہوتا
رنج، راحت فزا نہیں ہوتا
اس نے کیا جانے، کیا کیا لے کر
دل کسی کام کا نہیں ہوتا
تم مرے پاس ہوتے ہو گویا
جب کوئی دوسرا نہیں ہوتا
کیوں سنے عرضِ مضطر اے مومن
صنم آخر خدا نہیں ہوتا
ولہ
قہر ہے، موت ہے، قضا ہے عشق
سچ تو یہ ہے بری بلا ہے عشق
دیکھئے کس جگہ ڈبو دے گا
میری کشتی کا نا خدا ہے عشق
آپ مجھ سے نباہیں گے، سچ ہے
با وفا حسن، بے وفا ہے عشق
قیس و فرہاد و وامق و مومن
مر گئے سب ہی، کیا وبا ہے عشق
ولہ
مجھ کو تیرے عتاب نے مارا
یا مرے اضطراب نے مارا
مومن از بس ہیں بے شمار گناہ
غمِ روزِ حساب نے مارا
ولہ
امتحاں کے لئے جفا کب تک
التفاتِ ستم نما کب تک
مر چلے اب تو اس صنم سے ملیں
مومن اندیشۂ خدا کب تک
ولہ
عشق نے یہ کیا خراب ہمیں
کہ ہے اپنے سے اجتناب ہمیں
اے تپِ ہجر دیکھ مومن ہیں
ہے حرام آگ کا عذاب ہمیں
ابراہیم ذوق
وقتِ پیری شباب کی باتیں
ایسی ہیں جیسی خواب کی باتیں
پھر مجھے لے چلا ادھر دیکھو
دلِ خانہ خراب کی باتیں
تجھ کو رسوا کرئینگی خوب اے دل
تیری یہ اضطراب کی باتیں
ولہ
خوب روکا شکایتوں سے مجھے
تُو نے مارا عنایتوں سے مجھے
واجب القتل اس نے ٹھرایا
آیتوں سے روایتوں سے مجھے
ولہ
آنکھ اس پر جفا سے لڑتی ہے
جان کُشتی قضا سے لڑتی ہے
شعلہ بھڑکے گا کیا بھلا سرِ بزم
شمع تجھ بن ہوا سے لڑتی ہے
ذوق دنیا ہے مکر کا میداں
نگہ اس کی دغا سے لڑتی ہے
بہادر شاہ ظفر
ہم نے دنیا میں آ کے کیا دیکھا
دیکھا جو کچھ سو خواب سا دیکھا
ہے تو انسان خاک کا پُتلا
لیک پانی کا بلبلا دیکھا
نہ ہوئے تیری خاکِ پا، ہم نے
خاک میں آپ کو ملا دیکھا
ولہ
میں ہوں عاصی کہ پُر خطا کچھ ہوں
تیرا بندہ ہوں، اے خدا کچھ ہوں
سمجھے وہ اپنا خاکسار مجھے
خاکِ رہ ہوں کہ خاکِ پا کچھ ہوں
داغ دہلوی
ساز یہ کینہ ساز کیا جانیں
ناز والے نیاز کیا جانیں
جو رہِ عشق میں قدم رکھیں
وہ نشیب و فراز کیا جانیں
جو گزرتے ہیں داغ پر صدمے
آپ بندہ نواز کیا جانیں
ولہ
نا روا کہئے، نا سزا کہئے
کہئے کہئے مجھے بُرا کہئے
آپ کا خیر خواہ میرے سوا
ہے کوئی دوسرا کہئے
ہوش جاتے رہے رقیبوں کے
داغ کو اور بے وفا کہئے
ولہ
جالِ زُلفِ سیاہ نے مارا
تیرِ کافر نگاہ نے مارا
کھا گیا مغز ناصحِ ناداں
مجھکو اس خیر خواہ نے مارا
دیکھا اے داغ اہلِ دنیا کو
ہوسِ عزّ و جاہ نے مارا
ولہ
سبق ایسا پڑھا دیا تُو نے
دل سے سب کچھ بھلا دیا تُو نے
نارِ نمرود کو کیا گُل زار
دوست کو یوں بچا دیا تُو نے
داغ کو کون دینے والا تھا
جو دیا، اے خدا دیا تُو نے
ولہ
بات میری کبھی سُنی ہی نہیں
جانتے وہ بُری بھلی ہی نہیں
لطفِ مے تجھ سے کیا کہوں زاہد
ہائے کم بخت تُو نے پی ہی نہیں
داغ کیوں تم کو بے وفا کہتا
وہ شکایت کا آدمی ہی نہیں
ولہ
غم اٹھانے کے ہیں ہزار طریق
کہ زمانے کے ہیں ہزار طریق
داغ اب فاقہ مست بن بیٹھے
مانگ کھانے کے ہیں ہزار طریق
مولانا حالی
دھوم تھی اپنی پارسائی کی
کی بھی اور کس سے آشنائی کی
منہ کہاں تک چھپاؤ گے ہم سے
تم کو عادت ہے خود نمائی کی
دل بھی پہلو میں ہو تو یاں کس سے
رکھئے امّید دل ربائی کی
زندہ پھرنے کی ہے ہوس حالی
انتہا ہے یہ بے حیائی کی
ولہ
حق وفا کے جو ہم جتانے لگے
آپ کچھ کہہ کے مسکرانے لگے
سخت مشکل ہے شیوۂ تسلیم
ہم بھی آخر کو جی چرانے لگے
جی میں ہے، لُوں رضائے پیرِ مغاں
قافلے پھر حرم کو جانے لگے
اکبر الہ آبادی
سانس لیتے ہوئے بھی ڈرتا ہوں
یہ نہ سمجھیں کہ آہ کرتا ہوں
شیخ صاحب خدا سے ڈرتے ہیں
میں تو انگریزوں ہی سے ڈرتا ہوں
یہ بڑا عیب مجھ میں ہے اکبر
دل میں جو آئے کہہ گزرتا ہوں
ولہ
اس میں عکس آپ کا اتاریں گے
دل کو اپنے یونہی سنواریں گے
پند اکبر کو دیں گے کیا ناصح
گل کو کیا باغباں سنواریں گے
حسرت موہانی
خوبرویوں سے یاریاں نہ گئیں
دل کی بے اختیاریاں نہ گئیں
دن کی صحرا نوردیاں نہ چھٹیں
شب کی اختر شماریاں نہ گئیں
طرزِ مومن میں مر جا حسرت
تیری رنگیں نگاریاں نہ گئیں
ولہ
نہ کیا بارِ غم کسی نے قبول
غیرِ انساں کہ تھا ظُلُوم و جہُول
بھیجئے تحفۂ درود و سلام
بجنابِ رسول و آلِ رسول
خاصہ بر روح پُر فتوح حسین
نورِ چشمِ علی و جانِ بتول
نوجوانانِ خلد کے سردار
گُلبنِ دوحۂ رسول کے پھول
ولہ
حور و غلماں پہ کیوں فدا ہوتے
اہلِ ظاہر جو پارسا ہوتے
کس قدر سہل ہے حصولِ بقا
دیر لگنی نہیں فنا ہوتے
ولہ
لطف کی اُن سے التجا نہ کریں
ہم نے ایسا کبھی کیا نہ کریں
مل رہے گا جو اُن سے ملنا ہے
لب کو شرمندۂ دعا نہ کریں
جگر مراد آبادی
آدمی آدمی سے ملتا ہے
دل مگر کم کسی سے ملتا ہے
بھول جاتا ہوں میں ستم اس کے
وہ کچھ اس سادگی سے ملتا ہے
سلسلہ فتنۂ قیامت کا
تیری خوش قامتی سے ملتا ہے
ولہ
عاشقی امتیاز کیا جانے
فرقِ ناز و نیاز کیا جانے
سینۂ نے پہ جو گزرتی ہے
وہ لبِ نے نواز کیا جانے
راہرو راہِ بے خودی ہے جگر
وہ نشیب و فراز کیا جانے
ولہ
عشق کو بے نقاب ہونا تھا
آپ اپنا جواب ہونا تھا
تیری آنکھوں کا کچھ قصور نہیں
ہاں مجھی کو خراب ہونا تھا
ہو چکا روزِ اوّلیں ہی جگر
جس کو جتنا خراب ہونا تھا
ولہ
پھر وہ ہم سے خفا ہے کیا کہیئے
زندگی بے حیا ہے کیا کہیئے
چاندنی ہے، ہوا ہے کیا کہیئے
مفلسی کیا بلا ہے کیا کہیئے
ولہ
زندگی ہے مگر پرائی ہے
مرگِ غیرت تری دہائی ہے
اس نے اپنا بنا کے چھوڑ دیا
کیا اسیری ہے، کیا رہائی ہے
فانی بدایونی
ضبط اپنا شعار تھا نہ رہا
دل پہ کچھ اختیار تھا نہ رہا
موت کا انتظار باقی ہے
آپ کا انتظار تھا نہ رہا
مہرباں یہ مزارِ فانی ہے
آپ کا جاں نثار تھا نہ رہا
ولہ
نظر آج ان سے رہ گئی مل کے
آخری کچھ پیام تھے دل کے
خاک ہے تو اُسی گلی کی خاک
اللہ اللہ یہ حوصلے دل کے
مرگِ فانی میں اب تُو دیر نہ کر
سہل فرمانے والے مشکل کے
ولہ
آپ سے شرحِ آرزو تو کریں
آپ تکلیفِ گفتگو تو کریں
وہ اُدھر، رخ اِدھر ہے میّت کا
لوگ فانی کو قبلہ رُو تو کریں
یگانہ چنگیزی
کس کی آواز کان میں آئی
دور کی بات دھیان میں آئی
علم کیا، علم کی حقیقت کیا
جیسی جس کے گمان میں آئی
بات ادھوری مگر اثر دونا
اچھی لکنت زبان میں آئی
میں پیمبر نہیں یگانہ سہی
کیا کمی اس سے شان میں آئی
ولہ
لذّتِ زندگی مبارک باد
کل کی کیا فکر ہر چہ بادا باد
دل سلامت ہے دردِ دل نہ سہی
درد جاتا رہا کہ درد کی یاد
صلح کر لو یگانہ غالب سے
وہ بھی استاد، تم بھی اک استاد
حفیظ جالندھری
دل ابھی تک جوان ہے پیارے
کس مصیبت میں جان ہے پیارے
میں تجھے بے وفا نہیں کہتا
دشمنوں کا بیان ہے پیارے
تیرے کوچے میں ہے سکوں ورنہ
ہر زمیں آسمان ہے پیارے
ولہ
کہہ گئے الفراق یارانے
رہ گئے نا تمام افسانے
ماتمِ اہلِ ظرف کے دن ہیں
اِحتراماً بند ہیں مے خانے
ہم نے روکا حفیظ کو ورنہ
اور بھی کچھ لگے تھے فرمانے
نوح ناروی
آپ جن کے قریب ہوتے ہیں
وہ بڑے خوش نصیب ہوتے ہیں
ظلم سہہ کر جو اُف نہیں کرتے
ان کے دل بھی عجیب ہوتے ہیں
نوح کی قدر کوئی کیا جانے
کہیں ایسے ادیب ہوتے ہیں
ولہ
آپ ہیں، ہم ہیں، مے ہے، ساقی ہے
یہ بھی ایک امرِ اتّفاقی ہے
بے پئے نام تک نہیں لیتا
مجھ کو یہ احترامِ ساقی ہے
اثر لکھنوی
جب نظر سوئے ذات جاتی ہے
تا محیطِ صفات جاتی ہے
ہستی ہوتی ہے اتنی ہی مبہم
جتنی بھی دور بات جاتی ہے
جس کو آنا ہے وہ نہیں آتا
رات آتی ہے رات جاتی ہے
زندگی کا اثر الم کیسا
شے تھی اک بے ثبات جاتی ہے
خمار بارہ بنکوی
ہنسنے والے اب ایک کام کریں
جشنِ گریہ کا اہتمام کریں
ہم بھی کر لیں جو روشنی گھر میں
پھر اندھیرے کہاں قیام کریں
اک گذارش ہے حضرتِ ناصح
آپ اب اور کوئی کام کریں
ہاتھ ہٹتا نہیں ہے دل سے خمار
ہم انھیں کس طرح سے سلام کریں
چراغ حسن حسرت
دل بلا سے نثار ہو جائے
آپ کو اعتبار ہو جائے
قہر تو بار بار ہوتا ہے
لطف بھی ایک بار ہو جائے
یا خزاں جائے اور بہار آئے
یا خزاں ہی بہار ہو جائے
دل پہ مانا کہ اختیار نہیں
اور اگر اختیار ہو جائے؟
جوش ملیح آبادی
ہٹ گئے دل سے تیرگی کے حجاب
آفریں اے نگاہِ عالم تاب
آڑے آیا نہ کوئی مشکل میں
مشورے دے کے ہٹ گئے احباب
جوش کھلتی تھی جن سے دل کی کلی
کیسے وہ لوگ ہو گئے نایاب
ولہ
جب گجر کی صدا جگاتی تھی
ہائے کچھ اور نیند آتی تھی
ہائے وہ زندگی نہیں ملتی
جب ہمیں روز موت آتی تھی
یاد سا ہے کہ اس خرابے میں
کبھی بَرکھا رُت بھی آتی تھی
جوش اب وہ قدم ہیں خاک آلود
جن پہ اکثر وہ سر جھکاتی تھی
فیض احمد فیض
آئے کچھ ابر، کچھ شراب آئے
اس کے بعد آئے جو عذاب آئے
بامِ مینا سے ماہتاب اترے
دستِ ساقی میں آفتاب آئے
کر رہا تھا غمِ جہاں کا حساب
آج تم یاد بے حساب آئے
فیض تھی راہ سر بسر منزل
ہم جہاں پہنچے کامیاب آئے
ولہ
شیخ صاحب سے رسم و راہ نہ کی
شکر ہے زندگی تباہ نہ کی
تجھ کو دیکھا تو سیر چشم ہوئے
تجھ کو چاہا تو اور چاہ نہ کی
تیرے دستِ ستم کا عجز نہیں
دل ہی کافر تھا جس نے آہ نہ کی
ولہ
عشق منّتِ کشِ قرار نہیں
حسن مجبورِ انتظار نہیں
اپنی تکمیل کر رہا ہوں میں
ورنہ تجھ سے تو مجھ کو پیار نہیں
فیض زندہ رہیں وہ ہیں تو سہی
کیا ہوا گر وفا شعار نہیں
ولہ
ہر حقیقت مجاز ہو جائے
کافروں کی نماز ہو جائے
عشق دل میں رہے تو رُسوا ہو
لب پہ آئے تو راز ہو جائے
عمر بے سُود کٹ رہی ہے فیض
کاش افشائے راز ہو جائے
ولہ
ہم نے سب شعر میں سنوارے تھے
ہم سے جتنے سخن تمھارے تھے
رنگ و خوشبو کے، حسن و خوبی کے
تم سے تھے جتنے استعارے تھے
عمر جاوید کی دعا کرتے
فیض اتنے وہ کب ہمارے تھے
ولہ
رازِ الفت چُھپا کے دیکھ لیا
دل بہت کچھ جلا کے دیکھ لیا
اور کیا دیکھنے کو باقی ہے
آپ سے دل لگا کے دیکھ لیا
فیض تکمیلِ غم بھی ہو نہ سکی
عشق کو آزما کے دیکھ لیا
ولہ
پھر حریفِ بہار ہو بیٹھے
جانے کس کس کو آج رو بیٹھے
تھی مگر اتنی رائگاں بھی نہ تھی
آج کچھ زندگی سے کھو بیٹھے
فیض ہوتا رہے جو ہونا ہے
شعر لکھتے رہا کرو بیٹھے
ناصر کاظمی
نیّتِ شوق بھر نہ جائے کہیں
تُو بھی دل سے اتر نہ جائے کہیں
آج دیکھا ہے تجھ کو دیر کے بعد
آج کا دن گزر نہ جائے کہیں
نہ ملا کر اداس لوگوں سے
حسن تیرا بکھر نہ جائے کہیں
آرزو ہے کہ تُو یہاں آئے
اور پھر عمر بھر نہ جائے کہیں
آؤ کچھ دیر رو ہی لیں ناصر
پھر یہ دریا اتر نہ جائے کہیں
ولہ
دل میں اک لہر سی اٹھی ہے ابھی
کوئی تازہ ہوا چلی ہے ابھی
شور برپا ہے خانۂ دل میں
کوئی دیوار سی گری ہے ابھی
بھری دنیا میں جی نہیں لگتا
جانے کس چیز کی کمی ہے ابھی
تم تو یارو ابھی سے اٹھ بیٹھے
شہر میں رات جاگتی ہے ابھی
وقت اچھا بھی آئے گا ناصر
غم نہ کر زندگی پڑی ہے ابھی
ساغر صدیقی
وہ بلائیں تو کیا تماشا ہو
ہم نہ جائیں تو کیا تماشا ہو
یہ کناروں سے کھیلنے والے
ڈوب جائیں تو کیا تماشا ہو
تیری صورت جو اتّفاق سے ہم
بھول جائیں تو کیا تماشا ہو
وقت کی چند ساعتیں ساغر
لوٹ آئیں تو کیا تماشا ہو
ولہ
چاندنی کو رسول کہتا ہوں
بات کو با اصول کہتا ہوں
جگمگاتے ہوئے ستاروں کو
تیرے پاؤں کی دھول کہتا ہوں
اتّفاقاً تمھارے ملنے کو
زندگی کا حصول کہتا ہوں
جب میّسر ہوں ساغر و مینا
برق پاروں کو پھول کہتا ہوں
ولہ
مُدّعا کچھ نہیں فقیروں کا
درد ہے لا دوا فقیروں کا
منزلوں کی خبر خدا جانے
عشق ہے راہنما فقیروں کا
میکدے کی حدود میں ہونگے
کیا بتائیں پتا فقیروں کا
ولہ
غم کے مجرم، خوشی کے مجرم ہیں
لوگ اب زندگی کے مجرم ہیں
دشمنی آپ کی عنایت ہے
ہم فقط دوستی کے مجرم ہیں
ہم فقیروں کی صورتوں پہ نہ جا
خدمتِ آدمی کے مجرم ہیں
احمد فراز
زندگی سے یہی گِلہ ہے مجھے
تُو بڑی دیر سے ملا ہے مجھے
تو محبّت سے کوئی چال تو چل
ہار جانے کا حوصلہ ہے مجھے
ہمسفر چاہیئے ہجوم نہیں
اک مسافر بھی قافلہ ہے مجھے
کوہکن ہو کہ قیس ہو کہ فراز
سب میں اِک شخص ہی ملا ہے مجھے
ولہ
جن کے دم سے تھیں بستیاں آباد
آج وہ لوگ ہیں کہاں آباد
ہم نے دیکھی ہے گوشۂ دل میں
ایک دنیائے بے کراں آباد
کتنے تارے فراز ٹوٹ چکے
ہے ابھی تک یہ خاکداں آباد
ولہ
جب ملاقات بے ارادہ تھی
اس میں آسودگی زیادہ تھی
نہ توقّع نہ انتظار نہ رنج
صبحِ ہجراں نہ شامِ وعدہ تھی
وہ بھی کیا دن تھے جب فراز اس سے
عشق کم عاشقی زیادہ تھی
ولہ
جان سے عشق اور جہاں سے گریز
دوستوں نے کیا کہاں سے گریز
میں وہاں ہوں جہاں جہاں تم ہو
تم کرو گے کہاں کہاں سے گریز
جنگ ہاری نہ تھی ابھی کہ فراز
کر گئے دوست درمیاں سے گریز
سیف الدین سیف
راہ آسان ہوگئی ہوگی
جان پہچان ہوگئی ہوگی
پھر پلٹ کر نگہ نہیں آئی
تجھ پہ قربان ہوگئی ہوگی
دل کی تسکین پوچھتے ہیں آپ
ہاں مری جان ہوگئی ہوگی
مرنے والوں پہ سیف حیرت کیوں
موت آسان ہوگئی ہوگی
ولہ
پھول اس خاکداں کے ہم بھی ہیں
مدّعی دو جہاں کے ہم بھی ہیں
کہہ رہا ہے سُکوتِ لالہ و گُل
زخم خوردہ زباں کے ہم بھی ہیں
ساتھ مثلِ غبار ہو لیں گے
منتظر کارواں کے ہم بھی ہیں
ولہ
روز غم آشکار ہوتے ہیں
کیا یہی رازدار ہوتے ہیں
کیا قیامت ہے ہجر کے دن بھی
زندگی میں شمار ہوتے ہیں
سیف اُمّید کے سہارے بھی
کتنے بے اعتبار ہوتے ہیں
منیر نیازی
خلشِ ہجرِ دائمی نہ گئی
تیرے رُخ سے یہ بے رُخی نہ گئی
پوچھتے ہیں کہ کیا ہُوا دل کو
حسن والوں کی سادگی نہ گئی
اور سب کی حکائتیں کہہ دیں
بات اپنی کبھی کہی نہ گئی
ہم بھی گھر سے منیر تب نکلے
بات اپنوں کی جب سہی نہ گئی
ولہ
اور ہیں کتنی منزلیں باقی
جان کتنی ہے جسم میں باقی
زندہ لوگوں کی بود و باش میں ہیں
مُردہ لوگوں کی عادتیں باقی
وہ تو آ کے منیر جا بھی چکا
اک مہک سی ہے باغ میں باقی
احمد ندیم قاسمی
اشک تھا، چشمِ تر کے کام آیا
میں بشر تھا، بشر کے کام آیا
سیم و زر آدمی کے چاکر تھے
آدمی سیم و زر کے کام آیا
فقر و فاقہ میں مر گیا شاعر
شعر، اہلِ نظر کے کام آیا
ولہ
دل نے صدمے بہت اٹھائے ہیں
آپ لیکن ابھی پرائے ہیں
آپ کیوں سامنے نہیں آتے
آپ کیوں روح میں سمائے ہیں
مختصر یہ ہے داستانِ حیات
پھول ڈھونڈے ہیں خار پائے ہیں
کہکشاں ہے غبارِ راہ ندیم
کس نے یہ راستے سُجھائے ہیں
ولہ
اس سے پہلے کہ حشر آنے لگے
کاش انسان مسکرانے لگے
ظلم صدیوں کے رنگ لانے لگے
وہ جو جلتے رہے، جلانے لگے
چاند پر جب سے لوگ جانے لگے
صرف پتھّر زمیں پہ لانے لگے
احسان دانش
اب کہو کارواں کدھر کو چلے
راستے کھو گئے چراغ جلے
عشق غم کو عبور کر نہ سکا
راستے کارواں کے ساتھ چلے
ہم پہ گزری ہیں ہجر کی راتیں
ہم جہنّم میں تھے مگر نہ جلے
ولہ
جو ترے آستاں سے لوٹ آئے
جنّتِ دو جہاں سے لوٹ آئے
بندگی کے مقام سے آگاہ
سرحدِ لامکاں سے لوٹ آئے
اب تو کعبے میں روشنی کر دو
اب تو کُوئے بتاں سے لوٹ آئے
ولہ
جب جوانی کی دھوپ ڈھلتی ہے
خود سری سر جھکا کے چلتی ہے
تجربہ ہے کہ دشمنی اکثر
دوستی کے لہو سے پلتی ہے
دورِ حاضر کی دوستی احسان
کس قدر جلد رُخ بدلتی ہے
راغب مراد آبادی
بزمِ ہستی میں روشنی کیسی
بجھ گیا دل تو زندگی کیسی
زندگی نام ہے محبّت کا
یہ نہیں ہے تو زندگی کیسی
آج میرے سیاہ خانے میں
اللہ اللہ روشنی کیسی
عبدالحمید عدم
بے سبب کیوں گناہ ہوتا ہے
فکرِ فردا گناہ ہوتا ہے
مجھ کو تنہا نہ چھوڑ کر جاؤ
یہ خلا بے پناہ ہوتا ہے
تجھ کو کیا دوسروں کے عیبوں سے
کیوں عبث روسیاہ ہوتا ہے
اُس گھڑی اُس سے مانگ لو سب کچھ
جب عدم بادشاہ ہوتا ہے
ولہ
عہدِ مستی ہے لوگ کہتے ہیں
مے پرستی ہے لوگ کہتے ہیں
غمِ ہستی خریدنے والو
موت سستی ہے لوگ کہتے ہیں
شاید اک بار اُجڑ کے پھر نہ بسے
دل کی بستی ہے لوگ کہتے ہیں
ولہ
جام کھنکے تو بات پیدا ہو
فرقِ موت و حیات پیدا ہو
پہلی دنیا خراب ہے یا رب
دوسری کائنات پیدا ہو
اور ابلیس اک مسلّط کر
تا کہ امن و ثبات پیدا ہو
بشیر بدر
پھول سا کچھ کلام اور سہی
اک غزل اس کے نام اور سہی
کرسیوں کو سنائیے غزلیں
قتل کی ایک شام اور سہی
ولہ
اس کی چاہت کی چاندنی ہوگی
خوب صورت سی زندگی ہوگی
نیند ترسے گی میری آنکھوں کو
جب بھی خوابوں سے دوستی ہوگی
ہم بہت دور تھے مگر تم نے
دل کی آواز تو سنی ہوگی
واصف علی واصف
سوز و ساز و سخن علی مولا
سایۂ ذوالمنن علی مولا
ردّ ِ رنج و محن علی مولا
زینتِ انجمن علی مولا
میرے من کی لگن علی مولا
رازِ خیبر شکن علی مولا
ولہ
رازِ دل آشکار آنکھوں میں
حشر کا انتظار آنکھوں میں
وہ بھی ہوگا کسی کا نورِ نظر
جو کھٹکتا ہے خار آنکھوں میں
رات کیسے بسر ہوئی واصف
دن کو کیوں ہے خمار آنکھوں میں
ولہ
دوستو، دوستی کا نام نہ لو
ہو چکی، دل لگی کا نام نہ لو
مار ڈالے گی شاعری واصف
بھول کر شاعری کا نام نہ لو
ولہ
کب اڑا لے گئی ہوا مت پوچھ
چار تنکوں کا ماجرا مت پوچھ
تُو نے جو کچھ کہا، تجھے معلوم
میں نے دنیا سے کیا سُنا، مت پوچھ
بے گناہی بھی جرم ہے واصف
اور اس جرم کی سزا مت پوچھ
پروین شاکر
زندگی سے نظر ملاؤ کبھی
ہار کے بعد مسکراؤ کبھی
ترکِ الفت کے بعد امیدِ وفا
ریت پر چل سکی ہے ناؤ کبھی
اندھے ذہنوں سے سوچنے والو
حرف میں روشنی ملاؤ کبھی
اپنے اسپین کی خبر رکھنا
کشتیاں تم اگر جلاؤ کبھی
ولہ
نیند تو خواب ہو گئی شاید
جنسِ نایاب ہو گئی شاید
ہجر کے پانیوں میں عشق کی ناؤ
کہیں غرقاب ہو گئی شاید
چند لوگوں کی دسترس میں ہے
زیست کم خواب ہو گئی شاید
حبیب جالب
شعر ہوتا ہے اب مہینوں میں
زندگی ڈھل گئی مشینوں میں
پیار کی روشنی نہیں ملتی
ان مکانوں میں، ان مکینوں میں
دیکھ کر دوستی کا ہاتھ بڑھاؤ
سانپ ہوتے ہیں آستینوں میں
وہ محبّت نہیں رہی جالب
ہم صفیروں میں، ہم نشینوں میں
عبدالعزیز خالد
خانہ برباد و گل بداماں ہے
عشق بارِ نشاطِ حرماں ہے
چور، منہ زور، بور، رشوت خور
دل برَہمن ہے، لب مسلماں ہے
انقلابات ہیں زمانے کے
خالدِ نظم گو، غزل خواں ہے
ولہ
شرم گرچہ ہے مانعِ گفتار
رنگِ چہرہ ہے کاشفِ اسرار
دل کا گھونگھٹ اٹھے تو جب جانیں
اے تہجّد گذار و شب بیدار
کب وہ دن آئے گا کہ جب ہوگا
کسی آزاد مرد کا دیدار
رئیس امروہوی
میں جو تنہا رہِ طلب میں چلا
ایک سایہ مرے عقب میں چلا
صبح کے قافلوں سے نبھ نہ سکی
میں اکیلا سوادِ شب میں چلا
میں کبھی حیرتِ طلب میں رکا
اور کبھی شدّتِ غضب میں چلا
ولہ
گرد میں اَٹ رہے ہیں احساسات
دھیمے دھیمے برس رہی ہے رات
صبح جاگا تو یاد بھی نہ رہا
رات تھی چاندنی کہ چاندنی رات
کیا یہی ہے رئیس امروہی؟
اُڑ کے آئے ہیں دُور سے ذرّات
جون ایلیا
عمر گزرے گی امتحان میں کیا
داغ ہی دیں گے مجھ کو دان میں کیا
میری ہر بات بے اثر ہی رہی
نقص ہے کچھ مرے بیان میں کیا
مجھ کو تو کوئی ٹوکتا بھی نہیں
یہی ہوتا ہے خاندان میں کیا
یہ مجھے چین کیوں نہیں پڑتا
ایک ہی شخص تھا جہان میں کیا
ولہ
ایک ہی مژدہ صبح لاتی ہے
صحن میں دھوپ پھیل جاتی ہے
کیا ستم ہے کہ اب تری صورت
غور کرنے پہ یاد آتی ہے
سوچتا ہوں کہ اس کی یاد آخر
اب کسے رات بھر جگاتی ہے
کون اس گھر کی دیکھ بھال کرے
روز اک چیز ٹوٹ جاتی ہے
صہبا اختر
فردِ عصیاں کو وہ سیاہی دے
جس کی وہ زلف بھی گواہی دے
دل کے اجڑے نگر کو کر آباد
اس ڈگر کو بھی کوئی راہی دے
مجھ کو نانِ جویں بنامِ علی
میرے دشمن کو مرغ و ماہی دے
مجرمِ عشق ہوں، مجھے صہبا
جو سزا دے وہ بے گناہی دے
---------
کتابیات
حصۂ اول
1-بحر الفصاحت، مولوی نجم الغنی رامپوری، حصہ دوم علمِ عروض۔ مرتب سید قدرت نقوی۔ مجلسِ ترقی ادب، لاہور۔ 2001

2 - A practical handbook of Urdu Meter, F.W. Pritchett and Kh.A. Khaliq (online version).

حصۂ دوم
1- نقوش غزل نمبر۔ ادارۂ فروغِ اردو، لاہور۔ اکتوبر 1985
2- نقوش میر تقی میر نمبر۔ ادارۂ فروغِ اردو، لاہور۔ اکتوبر 1980
3-بیسویں صدی کی اردو شاعری۔ مرتب اوصاف احمد۔ بُک ہوم، لاہور۔ ستمبر 2003
4- البم، مرتب آغا ذوالفقار خان۔ الحمد پبلی کیشنز، لاہور۔ اکتوبر 1992
5-جب میرا انتخاب نکلے، مرتب محمد آصف بھلی۔ عمر پبلشرز، سیالکوٹ۔ ستمبر 1995
6- غزل در غزل، مرتب یوسف مثالی۔ جہانگیر بُک ڈپو، لاہور۔ 1990
7- احمد فراز سے وصی شاہ تک، مرتب حسن عباسی۔ نستعلیق مطبوعات، لاہور۔ جنوری 2005
8- ساحر لدھیانوی سے بشیر بدر تک، مرتب سید امتیاز احمد۔ نستعلیق مطبوعات، جنوری 2005
9- نسخہ ہائے وفا، فیض احمد فیض۔ مکتبہ کارواں، لاہور۔
10- کلیاتِ احمد فراز، ماورا پبلشرز، لاہور
11- کلیات منیر نیازی، ماورا پبلشرز، لاہور
12- ندیم کی غزلیں، احمد ندیم قاسمی۔ سنگِ میل، لاہور۔ 1991
13- کلیات ساغر صدیقی، مشتاق بُک کارنر، لاہور
14- خم کاکل، سیف الدین سیف۔ الحمد پبلی کیشنز، لاہور، اپریل 1992
15- خوشبو، پروین شاکر۔ مراد پبلی کیشنز، اسلام آباد
16- شب چراغ، واصف علی واصف۔ کاشف پبلی کیشنز، لاہور۔ اکتوبر 1994
17- رسوائی نقاب، عبدالحمید عدم۔ آئینۂ ادب، لاہور
18- دواوین شعرائے کرام (ولی دکنی، میر تقی میر، میر درد، آتش، مصحفی، غالب، مومن، ذوق، بہادر شاہ ظفر، داغ، حسرت موہانی، اکبر الہ آبادی، جگر مراد آبادی، ساحر لدھیانوی)


مزید پڑھیے۔۔۔۔

Oct 14, 2010

اندھے

پنجابی کا ایک بڑا پیارا محاورہ ہے، "لیروں لیر کرنا"، پنجابی دوست اس محاورے کی روح تک پہنچ گئے ہوں گے، اردو میں اس کا قریب ترین مترادف شاید دھجیاں اڑانا ہوگا لیکن جو "لیروں لیر" کرنے میں مولوی مدن کی سی بات ہے وہ دھجیاں اڑانے میں کہاں۔ نہ جانے کیوں جب بھی "لیروں لیر" میرے ذہن میں آتا ہے تو ساتھ ہی "لیگوں لیگ" بھی آ جاتا ہے۔ اردو کے حروفِ تہجی گنتے جایئے ختم ہو جائیں گے لیکن مسلم لیگ کے ساتھ جڑے ہوئے حروف ختم نہیں ہونگے۔ لیگ کی تقسیم تو تقسیم سے پہلے ہی شروع ہو گئی تھی، جناح لیگ اور شفیع لیگ تاریخ پر نظر رکھنے والے احباب سے پوشیدہ نہیں ہونگی لیکن وہ دونوں واقعی لیڈر تھے اور پھر ان کے درمیان "بائنڈنگ فورس" کے طور پر علامہ بھی حیات تھے سو اتحاد ہو گیا، لیکن تقسیم کے بعد الامان و الحفیظ، لیگ نے باندیوں والا روپ دھار لیا اور اسکا حشر بھی ویسا ہی ہوا۔

اس معروضے سے یہ نہ سمجھا جائے کہ خاکسار پیپلز پارٹی کا حامی ہے، حامی ہونا تو دور کی بات مجھے تو اس پارٹی کے نام کا مطلب ہی ایک زمانے کے بعد سمجھ میں آیا، یادش بخیر، بچپن کے دن تھے، بھٹو مرحوم کو پھانسی دی گئی تو والدہ نے رو رو کر بُرا حال کر لیا، ماموں مرحوم انکے غم میں برابر کے شریک تھے لیکن اللہ جنت نصیب کرنے والدِ مرحوم، کہ "جماعتیے" تھے، برابر اپنے موقف پر اڑے رہے کہ جو بھی ہوا صحیح ہوا۔ نتیجتہً گھر کی فضا مکدر رہنے لگی لیکن پھر ایک جادو گر نے ایسا جادو کیا اور "اِس لام اُس لام" کا ایسا جنتر منتر کیا کہ والدہ اور ماموں بھی پکے لام لیگیے ہو گئے، لیکن گھر میں "پپل پارٹی پپل پارٹی" کی تکرار برابر ہوتی رہتی تھی اور یہ خاکسار انہی الفاظ کی جھنکار و تکرار میں پروان چڑھا۔

پپل پارٹی سے ہمیشہ میرے ذہن میں پپل (پیپل) کا درخت آتا تھا جو گھر کے باہر سڑک کے کنارے موجود تھا اور سارا دن اسکی چھاؤں میں کھیلتے گذر جاتا تھا۔ وہ بھی کیا دن تھے، گاؤں میں گھر کے اندر درخت ہوتے تھے اور محلوں میں گھر کے باہر، کہیں پیپل، کہیں ٹاہلی، کہیں کیکر اور کہیں "دریک" (نہ جانے اس کو اردو میں کیا کہتے ہیں)، اب تو مدت ہو گئی "دریک" کا درخت دیکھے ہوئے گو ٹاہلی اور کیکر پھر کہیں نظر آ جاتے ہیں۔ دریک پر جب اسکے "درکونے" لگتے تھے تو ان سے جیبیں بھر لی جاتی تھیں اور ہر آتے جاتے لڑکے کے سر میں چھپ کر "درکونا" مارنے کا لطف لیا جاتا تھا۔ درکونے، غلیلے کے طور پر بھی کام آتے تھے اور چھوٹی موٹی چڑیا اس سے مر بھی جاتی تھی، ہزاروں بار غلیل چلائی ہوگی لیکن مجھ سے تو آج تک ایک چڑیا بھی زخمی نہ ہوئی کہ ہمیشہ نشانہ خطا ہی ہوا بلکہ الٹا غلیل کا گوپیا اور اسکی ربر میرے دوسرے ہاتھ پر زور سے لگتی تھی اور میں "سی سی" کر اٹھتا تھا۔ لیکن آفرین ہے ان بندوقوں والوں پر، دہائیوں سے بندوقیں چلا رہے ہیں، شکار پر شکار کرتے چلے جا رہے ہیں، کبھی کوئی نشانہ خطا نہیں ہوا اور کبھی "بیک فائر" بھی نہیں ہوا۔

اسی پیپل کی چھاؤں میں اکثر بنٹے کھیلا کرتا تھا، دو یا چار حریف جب آمنے سامنے بیٹھ کر بنٹے کھیلتے تھے تو اکثر ایک یا دو یا عموماً چاروں ہی ایک نعرہ لگاتے تھے" یا بے ایمانی تیرا ہی آسرا"، یہ اس بات کی علامت ہوتا تھا کہ اس جنگ میں سب جائز ہے، کھیلتے سب تھے لیکن ہاتھ ایک مار جاتا تھا۔ ہڑبونگ اس وقت مچتی تھی جب کہیں سے اچانک بوڑھا ماما محمد حسین چھاپا مارتا تھا اور لڑکوں سے سارے بنٹے چھین کر قریب بہنے والی بڑی سی بدرو میں پھینک دیتا تھا۔

اپنے "اِس لامی جمہور (یا) پاکستان" کا بھی اس وقت کچھ یہی حال ہے، چاروں طرف سے "یا بے ایمانی تیرا ہی آسرا، یا بے ایمانی تیرا ہی آسرا" کے نعرے بلند ہو رہے ہیں اور ادھر ماما محمد حسین کہیں تاک میں لگا ہوا ہے، کچھ سمجھ نہیں آ رہا کہ کیا ہو رہا ہے اور کیا ہونا ہے، بہتر ہے اندھے ہی ہو جائیں۔ کہتے ہیں، ایک دفعہ میانوالی کے کسی دُور افتادہ گاؤں کے دو مُلّے کسی کام سے کراچی گئے اور وہاں ہاکس بے چلے گئے، کچھ دیر تو وہ دونوں مبہوت کھڑے وہاں کے "نظارے" دیکھتے رہے، پھر ایک دوسرے سے کہنے لگا، "اُوئے مام دینا میں تے انّاں ہو گیاں تُوں اکھاں بند کر لے"۔

----------
مزید پڑھیے۔۔۔۔

Jun 5, 2010

چند تازہ رباعیاں، بلاگ کے حوالے سے

صریرِ خامۂ وارث کو اس "نقار خانے" میں دو سال ہو گئے، اسی حوالے سے کچھ رباعیاں کل شام سے ذہن میں گردش کر رہی تھیں سو "جیسی ہیں جہاں ہیں" کی بنیاد پر لکھ رہا ہوں۔ ان رباعیوں میں اگر آپ کو دل برداشتہ اور قلم برداشتہ نظر آؤں تو مجھے انسان سمجھ کر معاف فرما دیں کہ "پتھّر نہیں ہوں میں"، اور کیا لکھوں کہ باقی سب کچھ تو رباعیوں میں لکھ دیا ہے، لیکن یہ ضرور کہوں گا کہ بلاگ سے یاری جاری ہے۔

اک رسم تھی، سو ہے اب تلک وہ جاری
محنت جو لگی خوب تو چوٹیں کاری
جانے کیا سوچ کے بنایا تھا بلاگ
خود ہی میں لکھاری ہوں خود ہی قاری

سوچا ہے سیاست پہ لکھوں گا میں بھی
یعنی کہ غلاظت پہ لکھوں گا میں بھی
اپنی تو نظر آتی نہیں کوئی برائی
اوروں کی نجاست پہ لکھوں گا میں بھی

قاری بڑھ جائیں گے، لکھوں مذہب پر
الفاظ و افکار کے ماروں پتھّر
عالِم ہوں، فاضِل ہوں, پڑھا ہے کلمہ
بس میں ہوں مسلماں باقی سب کافر

یہ بھی ہے بلاگ پہ لکھوں میں گالی
پھر دیکھنا کیسے بجتی ہے تالی
جو عقلِ سلیم آئے سمجھانے کو
تو کہہ دوں، چل بھاگ، حرامی، سالی

محبوب کے انکار میں اقرار کو دیکھ
اپنوں پہ نظر رکھ، نہ تُو اغیار کو دیکھ
کیوں ہوتا ہے گرفتہ دل میرے اسد
چھوڑ اسکی برائیاں فقط "یار" کو دیکھ

والسلام


مزید پڑھیے۔۔۔۔

Jan 29, 2010

چائے خانہ

یہ تحریر خاص اردو محفل کیلیے لکھی گئی تھی، اپنے بلاگ کے قارئین سے بھی شیئر کر رہا ہوں، میرا اس سلسلے میں مزید لکھنے کا ارادہ ہے۔
------

چائے خانہ

پروفیسر تنقید علی خان۔ "۔۔۔۔۔۔ تو جناب میں عرض کر رہا تھا کہ جب تک ہمارے ادبا و شعرا ناخالص دودھ کی بنی ہوئی چائے پیتے رہیں گے، انکی معروضی رویے انکے عروضی رویوں سے الجھتے ہی رہیں گے اور وہ کبھی بھی اس اعلیٰ قسم کی ادبیات تخلیق نہیں کر سکتے جسے تخلیق کہا جا سکے۔"

مولانا سبز وار۔ "قبلہ میرا تو ماننا ہے کہ جب تک گوالا باوضو ہو کر اور قبلہ رو ہو کر، اسمِ اعظم کا ورد کرتے ہوئے دودھ نہیں دوہے گا تب تک ایسا ہی ناخالص دودھ آتا رہے گا چاہے اس میں پانی ملایا جائے یا نہ ملایا جائے، کیا آپ نے نہیں سنا، علامہ فرما گئے ہیں، نگاہِ مرد مومن سے بدل جاتی ہیں سب دھاریں۔"

داد مقصود۔ "واہ واہ واہ، اجی واہ واہ واہ، کیا کہنے جناب، واہ واہ واہ۔"

مولانا سبزوار۔ "آداب۔"

لال خان احمر۔ "میرا کہنا یہ ہے کہ دودھ میں پانی اور پانی میں دودھ ملانے والے دونوں قسم کے گوالوں کو جب تک سولی پر نہیں لٹکایا جاتا اور جب تک انکی بھینسوں کو قومیایا نہیں جاتا تب تک نہ تو اس ملک کے حالات درست ہو سکتے ہیں اور نہ ہی اچھا شعر و ادب تخلیق ہو سکتا ہے، وہ شعر و ادب جو ترقی پسندی کی جان ہے، وہ شعر و ادب جس کی تعلیمات اعلیٰ حضرات لینن اور اسٹالن نے فرمائی ہیں، اپنے نصب العین تک پہنچنے اور ملک میں جدلیاتی مادیت کے نفاذ کے لیے از حد ضروری ہے کہ سب گوالوں کو پھانسی دے دی جائے، ہمارے قبلہ و کعبہ جنابِ فیض احمد فیض فرما گئے ہیں

اے چائے نوشو اٹھ بیٹھو، وہ وقت قریب آ پہنچا ہے
جب دودھ اُبالے جائیں گے، جب جیل گوالے جائیں گے۔"

داد مقصود۔ "واہ واہ واہ، اجی واہ واہ واہ، کیا کہنے جناب، واہ واہ واہ۔"

قاضی قدیر اللہ۔ "چھوڑیں آپ یہ باتیں، فیض احمد فیض کو چائے سے کیا تعلق، وہ تو کڑوے جوشاندے پیتے تھے، اور پھر ان کو گزرے ابھی جمہ جمہ آٹھ دن بھی نہیں ہوئے، کوئی ایک آدھ صدی گزرے گی تو پھر دیکھیں گے کہ ان کی شاعری میں کوئی دم خم بھی تھا یا نہیں، جبکہ دوسری طرف ہمارے علامہ کی پیش بینی دیکھیئے، آج سے کئی دہائیاں پہلے، ایک ہی شعر میں ہمارے اور گوالوں کے متعلق ایسا کلام فرما گئے ہیں کہ صدیوں تک زندہ و جاوید ہو گیا ہے، کیا پیش بینی تھی یعنی کہ انہوں نے اپنی دُور رس نگاہوں سے دیکھ لیا تھا کہ قاضی قدیر فتویٰ دے گا جب کہ ابھی ہم تولد بھی نہیں ہوئے تھے۔"

لال خان احمر۔ "کونسا شعر'"

قاضی قدیر اللہ۔

"تقدیر کے قاضی کا یہ فتویٰ ہے ازل سے
ہے دودھ ملاوٹ کی سزا مرگِ گوالات"

مولانا سبز وار۔ "جزاک اللہ۔"

داد مقصود۔ "واہ واہ واہ، اجی واہ واہ واہ، کیا کہنے جناب، واہ واہ واہ۔"


ساگر ندیم ساگر۔ "ہمیں مردہ پرستی کی سمندر سے نکلنا ہوگا، کب تک ہم اسی بحرِ ذخار کے غوطے کھاتے رہیں گے جبکہ آپ کے سامنے نئے عہد کے ساگر موجزن ہیں، لیکن کسی کا ہماری طرف دھیان ہی نہیں جاتا، سب پی آر کا شاخسانہ ہے، کسی نے ہماری نظم کا ذکر تک نہیں کیا جو ہم نے گوالوں کے موضوع پر لکھی تھی۔"

داد مقصود ۔"ارشاد"

ساگر ندیم ساگر۔

"کاش میں ایک گوالے کا ہی سجّن ہوتا
وہ بڑے پیار سے چاؤ سے بڑے مان کے ساتھ
تازہ خالص، کبھی تو، دودھ پلاتا مجھ کو"

داد مقصود۔ "واہ واہ واہ، اجی واہ واہ واہ، کیا کہنے جناب، واہ واہ واہ۔"

آتش قربان آتش۔ "سرقہ"


ساگر ندیم ساگر۔ "کیا کہا؟"

آتش قربان آتش۔ "سرقہ"

ساگر ندیم ساگر۔ "تم ہوتے کون ہو میری نظم کو سرقہ کہنے والے، تم آج تک خود تو ایک بھی کام کا مصرع کہہ نہیں سکے اور میری تخلیق کو تم سرقہ کہتے ہو۔"

آتش قربان آتش۔ "تمہیں کیا علم شاعری کیا ہے؟ اور میری شاعری کیا ہے، تم، تم۔۔۔۔۔۔۔۔۔"

مولانا سبزوار۔ "صبر، بھائیو صبر، میرا خیال ہے، قاضی قدیراللہ صاحب سے فتویٰ لے لیتے ہیں۔"

قاضی قدیراللہ۔ "اتنے چھوٹے سے مسئلے پر ہمارا فتویٰ، یہ فیصلہ تو پروفیسر تنقید علی خان صاحب ہی کر دیں گے۔ لیکن یہ فیصلہ تو ہوتا رہے گا لیکن چائے کدھر ہے؟ کیا نام ہے اس چائے والے کا؟"

داد مقصود۔ "اسد اللہ"

قاضی قدیر اللہ۔ "اسد، او اسد۔"

پروفیسر تنقید علی خان۔ "جی جی بلائیے اس کو، چائے نہیں ملی تو سر میں درد شروع ہو گیا۔"

مولانا سبزوار۔ "بھئی ہم پر تو اللہ کی رحمت ہے، کوئی نشہ نہیں لگایا خود کو، چائے، لسی، دودھ، دہی، سب پر الحمدللہ کہتے ہیں، بقولِ شاعر

چاء ہے یا دہی ہے تو
میری زندگی ہے تو"

داد مقصود۔ "واہ واہ واہ، اجی واہ واہ واہ، کیا کہنے جناب، واہ واہ واہ۔"

قاضی قدیراللہ۔ "اسد، اوئے اسد کے بچے'"

اسداللہ۔ "جی جی، حضور حاضر ہو گیا۔"

پروفیسر تنقید علی خان۔ "چائے کدھر ہے بھئی۔"

اسداللہ۔ "کیا بتاؤں حضور، پہلے تو خالص دودھ نہیں مل رہا تھا، وہ ملا تو چینی غائب، وہ لایا تو اب گیس نہیں آ رہی، چائے کیسے بناتا۔"

قاضی قدیراللہ۔ "تو کیا چائے نہیں ملے گی؟"

اسداللہ۔ "ملے گئی کیوں نہیں حضور، ایسی چائے پلاؤں گا کہ کیا یاد کریں گے آپ۔"

مولانا سبزوار۔ "لیکن بناؤ گے کیسے، گیس تو آ نہیں رہی۔"

اسداللہ۔ "حضور، اس کا حل میں نے ڈھونڈ لیا تھا، وہ جو لائبریری سے دیوانِ غالب لایا تھا اس کو جلایا ہے چائے بنانے کیلیے، لیکن وہ تھا ہی کتنا، چند تو صفحےتھے، دودھ تک گرم نہیں ہوا اس سے، اب کلیاتِ میر جلا رہا ہوں، ابھی لاتا ہوں چائے۔"

پروفیسر تنقید علی خان۔ "خوب بدلہ لیا ہے بھئی غالب سے، غالب نے اپنا تخلص اسد چھوڑا اور اس اسد نے غالب کا دیوان ہی جلا دیا، اسے کہتے ہیں تاریخ اپنے آپ کو مدوری دور میں دہراتی ہے۔"

داد مقصود۔ "واہ واہ واہ، اجی واہ واہ واہ، کیا کہنے جناب، واہ واہ واہ۔"

اسداللہ۔ "لیجیئے حضور چائے حاضر ہے، ایسی چائے آپ نے کبھی نہیں پی ہوگی جس کے بنانے میں دیوانِ غالب اور کلیاتِ میر کو جلایا گیا ہے بلکہ غالب اور میر کا خون کیا گیا ہے۔"

قاضی قدیراللہ۔ "ہاں بھئی چائے تو واقعی بہت اچھی ہے، پہلی چسکی میں ہی لطف آگیا۔"

مولانا سبزوار۔

"تیری چائے کی کیا کریں تعریف
اسداللہ خاں قیامت ہے"

داد مقصود۔ "واہ واہ واہ، اجی واہ واہ واہ، کیا کہنے جناب، واہ واہ واہ۔"

اسداللہ۔ "بہت شکریہ جناب، آپ چائے سے لطف اندوز ہوں، میں ابھی بِل بنوا کر آیا۔"
----

اسداللہ۔ "ہائیں، یہ سب کدھر گئے، بھاگ گئے؟ واہ بے شاعرو، بِل دیے بغیر ہی بھاگ گئے، اور جاتے ہوئے گلاس اور کپ بھی توڑ گئے، اب لائبریری والوں کو کیا جواب دونگا جن سے دیوانِ غالب اور کلیاتِ میر مانگ کر لایا تھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ہاں لیکن کیا بھی ہو جائے گا، فضول ہی کتابیں ہونگی جو انہوں نے مجھے دے دی تھیں۔"

مزید پڑھیے۔۔۔۔

Aug 28, 2009

ایک تازہ غزل

ایک تازہ غزل دوستوں کے نام

تازہ ہوا کا جھونکا بنایا گیا مجھے
دنیائے بے نمو میں پھرایا گیا مجھے
میں آنکھ سے گرا تو زمیں کے صدف میں تھا
بہرِ جمالِ عرش اُٹھایا گیا مجھے
سازش میں کون کون تھا، مجھ کو نہیں ہے علم
مُصحَف میں اک ہی نام بتایا گیا مجھے
بخشی گئی بہشت مجھے کس حساب میں؟
دوزخ میں کس بنا پہ جلایا گیا مجھے؟
چیخا کبھی جو دہر کے ظلم و ستم پہ میں
قسمت کی لوری دے کے سُلایا گیا مجھے
بیدادِ دہر نے جو کیا سنگ دل ہمیں
تو کربلا دکھا کے رُلایا گیا مجھے
تسخیرِ کائنات کا تھا مرحلہ اسد
یوں ہی نہیں یہ علم سکھایا گیا مجھے

مزید پڑھیے۔۔۔۔

Jul 13, 2009

نکمّے

"کون؟ مسلمان؟"
"نہیں۔"
"ہمارے حکمران؟"
"نہیں۔"
"سیاستدان؟"
"نہیں۔"
"مذہب کے ٹھیکیدار؟"
"نہیں۔"
"سرکاری افسران؟"
"نہیں۔"
"پُلسیے؟"
"نہیں۔"
"سرکاری اسکولوں کے ماسٹر؟"
"نہیں۔"
"کاروباری لوگ؟ دکاندار؟"
"نہیں۔"
"کرکٹ ٹیم کے کھلاڑی؟"
"نہیں۔"
"ہا ہا ہا، شاعر؟"
"نہیں۔"
"تو پھر آخر کون؟"
"پاکستانی فوج کے جرنیل!"
"جرنیل؟، جنہوں نے باسٹھ سالوں میں سے آدھے سال اس ملک پر حکمرانی کی، وہ اور نکمّے؟"
"ہاں، وہی نکمّے، انہوں نے باقی کے آدھے سال اس نکمّوں کے مُلک پر حکمرانی کرنے کے موقعے ضائع کر دیئے۔"
مزید پڑھیے۔۔۔۔

Jun 25, 2009

ایک نئی غزل

ایک تازہ غزل جس کا 'نزول' پرسوں ہوا سو لکھ رہا ہوں۔ عرض کیا ہے۔

نہ سرا ملا ہے کوئی، نہ سراغ زندگی کا
یہ ہے میری کوئی ہستی، کہ ہے داغ زندگی کا

یہی وصل کی حقیقت، یہی ہجر کی حقیقت
کوئی موت کی ہے پروا، نہ دماغ زندگی کا

یہ بھی خوب ہے تماشا، یہ بہار یہ خزاں کا
یہی موت کا ٹھکانہ، یہی باغ زندگی کا

یہ میں اُس کو پی رہا ہوں، کہ وہ مجھ کو پی رہا ہے
مرا ہم نفَس ازَل سے، ہے ایاغ زندگی کا

اسد اُس سے پھر تو کہنا، یہی بات اک پرانی
میں مسافرِ شبِ ہجر، تُو چراغ زندگی کا
مزید پڑھیے۔۔۔۔

Apr 30, 2009

چاندنی راتیں

ملکۂ ترنم نورجہاں جب اپنی دلکش اور پُر سوز آواز میں گاتی ہیں۔ 'تیرے لیے میری طرح جاگے رے، چاندنی رات' تو دل پر تو قیامت سی گزر جاتی ہے لیکن دماغ بھی نہ جانے کیوں ماننے لگ جاتا ہے کہ چاندنی رات کے ساتھ ساتھ ملکۂ ترنم بھی ہمارے لیے جاگ رہی ہیں، سحر شاید اس قسم کی صورتحال کو کہا جاتا ہے۔
چاند اور چاندنی رات، کون دیوانہ ہے جو انکے سحر میں کبھی گم نہ ہوا ہو، یادش بخیر بچپن کے دنوں کی وہ سہانی یادیں ذہن میں تازہ ہیں جب رات کو چھت پر سونے سے پہلے، چارپائی پر لیٹ کر چاند اور بادلوں کی آنکھ مچولی دیکھا کرتا تھا اور پندرہ سال پہلے لاہور میں بتائے ہوئے وہ دن بھی یاد ہیں جب سارا دن سورج آتش برساتا تھا اور چوتھی منزل پر ہمارے پرائیوٹ ہوسٹل کا کمرہ ایک 'مِنی' جہنم کا نقشہ پیش کیا کرتا تھا۔ ہم اور ہمارے دوست، کمرے سے اٹھ کر مین مارکیٹ گلبرگ کے 'راؤنڈ اباؤٹ' کی گھاس پر آ کر لیٹ رہتے تھے اور کبھی بادلوں سے بنی تصاویر میں عکسِ یار ڈھونڈتے تھے اور کبھی چاند کی طرف ٹکٹکی لگائے، دنیا و مافیہا سے بے خبر، اُس سے راز و نیاز میں غلطاں و پیچاں۔ تعلیم مکمل کر کے واپس سیالکوٹ پہنچا اور سنگ و خشت میں ایسا قید ہوا کہ کبھی چاند، اچانک، چلتے چلتے سرِ راہ نظر آ گیا ہو تو علیحدہ بات وگرنہ اُس وقت سے میں اسکے دائمی ہجر میں ہوں۔
زندگی کی ہر کروٹ، حشر ساماں ہوتی ہے اور ہر انگڑائی قیامت خیز اور اب زندگی کی ایک اور کروٹ مجھ سے بہت کچھ اگر لے گئی ہے تو بہت کچھ دے بھی گئی ہے۔ ہفتہ ہونے کو آیا کہ مجھ سے وہ میرا وہ کمرہ چُھوٹ گیا ہے جس میں "بلا شرکتِ غیرے" میں نے اپنی زندگی کے سینتیس سال بتا دیئے، اس کمرے کے ساتھ اتنی یادیں وابستہ ہیں کہ سوچنے لگوں تو بیکار ہو جاؤں اور وہ گھر چھوٹ گیا جس میں پیدا ہوا، پلا بڑھا اور جوان ہوا۔ ہمارا وہ چھوٹا سا آبائی گھر جس کی تین منزلہ عمارت میں، میں ایک طرح سے تہہ خانے میں رہ رہا تھا اب اس سے ہجرت کر کے ساتھ والے گھر میں اٹھ آیا ہوں جس میں کبھی میرے نانا جان مرحوم رہا کرتے تھے اور انکے وہاں سے چلے جانے کے بعد میرے والد صاحب مرحوم نے وہ مکان ان سے خرید لیا تھا۔ ہجرت تو یہ چند ہی قدم کی ہے لیکن فاصلہ شاید اس میں اتنا طے ہو گیا جتنا کبھی انسان نے زمین سے چاند کی جانب طے کیا تھا۔ ایک تین منزلہ عمارت کے سب سے نچلے حصے سے نکل کر ایک دوسری تین منزلہ عمارت کے سب سے اوپر والے حصے میں منتقل ہو گیا ہوں اور سالہا سال بلکہ مدت مدید کے بعد اپنے بچپن کے آشنا 'دُبِ اکبر' کو دیکھا تو ایک عجب ہی جہان میں تھا، لیکن چاند کو نہ دیکھ کر افسوس سا ہوا لیکن کب تلک، اماوس کی راتیں گزر گئیں اور آج کل جمادی الاوّل کا نیا چاند اپنی بہار دکھا رہا ہے، چند دن بعد یہ جب مستعار کی روشنی سے بھر پور چمک اٹھے گا تو منظر دیدنی ہوگا۔
چاندنی راتوں کے کیف و سرور سے بات چلی تو چاند کی مستعار کی روشنی تک پہنچ گئی، سوچ رہا تھا کہ اپنی اس ہجرت پر کچھ شعر وعر کہونگا لیکن چھت پر لیٹ کر آسمان کو تکتے رہنے سے کچھ فرصت نہیں۔ چاند پر بہت سی شاعری ہو چکی لیکن نہ جانے کیوں مجھے 'پروانے' پر کہا ہوا ابوالفیض فیضی کا یہ شعر برابر یاد آ رہا ہے۔
تو اے پروانہ ایں گرمی ز شمعِ محفِلے داری
چو من در آتشِ خود سوز گر سوزِ دلِے داری

اے پروانے تو نے یہ تب و تاب محفل کی شمع سے (مستعار) لی ہے (اور اسی کی آگ میں جل رہا ہے)، میری طرح اپنی ہی آگ میں جل کر دیکھ اگر کچھ سوزِ دل رکھتا ہے تو۔
مزید پڑھیے۔۔۔۔