Jul 29, 2011

کوئے حرَم سے نکلی ہے کوئے بُتاں کی راہ - جعفر طاہر

سید جعفر طاہر مرحوم کی ایک غزل

کوئے حرَم سے نکلی ہے کوئے بُتاں کی راہ
ہائے کہاں پہ آ کے ملی ہے، کہاں کی راہ

صد آسماں بدامن و صد کہکشاں بدوش
بامِ بلندِ یار ترے آستاں کی راہ

ملکِ عدم میں قافلۂ عمر جا بسا
ہم دیکھتے ہی رہ گئے اُس بدگماں کی راہ
urdu poetry, urdu ghazal, ilm-e-arooz, taqtee, Jafar Tahir, جعفر طاہر
جعفر طاہر Jafar Tahir
لُٹتا رہا ہے ذوقِ نظر گام گام پر
اب کیا رہا ہے پاس، جو ہم لیں وہاں کی راہ

اے زلفِ خم بہ خم تجھے اپنا ہی واسطہ
ہموار ہونے پائے نہ عمرِ رواں کی راہ

گُلہائے رنگ رنگ ہیں افکارِ نو بہ نو
یہ رہگزارِ شعر ہے کس گلستاں کی راہ

طاہر یہ منزلیں، یہ مقامات، یہ حرَم
اللہ رے یہ راہ، یہ کوئے بُتاں کی راہ

جعفر طاہر کے متعلق ایک خوبصورت مضمون اس ربط پر پڑھیے۔

-----

بحر - بحر مضارع مثمن اخرب مکفوف محذوف

افاعیل - مَفعُولُ فاعِلاتُ مَفاعِیلُ فاعِلُن
(آخری رکن میں‌ فاعلن کی جگہ فاعلان بھی آسکتا ہے)

اشاری نظام - 122 1212 1221 212
ہندسے دائیں سے بائیں، اردو کی طرح پڑھیے۔
(آخری رکن میں‌ 212 کی جگہ 1212 بھی آ سکتا ہے)

تقطیع -

کوئے حرَم سے نکلی ہے کوئے بُتاں کی راہ
ہائے کہاں پہ آ کے ملی ہے، کہاں کی راہ

کوئے حَ - مفعول - 122
رم سِ نک لِ - فاعلات - 1212
ہِ کوئے بُ - مفاعیل - 1221
تا کی راہ - فاعلان - 1212

ہائے کَ - مفعول - 122
ہا پہ آ کِ - فاعلات -1212
ملی ہے کَ - مفاعیل - 1221
ہا کی راہ - فاعلان - 1212

-----
مزید پڑھیے۔۔۔۔

Jul 23, 2011

ملا آج وہ مجھ کو چنچل چھبیلا - نظیر اکبر آبادی

ملا آج وہ مجھ کو چنچل چھبیلا
ہوا رنگ سُن کر رقیبوں کا نیلا

لیا جس نے مجھ سے عداوت کا پنجہ
سنلقی علیہم عذاباً ثقیلا

نکل اس کی زلفوں کے کوچہ سے اے دل
تُو پڑھنا، قم اللّیلَ الّا قلیلا
Nazeer Akbarabadi, نظیر اکبرآبادی, urdu poetry, urdu ghazal, ilm-e-arooz, taqtee,
نظیر اکبرآبدی Nazeer Akbarabadi
کہستاں میں ماروں اگر آہ کا دم
فکانت جبالاً کثیباً مہیلا

نظیر اس کے فضل و کرم پر نظر رکھ
فقُل، حسبی اللہ نعم الوکیلا

(نظیر اکبر آبادی)

مآخذ: 'نقوش، غزل نمبر'، لاہور، 1985ء

-----

بحر - بحر متقارب مثمن سالم

افاعیل - فَعُولن فَعُولن فَعُولن فَعُولن

اشاری نظام - 221 221 221 221

تقطیع -

ملا آج وہ مجھ کو چنچل چھبیلا
ہوا رنگ سُن کر رقیبوں کا نیلا

ملا آ - فعولن - 221
ج وہ مُج - فعولن - 221
کُ چنچل - فعولن - 221
چھبیلا - فعولن - 221

ہوا رن - فعولن - 221
گ سن کر - فعولن - 221
رقیبو - فعولن - 221
کَ نیلا - فعولن - 221
مزید پڑھیے۔۔۔۔

Jul 21, 2011

کسی انسان کو اپنا نہیں رہنے دیتے - صغیر ملال

صغیر ملال مرحوم کی ایک خوبصورت غزل

کسی انسان کو اپنا نہیں رہنے دیتے
شہر ایسے ہیں کہ تنہا نہیں رہنے دیتے

ان سے بچنا کہ بچھاتے ہیں پناہیں پہلے
پھر یہی لوگ کہیں کا نہیں رہنے دیتے

پہلے دیتے ہیں دلاسہ کہ بہت کچھ ہے یہاں
اور پھر ہاتھ میں کاسہ نہیں رہنے دیتے

کبھی ناکام بھی ہو جاتے ہیں وہ لوگ کہ جو
واپسی کا کوئی رستہ نہیں رہنے دیتے

دائرے چند ہیں گردش میں ازل سے جو یہاں
کوئی بھی چیز ہمیشہ نہیں رہنے دیتے

جس کو احساس ہو افلاک کی تنہائی کا
دیر تک اس کو اکیلا نہیں رہنے دیتے

زندگی پیاری ہے لوگوں کو اگر اتنی ملال
کیوں مسیحاؤں کو زندہ نہیں رہنے دیتے

-----

بحر - بحرِ رمل مثمن مخبون محذوف مقطوع

افاعیل - فاعِلاتُن فَعِلاتُن فَعِلاتُن فَعلُن
(پہلے رکن فاعلاتن کی جگہ مخبون رکن فعلاتن بھی آسکتا ہے، آخری رکن فعلن کی جگہ فعلان، فَعِلن اور فَعِلان بھی آسکتا ہے یوں آٹھ وزن اکھٹے ہو سکتے ہیں)

اشاری نظام - 2212 2211 2211 22
ہندسوں کو اردو کی طرز پر دائیں سے بائیں پڑھیے۔ یعنی 2212 پہلے ہے اور اس میں بھی 12 پہلے ہے۔
(پہلے 2212 کی جگہ 2211 اور آخری 22 کی جگہ 122، 211 اور 1211 بھی آ سکتا ہے)

تقطیع -

کسی انسان کو اپنا نہیں رہنے دیتے
شہر ایسے ہیں کہ تنہا نہیں رہنے دیتے

کِ سِ انسا - فعلاتن - 2211
ن کُ اپنا - فعلاتن - 2211
ن ہِ رہنے - فعلاتن - 2211
دیتے - فعلن - 22

شہر ایسے - فاعلاتن - 2212
ہِ کہ تنہا - فعلاتن - 2211
ن ہِ رہنے - فعلاتن - 2211
دیتے - فعلن - 22
مزید پڑھیے۔۔۔۔