Showing posts with label اردو نثر. Show all posts
Showing posts with label اردو نثر. Show all posts

Nov 29, 2011

نوائے سروش - مولانا شبلی نعمانی اور طبلچی

عبدالرزاق ملیح آبادی نے اپنی کتاب "ذکرِ آزاد"، جو مولانا ابوالکلام آزاد کے ساتھ گزرے ہوئے انکے اڑتیس برسوں کی یادداشتوں پر مشتمل ہے، میں مولانا شبلی نعمانی کا ایک دلچسپ واقعہ مولانا آزاد کی زبانی بیان کیا ہے، ملاحظہ کیجیے۔

"علامہ شبلی نعمانی

جیل میں ایک دن مولانا [ابوالکلام آزاد] نے مرحوم شبلی نعمانی کے متعلق ایک دلچسپ لطیفہ سنایا۔ کہنے لگے، مولانا شبلی نہایت زندہ دل صاحبِ ذوق آدمی تھے، حسن پرست بھی تھے اور موسیقی وغیرہ فنونِ لطیفہ سے گہری دلچسپی رکھتے تھے مگر مولوی تھے، عام رائے سے ڈرتے تھے اور بڑی احتیاط سے اپنا ذوق پورا کرتے تھے۔

ایک دفعہ موصوف دہلی میں حکیم اجمل خاں مرحوم کے ہاں ٹھہرے ہوئے تھے کہ خواجہ حسن نظامی ملنے آئے اور کہنے لگے، آج میرے ہاں قوالی ہے، دہلی کی ایک مشہور طوائف۔۔۔۔(میں نام بھول گیا ہوں) گائے گی۔ محفل بالکل خاص ہے،میرے اور آپ کے سوا وہاں کوئی نہ ہوگا۔

مولانا شبلی نے دعوت قبول کر لی، کشمیری شال اوڑھی، وضع بدلی، بند گاڑی میں بیٹھے اور خواجہ صاحب کے ہاں پہنچ گئے۔ واقعی کوئی تیسرا آدمی مدعو نہ تھا، قوالی شروع ہوئی اور مولانا نے اپنے آپ کو محتسبوں سے محفوظ پا کر ضرورت سے زیادہ آزادی سے کام لیا۔ دل کھول کر گانے کی اور گانے والی کی تعریف کی۔ طوائف سے ہنستے بھی رہے اور اسے چھیڑتے بھی رہے۔
Maulana Shibli Nomani, مولانا شبلی نعمانی
مولانا شبلی نعمانی
Maulana Shibli Nomani
طوائف کا طبلچی ایک لحیم شحیم سن رسیدہ آدمی تھا۔ سر پر پٹے تھے اور منہ پر چوکور بڑی سی داڑھی، پٹے اور داڑھی خضاب سے بھونرا ہو رہے تھے۔ محفل جب برخاست ہونے لگی تو طبلچی دونوں ہاتھ بڑھائے مولانا کی طرف لپکا اور بڑے جوش سے مولانا کے ہاتھ پکڑ لیے، چومے، آنکھوں سے لگائے اور جوش سے کہنے لگا، "کس منہ سے خدا کا شکر ادا کروں کہ عمر بھر کی آرزو آج پوری ہوئی، مولانا سبحان اللہ، ماشاءاللہ، آپ نے "الفاروق" لکھ کر وہ کام کیا ہے جو نہ کسی سے ہوا نہ ہو سکے گا۔ بخدا آپ نے قلم توڑ دیا ہے، بندے کی کتنی تمنا تھی کہ حضرت کی زیارت سے مشرف ہو، سو آج بائی جی اور خواجہ صاحب کی بدولت یہ سعادت اس گنہگار کو نصیب ہوگئی۔"

مولانا آزاد نے فرمایا، علامہ شبلی بڑے ذکی الحس تھے، اس غیر متوقع واقعہ نے انکی ساری خوشی کرکری کر دی۔ شرم سے عرق عرق ہو گئے، سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ کیا کریں؟ طبلچی کو کیا جواب دیں؟ کس طرح محفل سے غائب ہو جائیں؟ بے جان بت کی طرح بیٹھے رہ گئے۔ خواجہ صاحب نے موقع کی نزاکت محسوس کی اور طائفے کو رخصت کر دیا مگر علامہ کو سخت ذہنی صدمہ پہنچ چکا تھا، ہفتوں شگفتہ نہ ہو سکے۔

مولانا نے فرمایا، یہ واقعہ خود علامہ شبلی نے ان سے بیان کیا تھا۔ بیان کرتے وقت بھی متاثر تھے اور بار بار کہتے تھے، کاش "الفاروق" میرے قلم سے نہ نکلی ہوتی اور نکلی تھی تو اسے پڑھنے والا طبلچی اس قوالی سے پہلے ہی ناپید ہو چکا ہوتا، یہ نہیں تو مجھے موت آ گئی ہوتی کہ اس ذلت سے بچ جاتا۔"

(اقتباس از ذکرِ آزاد از عبدالرزاق ملیح آبادی)
----
مزید پڑھیے۔۔۔۔

Oct 26, 2011

نوائے سروش - خواجہ دل محمد اور ڈپٹی نذیر احمد

مولانا عبدالمجید سالک نے اپنی خودنوشت سوانح "سرگزشت" میں انجمنِ حمایت اسلام، لاہور کے ایک جلسے کا ایک دلچسپ واقعہ لکھا ہے، ملاحظہ کیجیے۔

"خواجہ دل محمد اور ڈپٹی نذیر احمد

اس اجلاس میں ایک بہت دلچسپ واقعہ ہوا، جو مجھے اب تک یاد ہے۔ خواجہ دل محمد صاحب ان دنوں کوئی انیس بیس سال کے نوجوان تھے اور اسی سال انہوں نے ریاضی میں ایم - اے کر کے برادرانِ وطن کے اس طعنے کا مؤثر جواب مہیا کیا تھا کہ مسلمانوں کو حساب نہیں آتا۔ خواجہ صاحب کی ایک خصوصیت خاص طور پر حیرت انگیز تھی کہ وہ ریاضی جیسے خشک مضمون کے ساتھ ہی ساتھ بحرِ شاعری کے بھی شناور تھے۔ اس سال انہوں نے ایک پاکیزہ مسدس "کلک گہر بار" کے نام سے پڑھی جس پر بہت پُرشور داد ملی اور انجمن کو چندہ بھی خوب ملا۔

اس اجلاس میں شمس العلماء ڈپٹی نذیر احمد بھی دہلی سے آئے ہوئے تھے، سر پر چوگوشیہ ٹوپی، چہرے پر تعبّس، سفید ڈاڑھی، لمبا سیاہ چغہ جو غالباً ایل ایل ڈی کا گاؤن تھا۔ آپ نے تقریر شروع کی تو دل آویز اندازِ بیان کی وجہ سے سارا جلسہ ہمہ تن گوش ہوگیا۔ آپ نے فرمایا، خواجہ دل محمد بہت ذہین اور لائق نوجوان ہیں اور شاعری فی نفسہ بُری چیز نہیں۔ حسان (رض) بن ثابت حضرت رسولِ خدا (ص) کے شاعر تھے لیکن میں کہتا ہوں کہ جو دماغ زیادہ عملی علوم کے لیے موزوں ہے اسے شعر کے بیکار شغل میں کیوں ضائع کیا جائے۔ اِس پر حاجی شمس الدین اٹھے اور کہا کہ شعر چونکہ مسلمہ طور پر نثر سے زیادہ قلوب پر اثر کرتا ہے اس لیے یہ بھی مقاصدِ قومی کے حصول کے لیے مفید ہے۔ چنانچہ خواجہ صاحب کی نظم پر انجمن کو اتنے ہزار روپیہ چندہ وصول ہوا جو دوسری صورت میں شاید نہ ہوتا۔
Deputy Nazeer Ahmed, ڈپٹی نذیر احمد
ڈپٹی نذیر احمد ﴿تصویر میں نام غلط ہے﴾۔
Deputy Nazeer Ahmed
اس پر مولانا نذیر احمد کسی قدر تاؤ کھا گئے اور کہنے لگے۔ حاجی صاحب چندہ جمع کرنا کوئی بڑی بات نہیں جو شخص خدمت میں ثابت قدم رہتا ہے اس کی بات قوم پر ضرور اثر کرتی ہے۔ یہ کہا اور عجیب دردناک انداز سے اپنی چوگوشیہ ٹوپی اتاری اور فرمایا کہ یہ ٹوپی جو حضور نظام خلد اللہ ملکہ؛ کے سامنے بھی نہیں اتری محض اس غرض سے اتارے دیتا ہوں کہ اس کو کاسہٴ گدائی بنا کر قوم سے انجمن کے لیے چندہ جمع کیا جائے۔ فقیر آپ کے سامنے موجود ہے، کشکول اس کے ہاتھ میں ہے، دے دو بابا، تمھارا بھلا ہوگا۔

بس پھر کیا تھا، جلسے میں بے نظیر جوش پیدا ہو گیا۔ مولانا کی ٹوپی مولانا کے سر پر رکھی گئی اور ہر طرف سے روپیہ برسنے لگا۔ یہاں تک کہ حاجی شمس الدین کی آواز اعلان کرتے کرتے بیٹھ گئی اور جب ذرا جوش کم ہوا تو مولانا نے پھر تقریر شروع کی اور ہنس کر حاجی صاحب سے کہا۔ اس نظم کے بعد ہماری نثر بھی آپ نے سُنی۔"

--اقتباس از سرگزشت از عبدالمجید سالک--
-----
مزید پڑھیے۔۔۔۔

Dec 19, 2009

آتش پارے از سعادت حسن منٹو

سعادت حسن منٹو سا بدنام مصنف بھی شاید ہی کوئی ہوگا، ان کا نام سامنے آتے ہی بہت سے 'ثقہ' حضرات ناک بُھوں چڑھا کر ناگواری کا اظہار کرتے ہیں اور بہت سے "مسخرے" ذومعنی ہنسی ہنسنا شروع کر دیتے ہیں لیکن اردو ادب کا شاید ہی کوئی سنجیدہ قاری ہوگا جو منٹو کے فن کا معترف نہ ہو۔
منٹو کی جو کتاب میں آپ کی خدمت میں پیش کر رہا ہوں، اسکا تعارف اسکے نام میں ہی پوشیدہ ہے۔" آتش پارے" میں منٹو کی جوانی کی تحریریں ہیں، وہ تحریریں جو منٹو کی نمائندہ تحریریں کبھی بھی نہ بن سکیں بلکہ بہت سوں کو تو یہ علم بھی نہ ہوگا کہ منٹو اس طرح کی حریتِ فکر کا مجاہد بھی تھا۔
منٹو مرحوم اس کتاب کے یک سطری دیباچے میں لکھتے ہیں۔
"یہ افسانے دبی ہوئی چنگاریاں ہیں، ان کو شعلوں میں تبدیل کرنا پڑھنے والوں کا کام ہے۔"
Saadat Hasan Manto, سعادت حسن منٹو, Afsany, افسانے
Saadat Hasan Manto, سعادت حسن منٹو
افسوس کہ یہ چنگاریاں کبھی بھی شعلے نہ بن سکیں بلکہ منٹو کے ساتھ ہی راکھ میں مل گئیں، اس راکھ کو 'تبرک' کے طور پر آج سے دو سوا دو سال پہلے ویب کے 'برقی سرد خانے' میں محفوظ کیا تھا وہی آج اپنے بلاگ پر بھی لکھ رہا ہوں۔
اس جگر سوختہ کتاب میں ذیل کے آٹھ افسانے ہیں۔
1- خونی تُھوک
2- انقلاب پسند
3- جی آیا صاحب
4- ماہی گیر
5- تماشا
6- طاقت کا امتحان
7- دیوانہ شاعر
8- چوری

مکمل کتاب اس ربط پر پڑھیے۔

مزید پڑھیے۔۔۔۔

Dec 17, 2009

کتاب 'تعلیم اور ادب و فن کے رشتے' از احمد ندیم قاسمی


احمد ندیم قاسمی مرحوم کی ذات کسی تعارف کی محتاج نہیں، آپ ایک ہمہ جہتی شخصیت تھے، شاعر، افسانہ نویس، مدیر، صحافی اور ماہرِ تعلیم۔
مذکورہ کتاب، قاسمی صاحب کے دس فکر انگیز مضامین پر مشتمل ہے جو انہوں نے پچھلی صدی میں ساٹھ اور ستر کی دہائیوں میں تحریر کیے۔ یہ کتاب "تحقیقی و ترقیاتی مرکز برائے نصابِ تعلیم، محکمہ تعلیم، پنجاب" کے اہتمام سے شائع ہوئی تھی۔ کتاب میں سنِ اشاعت تو نہیں لکھا ہوا لیکن قرائن سے معلوم ہوتا ہے کہ 1973 میں چھپی ہوگی۔
یہ کتاب چونکہ قاسمی صاحب نے محکمۂ تعلیم کو بلا معاوضہ شائع کرنے کی اجازت دی تھی، اسلیے مجھے بہتر معلوم ہوا کہ اسکو ٹائپ کر کے یہاں پر پیش کیا جائے تاکہ قاسمی صاحب کے یہ نادر و نایاب مضامین محفوظ رہ سکیں۔
گو کہ مضامین پرانے ہیں لیکن ان میں قاسمی صاحب نے جن حقائق کی طرف اشارہ کیا ہے اور ہمارے نظامِ تعلیم کی جن خامیوں کو اجاگر کیا ہے وہ نہ صرف اسی طرح موجود ہیں بلکہ شاید پہلے سے بھی بڑھ گئی ہیں اسلئے ان مضامین کی حقانیت ویسے ہی ہے جیسے کہ تیس، چالیس سال پہلے تھی۔
Ahmed Nadeem Qasmi, احمد ندیم قاسمی
Ahmed Nadeem Qasmi, احمد ندیم قاسمی
یہ مضامین، جیسا کہ کتاب کے نام سے ظاہر ہے، تعلیم، ادب اور فن کے متعلق ہیں۔ تعلیم میں بھی قاسمی صاحب نے بچوں کی تعلیم اور انکے ادب کے متعلق خصوصی توجہ دلائی ہے، اور ہمارے نظامِ تعلیم کا یہ عجب المیہ ہے کہ بچوں کی تعلیم کے حوالے سے جو مشکلات پچاس، ساٹھ سال پہلے تھیں وہ اب بھی ہیں، گو اب بچوں کو تعلیم دلانے کے مواقع اور وسائل پہلے کی نسبت بہت زیادہ ہیں، مگر "کمرشل ازم" نے اسکولوں کا حلیہ اور تعلیم کا معیار بگاڑ کر رکھ دیا ہے۔
فن اور ادب کے حوالے سے بھی کافی دلچسپ مضامین آپ کو پڑھنے کو ملیں گے، خاص طور پر "شعر و شاعری کا فائدہ" اور دیگر۔ مضامین کی مکمل فہرست کچھ یوں ہے۔
1- بچوں کا ادب
2- پاکستانی بچوں کیلیے کتابیں
3- ادب کی تعلیم اور اساتذہ
4- ادب کی تعلیم کا مسئلہ
5- نصابِ تعلیم میں سے اقبال کا اخراج
6- پاکستان کی نئی نسل اور جدید ادب
7- شعر و شاعری کا فائدہ
8- فن کا اثبات
9- مادی ترقی اور قومی ثقافت
10- سائنس کے اثبات کیلیے شاعری کی نفی کیوں؟

ان مضامین کو ٹائپ کرتے ہوئے ایک کام میں نے یہ کیا ہے کہ مضامین کے آخر میں انکی تحریر کا زمانہ لکھا ہوا تھا اسکو میں نے مضامین کے عنوان کے ساتھ شروع میں ہی دے دیا ہے تاکہ جو اعداد و شمار یا واقعات زمانی بعد سے تبدیل ہو چکے ہیں یا ماضی بعید کا حصہ بن چکے ہیں، وہ قارئین کو کسی قسم کی پریشانی میں نہ ڈال دیں اور پہلے ہی وضاحت ہو جائے۔

مکمل کتاب اس ربط پر پڑھی جا سکتی ہے۔

مزید پڑھیے۔۔۔۔

Dec 16, 2009

سیاہ حاشیے از سعادت حسن منٹو

تقسیمِ ہندوستان کے پس منظر میں لکھی گئی سعادت حسن منٹو کی شہرہ آفاق کتاب 'سیاہ حاشیے' اس خاکسار نے آج سے کوئی دو سال قبل ٹائپ کر کے اردو ویب لائبریری پر عام افادے کیلیے رکھی تھی، اسی کا ربط دے رہا ہوں۔ یہاں یہ بھی واضح کردوں کہ منٹو کی کتب کاپی رائٹس فری ہو چکی ہیں اور پبلک ڈومین میں ہیں۔
یہ کتاب چھوٹے چھوٹے 'شذرات' یا انتہائی مختصر افسانوں پر مشتمل ہے لیکن اپنے مطالب و معنی میں بحرِ بیکراں لیے ہوئے ہے، انتہائی فکر انگیز اور مبنی بر انصاف تحاریر ہیں۔ منٹو اسکے انتساب میں لکھتے ہیں۔
اس آدمی کے نام
جس نے اپنی خونریزیوں کا ذکر کرتے ہوئے کہا
"جب میں نے ایک بڑھیا کو مارا تو مجھے ایسا لگا مجھ سے قتل ہوگیا ہے۔"

کتاب اس ربط پر پڑھی جا سکتی ہے۔

Saadat Hasan Manto, سعادت حسن منٹو, Afsany, افسانے
Saadat Hasan Manto, سعادت حسن منٹو


مزید پڑھیے۔۔۔۔

Apr 13, 2009

رالف رسل از محمود ہاشمی



بابائے اردو برطانیہ، پروفیسر رالف رسل مرحوم کے بارے میں یہ خاکہ 'نقوش' کے سالنامہ جون 1985ء میں چھپا تھا، اسے اپنے بلاگ کے قارئین کیلیے پیش کر رہا ہوں۔ انکی ایک یادگار تصویر انکی، غالب کی فارسی غزلیات کے انگریزی ترجمے کی کتاب سے لی ہے، 'غالب کی فارسی غزلوں سے انتخاب' نامی اس کتاب میں رالف رسل کے انگریزی ترجمے کے ساتھ ساتھ افتخار احمد عدنی کے منظوم تراجم ہیں اور یوں یہ کام ایک شاہکار بن گیا ہے۔ خاکسار کا مرتب کردہ، اس کتاب میں سے کچھ غزلیات کا انتخاب مع دیگر تراجم، اردو لائبریری کے اس ربط پر دیکھا جا سکتا ہے

رالف رسل از محمود ہاشمی
رالف رسل کا نام میں نے آج سے چالیس پینتالیس سال پہلے سنا تھا، ایک محفل میں ایک صاحب نے باتوں باتوں میں کہا۔
"یار، ایک انگریز ہے لیکن اردو بولتا ہے تو معلوم ہوتا ہے ماں کے پیٹ سے سیکھ کر آیا ہے۔"
محفل میں ایک کشمیری صاحب بیٹھے تھے، انہوں نے کہا۔
"یار، کوئی کشمیری پنڈت ہوگا، گورا رنگ دیکھ کر تم نے اسے انگریز سمجھ لیا۔"
وہ صاحب بولے۔
بابائے اردو برطانیہ پروفیسر رالف رسل, Ralph Russel, رالف رسل
Ralph Russel, رالف رسل
"بھئی کشمیری پنڈت ہوتا تو نام ہی سے پتا چل جاتا، رالف رسل نام تھا، کیا یہ نام کسی کشمیری پنڈت کا ہو سکتا ہے؟"
لیکن ہمارے کشمیری دوست ہر بات جھٹلانے اور کسی کی ہرگز ہرگز نہ ماننے کے موڈ میں تھے، فوراً بولے۔
"اچھا تو تم رحمت رسول کی بات کر رہے ہو، بھئی وہ واقعی کشمیری پنڈت نہیں، سوری، آئی ایم ویری ویری سوری۔ اصل میں اسکا خاندان اور ڈاکٹر اقبال کا خاندان کشمیر کی وادی سے ایک ساتھ نکلے تھے۔ ڈاکٹر اقبال کے بڑے بزرگ نے جونہی سرحد پار کی اور پنجاب کے شہر سیالکوٹ پہنچے تو وہیں ٹِک گئے لیکن رحمت رسول کے باوا نے دلی جا کر دم لیا۔ یہ رحمت رسول خالص دلی کی پیداوار ہے، پر ہے بڑا مسخرہ، بالکل انگریز لگتا ہے اور یار لوگ دوسروں کو بیوقوف بنانے کیلیے اسے لیے پھرتے ہیں، انگریز کہہ کر تعارف کراتے ہیں اور اسکا رالف رسل نام بتاتے ہیں۔"
اُن صاحب نے جنہوں نے یہ ذکر شروع کیا تھا، کچھ کہنے کیلیے اپنا منہ کھولا، لیکن محفل پر ہنسی کا ایک ایسا دورہ پڑ چکا تھا کہ اس نقار خانے میں انکی آواز طُوطی کی آواز بن کر رہ گئی۔۔۔۔۔۔۔۔۔اور بات آئی گئی ہو گئی۔
کچھ دن بعد پھر اُسی محفل میں جانے کا اتفاق ہوا تو وہ صاحب جنہوں نے رالف رسل کو رحمت رسول بنا کر اور اس کا شجرۂ نسب کشمیر کی وادی سے دریافت کر کے دلی سے جوڑا تھا، ذرا سنجیدگی کے مُوڈ میں تھے اور باتیں رالف رسل ہی کی ہو رہی تھیں، وہ کہہ رہے تھے۔
"یار جب میں یہ سنتا ہوں کہ ایک انگریز رالف رسل اردو بولتا ہے اور صحیح بولتا ہے تو مجھے خوشی ہوتی ہے لیکن جب لوگ اُس کی اِس خوبی کا ذکر اسطرح کرتے ہیں جیسے کوئی معجزہ ظہور میں آ گیا ہو، تو جی چاہتا ہے اپنا سر پیٹ لوں یا کہنے والے کا سر پھوڑ دوں۔ میں بھی رالف رسل کی عظمت کا معترف ہوں لیکن میں اُس سے محض اس لیے متاثر نہیں ہوتا کہ وہ اردو صحیح بولتا ہے، آخر ہم میں سے بھی بہت سے اسکی مادری زبان انگریزی بولتے ہیں اور اکثر صحیح بولتے ہیں۔ بھلا یہ کیا بات ہوئی۔۔۔۔۔۔۔۔۔ہاں میں اِس انگریز کا معترف ہوں تو اس لیے کہ اس نے اس اردو کو اپنایا ہے جسے اپنے گھر میں بھی وہ عزت اور احترام نہیں ملتا جو اسکا حق ہے۔ ہمارے لیے اردو سے زیادہ انگریزی "محترم" ہے۔ ہم انگریزی زبان میں قابلیت بڑھانے کو ترقی کی معراج سمجھتے ہیں اور ان لوگوں کو جو اردو کے متوالے ہیں، کمتر قسم کی مخلوق سمجھ کر قبول کرتے ہیں۔ اردو کروڑوں عوام کی زبان ضرور ہے لیکن ہمارے خواص اس سے بدکتے ہیں۔ وہ لوگ جو اردو میں ادب تخلیق کرتے ہیں اور شعر و شاعری کو اپنا شعار بناتے ہیں انہیں بھی ہمارے خواص ہی برداشت کرتے ہیں، کچھ اپنی وسیع القلبی کا مظاہرہ کرنے کیلیے اور بعض اوقات محض تفریحِ طبع اور دل بہلاوے کی خاطر۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"
میرا دوست بہت سنجیدہ ہو رہا تھا، اس نے کہا۔ "رالف رسل ہمارے لیے اہم ہے، بہت اہم ہے۔ ہمیں اپنی زبان کو اپنے ہاں کے خواص میں قابلِ قبول بنانے کیلیے اس جیسے خاص الخاص انگریز کی بڑی ضرورت ہے، اسکا وجود ہمیں احساس دلاتا ہے کہ دیکھو تم خواہ مخواہ احساسِ کمتری میں مارے جا رہے ہو، مجھے دیکھو، اگر تمھاری یہ اردو اتنی ہی گئی گزری ہوتی تو مجھے کیا پڑی تھی کہ اپنے منہ کا ذائقہ خراب کرتا اور اس سے محبت کی جوت جگاتا۔"
میں سمجھتا ہوں میرے اس کشمیری دوست نے غلط نہیں کہا تھا۔
یہ درست ہے کہ رالف رسل کے علاوہ اور بھی بہت سے انگریزوں نے اردو کو قابلِ توجہ سمجھا بلکہ بعض نے تو اردو میں شاعری تک کی اور حقہ پی پی کر شعر کہے، لیکن یہ عام طور پر اس زمانے کی باتیں ہیں جب انگریز اور اسکی انگریزی نے ابھی ہمیں اپنے دام میں گرفتار نہیں کیا تھا۔ ہمارا اپنا تشخص برقرار تھا اور ہمیں اس پر ناز بھی تھا۔ انگریزوں کی ایسٹ انڈیا کمپنی ہندوستان میں تازہ وارد تھی اور ایک نئے ملک کے لوگوں کو سمجھنے اور ان میں مقبول ہونے کے لیے انگریز اس طرح کا ہر اقدام کر رہا تھا جو اس کو مفیدِ طلب معلوم ہوتا تھا۔ ملک کا مکمل طور پر حاکم بن جانے کے بعد محبتوں کا یہ زمانہ بہت حد تک ختم ہو گیا۔ اب ہماری باری تھی اور ہم پر لازم ہونے لگا تھا کہ انگریزی کو اپنائیں، تاہم اب بھی حکمران طبقے کے کچھ لوگ اردو میں دلچسپی لینے پر مجبور تھے۔ اِن میں عام طور پر وہ پادری تھے جو "نیٹوز" میں مذہب کا پرچار کرنے کیلیے اردو سیکھتے تھے۔ انہیں زبان کے لطیف پہلوؤں سے کوئی غرض نہ تھی اور وہ ایک "کام چلاؤ" قسم کی اردو سے مطمئن تھے۔ پادریوں کے علاوہ ایک اور قابلِ ذکر طبقہ جو اردو سیکھتا تھا اور اسے "ہندوستانی" کہتا تھا، برطانوی افسران اور انکی میم صاحبائیں تھیں جو اپنے نوکروں، خانساموں اور مالیوں وغیرہ پر حکم چلانے کے لیے یہ "دردِ سر" مول لیتی تھیں۔ انکا مبلغِ علم عام طور پر اسطرح کے چند جملوں تک محدود ہوتا تھا کہ "کٹنا بجا ہے" اور "آل دی سب چیز ٹیک ہے۔"۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔زبان کے صحیح تلفظ، لب و لہجہ اور اسکے دوسرے لوازمات کی طرف توجہ دینے کی نہ ان میں سے کسی کو ضرورت تھی اور نہ وہ اس کیلیے محنت کرنے کیلیے تیار تھے۔ بہرحال کچھ انگریز ایسے بھی تھے اور اب بھی ہیں جنہوں نے اردو کے ساتھ اگر اپنا تعلق قایم کیا تو اسے ایک اہم زبان سمجھ کر اور نہایت خلوص کے ساتھ۔ انہوں نے رالف رسل کی طرح اردو کے قواعد و ضوابط بھی سیکھے، اسکا مزاج بھی اپنایا اور اس سے تہذیبی رشتے بھی جوڑے۔ لیکن ان کی تعداد کم۔۔۔۔۔۔۔بہت کم تھی، اور انہیں ہاتھ۔۔۔۔۔صرف ایک ہاتھ کی انگلیوں پر گنا جا سکتا ہے۔ اب البتہ انکی تعداد بڑھ رہی ہے اور اس میں کوئی مبالغہ نہ ہوگا اگر یہ کہا جائے کہ اسکی ایک وجہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔خاصی بڑی وجہ رالف رسل ہیں۔ انگریزوں کی اردو دان برادری جو رالف رسل کے بعد پیدا ہوئی ہے اور ہو رہی ہے وہ کسی نہ کسی طرح رالف رسل ہی کا پر تو ہے۔ اس ایک چراغ سے کئی نئے چراغ جلے ہیں اور اس سلسلہ میں زندہ و تابندہ رالف رسل اور اسکی "گل افشانیِ گفتار" کا بہت بڑا دخل ہے۔
رالف رسل صاحب سے میری پہلی ملاقات ان دنوں ہوئی جب میں برطانیہ میں نووارد تھا اور یہاں کی دوسری "قابلِ دید" چیزوں کے ساتھ ساتھ ان سے ملنا اور انہیں دیکھنا ضروری کاموں میں سے ایک تھا۔ چنانچہ میں نے یہ ضروری کام کیا اور اس رالف رسل کو دیکھا جو برطانیہ کی اس انگریز دنیا میں اردو کا چراغ جلائے بیٹھا ہے۔ اسکے بعد چلتے چلاتے کی دو چار اور ملاقاتیں بھی ہوئیں جن میں سے ایک مجھے خاص طور پر یاد ہے۔
ہم دونوں کو اوپر کی ایک منزل سے نیچے اترنا تھا اور ہم جلدی میں تھے، کئی دفعہ ایسا ہوتا ہے کہ بٹن دبانے کے بعد کچھ دیر 'لفٹ' کا انتظار کرنا پڑتا ہے لیکن کچھ ایسا اتفاق ہوا کہ جونہی ہم نے بٹن دبایا لفٹ سامنے آ کھڑی ہوئی، اس پر رالف رسل صاحب نے ایک نعرہ لگایا۔
"زندہ باد!"
میں نے چونک کر انہیں دیکھا اور دل میں سوچا "یہ شخص صرف اردو بولتا ہی نہیں، اردو کے ساتھ رہنا بھی جانتا ہے۔"
لیکن انکے اصل جوہر مجھ پر پچھلے چار پانچ سال میں کھلے، جب مجھے انہیں ذرا زیادہ قریب سے دیکھنے کا موقع ملا اور مجھے معلوم ہوا کہ یہ صرف اردو بولتے ہی نہیں اور خود اردو پڑھ کر لندن یونیورسٹی کے سکول آف اورینٹل اینڈ افریکن سٹڈیز میں صرف اردو پڑھانے پر ہی اکتفا نہیں کرتے بلکہ انہوں نے یہ بیڑا بھی اٹھا رکھا ہے کہ سارے برطانیہ کو اردو دان بنا کر دم لیں گے۔ اس سلسلہ میں لندن سے گلاسگو تک کا قریب قریب ہر شہر انکی زد میں ہے۔ اِس شہر میں ایشیائی بچوں کو اردو پڑھانے جا رہے ہیں تو اُس شہر میں انگریز بالغوں کیلیے اردو پڑھانے کا کورس جاری کر رکھا ہے۔ آج ایک شہر میں وہاں کے کسی سکول کے ہیڈ ٹیچر کو اس بات پر آمادہ کر رہے ہیں کہ وہ اپنے سکول میں اردو کو باقاعدہ نصاب میں شامل کر لے تو کل کسی اور شہر میں وہاں کے ایجوکیشن آفیسر، انسپکٹر یا ایڈوایئزر کو برطانوی سکولوں میں اردو پڑھانے کی اہمیت کا قائل کر رہے ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اور یہ رالف رسل صاحب کی بھاگ دوڑ ہی کا نتیجہ ہے کہ لندن میں ایک اردو کانفرنس ہوئی اور پھر دوسرے سال بڑے دھڑلے سے ایک اور ہوئی۔ دونوں کانفرنسوں میں ملک کے اربابِ اقتدار اور محکمۂ تعلیم کے با اثر نمائندوں کو خاص طور پر شریک کیا گیا تا کہ برطانوی ذہنوں پر اردو کے بارے میں کم علمی کے جو غلاف چڑھے ہیں وہ اتر جائیں، اور وہ بھی اپنے ہاں کے سکولوں میں اردو کو ایک باقاعدہ مضمون کی حیثیت دینے کے بارے میں سوچیں اور عملی قدم اٹھائیں۔
ایک صاحب سے جو یہاں کے سکولوں میں پنجابی زبان کو نصاب میں شامل کرنے کے بارے میں بڑے مستعد ہیں، ایک کانفرنس میں ملاقات ہوئی تو کہنے لگے۔
"برطانیہ کے ایشیائیوں میں سب سے زیادہ پنجابی بولنے والے ہیں اس لحاظ سے یہاں کے سکولوں میں پنجابی کو اردو سے پہلے اسکا جائز مقام ملنا چاہیئے لیکن معاملہ اسکے برعکس ہے۔ تم لوگ بڑے خوش قسمت ہو کہ تمہیں ایک رالف رسل مل گیا ہے ورنہ تم اردو والے تو انشاءاللہ، ماشاءاللہ والے ہو، ہر کام اللہ کے سپرد کر کے خود کچھ نہیں کرتے، اگر یہ رالف رسل نہ ہوتا تو تم بس مشاعرے ہی کرتے رہتے اور ہم تمھارے بچوں کو بھی گورمکھی رسم الخط میں پنجابی پڑھا دیتے۔"
مانچسٹر میں ایک انجمن ہے جسکا نام ہے "نیشنل ورکنگ پارٹی اون سٹیریلز فار اردو ٹیچنگ"، اسکے معتمد وہاں کے کرس لیوکی صاحب ہیں لیکن روحِ رواں ہمارے رالف رسل ہی ہیں۔ یہ انجمن اس لیے قایم کی گئی ہے کہ برطانوی سکولوں میں اردو پڑھنے والے طلباء کے لیے مناسب اور موزوں کتب کی جو کمی محسوس ہوتی ہے اس پر سوچ و بچار کرے اور اس کمی کو دور کرنے کیلیے عملی اقدامات کرے۔ مانچسٹر میں اردو کے استادوں کے گروپ نے اپنے ہاں کے سکولوں کیلیے کچھ ابتدائی کتابیں تیار کی ہیں اور اس سلسلہ میں خاصا مفید کام ہو رہا ہے۔ کچھ عرصہ ہوا، انجمن کی ایک میٹنگ میں طے پایا کہ ایک "اردو نیوز لیٹر" چھپنا چاہیئے تا کہ اردو پڑھنے پڑھانے کے سلسلہ میں جو کام ہو رہا ہے اسکا دوسروں کو بھی پتا چلتا رہے۔ اب مسئلہ درمیان میں یہ آن پڑا کہ یہ "نیوز لیٹر" کون تیار کرے اور اسے متعلقہ افراد اور انجمنوں تک پہنچانے کی ذمہ داری کس کی ہو؟۔۔۔۔۔۔۔۔۔ہم میں سے جو سگریٹ پیتے تھے انہوں نے سگریٹ اور پائپ والوں نے اپنے پائپ سلگا لیے اور ہر شخص ایک گہری سوچ میں ڈوب گیا۔ آخر کار وہ شخص جو سگریٹ پیتا ہے نہ پائپ، اور جو اسطرح کے کاموں کیلیے کسی گہری سوچ اور "اندیشہ ہائے دور و دراز" کا قائل نہیں اور جسکا نام رالف رسل ہے، آڑے آیا اور بولا۔
"یہ کام میں کر دیا کروں گا۔"
ہم سب نے عافیت کی سانس لی۔
اس انجمن کو بھی (جس کی افادیت اسکے نام ہی سے ظاہر ہے) متحرک رکھنے میں رالف رسل کا بڑا حصہ ہے ورنہ مجھ ایسے شاید محض "نشستند و گفتند و برخاستند" پر ہی مطمئن رہتے۔ رالف رسل جو خود "جاوداں، پیہم دواں اور ہر دم جواں" رہتے ہیں دوسروں کو محض "تصورِ جاناں کئے ہوئے" بیٹھے نہیں دیکھ سکتے۔ ایک مرتبہ میری جو شامت آئی تو میں نے ان سے کہہ دیا کہ "میں اردو کا ایک قاعدہ لکھ رہا ہوں۔"
جسکا نتیجہ یہ ہوا کہ یہ قاعدہ واقعی لکھا گیا۔ رالف رسل نے اس میں کچھ اسطرح دلچسپی لی کہ مجھے خیریت اسی میں نظر آئی کہ قاعدہ مکمل ہو ہی جائے تو اچھا ہے ورنہ رالف رسل صاحب سے جو تھوڑی بہت صاحب سلامت ہے وہ جاتی رہے گی۔
شروع شروع میں تو میں ان سے کہتا رہا کہ لکھ رہا ہوں، اب یہ کر رہا ہوں، اب وہ کر رہا ہوں، پھر ایک دن کہنے کو کچھ اور نہ سوجھا تو کہا۔
"بس اب مکمل ہی سمجھئے، کسی دن آپ کو فرصت ہو تو دکھاؤں گا تا کہ آپ کی رائے معلوم ہو سکے۔"
چند دن بعد ہی انکا ٹیلی فون آیا کہ۔
"میرے پاس فلاں دن خالی ہے، آپ اپنا قاعدہ لیکر یہاں آ جائیے یا میں آپ کے ہاں آتا ہوں۔"
اور پھر مقررہ دن، مقررہ وقت پر رالف رسل صاحب کاغذ، پنسل اور کاربن پیپر سے لیس لندن سے ستر میل کا سفر کر کے غریب خانہ پر پہنچ گئے، میں نے پوچھا۔
"کاغذ اور پنسل کی بات تو سمجھ میں آتی ہے لیکن یہ کاربن پیپر کس لیے؟"
بولے۔ "یہ اس لیے ہے کہ اگر کسی بات پر ہم میں اختلافِ رائے ہو تو بحث و تمحیص کے بعد ہم جس نتیجہ پر پہنچیں اسے لکھ لیں اور اسکی ایک کاربن کاپی بنا لیں تا کہ ہم دونوں کے پاس تحریر کی نقل رہے، اسطرح بعد میں چیک کرنے میں آسانی ہوگی۔"
پھر انہوں نے میرے لکھنے کی میز کا جائزہ لیا جس کے ساتھ ایک کرسی تھی، کہنے لگے، "اس کے ساتھ ایک اور کرسی لگا لیجیئے۔"
میں نے کہا۔ "یہ کس لیے؟"
"یہ اس لیے کہ ہم دونوں ایک ساتھ بیٹھ کر مسودہ پڑھیں گے، میز پر یہ کام بہتر ہوگا۔"
چنانچہ یہ کام ہوا اور بہتر ہوا اور بخیر و خوبی تمام ہوا، جس جذبہ اور لگن سے انہوں نے کام کیا اور ایک ایک لفظ اور ایک ایک جملہ کی جس طرح چھان پھٹک کی، وہ میرے بس کی بات نہ تھی۔ اس دوران ایک مرتبہ انہوں نے حروفِ تہجی کی بناوٹ اور لفظوں میں انکی بدلی ہوئی صورتوں پر کچھ اسطرح باتیں کیں کہ میں نے دفعتاً سوچا "اس شخص کی زبان کے بنیادی قواعد اور ان کی باریکیوں پر کتنی گہری نظر ہے، نہ جانے اپنی اردو پڑھائی کا آغاز اس نے کس قاعدے سے کیا ہوگا (ظاہر ہے وہ میرا قاعدہ تو ہو نہیں سکتا!)"۔
میں نے رالف رسل سے پوچھا۔ "آپ نے اردو کا کون سے قاعدہ پڑھا تھا؟"۔
وہ مسکرائے اور بولے، "میں نے کوئی قاعدہ واعدہ نہیں پڑھا لیکن اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا، آپ کا یہ قاعدہ بے حد ضروری ہے۔"
"یہ قاعدہ بیحد ضروری ہے اور اردو نصاب کے لیے وہ کتاب لکھنا وقت کی بہت بڑی ضرورت ہے۔"
چنانچہ رالف رسل اس مقصد کیلیے کاغذ، پنسل اور کاربن پیپر سنبھالے ستر میل سے بھی زیادہ لمبے لمبے سفر کرتے ہیں، خود لکھتے ہیں، دوسروں سے لکھواتے ہیں اور مجھے یقین ہے برطانیہ میں اردو کا یہ "گنجِ گراں مایہ"، یونیورسٹی میں اپنے تدریسی فرائض سے سبکدوش ہونے کے بعد اپنے لیے کہیں زیادہ مصروفیت پیدا کر لے گا اور اس وقت تک چین سے نہیں بیٹھے گا جب تک برطانیہ میں بسنے والے تمام مرد، عورتیں، بچے، جوان اور بوڑھے اردو بولنے، پڑھنے اور لکھنے لگیں گے۔
میری دعا ہے خدا انہیں کم از کم اتنی عمر ضرور دے کہ وہ یہ کام اپنی زندگی میں مکمل کر سکیں۔

(نقوش، سالنامہ جون 1985ء)

مزید پڑھیے۔۔۔۔

Mar 10, 2009

احمد فراز کی شاعری: ایک مختصر تاثر از احمد ندیم قاسمی

ایک عظیم مرحوم شاعر کا ایک دوسرے عظیم مرحوم شاعر کی شاعری کے بارے میں یہ ایک لاجواب مضمون ہے جو اکادمی ادبیات پاکستان کے سہ ماہی مجلے 'ادبیات' اسلام آباد کی خصوصی اشاعت 1994ء میں چھپا تھا، چونکہ اس مجلے میں غیر مطبوعہ تحاریر ہی شائع ہوتی تھیں اس لیے یہ تو طے ہے کہ 'ادبیات' سے پہلے قاسمی مرحوم کا یہ مضمون کہیں نہیں چھپا تھا، نہیں جانتا کہ اس کے بعد یہ کہیں چھپا یا نہیں، بہرحال یہ خوبصورت مضمون قارئین کی نذر۔

احمد فراز کی شاعری: ایک مختصر تاثر
احمد ندیم قاسمی
چند ہفتے پہلے کا واقعہ ہے کہ احمد فراز، امجد اسلام امجد، سجاد بابر اور میں عمرہ کی سعادت حاصل کرنے کے لیے احرام باندھے مکہ مکرمہ پہنچے۔ ہم طوافِ کعبہ مکمل کر چکے اور سعی کے لیے صفا و مروہ کا رخ کرنے والے تھے کہ ایک خاتون لپک کر آئی اور احمد فراز کو بصد شوق مخاطب کیا۔ "آپ احمد فراز صاحب ہیں نا؟" فراز نے اثبات میں جواب دیا تو وہ بولی۔ "ذرا سا رکئے گا، میرے بابا جان کو آپ سے ملنے کا بے حد اشتیاق ہے۔" وہ گئی اور ایک نہایت بوڑھے بزرگ کا بازو تھامے انہیں فراز کے سامنے لے آئی۔ بزرگ اتنے معمر تھے کہ بہت دشواری سے چل رہے تھے مگر انکا چہرہ عقیدت کے مارے سرخ ہو رہا تھا اور انکے ہاتھ کانپ رہے تھے۔ بولے "سبحان اللہ، یہ کتنا بڑا کرم ہے اللہ تعالیٰ کا کہ اس نے اپنے ہی گھر میں مجھے احمد فراز صاحب سے ملوا دیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔وہ احمد فراز جو میرے محبوب شاعر ہیں اور جنہوں نے میر اور غالب کی روایت کو توانائی بخشی ہے۔" عقیدت کے سلسلے میں انہوں نے اور بہت کچھ کہا اور جب ہم ان سے اجازت لیکر سعی کے لیے بڑھے تو میں نے فراز سے کہا۔ "آج آپ کی شاعری پر سب سے بڑے الزام کا ثبوت مل گیا ہے۔" سب نے حیران ہو کر میری طرف دیکھا تو میں نے کہا "دیکھا نہیں آپ نے، یہ "ٹین ایجر" فراز سے کتنی فریفتگی کا اظہار کر رہا تھا، یہ الگ بات ہے کہ اس ٹین ایجر کی عمر اسی پچاسی سے متجاوز تھی۔"

"فراز ٹین ایجرز کا شاعر ہے"۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"فراز صرف عنفوانِ شباب میں داخل ہونے والوں کا شاعر ہے۔"۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"فراز کالجوں اور یونیورسٹیوں کے نوجوان طلبہ کا شاعر ہے اور بس۔"۔۔۔۔۔۔۔۔فراز پر یہ الزامات ہر طرف سے وارد ہوتے رہے ہیں مگر وہ اس گھٹیا الزام تراشی سے بے نیاز، نہایت خوبصورت شاعری تخلیق کیے جا رہا ہے۔ اگر حسن و جمال اور عشق و محبت کی اعلیٰ درجے کی شاعری گھٹیا ہوتی تو میر اور غالب، بلکہ دنیا بھر کے عظیم شاعروں کے ہاں گھٹیا شاعری کے انباروں کے سوا اور کیا ہوتا۔ فراز کی شاعری میں بیشتر یقیناً حسن و عشق ہی کی کارفرمائیاں ہیں اور یہ وہ موضوع ہے جو انسانی زندگی میں سے خارج ہو جائے تو انسانوں کے باطن صحراؤں میں بدل جائیں، مگر فراز تو بھر پور زندگی کا شاعر ہے۔ وہ انسان کے بنیادی جذبوں کے علاوہ اس آشوب کا بھی شاعر ہے جو پوری انسانی زندگی کو محیط کیے ہوئے ہے۔ اس نے جہاں انسان کی محرومیوں، مظلومیتوں اور شکستوں کو اپنی غزل و نظم کا موضوع بنایا ہے وہیں ظلم و جبر کے عناصر اور آمریت و مطلق العنانی پر بھی ٹوٹ ٹوٹ کر برسا ہے اور اس سلسلے میں غزل کا ایسا ایسا شعر کہا ہے اور ایسی ایسی نظم لکھی ہے کہ پڑھتے یا سنتے ہوئے اسکے مداحین جھومتے ہیں اور اسکے معترضین کے منہ کھلے کے کھلے رہ جاتے ہیں۔ یہ دونوں پہلو زندگی کی حقیقت کے پہلو ہیں اور حقیقت ناقابلِ تقسیم ہوتی ہے۔

urdu poetry, urdu ghazal, ilm-e-arooz, taqtee, Ahmed Nadeem Qasmi, احمد ندیم قاسمی
Ahmed Nadeem Qasmi, احمد ندیم قاسمی
ایک بار ایک معروف شاعر نے چند دوسرے ہردلعزیز شعراء کے علاوہ احمد فراز پر بھی تُک بندی کا الزام عائد کر دیا تھا۔ یہ الگ بات ہے کہ یہ شاعر اگر احمد فراز کا سا ایک شعر بھی کہہ لیتے تو احساسِ کمتری کا مظاہرہ کرنے کا تکلف نہ فرماتے۔ مثال کے طور پر فراز کے صرف دو شعر دیکھئے، اگر یہ تک بندی ہے تو نہ جانے اعلیٰ معیار کی شاعری کسے کہتے ہیں۔

ذکر اس غیرتِ مریم کا جب آتا ہے فراز
گھنٹیاں بجتی ہیں لفظوں کے کلیساؤں میں
---------
آج اُس نے شرَفِ ہم سفَری بخشا تھا
اور کچھ ایسے کہ مجھے خواہشِ منزل نہ رہی

میں صرف ان دو شعروں کے حوالے سے کہوں گا کہ جب میں یہ شعر پڑھتا ہوں تو مجھے ان میں پوری فارسی اور اردو غزل کی دلآویز روایات گونجتی ہوئی سنائی دیتی ہیں۔


Ahmed Faraz, احمد فراز, urdu poetry, urdu ghazal, ilm-e-arooz, taqtee
Ahmed Faraz, احمد فراز
احمد فراز کے والد مرحوم اردو کے علاوہ فارسی کے بھی اچھے شاعر تھے، پھر فراز کی تعلیم و تربیت ایسے ماحول میں ہوئی جہاں بیدل، سعدی، حافظ، عرفی، نظیری اور غالب کی فارسی شاعری کے چرچے رہتے تھے۔ کوہاٹ اور پشاور میں اردو شعر و شاعری کا ایک بھر پور ماحول پیدا ہو چکا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ احمد فراز کی غزل دراصل صنفِ غزل کی تمام روشن روایات کے جدید اور سلیقہ مندانہ اظہار کا نام ہے۔ اس کا ایک ایک مصرعہ ایسا گھٹا ہوا ہوتا ہے کہ وہ کسی ایک لفظ کی تبدیلی کی گنجائش بھی باقی نہیں چھوڑتا۔ اور چونکہ فراز کی غزل تکمیل (پرفیکشن) کی ایک انتہا ہے اس لیے جب وہ نظم کہتا ہے تو اسکی بھی ایک ایک لائن برجستہ اور بے ساختہ ہوتی ہے۔ چنانچہ احمد فراز غزل اور نظم کا ایسا شاعر ہے جو دورِ حاضر کے چند گنے چنے معتبر ترین شعراء میں شمار ہوتا ہے۔

یہ جو بعض لوگ دُور کی کوڑی لاتے ہیں کہ فراز کے ہاں حسن و عشق کی نرمیوں کے ساتھ ساتھ تغیر و انقلاب کی جو للکار ہے وہ اسے تضادات کا شکار بنا دیتی ہے تو یہ حضرات اتنا بھی نہیں جانتے کہ حسن و عشق کی منازل سے گزرے بغیر انقلاب کی للکار اعتماد سے محروم رہتی ہے اور وہی شعراء صحیح انقلابی ہوتے ہیں جو انسانی ضمیر کی گہرائیوں کے اندازہ داں ہوتے ہیں۔ میں تو سمجھتا ہوں کہ فراز کا یہ کمال بھی لائقِ صد تحسین ہے کہ کڑی آزمائشوں سے گزرنے کے باوجود وہ اپنی انقلابی شاعری میں بھی سچا شاعر رہا ہے۔ وہ نعرہ زنی نہیں کرتا، صورتحال کا تجزیہ کرتا ہے اور پڑھنے سننے والوں کو اپنی سوچ کے مطابق سوچنے پر مجبور کر دیتا ہے۔ اُس کا یہ دعویٰ صد فیصد درست ہے کہ

دیکھو تو بیاضِ شعر میری
اک حرف بھی سرنگوں نہیں ہے

فراز کے یہ نام نہاد "تضادات" تو اُس کے فن کی توانائی ہیں، بصورتِ دیگر وہ ذات اور کائنات کو ہم رشتہ کیسے کر سکتا تھا اور اسطرح کے شعر کیسے کہہ سکتا تھا کہ

تم اپنی شمعِ تمنا کو رو رہے ہو فراز
ان آندھیوں میں تو پیارے چراغ سب کے گئے

خود آگاہی کا یہ وہ مقام ہے جہاں تک پہنچنے کے لیے عمریں درکار ہوتی ہیں۔

میں فراز کے شاعرانہ کمالات کے اس نہایت مختصر تاثر کے آخر میں اسکی غزل میں تغزل کی اس بھر پور فضا سے لطف اندوز ہونا چاہتا ہوں جو غزل کی سی لطیف صنفِ سخن کی سچی شناخت ہے۔ یہ صرف چند اشعار ہیں جو اس وقت یادداشت میں تازہ ہیں۔

تری قُربت کے لمحے پُھول جیسے
مگر پھولوں کی عمریں مختصر ہیں
--------
رات کیا سوئے کہ باقی عمر کی نیند اُڑ گئی
خواب کیا دیکھا کہ دھڑکا لگ گیا تعبیر کا
--------
ایسا گُم ہوں تری یادوں کے بیابانوں میں
دل نہ دھڑکے تو سنائی نہیں دیتا کچھ بھی
--------
بظاہر ایک ہی شب ہے فراقِ یار مگر
کوئی گزارنے بیٹھے تو عمر ساری لگے
--------
اب تو ہمیں بھی ترکِ مراسم کا دکھ نہیں
پر دل یہ چاہتا ہے کہ آغاز تُو کرے

یہ اس دور کی غزل ہے جس پر احمد فراز نے سالہا سال تک حکمرانی کی ہے اور جو اردو شاعری کی تاریخ میں ایک الگ باب کی متقاضی ہے۔

مزید پڑھیے۔۔۔۔

May 30, 2008

خوشامد از سر سید احمد خان

دل کی جس قدر بیماریاں ہیں ان میں سب سے زیادہ مہلک خوشامد کا اچھا لگنا ہے۔ جس وقت کہ انسان کے بدن میں یہ مادہ پیدا ہو جاتا ہے جو وبائی ہوا کے اثر کو جلد قبول کر لیتا ہے تو اسی وقت انسان مرضِ مہلک میں گرفتار ہو جاتا ہے۔ اسی طرح جبکہ خوشامد کے اچھا لگنے کی بیماری انسان کو لگ جاتی ہے تو اس کے دل میں ایک ایسا مادہ پیدا ہو جاتا ہے جو ہمیشہ زہریلی باتوں کے زہر کو چوس لینے کی خواہش رکھتا ہے، جسطرح کہ خوش گلو گانے والے کا راگ اور خوش آیند باجے والے کی آواز انسان کے دل کو نرم کر دیتی ہے اسی طرح خوشامد بھی انسان کے دل کو ایسا پگھلا دیتی ہے کہ ایک کانٹے کے چبھنے کی جگہ اس میں ہو جاتی ہے۔ اول اول یہ ہوتا ہے کہ ہم اپنی خوشامد کرتے ہیں اور اپنی ہر ایک چیز کو اچھا سمجھتے ہیں اور آپ ہی آپ اپنی خوشامد کر کے اپنے دل کو خوش کرتے ہیں پھر رفتہ رفتہ اوروں کی خوشامد ہم میں اثر کرنے لگتی ہے۔ اسکا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ اول تو خود ہم کو اپنی محبت پیدا ہوتی ہے پھر یہی محبت ہم سے باغی ہو جاتی ہے اور ہمارے بیرونی دشمنوں سے جا ملتی ہے اور جو محبت و مہربانی ہم خود اپنے ساتھ کرتے ہیں وہ ہم خوشامدیوں کے ساتھ کرنے لگتے ہیں اور وہی ہماری محبت ہم کو یہ بتلاتی ہے کہ ان خوشامدیوں پر مہربانی کرنا نہایت حق اور انصاف ہے جو ہماری باتوں کو ایسا سمجھتے ہیں اور انکی ایسی قدر کرتے ہیں جبکہ ہمارا دل ایسا نرم ہو جاتا ہے اور اسی قسم کے پھسلاوے اور فریب میں آ جاتا ہے تو ہماری عقل خوشامدیوں کے عقل و فریب سے اندھی ہو جاتی ہے اور وہ مکر و فریب ہماری طبیعت پر بالکل غالب آ جاتا ہے۔ لیکن اگر ہر شخص کو یہ بات معلوم ہو جاوے کہ خوشامد کا شوق کیسے نالائق اور کمینے سببوں سے پیدا ہوتا ہے تو یقینی خوشامد کی خواہش کرنے والا شخص بھی ویسا ہی نالائق اور کمینہ متصور ہونے لگے گا۔ جبکہ ہم کو کسی ایسے وصف کا شوق پیدا ہوتا ہے جو ہم میں نہیں ہے یا ہم ایسا بننا چاہتے ہیں جیسے کہ در حقیقت ہم نہیں ہیں، تب ہم اپنے تئیں خوشامدیوں کے حوالے کرتے ہیں جو اوروں کے اوصاف اور اوروں کی خوبیاں ہم میں لگانے لگتے ہیں۔ گو بسبب اس کمینہ شوق کے اس خوشامدی کی باتیں اچھی لگتی ہوں مگر در حقیقت وہ ہم کو ایسی ہی بد زیب ہیں جیسے کہ دوسرں کہ کپڑے جو ہمارے بدن پر کسی طرح ٹھیک نہیں (اس بات سے ہم اپنی حقیقت کو چھوڑ کر دوسرے کے اوصاف اپنے میں سمجھنے لگیں، یہ بات کہیں عمدہ ہے کہ ہم اپنی حقیقت کو درست کریں اور سچ مچ وہ اوصاف خود اپنے میں پیدا کریں، اور بعوض جھوٹی نقل بننے کے خود ایک اچھی اصل ہو جاویں) کیونکہ ہر قسم کی طبیعتیں جو انسان رکھتے ہیں اپنے اپنے موقع پر مفید ہو سکتی ہیں۔ ایک تیز مزاج اور چست چالاک آدمی اپنے موقع پر ایسا ہی مفید ہوتا ہے جیسے کہ ایک رونی صورت کا چپ چاپ آدمی اپنے موقع پر۔
سر سّد احمد خان، Sir Syyed Ahmed Khan, urdu poetry, urdu ghazal, ilm-e-arooz, taqtee
سر سّد احمد خان، Sir Syyed Ahmed Khan
خودی جو انسان کو برباد کرنے کی چیز ہے جب چپ چاپ سوئی ہوئی ہوتی ہے تو خوشامد اس کو جگاتی اور ابھارتی ہے اور جس چیز کی خوشامد کی جاتی ہے اس میں چھچھورے پن کی کافی لیاقت پیدا کر دیتی ہے، مگر یہ بات بخوبی یاد رکھنی چاہیئے کہ جسطرح خوشامد ایک بد تر چیز ہے اسی طرح مناسب اور سچی تعریف کرنا نہایت عمدہ اور بہت ہی خوب چیز ہے۔ جسطرح کے لائق شاعر دوسروں کی تعریف کرتے ہیں کہ ان اشعار سے ان لوگوں کا نام باقی رہتا ہے جنکی وہ تعریف کرتے ہیں اور شاعری کی خوبی سے خود ان شاعروں کا نام بھی دنیا میں باقی رہتا ہے۔ دونوں شخص ہوتے ہیں، ایک اپنی لیاقت کے سبب سے اور دوسرا اس لیاقت کو تمیز کرنے کے سبب سے۔ مگر لیاقت شاعری کی یہ ہے کہ وہ نہایت بڑے استاد مصور کی مانند ہو کہ وہ اصل صورت اور رنگ اور خال و خط کو بھی قائم رکھتا ہے اور پھر بھی تصویر ایسی بناتا ہے کہ خوش نما معلوم ہو۔ ایشیا کے شاعروں میں ایک بڑا نقص یہی ہے کہ وہ اس بات کا خیال نہیں رکھتے بلکہ جسکی تعریف کرتے ہیں اسکے اوصاف ایسے جھوٹے اور نا ممکن بیان کرتے ہیں جن کہ سبب سے وہ تعریف، تعریف نہیں رہتی بلکہ فرضی خیالات ہو جاتے ہیں۔ ناموری کی مثال نہایت عمدہ خوشبو کی ہے، جب ہوشیاری اور سچائی سے ہماری واجب تعریف ہوتی ہے تو اسکا ویسا ہی اثر ہوتا ہے جیسے عمدہ خوشبو کا مگر جب کسی کمزور دماغ میں زبردستی سے وہ خوشبو ٹھونس دی جاتی ہے تو ایک تیز بو کی مانند دماغ کو پریشان کر دیتی ہے۔ فیاض آدمی کو بد نامی اور نیک نامی کا زیادہ خیال ہوتا ہے اور عالی ہمت طبیعت کو مناسب عزت اور تعریف سے ایسی ہی تقویت ہوتی ہے جیسے کہ غفلت اور حقارت سے پست ہمتی ہوتی ہے۔ جو لوگ کہ عوام کے درجہ سے اوپر ہیں انہیں لوگوں پر اسکا زیادہ اثر ہوتا ہے جیسے کہ تھرما میٹر میں وہی حصہ موسم کا زیادہ اثر قبول کرتا ہے جو صاف اور سب سے اوپر ہوتا ہے۔

مزید پڑھیے۔۔۔۔

May 21, 2008

رسم و رواج از سر سید احمد خان

جو لوگ کہ حسنِ معاشرت اور تہذیبِ اخلاق و شائستگیِ عادات پر بحث کرتے ہیں ان کے لئے کسی ملک یا قوم کے کسی رسم و رواج کو اچھا اور کسی کو برا ٹھہرانا نہایت مشکل کام ہے۔ ہر ایک قوم اپنے ملک کے رسم و رواج کو پسند کرتی ہے اور اسی میں خوش رہتی ہے کیونکہ جن باتوں کی چُھٹپن سے عادت اور موانست ہو جاتی ہے وہی دل کو بھلی معلوم ہوتی ہیں لیکن اگر ہم اسی پر اکتفا کریں تو اسکے معنی یہ ہو جاویں گے کہ بھلائی اور برائی حقیقت میں کوئی چیز نہیں ہے بلکہ صرف عادت پر موقوف ہے، جس چیز کا رواج ہو گیا اور عادت پڑ گئی وہی اچھی ہے اور جس کا رواج نہ ہوا اور عادت نہ پڑی وہی بری ہے۔

مگر یہ بات صحیح نہیں۔ بھلائی اور برائی فی نفسہ مستقل چیز ہے، رسم و رواج سے البتہ یہ بات ضرور ہوتی ہے کہ کوئی اسکے کرنے پر نام نہیں دھرتا، عیب نہیں لگاتا کونکہ سب کے سب اس کو کرتے ہیں مگر ایسا کرنے سے وہ چیز اگر فی نفسہ بری ہے تو اچھی نہیں ہو جاتی۔ پس ہم کو صرف اپنے ملک یا اپنی قوم کی رسومات کے اچھے ہونے پر بھروسہ کر لینا نہ چاہیئے بلکہ نہایت آزادی اور نیک دلی سے اس کی اصلیت کا امتحان کرنا چاہیئے تا کہ اگر ہم میں کوئی ایسی بات ہو جو حقیقت میں بد ہو اور بسب رسم و رواج کے ہم کو اسکی بدی خیال میں نہ آتی ہو تو معلوم ہو جاوے اور وہ بدی ہمارے ملک یا قوم سے جاتی رہے۔

البتہ یہ کہنا درست ہوگا کہ ہر گاہ معیوب ہونا اور غیر معیوب ہونا کسی بات کا زیادہ تر اس کے رواج و عدم رواج پر منحصر ہو گیا ہے تو ہم کس طرح کسی امیر کے رسم و رواج کو اچھا یا برا قرار دے سکیں گے، بلاشبہ یہ بات کسی قدر مشکل ہے مگر جبکہ یہ تسلیم کر لیا جاوے کہ بھلائی یا برائی فی نفسہ بھی کوئی چیز ہے تو ضرور ہر بات کی فی الحقیقت بھلائی یا برائی قرار دینے کے لئے کوئی نہ کوئی طریقہ ہوگا۔ پس ہم کو اس طریقہ کے تلاش کرنے اور اسی کے مطابق اپنی رسوم و عادات کو بھلائی یا برائی قرار دینے کی پیروی کرنی چاہیئے۔

سر سیّد احمد خان، Sir Syyed Ahmed Khan, urdu poetry, urdu ghazal, ilm-e-arooz, taqtee
سر سیّد احمد خان، Sir Syyed Ahmed Khan
سب سے مقدم اور سب سے ضروری امر اس کام کے لئے یہ ہے کہ ہم اپنے دل کو تعصبات سے اور ان تاریک خیالوں سے جو انسان کو سچی بات کے سننے اور کرنے سے روکتے ہیں خالی کریں اور اس دلی نیکی سے جو خدا تعالیٰ نے انسان کے دل میں رکھی ہے ہر ایک بات کی بھلائی یا برائی دریافت کرنے پر متوجہ ہوں۔
یہ بات ہم کو اپنی قوم اور اپنے ملک اور دوسری قوم اور دوسرے ملک دونوں کے رسم و رواج کے ساتھ برتنی چاہیئے تا کہ جو رسم و عادت ہم میں بھلی ہے اس پر مستحکم رہیں اور جو ہم میں بری ہے اسکے چھوڑنے پر کوشش کریں اور جو رسم و عادت دوسروں میں اچھی ہے اس کو بلا تعصب اختیار کریں اور جو ان میں بری ہے اسکے اختیار کرنے سے بچتے رہیں۔

جبکہ ہم غور کرتے ہیں کہ تمام دنیا کی قوموں میں جو رسوم و عادات مروج ہیں انہوں نے کس طرح ان قوموں میں رواج پایا ہے تو باوجود مختلف ہونے ان رسوم و عادات کے ان کا مبدا اور منشا متحد معلوم ہوتا ہے۔
کچھ شبہ نہیں ہے کہ جو عادتیں اور رسمیں قوموں میں مروج ہیں انکا رواج یا تو ملک کی آب و ہوا کی خاصیت سے ہوا ہے یا ان اتفاقیہ امور سے جن کی ضرورت وقتاً فوقتاً بضرورت تمدن و معاشرت کے پیش آتی گئی ہے یا دوسری قوم کی تقلید و اختلاط سے مروج ہو گئی ہے۔ یا انسان کی حالتِ ترقی یا تنزل نے اس کو پیدا کر دیا ہے۔ پس ظاہراً یہی چار سبب ہر ایک قوم اور ہر ایک ملک میں رسوم و عادات کے مروج ہونے کا مبدا معلوم ہوتے ہیں۔

جو رسوم و عادات کہ بمقتضائے آب و ہوا کسی ملک میں رائج ہوئی ہیں انکے صحیح اور درست ہونے میں کچھ شبہ نہیں کیونکہ وہ عادتیں قدرت اور فطرت نے انکو سکھلائی ہیں جس کے سچ ہونے میں کچھ شبہ نہیں مگر انکے برتاؤ کا طریقہ غور طلب باقی رہتا ہے۔

مثلاً ہم یہ بات دیکھتے ہیں کہ کشمیر میں اور لندن میں سردی کے سبب انسان کو آگ سے گرم ہونے کی ضرورت ہے پس آگ کا استعمال ایک نہایت سچی اور صحیح عادت دونوں ملکوں کی قوموں میں ہے مگر اب ہم کو یہ دیکھنا ہے کہ آگ کے استعمال کے لئے یہ بات بہتر ہے کہ مکانات میں ہندی قواعد سے آتش خانہ بنا کر آگ کی گرمی سے فائدہ اٹھاویں یا مٹی کی کانگڑیوں میں آگ جلا کر گردن میں لٹکائے پھریں جس سے گورا گورا پیٹ اور سینہ کالا اور بھونڈا ہو جائے۔

طریقِ تمدن و معاشرت روز بروز انسانوں میں ترقی پاتا جاتا ہے اور اس لئے ضرور ہے کہ ہماری رسمیں و عادتیں جو بضرورتِ تمدن و معاشرت مروج ہوئی تھیں ان میں بھی روز بروز ترقی ہوتی جائے اور اگر ہم ان پہلی ہی رسموں اور عادتوں کے پابند رہیں اور کچھ ترقی نہ کریں تو بلا شبہ بمقابل ان قوموں کے جنہوں نے ترقی کی ہے ہم ذلیل اور خوار ہونگے اور مثل جانور کے خیال کئے جاویں گے، پھر خواہ اس نام سے ہم برا مانیں یا نہ مانیں، انصاف کا مقام ہے کہ جب ہم اپنے سے کمتر اور ناتربیت یافتہ قوموں کو ذلیل اور حقیر مثل جانور کے خیال کرتے ہیں تو جو قومیں کہ ہم سے زیادہ شایستہ و تربیت یافتہ ہیں اگر وہ بھی ہم کو اسی طرح حقیر اور ذلیل مثل جانور کے سمجھیں تو ہم کو کیا مقامِ شکایت ہے؟ ہاں اگر ہم کو غیرت ہے تو ہم کو اس حالت سے نکلنا اور اپنی قوم کو نکالنا چاہیئے۔

دوسری قوموں کی رسومات کا اختیار کرنا اگرچہ بے تعصبی اور دانائی کی دلیل ہے مگر جب وہ رسمیں اندھے پن سے صرف تقلیداً بغیر سمجھے بوجھے اختیار کی جاتی ہیں تو کافی ثبوت نادانی اور حماقت کا ہوتی ہیں۔ دوسری قوموں کی رسومات اختیار کرنے میں اگر ہم دانائی اور ہوشیاری سے کام کریں تو اس قوم سے زیادہ فائدہ اٹھا سکتے ہیں اس لئے کہ ہم کو اس رسم سے تو موانست نہیں ہوتی اور اس سبب سے اسکی حقیقی بھلائی یا برائی پر غور کرنے کا بشرطیکہ ہم تعصب کو کام میں نہ لاویں بہت اچھا موقع ملتا ہے۔ اس قوم کے حالات دیکھنے سے جس میں وہ رسم جاری ہے ہم کو بہت عمدہ مثالیں سینکڑوں برس کے تجربہ کی ملتی ہیں جو اس رسم کے اچھے یا برے ہونیکا قطعی تصفیہ کر دیتی ہیں۔

مگر یہ بات اکثر جگہ موجود ہے کہ ایک قوم کی رسمیں دوسری قوم میں بسبب اختلاط اور ملاپ کے اور بغیر قصد و ارادہ کے اور انکی بھلائی اور برائی پر غور و فکر کرنیکے بغیر داخل ہو گئی ہیں جیسے کہ ہندوستان کے مسلمانوں کا بالتخصیص حال ہے کہ تمام معاملاتِ زندگی بلکہ بعض اموراتِ مذہبی میں بھی ہزاروں رسمیں غیر قوموں کی بلا غور و فکر اختیار کر لی ہیں، یا کوئی نئی رسم مشابہ اس قوم کی رسم کے ایجاد کر لی ہے مگر جب ہم چاہتے ہیں کہ اپنے طریقِ معاشرت اور تمدن کو اعلیٰ درجہ کی تہذیب پر پہنچا دیں تا کہ جو قومیں ہم سے زیادہ مہذب ہیں وہ ہم کو بنظرِ حقارت نہ دیکھیں تو ہمارا فرض ہے ہم اپنی تمام رسوم و عادات کو بنظر تحقیق دیکھیں اور جو بری ہوں ان کو چھوڑیں اور جو قابلِ اصلاح ہوں ان میں اصلاح کریں۔

جو رسومات کے بسبب حالتِ ترقی یا تنزل کسی قوم کے پیدا ہوتی ہیں وہ رسمیں ٹھیک ٹھیک اس قوم کی ترقی اور تنزل یا عزت اور ذلت کی نشانی ہوتی ہیں۔

اس مقام پر ہم نے لفظ ترقی یا تنزل کو نہایت وسیع معنوں میں استعمال کیا ہے اور تمام قسم کے حالاتِ ترقی و تنزل مراد لئے ہیں خواہ وہ ترقی و تنزل اخلاق سے متعلق ہو خواہ علوم و فنون اور طریقِ معاشرت و تمدن سے اور خواہ ملک و دولت و جاہ و حشمت سے۔

بلاشبہ یہ بات تسلیم کرنے کے قابل ہے کہ دنیا میں کوئی قوم ایسی نہیں نکلنے کی جس کی تمام رسمیں اور عادتیں عیب اور نقصان سے خالی ہوں مگر اتنا فرق بیشک کہ بعضی قوموں میں ایسی رسومات اور عادات جو در حقیقت نفس الامر میں بری ہوں، کم ہیں، اور بعضی میں زیادہ، اور اسی وجہ سے وہ پہلی قوم پچھلی قوم سے اعلیٰ اور معزز ہے۔ اور بعض ایسی قومیں ہیں جنہوں نے انسان کی حالتِ ترقی کو نہایت اعلیٰ درجہ تک پہنچایا ہے اور اس حالتِ انسانی کی ترقی نے ان کے نقصانوں کو چُھپا لیا ہے جیسے ایک نہایت عمدہ و نفیس شیریں دریا تھوڑے سے گدلے اور کھاری پانی کو چھپا لیتا ہے یا ایک نہایت لطیف شربت کا بھرا ہوا پیالہ نیبو کی کھٹی دو بوندوں سے زیادہ تر لطیف اور خوشگوار ہو جاتا ہے اور یہی قومیں جو اب دنیا میں “سویلائزڈ” یعنی مہذب گنی جاتی ہیں اور در حقیقت اس لقب کی مستحق بھی ہیں۔

میری دلسوزی اپنے ہم مذہب بھائیوں کے ساتھ اسی وجہ سے ہے کہ میری دانست میں ہم مسلمانوں میں بہت سے رسمیں جو در حقیقت نفس الامر میں بری ہیں مروج ہو گئی ہیں جن میں ہزاروں ہمارے پاک مذہب کے بھی بر خلاف ہیں اور انسانیت کے بھی مخالف ہیں اور تہذیب و تربیت و شایستگی کے بھی بر عکس ہیں اور اس لئے میں ضرور سمجھتا ہوں کہ ہم سب لوگ تعصب اور ضد اور نفسانیت کو چھوڑ کر ان بری رسموں اور بد عادتوں کے چھوڑنے پر مائل ہوں اور جیسا کہ ان کا پاک اور روشن ہزاروں حکمتوں سے بھرا ہوا مذہب ہے اسی طرح اپنی رسوماتِ معاشرت و تمدن کو بھی عمدہ اور پاک و صاف کریں اور جو کچھ نقصانات اس میں ہیں گو وہ کسی وجہ سے ہوں، ان کو دور کریں۔

اس تجربہ سے یہ نہ سمجھا جاوے کہ میں اپنے تئیں ان بد عادتوں سے پاک و مبرا سمجھتا ہوں یا اپنے تئیں نمونۂ عاداتِ حسنہ جتاتا ہوں یا خود اِن امور میں مقتدا بننا چاہتا ہوں، حاشا و کلا۔ بلکہ میں بھی ایک فرد انہیں افراد میں سے ہوں جنکی اصلاحِ دلی مقصود ہے بلکہ میرا مقصد صرف متوجہ کرنا اپنے بھائیوں کا اپنی اصلاحِ حال پر ہے اور خدا سے امید ہے کہ جو لوگ اصلاحِ حال پر متوجہ ہونگے، سب سے اول انکا چیلہ اور انکی پیروی کرنے والا میں ہونگا۔ البتہ مثل مخمور کے خراب حالت میں چلا جانا اور روز بروز بدتر درجہ کو پہنچتا جانا اور نہ اپنی عزت کا اور نہ قومی عزت کا خیال و پاس رکھنا اور جھوٹی شیخی اور بیجا غرور میں پڑے رہنا مجھ کو پسند نہیں ہے۔

ہماری قوم کے نیک اور مقدس لوگوں کو کبھی کبھی یہ غلط خیال آتا ہے کہ تہذیب اور حسنِ معاشرت و تمدن صرف دنیاوی امور ہیں جو صرف چند روزہ ہیں، اگر ان میں ناقص ہوئے تو کیا اور کامل ہوئے تو کیا اور اس میں عزت حاصل کی تو کیا اور ذلیل رہے تو کیا، مگر انکی اس رائے میں قصور ہے اور انکی نیک دلی اور سادہ مزاجی اور تقدس نے ان کو اس عام فریب غلطی میں ڈالا ہے۔ جو انکے خیالات ہیں انکی صحت اور اصلیت میں کچھ شبہ نہیں مگر انسان امور متعلق تمدن و معاشرت سے کسی طور علیحدہ نہیں ہو سکتا اور نہ شارع کا مقصود ان تمام امور کو چھوڑنے کا تھا کیونکہ قواعدِ قدرت سے یہ امر غیر ممکن ہے۔ پس اگر ہماری حالتِ تمدن و معاشرت ذلیل اور معیوب حالت پر ہوگی تو اس سے مسلمانوں کی قوم پر عیوب اور ذلت عائد ہوگی اور وہ ذلت صرف ان افراد اور اشخاص پر منحصر نہیں رہتی بلکہ انکے مذہب پر منجر ہوتی ہے، کیونکہ یہ بات کہی جاتی ہے کہ مسلمان یعنی وہ گروہ جو مذہبِ اسلام کا پیرو ہے نہایت ذلیل و خوار ہے۔ پس اس میں در حقیقت ہمارے افعال و عاداتِ قبیحہ سے اسلام کو اور مسلمانی کو ذلت ہوتی ہے۔ پس ہماری دانست میں مسلمانوں کی حسن معاشرت اور خوبیٔ تمدن اور تہذیب اخلاق اور تربیت و شایستگی میں کوشش کرنا حقیقت میں ایک ایسا کام ہے جو دنیاوی امور سے جس قدر متعلق ہے اس سے بہت زیادہ معاد سے علاقہ رکھتا ہے اور جس قدر فائدے کی اس سے ہم کو اس دنیا میں توقع ہے اس سے بڑھ کر اُس دنیا میں ہے جس کو کبھی فنا نہیں۔

مزید پڑھیے۔۔۔۔