Showing posts with label میر انیس. Show all posts
Showing posts with label میر انیس. Show all posts

Nov 19, 2008

میر انیس کی چند رباعیاں

کسی زمانے میں کہا جاتا تھا کہ بگڑا گویّا، قوّال بن جاتا ہے اور بگڑا شاعر مرثیہ گو۔ قوّالوں کے بارے میں تو کچھ نہیں کہہ سکتا لیکن میر ببر علی انیس نے اردو میں شاہکار مرثیے کہہ کر اس ضرب المثل کو ضرور غلط ثابت کر دیا ہے بلکہ بعض اردو نقادوں کے نزدیک تو وہ اردو کے سب سے بڑے شاعر ہیں، اور تو اور مولانا شبلی نعمانی کی بھی میر انیس کی شاعری کے متعلق رائے بہت بلند ہے۔
شاعری میر انیس کے خون میں رچی بسی تھی کہ انکے والد میر خلیق اور بالخصوص دادا میر حسن بہت بلند پایہ شاعر تھے۔ اسی لیے تو آپ نے کہا تھا۔
عمر گزری ہے اسی دشت کی سیّاحی میں
پانچویں پشت ہے شبّیر کی مدّاحی میں
میر انیس کا نام گو مرثیے کی وجہ سے ہے لیکن آپ نے بہت بلند پایہ رباعیات بھی کہی ہیں اور انہی میں سے چند لکھ رہا ہوں۔
(1)
رتبہ جسے دنیا میں خدا دیتا ہے
وہ دل میں فروتنی کو جا دیتا ہے
کرتے ہیں تہی مغز ثنا آپ اپنی
جو ظرف کہ خالی ہو صدا دیتا ہے
(2)
گوہر کو صَدَف میں آبرو دیتا ہے
بندے کو بغیر جستجو دیتا ہے
انسان کو رزق، گُل کو بُو، سنگ کو لعل
جو کچھ دیتا ہے جس کو، تُو دیتا ہے
(3)
کس منہ سے کہوں لائقِ تحسیں میں ہُوں
کیا لُطف جو گُل کہے رنگیں میں ہُوں
ہوتی ہے حلاوتِ سُخَن خود ظاہر
کہتی ہے کہیں شکر کہ شیریں میں ہُوں
(4)
کیا کیا دنیا سے صاحبِ مال گئے
دولت نہ گئی ساتھ، نہ اطفال گئے
پہنچا کے لحد تلک پھر آئے سب لوگ
ہمراہ اگر گئے تو اعمال گئے
Meer Anees, میر انیس, urdu poetry, urdu ghazal, ilm-e-arooz, taqtee, Rubai, رباعی
Meer Anees, میر انیس
(5)
سینے میں یہ دم شمعِ سحر گاہی ہے
جو ہے اس کارواں میں وہ راہی ہے
پیچھے کبھی قافلہ سے رہتا نہ انیس
اے عمرِ دراز تیری کوتاہی ہے
(6)
پہنچا جو کمال کو وطن سے نکلا
قطرہ جو گہر بنا عدن سے نکلا
تکمیلِ کمال کی غریبی ہے دلیل
پختہ جو ثمر ہوا چمن سے نکلا
(7)
خاموشی میں یاں لذّتِ گویائی ہے
آنکھیں جو ہیں بند، عین بینائی ہے
نے دوست کا جھگڑا ہے نہ دشمن کا فساد
مرقد بھی عجب گوشۂ تنہائی ہے
(8)
وہ موجِ حوادث کا تھپیڑا نہ رہا
کشتی وہ ہوئی غرق، وہ بیڑا نہ رہا
سارے جھگڑے تھے زندگی کے انیس
جب ہم نہ رہے تو کچھ بکھیڑا نہ رہا
(9)
عزّت رہے یارو آشنا کے آگے
محجوب نہ ہوں شاہ و گدا کے آگے
یہ پاؤں چلیں تو راہِ مولا میں چلیں
یہ ہاتھ جب اٹھیں تو خدا کے آگے
(10)
گُلشن میں پھروں کہ سیرِ صحرا دیکھوں
یا معدن و کوہ و دشت و دریا دیکھوں
ہر جا تری قدرت کے ہیں لاکھوں جلوے
حیراں ہُوں کہ دو آنکھوں سے کیا کیا دیکھوں
(11)
آدم کو عجَب خدا نے رتبا بخشا
ادنٰی کے لیے مقامِ اعلٰی بخشا
عقل و ہنر و تمیز و جان و ایمان
اِس ایک کفِ خاک کو کیا کیا بخشا
(12)
کیوں زر کی ہوَس میں دربدر پھرتا ہے
جانا ہے تجھے کہاں؟ کدھر پھرتا ہے؟
اللہ رے پیری میں ہوَس دنیا کی
تھک جاتے ہیں جب پاؤں تو سر پھرتا ہے
(13)
دنیا بھی عجب سرائے فانی دیکھی
ہر چیز یہاں کی آنی جانی دیکھی
جو آ کے نہ جائے وہ بڑھاپا دیکھا
جو جا کے نہ آئے وہ جوانی دیکھی
(14)
افسوس زمانے کا عجَب طَور ہوا
کیوں چرخِ کہن آج نیا دَور ہوا
بس یاں سے کہیں اور چلو جلد انیس
اب یاں کی زمیں اور، فلَک اَور ہوا

مزید پڑھیے۔۔۔۔