مرزا رفیع سودا کی یہ غزل بہت مشہور ہے اور یقیناً سودا کو بھی بہت پسند ہوگی اسی لیے اِس پر مخمس کی شکل میں تضمین بھی کہی ہے۔ ملاحظہ کیجیے۔
کرے جو ظلم و ستم کرنے دو، ہوا سو ہوا
جفا و ظلم ستی مت ڈرو، ہوا سو ہوا
یہ میرے غم کی نہ شہرت کرو، ہوا سو ہوا
"جو گزری مجھ پہ مت اُس سے کہو، ہوا سو ہوا
بلاکشانِ محبت پہ جو، ہوا سو ہوا"
اگرچہ روزِ ازل سے تھی میری یہ تقدیر
کہ دامِ عشق میں اپنے کرے مجھے تو اسیر
کرے جو ذبح تو مجھ کو پچھاڑ جوں نخچیر
"مبادا ہو کوئی ظالم ترا گریباں گیر
مرے لہو کو تو دامن سے دھو، ہوا سو ہوا"
وہ کون دن تھا کہ ہم بھی ہوئے تھے یار ترے
کسی طرح سے ترا دل بھی اس جفا سے پھرے
اگر کہے تو یہ آ کر ترے قدم پہ گرے
"خدا کے واسطے آ، درگزر گنہ سے مرے
نہ ہوگا پھر کبھو اے تُند خو، ہوا سو ہوا"
کیے ہیں جن نے دوانے کئی مَلَک یارو
دکھا کے چہرے کی اپنے ٹک اک جھلک یارو
ہوا ہے میرا بھی قاتل وہ یک بیک یارو
"پہنچ چکا ہے سرِ زخم دل تلک یارو
کوئی سیو، کوئی مرہم کرو، ہوا سو ہوا"
تو چاہیے کہ رہو ہاتھ اُس سے بھی تم دھو
عبث ہے یہ کہ جو باتیں کرو ہو تم رو رو
"یہ کون حال ہے احوالِ دل پہ اے آنکھو
نہ پھوٹ پھوٹ کے اتنا بہو، ہوا سو ہوا"
دلوں کے قتل کے تئیں الامان ہے سودا
جنوں کی فوج کا یارو نشان ہے سودا
کِیا جب اُن نے قلندر، ندان ہے سودا
"دیا اُسے دل و دیں اب یہ جان ہے سودا
پھر آگے دیکھیے جو ہو سو ہو، ہوا سو ہوا"
(کلیاتِ سودا، جلد اول)
بہت ہی خوب انتخاب ہے وارث بھائی !
ReplyDeleteلاجواب
شکریہ احمد صاحب
Delete۵۔ علامہ یوسف جبریل کی شاعری کے متعلق جناب اظہر جاوید صاحب کے تاثرات
ReplyDeleteمکرمی !جناب جبریل صاحب کا غیر معمولی کلام ایک مختصر وقفہ کے لئے مجھے بھی دیکھنے کا اتفاقاً شرف حاصل ہوا ۔ اس قلیل فرصت میں اُ ن کے رشحاتِ قلم نے میرے دل و دماغ پر نہایت گہرے تاثرات چھوڑے ہیں ۔ اُ ن کے ملی اور انسانی جذبے کو جس قدر بھی قدرو منزلت کی نگاہ سے دیکھا جائے وہ اس کا جائز مستحق ہے۔ آپ کا کلام ہر چند کہ بظاہر نظم کی خوبیوں سے آراستہ ہے لیکن بباطنِ مواد کی ہیئت پر معتد بہ ترجیح ہے۔ اصل اہمیت آپ کے موضوع اور اسکے محرک جذبہ کو حاصل ہے۔ ہر چند کہ پیرایہء اظہار نے منظوم صورت اختیار کر کے اس کے حسن و تاثیر میں چند در چند اضافہ کیا ہے لیکن فی الاصل آپ کو شاعر کہنے یا سمجھنے میں اسی غلط فہمی اور غلط کاری کا احتمال ہے جس کے بارے میں علامہ اقبال مرحوم نے فرمایا تھا۔
من اے میر امم داد از تو خواہم مرا یاراں غزلخوانے شمردند
میری دلی خواہش اور دُ عا ہے کہ اللہ تعالی آپ کے اس پاکیزہ جذبے کو مناسب طور پر بارآور کرے۔ آمین۔
( اظہر جاوید مکتبہء ادب جدید چوک بل روڈ لاہور سول ایجنٹ مجلس ترقی ادب ادارہ ثقافت اسلامیہ بزم اقبال فلوسوفیکل کانگریس)
www.oqasa.org
صریرِ خامۂ وارث ہے لاجواب بلاگ
ReplyDeleteمیں پیش کرتا ہوں اس کے لئے مبارکباد
احمد علی برقی اعظمی
ذرہ نوازی ہے آپ کی برقی صاحب قبلہ۔
DeleteAaj sauda ke aik shair ki talash mein aap ka blog milla, bari khushi hui parh ke :)
ReplyDeleteبہت شکریہ آپ کا، نوازش اس پذیرائی کے لیے۔
Deleteوالسلام
Very nice blog Shukuria aapka bhule Bisri tsaneef ko samne lane ka
ReplyDeleteبہت شکریہ جناب، نوازش آپ کی۔
Deleteماشاءاللہ ۔مجھے آپ کا بلاگ بہت اچھا لگا۔ اللہ کریم آپ کو علم و ادب میں اعلی مقام عطا فرمائے۔آمین
ReplyDeleteبہت شکریہ خان صاحب، نوازش آپ کی۔
Deleteماشاءاللہ سر آپ کا کام بہت ہی اعلیٰ ہوتا ہے اللہ کریم آپ کو سلامت رکھے آمین
ReplyDeleteبہت شکریہ آپ کا، نوازش۔
Deleteجی ساتھ ہی ہے۔ ہر بند کے آخری دو مصرعے جو واوین میں دیے گئے ہیں وہ اصل غزل کے مصرعے ہیں۔
ReplyDeleteبہت ہی اعلیٰ
ReplyDeleteاعلیٰ ترر