 |
شیخ سعدی شیرازی ایک خاکہ، Sadi Sheerazi |
بلبلِ شیراز،
شیخ مصلح الدین سعدی شیرازی کا نامِ نامی کسی تعارف کا محتاج نہیں۔ گلستانِ شیراز کو اپنے جن دو طوطیِ ہزار نوا پر تا ابد فخر رہے گا ان میں سعدی کا نام پہلے اور حافظ کا بعد میں ہے۔ شیخ سعدی ہمارے ہاں خاص طور پر اپنی حکایات اور گلستان و بوستان کی وجہ سے معروف ہیں لیکن ایرانی ناقدینِ فن کے ہاں سعدی کا نام بحیثیت غزل گو شاعر کے بہت بلند ہے۔ فارسی غزل کو رنگ و روپ سعدی نے ہی عطا کیا ہے، سعدی نہ صرف فارسی غزل کے امام ہیں بلکہ فارسی غزل کی جو بنیاد انہوں نے رکھی اسی پر بعد میں آنے غزل گو شعراء بالخصوص حافظ نے بلند و بالا و پر شکوہ عمارت کھڑی کر دی۔
کلیاتِ سعدی (با تصحیح محمد علی فروغی) مطبوعہ تہران سے اپنی پسند کے چند اشعار درج کرتا ہوں۔
خُدایا بحقِ بنی فاطمہ
کہ برِ قولِ ایماں کُنی خاتمہ
اے خدا حضرت فاطمہ (ع) کی اولاد کے صدقے میرا خاتمہ ایمان پر کرنا۔
اگر دعوتَم رد کُنی، ور قبول
من و دست و دامانِ آلِ رسول
چاہے تو میری دعا کو رد کر دے یا قبول کر، کہ میں آلِ رسول (ص) کے دامن سے لپٹا ہوا ہوں۔
چہ وَصفَت کُنَد سعدیِ ناتمام
علیکَ الصلوٰۃ اے نبیّ السلام
سعدی ناتمام و حقیر آپ (ص) کا کیا وصف بیان کرے، اے نبی (ص) آپ پر صلوۃ و سلام ہو۔
--------
گر دِلے داری بہ دلبَندی بَدہ
ضایع آں کشور کہ سلطانیش نیست
اگر دل رکھتا ہے تو اسے کسی دلدار کو دے دے، ضایع ہو جاتی ہے وہ سلطنت کہ جسکا کوئی سلطان نہ ہو۔
کامراں آں دل کہ محبوبیش ہست
نیک بخت آں سر کہ سامانیش نیست
کامیاب ہے وہ دل کہ جو اس (کسی) کا محبوب ہے، نیک بخت ہے وہ سر (دماغ) کہ جس میں ساز و سامان (کا سودا / ہوس) نہیں ہے۔
دردِ عشق از تندرستی خوشترست
گرچہ بیش از صبر درمانیش نیست
عشق کا درد تندرستی سے بہتر ہے اگرچہ صبر سے آگے (صبر کے سوا) اسکا کوئی درمان نہیں ہے۔
--------
وہ کہ گر من بازبینَم روئے یارِ خویش را
تا قیامت شکر گویَم کردگارِ خویش را
اے کاش کہ اگر میں اپنے دوست کا چہرہ دوبارہ دیکھ پاؤں، تو قیامت تک اپنے پروردگار کا شکر ادا کرتا رہوں۔
گبر و ترسا و مسلماں ھر کسی در دینِ خویش
قبلۂ دارَند و ما زیبا نگارِ خویش را
یہودی و نصرانی و مسلمان، سب کا اپنے اپنے دین میں اپنا قبلہ اور ہمارا (قبلہ) خوبصورت چہرے والا ہے۔
--------
از ہر چہ می رَوَد سخنِ دوست خوشترست
پیغامِ آشنا، نفَسِ روح پرورست
میں کہیں بھی جاؤں دوست کی باتیں ہی سب سے بہتر ہیں، آشنا کا پیغام روح پرور نفس ہے۔
ھر گز وجودِ حاضرِ غایب شنیدہ ای
من درمیانِ جمع و دلم جائے دیگرست
کیا کبھی سنا کہ کوئی حاضر وجود غائب ہو گیا، (ہاں مگر میں) کہ ہجوم میں ہوتا ہوں اور میرا دل کہیں اور ہوتا ہے۔
ابنائے روزگار بہ صحرا روَند و باغ
صحرا و باغ زندہ دلاں کوئے دلبرست
دنیا داروں کیلیئے صحرا اور باغ روزی کے ذریعے ہیں جب کہ زندہ دلوں کیلیئے یہی دلبر کے کوچے ہیں۔
شب ھائے بے تو ام شبِ گورست در خیال
ور بے تو بامداد کُنَم روزِ محشرست
تیرے بغیر راتیں مجھے قبر کی راتیں لگتی ہیں اور تیرے بغیر دن مجھے محشر کا دن لگتا ہے۔
--------
بر من کہ صبوحی زدہ ام، خرقہ حرامست
اے مجلسیاں راہِ خرابات کدامست
مجھ پر کہ میں صبوحی زدہ (شراب پینے والا) ہوں، خرقہ پوشی حرام ہے، اے (خرقہ پوش) ہم نشینو یہ بتاؤ کہ مے کدے کی راہ کدھر ہے۔
غیرت نَگذارَد کہ بگویَم کہ مرا کشت
تا خلق نَدانَند کہ معشوقہ چہ نامست
میری غیرت گوارہ نہیں کرتی کہ میں یہ بتاؤں کہ مجھے کس نے مارا، تا کہ خلق کو یہ علم نہ ہو سکے کہ ہمارے محبوب کا کیا نام ہے۔
--------
بَدو گفتم کہ مشکی یا عبیری
کہ از بوئے دل آویزِ تو مَستَم
میں نے اس سے کہا کہ تو مشکی ہے یا عبیری (دونوں خوشبو کی قسمیں ہیں) کہ تیری دل آویز خوشبو سے مَیں مست ہوا جاتا ہوں۔
بَگفتا من گِلے ناچیز بُودم
و لیکن مُدّتے با گُل نَشِستَم
اس نے کہا میں تو ناچیز مٹی تھی لیکن ایک مدت تک گُل کے ساتھ نشست رہی ہے۔
جمالِ ہمنشیں در من اثَر کرد
وگرنہ من ہمہ خاکم کہ ہَستَم
یہ تو ہمنشیں کے جمال کا اثر ہے، وگرنہ میری ہستی تو محض خاک ہے۔
--------
برگِ درختانِ سبز پیش خداوند ہوش
ہر ورقے دفتریست معرفتِ کردگار
صاحبِ عقل و دانش کے سامنے سبز درختوں کا ایک ایک پتا کردگار کی معرفت کے لیے ایک بڑی کتاب ہے۔
--------
گر از بسیطِ زمیں عقل مُنعَدَم گردد
بخود گماں نَبرد ہیچ کس کہ نادانَم
اگر روئے زمین سے عقل معدوم بھی ہو جائے تو پھر بھی کوئی شخص اپنے بارے میں یہ خیال نہیں کرے گا کہ میں نادان ہوں۔
--------
دیدۂ سعدی و دل ہمراہِ تست
تا نہ پنداری کہ تنہا می روی
سعدی کے دیدہ و دل تیرے ہمراہ ہیں، تا کہ تجھے یہ خیال نہ آئے (تو یہ نہ سوچے) کہ تُو تنہا جا رہا ہے (تنہا ہے)۔
--------
کسے را کہ شیطاں بَوَد پیشوا
کجا باز گردد براہِ خدا
جس کا راہ نُما شیطان ہو، وہ کب خدا کی راہ پر واپس آتا ہے۔
--------

بعد از وفات تربتِ ما در زمیں مَجو
در سینہ ہائے مَردمِ عارف مزارِ ما
وفات کے بعد میری قبر زمین میں تلاش مت کرنا، کہ عارف لوگوں کہ سینوں میں میرا مزار ہے۔
مزید پڑھیے۔۔۔۔