یگانہ ایک قادر الکلام شاعر تھے لیکن جب وہ پچھلی صدی کے اوائل میں عظیم آباد سے ہجرت کر کے لکھنؤ آئے تو لکھنؤ والوں نے ان کی بالکل ہی قدر نہ کی۔ اس وقت لکھنؤ والے اپنے برے سے برے شاعر کو بھی باہر والے اچھے سے اچھے شاعر کے مقابلے میں زیادہ اہمیت دیتے تھے اور یگانہ چونکہ "باہر والے" تھے سو لکھنؤ والوں کو ایک آنکھ نہ بھائے۔ بقول مجنوں گورکھپوری، "لکھنؤ کے لوگوں میں اتنا ظرف کبھی نہ تھا کہ کسی باہر کے بڑے سے بڑے شاعر کو لکھنؤ کے چھوٹے سے چھوٹے شاعر کے مقابلے میں کوئی بلند مقام دے سکیں۔" (غزل سرا، نئی دہلی 1964ء بحوالہ چراغِ سخن از یگانہ، مجلسِ ترقیِ ادب، لاہور، 1996ء)۔
اور یہیں سے یگانہ اور لکھنؤ کے شعرا کے درمیان ایک ایسی چشمک شروع ہو گئی جو یگانہ کی موت پر بھی ختم نہ ہوئی، مزید برآں یہ کہ اس وقت لکھنؤ کے شعرا غالب کے رنگ میں رنگے ہوئے تھے اور اپنے ہر اس شاعر کو مسندِ علم و فضل پر بٹھا دیتے تھے جو غالب کے رنگ میں کہتا تھا چاہے جتنا بھی برا کہتا تھا سو یگانہ کی اپنی محرومی کے سبب غالب سے بھی دشمنی پیدا ہو گئی اور آخری عمر تک غالب کے کلام میں نقص تلاش کرتے رہے اور انکا اظہار کرتے رہے۔
لیکن ہمیشہ کی طرح، ادبی چشمکوں میں صرف دھول ہی نہیں اڑتی اور کاغذ سامنے رکھ کر ایک دوسرے کے منہ پر صرف سیاہی ہی نہیں ملی جاتی بلکہ ان چشمکوں سے کچھ ایسے نوادر کا بھی ظہور ہوتا ہے جو شاید عام حالات میں کبھی مسندِ شہود پر نہ آتے اور انہی میں یگانہ کی علمِ عروض پر لازوال اور "اتھارٹی" کا درجہ حاصل کرنے والی کتاب "چراغِ سخن" ہے جو انہیں معرکوں کی یادگار ہے جس کے سرورق پر مرحوم نے لکھا تھا۔
مزارِ یاس پہ کرتے ہیں شُکر کے سجدے
دعائے خیر تو کیا اہلِ لکھنؤ کرتے
Yas Yagana Changezi, یاس یگانہ چنگیزی |
کاغذوں پر سیاہی خیر ملی ہی جاتی ہے، لیکن اس مظلوم الشعرا کے ساتھ ایک ایسا واقعہ بھی ہوا کہ کسی اہلِ قلم کے ساتھ نہ ہوا ہوگا۔ انہوں نے ایک اخبار میں ایک مضمون لکھا جس میں ایک فرقے کے خلاف کچھ تند و تیز و متنازعہ جملے تھے سو قلم کی پاداش میں دھر لیے گئے، جس محلے میں رہتے تھے وہاں اسی فرقے کی اکثریت تھی، اور چونکہ تھے بھی بے یار و مددگار، سو اہلیانِ محلہ نے پکڑ لیا، منہ پر سیاہی ملی، جوتوں کا ہار پہنایا، گدھے پر سوار کیا اور شہر میں جلوس نکال دیا۔
مدیر نقوش، محمد طفیل نے یگانہ سے ان کے آخری دنوں میں ملاقات کی تھی، اس ملاقات کی روداد انہوں نے اپنی کتاب "جناب" میں یگانہ پر خاکہ لکھتے ہوئی لکھی ہے، مذکورہ واقعہ کا ذکر کچھ یوں آیا ہے۔
"بیٹھے بیٹھے ہنسنے لگے اور پھر مجھ سے پوچھا۔ "آپ نے میرا جلوس دیکھا تھا؟"
"کیسا جلوس؟"
"اجی وہی جس میں مجھے جوتوں کے ہار پہنائے گئے تھے، میرا منہ بھی کالا کیا گیا تھا اور گدھے پر سوار کر کے مجھے شہر بھر میں گھمایا گیا تھا۔"
"اللہ کا شکر ہے کہ میں نے وہ جلوس نہیں دیکھا۔"
"واہ صاحب وا، آپ نے تو ایسے اللہ کا شکر ادا کیا ہے جیسے کوئی گھٹیا بات ہو گئی ہو، سوچو تو سہی کہ آخر کروڑوں آدمیوں میں سے صرف مجھی کو اپنی شاعری کی وجہ سے اس اعزاز کا مستحق کیوں سمجھا گیا؟ جب کہ یہ درجہ غالب تک کو نصیب نہ ہوا، میر تک کو نصیب نہ ہوا۔"
میں چاہتا تھا کہ میرزا صاحب اس تکلیف دہ قصہ کو یہیں ختم کر دیں مگر وہ مزے لے لے کر بیان کر رہے تھے جیسے انہوں نے کوئی بہت بڑا کارنامہ سرانجام دیا ہو اور اسکے بدلے یہ گراں قدر انعام پایا ہو۔
یہ واقعہ بیان کرنے کے بعد فوراً دو غزلہ کے مُوڈ میں آ گئے۔ "جی ہاں جناب، آپ کے لاہور میں بھی گرفتار ہوئے تھے۔"
"وہ قصہ کیا تھا۔"
"جناب قصہ یہ تھا کہ میرزا یگانہ چنگیزی یہاں سے کراچی کا پاسپورٹ لے کے چلے تھے اور لاہور پہنچ کر اپنے ایک دوست کے ساتھ پنجاب سے نکل کر سرحد پہنچ گئے تھے، واپسی پر گرفتار کر لیا گیا۔ (ایک دم جمع سے واحد کے صیغے پر آ گئے)۔ اکیس روز جیل میں بند رہا، ہتھکڑی لگا کر عدالت میں لایا گیا، پہلی پیشی پر مجسٹریٹ صاحب نے نام پوچھا۔ میں نے بڑھی ہوئی داڑھی پر ہاتھ پھیر کر بڑی شان سے بتایا۔ "یگانہ"۔
ساتھ کھڑے ہوئے ایک وکیل صاحب نے بڑی حیرت سے مجھ سے سوال کیا۔ "یگانہ چنگیزی؟"۔
"جی ہاں جناب۔"
یہ سنتے ہی مجسٹریٹ صاحب نے (غالباً آفتاب احمد نام بتایا تھا) میری رہائی کا حکم صادر فرما دیا۔
جب رہا ہو گیا تو جاتا کدھر؟ اور پریشان ہو گیا، مجسٹریٹ صاحب نے میری پریشانی کو پڑھ لیا، میں نے ان سے عرض کیا، میرے تمام روپے تو تھانے والوں نے جمع کر لیے تھے، اب مجھے دلوا دیجیئے۔ اس پر مجسٹریٹ صاحب نے کہا، درخواست لکھ دیجیئے۔ میرے پاس پھوٹی کوڑی نہ تھی، کاغذ کہاں سے لاتا اور کیسے درخواست لکھتا، اس پر بہ کمالِ شفقت مجسٹریٹ صاحب نے مجھے ایک آنہ دیا اور میں نے کاغذ خرید کر درخواست لکھی جس پر مجھے فوراً روپے مل گئے۔ آپ لاہور جائیں تو آفتاب احمد صاحب کے پاس جا کر میرا سلام ضرور عرض کریں۔
اور ہاں آپ بھی لاہور جا کر اب یہ کہیں گے کہ یگانہ سے ملے تھے، آپ یگانہ سے کہاں ملے ہیں؟ یگانہ کو گوشت پوست کے ڈھانچے میں دیکھنا غلط ہے، یگانہ کو اس کے شعروں میں دیکھنا ہوگا، یگانہ کو اس ٹوٹی ہوئی چارپائی پر دیکھنے کی بجائے اس مسند پر دیکھنا ہوگا جس پر وہ آج سے پچاس برس بعد بٹھایا جائے گا۔"
یگانہ کی مظلومیت یہیں ختم نہیں ہوتی، ان کو موت کے بعد بھی نہ بخشا گیا، ان کا جنازہ پڑھنا حرام قرار دے دیا گیا اور کہا جاتا ہے کہ فقط کچھ لوگ ہی انکے جنازے میں شامل تھے، انا للہ و انا الیہ راجعون۔
شہرہ ہے یگانہ تری بیگانہ روی کا
واللہ یہ بیگانہ روی یاد رہے گی
تخلیقاتِ یگانہ
(بحوالہ چراغِ سخن، مجلسِ ترقیِ ادب، لاہور، 1996ء)
- نشترِ یاس (شعری مجموعہ)، لکھنؤ، 1914ء
- چراغِ سخن (رسالہ عروض و قوافی)، لکھنؤ، 1914ء
- شہرتِ کاذبہ المعروف بہ خرافاتِ عزیز (عزیز لکھنؤی کی شاعری پر اعتراضات)، لکھنؤ۔ 1923ء
- آیاتِ وجدانی مع محاضرات (شعری مجموعہ)، لاہور، 1927ء
- ترانہ (مجموعۂ رباعیات)، لاہور، 1934ء
- غالب شکن (مکتوبِ یگانہ بنام مسعود حسن رضوی ادیب)، حیدرآباد دکن، 1934ء
- گنجینہ (مجموعۂ غزلیات و رباعیات)، لاہور، 1948
(1)
کس کی آواز کان میں آئی
دُور کی بات دھیان میں آئی
ایسی آزاد رُوح اس تن میں
کیوں پرائے مکان میں آئی
آپ آتے رہے بلاتے رہے
آنے والی اک آن میں آئی
ہائے کیا کیا نگاہ بھٹکی ہے
جب کبھی امتحان میں آئی
علم کیا، علم کی حقیقت کیا
جیسی جس کے گمان میں آئی
یہ کنارہ چلا کہ ناؤ چلی
کہیے کیا بات دھیان میں آئی
حُسن کیا خواب سے ہوا بیدار
جان تازہ جہان میں آئی
جان لیوا ہے یہ کڑی تیوری
یہ کشش کس کمان سے آئی
بات ادھوری مگر اثر دونا
اچھی لکنت زبان میں آئی
آنکھ نیچی ہوئی، ارے یہ کیا؟
کیوں غرض درمیان میں آئی
میں پیمبر نہیں یگانہ سہی
اس سے کیا کسر شان میں آئی
------
(2)
لذّتِ زندگی مُبارک باد
کل کی کیا فکر؟ ہر چہ بادا باد
اے خوشا زندگی کہ پہلوئے شوق
دوست کے دم قدم سے ہے آباد
دل سلامت ہے، دردِ دل نہ سہی
درد جاتا رہا کہ درد کی یاد؟
زیست کے ہیں یہی مزے واللہ
چار دن شاد، چار دن ناشاد
کون دیتا ہے دادِ ناکامی
خونِ فرہاد برسرِ فرہاد
صبر اتنا نہ کر کہ دشمن پر
تلخ ہو جائے لذّتِ بیداد
صلح کر لو یگانہ غالب سے
وہ بھی استاد، تم بھی اک استاد
----
(3)
خودی کا نشہ چڑھا، آپ میں رہا نہ گیا
خدا بنے تھے یگانہ مگر بنا نہ گیا
پیامِ زیرِ لب ایسا کہ کچھ سنا نہ گیا
اشارہ پاتے ہی انگڑائی لی، رہا نہ گیا
ہنسی میں وعدۂ فردا کو ٹالنے والو
لو دیکھ لو وہی کل آج جن کے آ نہ گیا
گناہِ زندہ دلی کہیے یا دل آزاری
کسی پہ ہنس لئے اتنا کہ پھر ہنسا نہ گیا
سمجھتے کیا تھے مگر سنتے تھے ترانۂ درد
سمجھ میں آنے لگا جب تو پھر سنا نہ گیا
کروں تو کس سے کروں دردِ نا رسا کا گلہ
کہ مجھ کو لے کے دلِ دوست میں سما نہ گیا
بتوں کو دیکھ کے سب نے خدا کو پہچانا
خدا کے گھر تو کوئی بندۂ خدا نہ گیا
کرشن کا ہوں پجاری، علی کا بندہ ہوں
یگانہ شانِ خدا دیکھ کر رہا نہ گیا
مرزا یاس یگانہ چنگیزی عظیم آبادی Yas Yagana Changezi, |
(4)
مجھے دل کی خطا پر یاس شرمانا نہیں آتا
پرایا جرم اپنے نام لکھوانا نہیں آتا
بُرا ہو پائے سرکش کا کہ تھک جانا نہیں آتا
کبھی گمراہ ہو کرراہ پر آنا نہیں آتا
مجھے اے ناخدا آخر کسی کو منہ دکھانا ہے
بہانہ کر کے تنہا پار اُتر جانا نہیں آتا
مصیبت کا پہاڑ آخر کسی دن کٹ ہی جائے گا
مجھے سر مار کر تیشے سے مر جانا نہیں آتا
اسیرو، شوقِ آزادی مجھے بھی گدگداتا ہے
مگر چادر سے باہر پاؤں پھیلانا نہیں آتا
دلِ بے حوصلہ ہے اک ذرا سی ٹھیس کا مہماں
وہ آنسو کیا پئے گا جس کو غم کھانا نہیں آتا
سراپا راز ہوں، میں کیا بتاؤں کون ہوں، کیا ہوں
سمجھتا ہوں مگر دنیا کو سمجھانا نہیں آتا
-----
(5)
حُسن پر فرعون کی پھبتی کہی
ہاتھ لانا یار کیوں کیسی کہی
دامنِ یوسف ہی بھڑکاتا رہا
عشق اور ترکِ ادب اچھی کہی
کوئی ضد تھی یا سمجھ کا پھیر تھا
من گئے وہ، میں نے جب اُلٹی کہی
درد سے پہلے کروں فکرِ دوا
واہ یہ اچھی الٹوانّسی کہی
دوست سے پردہ کیا یہ کیا کیا
آپ بیتی چھوڑ جگ بیتی کہی
شک ہے کافر کو مرے ایمان میں
جیسے میں نے کوئی منہ دیکھی کہی
کیا خبر تھی یہ خدائی اور ہے
ہائے میں نے کیوں خدا لگتی کہی
مفت میں سُن لی یگانہ کی غزل
ان سُنی کر دی جو مطلب کی کہی
----
(6)
کارگاہِ دنیا کی نیستی بھی ہستی ہے
اک طرف اُجڑتی ہے، ایک سمت بستی ہے
بے دلوں کی ہستی کیا، جیتے ہیں نہ مرتے ہیں
خواب ہے نہ بیداری، ہوش ہے نہ مستی ہے
کیمیائے دل کیا ہے، خاک ہے مگر کیسی؟
لیجیے تو مہنگی ہے، بیچیے تو سستی ہے
خضرِ منزل اپنا ہوں، اپنی راہ چلتا ہوں
میرے حال پر دنیا، کیا سمجھ کے ہنستی ہے
کیا کہوں سفر اپنا، ختم کیوں نہیں ہوتا
فکر کی بلندی یا حوصلہ کی پستی ہے
حُسنِ بے تماشہ کی، دھوم کیا معمّہ ہے
کان بھی ہیں نا محرم، آنکھ بھی ترستی ہے
چتونوں سے ملتا ہے، کچھ سراغ باطن کا
چال سے تو کافر پر، سادگی برستی ہے
ترکِ لذّتِ دنیا، کیجیے تو کس دل سے
ذوقِ پارسائی کیا فیضِ تنگ دستی ہے
دیدنی ہے یاس اپنے رنج و غم کی طغیانی
جھوم جھوم کر کیا کیا یہ گھٹا برستی ہے
-----
(7)
ہنوز زندگیٔ تلخ کا مزا نہ ملا
کمالِ صبر ملا صبر آزما نہ ملا
مری بہار و خزاں جس کے اختیار میں ہے
مزاج اس دلِ بے اختیار کا نہ ملا
جواب کیا، وہی آوازِ بازگشت آئی
قفس میں نالۂ جانکاہ کا مزا نہ ملا
امیدوارِ رہائی قفس بدوش چلے
جہاں اشارۂ توفیقِ غائبانہ ملا
ہوا کے دوش پہ جاتا ہے کاروانِ نفَس
عدم کی راہ میں کوئی پیادہ پا نہ ملا
ہزار ہا اسی جانب ہے منزلِ مقصود
دلیلِ راہ کا غم کیا، ملا ملا نہ ملا
امید و بیم نے مارا مجھے دوراہے پر
کہاں کے دیر و حرم گھر کا راستہ نہ ملا
خوشا نصیب جسے فیضِ عشقِ شور انگیز
بقدرِ ظرف ملا، ظرف سے سوا نہ ملا
سمجھ میں آ گیا جب عذرِ فطرتِ مجبور
گناہگارِ ازل کو نیا بہانہ ملا
------
(8)
رنگ لاتی ہے آخر ایک جُنبشِ لب کیا
دیکھئے دکھاتا ہے وعدۂ مذبذب کیا
چُلّو بھر میں متوالی، دو ہی گھونٹ میں خالی
یہ بھری جوانی کیا، جذبۂ لبالب کیا
ہاں دعائیں لیتا جا، گالیاں بھی دیتا جا
تازگی تو کچھ پہنچے، چابتا رہوں لب کیا
شامت آ گئی آخر کہہ گیا خدا لگتی
راستی کا پھل پاتا، بندۂ مقرّب کیا
اُلٹی سیدھی سنتا رہ، اپنی کہہ تو اُلٹی کہہ
سادہ ہے تو کیا جانے، بھانپنے کا ہے ڈھب کیا
سب جہاد ہیں دل کے، سب فساد ہیں دل کے
بے دِلوں کا مطلب کیا اور ترکِ مطلب کیا
ہو رہے گا سجدہ بھی جب کسی کی یاد آئی
یاد جانے کب آئے، زندہ داریٔ شب کیا
کارِ مرگ کے دن کا تھوڑی دیر کا جھگڑا
دیکھنا ہے یہ ناداں جینے کا ہے کرتب کیا
پڑ چکے بہت پالے، ڈس چکے بہت کالے
موذیوں کے موذی کو، فکرِ نیشِ عقرب کیا
میرزا یگانہ واہ، زندہ باد زندہ باد
اک بلائے بے درماں جب تو کیا تھے اور اب کیا
------
(9)
جب تک خلشِ دردِ خدا داد رہے گی
دنیا دلِ ناشاد کی آباد رہے گی
دنیا کی ہوا راس نہ آئے گی کسی کو
ہر سر میں ہوائے عدم آباد رہے گی
چونکائے گی رہ رہ کے تو غفلت کا مزہ کیا
ساتھ اپنے اجل صورتِ ہمزاد رہے گی
دل اور دھڑکتا ہے ادب گاہِ قفس میں
شاید یہ زباں تشنۂ فریاد رہے گی
جو خاک کا پُتلا، وہی صحرا کا بگولا
مٹنے پہ بھی اک ہستیِ برباد رہے گی
ہر شام ہوئی صبح کو اک خوابِ فراموش
دنیا یہی دنیا ہے تو کیا یاد رہے گی
شہرہ ہے یگانہ تری بیگانہ روی کا
واللہ یہ بیگانہ روی یاد رہے گی
-----
(10)
مزاج آپ کا دنیا سے کچھ کشیدہ سہی
فریب کھاؤ گے پھر بھی، فریب دیدہ سہی
یہ سبز باغ کا عالم، یہ رنگِ لیل و نہار
بہل ہی جائے گا دل، آپ سے رمیدہ سہی
یہ غنچہ کیسا کہ دیکھے سے دل دھڑکتا ہے
ارے یہ ایک ہی فتنہ ہے، نو دمیدہ سہی
نگاہِ شوق کی گرمی خدا کی قدرت ہے
مزے پہ آ ہی گیا حُسن، نارسیدہ سہی
کھٹکتی رہتی ہے دل میں نگاہِ دُزدیدہ
خطائے حُسن کہے کون، چشم دیدہ سہی
نگاہِ حُسن سے اب تک وفا ٹپکتی ہے
ستم رسیدہ سہی، پیرہن دریدہ سہی
فریبِ ابرِ کرم بھی بڑا سہارا ہے
بلا سے نخلِ تمنّا خزاں رسیدہ سہی
پتے کی کہیے تو ظالم کا رنگ اُڑتا ہے
زبانِ حال سے اک حرف ناشنیدہ سہی
قریب ہوں مگر اتنا کہ جیسے کوسوں دُور
مجھے نہ دیکھ سکو گے، زمانہ دیدہ سہی
مری نظر کی خطا ہوگی یا گُلوں کی خطا
تمھارے راج میں کانٹا ہی برگزیدہ سہی
یگانہ ٹھن گئی بیڈھب تو سوچتے کیا ہو
شریکِ کار نہیں تو نہیں جریدہ سہی
معذرت کہ مظلوم شعراء کی کہانی بہت لمبی ہے ۔ پڑھنے کے بعد ہی کچھ کہہ سکوں گا ۔ ابھی آپ ميری رہنمائی فرمايئے
ReplyDeleteمندرجہ ذيل اشعار ميں مجھے
ملا کو ملائے جا
اور
گٹکری
درست نہيں لگ رہے ۔ آپ کی ايک مداح نے آپ سے رابطہ کا اشارہ ديا ہے
توحید کے ترانہ کی تانیں اڑائے جا
مطرب تمام رات یہی نغمہ گائے جا
ہر نغمہ سے خلا میں ملا کو ملائے جا
ہر زمزمہ سے نُور کے دریا بہائے جا
ایک ایک تیری تال پہ سُر جھومنے لگيں
ایک ایک سُر سے چوٹ جگر پہ لگائے جا
ہر زیر و بم سے کر تہہ و بالا دماغ کو
ہر گٹکری سے پیچ دلوں کے گھمائے جا
شکریہ بھوپال صاحب۔ دونوں الفاط درست ہیں۔ ملا (عربی) کا مطلب ہے ظاہر، واضح، آشکار، یہ لفظ زیادہ تر خلا و ملا کی ترکیب میں آتا ہے اور اس کا مطلب ہوتا ہے غائب اور ظاہر، پوشیدہ اور آشکار وغیرہ اور شاعر نے یہاں یہی مطلب لیا ہے۔
ReplyDeleteگٹکری میرے لیے بھی ایک نیا لفظ تھا، لغت دیکھی تو مطلب نکلا، وہ سریلی، پچیدہ اور پیچ دار آواز جو گویوے اپنے گلے سے نکالتے ہیں بالخصوص کلاسیکی یا پکے راگ گانے والے۔ اور یہاں یہ لفظ بالکل صحیح مطلب دے رہا ہے۔
والسلام
شکريہ
ReplyDeleteمین چاھاتا تھا اس پر کامنٹ کردون لیکن دیری مین دو دن لگ گئے-- یگانہ کو حیدراباد سے تعلق تھا اچھے عہدے سے وظیفہ پر سبکدوش ھوے--
ReplyDeleteمشفق خواجہ نے کلیات یگانہ ترتیب دیا-- حواشی کے ساتھ، اور لغت کے ساتھ- غیر مطبوع کلام بھی شامل ہے-- جو بات اج تک کھٹکتی ہے یگانہ کی بے عزتی لکھنو مین-- بہت دنوں کی بات ہے کہیں پڑھا تھا-- یگانہ کے کچھ خطوط کسیطرح عبدالماجد دریا بادی کے ھاتھ لگے ملا کو کیا پسند نہی ایا طشت از بام کردیا اور وہ واقعہ پزیر ایا-- اج تک اس کی دوسری تصدیق نہی ملی--
یگانہ دمہ کے مریض تھے-- پندرہ جون سے نو اگسٹ انسو پچپن تک پروفیسر مسعود حسن ادیب کے گھر پر رہے-- یگانہ کی زندگی کی اخری رات تین حضرات تھے یہ لوگ رات کو ٹہرنا چھاتے تھے لیکن یگانہ نے رخصت کیا-- ہان جانے سے پہلے ان اصحاب کے اگے کلمہ پڑھا اور ان سے سوال کیا......کیا مین مسلمان ھون؟ مین شیعہ ھون؟ ان تینون نے اقرار کیا--
یہی اخری رات تھی تین اور چار فروری انیسو چھیپن کی درمیانی رات-- " جنازے میں بمشکل بارہ آدمی شریک تھے"
خود پرستی کیجیے یا حق پرستی کیجیے
ReplyDeleteیاس کس دن کے لئے نا حق پرستی کیجئے
دیدنی ہے یاس اپنے رنج و غم کی طغیانی
ReplyDeleteجھوم جھوم کر کیا کیا یہ گھٹا برستی ہے
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
کلام یاس سے دنیا میں ایک آگ لگی
یہ کون حضرتِ آتش کا ہم زبان نکلا
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
میں نے کہیں پڑھا تھا کے یگانہ نے غالب پر ایک کتاب بھی لکھی تھی 'غالب شکن 'کے نام سے؟
عندلیب
اسلام علیکم اس کلام کی تقطیع کیسے کریں گے
ReplyDeleteتم نے کیا ہم کو غلام اے نبی تم پر درود اے نبی تم پر سلام
تم نے دیا ہم کو نام اے نبی تم پر درود اے نبی تم پر سلام
شکریہ زین خان صاحب اور عندلیب صاحبہ آپ کے تبصروں کیلیے۔
ReplyDeleteبہت خوب
ReplyDeleteابھی پورا نہین پڑھا پھر بھی کافی دلچسپ لکھتے ہیں
نوازش آپ کی جویریہ صاحبہ اور بلاگ پر خوش آمدید، امید ہے تشریف لاتی رہیں گی۔
ReplyDelete