دلِ بے قیدِ من با نورِ ایماں کافری کردہ
حرم را سجدہ آوردہ، بتاں را چاکری کردہ
میرے بے قید دل نے ایمان کے نور کے ساتھ کافری کی ہے کہ سجدہ تو حرم کو کرتا ہے لیکن چاکری اور غلامی بتوں کی کرتا ہے۔
متاعِ طاعتِ خود را ترازوے برافرازد
ببازارِ قیامت با خدا سوداگری کردہ
(زاہد، عابد، صوفی) اپنے اطاعت کے مال و متاع کو ترازو میں تولتا ہے، گویا کہ قیامت کے بازار میں خدا کے ساتھ سوداگری کرتا ہے۔ اس خیال کا اظہار علامہ نے اپنے اردو اشعار میں بھی کیا ہے اور ان سے پہلے بھی بہت سے شعرا نے کیا ہے کہ خدا کی اطاعت بغیر کسی لالچ کے ہونی چاہیے۔
زمین و آسماں را بر مرادِ خویش می خواہد
غبارِ راہ و با تقدیرِ یزداں داوری کردہ
انسان زمین و آسمان کو اپنی من چاہی خواہشات کے مطابق دیکھنا چاہتا ہے حالانکہ وہ راہ کے گرد و غبار جیسا ہے اور پھر بھی خدا کی تقدیر کے ساتھ مقابلہ کرتا ہے۔
گہے با حق در آمیزد، گہے با حق در آویزد
زمانے حیدری کردہ، زمانے خیبری کردہ
(بے یقینی اور تذبذب میں مبتلا انسان) کبھی تو حق کے ساتھ گھل مل جاتا ہے اور کبھی حق کے مخالف ہو جاتا ہے اور اس سے مقابلہ کرتا ہے یعنی کسی لمحے حضرت علی ع کی طرح حیدری کرتا ہے اور دوسرے لمحے خیبر کے مرحب کی طرح ہو جاتا ہے جس نے حضرت علی سے مقابلہ کیا تھا۔ دوسرے مصرعے میں تلمیح تو ہے ہی، تشبیہ بھی بہت خوبصورت ہے۔
Allama Iqbal, علامہ اقبال |
بایں بے رنگیٴ جوہر ازو نیرنگ می ریزد
کلیمے بیں کہ ہم پیغمبری ہم ساحری کردہ
(حق ناشناس اور دو رنگی میں مبتلا آدمی سے) اپنے جوہر کی بے رنگی کے باوجود نیرنگ کا ظہور ہوتا رہتا ہے یعنی وہ ایک ایسے کلیم کی مانند ہے جو پیغمبری بھی کرتا ہے اور ساحری بھی کرتا ہے۔
نگاہش عقلِ دُوراندیش را ذوقِ جنوں دادہ
ولیکن با جنونِ فتنہ ساماں نشتری کردہ
اُسکی نگاہ نے دوراندیش عقل کو ذوقِ جنوں دیا لیکن فتنہ سامان جنون کے ساتھ نشتری بھی کی یعنی اس کو نشتر لگائے۔ عجب خوبصورت شعر ہے کہ ایک طرف اُس کی نگاہ اگر عقل کو ذوق جنون دیتی ہے تو دوسری طرف جنون کو بھی نشتر لگا لگا کر قابو میں رکھتی ہے۔
بخود کے می رسد ایں راہ پیمائے تن آسانے
ہزاراں سال منزل در مقامِ آزری کردہ
خود تک کیسے پہنچ سکتا ہے یہ تن آسان راہ چلنے والا کہ وہ ہزاروں سال مقامِ آزر میں ہی بیٹھا رہا۔ یعنی انسان کی اصل منزل یہ ہے کہ وہ خود تک پہنچے اور اس کیلیے ضروری ہے کہ جہدِ مسلسل میں لگا ہی رہے اور راہ کی آرام دہ جگہوں پر بیٹھا ہی نہ رہے۔
(علامہ محمد اقبال، زبورِ عجم)
------
قافیہ - آری یعنی ری اور اُس سے پہلے زبر کی آواز، یعنی کافری، چاکری، سوداگری وغیرہ
یہاں ایک سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب ری سے پہلے زبر کی آواز قافیہ ہے تو اصل لفظ تو کافِر ہے یعنی فے کے نیچے زیر ہے تو زبر کیسے آئی تو اسکا جواب یہ ہے کہ لفظ کافر عربی میں تو کافِر ہی ہے لیکن فارسی اور اردو میں فے کی زبر کے ساتھ یعنی کافَر بھی استعمال ہوتا ہے جیسے، مرزا غالب نے پتھر، ساغر اور پر کا قافیہ کافَر کیا ہے، اسی طرح اس غزل میں بھی ہے۔
ردیف۔ کردہ
بحر - بحر ہزج مثمن سالم
افاعیل - مَفاعِیلُن مَفاعِیلُن مَفاعِیلُن مَفاعِیلُن
علامتی نظام - 2221 / 2221 / 2221 / 2221
(ہندسوں کو اردو کی طرز پر یعنی دائیں سے بائیں پڑھیے یعنی 1 پہلے اور 222 بعد میں)
تقطیع -
دلِ بے قیدِ من با نورِ ایماں کافری کردہ
حرم را سجدہ آوردہ، بتاں را چاکری کردہ
دِلے بے قے - مفاعیلن - 2221
دِ من با نُو - مفاعیلن - 2221
ر ایما کا - مفاعیلن - 2221
فری کردہ - مفاعیلن - 2221
حرم را سج - مفاعیلن - 2221
دَ آوردہ - مفاعیلن - 2221
بتا را چا - مفاعیلن - 2221
کری کردہ -مفاعیلن - 2221
------
واہ بہت اچھی غزل کا انتخاب کیا ہے وارث بھائی آپ نے۔
ReplyDeleteاردو میں مفاہیم بھی سمجھ میں آتے ہیں ورنہ تو ہم صرف ان اشعار کی غنائیت سے ہی لطف اُٹھا پاتے۔
کافر والا عروض کا مسئلہ اس تحریر کے پڑھنے والے کے لئے بونس پوائنٹ ہے۔
بہت شکریہ شعر و ادب کے لئے آپ کی محنت، مشقت اور محبت قابلِ قدر ہے۔
نوازش آپ کی احمد صاحب، بہت شکریہ آپ کا۔
Deleteالسلام علیکم و رحمتہ اللہ۔
Deleteسائیں اس کلان کو کسی نے گائیکی کے انداز میں پڑھا ہے؟ ؟؟ اگر آپ جناب کے علم میں ہے تو براہ کرم اشتراک فرما دیں۔ ممنون ہونگا
جی خان صاحب، میرے علم میں یہ نہیں ہے۔
Deleteقابل قدر کاوش💞
Deleteشکریہ
Deleteمیں اپنی بارہ سالہ بیٹی کے ساتھ مل کر علامہ اقبال کے اشعار سمجھنے کی کوشش کررہا ہوں۔ آپ کی کاوش ہمارے لیے بہت سودمند ہے۔ اللہ آپ کو جزائے خیر عطا فرمائے۔
ReplyDeleteخوشی ہوئی یہ جان کر محترم، کلماتِ خیر کے لیے ممنون ہوں۔ والسلام
Delete