سید احمد شاہ (پطرس) بخاری یوں تو اپنے مضامین کی وجہ سے اردو ادب میں زندہ و جاوید ہو گئے ہیں لیکن مرحوم ایک نابغۂ روزگار اور ہمہ جہتی و سیمابی شخصیت کے مالک تھے۔ نچلا بیٹھنا انکی سرشت میں ہی نہیں تھا اور بڑے بڑے پہاڑوں سے ٹکرا جانا انکی عادتِ ثانیہ تھی۔ تقسیمِ برصغیر سے پہلے"نیازمندانِ لاہور" کے نام سے ایک گروپ بنا کر اور یو پی کے قلمکاروں سے خوب خوب ٹکر لے کر، اردو کے سب سے بہترین مرکز کے طور پر لاہور کی برتری، یو پی اور حیدر آباد (دکن) پر ثابت کرتے رہے۔ "ضربِ کلیم" میں علامہ کی ایک خوبصورت نظم ہے "ایک فلسفہ زدہ سید زادے کے نام"، اقبال کے شارحین اس نظم کے سیاق و سباق میں عموماً یہ تو لکھتے ہیں کہ یہ نظم علامہ نے ایک فلسفے کے شائق سید کے ساتھ گفتگو کے بعد لکھی تھی لیکن اس "سید زادے" کا نام نہیں لکھتے۔ اس راز سے پردہ، مرحوم محمد طفیل، مدیرِ نقوش نے اپنی کتاب "جناب" میں پطرس پر خاکہ لکھتے ہوئے ان الفاظ میں اٹھایا ہے۔
"ایک دفعہ اقبال اور پطرس کی برگساں کے فلسفے پر بات چل نکلی، باتیں ہوئیں۔ دلیلیں لیں اور دیں، کوئی بھی قائل نہ ہوا، بالآخر اقبال چپ ہو گئے، جب پطرس چلے گئے تو اقبال نے ایک نظم پطرس کے بارے میں کہی جسکا عنوان" ایک فلسفہ زدہ سید زادے کے نام" تھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ غور کیجیئے اقبال پطرس کے بارے میں نظم کہتے ہیں، اقبال اس وقت اپنے عروج کی آخری بلندیوں پہ تھے اور پطرس بلندیوں کی طرف ہمک رہے تھے مگر حوصلہ دیکھیئے، پہاڑ سے ٹکر لے لی۔"
یہ تو خیر انکی "جراتِ رندانہ" کا ایک واقعہ تھا، لیکن ان کا "شوقِ فضول" انکے مضامین کی شکل میں، اس "منزلِ مُراد" پر پہنچنے کا واضح اشارہ ہے جس کا ذکر غالب نے اپنے شعر کے مصرعِ اولیٰ میں کیا ہے۔ پطرس کو سب سے خوبصورت خراجِ تحسین بھی شاید محمد طفیل ہی نے پیش کیا ہے، لکھتے ہیں "مرحوم انگریزی اتنی جانتے تھے جتنی سارے پاکستانی مل کر جانتے ہیں اور اردو جتنی جانتے تھے اتنی اردو کے سارے پروفیسر مل کر بھی نہیں جانتے، اگر کسی پروفیسر کو میرا تبصرہ برا لگے تو وہ مرحوم جیسا ایک جملہ لکھ کر تو دیکھے"۔
یادگارِ پطرس کے طور پر تبرکاً اپنے اس ہیچ مایہ بلاگ کو انکی ایک خوبصورت فارسی غزل سے سجا رہا ہوں۔
ہم آں چشمے کہ نامِندَش سخن گو، راز دارم شد
اُن تمام داغوں کو جو میرے دل پر تیرے عطا کردہ تھے میں نے بہت احتیاط سے (چھپا چھپا کر) رکھا، وہ آنکھ بھی جسے سخن گو (راز فاش کرنے والی) کہا جاتا ہے میری راز داں تھی (محبت کا راز فاش نہیں کرتی تھی)۔
دِلے بُود و در آغوشَم نگنجید و جہانم شد
خیالے داشتم از سرگزشت و آسمانم شد
ایک دل تھا اور جب وہ ہمارے پہلو میں نہ سمایا تو جہان بن گیا، اور اپنی (مظلوم و محروم) سرگزشت کا خیال آیا تو وہ (بے رحم) آسمان بن گیا۔
مپرس اے داورِ محشر، چہ می پرسی، چہ می پرسی
نگاہِ حسرت آلایم کہ می بینی، بیانم شد
اے داورِ محشر نہ پوچھ، تو مجھ سے کیا پوچھنا چاہتا ہے؟ (میں کیا بتاؤں) کہ میری حسرت آلایم نگاہ جو تو دیکھ رہا ہے وہی میرا بیان بن گئی ہے یعنی میری حسرت و یاس بھری آنکھوں میں دیکھ لے تجھے اپنے سارے سوالوں کے جواب مل جائیں گے۔
سیّد احمد شاہ پطرس بخاری Patras Bokhari |
نظر کردی بہ بے باکی و فصلِ داستانم شد
تیری دزدیدہ نگاہ جو دل پر پڑی تو میں نے اسے رازِ جاں بنا لیا، تو نے بیباکی سے دیکھا تو وہ ہماری داستان کا ایک باب بن گیا۔
دگر قدحِ جنوں در دہ کہ ہم در منزلِ اوّل
خیالِ وحشَتَم واماند و گردِ کاروانَم شد
اے قضا و قدر کے کارکنوں، جنون کا ایک اور جام مجھے دو کہ پہلی منزل میں ہی، میری وحشت کا خیال واماندہ (خستہ، کم) ہوا اور میں کارواں کی گرد بن گیا۔
پطرس بخاری کی تخلیقات اس ویب سائٹ پر پڑھی جا سکتی ہیں، اس پوسٹ میں شامل تصویر بھی اسی سائٹ سے لی ہے۔
متعلقہ تحاریر : پطرس بخاری,
فارسی شاعری
وارث صاحب سبحان اللہ۔ کیا خوبصورت مضمون آپ نے لکھا ہے۔ پطرس تو جی بس اللہ کا کرم ہے کہ ہم لوگوں میں پیدا ہوگئے۔ یہ دو چار لوگ نا ہوتے تو ہمیں پتہ ہی نا چلنا تھا کہ عمدہ مذاق کیا ہوتا ہے۔ بہت شکریہ اس غزل سے روشناس کرانے کے لیے۔
ReplyDeleteبہت خوب مضمون لکھا ہے آپ نے وارث صاحب۔ پطرس نے اپنی زندگی اسی مقولے کے تحت گزاری جس کے بارے میں انہوں نے اپنے مضمون 'کتے' میں لکھا
ReplyDeleteعرفی تو میندش زغوغاے رقیباں
آواز سگاں کم نا کند رزق گدارا
بہت خوب وارث صاحب
ReplyDeleteمجھے پطرس کے بارے اس کی خبر نہ تھی ۔
اسی خوشی میں ایک لطیفہ نما واقعہ نذر ہے ۔
پطرس کے بھائی احمد شاہ بخاری آل انڈیا ریڈیو کے ڈائیریکٹر تھے اور موسیقی کا اچھا علم رکھتے تھے ۔ اس زمانے میں پروگرام لائیو نشر ہوتے تھے اور اور رات کے نو بجے خبر نامہ نشر ہونے سے پہلے کوئی موسیقی وغیرہ لگا دی جاتی تھی تاکہ خبرنامہ وقت پر شروع ہو سکے ۔
ایک دن رات کو احمد شاہ اپنے گھر میں خبر نامے کے انتظار میں بیٹھے تھے کہ ریڈیو نے خبرنامہ سے چند لمحے قبل طبلہ لگا دیا ۔ طبلہ کچھ بجانے والے سے مسلسل کوئی فنی سہو واقع ہو رہا تھا ۔ احمد شاہ نے فون اٹھایا اور ریڈیو سٹیشن ڈیوٹی افسر کو فون کر کے غصے میں پوچھنے لگے
یہ کیا بجا رہے ہیں آپ لوگ؟
تو ڈیوٹی افسر نے جواب دیا
سر ! نو بجا رہے ہیں
ذیڈ اے بخاری
Deleteجزاک اللہ سر جی بہت شکریہ مضمون پڑھ کر بہت اچھا لگا بہت پیارا مضمون لکھا ہے آپ نے شکریہ
ReplyDeleteپطرس کو میں تو ایک مزاح نگار کے طور پر ہی جانتا تھا۔ کہ وہ فارسی میں غزل لکھتے تھے یہ معلوم نہ تھا۔ اور یہ جان کر تو از حد حیرت ہوئی ہے کہ اقبال کی مذکورہ نظم کا پس منظر ان کی پطرس سے ایک بھرپور ملاقات ہے۔یہ معلومات بہم پہنچانے کا بہت شکریہ جناب۔پطرس جیسا لکھنے والے کم ہی ہوتے ہیں۔
ReplyDeleteبہت شکریہ آپ سب دوستوں کا، نوازش۔
ReplyDeleteالسلام علیکم
ReplyDeleteپطرس سے میں اس وقت واقف ہوا جب گورنمنٹ کالج میں تھا۔ ان کا ایک مضمون بھی ہماری درسی کتاب میں شامل تھا۔ ان کی شخصیت کی یہ جہت مجھے تا حال معلوم نہ تھی۔ اور علامہ کی نظم کا سیاق بتا کر آپ نے مزید مشکور کر دیا کہ یہ بھی میرے وہم و گمان سے پرے تھا۔
:)۔
شکریہ