پچھلے دنوں یوٹیوب پر فارسی کلام ڈھونڈتے ڈھونڈتے مولانا رومی کی ایک غزل تک پہنچ گیا جو استاد نصرت فتح علی خان قوّال نے گائی ہے۔ سوچا فارسی، شاعری، رومی، موسیقی، قوّالی، نصرت یا فقط 'یو ٹیوب' کو پسند کرنے والے احباب کی خدمت میں پیش کر دوں۔
میں اس غزل کے سحر میں کئی دنوں سے گرفتار ہوں اور اس اسیری سے رہائی بھی نہیں چاہتا، فقط ایک کمی محسوس ہوتی ہے کہ اس غزل کے صرف وہی پانچ اشعار مل سکے جو نصرت نے گائے ہیں۔ رومی ایسے شعراء کیلیے پندرہ بیس اشعار کی غزل کہنا ایک عام بات تھی، تین تو مطلعے ہیں اس غزل کے۔
آن لائن یونی کوڈ دیوانِ شمس (مولانا رومی کا دیوان جو انہوں نے اپنے مرشد شمس تبریز کے نام کیا ہے) میں بھی یہ غزل نہیں ملی۔ کہتے ہیں کہ سلامِ دہقانی خالی از مطلب نیست سو اس غزل کو یہاں پوسٹ کرنے کا ایک مقصد یہ بھی ہے کہ اگر کسی دوست کو یہ غزل کہیں سے مل سکے تو ضرور شیئر کریں۔
اس غزل کی ردیف، می گردم (میں گھومتا ہوں) میں مولوی رومی یا سلسلۂ مولویہ کا فلسفہ مضمر ہے، اس سلسلے کے ترک درویش سماع کے وقت ایک مخصوص اندازمیں گھومتے ہیں۔ اسطرح کے گھومنے سے انکی مراد کائنات کی گردش کے ساتھ مطابقت یا synchronization ہے۔ ہاتھوں اور سر کا انداز بھی مخصوص ہوتا ہے، عموماً دایاں ہاتھ اوپر کی طرف اور بایاں نیچے کی طرف ہوتا کہ اوپر والے ہاتھ سے کائنات یا آسمان سے مطابقت اور نیچے والے سے زمین کے ساتھ ہو رہی ہے، سر کا جھکاؤ دائیں طرف یعنی نگاہیں دل کی طرف ہوتی ہیں۔ کمال اتا ترک کے انقلاب سے پہلے یہ مخصوص رقص ترکی میں بہت عام تھا اور ہر خانقاہ اور زاویے پر اسکی محفلیں منعقد کی جاتی تھیں، اتا ترک نے اور بہت سی چیزوں کے ساتھ ساتھ اس سماع اور رقص کو بھی بند کرا دیا تھا اور اسکی اجازت فقط مولانا کے عرس کے موقعے پر قونیہ میں انکے مزار پر تھی۔
تقریباً اسی زمین میں شیخ سیّد عثمان شاہ مروندی معروف بہ لال شہاز قلندر کی بھی ایک خوبصورت غزل ہے
نمی دانم کہ آخر چوں دمِ دیدار می رقصم
مگر نازم بہ آں ذوقے کہ پیشِ یار می رقصم
(یہ غزل اس ربط پر پڑھی جا سکتی ہے)
تقریباً اس لیے کہا کہ کسی شاعر کی زمین میں غزل ہونے کا مطلب یہ ہے کہ نہ صرف اسکی بحر بلکہ قافیہ اور ردیف (ردیف اگر ہے) بھی ایک جیسی ہونی چاہیے، یہ دونوں غزلیں ایک ہی بحر میں، ایک ہی قافیے کے ساتھ ہیں لیکن ردیف مختلف ہے، مولانا رومی کی ردیف اگر انکے سلسلے کے رقص و سماع کی آئینہ دار ہے تو شیخ عثمان کی ردیف، می رقصم (میں رقص کرتا ہوں) انکے سلسلے کی، قلندری دھمال کی شہرت چہار دانگ عالم ہے۔ میں نہیں جانتا کہ پہلے کس نے غزل کہی اور کس نے دوسرے کی زمین استعمال کی کہ دونوں بزرگ ہمعصر تھے اور یہ بات بھی مشہور ہے کہ انکے روابط بھی تھے۔
اور دھمال سے ایک واقعہ یاد آ گیا، پچھلی صدی کی نوے کی دہائی کے نصف کی بات ہے، خاکسار لاہور میں زیرِ تعلیم تھا اور جائے رہائش گلبرگ مین مارکیٹ تھی، ایک دن وہاں شاہ جمال کے عرس کیلیے چندہ جمع کرنے کیلیے ایک 'چادر' نکلی جس میں پپو سائیں ڈھول بجا رہا تھا اور ساتھ میں دھمال پارٹی تھی۔ پپو سائیں اب تو پوری دنیا میں اپنے ڈھول بجانے کے فن کی وجہ سے مشہور ہو گیا ہے لیکن اس وقت اس کی مقامی شہرت کا آغاز ہو رہا تھا۔ اسی شہرت کو 'کیش' کرانے کے متعلق کچھ رازِ ہائے درونِ خانہ بھی اس خاکسار کے سینے میں ہیں کہ اسی وجہ سے اب تک ایک نوجوان کسی جیل میں عمر قید کی سزا کاٹ رہا ہے۔ خیر ذکر دھمال کا تھا، شام کو جب سب دوست کمرے میں اکھٹے ہوئے تو اس بات کا ذکر ہوا، خوشاب کے ایک دوست نے میری طرف اشارہ کرتے ہوئے ایک دوسرے سیالکوٹی دوست سے کہا کہ اگر آج یہ دھمال کہیں اور ہو رہی ہوتی تو اسکی دھمال بھی دیکھنے والی ہوتی مگر یہ اس وجہ سے رک گیا کہ یہاں اسکے کچھ شناسا موجود تھے۔
اور میں اس دوست کی بات سن کر حیران پریشان رہ گیا کہ اس کو میرے دل کی منافت کا کیسے علم ہو گیا گو یہ منافقت بہت سالوں بعد ختم ضرور ہوئی۔ 'می رقصم' کی تو یہ رہی، 'می گردم' نے بھی لاہور کی گلیوں اور کوچہ بازاروں کے بہت چکر لگوائے ہیں، خیر جانے دیجیئے، آپ بھی کیا کہیں گے کہ یہ غزل سے غزالاں تک جا پہنچا۔
غزل پیشِ خدمت ہے
نہ من بیہودہ گردِ کوچہ و بازار می گردَم
مذاقِ عاشقی دارم، پئے دیدار می گردَم
میں کُوچہ بازار میں یونہی آوارہ اور بے وجہ نہیں گھومتا بلکہ میں عاشقی کا ذوق و شوق رکھتا ہوں اور یہ سب کچھ محبوب کے دیدار کے واسطے ہے۔
خدایا رحم کُن بر من، پریشاں وار می گردم
خطا کارم گنہگارم، بہ حالِ زار می گردم
اے خدا مجھ پر رحم کر کہ میں پریشان حال پھرتا ہوں، خطار کار ہوں، گنہگار ہوں اور اپنے اس حالِ زار کی وجہ سے ہی گردش میں ہوں۔
شرابِ شوق می نوشم، بہ گردِ یار می گردم
سخن مستانہ می گویم، ولے ہشیار می گردم
میں شرابِ شوق پیتا ہوں اور دوست کے گرد گھومتا ہوں، میں اگرچہ شرابِ شوق کی وجہ سے مستانہ وار کلام کرتا ہوں لیکن دوست کے گرد طواف ہوشیاری سے کرتا ہوں یعنی یہ ہوش ہیں کہ کس کے گرد گھوم رہا ہوں۔
گہے خندم گہے گریم، گہے اُفتم گہے خیزم
مسیحا در دلم پیدا و من بیمار می گردم
اس شعر میں ایک بیمار کی کیفیات بیان کی ہیں جو بیم و رجا میں الجھا ہوا ہوتا ہے کہ کبھی ہنستا ہوں، کبھی روتا ہوں، کبھی گرتا ہوں اور کبھی اٹھ کھڑا ہوتا ہوں اور ان کیفیات کو گھومنے سے تشبیہ دی ہے کہ میرے دل میں مسیحا پیدا ہو گیا ہے اور میں بیمار اسکے گرد گھومتا ہوں۔ دل کو مرکز قرار دے کر اور اس میں ایک مسیحا بٹھا کر، بیمار اسکا طواف کرتا ہے۔
بیا جاناں عنایت کُن تو مولانائے رُومی را
غلامِ شمس تبریزم، قلندر وار می گردم
اے جاناں آ جا اور مجھ رومی پر عنایت کر، کہ میں شمس تبریز کا غلام ہوں اور دیدار کے واسطے قلندر وار گھوم رہا ہوں۔ اس زمانے میں ان سب صوفیا کو قلندر کہا جاتا تھا جو ہر وقت سفر یا گردش میں رہتے تھے۔
میں اس غزل کے سحر میں کئی دنوں سے گرفتار ہوں اور اس اسیری سے رہائی بھی نہیں چاہتا، فقط ایک کمی محسوس ہوتی ہے کہ اس غزل کے صرف وہی پانچ اشعار مل سکے جو نصرت نے گائے ہیں۔ رومی ایسے شعراء کیلیے پندرہ بیس اشعار کی غزل کہنا ایک عام بات تھی، تین تو مطلعے ہیں اس غزل کے۔
آن لائن یونی کوڈ دیوانِ شمس (مولانا رومی کا دیوان جو انہوں نے اپنے مرشد شمس تبریز کے نام کیا ہے) میں بھی یہ غزل نہیں ملی۔ کہتے ہیں کہ سلامِ دہقانی خالی از مطلب نیست سو اس غزل کو یہاں پوسٹ کرنے کا ایک مقصد یہ بھی ہے کہ اگر کسی دوست کو یہ غزل کہیں سے مل سکے تو ضرور شیئر کریں۔
اس غزل کی ردیف، می گردم (میں گھومتا ہوں) میں مولوی رومی یا سلسلۂ مولویہ کا فلسفہ مضمر ہے، اس سلسلے کے ترک درویش سماع کے وقت ایک مخصوص اندازمیں گھومتے ہیں۔ اسطرح کے گھومنے سے انکی مراد کائنات کی گردش کے ساتھ مطابقت یا synchronization ہے۔ ہاتھوں اور سر کا انداز بھی مخصوص ہوتا ہے، عموماً دایاں ہاتھ اوپر کی طرف اور بایاں نیچے کی طرف ہوتا کہ اوپر والے ہاتھ سے کائنات یا آسمان سے مطابقت اور نیچے والے سے زمین کے ساتھ ہو رہی ہے، سر کا جھکاؤ دائیں طرف یعنی نگاہیں دل کی طرف ہوتی ہیں۔ کمال اتا ترک کے انقلاب سے پہلے یہ مخصوص رقص ترکی میں بہت عام تھا اور ہر خانقاہ اور زاویے پر اسکی محفلیں منعقد کی جاتی تھیں، اتا ترک نے اور بہت سی چیزوں کے ساتھ ساتھ اس سماع اور رقص کو بھی بند کرا دیا تھا اور اسکی اجازت فقط مولانا کے عرس کے موقعے پر قونیہ میں انکے مزار پر تھی۔
تقریباً اسی زمین میں شیخ سیّد عثمان شاہ مروندی معروف بہ لال شہاز قلندر کی بھی ایک خوبصورت غزل ہے
نمی دانم کہ آخر چوں دمِ دیدار می رقصم
مگر نازم بہ آں ذوقے کہ پیشِ یار می رقصم
(یہ غزل اس ربط پر پڑھی جا سکتی ہے)
تقریباً اس لیے کہا کہ کسی شاعر کی زمین میں غزل ہونے کا مطلب یہ ہے کہ نہ صرف اسکی بحر بلکہ قافیہ اور ردیف (ردیف اگر ہے) بھی ایک جیسی ہونی چاہیے، یہ دونوں غزلیں ایک ہی بحر میں، ایک ہی قافیے کے ساتھ ہیں لیکن ردیف مختلف ہے، مولانا رومی کی ردیف اگر انکے سلسلے کے رقص و سماع کی آئینہ دار ہے تو شیخ عثمان کی ردیف، می رقصم (میں رقص کرتا ہوں) انکے سلسلے کی، قلندری دھمال کی شہرت چہار دانگ عالم ہے۔ میں نہیں جانتا کہ پہلے کس نے غزل کہی اور کس نے دوسرے کی زمین استعمال کی کہ دونوں بزرگ ہمعصر تھے اور یہ بات بھی مشہور ہے کہ انکے روابط بھی تھے۔
اور دھمال سے ایک واقعہ یاد آ گیا، پچھلی صدی کی نوے کی دہائی کے نصف کی بات ہے، خاکسار لاہور میں زیرِ تعلیم تھا اور جائے رہائش گلبرگ مین مارکیٹ تھی، ایک دن وہاں شاہ جمال کے عرس کیلیے چندہ جمع کرنے کیلیے ایک 'چادر' نکلی جس میں پپو سائیں ڈھول بجا رہا تھا اور ساتھ میں دھمال پارٹی تھی۔ پپو سائیں اب تو پوری دنیا میں اپنے ڈھول بجانے کے فن کی وجہ سے مشہور ہو گیا ہے لیکن اس وقت اس کی مقامی شہرت کا آغاز ہو رہا تھا۔ اسی شہرت کو 'کیش' کرانے کے متعلق کچھ رازِ ہائے درونِ خانہ بھی اس خاکسار کے سینے میں ہیں کہ اسی وجہ سے اب تک ایک نوجوان کسی جیل میں عمر قید کی سزا کاٹ رہا ہے۔ خیر ذکر دھمال کا تھا، شام کو جب سب دوست کمرے میں اکھٹے ہوئے تو اس بات کا ذکر ہوا، خوشاب کے ایک دوست نے میری طرف اشارہ کرتے ہوئے ایک دوسرے سیالکوٹی دوست سے کہا کہ اگر آج یہ دھمال کہیں اور ہو رہی ہوتی تو اسکی دھمال بھی دیکھنے والی ہوتی مگر یہ اس وجہ سے رک گیا کہ یہاں اسکے کچھ شناسا موجود تھے۔
اور میں اس دوست کی بات سن کر حیران پریشان رہ گیا کہ اس کو میرے دل کی منافت کا کیسے علم ہو گیا گو یہ منافقت بہت سالوں بعد ختم ضرور ہوئی۔ 'می رقصم' کی تو یہ رہی، 'می گردم' نے بھی لاہور کی گلیوں اور کوچہ بازاروں کے بہت چکر لگوائے ہیں، خیر جانے دیجیئے، آپ بھی کیا کہیں گے کہ یہ غزل سے غزالاں تک جا پہنچا۔
غزل پیشِ خدمت ہے
نہ من بیہودہ گردِ کوچہ و بازار می گردَم
مذاقِ عاشقی دارم، پئے دیدار می گردَم
میں کُوچہ بازار میں یونہی آوارہ اور بے وجہ نہیں گھومتا بلکہ میں عاشقی کا ذوق و شوق رکھتا ہوں اور یہ سب کچھ محبوب کے دیدار کے واسطے ہے۔
خدایا رحم کُن بر من، پریشاں وار می گردم
خطا کارم گنہگارم، بہ حالِ زار می گردم
اے خدا مجھ پر رحم کر کہ میں پریشان حال پھرتا ہوں، خطار کار ہوں، گنہگار ہوں اور اپنے اس حالِ زار کی وجہ سے ہی گردش میں ہوں۔
Mazar Maulana Rumi, مزار مولانا رُومی |
سخن مستانہ می گویم، ولے ہشیار می گردم
میں شرابِ شوق پیتا ہوں اور دوست کے گرد گھومتا ہوں، میں اگرچہ شرابِ شوق کی وجہ سے مستانہ وار کلام کرتا ہوں لیکن دوست کے گرد طواف ہوشیاری سے کرتا ہوں یعنی یہ ہوش ہیں کہ کس کے گرد گھوم رہا ہوں۔
گہے خندم گہے گریم، گہے اُفتم گہے خیزم
مسیحا در دلم پیدا و من بیمار می گردم
اس شعر میں ایک بیمار کی کیفیات بیان کی ہیں جو بیم و رجا میں الجھا ہوا ہوتا ہے کہ کبھی ہنستا ہوں، کبھی روتا ہوں، کبھی گرتا ہوں اور کبھی اٹھ کھڑا ہوتا ہوں اور ان کیفیات کو گھومنے سے تشبیہ دی ہے کہ میرے دل میں مسیحا پیدا ہو گیا ہے اور میں بیمار اسکے گرد گھومتا ہوں۔ دل کو مرکز قرار دے کر اور اس میں ایک مسیحا بٹھا کر، بیمار اسکا طواف کرتا ہے۔
بیا جاناں عنایت کُن تو مولانائے رُومی را
غلامِ شمس تبریزم، قلندر وار می گردم
اے جاناں آ جا اور مجھ رومی پر عنایت کر، کہ میں شمس تبریز کا غلام ہوں اور دیدار کے واسطے قلندر وار گھوم رہا ہوں۔ اس زمانے میں ان سب صوفیا کو قلندر کہا جاتا تھا جو ہر وقت سفر یا گردش میں رہتے تھے۔
یو ٹیوب ویڈیوز بشکریہ ثاقب طاہر۔
متعلقہ تحاریر : فارسی شاعری,
قوالی,
موسیقی,
مولانا رومی,
نصرت فتخ علی خان
السلام علیکم
ReplyDeleteبہت دنوں کے بعد آنا ہوا آپکے بلاگ پر۔۔۔ بہت خوب غزل پیش کی ہے آپ نے۔ اور ترجمہ لکھ کے تو ویسے ہی آپ احسان کر دیتے ہیں صاحب۔۔۔
اور پپو سائیں کا جو واقعہ آپ گول کر گئے ہیں، اس نے تجسس بڑھا دیا ہے۔۔۔!!
صاف چھپتے بھی نہیں، سامنے آتے بھی نہیں
ReplyDeleteاتنے دن کے بعد بلاگ پر واپسی مبارک۔۔۔
فیس بک زندہ باد
جس نے تقریبا سارے بلاگروں کو ”مصروف“ کردیا ہے
پپو سائیں اور لاہور کے می گردم واقعات پر دو پوسٹوں کا مطالبہ ہے!
منظور نہ ہونے کی صورت میں بھوک ہڑتال کی جائے گی۔۔۔
بہت شکریہ عین لام میم اور جعفر صاحب۔
ReplyDeleteجعفر صاحب، کوشش کرونگا لکھنے کی لیکن وعدہ نہیں کرتا، ہاں فیس بُک کے متعلق لکھنے کا ارادہ ہے :)
بہت خوب غزل بھی اور تحریر بھی
ReplyDeleteامید
شکریہ امید
ReplyDeleteشرابِ شوق می نوشم، بہ گردِ یار می گردم
ReplyDeleteسخن مستانہ می گویم، ولے ہشیار می گردم
سبحان اللہ! مولانا کی کیا ہی عمدہ غزل ہے اور شیریں لحن نصرت فتح علی خان نے اسے چار چاند لگا دیے اور ہمارے لیے مولانا رومی اور نصرت فتح علی خان سے بھی سوا اس کی خوبصورتی یہ ہے کہ ہمارے یار طرح دار حضرت وارث نے منتخب کی ہے۔
لطف 'سہ' بالا ہو گیا حضور!
(آپ کی اس تحریر پر محفل میں تو تبصرہ کر چکا تھا لیکن آج طوافِ یار کو بھٹکتا ہوا اس جانب نکلا تو یہاں بھی کچھ عرض نہ کرنا بدذوقی جانا)
نوازش فاتح صاحب
ReplyDeleteاسی غزل کا ایک اور شعر پیش خدمت ہے
ReplyDeleteہزاراں غوطہ ہا خوردم دراین دریائے بے پایاں
برائے گوہرِ معنی بدریا پار میگردم
یہ شعر مندرجہ ذیل صفحے پر درج ہے
ReplyDeletehttp://www.alqlm.org/forum/showthread.php?t=6217
خاکسار کے بلاگ پر خوش آمدید جناب، اور شکریہ خوبصورت شعر کے اضافے کیلیے، نوازش۔
ReplyDeleteآپ نے ایرانی گلو کار داریوش کی گائی ہوئی مولانا کی غزل سنی ہے؟ سنے اور سر دھنیے . ایرانی گایکی کا انگ ہمارے شاستریہ سنگیت سے بالکل الگ ہے
ReplyDeletehttp://www.youtube.com/watch?v=qGIB2U6nDLI
السلام علیکم و رحمۃ اللّٰہ وبرکاتہ
Deleteیہ لنک کام نہیں کر رہا ہے
میرے واٹس ایپ نمبر9792390053پرارسال کرنے کی زحمت کریں
آپ فارسی میں ہمارے فکری اثاثے کو منتقل کر کے ایک بڑی ملی خدمت انجام دے رہے ہیں.اللہ اپ کو خوش رکھے
ReplyDeletewaris sahib ! aap ki mehnat aur ilm say ham aksar mustafeed hotay hain . shukriya Rehman Hafeez
ReplyDeleteوارث صاحب سلام قبول فرمایں اللہ تعالٰی اس خدمت پر آپکو اجر دے بہت خوشی ہوتی ہے کام دیکھ کر۔
ReplyDeleteنوازش آپ کی اظہر صاحب، بہت شکریہ۔
ReplyDeleteوارث ھاءی مولانا جامی کا بھی کلام اپ لوڈ کریں ۔انتظار رہے گا۔
ReplyDeleteBohot kamal ghazal hai aur tarjuma bhi kaafi mufeed hai... bohot shukriya waris bhai
ReplyDeleteشکریہ عمران صاحب اور سید ذیشان اصغر صاحب۔ عمران صاحب، انشاءاللہ مولانا جامی کا کلام پوسٹ کرنے کی کوشش کرونگا۔
ReplyDeleteترم محمد وارث صاحب
ReplyDeleteالسلام علیکم
اج سرچ کے دوران آپ کا بلاگ دیکھا بڑی خوشی ہوئی خصوصاً مولان روم کا کلام دیکھ کر اللہ آپ کو جزئے خیر دے
ایک اور کلام بھی اُستاد نصرت فتح علی خان نے کی آواز میں ہے وہ پیش خدمت ہے اسکا بھی ترجمہ اور درستگی فرما دیجیئے
طالب دعا
محمد اقبال جیلانی
راجنپور
شکریہ اقبال جیلانی صاحب اور بلاگ پر خوش آمدید۔
Deleteآپ نے جو اشعار نیچے درج کیے ہیں شاید وہ سارے مولانا رومی کے نہیں ہیں بلکہ اقبال کے بھی ہیں۔ اور کچھ اشعار صحیح بھی نہیں ہیں۔
تو کریمی، من کمینہ بردہ عم لیکن از لطف شمار پروردہ عم
ReplyDeleteزندگی آمد، برائے بندگی زندگی بے بندگی شرمندگی
یاد اے او سرمایہ ایماں بود ھر کدا، از یاد او سلطاں بود
سید و سرور محمدﷺنور جاں مھتر او بھتر شفیع مجرمان
چوں محمدﷺپاک شد از نار او ھر کجا روح کرد وجہ العلیٰ او
شھباز لاماکانی جانِ او رحمت للعالمیں در شان او
مھترین او بھترین انبیاہ جز محمدﷺنیست در ارض و سماں
آں محمدﷺحامد او محمود شد شکل عابد،صورت معبود شد
اولیاہ، اللہ او اللہ اولیاہ، یعنی دید پیر، دید کبریاہ
ھرکہ پیر او ذات حق راہ یک نہ دید نے مرید او نے مرید او نے مرید
مولوی ھر گز نہ شد مولائے روم تا غلام شمس تبریزی نہ شد
محمد اقبال جیلانی
راجن پور
محترم
ReplyDeleteاس لیے درستگی کے بارے عرض کیا ہے
جناب وارث صاحب سلام قبول فرمائیں
ReplyDeleteتلاشِ بسیار کے بعد مولانا کی اِس غزل کا ایک اور شعر مِلا ہے
شعر مُلاحظہ فرمائیں
چو شُد منظور قتلِ من تغافل چیست اے غافل
کفن بر دوش سَر بکف بر گرد دار می گردم
شکریہ ملک صاحب اس نوازش کیلیے، لیکن اس کا دوسرا مصرع کچھ وزن کی گڑ بڑ کر رہا ہے۔
Deleteوالسلام
بھائی صاحب اِنتخاب ِنعت نامی کتاب میں پروفیسر عبدالغفور قمر نے اِسے شامل کیا ہے
ReplyDeleteجی کتابت کی غلطی ہو سکتی ہے کتاب میں۔
Deleteاسلام وعلیکم
ReplyDeleteمحمد وارث بھائی کیسے ہیں آپ ۔۔۔۔ میں نے کچھ دن پہلے یہ غزل سنی نصرت فتح علی خان موحوم کی آواز میں اور اس وقت سے اس کے سحر میں مبتلا ہوں ۔۔۔ آپ یہ کہہ سکتے ہیں میں دیوانوں کی یہ مکمل کلام اور اس کا اوردو ترجمہ ڈھونڈنے کی کوشش کر رہا ہوں لیکن کوئی کامیابی نہیں ملی پھر ساجد بھائی نے آپ کا بتایا تو آپ کا بلاگ چھان رہا ہوں ۔۔ برائے مہربانی یہ مکمل کلام معہ اردو ترجمہ یہاں اپ لوڈ کردیجیئے یا مجھے ای میل کردی دیجئے
شکریہ فراز صاحب تشریف لانے کیلیے۔ دراصل یہ غزل مجھے بھی اتنی ہی ملی تھی جتنی میں نے لکھ دی ہے۔ بہت کوشش کی کہ کہیں سے مکمل مل جائے لیکن یہ غزل مولانا رومی کے دیوانِ شمس میں نہیں ہے۔ مکمل غزل کیلیے میری تلاش بھی چار سال سے جاری ہے، ملی تو انشاءاللہ ضرور بتاؤنگا۔
Deleteوالسلام
ماشاءاللہ سر جی کیا خوب غزل ہے اور آپ کے ترجمہ نے تو اسے موتیوں میں پرو دیا ہے۔
ReplyDeleteنوازش آپ کی سید صاحب محترم۔
Deleteمحترم السلام علیکم
ReplyDeleteنظیری نیشاپوری کا شعر جا ایں جاست کی تلاش میں آپ کے بلاگر تک پہنچا تھا۔اب ایک بار پھیر ایک آدھ لفظ کی درستی کی خاطر بہت وقت لگانے کے باوجود اسے ڈھونڈھ نہیں پا رہا۔
براہِ کرم اس بارے مٰں مہربانی فرمائیں۔
واسلام سجاد حیدر
سجاد صاحب، نظیری کی یہ غزل اس بلاگ پر موجود ہے، آپ دائیں طرف ٹیگز میں نظیری نیشاپوری کے ٹیگ پر کلک کریں تو نظیری کا تمام کلام جو یہاں موجود ہے وہ سامنے آ جائے گا۔ مطلوبہ غزل کا ربط یہ ہے
Deletehttps://muhammad-waris.blogspot.com/2009/08/2121-2211-2121-22-22-122-211-1211-2121.html
السلام علیکم ورحمتہ اللہ و برکاتہ
ReplyDeleteوارثِ محترم کیسے احوال ہیں
فارسی نظم و غزل کے حوالہ سے جب بھی تلاش کری تو گوگل نے آپ کی زیارت کروانا ضروری سمجھا ایک عرصہ سے خامۂ وارث سے آشنائی ہے لیکن دخل اندازی کی جسارت پہلی مرتبہ کری ہے۔ ماشاء اللہ بہت خوب آج بھی مولانا علیہ الرحمہ کی مذکورہ غزل کسی کو تحریراً ارسال کرنا مقصود تھا اس حوالہ سے بھی پا سر فہرست ہیں
اللہ پاک آپ کے علم و قلم میں وسعت عطا فرمائے
آمین
والسلام
وعلیکم السلام اور بہت شکریہ قادری صاحب، نوازش آپ کی۔کلماتِ خیر کے لیے تہہ دل سے ممنون ہوں، جزاک اللہ۔
Deleteتقریباً اسی زمین میں شیخ سیّد عثمان شاہ مروندی معروف بہ لال شہاز قلندر کی بھی ایک خوبصورت غزل ہے
ReplyDelete\
اس ضمن میں ۔۔۔۔زمین کا کیا مطلب ہے؟؟
بحر، قافیہ اور ردیف کا ایک جیسا ہونے کو ایک ہی زمین کہا جاتا ہے۔
Delete