در حلقۂ فقیراں، قیصر چہ کار دارد؟
در دستِ بحر نوشاں، ساغر چہ کار دارد؟
فقیروں کی مجلس میں قیصر (و کسریٰ، بادشاہوں) کا کیا کام، دریا نوشوں کے ہاتھ میں ساغر کا کیا کام۔
در راہِ عشق بازاں، زیں حرف ہا چہ خیزد؟
در مجلسِ خموشاں، منبر چہ کار دارد؟
عشاق کی راہ میں، یہ الفاظ سے کیا اٹھتے ہیں ( ان کو عقل و دانش و وعظ و پند سے کیا واسطہ) کہ خاموشوں کی مجلس میں منبر کا کیا کام۔
شیخ فخرالدین عراقی ایک خاکہ Fakhruddin Iraqi |
ایبک چہ وزن آرد؟ سنجر چہ کار دارد؟
اس جگہ جہاں عاشقوں کو درس حیات ملتا ہے، ایبک کا کیا وزن اور سنجر (یعنی بادشاہوں) کا کیا کام۔
جائے کہ ایں عزیزاں جامِ شراب نوشند
آبِ زلال چبود؟ کوثر چہ کار دارد؟
اور یہ عزیز (عشاق) جہاں جامِ شراب پیتے ہیں وہاں آب حیات کیا اور (آبِ) کوثر کیا۔
در راہِ پاکپازاں، ایں حرف ہا چہ خیزد؟
بر فرقِ سرفرازاں، افسر چہ کار دارد؟
پاکبازوں کی راہ میں یہ الفاظ سے کیا اٹھتے ہیں (انکی بے سر و سامانی پر) کہ کامیاب لوگوں کے سر پر تاج کا کیا کام ہے۔
دائم تو اے عراقی، می گوئی ایں حکایت
با بوئے مشکِ معنی، عنبر چہ کار دارد؟
اے عراقی تو ہمیشہ ہی ایسی حکایتیں کہتا رہ، کہ تیرے کلام کے معنی میں جو خوشبو ہے اسکے آگے عنبر کی خوشبو کیا۔
متعلقہ تحاریر : فارسی شاعری,
فخر الدین عراقی
واہ جناب۔ کیا عمدہ کلام ہے۔ ترجمہ اور شئیر کرنے کیلیے شکریہ
ReplyDeleteسبحان اللہ۔ آپ کی کوششوں کا یہ اثر ہوا کہ آخری شعر کا لفظی نہیں تو معنوی ترجمہ کچھ کچھ سمجھ آہی گیا تھا۔۔
ReplyDeleteبہت عمدہ کلام ......ہو سکے تو شاہ نیاز بریلوی کا کلام بھی لکھئے گا
ReplyDelete.......... جیلانی ..........
بہت شکریہ آپ سب دوستوں کا۔ راشد صاحب، خوشی ہوئی یہ جان کر۔ جیلانی صاحب انشاءاللہ کوشش کرونگا۔
ReplyDeleteوالسلام
ماشاء اللہ
ReplyDelete